Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 126

سورة آل عمران

وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی لَکُمۡ وَ لِتَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱۲۶﴾ۙ

And Allah made it not except as [a sign of] good tidings for you and to reassure your hearts thereby. And victory is not except from Allah , the Exalted in Might, the Wise -

اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمینانِ قلب کے لئے ہے ، ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب و حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَيِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ... Allah made it not but as a message of good news for you and as an assurance to your hearts, This Ayah means, "Allah sent down angels and told you about their descent to encourage you and to comfort and reassure your hearts. You should know that victory only comes from Allah and that if He willed, He would have defeated your enemy without you having to fight them." For instance, Allah said after commanding the believers to fight, ذلِكَ وَلَوْ يَشَأء اللَّهُ لاَنْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـكِن لّيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَـلَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ But if it had been Allah's will, He Himself could certainly have punished them (without you). But (He lets you fight) in order to test some of you with others. But those who are killed in the way of Allah, He will never let their deeds be lost. He will guide them and set right their state. And admit them to Paradise which He has made known to them. (47:4-6) This is why Allah said here, وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَيِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ Allah made it not but as a message of good news for you and as an assurance to your hearts. And there is no victory except from Allah, the All-Mighty, the All-Wise. This Ayah means, "Allah is the Almighty Whose power can never be undermined, and He has the perfect wisdom in His decrees and in all His decisions." Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] میدان بدر میں اللہ نے جو نزول ملائکہ کی تمہیں خوشخبری دی تھی وہ تو محض اس لیے تھی کہ تمہارے دل مضبوط ہوجائیں اور تم پورے وثوق کے ساتھ جم کر لڑائی کے میدان میں اترو اور فرشتوں پر ہی کیا منحصر ہے مدد کی جو بھی صورت ہو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ چناچہ بدر کے میدان میں اللہ نے چار طرح سے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی۔ مثلاً (١) اللہ نے ہوا کا رخ کفار کے لشکر کی طرف موڑ دیا اور ریت نے اڑ اڑ کر ان کے لشکر کو بدحال بنادیا۔ (٢) بارش کا نزول جس سے کفار کے پڑاؤ میں تو پھسلن اور دلدل مچ گئی۔ جبکہ مسلمانوں کے پڑاؤ میں ریت جم کر بیٹھ گئی۔ نیز انہیں استعمال کے لیے وافر پانی میسر آگیا۔ (٣) فرشتوں کا نزول چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے بدر کے دن فرمایا : یہ جبریل آن پہنچے اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے، لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے && (بخاری، کتاب المغازی، باب شہود الملائکہ بدرا) نیز حضرت رفاعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جبریل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگے : آپ اہل بدر کو کیسا سمجھتے ہیں ؟ && آپ نے جواب دیا : && سب مسلمانوں سے افضل && یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا : جبریل کہنے لگے : اسی طرح وہ فرشتے جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں && (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) اور (٤) مسلمانوں کی مدد کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ کفار کو مسلمان مجاہدین کی تعداد اصل تعداد سے دوگنی نظر آنے لگی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝ ١٢٦ ۙ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا طمن الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] ( ط م ن ) الطمانینۃ والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٦۔ ١٢٧) اور اللہ تعالیٰ نے اس کمک کا وعدہ محض تمہاری مدد اور سکینت کے لیے کیا ہے اور فرشتوں سے امداد بھی منجانب اللہ ہے اور جو اس ذات پر ایمان نہ لائے، اسے سزا دینے میں غالب اور حکیم ہے جس کی چاہے مدد فرمائے یا یہ کہ احد کے دن جو واقعہ تمہیں پیش آیا، اس میں بہت سے حکمت والے پہلو ہیں اور یہ مدد اسی لیے نازل کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کفار مکہ میں سے ایک جماعت کا بالکل خاتمہ کردے اور ایک جماعت کو شکست دے دے، پھر وہ کفار (فتح) دولت اور غنیمت سے مایوس ہو کر واپس ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٦ (وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی لَکُمْ ) (وَلِتَطْمَءِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ ط) ( وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِ یْزِ الْحَکِیْمِ ) یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے طور پر تمہارے دلوں کے اطمینان کے لیے تمہیں بتادیا گیا ہے ‘ ورنہ اللہ فرشتوں کو بھیجے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا ہے ‘ وہ کُن فیکون کی شان رکھتا ہے۔ تمہیں یہ بشارت تمہاری طبع بشری کے حوالے سے دی گئی ہے کہ اگر تین ہزار کی تعداد میں دشمن سامنے ہوا تو تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے اتر آئیں گے ‘ اور اگر وہ فوری طور پر حملہ آور ہوگئے تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیج دیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

وما جعلہ اللہ۔ میں ہ ضمیر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے اتارنے کے ذریعہ سے مسلمانوں کی امداد کے امر کے متعلق ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم نے اسلامی تصور حیات میں مشیئت الٰہی کی کارفرمائی پر بہت زور دیا ہے ۔ اور اسے ہر شک وشبہ سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کا باربار ذکر کیا ہے کہ دنیاوی اسباب کسی صورت میں موثر نہیں ہوتے ۔ اللہ کی قدرت اور مومن کے دل و دماغ کے درمیان ایک خاص رابطہ ہوجاتا ہے ۔ اللہ اور بندے کے درمیان حائل پردے اٹھ جاتے ہیں ۔ اللہ اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق قائم ہوجاتا ہے اور اس میں کبھی کوئی رکاوٹ قائم نہیں ہوتی ۔ جس طرح عالم موجودات میں اور عالم حقائق میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس قسم کی ہدایات بار بار دہرائی جاتی ہیں ‘ مختلف اسالیب میں ان کی تاکید کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے دل میں یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھ جاتی ہے ‘ وہ اس حقیقت کا ایک عجیب گہرا ‘ روشن اور سنجیدہ شعور رکھتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی اس کائنات کے تمام امور میں فاعل اور مؤثر ہے ‘ انہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور ہیں کہ وہ اسباب ووسائل فراہم کریں ‘ جدوجہد کریں اور ہر کام کے سلسلے میں اپنی سی کوشش کریں ‘ لیکن اس حقیقت کا بھی انہیں پختہ شعور ہو کہ ہوگا وہی جو اللہ کی مشیئت چاہے لیکن اس پختہ یقین کے ساتھ ساتھ وہ اطاعت کرتے ہیں اور شعوری توازن کے ساتھ ہر وقت وہ متحرک رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود قرآن کریم نے یہ شعور ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کی فکر میں بٹھایا ۔ کچھ واقعات پیش آئے ‘ ان واقعات نے مسلمانوں کی تربیت کی ‘ ان واقعات سے نتائج اخذ کئے گئے اور اس سورت میں ایسی تربیت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ان آیات میں بدر کا منظر نظروں کے سامنے ہے ۔ اس منظر میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کے ساتھ وعدہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے خصوصی امداد نازل ہوگی بشرطیکہ وہ صبر وثبات سے کام لیں اور معرکے میں انسانوں سے ڈرنے کے بجائے صرف تقویٰ اور اللہ خوفی کی راہ اختیار کریں ۔ عین اس وقت جب ان کا کفار کے ساتھ آمنا سامنا ہو ‘ اس کے بعد یہاں قرآن کریم نزول ملائکہ کے بھی پس منظر میں جاکر یہ باور کراتا ہے کہ اصل قوت فاعلہ ذات باری ہے ۔ تمام امور اس کے ہاتھ میں ہیں اور اس کے ارادے کے تابع ہیں اور صرف اس کے اذن اور اس کے ارادے سے فتح ونصرت نصیب ہوگی ۔ وَللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ……………” اور اللہ ہی بڑی قوت والا اور بینا ہے۔ “ وہ بڑی قوت والا ہے ‘ صاحب اقتدار ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ نصرت اور فتح عطاکرے اور اس کے ساتھ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی قدرت دانائی کے مطابق جاری وساری ہے ۔ اور وہ فتح اس لئے عطا کرتا ہے کہ اس میں اس کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے : پھر فرمایا (وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی لَکُمْ وَ لِتَطْمَءِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ) (اور اللہ نے یہ مدد صرف اس لیے کی کہ تمہارے لیے بشارت ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر صرف اللہ کی طرف سے جو زبردست ہے حکمت والا ہے) یہ آیت تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ غزوہ بدر کے تذکرہ میں سورة انفال کے دوسرے رکوع کے ختم پر بھی ہے۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ فرشتوں کے ذریعہ جو مدد کی گئی وہ اس لیے ہے کہ تمہارے دل خوش ہوجائیں اور مطمئن ہوجائیں تاکہ دشمن کی کثرت کا خوف نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے وہ جس کی مدد فرمائے وہی منصور اور کامیاب ہوگا لوگوں کی آپس کی مدد کی کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ کی مدد کے سامنے ہر جماعت شکست خوردہ ہے اور ہر مدد بےحیثیت ہے۔ اللہ عزیز ہے یعنی غالب ہے اور حکیم بھی ہے۔ وہ حکمت کے موافق مدد فرماتا ہے۔ اور بعض مرتبہ حکمت کا تقاضا یہ ہو کہ مدد نہ کی جائے تو ایسا بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوۂ احد میں ہوا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

193 جَعَلَهٗ میں ضإیر غائب مذکورہ مدد کی طرف راجع ہے جو ایک ہزار فرشتوں کے بالفعل انزال اور تین ہزار اور پانچ ہزار کے وعدہ انزال کی صورت میں نمودار ہوئی۔ اَلْعَزِیْز یعنی ایسی قدرت وقوت والا جو ظاہری اسباب کے سوا بھی غلبہ اور فتح دلا سکتا ہے۔ اَلْحَکِیْم جو اپنی حکمت بالغہ کے مطابق تمام کاموں کو ظاہری اسباب پر مرتب فرماتا ہے۔ یعنی جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تائید غیبی سے جو تمہاری کامیابی اور فتحمندی کے ظاہری اسباب مہیا فرمائے تھے۔ یہ محض تمہاری خوشی اور دلجمعی کی خاطر تھے۔ باقی رہی فتح ونصرت تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھی۔ جو ایسا زبردست ہے کہ ان اسباب کا محتاج نہیں لیکن اپنی تکوینی حکمت کے تحت ہر کام کو اس کے سبب سے متعلق فرماتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف اعلان فرما دیا ہے کہ حقیقت میں کارساز اور متصرف ومختار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فتح وظفر اور امداد ونصرت نہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں ہے اور نہ ہی فرشتوں کے۔ جنگ بدر اور جنگ احد کے واقعات ہمارے سامنے ہیں صحابہ کرام کی مقدس جماعت مشرکین کے مقابلہ میں صف آرا ہے اور سید انبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بزرگترین ہستی بنفس نفیس ان میں موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ امداد خداوندی کے محتاج ہیں۔ بدر میں ایک ہزار فرشتہ بالفعل امداد کے لیے میدان جنگ میں موجود ہے اور آٹھ ہزار آنے کے لیے حکم ربانی کے منتظر کھڑے ہیں۔ مگر ان سب کی حیثیت ظاہری سبب سے بڑھ کر کچھ نہیں اور حقیقی مؤثر اور ناصر و مددگار صرف اللہ ہے جل جلالہ وتعالیٰ جدہ۔ یعنی لا تحیلوا لنصر علی الملائکۃ والجند وکثرۃ العدو فان النصر من عندللہ لا من غیر والغرض ان یکون توکلہم علی اللہ لا علی الملائکۃ الذین امدوا بھم (خازن ومعالم ص 349 ج 1) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi