Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 130

سورة آل عمران

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۳۰﴾ۚ

O you who have believed, do not consume usury, doubled and multiplied, but fear Allah that you may be successful.

اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ ، اور اللہ تعالٰی سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Interest (Riba) is Prohibited Allah says, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ... O you who believe! Do not consume Riba doubled and multiplied, Allah prohibits His believing servants from dealing in Riba and from requiring interest on their capital, just as they used to do during the time of Jahiliyyah. For insta... nce, when the time to pay a loan comes, the creditor would say to the debtor, "Either pay now, or the loan will incur interest." If the debtor asks for deferment of the loan, the creditor would require interest and this would occur year after year until the little capital becomes multiplied many times. ... وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ but fear Allah that you may be successful. Allah commands His servants to have Taqwa of Him so that they may achieve success in this life and the Hereafter. Allah also threatens them with the Fire and warns them against it, saying, وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ   Show more

سود خور جہنمی ہے اور غصہ شیطان کی دین ہے اس سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو سودی لین دین سے اور سود خوری سے روک رہا ہے ، اہل جاہلیت سودی قرضہ دیتے تھے مدت مقرر ہوتی تھی اگر اس مدت پر روپیہ وصول نہ ہوتا تو مدت بڑھا کر سود پر سود بڑھا دیا کرتے تھے اسی طرح سود در سود ملا کر اصل رقم کئی گنا بڑ... ھ جاتی ، اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو اس طرح ناحق لوگوں کے مال غصب کرنے سے روک رہا ہے اور تقوے کا حکم دے کر اس پر نجات کا وعدہ کر رہا ہے ، پھر آگ سے ڈراتا ہے اور اپنے عذابوں سے دھمکاتا ہے پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر رحم و کرم کا وعدہ دیتا ہے پھر سعادت دارین کے حصول کیلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کو فرماتا ہے اور جنت کی تعریف کرتا ہے ، چوڑائی کو بیان کر کے لمبائی کا اندازہ سننے والوں پر ہی چھوڑا جاتا ہے جس طرح جنتی فرش کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا آیت ( مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍۢ بَطَاۗىِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ) 55 ۔ الرحمن:54 ) یعنی اس کا استر نرم ریشم کا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جب استر ایسا ہے تو ابرے کا کیا ٹھکانا ہے اسی طرح یہاں بھی بیان ہو رہا ہے کہ جب عرض ساتوں آسمانوں اور ساتویں زمینوں کے برابر ہے تو طول کتنا بڑا ہو گا اور بعض نے کہا ہے کہ عرض و طول یعنی لمبائی چوڑائی دونوں برابر ہے کیونکہ جنت مثل قبہ کے عرش کے نیچے ہے اور جو چیز قبہ نما ہو یا مستدیر ہو اس کا عرض و طول یکساں ہوتا ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس کا سوال کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے اچھی جنت ہے اسی جنت سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اور اسی کی چھت اللہ تعالیٰ رحمن رحیم کا عرش ہے ، مسند امام احمد میں ہے کہ ہرقل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور اعتراض کے ایک سوال لکھ بھیجا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دے رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو یہ فرمایئے کہ پھر جہنم کہاں گئی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یعلیٰ بن مرہ کی ملاقات حمص میں ہوئی تھی کہتے ہیں اس وقت یہ بہت ہی بوڑھا ہو گیا تھا کہنے لگا جب میں نے یہ خط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے اپنی بائیں طرف کے ایک صحابی کو دیا میں نے لوگوں سے پوچھا ان کا کیا نام ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت معاویہ ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی سوال ہوا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ دن کے وقت رات اور رات کے وقت دن کہاں جاتا ہے؟ یہودی یہ جواب سن کر کھسیانے ہو کر کہنے لگے کہ یہ توراۃ سے ماخوذ کیا ہو گا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ جواب مروی ہے ، ایک مرفوع حدیث میں ہے کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا جب ہر چیز پر رات آجاتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے؟ اس نے کہا جہاں اللہ چاہے ، آپ نے فرمایا اسی طرح جہنم بھی جہاں چاہے ( بزار ) اس جملہ کے دو معنی ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ رات کے وقت ہم گو دن کو نہیں دیکھ سکتے لیکن تاہم دن کا کسی جگہ ہونا ناممکن نہیں ، اسی طرح گو جنت کا عرض اتنا ہی ہے لیکن پھر بھی جہنم کے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا جہاں اللہ چاہے وہ بھی ہے ، دوسرے معنی یہ کہ جب دن ایک طرف چڑھنے لگا رات دوسری جانب ہوتی ہے اسی طرح جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور دوزخ اسفل السافلین میں تو کوئی نفی کا امکان ہی نہ رہا واللہ اعلم پھر اللہ تعالیٰ اہل جنت کا وصف بیان فرماتا ہے کہ وہ سختی میں اور آسانی میں خوشی میں اور غمی میں تندرستی میں اور بیماری میں غرض ہر حال میں راہ اللہ اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:274 ) یعنی وہ لوگ دن رات چھپے کھلے خرچ کرتے رہتے ہیں کوئی امر انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باز نہیں رکھ سکتا اس کی مخلوق پر اس کے حکم سے احسان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کی برائیوں سے درگزر کرنے والے ہیں ( کظم ) کے معنی چھپانے کے بھی ہیں یعنی اپنے غصہ کا اظہار بھی نہیں کرتے بعض روایتوں میں ہے اے ابن آدم اگر غصہ کے وقت تجھے یاد رکھوں گا یعنی ہلاکت کے وقت تجھے ہلاکت سے بچا لوں گا ( ابن ابی حاتم ) اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالیٰ اس پر سے اپنے عذاب ہٹا لیتا ہے اور جو بھی اپنی زبان ( خلاف شرع باتوں سے ) روک لے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف معذرت لے جائے اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرماتا ہے ( مسند ابو یعلیٰ ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں بھی اختلاف ہے اور حدیث شریف میں ہے ۔ آپ فرماتے ہیں پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقتاً پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے ( احمد ) صحیح بخاری صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نہیں آپ نے فرمایا میں تو دیکھتا ہوں کہ تم اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال چاہتے ہو اس لئے کہ تمہارا مال تو درحقیقت وہ ہے جو تم راہ اللہ اپنی زندگی میں خرچ کر دو اور جو چھوڑ کر جاؤ وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارثوں کا مال ہے تو تمہارا راہ اللہ کم خرچ کرنا اور جمع زیادہ کرنا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ تم اپنے مال سے اپنے وارثوں کے مال کو زیادہ عزیز رکھتے ہو ، پھر فرمایا تم پہلوان کسے جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے جسے کوئی گر انہ سکے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ حقیقتاً زور دار پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر پورا قابو رکھے ، پھر فرمایا بے اولاد کسے کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا جس کی اولاد نہ ہو ، فرمایا نہیں بلکہ فی الواقع بے اولاد وہ ہے جس کے سامنے اس کی کوئی اولاد مری نہ ہو ( مسلم ) ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو مفلس کنگال کون ہے؟ لوگوں نے کہا جس کے پاس مال نہ ہو آپ نے فرمایا بلکہ وہ جس نے اپنا مال اپنی زندگی میں راہ اللہ نہ دیا ہو ( مسند احمد ) حضرت حارثہ بن قدامہ سعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت نبوی میں عرض کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی نفع کی بات کہیے جو مختصر ہو تا کہ میں یاد بھی رکھ سکوں آپ نے فرمایا غصہ نہ کر اس نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا کئی کئی مرتبہ یہی کہا ( مسند احمد ) کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کچھ وصیت کیجئے آپ نے فرمایا غصہ نہ کر وہ کہتے ہیں میں نے جو غور کیا تو معلوم ہوا کہ تمام برائیوں کا مرکز غصہ ہی ہے ( مسند احمد ) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصہ آیا تو آپ بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے ان سے پوچھا گیا یہ کیا ؟ تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جسے غصہ آئے وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس سے بھی غصہ نہ جائے تو لیٹ جائے ( مسند احمد ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے کہ عروہ بن محمد کو غصہ چڑھا آپ وضو کرنے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے میں نے اپنے استادوں سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے اور آگ بجھانے والی چیز پانی ہے پس تم غصہ کے وقت وضو کرنے بیٹھ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اپنا قرض اسے معاف کر دے اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے لوگو سنو جنت کے اعمال سخت اور مشکل ہیں اور جہنم کے کام آسان اور سہل ہیں نیک بخت وہی ہے جو فتنوں سے بچ جائے کسی گھونٹ کا پینا اللہ کو ایسا پسند نہیں جتنا غصہ کے گھونٹ کا پی جانا ایسے شخص کے دل میں ایمان رچ جاتا ہے ( مسند احمد ) حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ اتارنے کی طاقت رکھتے ہوئے پھر بھی ضبط کر لے اللہ تعالیٰ اس کا دل امن و امان سے پر کر دیتا ہے جو شخص باوجود موجود ہونے کے شہرت کے کپڑے کو تواضع کی وجہ سے چھوڑ دے اسے اللہ تعالیٰ کرامت اور عزت کا حلہ قیامت کے دن پہنائے گا اور جو کسی کا سرچھپائے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن بادشاہت کا تاج پہنائے گا ( ابوداؤد ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص باوجود قدرت کے اپنا غصہ ضبط کر لے اسی اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کر لے ( مسند احمد ) اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں ، پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے غصہ میں آپے سے باہر نہیں ہوتے لوگوں کو ان کی طرف سے برائی نہیں پہنچتی بلکہ اپنے جذبات کو دبائے رکھتے ہیں اور اللہ سے ڈر کر ثواب کی امید پر معاملہ سپر دالہ کرتے ہیں ، لوگوں سے درگزر کرتے ہیں ظالموں کے ظلم کا بدلہ ابھی نہیں لیتے اسی کو احسان کہتے ہیں اور ان محسن بندوں سے اللہ محبت رکھتا ہے حدیث میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں ایک تو یہ کہ صدقہ سے مال نہیں گھٹتا دوسرے یہ کہ عفو و درگزر کرنے سے انسان کی عزت بڑھتی ہے تیسرے یہ کہ تواضع فروتنی اور عاجزی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ عطا کرتا ہے ، مستدرک کی حدیث میں ہے جو شخص یہ چاہے کہ اس کی بنیاد بلند ہو اور اس کے درجے بڑھیں تو اسے ظالموں سے درگزر کرنا چاہئے اور نہ دینے والوں کو دینا چاہئے اور توڑنے والوں سے جوڑنا چاہئے اور حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک پکارے گا کہ اے لوگو درگزر کرنے والو اپنے رب کے پاس آؤ اور اپنا اجر لو ۔ مسلمانوں کی خطاؤں کے معاف کرنے والے جنتی لوگ ہیں ۔ پھر فرمایا یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً ذکر اللہ اور استغفار کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں یہ روایت حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اللہ رحمن و رحیم کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے کہ پروردگار مجھ سے گناہ ہو گیا تو معاف فرما اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے سے گو گناہ ہو گیا لیکن اس کا ایمان ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا ، اس سے پھر گناہ ہو تو فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا ، اس سے پھر گناہ ہو جاتا ہے یہ پھر توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ پھر بخشتا ہے چوتھی مرتبہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر کہتا ہے اب میرا بندہ جو چاہے کرے ( مسند احمد ) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں میں رقت طاری ہو جاتی ہے اور ہم اللہ والے بن جاتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو وہ حالت نہیں رہتی عورتوں بچوں میں پھنس جاتے ہیں گھر بار کے دھندوں میں لگ جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اگر تمہاری حالت یہی ہر وقت رہتی تو پھر فرشتے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہاری ملاقات کو تمہارے گھر پر آتے ، سنو اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں یہاں سے ہٹا دے اور دوسری قوم کو لے آئے جو گناہ کرے پھر بخشش مانگے اور اللہ انہیں بخشے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ جنت کی بنیادیں کس طرح استوار ہیں آپ نے فرمایا ایک اینٹ سونے کی تو ایک چاندی کی ہے اس کا گارہ مشک خالص ہے اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت ہیں ، اس کی مٹی زعفران ہے ، جنتیوں کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی ان کی زندگی ہمیشہ کی ہو گی ان کے کپڑے پرانے نہیں ہونگے جوانی کبھی نہیں ڈھلے گی اور تین اشخاص کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ کی دعا افطاری کے وقت روزے دار کی دعا اور مظلوم کی دعا بادلوں سے اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جناب باری ارشاد فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو ( مسند احمد ) امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور اپنے گناہ کی معافی چاہے تو اے اللہ عزوجل اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں روایت امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے جو شخص کامل وضو کر کے دعا ( اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھدان محمد اعبدہ و رسولہ ) پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندر چلا جائے ، امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنت کے مطابق وضو کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص مجھ جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے ( بخاری مسلم ) پس یہ حدیث کو حضرت عثمان سے اس سے اگلی روایت حضرت عمر سے اور اس سے اگلی روایت حضرت ابو بکر سے اور اس سے تیسری روایت کو حضرت ابو بکر سے حضرت علی روایت کرتے ہیں تو الحمد اللہ ، اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور اس کی بے انتہاء مہربانی کی خبر سید الاولین والاخرین کی زبانی آپ کے چاروں برحق خلفاء کی معرفت ہمیں پہنچی ( آؤ اس موقعہ پر ہم گنہگار بھی ہاتھ اٹھائیں اور اپنے مہربان رحیم و کریم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اے عفو ودرگزر کرنے والے! اور کسی بھکاری کو اپنے در سے خالی نہ پھیرنے والے! تو ہم خطاکاروں کی سیاہ کاریوں سے بھی درگزر فرما اور ہمارے کل گناہ معاف فرما دے ۔ مترجم ) یہی وہ مبارک آیت ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو ابلیس رونے لگا ( مسند عبدالرزاق ) استغفار اور لا الہ الاللہ مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کثرت سے پڑھا کرو اور استغفار پر مداومت کرو ابلیس گناہوں سے لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس کی اپنی ہلاکت لا الہ الا اللہ اور استغفار سے ہے ، یہ حدیث دیکھ کر ابلیس نے لوگوں کو خواہش پرستی پر ڈال دیا پس وہ اپنے آپ کو راہ راست پر جانتے ہیں حالانکہ ہلاکت میں ہوتے ہیں لیکن اس حدیث کے دو راوی ضعیف ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابلیس نے کہا اے رب مجھے تیری عزت کی قسم میں بنی آدم کو ان کے آخری دم تک بہکاتا رہوں گا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میرے جلال اور میری عزت کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا مسند بزاز میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھ سے گناہ ہو گیا آپ نے فرمایا پھر استغفار کر اس نے کہا مجھ سے اور گناہ ہوا فرمایا استغفار کئے جا ، یہاں تک کہ شیطان تھک جائے پھر فرمایا گناہ کو بخشنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قیدی آیا اور کہنے لگا یا اللہ میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توبہ نہیں کرتا ( یعنی اللہ میں تیری ہی بخشش چاہتا ہوں ) آپ نے فرمایا اس نے حق حقدار کو پہنچایا ۔ اصرار کرنے سے مراد یہ ہے کہ معصیت پر بغیر توبہ کئے اڑ نہیں جاتے اگر کئی مرتبہ گناہ ہوجائے تو کئی مرتبہ استغفار کرتے ہیں ، مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ اصرار کرنے والا اور اڑنے والا نہیں جو استغفار کرتا رہتا ہے اگرچہ ( بالفرض ) اس سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہو جائے پھر فرمایا کہ وہ جانتے ہوں یعنی اس بات کو کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ) 9 ۔ التوبہ:104 ) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:110 ) جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیان فرمایا لوگو تم اوروں پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا لوگو تم دوسروں کی خطائیں معاف کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخشے گا باتیں بنانے والوں کی ہلاکت ہے گناہ پر جم جانے والوں کی ہلاکت ہے پھر فرمایا ان کاموں کے بدلے ان کی جزا مغفرت ہے اور طرح طرح کی بہتی نہروں والی جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑے اچھے اعمال ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

130۔ 1 چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لا لچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کی تاکید کی جا رہی ہے اور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق...  سود جائز ہے بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب مطلقًا حرام ہے جیسے کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل تمہیں کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ و رسول سے محاربہ ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٨] اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑ کر جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کام بلا تاخیر کئے جائیں، جو اللہ کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں اور وہ تمام اعمال صالحہ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا بذات خود اللہ کی بخشش کا بہت بڑا سبب ہے۔ استغفار کے لیے کتاب و سنت میں بہت سی دعائیں منقول ہیں اور ایک دعائے ... استغفار کو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سید الاستغفار فرمایا : آپ نے یہ استغفار صحابہ کرام (رض) کو سکھلایا اور صبح و شام نمازوں کے بعد یہ استغفار پڑھا کرتے تھے۔ اس استغفار کے الفاظ یہ ہیں : (اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لاَاِلَہَ الاَّاَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَااسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعتُ اَبُوْء لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لیْ فِاِنَّہُ لاَیَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اَنْتَ ) ترجمہ : && اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ اور غلام ہوں اور جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے۔ میں تیرے عہد اور تیرے وعدے پر قائم ہوں اور جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے برے پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ پر تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ لہذا تو مجھے معاف فرما دے کیونکہ تیرے بغیر کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرسکتا && اور جنت کی طرف دوڑ کر آنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ ایسے کام کئے جائیں جن سے جنت کا حصول ممکن ہوجائے اور جنت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین جیسا ہے اور عرض کا ایک معنی تو چوڑائی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب آسمانوں اور زمین کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے تو پھر وہ جنت کی وسعت کا کیا اندازہ کرسکے گا۔ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے گویا اس سے مقصود جنت کی ایسی لامحدود وسعت کا اظہار ہے جو انسان کے سان و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ اور عرض کا دوسرا معنی قدر و قیمت ہے۔ کہتے ہیں اشتریت المتاع بعرض اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن میں بھی مستعمل ہے۔ جب دنیا کی بےثباتی کا اظہار مقصود ہو تو دنیوی سازو سامان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس جنت کی طرف دوڑ کر آؤ جس کے مقابلہ میں یہ سارے آسمان اور زمین ہیچ ہیں اور جنت کی قدر و قیمت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ ضمناً ایسی آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ تیار کی جاچکی ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس بات کے قائل نہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا : شاید سود کا ذکر یہاں ( جنگ احد کے تذکرے میں) اس لیے فرمایا کہ اوپر (آیت ١٢٢ میں) مذکور ہوا جہاد میں نامردی کا اور سود کھانے سے نامردی آتی ہے دو سبب سے، ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق اطاعت کم ہوتی ہے اور بڑی اطاعت جہاد ہے اور دوسرے یہ ... کہ سود لینا کمال بخل ہے۔ چاہیے تھا کہ اپنا مال جتنا دیا تھا لے لیتا، بیچ میں کسی کا کام نکل جاتا، یہ بھی مفت نہ چھوڑے، اس کا جدا بدلہ چاہے، تو جس کو مال پر اتنا بخل ہو وہ جان کب دینا چاہے گا۔ (موضح) پھر انصار کے یہود کے ساتھ سودی لین دین کے تعلقات تھے اور احد میں منافقین یہود کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا، گویا اس کو حرام قرار دے کر ان تعلقات کو ختم کردیا۔ 2 اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠: اس سے بعض لوگوں نے سود مرکب کو حرام اور سود مفرد کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہاں اس زمانے کے سود خوروں کی سنگ دلی بیان ہو رہی ہے، جو آج بھی موجود ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرضے دیا کرتے، جب قرضے کی میعاد ختم ہوجاتی تو مقروض سے کہتے، قرض ادا کرو ورنہ سود میں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میعاد میں توسیع کردی جاتی اور سود کی مقدار میں اضافہ کردیا جاتا۔ اس طرح کچھ عرصے کے بعد سود کی مقدار اصل زر سے بھی کئی گنا زیادہ ہوجاتی اور یہ سود تجارتی اور غیر تجارتی دونوں طرح کا ہوتا تھا، جیسا کہ اس آیت کی تفسیر کے تحت تابعین نے تصریح کی ہے۔ سودی کاروبار کی اس بھیانک صورت کی طرف قرآن نے ( اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ ) کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ مرکب سود حرام اور سادہ جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے، صرف قرض کی ایک صورت جائز ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٧٩ ] ” اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں اپنے اصل مال لینے کی اجازت ہے، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The meaning of doubled and multiplied The detailed rules regarding &riba& and the philosophy underlying its prohibition have been discussed thoroughly in Surah al-Baqarah verses 275-278 (Volume 1 of this commentary). However, it may be pointed out here that words أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً of (doubled and multiplied) used in this verse do not mean that the prohibition of &riba& is res... tricted only to a transaction where the interest is doubled or multiplied. In fact, these words are not used in a restrictive sense, because it is evident from Surah al-Baqarah that &riba& or interest is prohibited in any case, even though its rate is not so high as to make it doubled or multiplied. These words are used only to explain the factual position prevalent at that time, and to indicate its unjust and evil nature. Moreover, these words also suggest that even the interest charged is simple and not compound, yet once a person is engaged in the business of interest he does not stop at charging interest in one transaction only. Rather, he reinvests the income of interest in another loan transaction, and keeps investing the interest proceeds in similar transactions again and again, and thus the ultimate result is that the original interest charged through the first transaction is doubled and multiplied.  Show more

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو سود مت کھاؤ (یعنی مت لو اصل سے) کئی حصے زائد (کر کے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو (یعنی جنت نصیب ہو اور دوزخ سے نجات ہو) اور اس آگ سے بچو جو (دراصل) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے (اور آگ سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ سود وغیرہ سے بچو) ۔ معارف و مسائل : اس آیت ... میں سود کھانے کی حرمت و ممانعت کے ساتھ اضعافا مضاعفۃ کا ذکر حرمت کی قید نہیں، بلکہ سود کی قباحت کو واضح کرنے کے لئے ہے، کیونکہ دوسری آیات میں مطلقا ربو کی حرمت کا بیان نہایت تشدید و تاکید کے ساتھ آیا ہے، جس کی تفصیل سورة بقرہ میں آچکی ہے، اور اضعافا مضاعفۃ کے ذکر میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جس کو سود کھانے کی عادت ہوجائے خواہ وہ اصطلاحی سود مرکب یعنی سود در سود کے معاملہ سے پرہیز بھی کرلے تو سود سے حاصل شدہ کمائی کو جب دوبارہ سود پر چلائے گا تو وہ لامحالہ اضعاف مضاعف ہوتا چلا جائے گا، اگرچہ سود خوروں کی اصطلاح میں اس کو سود مرکب یعنی سود در سود نہ کہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ایک سود انجام کار اضعاف مضاعف ہی ہوتا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً۝ ٠ ۠ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ١٣٠ ۚ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من ... دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ رِّبَا : الزیادة علی رأس المال، لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دون وجه، وباعتبار الزیادة قال تعالی: وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] ، ونبّه بقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، أنّ الزیادة المعقولة المعبّر عنها بالبرکة مرتفعة عن الرّبا، ولذلک قال في مقابلته : وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم/ 39] الربا ( سود ) راس المال یعنی اصل سرمایہ پر جو بڑھوتی لی جائے وہ ربو کہلاتی ہے ۔ لیکن شریعت میں خاص قسم کی بڑھوتی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ زیادہ ہونے کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] اور تم کو جو چیز ( عطیہ ) زیادہ لینے کے لئے دو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھوتی ہو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھے گی ۔ اور آیت : ۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] اللہ سود کو بےبرکت کرتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے ۔ میں محق کا لفظ لا کر اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ ربا ، ، یعنی سود میں برکت نہیں ہوتی اس کے مقابلہ میں زکوۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم/ 39] اور تم ( محض ) خدا کی رضا جوئی کے ارادے سے زکوہ دیتے ہو تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی اپنے دیئے ہوئے کو خدا کے ہاں بڑھا رہے ہیں ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سود کی ہر صورت حرام ہے قول باری ہے (لاتاکلوا الربواضعا فامضاعفۃ، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ) قول باری (اضعا فاعفۃ) کے دومعنی بیان کیے گئے ہیں اول تاجیل قرض کی ادائیگی کی مدت میں اضافے کے ساتھ سود کو رقم میں اضافہ کرتے جانا اور ہر مدت کے لیے زائد رقم کی قسط مقررکر دینا۔ دوم سودی رقموں کے ... ذریعے اپنے مال میں کئی گنا اضافہ کرلینایہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کا خصوصیت کے ساتھ ذکرکر دیاجائے، وہ اس پر دلالت نہیں کرتی کہ اس کے ماسواچیزوں کا حکم کے برعکس ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر کئی کئی گنابڑھا کر سود خوری کی تحریم اس پر دلالت کرتی کہ اگر کئی کئی گنا اضافے کی صورت نہ ہو تو سود کھانا مباح ہے۔ جب سود کی مطلقا ممانعت ہوگئی خواہ اس کی مذکورہ بالا کیفیت ہو، یا نہ ہو، تو اس کی اباحت کے بارے میں لوگوں کے قول کا بطلان واضح ہوگیا بلکہ ان کے لیے یہ سمجھ لینا ضروری ہوگیا کہ اباحت پر دلالت قول باری (وحرم الربو) کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے کیونکہ اب اباحت کے حکم کے لیے کوئی موقع ومحل باقی نہیں رہا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٠۔ ١٣١) ثقیف والو ! روپیہ پر مدت میں سود مت لو اور اللہ سے اس بارے میں ڈرتے رہو تاکہ تمہیں غصہ اور عذاب سے نجات حاصل ہو اور سود کھانے میں جہنم کی آگ سے ڈرو جو اللہ تعالیٰ نے حرمت سود کے منکرین کے لیے پیدا کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح ) شان نزول : یایھا الذین امنوا الا ت... اکلوا الربوا (الخ) فریابی (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ لوگ وقت مقرر پر ادھار چیزوں کو فرورخت کیا کرتے تھے یہ مدت پوری ہونے کے بعد قرض میں اضافہ کردیتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” اے ایمان والو کئی حصے کرکے سود مت کھاؤ “۔ اور فریابی (رح) نے عطا سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ ثقیف، بنو نضیر سے زمانہ جاہلیت میں قرض کے طریقہ پر لین دین کیا کرتے تھے، جب قرض کی مدت آجاتی تو یہ لوگ کہتے کہ ہم تمہیں کو سود دیں گے، مدت میں اضافہ کر دو ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٠ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص) یہاں پر سود مرکب (compound interest) کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی ... سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : (وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ) جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرۃ (آیت ٢١٩) میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود (usury) سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم ٩ ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرۃ میں ہے۔ وہ پورا رکوع (نمبر ٣٨) ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

98. The major cause of the setback suffered at Uhud was that precisely at the moment of their victory the Muslims succumbed to the desire for worldly possessions, and turned to collecting booty rather than completing their task of crushing the enemy. Hence God thought fit to raise a barrier against this excessive adoration of money, and to urge them to give up usury which keeps man constantly abso... rbed in considering ways and means of amassing wealth and generally whets his appetite for money.  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :98 احد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے ۔ اس لیے حکیم مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سود ... خواری سے باز آؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بے حد بڑھتی چلی جاتی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر مکہ کے مشرکین نے سود پر قرض لے کر جنگ کی تیاری کی تھی، اس لئے کسی مسلمان کے دل میں بھی خیال ہوسکتا تھا کہ مسلمان بھی جنگ کی تیاری میں یہی طریقہ اختیار کریں، اس آیت نے انہیں خبر دار کردیا کہ سود پر قرض لینا حرام ہے، یہاں سود کو کئی گنا ب... ڑھاکر کھانے کا جوذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم شرح پر سود کی اجازت ہے ؛ بلکہ اس وقت چونکہ سودی قرضوں میں بکثرت یہی ہوتا تھا کہ سود اصل سے کئی گنا بڑھ جاتا تھا اس لئے ایک واقعے کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے ورنہ سورۂ بقرہ (آیت ٢٧٧ اور ٢٧٨) میں صاف واضح کردیا گیا ہے کہ اصل قرض پر جتنی بھی زیادتی ہو وہ سود میں داخل اور حرام ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(130 ۔ 134) ۔ احد کی لڑائی کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ سود کا ذکر اس لئے فرمایا کہ اسی لڑائی میں ایک بڑا موقع لین دین کا پیش آیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ احد کی لڑائی کے بعد مکہ کو واپس جاتے جاتے اپنے ساتھ کے مشرکین سے ابو سفیان نے کہا کہ مسلمانوں کی جوان جوان عورتیں لونڈیاں بنا کر نہ لایا اور ان کے سرگرو... ہ رسول وقت کو اور بقیہ مسلمانوں کو ناحق زندہ چھوڑ آیا۔ اس کا مجھ کو بڑا افسوس ہے۔ یہ خبر آنحضرت کو پہنچی۔ آپ نے حکم دیا کہ کل کے روز لڑائی میں جو لوگ گئے وہی لوگ آج پھر مشرکین کے تعاقب میں چلیں۔ اگرچہ لوگ زخمی تھکے ہوئے تھے۔ لیکن انہوں فورًا اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی تعمیل کی جس تعمیل کی تعریف اللہ تعالیٰ نے آئندہ کی آیتوں میں فرمائی ہے۔ غرض ادھر تو آنحضرت نے یہ قصد کیا کہ مشرکین پر رعب ڈالنے کی نیت سے ان کا تعاقب کیا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں میں ضعف اور رعب ڈال یا۔ انہوں نے مقابلہ سے انکار کیا۔ اور آئندہ سال کے مقابلہ کا وعدہ کیا واپسی کے وقت مسلمانوں نے ان تاجروں سے جو ان دنوں میں ہمیشہ مکہ کو تجارت کے لئے جایا کرتے تھے بہت سا تجارت کا سامان خریدا اور اللہ تعالیٰ نے اس تجارت میں بہت نفع مسلمانوں کو دیا۔ لیکن اسلام میں اس طرح کی تجارتوں میں خریدوفروخت اس طرح اکثر قبیلوں میں ہوا کرتی تھی کہ خریدوفروخت قرض کے طور پر ہوتی اور پہلی مدت پر روپیہ ادا نہ ہو تو دوسری مدت کی بابت کچھ روپیہ اور بڑھا دیا جاتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس تجارت والی لڑائی کے ذکر میں اس سود کی صورت کی ممانعت کے حکم کو ذکر فرمایا۔ تاکہ آئندہ کی آیت میں اس تجارت اور اس تجارت کے نفع کا ذکر جو ہے اس نفع حلال کا ذکر اس نفع حرام کی صراحت سے خالی نہ رہے اس سود کی بیع کی صراحت میں مجاہد سے روایت ہے کہ ایک بیع اہل عرب میں اس طرح کی تھی کہ پہلی ایک مدت میں کچھ اور دن بڑھا دیا کرتا تھا۔ اور خریدار قیمت میں کچھ دام اور بڑھا دیا کرتا تھا۔ یہ صورت سود کی تھی اسی کی مخالفت میں یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ١۔ اس آیت میں یہ جو ذکر آیا ہے کہ ” جنت کا عرض آسمانوں اور زمینوں کی چوڑائی کے برابر ہے اس کی صراحت اس قدر کافی ہے کہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر عرض معلے کے نیچے ہے اور عرش معلیٰ کرسی سے بہت بڑا ہے۔ اور کرسی زمین اور آسمان سے بہت بڑی ہے۔ چناچہ تفسیر ابوبکر بن مردویہ میں حضرت ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا کہ کرسی کے مقابلہ میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایسے ہیں جس طرح بہت بڑے میدان میں ایک انگلی کا چھلا گرا پڑا ہو۔ اور عرش معلے کرسی سے اتنا ہی بڑا ہے جیسا چھلے سے وہ میدان خیال کیا جاسکتا ہے ٢۔ اس حالت میں جنت کا زمین و آسمانوں کی لمبائی کے برابر ہونا یہ شبہ نہیں پیدا کرسکتا کہ پھر وہ جنت زمین آسمان میں کیونکر سمائے گی اور جنت کے ملنے کی کوشش کے ذکر میں اہل جنت کے چند اوصاف بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے ہیں اور ان میں غصہ کے وقت تحمل کرنے اور غصہ ٹل جانے کا جو ذکر ہے اس کی نسبت مسند امام احمد بن حنبل اور ترمذی اور ابو داؤد اور ابن ماجہ میں مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو غصہ آئے اور باوجود طاقت بد لا لینے کے وہ اپنے غصہ کو پی جائے اور جس شخص پر اس غصہ کھولنے والے کو غصہ آیا ہے اس سے بدلا نہ لیوے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اختیار دے گا کہ جنت کی جس حور کو وہ چاہے پسند کرلے ٣۔ اسی طرح صحیحین اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی آدمی کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت تحمل کر کے اپنے غصہ پر غالب اور اپنے نفس پر قادر ہے ١  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:130) الربو۔ بیاج۔ سود۔ اضعافا مضعفۃ۔ کئی گنا۔ چند در چند۔ مضعفۃ۔ اضعافا کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 130 143 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا لا تاکلوالربو……………اعدت للکفرین۔ توکل : نیز توکل کا اطلاق مومن کے جملہ کردار پر ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اسے اپنائو ! کہ میدان میں لڑنا جہاد اصغر ہے اور پوری عمر اپنی خواہشات کو مرضیات باری کے تابع رکھنا جہاد اکبر ہے کہ مسلسل اور طویل جنگ ہے۔ زندگ... ی میں عموماً حصول رزق ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے گرد انسانی کوششیں گردش کرتی ہیں اس میں حلال و حرام کی تمیز اور حصول رزق کے جائز ذرائع اختیار کرنا اصل کام ہے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ سود کو قطعی طور پر چھوڑ دو اور دوگنا چوگنا کرکے اگرچہ بہت زیادہ آمدن کا امکان ہے مگر حرام ہو کر خلاف تقویٰ ہے۔ نیز کفار سودی رق میں جنگ کی تیاری پر بھی لگاتے تھے تو مسلمان یہ نہ سوچے کہ اس طرح زیادہ سامان حرب حاصل کیا جاسکے گا بلکہ حقیقی فلاح اور کامیابی کو نگاہ میں رکھے جو اطاعت الٰہی اور تقویٰ پر مرتب ہوتی ہے۔ اس طرح یہ ایک خالص معاشی مسئلہ جنگ اور صلح کے انداز بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومن نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اللہ پر بھروسہ کرے اور کبھی اطاعت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دے اگر کبائر میں مبتلا ہوا تو آگ سے عذاب دیئے جانے کا اندیشہ ہے جو بنیادی طور پر کفار کے لئے تیار ہوئی ہے کہ ممکن ہے کبائر پر اصرار ایمان کے ضیاع کا باعث بن جائے اور خاتمہ کفر پر ہو یا کبائر کی سزا میں جہنم میں جانا پڑے جو حقیقتاً کفار کی جگہ ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ہر حال میں اور ہر کام میں مومن کی نگاہ اخروی نتائج پہ ہونی چاہیے اور دنیا سے مرعوب ہو کر لالچ میں آکر کبھی ایسے ذرائع اختیار نہ کرے جو اللہ کی اطاعت کے خلاف ہوں اور توکل کے منافی ہوں۔ واطیعوا اللہ والرسول……………اعدت للمتقین۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کو شعار بنائو تاکہ تم اللہ کی رحمت کو حاصل کرسکو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک منصب اور مقام یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا کلام اس کے بندوں تک پہنچایا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے لئے تو یہ بہت کافی ہے تو اس طرح درست ہوگا کہ وہ اس کلام کی شرح اور مفہوم کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کرے کیونکہ یہ بھی منصب نبوت و رسالت ہے کہ کتاب کا مفہوم اور تبین ارشاد فرمائے لتبین للناس مانزل الیھم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرمائیں کہ نازل شدہ آیات کا مفہوم کیا ہے۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مفہوم : اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بطور خاص ارشاد فرمایا کہ کوئی بھی شخص اپنی پسند کے معانی نہ پہنا سکے ورنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب تو فصحائے عرب تھے اور اپنی تمام عملی قوت اور فصاحت وبلاغت کے باوجود کتاب اللہ کو سمجھنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محتاج تھے اکثر حکام مجمل ارشاد ہوئے اور پھر ان کی تشریح اور تفصیل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں تک پہنچائی ، جیسے ارشاد ہے اقیموالصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ۔ اب نماز میں رکوع ، سجود ، تسبیحات ، قیام یا تعداد رکعت نیز اوقات۔ یہ جملہ امور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائے اور یہ بھی وحی الٰہی سے ہی تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب تھا۔ ایسے ہی زکوٰۃ کے مختلف نصاب یا دیگر امور بیع وشرایا حلال و حرام سب کی تفصیل آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات عالیہ میں ہی مل سکتی ہے نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پورا معاشرہ تیار فرمایا جس میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے شہری ، بدوی ، عالم ، جاہل بوڑھے ، بچے ، مرد ، عورتیں ، کاشت کار ، مزدور اور تاجر ، ان لاکھوں نفوس قدسیہ کی تربیت کتاب اللہ کے منشاء کے مطابق فرمائی۔ آیات نازل ہوئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا مفہوم ارشاد فرمایا۔ اور ان ہی لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ آیات سنیں ، مفہوم بھی سمجھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کے مطابق عمل کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی تائید اور تصدیق حاصل کی۔ اور اس امانت کو آنے والی نسلوں کے سپرد فرمایا۔ اللہ کریم ان سب پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔ یہ کسی طرح درست نہیں کہ کوئی شخص قرآن کے الفاظ تو ان سے حاصل کرے اور معانی ومفہوم خود متعین کرے یا ذخیرہ حدیث کو قرآن سے الگ سمجھ کر انکار کر بیٹھے۔ یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ حفاظت الٰہیہ کا وعدہ صرف الفاظ قرآنی تک محدود نہیں بلکہ مفاہیم کو بھی شامل ہے اور اللہ کریم نے جس طرح حفاظت حدیث کی سعادت اہل حق کو نصیب فرمائی ہے یہ انہیں کا حصہ ہے۔ ارشاد ہے کہ اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑو یعنی اللہ کی اطاعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات و ارشادات کی روشنی میں اپنی پوری ہمت سے کرو اور اپنی ساری توانائیاں اس پر صرف کردو۔ جس طرح مقابلے کی دوڑ لگانے والا اپنی پوری قوت صرف کردیتا ہے اس طرح حصول مغفرت کے لئے اور دخول جنت کے لئے جو کہ رضائے باری کا مظہر ہے پوری کوشش کرو۔ یہاں مغفرت کے ساتھ صفاتی نام ” رب “ ارشاد ہوا ہے۔ ربوبیت جس طرح ہر شے کی پرورش کرتی ہے وہاں یہ اہتمام بھی کرتی ہے کہ جو شے جہاں مناسب یا ضروری ہو وہ وہیں رکھی جائے اور حسن ترتیب بھی ربوبیت کا ہی کرشمہ ہے کبھی کیکر پر آم نہ آئیں گے اور کیلے کے درخت کو بیری کا پھل نہ لگے گا۔ مغفرت بھی یقینا اسباب مغفرت پہ مرتب ہوگی یعنی اعمال صالحہ اور اتباع سنت پر ، نیز جنت کا داخلہ بغیر مغفرت کے ناممکن ہے ایک ایسی عالیشان جگہ جو اس اعتبار سے بھی بہت ہی اعلیٰ ہے کہ ارض وسما مل کر بھی اس کی قیمت نہیں ہوسکتے یا اس کی وسعت کا حال یہ ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کو بچھا کر جوڑا جائے تو اس کے عرض کا مقابلہ نہیں طول خدا جانے ۔ گویا انسان کے علم میں کوئی ایسی وسیع ترشے نہیں جس کی مثال سے وہ جنت کی وسعت کا اندازہ کرسکے اور یہ وسیع مملکت ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو متقی ہیں۔ الذین ینفقون………………وموعظۃ للمتقین۔ محبوبان حق : ایسے لوگ تنگی وفراخی ہر حال میں اپنی تمام صلاحیتیں اللہ کے لئے صرف کرتے ہیں۔ مال و دولت ہو یا قوت و طاقت ، حکومت واختیار ہو یا علم و حکمت دین و دانش ہو یا آرام و راحت ہر حال میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربان کرتے رہتے ہیں اور بندگان خدا کو ہمیشہ حق و انصاف کی طرف بلاتے ہیں اگر کوئی ان کے حقوق ضائع بھی کرے تو انہیں بھی دکھ ہوتا ہے خواص بشری سے وہ بالاتر نہیں ہوتے۔ مگر اس دکھ یا غصے کا اظہار نہیں کرتے یعنی کسی سے بگڑ کر نیکی کرنے کی عادت ترک نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔ یعنی دوسروں کے صرف حقوق ادا کرنے پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنے حقوق ان پر نچھاور کرتے ہیں اور اس سے کوئی اور غرض نہیں رکھتے صرف اللہ کی رضا کے طالب ہوتے ہیں ، اور یہ سب کچھ نہایت خلوص کے ساتھ اور دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔ اللہ ان سے محبت کرتے ہیں جو انسانیت کے لئے منتہائے کمال ہے۔ گویا کسی ایسے شخص کو جو نہ اللہ کے حقوق ادا کرے اور نہ بندوں کے ولی گمان کرنا ہرگز درست نہیں۔ یہ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنا دل روشن رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کے قلوب کو روشن کرنے کی فکر کرتے ہیں اس کے باوجود انسان ہوتے ہیں اور بشری تقاضے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ان سے بھی خطا ہوسکتی ہے یہ بھی غلطی کرسکتے ہیں کہ عصمت خاصہ نبوت ہے انبیاء (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ اولیاء محفوظ ضرور ہوتے ہیں مگر معصوم نہیں۔ ہاں ! ان کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ یا برائی کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس سے بخش طلب کرتے ہیں۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ ، ” ذکر نسیان کے مقابل ہے “۔ ذکر قلبی : اور یہ جان لیں کہ کلام باری کا مخاطب قلب ہے ، ذہن نہیں تو لازماً نسیان یا ذکر بھی قلب ہی کا مراد ہونا چاہیے اسی طرح ” بحر محیط “ میں ہے کہ زبانی استغفار جس کے ساتھ دل شامل نہ ہو لائق اعتبار نہیں۔ گویا ان لوگوں کے قلب زندہ ہوتے ہیں اور یہی زندگی کا حاصل ہے اسی لئے قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ قلبی ذکر کا حصول ہر مرد عورت پر واجب ہے۔ اللہ ہی خطائوں کو بخشنے والا ہے نیز یہ لوگ گناہ اور برائی کو وطیرہ نہیں بنا لیتے یعنی چھوڑ دیتے ہیں ۔ گویا صدور ذنب منافی ولایت نہیں مگر اصرار علی الذنب منافی ولایت ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ان کی جزا بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور جنت جس کے تحت نہریں رواں ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ جنت میں داخل ہونے والوں کو کبھی وہاں سے نکلنا نہیں ہوگا۔ یہ اطاعت کرنے والوں کے لئے کتنا بہترین اجر ہے کہ کام تو ایک نہایت قلیل مدت تک کیا مگر انعام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نصیب ہوا۔ پھر اطاعت انسانی طاقت کے مطابق کی بلکہ اس میں بھی متعدد کمزوریاں باقی رہیں مگر بدلہ اور اجرت عطائے باری کے شایان شان نصیب ہوئی۔ نیز ان جملہ ارشادات باری کی تصدیق زمین کے چپے چپے پر موجود ہے تم لوگ سے پہلے زمین آباد تھی ، جس میں ہر طرح کے لوگ تھے نیک بھی اور بدکار بھی۔ ان کے حالات کا مطالعہ کرو تو تم جان لو گے کہ ہمیشہ آرام و سکون اور عزت و عظمت دینداروں کے حصے میں رہی۔ کفار ہمیشہ بےچین وبے کل بھی رہے اور انجام کار تباہ وبرباد بھی ہوئے۔ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک ان کی فانی شوکت پہ نوحہ کناں نظر آتی ہیں۔ یہ سارا بیان انسانیت کے لئے سرمایہ عبرت ہے اور اپنے اندر سامان ہدایت رکھتا ہے اس کی روشنی میں تمام انسان اخلاق فاضلہ اور حسن عقیدہ کو حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ دولت صرف وہ لوگ حاصل کر پاتے ہیں جن کے دلوں کا تعلق یادالٰہی سے ہو اور جنہیں اللہ کی عظمت کا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ احساس ہو۔ (تقویٰ اس نسبت کا نام ہے جو دل کو اللہ کی بارگاہ میں حضوری سے نصیب ہوتی ہے) ولاتھنوا………………وانتم تنظرون۔ تمہیں اس جنگ کی شدت سے بددل ہونا زیب نہیں دیتا اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ فتح بہرحال تمہی کو نصیب ہوگی اور ہمیشہ تم ہی غالب رہو گے شرط صرف یہ ہے کہ خلوص دل کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع اختیار کرو۔ ایمان مضبوط اور عمل صالح ، یعنی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نسبت کاملہ حاصل ہو کہ یہی حق ہے اور حق کسی حال میں باطل سے مغلوب نہیں ہوتا۔ تمہیں ہمیشہ دین کے احیاء کے لئے اور ظلم وجور کو مٹانے کے لئے میدان عمل میں رہنا ہوگا ، یعنی مسلمان کبھی بھی بددل ہو کر جہاد سے دست بردار نہ ہوں ، نیز ذاتی زندگی ہو یا ملکی وقومی تمام امور میں کامیابی کی شرط ایمان کی مضبوطی ہے اگر تمہارا عقیدہ درست رہا اور اتباع سنت پہ کاربند رہے تو کبھی ناکام نہیں رہو گے۔ یہ عارضی تنگی یا شدت کوئی معنی نہیں رکھتی کہ اگر موجودہ جنگ میں (یعنی احد میں) تمہیں دکھ پہنچا تو اس سے پہلے بدر میں تمہارے مقابل کو بھی بہت زخم کھانے پڑے تھے۔ آج اگر مسلمان شہید اور زخمی ہیں تو کل وہ بھی اپنے سرداروں کی سر بریدہ نعشیں چھوڑ گئے تھے قید ہوئے اور زخموں سے چور۔ تو یہ معاملات دنیا الٹتے پلٹتے رہتے ہیں۔ تنگی وفراخی آتی جاتی رہتی ہے کہ اگر ہمیشہ کافر پہ تنگی اور مومن پر فراخی رہے تو بہت لوگ اضطراراً ایمان کی طرف لپکیں۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوگا بلکہ حالات بدلتے رہیں گے اور انسان ہمیشہ اپنے عقل و شعور کے ساتھ اور حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کا مکلف رہے گا۔ ہاں ! قابل غور امر یہ ہے کہ کفار لڑے بھی تو باطل کے لئے ، قتل ہوئے تو باطل کے لئے اور مر کر دوزخ میں جھونکے گئے کہ وہ ظالم تھے اور ظالموں کو کبھی اللہ کی محبت نصیب نہیں ہوتی۔ مگر تم لڑے تو حق کے لئے جس کا عند اللہ بہت بڑا اجر ہے ، زخمی ہوئے تو عنداللہ منازل قرب میں ترقی پائی قتل ہوئے تو شہادت پائی اور اللہ نے تمہیں اپنی عظمت کا گواہ چن لیا اور تماری عظمت کو چاردانگ عالم پہ روشن کردیا فلیعم اللہ سے یہی اظہار ہے ورنہ اللہ کا علم تو ازلی ہے وہ قبل وقوع بھی جانتا ہے اور بعد وقوع بھی۔ مومنوں پر مصائب کا فلسفہ : امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف عدم علم شے کے عدم وجود کو لازم ہے ایسے ہی علم شے ، وجود شے کو۔ گویا یہاں مراد ہے کہ تمہیں یہ نعمتیں نصیب ہوں اور اللہ مومنین کو پاک صاف کردے اور کفار کو ملیامیٹ کردے۔ کہ دنیا کی تکالیف جب مومن پہ آتی ہیں تو تلافی مافات کا سبب بنتی ہیں اور ترقی درجات کا باعث۔ عنداللہ کچھ منازل ومقامات ایسے ہیں جو بغیر مصائب کے حاصل ہو ہی نہیں سکتے جیسے مثال کے طور پر شہادت ہی کو لے لیں کہ اس منزل کو پانے کے لئے راہ حق میں نقد جاں لٹانا پڑتا ہے۔ نیز طاعات و عبادات میں بھی کمی رہ جاتی ہے ۔ اکثر اوقات بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے تو شاید ان کا مداوا بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کفار کی بےنصیبی کہ ان پر شدائد بھی بطور عقوبات کے وارد ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے انہیں دنیا میں ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے اگر بدستور اسی ہٹ پر قائم رہیں تو بالآخر تباہ ہوجاتے ہیں اور ابدی ذلت سے دو چار ہوتے ہیں۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ وہ بغیر عمل کے جنت میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے دواوصاف بنیادی ہیں ، جہاد اور صبر۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں ، ان المراد ان دخول الجنۃ وترک المصابرۃ علی الجھاد لا یجتمعان۔ کہ دخول جنت اور جہاد پر ترک صبر جمع نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر خلاف اسلام اٹھنے والی تحریکوں کے بانیوں نے جہاد کو حرام قرار دیا ۔ مقصد مسلمانوں کو کفر کی طرف دھکینا تھا۔ نیز تفسیر کبیر میں ہی اسی بحث کو یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ حب دنیا اخروی سعادت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی جس قدر ایک زیادہ ہوگی دوسری صفت گھٹتی جائے گی کیونکہ حصول دنیا بھی تب ہی ممکن ہے جب دل دنیا کی طلب میں لگ جائے اور اخروی سعادت کا مدار بھی اس بات پر ہے کہ دل ماسوا کی طلب سے فارغ ہو اور اللہ کی محبت سے لبریز۔ یہ دو باتیں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں۔ مزید فرماتے ہیں ، اللہ کی محبت نرا دعویٰ کرنے سے ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہر مدعی سچا ہے بلکہ صداقت کی دلیل یہ ہے کہ جو کام اللہ کو ناپسند ہیں انہیں چھوڑ دے اور اپنی پسند کو قربان کرے کہ ، فان الحب ھوالذی لا تنقص بالجفاء ولا یزاد بالوفاء فان بقی عند تسلیط اسباب البلاء ظھران ذالک الحب کان حقیقتاً ۔ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو محبوب کی سختی سے گھٹتا نہیں اور اس کے وفا کرنے سے بڑھتا نہیں بلکہ حقیقی محبت وہ ہے جو مصائب وشدائد میں بھی برقرار رہے۔ اسی لئے ارشاد ہوا کہ بغیر مجاہدہ اور صبر کے اور اطاعت الٰہی میں خلوص قلب کے ساتھ کوشش کرنے کے دخول جنت کی امید فضول ہے۔ اسباب رحمت کو ترک کرنا غضب کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ اور تم لوگ شہادت کی تمنا رکھتے تھے ، اللہ نے وہ مبارک موقع مہیا کردیا اور تم نے موت کو کھلی آنکھوں دیکھ لیا اب اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں یعنی اگر کبھی کفار کو عارضی غلبہ بھی نصیب ہو تو اس میں مومنین کے لئے شہادت اور قرب الٰہی کے اسباب موجود ہوں گے ۔ نیز بددل ہونے کی بجائے ان کمزوریوں کا پتہ لگانا چاہیے کہ کہاں سے سنت خیرالانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دامن چھوٹا کہ اتباع سنت کے ساتھ کامیابی یقینی ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 130 تا 138 اضعافاً (دوگنا) مضاعفة (دوگنے سے بھی زیادہ) سارعوا (تم دوڑو) عرضھا (اس کا پھیلاؤ) السرآء (خوشی، راحت) الضراء (تکالیف، پریشانیاں) الکاظمین (برداشت کرنے والے، پی جانے والے) العافین (معاف کردینے والے) فاحشة (بےحیائی) ظلموا انفسھم (اپنے نفسوں پر ظلم و زیادتی کی) لم یصروا...  (ضد نہیں کرتے) علیٰ مافعلوا (اس پر جو انہوں نے کیا) نعم (بہترین) اجرالعٰلمین (کام کرنے والوں کا بدلہ) سنن (طریقے) سیروا (تم چلوپھرو) عاقبة (انجام) بیان (وضاحت) ۔ تشریح : آیت نمبر 130 تا 138 گذشتہ آیات میں اللہ نے فرمایا کہ صبر وتقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور جب بھی صبر وتقویٰ کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے گا تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور ہوجائیں گے۔ ان آیات میں پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ صبر وتقویٰ کیا ہے اور صابرومتقی کون لوگ ہیں اور ان کے کیا کیا اوصاف ہیں۔ دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو تقویٰ اور پرہیزگاری کے ماحول کو تباہ کردیتے ہیں۔ فرمایا کہ کسی معاشرہ کی تباہی کا سب سے پہلا بڑا سبب سودی کاروبار ہے۔ جب تک اس سے بجات حاصل نہیں کی جائے گی اس وقت تک تقویٰ اور پرہیز گاری کی فضا قائم ہونا مشکل ہے کیونکہ حلال روزی تقویٰ کی جڑ اور بنیاد ہے۔ جو شخص سود کھانے والا ہوگا اس میں صبر وتقویٰ کی کیفیت پیدا ہی نہیں ہوسکتی اس لئے فرمایا گیا کہ صبر وتقویٰ کے لئے بنیاد ترک سود ہے۔ اور سود بھی وہ جو کہ سارے معاشرے اور مجبورلوگوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ یوں تو سود کا کچھ بھی نال رکھ لیا جائے ، اس کی کوئی بھی شکل ہو چنددر چند ہو یا نہ ہو۔ مہاجن کا سود ہو یا بینک کا سود بہرحال مطلقاً حرام ہے۔ لیکن وہ سود جو چنددرچند ہو وہ تو انسانی نقطہ نظر سے بھی انتہائی ذلیل چیز ہے جس سے پچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ یہودیوں کی ذلیل اور گھٹیا ذہنیت کا ایک بنیادی سبب سود خوری بھی ہے لہٰذا اہل ایمان کو اس سے پچنے کی ہر ممکن تدبیر کرنا چاہیے ۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ ہر صاحب ایمان کو اللہ اور اس کے رسول کی مکمل پیروی کرنا چاہیے اسی میں آخرت کی وہ کامیابی ہے جو اس کے لئے جنت کی ابدی راحتوں کی شکل میں اسے عطا کی جائے گی۔ اصل دین یہ نہیں ہے کہ سود در سود کے چکر میں پھنسا رہے بلکہ اپنے سے کمزوروں پر رحم کرنے کے لئے دن رات اپنی دولت کو نچھاور کرتا رہے خواہ حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔ فرمایا گیا کہ غصہ کو پی جانے والے دوسروں کی خطائیں معاف کردینے والے کوئی خطا ہوجائے تو اس پر ندامت کا اظہار کرنے والے اللہ کو بہت پسند ہیں اور یہی کامیاب اور بامراد لوگ ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ جو فرمایا کہ اصل سے کوئی حصے زائد کرکے۔ یہ سود کے حرام ہونے کی قید نہیں کیونکہ سود قلیل ہو یا کثیر سب حرام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سود خوری آدمی میں لالچ پیدا کرتی ہے۔ احد میں درّہ چھوڑنے کے پیچھے لالچ ہی کار فرما تھا۔ حرمت سود سے پہلے بعض صحابہ بھی اس کام میں ملوّث تھے۔ جس کے منفی اثرات کا نتیجہ تھا کہ جونہی درّے پر مامور اصحاب نے مجاہدین کو مال غنیمت لوٹتے ہوئے دیکھا تو اپنے کمانڈر سے بےقابو ہو کر غنائ... م اکٹھا کرنے پر ٹوٹ پڑے۔ اس اخلاقی کمزوری کو دور کرنے کے لیے حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود کو چھوڑ دو تاکہ تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکو اور اس آگ سے ڈرو جو اللہ کے حکم کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ بغاوت اور انکار کی روش اختیار کرنے کی بجائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی شفقت و مہربانی نازل کرتا رہے۔ دنیا کے مال کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور جنت کے حصول کے لیے جلدی کرو۔ دنیا کا مال عارضی، اس کی سہولتیں ناپائیدار ‘ یہاں کے بنگلے اور محلاّت مسمار اور دنیا کے باغ و بہار ویرانوں میں تبدیل ہونے والے ہیں جبکہ جنت کے باغات سدا بہار اور اس کی نعمتیں لا محدود اور ہمیشہ رہنے والی ہیں جو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردگی کا شکار ہوجایا کرتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس مقصد کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِيْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَأُوْا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ( اور سائے ہیں لمبے لمبے) ۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فی صفۃ خیام الجنۃ .....] ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے پاس وہی جائے گا دوسرا کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔ “ مسائل ١۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود خوری چھوڑ دینا چاہیے۔ ٢۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ ٣۔ اللہ کے نافرمان اور سود خوروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے۔ ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہوتی ہے۔ ٥۔ اللہ کی بخشش اور اس کی جنت کے لیے جلدی کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فائدے : ١۔ اللہ کی شفقت و مہربانی حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٢۔ اللہ کی محبت اور بخشش حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ٣١) ٣۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعمال ضائع ہونے سے محفوظ ہوتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (الاحزاب : ٧١) ٥۔ قیامت کے دن انبیاء، صدیقوں، شہداء اور صلحاء کا ساتھ نصیب ہوگا۔ (النساء : ٦٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تمام ہدایات یہاں عین اس وقت جاری ہیں کہ سیاق کلام میں جنگی معرکہ پر بحث شروع ہونے والی ہے ۔ اور ان سے یہاں اسلامی نظریہ حیات کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت کی طرف اشارہ مطلوب ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات انسانی شخصیت اور اس کی سرگرمیوں کو ایک جامع نقطہ نظر سے دیکھتا ہے ۔ اور انسان اور اس کی تگ ودو کو...  ایک ہی محور کے گرد گھماتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی میں اللہ وحدہٗ لاشریک کی اطاعت اور پرستش کرنی ہے ۔ ہر معاملے میں صرف اس کی طرف متوجہ ہونا ہے ۔ اور صرف اسلامی نظام حیات ہی پوری زندگی پر حاوی کرنا ہے اور انسانی شخصیت کے تمام احوال اور تمام حالات پر اسلامی نظام حیات کو غالب کرنا ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اسے رائج کرنا ہے۔ اس کے بعد یہ ہدایات انسانی زندگی کی بوقلمونیوں کے درمیان اس ربط کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور سعی انسانی کے آخری نتائج میں اس ربط کے اثرات بھی بیان کئے جاتے ہیں ‘ جیسا کہ اس سے قبل ہم بیان کر آئے ہیں ۔ اسلامی نظام زندگی نفس انسانی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لیتا ہے ‘ وہ جماعت مسلمہ کی زندگی کو پوری طرح منظم کرتا ہے ۔ وہ اس کے درمیان بخرے بخرے کرکے کوئی فیصلہ نہیں کرتا ۔ اس لئے وہ میدان کارزر کے لئے سازوسامان بھی تیار کرتا ہے اور افراد کار کے اندر صلاحیت جنگ بھی پیدا کرتا ہے ۔ وہ اہل ایمان کے دلوں کو بھی پاک کرتا ہے ۔ ان کے ذہنوں کی تطہیر کرتا ہے ‘ انسان کے اندر ایسی اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے کہ وہ ہوائے نفس اور جسمانی خواہشات پر قابو پاسکیں ۔ جماعت مسلمہ کے اندر محبت ‘ ملنساری پیدا کی جاتی ہے اور یہ تمام اوصاف ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ۔ جب ہم ان تمام خصوصیات پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے اور ان ہدایات میں سے ہر ایک کی تفسیر کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تمام اوصاف وہدایات کا جماعت مسلمہ کی عملی زندگی کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ اور یہ اوصاف میدان جنگ اور میدان حیات دونوں میں جماعت مسلمہ کی تقدیر کے ساتھ مربوط ہیں ۔ سود اور سودی نظام معیشت پر بحث فی ظلال القرآن پارہ سوئم میں تفصیل کے بیان ہوچکی ہے ۔ اس لئے یہاں ہم اس پوری بحث کو دہرانا مناسب نہیں سمجھتے ۔ لیکن یہاں اضعاف مضاعفہ کے الفاظ پر غور کرنا مناسب ہوگا۔ اس لئے کہ ہمارے زمانے کے بعض لوگ ان الفاظ کی آڑ لے کر یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ اضعاف مضاعفہ ہے ۔ رہا وہ سود جو چار فیصد ہو ‘ پانچ فیصد ہو ‘ سات فی صد ہو ‘ نوفی صد ہو تو وہ اضعاف مضاعفہ نہیں ہے ‘ لہٰذا وہ حرام نہیں ہے ۔ اس کی تردید میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ اضعاف مضاعفہ کی قید دراصل نزول قرآن کے وقت موجود واقعی صورتحال کا اظہار کرتی ہے ‘ یہ قید اس حکم کو محدود اور مشروط نہیں کرتی ۔ سورة بقرہ میں جو آیت وارد ہے وہ قطعی ہے ۔ اور ربا کی ہر صورت کو حرام قرار دیتی ہے ۔ اس لئے اس میں کوئی قید وحد نہیں ہے ۔ وہاں یہ الفاظ نہیں وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا……………” سود میں سے جو کچھ باقی ہے اسے چھوڑدو۔ “ چاہے وہ سود جس شرح سے بھی ہو۔ “ اس اصولی بحث کے بعد اب ہم بتائیں گے کہ ربا کے ساتھ اس صفت اضعاف مضاعفہ کی قید کیوں عائد کی گئی ہے ؟ صرف یہ کہ یہ صفت سودی نظام کی تاریخ کی طرف اشارہ کررہی ہے جس میں سودی کاروبار دوچند چہار چند شرح سے کیا جاتا تھا۔ بلکہ یہ بتاتی ہے کہ سود کی شرح جو بھی ہو سود کے تباہ کن نظام کے ساتھ یہ صفت اضعاف مضاعفہ ایک لازم صفت ہے ۔ سودی نظام کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں پوری دولت کی گردش اس نظام کے مطابق شروع ہوتی ہے ‘ اس لئے سودی کاروبار میں سرگرمیاں سود مفرد کی طرح سادہ سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔ اس گردش کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مال کی منتقلی بار بار ہوتی رہتی ‘ اس لئے وہ سود مرکب میں تبدیل ہوجاتا ہے ‘ اس لئے بار بار سودی چارج کی وجہ سے بالآخر سود کی رقم کئی گنا ہوجاتی ہے ۔ اور وہ بلاجدال اضعافاً مضاعفہ بن جاتی ہے ۔ اس لئے اپنے مزاج کے اعتبار سے سودی نظام میں دولت دوگنی چوگنی بنتی جاتی ہے۔ اس لئے اضعاف مضاعفہ کا اطلاق اس صورت حال کے اندر منحصر نہ ہوگا جو نزول قرآن کے وقت عرب سوسائٹی میں مروج تھی بلکہ ہر دور میں ہر قسم کے سودی نظام کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ دوگنا چوگنا ہوتا رہتا ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے تیسرے پارے میں تفصیلات دی ہیں ‘ اس نظام کی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کی نفسیات اور اخلاق پوری طرح بگاڑ دیتا ہے ۔ نیز یہ نظام ملک کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال کو بھی پوری طرح خراب کردیتا ہے ۔ اس لئے اس سودی نظام کے اثرات امت کی اجتماعی زندگی پر پڑتے ہیں اور امت کے انجام پر اس کے اثرات ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے تیسرے پارے میں ذکر کیا ہے۔ اسلام جس وقت امت مسلمہ کی تخلیق کررہا تھا ‘ وہ اس امت کے لئے ایک اخلاقی اور نفسیاتی نظام حیات کی بنیاد بھی رکھ رہا تھا ‘ وہ اس نئی امت کی سیاسی اور اقتصادی زندگی کو بھی صحت مندانہ اصولوں پر استوار کررہا تھا ‘ اس سلسلے میں اس نئی امت کو معرکے درپیش ہوئے اور ان کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ تاریخ اسلام کے معروف ومشہور واقعات ہیں ‘ اس لئے جنگی واقعات کے درمیان میں اچانک حرمت ربا کا ذکر بھی قابل فہم ہے اس لئے کہ اسلامی نظام حیات ایک جامع اور حکیمانہ نظام ہے ۔ نیز ربا کی ممانعت کے بعد یہ کہنا کہ اللہ سے ڈرو اور یہ امید رکھو کہ تم پر رحم کیا جائے گا اور پھر یہ کہنا کہ اس آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ‘ یہ دونوں باتیں بھی اس نقطہ نظر سے قابل فہم ہوجاتی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ سے ڈرتا ہو اور اس کے دل میں اللہ کا خوف ہو وہ ہرگز سود نہیں کھاسکتا ‘ نیز جس شخص کے دل میں عذاب جہنم کا خوف ہو ‘ وہ بھی ہر گز سود خور نہیں ہوسکتا ۔ بالفاظ دیگر جو شخص بھی ایمان رکھتا ہو اور اپنے آپ کو کافروں کی لائن سے نکالنا پسند کرتا ہو وہ کبھی سود خور نہیں ہوسکتا ۔ ایمان صرف خالی خولی باتوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام حیات کے قیام اور پوری زندگی کو اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لئے ایمان کو ہر اول دستہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات محال ہے کہ ایمان اور سودی نظام ایک جگہ جمع ہوجائیں جہاں سودی نظام قائم ہوگا ‘ وہ سوسائٹی پوری کی پوری دین اسلام سے خارج تصور ہوگی اور اس کا انجام اس آگ میں ہوگا جسے فی الحقیقت کافروں کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ اس مسئلے میں جو بھی بحث کی جائے وہ غیر ضروری بحث ہوگی ‘ اس لئے کہ اس آیت میں پہلے سودی کاروبار کی ممانعت کی گئی ہے ۔ اس کے بعد اہل ایمان کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کا خوف کریں اور اس حکم پر عمل کریں اور اس آگ سے بچیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ یہ مضمون اس نہج پر بےمقصد نہیں لایا گیا نہ اتفاقیہ طور پر اس طرح بیان کردیا گیا ہے ۔ یہ سب ہدایات بامقصد ہیں ‘ بطور تاکید لائی گئی ہیں اور مسلمانوں کے ذہن میں اس حقیقت کو اسی مفہوم میں بٹھانا مقصود ہے ۔ انہیں یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر وہ سودی کاروبار ترک کردیں گے تو وہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں گے ‘ اس لئے کہ کامیابی صرف اللہ کے تقویٰ کے نتیجے میں مل سکتی ہے ۔ تقویٰ کا طبعی انجام فلاح ہے۔ اور فلاح اس لئے کہ انسانوں کی زندگی میں اسلامی نظام قائم کیا جائے ۔ پارہ سوئم میں ہم تفصیل سے بیان کر آئے ہیں کہ اس منحوس سودی نظام نے انسانی معاشروں کو کس طرح تباہ کیا ہے ۔ اور پوری انسانیت کو اس نظام نے کن کن مصائب میں مبتلا کئے رکھا ہے ۔ مناسب ہے کہ پارہ سوئم میں دی گئی مباحث کو ایک بار پھر ذہن نشین کرلیاجائے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ اسلامی نقطہ نظر سے فلاح کا تصور کیا ہے اور یہ کہ کس طرح فلاح اس بات پر موقوف ہے کہ ہم اس خبیث سودی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سود کھانے کی ممانعت اور مغفرت خداوندی کی طرف بڑھنے میں جلدی کرنے کا حکم ابھی غزوہ احد کا واقعہ پورا مذکور نہیں ہوا اس کا بہت سا حصہ باقی ہے۔ درمیان میں بعض گناہوں سے خصوصی طور پر بچنے کا حکم فرمایا اور تقویٰ کا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم فرمایا اور بعض ... طاعات کی ترغیب دی اور اہل اطاعت کے اخروی بدلہ کا تذکرہ فرمایا۔ غزوہ احد میں مسلمانوں سے جو حکم کی خلاف ورزی ہوگئی تھی۔ جس کا ذکر آیت شریفہ (اَنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا) میں فرمایا ہے یہاں عمومی طور پر گناہوں سے بچنے اور اطاعت میں لگنے کا حکم فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ گناہ عمومی طور پر مصیبتوں کو لانے والے ہیں اور اطاعات مصائب کو دور کرنے کا سبب ہیں اور آخرت میں مغفرت اور جنت ملنے کا ذریعہ ہیں خاص کر سود لینے کی ممانعت فرمائی۔ یہ گناہ ایسا ہے جو انسان کو خالص دنیا دار بنا دیتا ہے۔ سود خوروں کے دلوں میں تقویٰ اور خوف باقی نہیں رہتا مال زیادہ ہوجانا ہی ان کا وظیفہ زندگی بن جاتا ہے۔ اور مخلوق پر رحم کھانے کا ان میں جذبہ رہتا ہی نہیں۔ یہ جو فرمایا ہے کہ چند در چند سود نہ کھاؤ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ تھوڑا بہت کھانا جائز ہے۔ کیونکہ سود کا ایک درہم لینا بھی حرام ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ سود کا ایک درہم بھی کوئی شخص کھاتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ وہ سود کا ہے تو وہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٤٦: ازاحمد و دارقطنی) جو لوگ سود پر رقمیں دیتے ہیں عموماً ان کے اصل مال سے سود کا مال بڑھ جاتا ہے۔ اور ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ماہانہ مقررہ فیصد پر رقم قرض دیتے ہیں پھر جب وقت پر ادا نہیں ہوتا تو اصل اور سود دونوں پر سود لگا دیتے ہیں اور جب تک اصل رقم اور سود ادا نہ ہوگا ہر ماہ سود بڑھتا ہی رہے گا۔ اصل پر اور سود پر برابر سود کا اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس طرح سے اضعافاً مضاعفہ (چند در چند گنا) ہوتا چلا جاتا ہے۔ سود خوروں میں جو طریقہ مروج ہے آیت کریمہ میں اس کا ذکر فرما دیا ہے۔ کوئی سود خور فاسق یہ نہ سمجھ لے کہ تھوڑا بہت سود ہو تو جائز ہے (العیاذ باللّٰہ من ذالک) سود خوری کا خصوصی ذکر اس جگہ غزوہ کے ذیل میں بیان فرمانا اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سود خور کا جہاد میں حوصلہ نہیں ہوسکتا وہ اپنے مال کی وجہ سے ایمان کے تقاضے پورا کرنے سے عاجز رہے گا سود کے بارے میں جو وعیدیں حدیث شریف میں وارد ہوئیں ان کا تذکرہ آیت کریمہ (اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ ) کے ذیل میں گزر چکا ہے اور بھی معلومات متعلقہ سود وہاں لکھی جا چکی ہیں۔ سود سے بچنے کا حکم دینے کے بعد تقویٰ کا حکم فرمایا اور اس کو کامیابی کا سبب بتایا پھر دوزخ کی آگ سے بچنے کا حکم دیا۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے ہر گناہ دوزخ کی طرف کھینچنے والا ہے۔ گناہوں سے بچنا ہی دوزخ سے بچنا ہے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ (اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ) یعنی دوزخ کی آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ اصل مقام کافروں ہی کا ہے۔ مسلمانوں کا گناہوں میں مبتلا ہو کر اس مقام میں جانا نہایت شرم کی بات ہے دشمن کی جگہ تو یوں بھی نہیں جانا چاہیے چہ جائیکہ عذاب کی جگہ پہنچنے کی راہ ہموار کی جائے اور عذاب بھی معمولی نہیں بلکہ سخت در سخت ہے۔ ان مومن مخلص بندوں کی حرص کریں جو جنت ہی کے کاموں میں لگے رہتے ہیں اور جنت متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے جیسا کہ انہیں آیات میں مذکور ہے تقویٰ اختیار کرکے جنت میں جائیں جو مومنین کا اصل مقام ہے گناہوں میں مبتلا ہو کر دوسری راہ کیوں اختیار کریں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

197 حضرت شیخ نے فرمایا کہ ترغیب الی القتال کے بعد یہاں سے لیکر وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ تک ترغیب الی الانفاق ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کیوں نہیں کرتے خرچ کرنا تو درکنار تم تو کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتے ہو آؤ اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دوزخ کی آگ سے بچنے، اللہ تعا... لیٰ کی رحمت ومغفرت کے استحقاق اور دخول جنت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی طرف ایک عجیب انداز سے ترغیب فرمائی ہے پہلے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کی سپرٹ پیدا کی اس کے بعد اچانک سود خوری سے ممانعت کے احکام نازل فرمادئیے۔ سودی کاروبار سے ممانعت بھی در اصل روح جہاد کی تقویت کے لیے ہے جہاد میں جان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اور جو شخص اس قدر بخیل اور کنجوس ہو کہ اگر کسی قرض دے تو اس پر بھی سود وصول کرے اور خدا کے لیے قرض حسنہ کے طور پر ذرہ بھر کسی سے ہمدردی نہ کرسکے تو اس سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ پیاری جان کی قربانی دے گا۔ اس لیے سود پر قرض دینے منع فرمایا اور اس کے ضمن میں ہمجنسوں سے ہمدردی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سبق دیا۔ اَضعَافاً مُّضَاعَفَةً (دونے پر دونا) کی قید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہاں سود مرکب سے منع کیا گیا ہے اور سود مفرد سے منع نہیں کیا گیا بلکہ یہ قید مراعات واقع کیلئے ہے کیونکہ جاہلیت میں سود مرکب (سود در سود) کا زیادہ رواج تھا۔ اس لیے اس سے منع فرمایا۔ لہذا اس قید سے سود مفرد کی حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا (روح ص 55 ج 4، کبیر ص 72 ج 3) یا یہ صفت سود خوری کی مزید قباحت ظاہر کرنے کے لیے ہے قالہ الشیخ الانور (رح) تعالیٰ وَاتَّقُوْ اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ سود خوری سے ممانعت کے بعد خدا سے ڈرنے کا حکم دیا گیا تاکہ پہلے تقویٰ کو مخدوش کرنے والے اعمال کا سدباب ہوجائے اور پھر تقویٰ اپنی کامل صورت میں جلوہ گر ہو۔ امید فلاح کو خوف خدا پر مرتب کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مومن کو امید وبیم اور خوف ورجاء کے درمیان رہنا چاہیے۔ ایک طرف خدا کے عذاب سے ڈرتا رہے اور دوسری طرف اس کی رحمت ومغفرت کی امید بھی رکھے نہ بیباک ہوجائے اور نہ ناامید۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 5 اے ایمان والو ! تم کئی کئی گنے بڑھا بڑھا کر اور کئی کئی حصے زائد کر کے سود نہ کھائو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی اور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے۔ سورۂ بقرہ میں ہم سود کی تفصیل عرض کرچکے ہیں، عام طور سے وہاں کے سود خوروں کے دو طریقے تھے ایک یہ کہ سود پر روپیہ قرض...  دیا اور میعاد پر وصول نہ ہوا تو سود کو اصل میں ملا کر پوری رقم پر سود شروع کردیا پھر اگر وصول نہ ہوا تو اس سود کو اصل میں ملا دیا جیسا ہندوستان کے بنیئے کیا کرتے ہیں اور اس کو سود در سود کہتے ہیں اور کمپنی نے قصداً مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے قانوناً اس کو ہندوستان میں جاری کیا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کسی نے کوئی چیز قرض خریدی اور ایک مدت مقرر کردی۔ مدت پر روپیہ وصول نہ ہوا تو سود بڑھا کر اور مہلت دے دی۔ دوسری مدت پر روپیہ وصول نہ ہوا تو اور مہلت دے دی اور سود بڑھا دیا اور ہر مہلت پر ایسا ہی کرتے رہے۔ چونکہ یہ طریقے ان کے ہاں رائج تھے۔ اور اسی کو اضعافا مضاعفہ کہتے ہیں اس لئے آیت میں اس بڑھا بڑھا کر سود کھانے سے منع فرمایا اضعاقا مضاعقہ کی قید واقعی ہے احترازی نہیں۔ جیسا کہ بعض اہل باطل کہتے ہیں کہ دونے پر دونے کی حرمت ہے دونے سے کم ہو تو جائز ہے حالانکہ یہاں مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہے یہ قید ایسی ہے جیسے کوئی کہے مسجد حرام میں غیبت نہ کرو یا عالم کے سامنے جھوٹ نہ بولو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مسجد حرام کے باہر غیبت جائز ہے یا غیر عالم کے روبرو جھوٹ بولنا جائز ہے۔ اضعافا مضاعفہ کی تفصیل ہم قرض حسنہ کے بیان میں واقع کرچکے ہیں بنی نضیر کے یہودی ثقیف کے عربوں سے ایسا ہی سود وصول کیا کرتے تھے بہرحال سود تھوڑا ہو یا بہت سود کی سب قسمیں حرام ہیں جیسا کہ تیسرے پارے میں گزر چکا ہے اور اگر یہاں وہ سود مراد ہو جو مسلمانوں نے شہدائے احد کو دیکھ کر کہا تھا کہ ہم ستر مسلمانوں کا بدلہ معہ سود کے وصول کریں گے تو ظاہر ہے کہ پھر اس حکم کا مطلب یہ ہوگا کہ قابو پانے کے بعد بھی عدل و انصاف سے کام کرو اور کافروں کے قتل کرنے میں شرعی احکام کی رعایت رکھو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید سود کا ذکر یہاں اس واسطے فرمایا کہ اوپر مذکور ہوا جہاد میں نامرادی کا اور سود کھانے سے نامردی آتی ہے دو واسطے ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق طاعت کم ہوتی ہے اور بڑی طاعت جہاد ہے۔ دوسرے یہ کہ سود لینا کمال بخل ہے کہ اپنا مال جتنا دیا تھا لے لیا بیچ میں کسی کا کام نکلا یہ بھی مفت نہ چھوڑے ! اس کا جدا بدلہ لینا چاہئے تو جس کو مال پر اتنا بخل ہو وہ جان کب دینا چاہے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کے منہیہ کی تفصیل ربط کی تقریر میں مذکور ہوچکی فلاح پانے کا مطلب یہ ہے کہ جنت میسر ہوجائے اور دوزخ سے بچ جائو۔ اب آگے جہنم سے بچنے کی تاکید ہے جو اصل میں کافروں کی جگہ ہے لیکن بعض گناہگار مسلمان بھی اس میں داخل ہوں گے خواہ دائمی طور پر نہ رہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more