Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 120

سورة آل عمران

اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ تَسُؤۡہُمۡ ۫ وَ اِنۡ تُصِبۡکُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّفۡرَحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ ﴿۱۲۰﴾٪  3

If good touches you, it distresses them; but if harm strikes you, they rejoice at it. And if you are patient and fear Allah , their plot will not harm you at all. Indeed, Allah is encompassing of what they do.

تمہیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں ہاں! اگر بُرائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں ، تم اگر صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا ۔ اللہ تعالٰی نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُوْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّيَةٌ يَفْرَحُواْ بِهَا ... If a good befalls you, it grieves them, but if some evil overtakes you, they rejoice at it. This only emphasizes the severity of the enmity that the hypocrites feel against the believers. If the believers enjoy fertile years, victories, support and their numbers and following increase, the hypocrites become displeased. When the Muslims suffer a drought or their enemies gain the upper hand against them, by Allah's decree, just as occurred during the battle of Uhud, the hypocrites become pleased. Allah said to His believing servants, ... وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْيًا ... But if you remain patient and have Taqwa, not the least harm will their cunning do to you. Allah directs the believers to safety from the wickedness of evil people and the plots of the sinners, by recommending them to revert to patience and by having fear of Allah and trusting Him. ... إِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ Surely, Allah surrounds all that they do. Allah encompasses the enemies of the believers, all the while the believers have no power or strength except from Him. Whatever Allah wills, occurs, and whatever He does not will, does not occur. Nothing happens in His Kingdom except with His decision and according to His decrees. Verily, whoever relies on Allah, Allah shall suffice for him. Allah then mentions the story of Uhud, the defeat that He tested the believers with, His distinguishing the believers from the hypocrites and their patience.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

120۔ 1 اس میں منافقین کی شدید عداوت کا ذکر ہے جو انہیں مومنوں کے ساتھ تھی اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوش حالی میسر آتی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تائید و نصرت ملتی اور مسلمانوں کی تعداد و قوت میں اضافہ ہوتا تو منافقین کو بہت برا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے یا اللہ کی مشیت و مصلحت سے دشمن وقتی طور پر مسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ احد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے۔ مقصد بتلانے سے یہ ہے جن لوگوں کا یہ حال ہو، کیا وہ اس لائق ہوسکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انہیں اپنا راز دار اور دوست بنائیں ؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا (جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر ہے) ۔ اس لیے کہ وہ بھی مسلمانوں سے نفرت و عداوت رکھتے ان کی کامیابیوں سے ناخوش اور ان کی ناکامیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ 120۔ 2 یہ ان کے مکر و فریب سے بچنے کا طریقہ اور علاج ہے۔ گویا منافقین اور دیگر دشمنان اسلام و مسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لئے صبر اور تقویٰ نہایت ضروری ہے۔ اس صبر اور تقویٰ کے فقدان نے غیر مسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب اور وسائل کی فروانی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی اور زوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت (صبر کے دامن) سے محروم اور تقوے سے عاری ہوگئے جو مسلمانوں کی کامیابی کی کلید اور تائید الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] اگر تمہیں کوئی خوشی کا موقعہ میسر آئے تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ تو کیا پھر ایسے لوگوں کی دوستی سے پرہیز ہی بہتر نہیں ؟ بس تم صبر سے کام لو۔ ان کی سازشیں اور پراپیگنڈے تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ آیت نمبر ١١٨ سے لے کر ١٢٠ تک ٣ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے دوستی گانٹھنے کی ممانعت کے لیے جو وجوہات بیان فرمائی ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں۔ ١۔ وہ تمہارے درمیان، خرابی، بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے اور ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ تم میں تفرقہ و انتشار اور بغض و عداوت پیدا ہوجائے۔ ٢۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی ارضی و سماوی آفت اور مصیبت میں پھنس جاؤ۔ ٣۔ ان کے منہ سے کچھ بےاختیار ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو ان کے دلوں میں پکنے والے مواد کا پتہ دے جاتی ہیں۔ ٤۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو جبکہ وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ تم ان کی کتاب تورات پر ایمان لاتے ہو اور وہ تمہاری کتاب قرآن سے منکر ہیں اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ تم سے دشمنی رکھتے اور تم ان سے دوستی رکھتے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہائی جارہی ہے۔ ٥۔ اگر تمہیں کوئی بھلائی حاصل ہو تو اس سے وہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر تمہیں تکلیف پہنچے تو اندر ہی اندر پھولے نہیں سماتے۔ ٦۔ اگر وہ تم سے کوئی خیر خواہی کی بات بھی کریں تو وہ منافقت پر مبنی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر تمہیں ان سے دوستی نہ رکھنا چاہیئے اور راز بتانا تو بڑی دور کی بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَـسُؤْھُمْ ۡ۔۔ : اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ دشمنوں کے مکر و فریب اور ان کی چالوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تم صبر و استقلال اور تقویٰ سے کام لو، اگر یہ اصول اپنا لو گے تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” اکثر منافق بھی یہود میں تھے، اس واسطے ان کے ذکر کے ساتھ یہود کا ذکر بھی فرمایا۔ اب آگے غزوۂ احد کی باتیں مذکور ہیں، کیونکہ اس میں بھی مسلمانوں نے بعض کافروں کا کہنا مان لیا تھا اور لڑائی سے پھر چلے تھے اور منافقوں نے اپنے نفاق کی باتیں ظاہر کی تھیں۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The mentality of disbelievers has been further clarified by saying: إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ in the first part of verse 120 which has been translated as, &if something good happens to you, it annoys them and if something evil befalls you, they are delighted with it.& How can Muslims remain protected against the aftermath of sinister moves of the hypocrites and the deadly hostility of opponents? For this, a simple and effective prescription was suggested in: وَإِن تَصْبِرُ‌وا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّ‌كُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ﴿١٢٠﴾ And if you keep patience and fear Allah, their cunning shall not harm you at all. Surely, Allah is All-Encompassing of what they do. Sabr صبر and تقوی Taqwa: Panacea for Muslims The Holy Qur&an has prescribed Sabr (patience, endurance) and Taqwa (fear of Allah) as an effective measure against all hardships. This elemental teaching has been conveyed to Muslims not only here but also at many other places in the Qur&an. For instance, in the section that follows immediately, it has been said: بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُ‌وا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِ‌هِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَ‌بُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴿١٢٥﴾ Why not? If you stay patient and fear Allah and they come upon you in this heat of theirs, your Lord will reinforce you with five thousand of the angels having distinct marks. (3:125) Here, the promise of divine help has been made conditional upon Sabr and Taqwa-. In Sarah Yusuf, it has been said: إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ‌ Whoever fears Allah and keeps patience ... (12:90) Here too, prosperity and success have been tied with Sabr and Taqwa. Towards the end of this very Surah, Sabr is being proposed in the following words: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُ‌وا وَصَابِرُ‌وا وَرَ‌ابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٢٠٠﴾ O those who believe, be patient, be more patient than others, and guard your frontiers, and fear Allah so that you may be successful. (3:200) Once again, prosperity and success have been made dependent on Sabr and Taqwa. The two words, Sabr and Taqwa, though looking like a short title, are nevertheless very comprehensive. They contain within themselves a successful rule for all aspects of individual and collective life as well as public, government and military affairs. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said, as narrated by Sayyidna Abu Dharr (رض) عن ابی ذر قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انی لاعلم ایۃ لواخذ الناس بھا لکفتھم ۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ الایہ (رواہ احمد) I know a verse which, if people were to take to it, would suffice them. And that is: And whoever fears Allah, for him He shall make a way out (of the difficulties) - 65:2.

اس کافرانہ ذہنیت کی مزید توضیح یہ ہے کہ ان تمسسکم حسنۃ یعنی ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر تمہیں کوئی اچھی حالت پیش آجائے تو یہ ان لوگوں کو دکھ پہنچاتی ہے اور اگر تم پر کوئی بری حالت آپڑتی ہے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔ پھر منافقوں کے کید و مکر اور شدید مخالفین کے عناد اور مخالفت کے نتائج سے محفوظ رہنے کا آسان اور سہل الاصول نسخہ یہ بیان کیا گیا کہ (وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا ان اللہ بما یعملون محیط) اگر تم صبر اور تقوی اختیار کئے رہو تو تم کو ان کی چالیں ذرا بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گی۔ مسلمانوں کی فتح و کامیابی اور تمام مشکلات میں آسانی کا راز صبر اور تقوی کی دو صفتوں میں مضمر ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہر قسم کے مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے صبر وتقوی کو صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی ایک موثر علاج کی حیثیت سے بیان فرمایا، اسی رکوع کے بعد دوسرے رکوع میں ہے : بلی ان تصبروا و تتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملئکۃ مسومین۔ (٣: ١٢٥) اس میں امداد غیبی کا وعدہ انہی دو شرطوں یعنی صبر وتقوی پر موقوف رکھا گیا ہے، سورة یوسف میں فرمایا : انہ من یتق ویصبر۔ (١٢: ٩٠) اس میں بھی فلاح و کامیابی صبر وتقوی کے ساتھ وابستہ بتلائی گئی ہے، اسی سورة کے ختم پر صبر کی تلقین ان الفاظ میں کی جارہی ہے : یایھا الذین امنوا اصبروا و صابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ (٣: ٢٠٠) اس میں بھی فلاح و کامیابی کو صبر وتقوی پر معلق کیا گیا ہے۔ صبر وتقوی مختصر عنوان کے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ عوامی اور فوجی نظم و نسق کا ایک کامیاب ضابطہ بڑی جامعیت کے ساتھ آگیا۔ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : عن ابی ذر قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انی لاعلم ایۃ لواخذ الناس بھا لکفتھم ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا الایۃ۔ (٦٥: ٢) رواہ احمد) |" رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل اختیار کرلیں تو ان کے دین و دنیا کے لئے وہی کافی ہے وہ آیت یہ ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ یعنی جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں |"۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۝ ٠ ۡوَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۝ ٠ ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝ ١٢٠ ۧ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٠) اور اگر تم لوگوں کو فتح وغنیمت حاصل ہوجاتی ہے تو یہود اور منافقوں کو بہت ہی ناگوار گزرتا ہے اور اگر قحط سالی قتل و غارت گری اور شکست کا سامنا ہو تو اس سے یہودی خوش ہوتے ہیں اور اگر ان کی تکالیف پر تم استقلال سے کامل لو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو، تو پھر ان کی دشمنی اور کینہ کچھ نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ ان کی اس مخالفت اور ان کی دشمنی سے آگاہ ہے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٠ (اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ ز) ۔ اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہوجائے ‘ کہیں فتح نصیب ہوجائے تو ان کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ (وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا ط) ۔ اگر تمہیں کوئی گزند پہنچ جائے ‘ کہیں عارضی طور پر شکست ہوجائے ‘ جیسے احد میں ہوگئی تھی ‘ تو بڑے خوش ہوتے ہیں ‘ شادیانے بجاتے ہیں۔ (وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا ط) ۔ سورۃ البقرۃ میں صبر اور صلوٰۃ سے مدد لینے کی تلقین کی گئی تھی ‘ یہاں صلوٰۃ کی جگہ لفظ تقویٰ آگیا ہے کہ اگر تم یہ کرتے رہو گے تو پھر بالآخر ان کی ساری سازشیں ناکام ہوں گی۔ ( اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ) ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے دائرے سے اور اس کی کھینچی ہوئی حد سے آگے نہیں نکل سکتے۔ یہ اس کے اندر اندر اچھل کود کر رہے ہیں اور سازشیں کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں یہ ضمانت دے رہا ہے کہ یہ تمہیں کوئی مستقل نقصان نہیں پہنچا سکیں گے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:120) تمسسکم (باب ضرب۔ نصر) وہ تم کو چھوئے۔ وہ تم کو پہنچے۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ تسؤھم۔ وہ ان کو بری لگتی ہے۔ وہ ان کو ناخوش کرتی ہے مضارع واحد مؤنث غائب۔ ھم ضمیر جمع مذکر غائب۔ کید۔ مصدر اور اسم مصدر۔ اچھی تدبیر۔ بری تدبیر۔ مکرو فریب۔ چال۔ داؤ۔ محیط۔ اسم فاعل۔ احاطۃ۔ مصدر۔ حوط۔ مادہ۔ ہر طرف سے گھیر لینے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے دشمنوں کے مکرو فریب اور ان کی چالوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تم صبر و استقلال اور تقوی سے کام لو اگر یہ اصول اپنا لوگے تو وہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے (مدارک) شاہ صاحب فرماتے ہیں یکہ اکثر منا فق بھی یہودی میں تھے اس واسطے ان کے ذ کر کے ساتھ یہود کا ذکر بھی فرما دیا ابآگے جنگ احد کی باتیں مذکو رہیں کیونکہ اس میں بھی مسلما نوں اپنے نفاق کی باتیں ظاہر کی تھیں (موضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا……………تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ “ بارہا ہم تجربات کے تھپیڑے کھاتے ہیں ‘ مگر ہمیں ہوش نہیں آتی ‘ باربار ہم پر سازشوں اور تخریب کاریوں کا انکشاف ہوتا ہے ‘ جو مختلف بھیس بدل کر کی جاتی ہیں ‘ مگر ہم عبرت حاصل نہیں کرتے ‘ باربار ان دشمنوں کی زبان پر ایسی باتیں آجاتی ہیں جن سے ان کے دلی کینہ کا اظہار ہوتا ہے ‘ جسے مسلمانوں کی مسلسل محبت اور دوستی کے مساعی زائل نہ کرسکیں اور جسے مسلمانوں کی دینی رواداری بھی صاف نہ کرسکی ‘ لیکن ہم پھر بھی وہی کچھ کرتے ہیں اور ان کے لئے اپنے دل کھول دیتے ہیں ‘ ان میں سے دوست چن لیتے ہیں اپنی زندگی میں بھی اور اپنے نظام زندگی میں بھی ۔ اور ان لوگوں کے ساتھ ہماری رواداری اس حد تک پہنچ جاتی ہے یا ہماری روحانی شکست کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے نظریہ حیات میں بھی ان کے ساتھ مجاملت اور مداہنت کرتے ہیں اور اس رواداری یا روحانی شکست کی وجہ سے ان کے سامنے اپنے نظریہ حیات کے ذکر سے بھی ڈرتے ہیں ‘ ان کے ساتھ ہم اپنے نظام حیات میں بھی رواداری کرتے ہیں اور اسلامی نظریہ حیات کی اساس پر استوار نہیں کرتے ‘ ان کی خاطر ہم اپنی تاریخ میں بھی تحریف کرتے ہیں ‘ اپنے نشانات راہ ان کی خاطر مٹاتے ہیں تاکہ اس تاریخ کے بیان میں ان معرکوں کا ذکر نہ آجائے جن میں ہمارے اسلاف نے ان کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں ۔ یہی ذہنی شکست ہے جس کی وجہ سے ہم پر وہ عذاب نازل ہوتا ہے ‘ جو ہر اس قوم پر نازل ہوتا ہے جو اللہ کے امر سے سرتابی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں ‘ ہم ضعیف وناتواں ہوتے ہیں اور ہم شرمندہ اور نامراد ہوتے ہیں اور ہمیں وہ نقصان پہنچ جاتا ہے جس پر ہمارے دشمن خوش ہوتے ہیں اور ہم اس ناکامی اور خرابی سے دوچار ہوتے ہیں ‘ جس کی سازش وہ ہماری صفوں کے اندر کرتے ہیں ۔ لیکن دیکھو ‘ ہماری یہ کتاب ہمیں وہ طریقہ بتاتی ہے کہ کس طرح ہم ان دشمنوں سے جان بچائیں ‘ جس طرح اس کتاب نے یہ سبق پہلی جماعت اسلامی کو بھی سکھایا تھا ‘ کس طرح ہم ان ایذا رسانیوں سے بچیں گے ‘ کس طرح ہم اس کینہ سے محفوظ ہوں گے جو ہمارے خلاف ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے اور کبھی کبھار اس کی چنگاری ان کے منہ سے نکل جاتی ہے۔ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ……………” مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ‘ جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ ان پر حاوی ہے ۔ “ تو وہ طریقہ صبر اور عزم کا طریقہ ہے اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا طریقہ ہے ۔ (اگرچہ وہ بہت ہی طاقتور ہوں) اور ان کی مکاری اور سازشوں کے مقابلے میں جم جانے کا طریقہ ہے ۔ اگر وہ سازشوں اور خفیہ ریشہ دوانیوں کا طریقہ اپنائیں تو ہمارا طریقہ صبر اور اپنے نظریہ حیات پر پختگی سے جم جانے کا طریقہ ہوگا۔ بہہ جانے ‘ ختم ہوجانے اور دوسروں کے مقابلے میں ذلیل ہونے کا طریقہ نہیں ہوگا۔ نہ یہ کوئی صحیح پالیسی ہے کہ دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے یا ان کے متوقع شر و فساد کی وجہ سے ہم اپنے تمام نظریات یا بعض نظریات کو ترک کردیں ۔ دشمنان اسلام کے مقابلے میں وہ دوسرا طریق کار خدا خوفی کا طریق کار ہے ۔ صرف ایک اللہ سے ڈرنا اور صرف اس کی نگرانی کا احساس رکھنا ‘ تقویٰ اور اللہ خوفی ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسانی دل اپنے رب سے مربوط ہوجاتے ہیں ‘ ان کا تعلق صرف ان لوگوں سے ہوتا ہے جو اس اللہ کے نظام میں داخل ہوتے ہیں اور وہ صرف اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جب ایک دل ذات باری کی معرفت حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کے اندر سے اللہ کے سوا تمام دوسری قوتوں کا خوف دور ہوجاتا ہے اور جس قدر عزم پختہ ہوجاتا ہے اسی قدر اللہ سے یہ رابطہ مضبوط ہوتا جاتا ہے ۔ اس لئے وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا ۔ اور نہ ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں ۔ محض اپنی جان بچانے کے لئے یا دنیاوی عزت وناموس کمانے کے لئے ۔ مسلمانوں کے لئے یہی ایک راستہ ہے ‘ صبر وتقویٰ کا راستہ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینے کا راستہ اور اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے جب بھی تاریخ اسلام میں صرف ایک اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا اور اپنی پوری زندگیوں میں اسلامی نظام حیات اختیار کیا ‘ تو انہوں نے عزت ووقار کا مقام پایا ‘ وہ کامران رہے ‘ اور اللہ نے انہیں دشمنوں کی سازشوں سے بچایا ‘ ان کا کلمہ بلند ہوا ‘ اور اپنی تاریخ میں مسلمانوں نے جب بھی اپنے قدرتی اعداء کی رسی کو تھاما ‘ وہ اعداء جو ان کے نظریہ حیات کے مقابلے میں خفیہ اور اعلانیہ طور پر باغیانہ جدوجہد میں مصروف ہیں ‘ اور جب کبھی مسلمانوں نے ان اعداء کے مشوروں پر کان دھرا اور انہوں نے خفیہ طور پر یا ظاہری طور پر دوست بنایا اور انہیں اپنا معاون ‘ مشیر اور ماہر فن بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کی تقدیر میں شکست لکھ دی ‘ ان کے دشمنوں کو ان کی سرزمین میں قوت دی ‘ ایسے مسلمانوں کو ان کے مقابلے میں ذلیل کیا اور وہ نہایت ہی برے انجام تک پہنچتے رہے ۔ اسلامی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول اٹل ہے ۔ یہ اس کی ایسی سنت ہے جس میں کوئی تغیر ممکن نہیں ہے ‘ اور جو شخص اس کرہ ارض پر اللہ کی اس باربار دہرائے جانے والی سنت کا مشاہدہ نہیں کرتا تو اس کی آنکھیں صرف ذلت ‘ کمزوری اور توہین اور ناتوانی کے آثار ہی کا مشاہدہ کرسکیں گی ۔ اس جملے پر یہ سبق اختتام پذیر ہوتا ہے اور اس سورت کا حصہ اول بھی یہاں اختتام پذیر ہوجاتا ہے ۔ اہل کفر کے ساتھ معرکہ یہاں زوروں پر ہے اور اہل اسلام اور اہل کفر کے کیمپ یہاں آکر مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ہیں ۔ اس سبق کو ختم کرنے سے پہلے ایک دوسری حقیقت بھی نوٹ کرلینے کے قابل ہے ۔ وہ یہ کہ اسلام اپنے خالص اور کھلے دشمنوں کے ساتھ بھی پوری رواداری برتتا ہے وہ ابھی اہل اسلام کو صرف یہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ اہل کفر کے ساتھ خفیہ دوستی نہ رکھیں لیکن وہ اہل اسلام کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ کفار کے ساتھ دھوکہ کریں ‘ ان کے ساتھ کینہ رکھیں ‘ یا ان سے نفرت کریں یا ان کے خلاف مکاری اور سازشوں کا اسلوب اختیار کریں ۔ اسلام صرف انہیں یہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائیں اور اسلامی اتحاد کا دفاع کریں اور اسلامی تشخص کو قائم رکھنے کی تدبیریں کریں یعنی اسلام نے صرف انہیں خطرے سے آگاہ کیا ‘ اپنے دفاع کی طرف انہیں متوجہ کیا اور وہ خطرہ انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھا ۔ اور اس میں ان کے تمام دشمن شریک تھے ۔ رہے اہل اسلام تو وہ اسلامی رواداری کے مطابق دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ‘ لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ پاکیزگی اور صفائی پر مبنی ہوتا ہے ‘ وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی سے اور محبت کرتے ہوئے ملتے ہیں ‘ وہ اپنے آپ کو سازشوں سے بچاتے ہیں مگر خود کسی کے خلاف سازشیں نہیں کرتے ‘ وہ دوسروں کے کینہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں لیکن خود ان کے دل میں کسی کے ساتھ کینہ نہیں ہوتا ‘ الا یہ کہ دوسرے ان کے دین اور نظام حیات کے خلاف بغاوت اور دشمنی کررہے ہوں ‘ وہ ان کے نظریہ حیات میں فتنہ انگیزی کررہے ہوں ‘ اور لوگوں کو اللہ کے صراط مستقیم پر آنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہوں ‘ اگر ایسے حالات ہوں تو پھر مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایسے جنگجو دشمنوں کے ساتھ برسرپیکار ہوں ‘ تاکہ فتنے کو روکا جائے اور ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو راہ خدا میں کھڑی کردی گئی ہوں ۔ اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے سد راہ ہوں ‘ ہاں ایسے لوگوں کے ساتھ جہاد بھی جہاد فی سبیل اللہ ہوگا ۔ صرف ذاتی مقاصد یا ذاتی انتقام کے لئے نہ ہوگا ‘ یہ جہاد پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے ہوگا ‘ صرف ان لوگوں کی ذات کے خلاف نہ ہوگا ‘ جنہوں نے اسلام کی راہ کو روکا ۔ اور یہ اس لئے ہوگا کہ اسلامی نظام زندگی کا پیغام جو خیر ہے لوگوں تک بےروک ٹوک پہنچ سکے ۔ اس لئے جہاد و قتال نہ ہوگا کہ مجاہدین دنیا میں تغلب حاصل کریں ‘ انہیں اس کرہ ارض پر سر بلندی نصیب ہو اور وہ لوگوں کا استحصال کریں ‘ بلکہ مقصد صرف یہ ہوگا کہ اسلام کا نظام زندگی قائم کیا جائے جس کے عادلانہ سایہ تلے سب لوگ انصاف کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ‘ یہ جہاد کسی قوم کا علم بلند کرنے کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی دنیا میں امپریلزم کے قیام کے لئے شروع کیا جاتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی تائید قرآن وسنت کی متعدد نصوص سے ہوتی ہے ‘ پہلی جماعت اسلامی کی تاریخ اس کی ترجمان ہے ۔ اور یہ جماعت تو بہرحال اس دنیا میں ان نصوص کے مطابق زندگی گزاررہی تھی ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی نظام زندگی ‘ بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ جو لوگ اسلامی نظام کی راہ روکتے ہیں وہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں ‘ اور اسلامی نظام کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کا پیچھا کرے اور ایسے لوگوں سے انسانیت قیادت چھین لے ‘ اور یہی وہ فریضہ ہے جس کے لئے اسلامی جماعت اور خیر امت کو اٹھایا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا (اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیّءَۃٌ یَّفْرَحُوْابِھَا) (کہ اگر تم کو اچھی حالت پیش آجاتی ہے اس سے وہ رنجیدہ ہوتے ہیں اور اگر تم کو کوئی ناگواری کی حالت پیش آجائے تو وہ خوش ہوتے ہیں) کیا ایسے لوگ محبت کرنے کے قابل ہیں ؟ تفسیر درمنثور صفحہ ٦٦: ج ٢ میں حضرت ابن عباس (رض) سے آیت (یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ ) کا سبب نزول یہ نقل کیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے تھے جن کا زمانہ جاہلیت میں یہود مدینہ سے پڑوسی ہونے کی وجہ سے تعلق تھا اور بعض مواقع میں آپس میں ایک دوسرے کے حلیف بھی بن جاتے تھے اس پرانے تعلق کی وجہ سے قبول اسلام کے بعد بھی ان مسلمانوں نے یہودیوں سے اپنا تعلق جاری رکھا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے تعلق سے منع فرمایا جس سے دشمن راز دار بن جائے (تجارت اور معاملات کی حدتک تو تعلق رکھنے کی گنجائش ہے لیکن ایسے تعلق کی کوئی گنجائش نہیں جس سے مسلمانوں کے راز دشمنوں پر کھلیں اور مسلمانوں کی اندرونی حالت سے دشمن باخبر ہوجائیں۔ ) آیت کے سبب نزول سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کے پاس بعض مسلمانوں کا آنا جانا تھا اس پر تنبیہ فرمائی اور یہودیوں کا ظاہرباطن سب بتادیا چونکہ ہر زمانے کے کافروں کا مسلمانوں کے بارے میں ایک ہی حال ہے اس لیے ہم نے دور حاضر کے مسلمانوں کو بھی تنبیہ کردی اور بتادیا کہ کسی بھی کافر کو راز دار نہ بنائیں اور مسلمانوں کے بھیدان کو نہ پہنچ جائیں۔ یہودیوں کی مکاریاں اور دسیسہ کاریاں ابھی تک جاری ہیں، گو احوال اور ظروف کے اعتبار سے کچھ بدل گئی ہیں نصاریٰ کی حکومتوں میں بھی یہودیوں کا بہت دخل ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کے افراد کو بھی استعمال کرتے ہیں اور نصرانی حکومتوں میں بھی ان کی خفیہ سازشیں اور پوشیدہ مکاریاں جاری ہیں جو ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ یہ جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفار اپنی تدبیروں میں مسلمانوں پر کیوں غالب ہیں اس کا جواب آیت کے اخیر میں دے دیا جو ہمیشہ کے لیے ناطق فیصلہ ہے اللہ جل شانہٗ نے فرمایا : (وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْءًا) (کہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی مکاری تمہیں کچھ بھی نقصان نہ دے گی) مسلمان صبر اور تقویٰ اختیار کریں، دین پر جمیں، گناہوں سے بچیں تو دشمن کی مکاریاں کچھ بھی ضرر نہ دیں گی۔ ہتھیاروں کا انتظام کرنا جیسا کہ دشمن کے دفاع کا سبب ہے اسی طرح سے صبر وتقویٰ بھی دفاع دشمن کا ایک ہتھیار ہے بلکہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے اہل ایمان غافل رہتے ہیں آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ) (کہ بلاشبہ اللہ کو تمہارے دشمنوں کا پوری طرح علم ہے) ۔ وہ ان کو اپنی حکمت مشیت و ارادہ کے مطابق سزا دے گا۔ کافر تمہارے بگاڑ میں کبھی کوتاہی نہ کریں گے : کافروں کے میل ملاپ سے جو منع فرمایا، اور ان کو راز دار بنانے کی جو ممانعت فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑی عبرت اور موعظت اور نصیحت ہے۔ کافروں کو دوست بناتے ہیں اور قرآن مجید میں جو واضح طور پر فرمایا ہے (لاَ یَأْلُوْنَکُمْ ) اس سے غافل ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ تمہارے فساد اور بگاڑ میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں گے۔ یہود و نصاریٰ اور تمام مشرکین حتیٰ کہ وہ لوگ جو اسلام کے مدعی ہیں لیکن اپنے عقائد کے اعتبار سے کافر ہیں (جن میں روافض پیش پیش ہیں) یہ سب اسلام اور اہل اسلام کے پورے اور پکے دشمن ہیں۔ ان سے دوستی کرکے اچھی امید رکھنا بیوقوفی ہے، اسلام کے عہد اول سے ہی دشمنان اسلام اپنی مکاریوں اور تدبیروں سے کبھی غافل نہیں ہوئے اسلام کو بڑھتا دیکھتے ہیں تو جلتے ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو اسلام مکہ سے آگے نہ بڑھتا، لیکن یہ جلتے رہے اسلام بڑھتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اللّٰہِ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) دشمن تو تباہ کرنے کی فکر میں ہے اور مسلمان ہیں کہ ان سے دوستی کرنے ہی کو ہنر سمجھ رہے ہیں، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

184 خطاب مسلمانوں سے ہے اور اس میں اسلام کے خلاف منافقین کے بغض وحسد اور کینہ پروری کا مزید بیان ہے یعنی ان کی عداوت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ تمہاری خوشحالی اور تمہارنے نفع کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتے اگر تمہیں دشمنوں پر فتح حاصل ہوجائے یا تم پر خوشحالی کا دور آجائے تو اس سے ان کے دل رنجیدہ ہوجاتے ہیں لیکن اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے یا تم مشقت میں پڑجاؤ تو اس سے انہیں بہت خوشی ہوتی ہے ان تمام آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ ایمان والوں کے خلاف جن لوگوں کی کینہ پروری اور ان کے بغض وعداوت کا یہ حال ہو وہ ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ان کو اپنا راز دار بنایا جائے خصوصاً جب کہ جہاد کا معاملہ درپیش ہو جس پر مسلمانوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کا مدار ہے۔ والمعنی فی الایۃ ان من کانت ھذہ صفۃ من شدۃ العداوۃ والحقد والفرح بنزول الشدائد علی المؤمنین لم یکن اھلا لان یتخذ بطانۃ لا سیما فی ھذا الامر الجسیم من الجھاد الذی ھو ملاک الدنیا والاخرۃ (قرطبی ص 183 ج 4) ۔ 185 یہاں مسلمانوں کو صبر وتقویٰ کی تلقین فرمائی۔ فرمایا کہ دشمنوں کے مکر و فریب اور ان کی چالوں سے محفوظ رہنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ تم صبرواستقلال سے کام لو۔ ان کی طرف تمہیں جو تکلیفیں دی جاتی ہیں انہیں برداشت کرو۔ دین اسلام پر قائم رہو۔ اور خدا کی اطاعت کو اپنا شعار بناؤ۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور اس کی نافرمانی سے بچو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی پرفریب چالوں سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ان چند کلمات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد میں کامیابی حاصل کرنے اور دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رہنے کے لیے نہایت اختصار کے ساتھ دو زریں اصول بیان فرمائے ہیں ایک استقلال دوم خدا کا خوف ھذا تعلیم من اللہ و ارشاد الی ان یستعان علی کید العدو بالصبر والتقوی (مدارک ص 136 ج 1) ۔ اِنَّ اللہَ بِمَایَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۔ منافقین جو کر رہے ہیں وہ اللہ کے علم میں ہے اس لیے وہ اپنے کرتوتوں کی سزا ضرور پائیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو تسلی دی ہے اور منافقین کو عذاب اخروی کی تخویف فرمائی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 ہاں ! اے مسلمانو ! سن لو ! تم ایسے ہو کہ تم تو ان کافروں سے اپنی قرابت اور پرانے دوستانے کی وجہ سے محبت کا برتائو کرتے ہو اور وہ تم سے بالکل محبت نہیں کرتے حالانکہ تم تمام کتب سماویہ پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھتے ہو اور وہ تمہاری کتاب پر باوجود اس کے بھی ایمان نہیں رکھتے اور یہ ایسے منافق ہیں کہ جب تم سے ملتے ہیں اور ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب تنہا ہوتے ہیں اور تم سے الگ ہوجاتے ہیں تو تم پر غصے اور جلن کے مارے اپنی انگلیاں کاٹے ڈالتے ہیں اور چبا چبا جاتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ تم اپنے غصہ میں جل مرو اور مارے غصے کے مر جائو بیشک اللہ تعالیٰ سینوں کی باتوں اور دل کے رازوں کو خوب جانتا ہے۔ اے مسلمانو ! اگر تم کو کچھ بھلائی پہنچتی ہے اور کوئی اچھی حالت تم کو پیش آتی ہے تو بھلائی ان کے لئے رنجدہ ہوتی ہے اور ان کے لئے موجب حزن ہوتی ہے اور اگر سو اتفاق سے تم کو کوئی ناگوار حالت پیش آجاتی ہے اور تم کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس مصیبت سے یہ بہت خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر و استقلال کا شیوہ اختیار کرو اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے پابند رہو تو ان لوگوں کی کوئی شرارت آمیز تدبیر تم کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گی اور تمہارے خلاف ان کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوگی یقین جانو ! کہ جو کارروائیاں یہ لوگ کرتے ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ کے علم نے گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم ان سب کو حاوی اور احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تنبیہہ کی گئی ہے اور دونوں کے برتائو کا فرق بیان کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری یہ حالت ہے کہ تم ان سے محبت کا برتائو کرتے ہو اور قرابت داری یا اہم تعلقات کی رعایت کرتے ہو اور ان کی خباثت کا یہ حال ہے کہ تم سے ذرا محبت نہیں کرتے اور نہ کوئی حجت آمیز برتائو کرتے ہیں دل سے بھی محبت نہیں اور برتائو میں بھی ذرا لحاظ نہیں۔ پھر تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تم تمام کتب سماویہ پر ایمان رکھتے ہو جن کتابوں کا ذکر قرآن میں آگیا ہے ان پر تو تفصیلی اعتقاد رکھتے ہو اور جن کا ذکر نہیں آیا ان پر اجمالی ایمان رکھتے ہو اور ان بدبختوں کی یہ حالت ہے کہ یہ نہ تمہارے نبی کو نبی مانتے ہیں اور نہ تمہارے قرآن کو آسمانی کتاب مانتے ہیں اور اس معاملے میں ذرا رواداری کرنے کو تیار نہیں۔ پھر ان کے نفاق کا یہ عالم ہے کہ جب تم سے ملتے ہیں تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں تم سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے نبی اور تمہاری کتاب پر ایمان لے آئے۔ حالانکہ ان کے دل میں اپنی کتاب اور اپنا رسول ہوتا ہے اور جب تنہائی میں اپنی ٹولی کے ساتھ ہوتے ہیں تو تمہاری ترقی اور تمہاری برتری پر جلے مرتے ہیں اور اپنی انگلیاں دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ بہرحال آپ کہہ دیجئے کہ تم اپنے غصہ میں آپ ہی مر رہو اللہ تعالیٰ کو جو ترقی دینی ہے اور اسلام کو جس قدر سربلند کرنا ہے وہ کر کے رہے گا تمہارے جلنے سے کیا ہوتا ہے اور چونکہ اللہ سینوں کی باتوں اور دل کے بھیدوں کو جانتا ہے اس لئے ان سب سے تم کو آگاہ کردیتا ہے کہ یہ تمہارے ایسے دشمن ہیں پھر ان کی یہ حالت ہے کہ تم کو تھوڑی سی بھلائی بھی میسر ہوجاتی ہے تو وہ بھی ان کے لئے رنج و غم کا موجب ہوتی ہے اور تم کو تھوڑی سی تکلیف بھی پہنچ جاتی ہے تو ان کے ہاں شادیانے بجنے لگتے ہیں مگر ہم تم کو بتاتے ہیں کہ ان کی مخالفانہ تدابیر تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور جادۂ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھو اور پرہیزگاری اور تقویٰ کی راہ پر قائم رہو۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں کہ ان کے خوگر اگر رہو گے تو ان کی شرارتیں اور ریشہ دوانیاں تم پر ہرگز اثر انداز نہ ہوں گی اور بھلا ان کی مخالفانہ کارروائیاں کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہیں جبکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علمی میں ہیں اور ان کی کوئی تدبیر اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان آیات میں یہود کا ذکر ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جب پڑھے لکھے لوگوں کا یہ عالم تھا تو عوام دشمنی کا کیا کہنا ہے۔ بہرحال ہم عرض کرچکے ہیں کہ مدینہ میں سازشوں کا جو جال بچھا ہوا تھا اس میں کم و بیش سب ہی غیر مسلم شریک تھے کوئی کم اور کوئی زیادہ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اکثر منافق بھی یہود میں تھے اس واسطے ان کے ذکر کے ساتھ ان کا بھی ذکر فرمایا۔ اب آگے جنگ احد کی باتیں مذکور کیں کہ اس میں بھی مسلمانوں نے بعضے کافروں کا کہا مان لیا تھا اور لڑائی سے پھر چلے تھے اور منافقوں نے اپنے نفاق کی باتیں ظاہر کی تھیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کا تعلق یہود سے ہے ان یہود میں بھی چونکہ کچھ لوگ منافق تھے اس لئے حضرت شاہ صاحب (رح) نے ان کی طرف بھی اشارہ کردیا۔ مذکورہ بالا آیات میں اسلام کے دشمنوں کی ذہنیت کا اظہار فرمایا تھا اور ان کی عداوت اور بغض اور غصہ کے مارے انگلیوں کا کاٹنا اور ان کا نفاق، اور دشمنی کا منہ سے ظاہر ہونا اور سینے میں بڑی بڑی تمنائوں کا پوشیدہ ہونا۔ مسلمانوں سے محبت نہ کرنا اور محبت آمیز برتائو بھی کرنے پر آمادہ نہ ہونا اور قرآن کو آسمانی کتاب تسلیم نہ کرنا اور مسلمانوں کے معمولی فائدے کو بھی برداشت نہ کرنا خواہ وہ اسلام کی ترقی ہو یا مال غنیمت کا حصول یا کسی علاقہ میں فتح کا حاصل ہونا ہو۔ غرض ہر بھلائی پر جلنا اور مسلمانوں کے نقصان پر خوش ہونا اور فخر و مباہات کا اظہار کرنا یہ سب باتیں تفصیل سے بیان فرمائی تھیں اور آخر میں مسلمانوں کو اطمینان دلایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اگر تم برداشت اور استقلال سے کام لیتے رہے اور کسی حال میں بھی تقویے کا دامن نہ چھوڑا تو کفار کی اسلام دشمنی سے تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور ان کی تمام سازشیں اور مکاریاں بیکار کردی جائیں گی۔ اب آگے ان سب چیزوں کا عملی ثبوت واقعات کی روشنی میں بیان فرماتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ دوست کی دوستی اور دشمنوں کی دشمنی کا حقیقی امتحان میدان جنگ اور مصائب و آلام ہی کے وقت ہوتا ہے مصیبت و پریشانی کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ دوست کون ہے اور دشمن کون ہے، اپنا کون ہے اور پرایا کون ہے اور ایک دوست دشمن کی شناخت کیا بلکہ خود ایک مسلمان کے اسلام اور اس کے خلوص کا امتحان بھی ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے کہ ایک مسلمان میدان جنگ میں اور مصائب و آلام میں کہاں تک صبر و استقلال اور تقوے کا پابند رہتا ہے اس لئے آگے چند لڑائیوں کا ذکر فرماتے ہیں۔ ان لڑائیوں میں دشمنوں کی عداوتیں نمایاں ہوگئیں اور جن مواقعہ میں مسلمانوں سے کوتاہیاں ہوئیں اور صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور حاصل شدہ فتح نے شکست کی صورت اختیار کرلی اور جس جنگ میں مسلمانوں نے ہمت و استقلال سے کام لیا اس میں اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل رہی اور باوجود اسباب کی بےسروسامانی اور تعداد کی قلت کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے شاندار فتح حاصل ہوئی۔ چونکہ غزوۂ احد میں ایسے واقعات پیش آئے تھے جن سے دشمنوں کی عداوتیں ظاہر ہوئی تھیں اور مسلمانوں سے بھی بعض کوتاہیاں سرزد ہوئی تھیں اس لئے غزوۂ احد کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور بیچ میں تھوڑا سا ذکر غزوۂ بدر کا بھی آگیا ہے اور آخر میں بدر صغریٰ یعنی غزوۂ حمر الاسد پر اس سلسلے کو ختم کردیا ہے۔ چناچہ آگے ابتدائی آیتوں میں غزوۂ احد کا ذکر ہے۔ غزوہ احد 3 ھ شوال کے مہینے میں واقع ہوا ہے آل عمران کے ابتدائی حصے میں ہم اس شاندار فتح کا ذکر کرچکے ہیں جو مسلمانوں کو ایک سال پہلے بدر کے میدان میں حاصل ہوچکی تھی۔ چونکہ اس لڑائی میں ستر کافر مارے گئے تھے اور ستر گرفتار ہوئے تھے اور یہ تعداد اس زمانہ میں بہت سمجھی جاتی تھی اگرچہ بعد میں قیدیوں کو رہا بھی کردیا گیا تھا جس کی تفصیل انشاء اللہ سورة انفال میں آجائے گی مگر اس فتح نے تمام عرب میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی تھی اور کافر اس دن سے اس فکر میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح اپنی شکست کے داغ کو دھوئیں۔ چنانچہ ایک سال کے بعد کفار نے ایک بھاری جمعیت کے ساتھ جس کی تعداد تین ہزار تھی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کی اور مدینہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر کوہ احد کے دامن میں اپنا لشکر جا اتارا تین ہزار آدمی اور اشعار پڑھ پڑھ کر غیرت دلانے والی عورتیں بھی اس لشکر کے ساتھ تھیں اور بڑا ساز و سامان ان کے ہمراہ تھا۔ یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ مدینہ سے نکل کر حملہ کرنا بہتر ہوگا یا مدینہ میں رہ کر ان کے حملہ کی مدافعت مفید ہوگی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر ان کی مدافعت اچھی طرح ہو سکے گی۔ اس موقعہ پر عبد اللہ بن ابی منافق سے بھی رائے لی گئی اس کی رائے بھی یہی ہوئی کہ مدینہ کی سرحد پر مورچہ قائم کرنا چاہئے اور مدینہ سے باہر نہیں جانا چاہئے اکثر انصار کی بھی یہی رائے تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اپنا خواب اور اس کی تعبیر بھی بیان فرمائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے خواب میں ایک بیل دیکھا اور اس کی تعبیر میں نے خیر اور کامیابی سمجھی اور میں نے اپنی تلوار پر کوئی عیب محسوس کیا اور اس سے میں نے ہزیمت سمجھی پھر میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ذرہ میں داخل کیا ہے اور زرہ کو ڈھال بنایا اور اس کی تعبیر میں نے مدینہ کو سمجھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود بعض جوشیلے نوجوان مدینہ میں رہنے پر رضامند نہ ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہیں پہنچ کر ان پر حملہ کرنا چاہئے۔ غرض مسلمانوں کے شوق شہادت کو دیکھتے ہوئے سرکار مکان میں تشریف لے گئے اور جنگی وردی پہن لی اور زرہ وغیرہ زیب بدن فرما لی اور باہر تشریف لائے اس وقت بعض لوگوں نے درخواست کی کہ اگر آپ فرمائیں تو ہم لوگ اپنا مورچہ مدینہ ہی کو مقرر کرلیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ایک نبی کو یہ زیبا نہیں کہ جب وہ ہتھیار نکالے اور جنگی وردی پہن لے تو پھر بغیر جنگ کئے اپنے کپڑے اور ہتھیار اتار دے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب تشریف لے چلے تو آپ کے ہمراہ ایک ہزار مسلمان تھے اگرچہ ان نوجوانوں کے جوش کو بعض سنجیدہ حضرات نے پسند نہیں کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منشا کے خلاف مدینہ سے نکلنے کو اچھا نہیں سمجھا۔ لیکن بہرحال جب ایک امر طے ہوگیا تو سب نے اس کی تعمیل کی۔ البتہ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق اپنے ساتھیوں کو لے کر لوٹ آیا اور کہنے لگا جب ہماری بات نہیں مانی گئی تو ہم اس جنگ میں شریک نہیں ہوتے بعض لوگوں نے سمجھایا تو اس نے جواب دیا یہ کوئی جنگ نہیں ہے اگر ہم سمجھتے کہ واقعی جنگ ہے تو ہم تمہارے ساتھ چلتے کم و بیش تین سو آدمی جو اس کی ٹولی میں تھے وہ بھی اس کے ساتھ واپس ہوگئے اور اس طرح کل سات سو آدمی میدان جنگ میں پہنچے۔ عبد اللہ بن ابی کی پارٹی کو دیکھ کردو اور قبیلے بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے مسلمانوں کی طبیعت بھی بیٹھنے لگی اور ان کے دلوں میں کچھ وسوسے گزرنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو سنبھال لیا اور ان کی ہمت بڑھا دی اور وہ خدا کے فضل و کرم سے قائم رہے اسی سنبھال کو فرمایا ہے۔ واللہ ولیھما اور عتاب آمیز بشارت فرمائی جیسا کہ ہم آگے عرض کریں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان جنگ میں پہنچ کر صفیں ترتیب دیں اور عبد اللہ بن جبیر کی سرکردگی میں پچاس تیر انداز پہاڑ کی گھاٹی میں مقرر کردیئے تاکہ دشمن اگر پیچھے سے حملہ کرے تو گھاٹی سے تیر انداز دشمن کا مقابلہ کریں اور ان کو حملہ نہ کرنے دیں اور آپ نے ان کو ہدایت کی کہ تم اس گھاٹی سے نہ نکلنا اور یہیں جمے رہنا اگر تمہارا دشمن بھاگ بھی جائے تو اس کا پیچھا نہ کرنا اور اس گھاٹی سے نہ ہٹنا لیکن حسن اتفاق سے جب پہلی مرتبہ مسلمانوں کو فتح ہوئی اور کافروں کے پیر اکھڑ گئے تو ان پچاس آدمیوں میں گھاٹی سے نکلنے نہ نکلنے پر اختلاف ہوگیا بعض لوگوں نے کہا مسلمانوں کو فتح ہوگئی اب یہاں بیٹھنا بیکار ہے بعض نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک ہم کو حکم نہ دیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہئے۔ غرض اس اختلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے بارہ آدمیوں کے سب گھاٹی سے باہر نکل آئے بھاگتے ہوئے دشمن نے گھاٹی کو جب خالی دیکھا تو وہ گھاٹی کی طرف سے پلٹ پڑا اور اچانک مسلمانوں کو گھیر لیا اور جنگ کا پاسہ بالکل پلٹ گیا اور جو فتح مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی وہ شکست میں تبدیل ہوگئی اور تھوڑی سی کوتاہی سے بنا بنایا کام بگڑ گیا۔ اس جنگ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی گزند پہنچا اور مسلمان بھی بکثرت شہید ہوئے مسلمانوں کی فوج میں ابتری پھیل گئی کسی نے یہ خبر مشہور کردی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے۔ یہ غلط خبر مدینہ پہنچی تو مدینہ میں اضطراب اور بےچینی پیدا ہوگئی۔ غرض انہی واقعات کی آگے کی آیات میں تفصیل ہے چند آیتوں میں جنگ بدر کے بعض واقعات ہیں ورنہ تین چار رکوع تک غزوۂ احد کے واقعات مذکور ہیں اور جیسا کہ قرآن کا قاعدہ ہے کہ جو بات مناسب ہوتی ہے اس کو بھی بیان کردیتا ہے اسی طرح یہاں بھی غزوۂ احد کے بیان میں بعض دوسرے نصائح اور مواعظ کا بھی تذکرہ آگیا ہے اور شکست کی مصلحتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور عبد اللہ بن ابی کی پارٹی کے علاوہ جو منافق مسلمانوں میں شامل تھے ان کی بھی معاندانہ حرکات کا بیان ہے ہم انشاء اللہ تفسیر میں ہر چیز کو بیان کرتے رہیں گے۔ (تسہیل)