Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 140

سورة آل عمران

اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۴۰﴾ۙ

If a wound should touch you - there has already touched the [opposing] people a wound similar to it. And these days [of varying conditions] We alternate among the people so that Allah may make evident those who believe and [may] take to Himself from among you martyrs - and Allah does not like the wrongdoers -

اگر تم زخمی ہوئے ہو تو تمہارے مخالف لوگ بھی تو ایسے ہی زخمی ہو چکے ہیں ، ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں ( شکست احد ) اس لئے تھی کہ اللہ تعالٰی ایمان والوں کو ظاہر کردے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے ، اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ... If a wound has touched you, be sure a similar wound has touched the others, Therefore, the Ayah says, if you suffered injuries and some of you were killed, then your enemies also suffered injuries and fatalities. ... وَتِلْكَ الايَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ... And so are the days, that We give to men by turns, and at times -- out of wisdom -- We allow the enemy to overcome you, although the final good end will be yours. ... وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ امَنُواْ ... and that Allah may know (test) those who believe, According to Ibn Abbas, meaning, "So that We find out who would be patient while fighting the enemies." ... وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء ... and that He may take martyrs from among you. those who would be killed in Allah's cause and gladly offer their lives seeking His pleasure. ... وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

140۔ 1 ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتداء میں اسی طرح زخمی ہوچکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح و شکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کردیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] جنگ بدر میں کافروں کو اس سے زیادہ صدمہ پہنچا تھا۔ اسوقت کافروں کے ستر سردار قتل ہوئے تو ستر گرفتار بھی ہوئے۔ جب کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کا ایک آدمی بھی گرفتار نہ ہوا۔ کیونکہ با لآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور قریش مکہ کو پسپا ہونا پڑا تھا۔ اس آیت میں شکستہ دل مسلمانوں کو ڈھارس بندھائی جارہی ہے۔ پھر اس شکست کی بعض حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خوشی اور غمی، فتح و شکست، کامرانی و ناکامی، خوشحالی و تنگدستی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں میں ہر کسی کو پیش آتی رہتی ہیں۔ اس لیے اگر مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست ہو بھی گئی تو غمزدہ اور بددل ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ انہیں کافروں کی طرف دیکھنا چاہئے جو میدان بدر میں بری طرح مار کھانے کے باوجود پھر سے نئے عزم کے ساتھ باطل کی حمایت میں لڑنے آگئے ہیں۔ دوسری حکمت اس غزوہ میں یہ ہے کہ سچے مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجائے، جسے تم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ (وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ١٤٠؁ۙ ) 3 ۔ آل عمران :140) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا درجہ نصیب ہو۔ [١٢٧] ظالم لوگوں سے مراد وہی منافقوں کی جماعت ہے جو عبداللہ بن ابی کے ساتھ واپس چلی گئی تھی اور جس موقعہ پر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو یہ لوگ مسلمانوں میں بددلی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ یعنی اگر ” احد “ کے دن تمہیں مشرکین کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے تو تم بھی بدر کے دن انھیں اسی قسم کا نقصان پہنچا چکے ہو اس لیے یہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں۔ ” اَلْحَرْبُ سِجَالٌ“ (لڑائی میں باریاں ہوتی ہیں) جب بھی دو گروہوں میں جنگ ہوئی ہے تو کبھی ایک کا پلڑا بھاری رہا ہے، کبھی دوسرے کا۔ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ : جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا۔ یہود اور منافقین کے طعنے مزید دل دکھانے کا باعث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور ہزیمت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ فتح و شکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے، یہ حق اور ناحق کا معیار نہیں، آج اگر تم نے زخم کھایا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھاچکے ہیں اور خود اس جنگ کے شروع میں ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں، جیسا کہ اس آیت ( اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ ) [ آل عمران : ١٥٢ ] ” جب تم انھیں اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے “ سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہاری اس شکست میں بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ایک یہ کہ ایمان و اخلاص اور کفر و نفاق میں تمیز ہوگئی، مومن اور منافق الگ الگ ہوگئے، اگر ہمیشہ مسلمانوں کو فتح ہوتی تو منافقین کا نفاق ظاہر نہ ہوتا۔ دوسری مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی، فرمایا ( وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ) جو اللہ کے ہاں بہت بڑا شرف ہے، کفار کی اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے، فرمایا : ( ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ) ” اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ “ تیسری یہ کہ مومنوں کو خالص کرے، اگر ان میں کچھ کمی ہے تو دور کر دے، فرمایا : ( وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا )” اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو خالص کر دے جو ایمان لائے “ اور چوتھی یہ کہ کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصود ہے، ( وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ ) اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرور ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہوگی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لیں گے۔ چناچہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفار نے دفاعی جنگیں تو لڑیں مگر خود حملے کی جرأت نہ کرسکے۔ (رازی۔ شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse that follows gives consolation to Muslims from another angle. It has been said that if Muslims were wounded or hurt in that particular battle, so also were those fighting against them. If seventy Muslim men were martyred with many wounded, is it not that they had condemned an identical number of their enemies to Hell, and wounded many, a year ago? Then, in this very battle, many a men from the enemy ranks were killed and wounded initially. So, when the text says: إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْ‌حٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْ‌حٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ If you receive a wound, they have received a similar wound. And such days we rotate among the people.. It guides us to another important principle and rule of procedure. In this mortal world, the customary practice of Allah Almighty is to cause the days of hardship and ease, pain and comfort, suffering and peace occur among people by turns. If, for some reason, a falsely-motivated power succeeds in getting a short-lived upper hand, the group motivated by the truth should not lose heart and come to think that, from this point onwards, they are always doomed to nothing but defeat. Instead of taking this negative attitude, they should rather go about finding out the causes of that defeat, and once they have discovered those, they should take corrective measures and eliminate all possibilities of repeating those mistakes. In the end, the group moti¬vated by the truth shall emerge as the ultimate victor.

لہذا فرمایا (ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ وتلک الایام نداولھا بین الناس) یعنی اگر تم کو زخم پہنچا تو ان کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے، اور ہم ان ایام کو باری باری بدلتے رہتے ہیں، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس آیت میں ایک اہم ضابطہ اور اصول کی طرف رہنمائی فرمائی وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عادت اس عالم میں یہی ہے کہ وہ سختی، نرمی، دکھ، سکھ، تکلیف و راحت کے دنوں کو لوگوں میں ادل بدل کرتے ہیں، اگر کسی وجہ سے کسی باطل قوت کو عارضی فتح و کامرانی حاصل ہوجائے تو جماعت حقہ کو اس سے بد دل نہیں ہونا چاہئے، اور یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم کو اب ہمیشہ شکست ہی ہوا کرے گی، بلکہ اس شکست کے اسباب کا پتہ لگا کر ان اسباب کا تدارک کرنا چاہئے، انجام کار فتح جماعت حقہ ہی کو نصیب ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۝ ٠ ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝ ٠ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٤٠ ۙ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی قرح القَرْحُ : الأثر من الجراحة من شيء يصيبه من خارج، والقُرْحُ : أثرها من داخل کالبثرة ونحوها، يقال : قَرَحْتُهُ نحو : جرحته، وقَرِحَ : خرج به قرح «4» ، وقَرَحَ قلبُهُ وأَقْرَحَهُ الله، وقد يقال القَرْحُ للجراحة، والقُرْحُ للألم . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] ، إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ [ آل عمران/ 140] ( ق ر ح ) القرح ( بفتح القاف ) کسی خارجی اثر سے ہونے والے زخم کو قرح کہا جاتا ہے اور اندرونی طور پیدا ہونے والے زخم ( جیسے پھنسی وغیرہ کا زخم کو قرح قرحتہ ( ف ) کے معنی زخمی کرنے کے ہیں مگر کبھی لازم بھی آتا ہے جیسے قرح قلبہ ( اس کا دل زخمی ہوگیا واقربتہ ( اسے زخمی کیا وقرح کیا وقرح زخمی ہوجانا کبھی قرح کا لفظ زخم اور قرح اس دور دوا الم پر بولا جاتا ہے زخمی کی وجہ سے ہو قرآن میں ہے مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] باوجود زخم کھانے کے ۔ إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ [ آل عمران/ 140] اگر تمہیں زخم ( شکشت لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے ۔ دول الدَّوْلَة والدُّولَة واحدة، وقیل : الدُّولَة في المال، والدَّوْلَة في الحرب والجاه . وقیل : الدُّولَة اسم الشیء الذي يتداول بعینه، والدَّوْلَة المصدر . قال تعالی: كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ [ الحشر/ 7] ، وتداول القوم کذا، أي : تناولوه من حيث الدّولة، وداول اللہ كذا بينهم . قال تعالی: وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 140] ، والدّؤلول : الدّاهية والجمع الدّآلیل والدّؤلات ( د و ل ) الدولۃ والدلۃ ۔ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی گردش کرنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ دولۃ کا لفظ مال وزور کے گھومنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور دولۃ لڑائی اور عزت دجاہ کے اولےٰ بدلنے پر ۔ بعض نے ان دونوں میں یہ فرق کیا ہے کہ دولۃ اسم ہے اور اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ لین دین کیا جائے اور دولۃ بضم الدال مصدر ہے یعنی لین دین کرنا قرآن میں ہے : ۔ كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ [ الحشر/ 7] تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے ۔ تداول القوم کذا کسی چیز کو دولت کیطرح باری باری لینا ۔ اللہ تعالیٰ نے بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لوگوں کے درمیان اسے گما یا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 140] أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٠۔ ١٤١) اگر غزوہ احد کے دن تمہیں کوئی صدمہ پہنچ جائے تو اسی طرح کا صدمہ وغم مکہ والوں کو بدر کے دن پہنچ چکا ہے، کیوں کہ ہمارا دستور ہے کہ دنیا کے حالات کو ہم اسی طرح بدلتے رہتے ہیں، کبھی مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ دے دیا اور کبھی کفار کو غلبہ دے دیا تاکہ میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دیکھ لیں، پھر جس کو وہ چاہیں شہادت کی وجہ سے عزت و شرافت عطا فرما دیں اور حق تعالیٰ مشرکین اور ان کے دین اور ان کی دولت کو پسند نہیں کرتے، اور تاکہ اللہ تعالیٰ جہاد میں جو باتیں پیش آئیں ان پر اللہ اہل ایمان کی مغفرت فرمائے اور لڑائی میں کفار کو ملیامیٹ کردے۔ شان نزول : (آیت) ” ویتخذ منکم شہدآء “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ جب عورتوں پر احد کے دن (غلط بات مشہور ہونے کے بعد) صورت حال کی تحقیق میں دیر ہوئی تو وہ معلومات کرنے کے لیے نکلیں دیکھا کہ دو آدمی اونٹ پر آرہے ہیں تو ایک عورت نے ان سے پوچھا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا اطلاع ہے، ان سواروں نے کہا کہ آپ زندہ ہیں، تو وہ عورت بولی اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلامت ہیں تو) اب کسی بات کا فکر نہیں اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے اپنے بندوں کو شہید کر دے تو اسی عورت کے الفاظ کے مطابق قرآن کریم کی یہ (آیت) ” ویتخذ منکم شھدآء “۔ نازل ہوگئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠ (اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ط) اہل ایمان کو غزوۂ احد میں اتنی بڑی چوٹ پہنچی تھی کہ ستر صحابہ (رض) ‘ شہید ہوگئے۔ ان میں حضرت حمزہ (رض) بھی تھے اور مصعب بن عمیر (رض) بھی۔ انصار کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان جب مدینہ واپس آئے تو ہر گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اس وقت تک میت پر بین کرنے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ عورتیں مرثیے کہہ رہی تھیں ‘ بینَ کر رہی تھیں ‘ ماتم کر رہی تھیں۔ اس حالت میں خود آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے الفاظ نکل گئے : لٰکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِی لَہٗ ! (١) ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والیاں بھی نہیں ہیں ! کیونکہ مدینہ میں حضرت حمزہ (رض) کی کوئی رشتہ دار خواتین نہیں تھیں۔ حمزہ (رض) تو مہاجر تھے۔ انصار کے گھرانوں کی خواتین اپنے اپنے مقتولوں پر آنسو بہا رہی تھیں اور بین کر رہی تھیں۔ پھر انصار نے اپنے گھروں سے جا کر خواتین کو حضرت حمزہ (رض) کی ہمشیرہ حضرت صفیہ (رض) کے گھر بھیجا کہ وہاں جا کر تعزیت کریں۔ بہرحال دکھ تو محمد ‘ ٌ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پہنچا ہے۔ آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینے کے اندر ایک حسّاس دل تھا ‘ پتھر کا کوئی ٹکڑا تو نہیں تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرما رہا ہے کہ اتنے غمگین نہ ہو ‘ اتنے ملول نہ ہو ‘ اتنے دل گرفتہ نہ ہو۔ اس وقت اگر تمہیں کوئی چرکالگا ہے تو تمہارے دشمن کو اس جیسا چرکا اس سے پہلے لگ چکا ہے۔ ایک سال پہلے ان کے بھی ستر افراد مارے گئے تھے۔ ّ (وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ج) یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ‘ ہیں۔ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کسی قوم کو ہم ایک سی کیفیت میں نہیں رکھتے۔ (وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) اگر امتحان اور آزمائش نہ آئے ‘ تکلیف نہ آئے ‘ قربانی نہ دینی پڑے ‘ کوئی زک نہ پہنچے تو کیسے پتا چلے کہ حقیقی مؤمن کون ہے ؟ امتحان و آزمائش سے تو پتا چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہا۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے ‘ دیکھنا چاہتا ہے ‘ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کس نے اپنا سب کچھ لگا دیا ؟ کس نے صبر کیا ؟ (وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ ط) ۔ انہیں اپنی گواہی کے لیے قبول کرلے۔ (وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ) اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے کفار کی مدد کی ہے اور ان کو پسند کیا ہے (معاذ اللہ ! )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

100. This alludes to the Battle of Badr. The intention is to point out to the Muslims that if the unbelievers were not demoralized by the setback they suffered at Badr then the Muslims should not be disheartened by the setback thev suffered in the Battle of Uhud. 101. The actual words of this verse, can be interpreted in two ways. One meaning could be that God wanted to select some of them so that He could bestow upon them the honour of martyrdom. The second meaning could be that out of the hotch-potch of true believers and hypocrites which their community consisted of at that moment, God wanted to sift those who were truly His witnesses over all mankind. (See Qur'an 2: 143 - Ed.)

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :100 اشارہ ہے جنگ بدر کی طرف ۔ اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس چوٹ کو کھا کر کافر پست ہمت نہ ہوئے تو اس چوٹ پر تم کیوں ہمت ہارو ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :101 اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشُھَدَآءَ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا ، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزت بخشنا چاہتا تھا ۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے اس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اس وقت مشتمل ہو ، ان لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شُھَدَآ عَلَی النَّاس ہیں ، یعنی اس منصب جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے امت مسلمہ کو سرفراز کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں کفار مکہ کے سترسردار مارے گئے تھے اور ستر قید کیے گئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:140) یمسسکم۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ تم کو لگتا ہے ۔ تم کو پہنچتا ہے۔ تم کو چھوتا ہے۔ قرح۔ کسی بیرونی سے سے پہنچنے والا زخم۔ مثلاً تلوار کا زخم۔ القرح۔ اندر سے پیدا ہونے والا زخم۔ مثلاً پھوڑا۔ پھنسی کا زخم۔ اول متعدی ہے اور باب فتح سے آتا ہے دوم لازم ہے اور باب سمع سے آتا ہے لیکن کبھی باب فتح سے آتا ہے۔ جیسے قرح قلبہ۔ اس کا دل زخمی ہوگیا۔ قرح مصدر بھی ہے۔ زخمی کرنا۔ قرح اس دکھ اور تکلیف کر بھی کہتے ہیں جو کسی زخم سے پیدا ہو۔ یہاں زخمی ہونا اور دکھ پانا مراد ہے (3:140) نداولہا۔ جمع متکلم مضارع۔ مداولہ (مفاعلۃ) ھا ضمیر واحد مؤنث مفعول ہم اس کو ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ دلو و دول ڈول (جو اوپر نیچے آتا جاتا ہے) دولۃ و دولۃ مالی چکر۔ دولت کہ وہ بھی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ آتی جاتی رہتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اگر احد کے دن تمہیں ان مشرکین کے ہا تھوں نقصان پہنچا ہے تو تم بدر کے دن انہیں اسی قسم کا نقصان پہنچا چکے ہو اور یہ کچھ پریشانی کی بات نہیں الحرب سجال جب بھی دو گروہوں میں جنگ ہوئی ہے تو کبھی ایک کا پلڑا بھارہا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ (ابن کثیر۔ شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا ” اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے ۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا تھا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سے سچے مومن کون ہیں۔ “ کشادگی کے بعد سختی اور سختی کے بعد کشادگی ‘ وہ حالات ہیں جو نفس انسانی کی خفیہ صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں ‘ اس سے لوگوں کے مزاج معلوم ہوجاتے ہیں اور یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کون نظریاتی لحاظ سے پاک ہوچکا ہے اور کس میں نظریاتی میل کچیل موجود ہے ۔ کون ہے جو جلد باز ہے اور کون ہے جو ثابت قدم ہے ۔ کون ہے جو مایوسی کا شکار ہوتا ہے اور کون ہے جسے اللہ پر مکمل بھروسہ ہے ۔ کون ہے جو تن بتقدیر سپرد کرتا ہے اور کون ہے جو راضی برضا ہوتا ہے ‘ یا خود سری اختیار کرتا ہے ؟ یہاں آکر اسلامی جماعت کی تطہیر ہوجاتی ہے اور ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون مناق ہے ۔ دونوں فریقوں کی حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے ۔ اور لوگوں کی دلی کیفیات اس دنیا کے لوگوں پر بھی منکشف ہوجاتی ہیں ۔ اس طرح اسلامی صفوں سے ہر قسم کی وہ کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں جو لوگوں کے درمیان اخلاقی اور نظریاتی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہیں جبکہ جمعیت میں مختلف الخیال اور مبہم قسم کے لوگ ہوں۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو بھی جانتے ہیں اور منافقین کو بھی جانتے ہیں ۔ اللہ علیم بذات الصدور ہیں ۔ لیکن واقعات زندگی ‘ فتح وشکست کے نتیجے میں چھپے لوگ سامنے آجاتے ہیں ‘ چھپے لوگ سامنے آجاتے ہیں ‘ چھپے ہوئے اوصاف واقعات زندگی کی صورت میں برملا ہوجاتے ہیں ۔ اب ایمان ایک ظاہری عمل کی صورت میں سامنے آجاتا ہے ۔ اور نفاق بھی متشکل اور متجسم ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ان امور پر حساب و کتاب ہوگا اور ان پر انعام وسزا بھی ہوگی ۔ اللہ ان امور پر حساب و کتاب نہیں لیتے جنہیں وہ جانتے ہیں بلکہ جزاوسزاکا دارومدار ان امور پر ہوتا ہے جو عمل میں آجاتے ہیں۔ اور زندگی کے نشیب و فراز اور سختی ونرمی کا یکے بعد دیگرے آنا ایک ایسی کسوٹی ہے جس کا نتیجہ غلط نہیں ہوتا ‘ یہ ایک ایسا ترازو ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں رہتی ۔ اس میزان میں مشکلات اور امن دونوں برابر ہیں ۔ کئی ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو مشکلات کا مقابلہ کرتی ہیں ‘ صبر اور مصابرت کرتی ہیں لیکن جب سہولت آتی ہے تو تن آسان ہوجاتی ہیں لیکن اہل ایمان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ مشکلات میں جم جاتے ہیں اور صبر کرتے ہیں لیکن جب عیش و آرام کا وقت آتا ہے تو پھر بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے ۔ ان دونوں حالتوں میں ان کی توبہ اللہ کی طرف ہوتی ہے ۔ ان کا یقین اس بات پر پختہ ہوتا ہے ۔ خوشحالی اور بدحالی دونوں میں عمل دخل ذات باری کا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کی تربیت فرما رہے تھے اور یہ تربیت اس دور میں ہورہی تھی جب جماعت مسلمہ پوری دنیا کی قیادت کا چارج لینے ہی والی تھی تو اللہ تعالیٰ نے بدر کی کامیابی اور خوشحالی کے بعد احد کی ناکامی اور برے حالات سے دوچار کرکے اسے آزمایا اور اس کی تربیت کی ۔ حیرت انگیز کامیابی اور فتح و کامرانی کے بعد اسے اچانک غیر متوقع شکست سے دوچار کرکے اسے آزمایا اور اس کی تربیت کی ۔ حیرت انگیز کامیابی اور فتح و کامرانی کے بعد اسے اچانک غیر متوقع شکست سے دوچار کردیا ۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات بےسبب نہ تھے اور دونوں ‘ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ کے عین مطابق تحت الاسباب تھے ‘ جو فتح وہزیمت کے اسباب کیا ہوتے ہیں ؟ تاکہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت میں اور پختہ ہوجائے ۔ اللہ پر اس کا توکل اور بھروسہ اور زیادہ ہوجائے ۔ وہ ذات باری کے ساتھ مزید جڑجائے اور اسلامی نظام زندگی کے مزاج اور اس کے فرائض سے حق الیقین کی طرح واقف ہوجائے۔ اب بات ذرا اور آگے بڑھتی ہے ۔ امت مسلمہ کو حکمت الٰہیہ کے کچھ اور پہلو دکھائے جاتے ہیں ۔ یہ حکمتیں اس معرکے کے واقعات کے بیان کے دوران اور زندگی کے نشیب و فراز کے آئینہ میں دکھائی جاتی ہیں یعنی مسلمانوں کی صفوں کی تطہیر اور اہل ایمان کو اہل نفاق سے چھانٹ دینے کے بعد بعض دوسری حکمتیں ؟ وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ ” اور تم میں سے بعض کو شہید کردے۔ “ یہ عجیب طرز ادا ہے جس میں گہرے معانی پوشیدہ ہیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ خود شہداء کا انتخاب فرماتے ہیں ۔ مجاہدین میں سے مقام شہادت کے لئے انتخاب ہوتا ہے اور یہ انتخاب اللہ تعالیٰ خود اپنے لئے کرتے ہیں ۔ پس یہ گویا کوئی مصیبت اور خسارہ نہیں ہے کہ کوئی اللہ کے راستے میں شہید ہوجائے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ اپنے لئے اختیار کرلیتے ہیں ‘ چھانٹ لیتے ہیں ۔ یہ گویا ان کے لئے خاص اعزاز ہوتا ہے ۔ ان کو اللہ نے چھانٹ لیا اور ان کو مقام شہادت اور مرتبہ شہادت حق پر فائز کردیا تاکہ وہ خالصتاً اللہ کے ہوجائیں اور اس کی مقرب کابینہ میں شامل ہوجائیں۔ وَیَتَّخِذَ مِنھُم…………” اللہ ان سے چن لے گا۔ “ پھر ایک مفہوم کے مطابق یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں اور یہ اپنی جان دے کر اس سچائی پر شہادت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے ۔ یہ لوگ گواہی دیتے ہیں کہ یہ پیغام ‘ پیغام حق ہے اور یہ شہادت وہ اس انداز میں اور اس اسلوب میں دیتے ہیں کہ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا اور جرح کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اور اس کے بعد بات کا فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ یہ شہادت اس مسلسل جدوجہد کے ساتھ دیتے ہیں جس کا انجام جان کا نذرانہ پیش کرنے پر ہوتا ہے اس طرح وہ اپنے خون سے اس سچائی کو تسلیم کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے اسے فیصلہ کن شکل میں پیش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان مختار لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ شہادت دیں کہ اللہ کی جانب سے جو نظریہ حیات نازل ہوا ہے وہ حق ہے ۔ وہ اس پر ایمان لاچکے ہیں ۔ وہ اس کے لئے خالص ہوگئے ہیں ۔ وہ ان کو اس قدر عزیز ہوگیا ہے کہ عزیز تراز جان ہے اور یہ کہ لوگوں کی زندگی اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک وہ اس سچائی کے مطابق نہ ہوجائے ۔ یہ کہ وہ اس پر پختہ یقین کرچکے ہیں ۔ اس لئے وہ اس امر میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں سے باطل کو ختم کردیں ‘ نکال دیں اور یہ حق پوری دنیا میں استوار ہوجائے اور لوگوں کے نظام حکومت میں بھی وہ رائج ہوجائے ۔ غرض یہ شہداء ان سب امور کے شہداء ہیں اور ان کی شہادت عبارت ہے جہاد اور موت فی سبیل اللہ سے اور یہ ایک ایسی شہادت ہے جس میں کسی قیل وقال کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اب ذرا دوسرا پہلو دیکھیں ‘ جب کوئی اپنی زبان سے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت ادا کرتا ہے ‘ یہ شہادت اس وقت تک شہادت نہیں ہوتی جب تک یہ مقر اس شہادت کے مفہوم اور تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ۔ اور مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو الٰہ نہ سمجھے ‘ باہمی مفہوم کو وہ اللہ کے سوا کسی اور مأخذ شریعت اور مأخذ قانون نہ بنائے ، اس لئے کہ الٰہ کی خصوصیات میں یہ سے مخصوص ترین خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے قانون سازی کرے ۔ اور بندوں کے حوالے سے مخصوص ترین بندگی یہ ہے کہ بندہ اپنانظام حیات اور نظام قانون اللہ تعالیٰ سے اخذ کرے ۔ اور جس کی عملی شکل یہ ہے کہ وہ قانون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اخذکرے جو اللہ کے رسول اور اس کی جانب سے شارع ہیں ۔ اور ان دومصادر کے علاوہ ان کے نزدیک قانون کا کوئی اور مصدر ماخذ نہ ہو۔ پھر اس کلمہ شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان وہ جدوجہد شروع کردے جس کے نتیجے میں اس کرہ ارض پر الوہیت اور حاکمیت صرف اللہ کی ہوجائے ۔ جس طرح اس کی تبلیغ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ۔ اور یہ شریعت اسلامی نظام حیات بن جائے ۔ یہ نظام غالب ہو اور اس کی پیروی ہونے لگے اور یہ نظام لوگوں کی پوری زندگی میں متصرف ہو اور اس کے تصرف سے زندگی کا کوئی پہلو مستثنیٰ نہ ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے ‘ اس نظریہ حیات نے یہ تقاضا کیا کہ یہ شخص اس کی راہ میں جان دے دے تو شہید نے جان دے دی ۔ اس لئے وہ ایک ایسا گواہ بن گیا جس سے اللہ نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ یہ شہادت ادا کرے ۔ اس لئے کہ اسے اللہ نے گواہی کے مقام پر فائز کیا ہے ۔ اس وجہ سے وہ شہید بن گیا ہے ۔ یہ ہے اس عجیب انداز کلام کا گہرافہم یعنی وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ……………اور یہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کا مفہوم اور مقتضاء ہے ۔ اس شہادت کا وہ مفہوم نہیں ہے ۔ جس کے مطابق یہ شہادت ایک مذاق بن جائے ‘ محض وقت کا ضیاع ہو اور اس سے رخصتیں برآمد ہوتی ہوں۔ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ……………” بےشرک ایک عظیم ظلم ہے ۔ “ صحیحین میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ میں نے سوال کیا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ حالانکہ صرف اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔ “ اس سے پہلے سیاق کلام میں جھٹلانے والوں کے بارے میں اللہ کی سنت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اور اب یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں رکھتا ۔ اس لئے بالواسطہ اس بات کی تاکید ہے کہ جھٹلانے والے اپنے منطقی انجام کو ضرور پہنچیں گے ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ محبت نہیں کرتا۔ اس انداز تعبیر کے یہ اثرات بھی سامنے آتے ہیں کہ ایک مومن ظلم اور ظالم سے نفرت کرنے لگتا ہے ۔ اور ظلم اور ظالمین کے خلاف یہ فضا پیدا کرنا حدیث جہاد اور حصول شہادت کے لئے آمادہ کرنے کے اس موقعہ کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہے ۔ اس لئے مومن اس بات کے خلاف جہاد کرتا ہے جسے اللہ مٹانا چاہتا ہے اور ان لوگوں کے خلاف جہاد کرتا ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہیں ۔ اور یہ شہادت گاہ مومن ہے ۔ اس جگہ وہ نذرانہ جان پیش کرتا ہے اور ایسے ہی لوگوں سے اللہ شہداء کا انتخاب فرماتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مسلمانوں کو تسلی ان آیات میں اول تو مسلمانوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو اس سے پہلے تمہارے دشمنوں کو بھی اس جیسا زخم پہنچ چکا ہے (کہ بدر میں ان کے بھی ستر آدمی مارے جا چکے ہیں) پھر یہ بیان فرمایا کہ ہم اہل زمانہ کا حال یکساں نہیں رکھتے یہ ایام باری باری سے بدلتے رہتے ہیں کبھی کسی کا پلہ بھاری ہوجاتا ہے اور کبھی اس کے مقابل دشمن کو غلبہ ہوجاتا ہے، اسی معمول کے مطابق پچھلے سال تمہارے دشمن مغلوب ہوگئے اور اس سال انہوں نے غلبہ پا لیا اور تم کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ واقعہ احد کی حکمتیں : اس کے بعد واقعہ احد کی بعض حکمتیں بیان فرمائیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ وہ جان لے کہ ایمان والے کون ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے مصیبت کے وقت امتحان ہوجاتا ہے اور مخلص اور غیر مخلص کی پہچان ہوجاتی ہے، چناچہ منافقین وہ معرکہ پیش آنے سے پہلے ہی واپس ہوگئے اور جو اہل ایمان تھے شکست کھا کر بھی اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہے (اللہ تعالیٰ کو علم تو ہر بات اور ہر واقعہ کا پہلے ہی سے ہے، لیکن ایک علم وہ ہے جو قبل الو قوع ہے اور ایک علم وہ ہے جو بعد الو قوع ہے اس قسم کے مواقع میں وہ علم مراد ہوتا ہے جو بعد الو قوع ہو کیونکہ یہ علم ہونا کہ اب یہ واقعہ ہوچکا یہ وقوع کے بعد ہی ہوسکتا ہے اس کو خوب سمجھ لیں) اور دوسری حکمت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کو تم میں سے شہید بنانا منظور تھا شہادت بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی قیمت اور عظمت وہی جانتے ہیں جن کا قرآن و حدیث پر ایمان ہے۔ تیسری حکمت یہ بیان فرمائی کہ اللہ کو یہ منظور تھا کہ ایمان والوں کو پاک و صاف کر دے، کیونکہ مصیبت پر صبر کرنے اور تکلیفیں جھیلنے سے اخلاق اور اعمال کا تصفیہ ہوجاتا ہے۔ چوتھی حکمت یہ بیان فرمائی کہ اللہ کو یہ منظور تھا کہ کافروں کو مٹا دے وہ اس مرتبہ غالب ہوئے تو آئندہ پھر اسی گمان سے چڑھ کر آئیں گے کہ ہمیں غلبہ ہوگا اور مسلمانوں کے مقابلہ میں آکر ہلاک ہوں گے۔ صاحب روح المعانی صفحہ ٧٠: ج ٤ میں فرماتے ہیں کہ یہاں کافرین سے وہ لوگ مراد ہیں جو احد کے موقع پر جنگ کرنے کے لیے آئے پھر کفر پر مصر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ختم کردیا اور ہلاک فرما دیا۔ پھر فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کافر جب کبھی غالب ہوجاتے ہیں تو شیطان ان کو ورغلاتا ہے اور ان کے دلوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ برابر کفر پر مصر رہیں پھر اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک فرما دیتا ہے اور ہمیشہ کے لیے وہ عذاب نار میں داخل ہوجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

208 یہ جہاد سے متعلق مذکورہ شبہ کا علی سبیل الترقی جواب ہے اور القوم سے مشرکین مراد ہیں۔ اور فَقَدْ مَسَّ الْقَوْم جزائے محذوف کے قائم مقام ہے مثلاً فَلَا تَحْزَنُوْا یعنی اگر احد میں تم نے مشرکین کی طرف سے زتو اس کا غم مت کرو وہ بھی تو بدر میں تمہارے ہاتھوں شکست کھاچکے ہیں۔ اگر احد میں تم کو شکست ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی یہ بھی ممکن ہے کہ جزائے محذوف فلا تضعفوا (بحر ص 62 ج 3، مدارک ص 143 ج 1) یعنی اگر احد میں تم کو شکست ہوئی ہے تو تم اس سے شکستہ خاطر نہ ہوجاؤ اور نہ آئندہ کے لیے جہاد میں کمزوری دکھاؤ تم دیکھتے نہیں کہ بدر میں مشرکین کو تمہارے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی مگر اس کے باوجود وہ کمزور نہیں ہوئے اور احد میں تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے لاؤ لشکر لے کر پہنچ گئے۔ جنگ احد میں ستر مسلمان شہید اور ستر زخمی ہوئے تھے۔ 209 وَلِیَعْلَمَ میں واو عاطفہ ہے۔ اور اس کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ای لیکون کیت وکیت ولیعلم الخ۔ اور معطوف علیہ محذوف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس طرف اشارہ ہوجائے کہ مداولت ایام سے مقصد صرف کھرے کھوٹے کا اظہار ہی نہیں۔ بلکہ اس میں اور بھی کئی مصلحتیں ہیں۔ (کبیر ص 82 ج 3) لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ واؤ زئداہ ہے اور لِیَعْلَمَ ما قبل کی علت ہے۔ اور یَتَّخِذَ ، لِیَعْلَمَ پر معطوف ہے اور علم سے یہاں اظہار اور تمیز مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ازل ہی سے سب کو جانتا ہے اور شہداء سے شہداء احد مراد ہیں واراد بھم شہداء احد کما قالہ الحسن قتادۃ وابن اسحاق (روح ص 69 ج 4) حاصل آیت یہ ہوا کہ ہم فتح وشکست کو تمہارے دشمنوں کے درمیان اس لیے گھماتے ہیں تاکہ مومنوں اور منافقوں کو ظاہر کر کے ایک دوسرے سے ممتاز اور الگ کردیں اور خوش قسمت مومنوں کو درجہ شہادت سے سرفراز کریں۔ ای لیری اللہ الذین ایمنوا فیمیز المؤمن من المنافق ویتخذ منکم شھداء یکرم اقواما بالشھادة (معالم ص 357 ج 1) ۔ وَاللہُ لَا یُحِبُّ الظَّا لِمِیْنَ یعنی ان کافروں ظالموں کی وقتی فتح سے ان کے حق پر ہونے کا تو کسی کے دل میں وسوسہ بھی نہ آئے اللہ تعالیٰ تو ان کو پسند ہی نہیں کرتا۔ کافروں کی یہ ہنگامی کامیابیاں تو اللہ کی تکوینی مصلحتوں کے تحت رونما ہورہی ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi