Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 135

سورة آل عمران

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۳۵﴾

And those who, when they commit an immorality or wrong themselves [by transgression], remember Allah and seek forgiveness for their sins - and who can forgive sins except Allah ? - and [who] do not persist in what they have done while they know.

جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالٰی کے سِوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی بُرے کام پر اَڑ نہیں جاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ ... And those who, when they have committed Fahishah or wronged themselves with evil, remember Allah and ask forgiveness for their sins. Therefore, if they commit an error they follow it with repentance and ask forgiveness. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said t... hat the Prophet said, إِنَّ رَجُلً أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْهُ A man once committed an error and said, `O Lord! I committed an error, so forgive me.' فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدِي عَمِل ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي Allah said, `My servant committed an error and knew that he has a Lord Who forgives or punishes for the error. I have forgiven My servant.' ثُمَّ عَمِلَ ذَنْبًا اخَرَ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي عَمِلْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْهُ The man committed another error and said, `O Lord! I committed an error, so forgive me.' فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالى عَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ ربًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي Allah said, `My servant knew that he has a Lord Who forgives or punishes for the sin. I have forgiven My servant.' ثُمَّ عَمِلَ ذَنْبًا اخَرَ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي عَمِلْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْهُ لِي The man committed another error and said, `O Lord! I committed an error, so forgive me.' فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ ربًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي Allah said, `My servant knew that he has a Lord Who forgives or punishes for the error. I have forgiven my servant.' ثُمَّ عَمِلَ ذَنْبًا اخَرَ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي عَمِلْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْهُ لِي He then committed another error and said, `O Lord! I committed an error, so forgive me.' فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ ربًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَعْمَلْ مَا شَاء Allah said, `My servant knew that he has a Lord Who forgives or punishes for the error. Bear witness that I have forgiven My servant, so let him do whatever he likes.' A similar narration was collected in the Sahih. Abdur-Razzaq recorded that Anas bin Malik said, "I was told that when the Ayah, وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ (And those who, when they have committed Fahishah or wronged themselves with evil, remember Allah and ask forgiveness for their sins), was revealed, Iblis (Shaytan) cried." Allah's statement, ... وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ ... and none can forgive sins but Allah, means that none except Allah forgives sins. Allah said, ... وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ And do not persist in what (wrong) they have done, while they know. for they repent from their error, return to Allah before death, do not insist on error, and if they err again, they repent from it. Allah said here, وَهُمْ يَعْلَمُونَ (while they know), Mujahid and Abdullah bin Ubayd bin Umayr commented, "Whoever repents, then Allah will forgive him." Similarly, Allah said, أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ Know they not that Allah accepts repentance from His servants. (9:104) and, وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَّحِيماً And whoever does evil or wrongs himself but afterwards seeks Allah's forgiveness, he will find Allah Oft-Forgiving, Most Merciful. (4: 110) and there are several examples similar to this Ayah. Next, Allah said after this description,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

135۔ 1 یعنی جب ان سے بتقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو فوراً توبہ استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢١] آیت کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ پرہیزگار لوگ دیدہ دانستہ نہ کوئی برا کام کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سہواً بہ تقاضائے بشریت ان سے ایسے کام سرزد ہوجاتے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگنے لگتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ا... للہ تعالیٰ یقینا معاف بھی کردیتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر اس برے کام یا غلطی کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ یقینا معاف فرما دے گا۔ لیکن اگر اس کا اثر دوسروں کے حقوق پر پڑتا ہو تو اس کی تلافی کرنا یا اس شخص سے قصور معاف کروانا ضروری ہے اور یہ استغفار کی ایک اہم شرط ہے۔ [١٢٢] گناہ پر اصرار کرنا یا استغفار کرنے کے بعد وہی گناہ پھر کرتے جانا اصل گناہ سے بڑا گناہ ہے اور جو لوگ یہ کام کریں وہ یقینا متقی نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک گناہ سرزد ہوگیا تو اس کی معافی مانگ لی، پھر دوسرا ہوگیا۔ اس کی بھی اللہ سے معافی مانگ لی، پھر کوئی اور ہوگیا اس کی بھی معافی مانگ لی۔ اس طرح اگر دن میں ستر بار بھی اللہ سے معافی مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ تعالیٰ خطا کار کے معافی مانگنے پر صرف اسے معاف ہی نہیں فرماتا بلکہ اس سے خوش بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گناہ کے بعد اس کی معافی نہ مانگنا بھی اس پر اصرار کے مترادف ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے اپنے گناہ کی معافی مانگ لی۔ اس نے ضد نہیں کی اور دوسری حدیث میں ہے۔ جس نے توبہ کی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزہد، ذکر التوبہ)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً : یعنی اگر بشری تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ایک آدمی نے گناہ کیا تو کہا : ” اے میرے رب ! میں نے...  ایک گناہ کیا ہے، تو مجھے وہ بخش دے۔ “ تو اللہ عزوجل نے فرمایا : ” میرے بندے نے ایک گناہ کیا تو اس نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے، سو میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ “ پھر اس نے ایک اور گناہ کیا اور کہا : ” اے میرے رب ! میں نے ایک اور گناہ کیا ہے، تو اسے بخش دے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے، (فرشتو ! گواہ رہو کہ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا پھر اس نے ایک اور گناہ کیا تو کہا اے میرے رب ! میں نے ایک اور گناہ کیا ہے، تو اسے بخش دے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے (فرشتوں گواہ رہو کہ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا سو وہ جو چاہے کرے۔ “ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : (یریدون أن یبدلوا کلام اللہ) : ٧٥٠٧۔ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ۔۔ : ٢٧٥٨ ] 2 وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا : اصرار کے معنی ہیں اڑ جانا اور بےپروائی سے گناہ کرتے جانا۔ نہ ان پر ندامت کا اظہار کرنا اور نہ توبہ کرنا۔ ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے، جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا ہے۔ ” وہم یعلمون “ یعنی کسی کام کے گناہ ہونے کا علم ہونے پر اس پر اصرار نہیں کرتے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء : (١٧، ١٨)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Upto this point, the text describes qualities of character that relate to the fulfillment of human rights. Following this, come qualities that relate to the rights of Allah where it has been said that true Muslims do not disobey Allah. Should they ever fall in sin under the compulsions of human weakness, they immediately turn to Allah, repent, seek His forgiveness and resolve to abstain from that ... sin in future. This character of true Muslims appears in the text in the following words: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُ‌وا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُ‌وا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ‌ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّ‌وا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ ...and those who, when they happen to commit a shameful act or wrong themselves, remember Allah, then, seek forgiveness for their sins - and who is there to forgive sins except Allah? - and they do not persist in what they have done, knowingly.(135) The verse tells us that involvement in sin is caused by one&s negli¬gence in remembering Allah. So, the instruction is: If a sin has been committed, one should immediately turn to Allah, renew the zeal to obey Him and start remembering Him as He should be remembered. Another point of guidance here tells us that forgiveness of sins depends on two things: 1. To regret past sins, seek pardon for these and to pray for forgiveness. 2. To resolve fully not to go near them in future. May Allah Almighty bestow upon us the good fortune to become possessed with these supreme morals identified by the Holy Qur&an. Aamin.  Show more

ارشاد ہے : والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون) جس میں ایک تو یہ ہدایت کی گئی کہ گناہوں میں مبتلا ہونا اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر سے غفلت کے سبب ہوتا ہے، اس لئے جب کوئی گناہ سرزد ہو اللہ تعالیٰ کی یاد کو فورا ... تازہ کرنا چاہئے، اور ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہئے۔ دوسری یہ ہدایت ہے کہ گناہوں کی معافی کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں، ایک پچھلے گناہوں پر ندامت اور اس سے معافی مانگنا اور مغفرت کی دعا کرنا، دوسرے آئندہ کے لئے اس کے پاس نہ جانے کا عزم مکمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کے بتلائے ہوئے اخلاق فاضلہ نصیب فرمادے۔ اللھم آمین   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۝ ٠ ۠ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۝ ٠ ۣ۠ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ١٣٥ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، ... وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ صر الْإِصْرَارُ : التّعقّد في الذّنب والتّشدّد فيه، والامتناع من الإقلاع عنه . وأصله من الصَّرِّ أي : الشّدّ ، والصُّرَّةُ : ما تعقد فيه الدّراهم، والصِّرَارُ : خرقة تشدّ علی أطباء الناقة لئلا ترضع . قال اللہ تعالی: وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران/ 135] ، ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِراً [ الجاثية/ 8] ، وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح/ 7] ، وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة/ 46] ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي، وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت/ 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات/ 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ. ( ص ر ر ) الاصرار کسی گناہ پر سختی ہے جم جانا اور اس سے باز نہ آنا اصل میں یہ صر سے ہے جس کے معنی باندھنے کے ہیں اور صرۃ اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں نقدی باندھ کر رکھ دی جاتی ہے اور صرار ( پستان بند ) اس لتہ کو کہتے ہیں جس سے اونٹنی کے تھن باندھ دیئے جاتے ہیں تاکہ اس کا بچہ دودھ نہ پی سکے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران/ 135] اور وہ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران/ 135] مگر پھر غرور سے ضد کرتا ہے ۔ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح/ 7] اور اڑگئے اور اکڑبیٹھے ۔ وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة/ 46] اور گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے ۔ الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت/ 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات/ 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٥) یہ آیت انصار میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے قبیلہ ثقیف کی ایک عورت کی طرف دیکھا تھا اور ہاتھ وغیرہ لگا یا تھا (اس کے بعد ندامت اور سر پر مٹی ڈال کر توبہ و استغفار کرنے کے لیے دور نکل گیا) اور ایسے لوگ جب کوئی دیکھنے، چھونے کا کام جذبات میں آکر کرجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ... ہیں اور فورا اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کون توبہ قبول کرنے والا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث ہے، اس پر قائم نہیں رہتے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٥ (وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ ) (فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف) یہ مضمون سورة النساء میں آئے گا کہ کسی مسلمان شخص سے اگر کوئی خطا ہوجائے اور وہ فوراً توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کی توبہ ضرور قبول ... فرمائے گا۔ (وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اللّٰہُ قف) (وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ) یعنی ایسا نہیں کہ گناہ پر گناہ کرتے چلے جا رہے ہیں کہ موت آنے پر توبہ کرلیں گے۔ اس وقت کی توبہ توبہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان سے اگر جذبات کی رو میں بہہ کر یا بھول چوک میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ ہوش آنے پر اللہ کے حضور گڑگڑائے ‘ عزم مصمم کرے کہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا ‘ اور پوری پشیمانی کے ساتھ صمیم قلب سے اللہ کی جناب میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(135 ۔ 136) ۔ جس طرح اوپر کی آیت کو لڑائی سے ایک طرح کا تعلق تھا جس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے اسی طرح اس آیت کو بھی لڑائی سے ایک تعلق ہے۔ چناچہ ابی صالح نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی انصاری اور دوسرے ثقفی میں دینی بھائی چارہ کرا دیا ت... ھا۔ اتفاق سے ثقفی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی پر گیا اور انصاری مدینہ میں رہا اور اس ثقفی نے لڑائی پر جاتے وقت اپنی بی بی کی خبر گیری انصاری کو سونپی یہ انصاری اپنے دینی بھائی کی بی بی کو سواد سلف بازار سے لادیا کرتا تھا۔ ایک دن انصاری نے بازار سے گوشت لاکر کواڑ کی جہری میں سے دیا۔ اور اس عورت نے کواڑ کی دراز میں سے ہاتھ نکال کر گوشت لے لیا۔ اس عورت کا ہاتھ دیکھ کر انصاری کی نیت بگڑ گئی۔ اور گوشت لے کر جب وہ عورت مڑی تو یہ انصاری بھی اس کے پیچھے گھر کے اندر گھس گیا اور عورت کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ اتنے میں خدا نے ہدایت کی فورًا عورت کا ہاتھ چھوڑ کر گھر کے باہر چلا آیا۔ اور بہت نادم ہوا اور اپنے سر پر خاک ڈالی اور جنگل اور پہاڑوں میں ندامت زدہ پھر تارہا۔ ثقفی نے لڑائی سے واپس آ کر اپنے دینی بھائی کا حال اپنی بی بی سے پوچھا۔ عورت نے کہا خدا اس طرح کے دینی بھائی مسلمانوں میں نہ پڑھاوے یہ کہہ کر سارا قصہ اپنے خاوند سے بیان کیا۔ ثقفی انصاری کی تلاش میں نکلا۔ اور اس کو جنگل میں ڈھونڈھ کر پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس لایا اور ساراقصہ نقل کیا۔ انصاری نے بھی اپنے قصور کا اقرار کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے انصاری سے فرمایا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کو لڑائی پہ جانے والے لوگوں کی اہل و عیال کی کیا کچھ عزت و حرمت مدنظر ہے پھر ثقفی اور انصاری حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور حضرت عمر (رض) نے بھی وہی فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا تھا۔ پھر یہ دونوں آنحضرت کے پاس آئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو لوگ کبیرہ یا صغیرہ گناہ کر کے اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ ایک دن اللہ کو منہ دکھانا ہے اور اس ڈر سے فورًا توبہ استغفار کرتے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ بعد خالص توبہ کے اللہ غفور رحیم بخشنے والا ہے اس کے سوا گناہوں کا بخشنے والا کوئی نہیں۔ تو ایسے لوگوں کی اللہ عقبیٰ میں مغفرت فرما کر ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسا غفور رحیم ہے اور اس کو بخشش کی صف ایسی پیاری ہے کہ کسی طرح کا گناہ کر کے آدمی توبہ کرے تو وہ فورًا معاف کردیتا ہے بخشش کی صفت اللہ کو یہاں تک پیاری ہے کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے قسم کھا کر فرمایا کہ اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو زمین پر سے اٹھا کر بجائے تمہارے اور گنہگار مخلوق پیدا کرتا تاکہ اس کی مغفرت کرے اور اپنی پیاری صفت غفور رحیمی کا کام میں لائے ١۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو شیطان توبہ کرنے والے مسلمانوں کو اپنے ساتھ دوزخ میں لے جانے سے مایوس ہو کر بہت رویا۔ گناہ پر ہٹ کرنے اور اڑنے کے یہ معنی ہیں کہ آدمی گناہ کر کے توبہ نہ کرے۔ چناچہ ابو داؤد میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ جو شخص دن بھر میں ستر دفعہ بھی گناہ کر کے توبہ کرے۔ وہ شخص گناہوں پر ہٹ کرنے والا نہیں اس حدیث کی سند میں اگرچہ ترمذی نے کلام کیا ہے۔ مگر اور علماء نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٢ توبہ کے لئے دو رکعت نفل کا پڑھنا اور پھر توبہ کرنا یہ بھی حدیث ٣ میں آیا ہے۔ گناہ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ توبہ فورا بلا خیر ضرور ہے صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے قسم کھا کر فرمایا کہ میں دن بھر میں ستر دفعہ سے زیادہ توبہ کرتا ہوں ٤۔ اور مسلم میں اغربن یسار (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا اے لوگوں اللہ سے توبہ کرو میں تو دن بھر میں سو دفعہ تو بہ کرتا ہوں ٥۔ گناہوں کی قسمیں اور توبہ کے شروط گناہ کی دو قسمیں ہیں ایک فقط اللہ کا گناہ ہے مثلا نماز کا نہ پڑھنا روزہ نہ رکھنا۔ دوسرا وہ گناہ ہے جس میں بندوں کا حق بھی شریک ہے۔ جس طرح کا مال چرانا۔ یا کسی کی غیبت کرنا۔ اول قسم کے گناہوں کی توبہ صحیح ہونے کی یہ تین شرطیں ہیں۔ ایک تو بہ کے وقت گناہ سے بےزار ہونا دوسرے گناہ پر نادم ہونا۔ تیسرے اس وقت دل میں یہ ٹھان لینا کہ پھر ایسا کام نہ کروں اور دوسرے قسم کے گناہوں کی توبہ میں سوا ان تین شرطوں کے صاحب حق کا راضی کردینا بھی شرط ہے چناچہ اوپر اس باب میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے۔ اور یہ بھی ابھی اوپر بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیمی کی صفت بہت پیاری ہے اسی واسطے جب کوئی شخص اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بہت خوشی ہوتی ہے چناچہ صحیحین میں حضرت ابن بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ایک مسافر آدمی کا جنگل میں وہ اونٹ جس پر اس کا کھانا پینا لدا ہوا تھا کھو جائے اور پھر مل جائے تو جس قدر خوشی اس مسافر کو اپنے اونٹ کے مل جانے کی ہوتی ہے اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو خوشی ہوتی ہے۔ جبکہ گنہگار آدمی توبہ کرتا ہے اگرچہ اس آیت کی شان نزول اور طرح بھی مفسرین نے بیان کی ہے۔ لیکن یہ شان نزول جو بیان کی گئی ہے جید طریقہ سے تھی اس لئے اسی کو اختیار کیا گیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:135) لم یصروا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ انہوں نے اصرار نہیں کیا۔ جمے نہیں رہے۔ اڑے نہیں رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اگر بشر تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ معافی چاہتے ہیں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے م... یرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے میرے بندے کو معاف کردیا۔ ابن کثیر)7 اصرار کے معنی ہیں اڑجانا اور لا پر وائی سے گناہ کرتے جانا اور ان پر ندامت کا اظہار نہ کرنا ارونہ تو بہ ہی کرنا ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے۔ چناچہ ایک حدیث میں ہے ما اصر من استغفر وان عادفی الیوم اسبعین مرہ کے سچے دل سے توبہ و استغفار کے بعد اگر کسی شخص سے ایک دم میں ستر مرتبہ بھی گناہ سرزد ہوجائے تو اسے مٖصر نہیں کہا جائے گا۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) وھم یعلمون یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو شخص توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔ ابن کثیر  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسی مناسبت سے اہل ایمان کی ایک دوسری صفت کو بھی لیا جاتا ہے۔ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” جن کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی ف... حش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں …………کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو………اور دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت کس قدر کشادہ دل ہے ‘ اللہ لوگوں کو صرف اس وقت کشادہ دلی اور باہم برداشت کی دعوت دیتا ہے جب وہ خود ان کے ساتھ نہایت ہی فیاضی کا سلوک کرتا ہے اور اس کی انہیں اطلاع بھی دے دیتا ہے ‘ تاکہ وہ اپنے اندر فیاضی کا ذوق پیدا کریں اور نور خدا سے شمع روشن کریں اور اونچے اخلاق سیکھیں ۔ متقین اہل ایمان میں سے بلند مرتبت لوگ ہوتے ہیں ۔ لیکن دین اسلام کی بےمثال فیاضی ہے یہ دین ان لوگوں کو بھی متقین شمار کرتا ہے ” جن کا حال یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے یا گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً انہیں اللہ یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ۔ “ اور گناہوں سے ” فحش “ کام اسلامی نقطہ نظر سے بدترین گناہ اور بڑے گناہوں میں سے ہے لیکن یہ اس دین کی کشادہ دلی اور فیاضی ہے کہ وہ فحاشی جیسے گھناؤنے گناہ کے ارتکاب کرنے والے کو بھی راندہ درگاہ نہیں بناتا ۔ اور اس پر رحمت کے دروازے بند نہیں کئے جاتے ۔ نہ یہ دین ایسے لوگوں کو دوسرے درجے کے مسلمان قرار دیتا ہے ‘ بلکہ ان کو بھی متقین کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کرتا ہے ۔ ہاں اس مرتبے پر فائز کرنے کے لئے صرف ایک شرط ان پر عائد کی جاتی ہے اور اس شرط سے بھی اس دین کا مزاج اور اس کا رجحان اچھی طرح معلوم ہوتا ہے ۔ وہ شرط یہ ہے کہ ارتکاب معصیت کے بعد معاً وہ اللہ کو یاد کرلیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت مانگ لیں اور یہ کہ وہ اس گاہ پر اصرار نہ کریں حالانکہ وہ جانتے ہوں کہ وہ جو چھ کررہے ہیں وہ ایک معصیت ہے ۔ اور یہ کہ وہ معصیت میں بےشرمی اور بےباکی کے ساتھ غرق نہ ہوجائیں بالفاظ دیگر وہ اللہ کی بندگی کے دائرے کے اندر رہیں اور آخر کار اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوں ۔ یوں وہ اللہ کی پناہ میں رہیں ۔ وہ اس کے عفو و درگزر اور فضل وکرم کے دائرے کے اندر ہی رہیں ۔ دین اسلام کو معلوم تھا کہ انسان کمزوریوں کا پتلا ہے ‘ بعض اوقات ان بشری کمزوریوں کی وجہ اس سے فحاشی کا ارتکاب بھی ہوجاتا ہے ۔ بعض اوقات گوشت و پوست کے جسمانی میلانات جوش میں آتے ہیں اور وہ حیوانی تقاضوں کے تحت جسمانی خواہشات اور میلانات کی سطح تک اتر آتا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ جسمانی میلانات ‘ خواہشات اور رجحانات کی گرمی اور دباؤ میں اللہ جل شانہ کے احکامات کی خلاف ورزی پر بھی مجبور ہوجاتا ہے ۔ دین اسلام انسان کی اس فطری کمزوری کو مدنظر رکھتا ہے ‘ اس لئے اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہیں کرتا ۔ اور جب انسان ان خطاؤں کا ارتکاب کرکے اپنے اوپر ظلم کا ارتکاب کرے تو یہ دین اسے فوراً ہی رحمت خداوندی سے مار نہیں بھگاتا ‘ خصوصاً جبکہ وہ فحاشی کا ارتکاب کرے یا کسی گناہ کبیرہ میں پڑجائے ۔ اس کے دل میں شمع ایمان روشن ہے تو وہ اس کی دستگیری کے لئے کافی ہے ۔ اگر اس کے دل میں ایمان کے سوتے خشک نہیں ہوئے اور اس کا رشتہ تعلق باللہ بالکل کٹ نہیں گیا تو اس کے دل میں یہ احساس زندہ رہتا ہے کہ وہ انسان ہے غلطی کا پتلا ہے اور اس کا رب غفور ورحیم ہے ۔ اس لئے یہ انسان ضعیف اور خطاکار پرامید رہتا ہے اور بخیر و عافیت رہتا ہے اور اس دنیا میں اس کا سفر بند نہیں ہوتا۔ وہ ایک مضبوط رسی تھامے ہوئے ہوتا ہے اور اس کا سرا اس کے ہاتھ سے چھوٹ نہیں جاتا ۔ اس کی انسانی کمزوریاں اسے چاہے کس قدر گرائیں ‘ جب تک شمع ایمان اس کے دل میں روشن ہے ‘ وہ منزل مقصود پالے گا ۔ جب تک وہ اس مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہے وہ راہ راست پر آہی جائے گا ۔ جب تک وہ اللہ کو یاد رکھتا ہے اور اس کے دل میں خوف اللہ پایا جاتا ہے ‘ جب تک وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور اللہ کی بندگی کا اقرار کرتا ہے اور اس کی نافرمانی اکڑ کر نہیں کرتا تو وہ راہ راست پر آسکتا ہے۔ یہ دین اس مخلوق کے لئے توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا اگرچہ یہ ضعیف مخلوق وقتی طور پر گمراہی کے گڑھے میں کیوں نہ گرجائے ۔ یہ دین اس خطاؤں کے پتلے انسان کو کسی غیر آباد صحراء میں بےیارومددگار نہیں چھوڑتا ۔ وہ اسے اپنے انجام کے بارے میں مایوس وپریشان بھی نہیں چھوڑتا ۔ اسے ہر وقت مغفرت کی امید دلائی جاتی ہے ۔ اس کی راہنمائی کی جاتی ہے ۔ اس کے کانپتے ہاتھوں کو ہاتھ میں لیا جاتا ہے ۔ اس کے ڈگمگاتے قدم مستحکم اور ثابت ہوجاتے ہیں ۔ اسے شمع امید عطا کی جاتی جس میں وہ اپنی راہ پالیتا ہے اور یوں وہ محفوظ اور ماموں جائے قرار تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور پر امن سرحد میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس دین کا مطالبہ انسان سے صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ اس کے قلب سے ایمان کے سوتے خشک نہ ہوگئے ہوں۔ اس کی روحانی دنیا تاریک نہ ہوگئی ہو اور اس نے اپنے خالق حقیقی کو بھلانہ دیا ہو ۔ وہ اللہ کو یاد کررہا ہو اور اس کی روح میں وہ راہنما مینار نور موجود ہو اور اس کے دل میں اس کے ضمیر کی آواز حدی خواں ہو اور اس کی زمین میں ایمان کا نم باقی ہو تو امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے دل میں شمع ایمان دوبارہ روشن ہو ‘ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دوبارہ امن و سکون کے خطیرہ میں لوٹ آئے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے کشت زار دل میں دوبارہ ایمان کی تخم ریزی ہوسکے۔ ایک واضح مثال آپ کو بھی درپیش ہوگی ۔ تمہارا خطاکار بچہ اگر یہ یقین رکھتا ہو کہ جس غلطی کا ارتکاب اس سے ہوچکا ہے اس پر اب گھر میں ڈنڈے کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو وہ پیچھے نہیں دیکھے گا اور بھاگتا ہی رہے گا اور مزید بےراہ روی اختیار کرے گا ۔ اور کبھی گھر کو واپس نہ آئے گا ۔ لیکن اگر ڈنڈے کے ساتھ ساتھ گھر میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے والاپر شفقت ہاتھ بھی ہو جو معذرت پر اس کی اس کمزوری سے صرف نظر کرتاہو اور اسے تھپکی دیتا ہو اور جب وہ معافی مانگے تو اس کی معافی قبول ہوتی ہو تو اس صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ وہ واپس گھرآجائے۔ اسلام اس ضعیف اور خطاکار انسان کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرتا ہے ۔ خالق کو معلوم ہے کہ انسان کی شخصیت میں اگر ایک طرف ضعف اور کمزوری ہے تو دوسری جانب اس میں کچھ صلاحیت بھی ہے۔ ایک جانب اگر اس پر مادیت کا بوجھ لدا ہوا ہے تو دوسری جانب کے اس کے اندر روحانیت کی سبک رفتاری بھی ہے ۔ ایک طرف اس کی ذات میں اگر نفوس حیوانی کے میلانات ہیں تو دوسری جانب اس کے اندر ربانی رجحانات بھی ودیعت کئے گئے ہیں ۔ اس جب بھی وہ حیوانی گندگیوں میں مبتلا ہوکر نیچے گرتا ہے تو دست قدرت اس کی دستگیری کرتا ہے اور اسے اوپر کی جانب اٹھاتا ہے اور پھسلنے پر اس کو تھپکی دے کر دوبارہ اسے کھڑا کرتا ہے کہ وہ راہ راست پر رواں ہو ‘ بشرطیکہ اس کے دل میں اللہ کی یاد ہو اور وہ اپنے خالق کو بالکل بھول نہ چکا ہو ۔ اور وہ جان بوجھ کر غلطی پر نہ اڑجائے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ” جو شخص استغفار کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ غلطی پر مصر نہیں ہے اگرچہ وہ دن میں ستر مرتبہ ایسا کرے۔ (روایت ابوداؤد ‘ ترمذی اور بزار ۔ اس نے اپنی سند میں عثمان ابن واقد کی روایت سے نقل کیا ہے ۔ اگرچہ اس کی سند میں ایک نامعلوم صحابی ہیں لیکن ابن کثیر نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے ” حدیث حسن “ ) ہاں توبہ کو دروازہ کھلا رکھ کر اسلام بہرحال بےراہ روی میں لوگوں کو آزاد نہیں چھوڑتا ۔ اور نہ غلط کار اور گمراہیوں کے گڑھے میں گرنے والوں کو قابل تعریف سمجھتا ہے ۔ اور نہ اس گندگی کو حسن سے تعبیر کرتا ہے ‘ جس طرح نام نہاد ” واقعیت پسندی “ کے پیروکار کرتے ہیں ‘ ہاں اسلام صرف لغزش اور انسان کی فطری کمزوریوں کو تسلیم کرتا ہے تاکہ انسان کے اندر مایوسی پیدا نہ ہو اور شمع امید روشن رہے ۔ اس طرح اسلام شرم وحیاء کے انفعالات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انسانی کوتاہیوں پر اللہ کی جانب سے مغفرت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کے سوا اور کن ہے جو مغفرت کرسکے ۔ اسلام گناہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا البتہ اگر کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ وہ استغفار کے لئے آمادہ تو کرتا ہے لیکن وہ گناہوں کے ارتکاب میں لاپرواہی کی اجازت بھی نہیں دیتا ۔ نہ مسلسل خطاکاری کرنے اور اسے شعار بنانے کی اجازت دیتا ہے ‘ اس لئے کہ جو لوگ ارتکاب جرم کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور مسلسل گناہ پر گناہ کئے جارہے ہیں تو وہ حدود سے نکل گئے ہیں ۔ اس کے سامنے دیواریں حائل ہوگئی ہیں۔ یوں اسلام ‘ اس انسانیت کو پکارتا ہے کہ وہ بلند افق کو نصب العین بنائے ‘ لیکن اس دعوت کی پکار کے ساتھ اس پر رحمت اور شفقت کے لئے بھی ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ اس لئے کہ اسلام کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ انسان کی طاقت حدود کیا ہیں ۔ اس لئے اسلام ‘ انسان کے لئے ‘ امید کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے ۔ اور انسان کی طاقت جہاں تک ساتھ دیتی ہے وہ اسے آگے بڑھاتا ہے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے میری کتاب ” اسلام اور عالمی سلامتی “ کی فصل ” ضمیر کی سلامتی “ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توبہ استغفار کی فضیلت : پھر فرمایا (وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ ) (الآیۃ) اس میں ان لوگوں کی تعریف فرمائی جس سے کوئی فاحش گناہ سرزد ہوجائے یا کسی بھی گناہ کے ذریعہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو استغفار کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، ارشاد فرمایا ... کہ یہ لوگ اس کے بعد اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں اور اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ اس میں توبہ کی ایک بڑی شرط کی طرف راہنمائی فرمائی اور وہ یہ کہ جب گناہ ہوجائے اور توبہ کرے تو توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرے گناہ پر اصرار نہ کرے زبان سے توبہ توبہ کرے اور گناہ کے کام بھی جاری رہیں تو اس طرح توبہ نہیں ہوتی۔ اسی کو کسی نے کہا ہے ؂ سبحہ برکف توبہ برلب دل پراز ذوق گناہ معصیت راخندہ می آید براستغفار ما اور حضرت رابعہ بصریہ نے فرمایا کہ اِسْتِغْفَارُنَا یَحْتَاجُ اِلَی اسْتِغْفَارٍ کَثِیْرٍ یعنی ہمارا استغفار ایسا ہے کہ اس کے لیے بھی بہت استغفار کی ضرورت ہے کیونکہ وہ سچے دل سے نہیں ہوتا غفلت کے ساتھ جو استغفار ہے وہ مقام بندگی کے خلاف ہے۔ (ذکرہ ابن الجزری فی الحصن الحصین) اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں ہے : درمیان میں فرمایا (وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ) (کہ اللہ کے سوا وہ کون ہے جو گناہوں کو معاف فرمائے) اس میں جہاں مومن بندوں کو توجہ دلائی ہے کہ اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوں وہاں اس میں نصاریٰ کے اس عقیدہ کی بھی تردید ہے کہ جو کچھ گناہ کریں گے اتوار کے دن گرجا میں جا کر اپنے پوپ سے معاف کرا لیں گے، عام گناہوں کو تو وہ بغیر کسی درخواست کے معاف کردیتا ہے اور بعض گناہ ایسے ہیں جن کے بارے میں انہوں نے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ پوپ کے کان میں کہہ دے کہ ہم نے یہ گناہ کیا اس پر وہ معاف کردیتا ہے یہ کیسی بیہودہ بات ہے جو عقل سے بھی باہر ہے کہ انسان گناہ کرے اللہ کا اور اس کی بخشش کر دے کوئی انسان۔ نعوذ باللّٰہ من اباطیلھم و جھلھم۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

202 اس کا عطف اَلَّذِیْنَ یُنفِقُوْنَ پر ہے اور یہ متقین کے فریق ادنی کا ذکر ہے۔ ذکر اللہ تعالیٰ فی ھذہ الایۃ صنفا ھم دون الضیف الاول فالحقھم بہ برجستہ ومنہ فھؤلاء ھم التوابون (القرطبی ص 209 ج 4) فاحشہ اور ظلم نفس کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ فاحشہ سے کبیرہ گناہ اور ظلم ونفس سے صغیر... ہ گناہ مراد ہے۔ الفاحشۃ ہی الکبیرۃ وظلم النفس ہی الصغیرۃ (کبیر ص 77 ج 3، بحر ص 59 ج 3، مدارک ص 142 ج 1) اور بعض نے کہا ہے کہ فاحشہ مطلق گناہ کو کہتے ہیں اس کا تعلق خواہ بندے کی حق تلفی سے ہو یا خدا کی حق تلفی سے۔ الفاحشۃ تطلق علی کل معصیۃ (قرطبی ص 210 ج 4) اور ظلم نفس سے حقوق اللہ کا اتلاف مراد ہے۔ وظلم النفس مابین العبد وبین ربہ (بحر ص 59 ج 3) بہر تقدیر فاحشہ میں اس تیر انداز دستے کا جرم بھی داخل ہے جن کو جنگ احد میں حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پہاڑ راستے پر متعین فرمایا تھا۔ اور ان کو حکم دیا تھا کہ اگرچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوجائے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ مگر ان سے اس معاملہ میں کوتاہی ہوگئی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ وایاما کان فباطلاق الفظ ینتظم ما فعلہ المرماۃ انتظاما اولیاء (روح ص 60 ج 4) یہ آیت ان دو گروہوں کو بھی شامل ہے۔ جو منافقین کی دیکھا دیکھی ہمت ہارنے لگے تھے۔ مگر اللہ نے ان کو سنبھلنے کی توفیق دے دی۔ اسی طرح جو مسلمان جنگ احد میں پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے تھے اور بعد میں تائب ہوگئے تھے۔ وہ بھی اس میں داخل ہیں۔ ذَکَرُوْا اللہَ سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ وہ لوگ بغاوت و انکار کے جذبہ کے تحت خدا کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ احکام الٰہی سے ذہول اور وعید اخروی سے غفلت کی وجہ سے ان سے معصیت کا ارتکاب ہوجاتا ہے۔ مگر جونہی ان کو خدا کا حکم اور اس کی وعیدیں یاد آتی ہیں وہ فوراً نادم ہوجاتے اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ 203 ۔ یہ جملہ معترضہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تنبیہ فرما دی کہ اللہ کے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا نہ کوئی پیغمبر، نہ کوئی ولی اور نہ کوئی فرشتہ اس لیے اللہ کے سوا کسی کے سامنے گناہ کی معافی کی درخواست نہ کی جائے۔ وَلَمْ یُصِرُّوْ ا عَلیٰ مَافَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ یعنی جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو وہ فوراً پشیمان ہو کر خدا سے استغفار کرتے ہیں اور جان بوجھ کر گناہ پر اصرار نہیں کرتے۔ اصرار یہ ہے کہ انسان بار بار گناہ کرے اور دل سے ہر دفعہ یوں کہے کہ اچھا اب کہ گناہ کرلیتا ہوں کل توبہ کرلوں گا والاصرار ھو التسویف والتسویف ان یقول اتوب غدا (قرطبی ص 211 ج 4) تو اس اصرار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے کبھی توبہ کی توفیق نہیں ملتی اور وہ اسی طرح گناہوں میں ملوث ہی دنیا سے چل لیتا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جب وہ کوئی صریح گناہ کر بیٹھتے ہیں اور کوئی زیادتی ان سے سر زد ہوجاتی ہے یا کوئی اور کسی قسم کی زیادتی اپنی جانوں پر کر گذرتے ہیں تو فوراً ہی اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال کا دھیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حق کو یاد کرلیتے ہیں پھر اس سے اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی طلب ک... رنے لگتے ہیں اور بات بھی یہ ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور ہے بھی کون جو گناہوں کو بخشتا ہو اور گناہوں کو معاف کردیتا ہو اور وہ لوگ اپنے افعال قبیحہ پر اڑاوہٹ نہیں کرتے اور اپنے کئے پر جانتے بوجتے اصرار نہیں کیا کرتے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ایسے گناہ گار جو گناہوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں لیکن گناہ کے بعد فوراً ہی ان کو تنبیہ ہوتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی گرفت کا تصور کر کے گناہ معاف کرانے کی فکر میں لگ جاتے ہوں اور توبہ کرنے لگتے ہوں اور توبہ بھی کامل کرتے ہوں اور وہ یہ کہ پھر اس گناہ پر اڑتے نہ ہوں اور اس پر ہٹ نہ کرتے ہوں اور دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرتے ہوں اور ان کی حالت یہ ہو کہ وہ جانتے ہوں کہ ہم نے گناہ کیا ہے اور گناہ کی توبہ ضروری ہے اور یہ بھی جانتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ توبہ کا قبول کرنے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والا ہے تو ایسے مسلمان بھی متقیوں میں شامل ہیں اگرچہ یہ لوگ کم درجہ کے متقی ہیں۔ آیت میں دو قسم کے گناہوں کی طرف اشارہ فرمایا ایک کو فاحشہ فرمایا اور دوسرے کو اپنی جانوں پر فلم سے تعبیر کیا۔ فحش کے معنی قبیح اور حد سے نکل جانے کے ہیں۔ عام طور سے اس کا اطلاق زنا پر ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے یہاں کبیرہ گناہ مراد ہوں اور ظلموا علی انفسھم سے مراد صغیرہ ہوں یا فحشا سے مراد زنا ہو اور ظلموا انفسھم سے مراد زنا سے کم درجے کی چیزیں ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فاحشہ سے مراد حقوق العباد ہوں اور دوسرے گناہوں سے مراد حقوق اللہ ہوں۔ غرض قرآن کے ان دو جملوں میں ہر قسم کے گناہ داخل ہیں خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں بندوں کے ہوں یا صرف اللہ تعالیٰ کے ہوں۔ ذکر واللہ کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے یا قلب سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی عظمت و جلال اس کے وعدے اور وعید اس کا حق عبادت و اطاعت یاد کر کے توبہ استغفار میں مشغول ہوگئے اگر بندے کے حق میں خیانت کی تھی تو توبہ کے ساتھ ساتھ بندے سے بھی اس کا حق معاف کردیا اور اس کا حق اس کو پہنچایا اور اگر صرف حق اللہ کا تھا تو اس سے معافی چاہی اور اس کے روبرو و خشوع اور خضوع سے گڑگڑائے اصرار نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں ہی کے ہور ہیں یا گناہ پر فخر کریں اور اپنے گناہوں کی تعریف کریں یا توبہ کرتے وقت گناہ کا پھر ارادہ ہو اور توبہ سے ترک فعل کا پختہ ارادہ نہ ہو اور اپنے گناہ پر ندامت نہ ہو یہ سب صورتیں اصرار میں داخل ہیں وھم یعلمون کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ گناہ پر اصرار کرنا خود مستقل ایک گناہ ہے اور یہ عقیدہ خدا کے خوف کی وجہ سے ہو یعنی اعمال کی اصلاح بھی کرتے ہوں اور عقائد بھی درست ہوں۔ ضحاک نے کہا یہ جانتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ مغفرت کا مالک ہے حسین بن فضل نے کہا وہ یہ بات جانتے ہوں کہ ان کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کردیتا ہے بعض نے کہا ان کا یہ عقیدہ ہو اللہ تعالیٰ کی عظمت ایسی ہے کہ خواہ گناہ کتنے ہی ہوں وہ سب معا فکر دیتا ہے ۔ بعض نے کہا وہ یہ جانتے ہوں کہ جب استغفار کیا جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآن میں دو آیتیں ایسی ہیں کہ جو گناہ کا مرتکب ان آیتوں کو پڑھتا ہے اور پھر استغفار کرتا ہی تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخشدیتا ہے ایک تو یہی والذین اذا فعلوا کی آیت اور دوسری پانچویں پارے کی آیت ومن یعمل سوء ا او یظلم نفسہ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھ سے گناہ ہوگیا تو اس کو بخشدے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ میرا رب جو گناہ پر پکڑتا اور گناہ کو معاف کردیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ بخشدیا پھر بندے سے کوئی اور گناہ ہوجاتا ہے پھر وہ عرض کرتا ہے اے میرے رب مجھ سے قصور ہوگیا ت و معاف فرما دے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا رب گناہ پر گرفت کرتا ہے اور گناہ کو معاف کردیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ بخشدیا ۔ پھر اس بندے سے ایک تیسرا گناہ ہوجاتا ہے وہ بندہ پھر معافی مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر معاف کردیتا ہے اور فرماتا ہے اب وہ جو چاہے کرے یعنی خواہ وہ کچھ کرے اگر مجھ سے بخشش کی درخواست کرتا رہے گا تو میں معاف کرتا رہوں گا یعنی اسے مجھ سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ (احمد بخاری مسلم) حضرت ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا کہ میں خطا بخش ہوں اور گناہ معاف کرنے پر قدرت رکھتا ہوں تو اس شخص کے گناہ معاف کر دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں بشرطیکہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ (طبرانی) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو شخص اپنے گناہوں پر استغفار کرتا رہتا ہے وہ اصرار کرنے والوں میں شمار نہیں ہوتا خواہ اس سے ستر بار گناہ کا ارتکاب کیوں نہ ہو۔ (ابو دائود ترمذی) حضرت صدیق اکبر (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ گناہوں پر قائم رہتے ہوئے استغفار کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی اپنے رب سے مذاق کرتا ہو۔ (بیہقی) امام احمد کی مسند میں ہے کہ جس شخص سے کسی گناہ کا صدور ہوجائے اور وہ وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھے اور اللہ سے بخشش طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے مسلم میں اتنا اور زائد ہے کہ وضو کے بعد کہے اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمدا عبدہ و رسولہ ۔ پھر دو رکعتیں پڑھے اور گناہ معاف کرائے تو اس کا گناہ بخش دیا جاتا ہے۔ ابن کثیر نے اس روایت کی توثیق کی ہے۔ انس بن مالک کا قول ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جب یہ آیت والذین اذا فعلوا کی نازل ہوئی تو شیطان رویا۔ (عبدالرزاق) عطاف بن خالد فرماتے ہیں مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس آیت کے نزول پر شیطان بہت رویا اور جب اس کی ذریت نے رونے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا کتاب اللہ میں ایک آیت نازل ہوئی ہے اس آیت کے بعد بنی آدم کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچائے گا انہوں نے دریافت کیا وہ کونسی آیت ہے تو شیطان نے یہ آیت بتائی اس کی ذریت نے کہا ہم ان پر اہوا اور خواہشات نفسانی کے دروازے کھول دیں گے جن کی وجہ سے وہ گناہوں کو اچھا سمجھنے لگیں گے اور توبہ کی طرف مائل نہ ہوں گے۔ اس پر شیطان مطمئن ہوا۔ فقیر کہتا ہے کہ ہمارے زمانے میں یہی حالت ہے کہ لوگ گناہوں کے ارتکاب پر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ بدترین گناہوں کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں اور اہل بدعت کی تو عام طور پر یہی حالت ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک صدیق اکبر (رض) سیایک اور مرفوع روایت ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم لا الہ الا اللہ اور استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ شیطان نے کہا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہالک کیا اور لوگوں نے مجھ کو لا الہ الا اللہ اور استغفار سے ہلاک کردیا جب میں نے دیکھا تو میں نے ان کو اہوا اور خواہشات نفس سے ہلاک کیا وہ گناہ کرتے ہیں اور گناہ کو اچھا سمجھتے ہیں۔ (ابو یعلی) اب آگے ان لوگوں کی جزا اور ان کے صلے کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more