Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 145

سورة آل عمران

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۵﴾

And it is not [possible] for one to die except by permission of Allah at a decree determined. And whoever desires the reward of this world - We will give him thereof; and whoever desires the reward of the Hereafter - We will give him thereof. And we will reward the grateful.

بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا ، مُقّرر شُدہ وقت لکھا ہوا ہے ، دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دیں گے ۔ اور احسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَابًا مُّوَجَّلً ... And no person can ever die except by Allah's leave and at an appointed term. meaning, no one dies except by Allah's decision, after he has finished the term that Allah has destined for him. This is why Allah said, كِتَابًا مُّوَجَّلً (at an appointed term) which is similar to His statements, وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلاَ يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ And no aged man is granted a length of life nor is a part cut off from his life, but it is in a Book. (35:11) and, هُوَ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلً وَأَجَلٌ مُّسمًّى عِندَهُ He it is Who has created you from clay, and then has decreed a (stated) term (for you to die). And there is with Him another determined term (for you to be resurrected). (6:2) This Ayah (3:145) encourages cowards to participate in battle; for doing so, or avoiding battle neither decreases, nor increases the life term. Ibn Abi Hatim narrated that, Habib bin Suhban said that a Muslim man, Hujr bin Adi, said in a battle, "What prevents you from crossing this river (the Euphrates) to the enemy وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَابًا مُّوَجَّلً (And no person can ever die except by Allah's leave and at an appointed term)." He then crossed the river riding his horse, and when he did, the Muslims followed him. When the enemy saw them, they started shouting, "Diwan (Persian; crazy)," and they ran away. Allah said next, ... وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُوْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الاخِرَةِ نُوْتِهِ مِنْهَا ... And whoever desires a reward in the world, We shall give him of it; and whoever desires a reward in the Hereafter, We shall give him thereof. Therefore, the Ayah proclaims, whoever works for the sake of this life, will only earn what Allah decides he will earn. However, he will not have a share in the Hereafter. Whoever works for the sake of the Hereafter, Allah will give him a share in the Hereafter, along with what He decides for him in this life. In similar statements, Allah said, مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الاٌّخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِى حَرْثِهِ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُوْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِى الاٌّخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ Whosoever desires (by his deeds) the reward of the Hereafter, We give him increase in his reward, and whosoever desires the reward of this world (by his deeds), We give him thereof (what is decreed for him), and he has no portion in the Hereafter. (42:20) and, مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَـجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَأءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَـهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا وَمَنْ أَرَادَ الاٌّخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُوْمِنٌ فَأُولَـيِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا Whoever desires the quick-passing (transitory enjoyment of this world), We readily grant him what We will for whom We like. Then, afterwards, We have appointed for him Hell; he will burn therein disgraced and despised. And whoever desires the Hereafter and strives for it, with the necessary effort due for it while he is a believer, then such are the ones whose striving shall be appreciated. (17:18-19) In this Ayah (3:145) Allah said, ... وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ And We shall reward the grateful. meaning, We shall award them with Our favor and mercy in this life and the Hereafter, according to the degree of their appreciation (of Allah) and their good deeds. Allah then comforts the believers because of what they suffered in Uhud,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

145۔ 1 یہ کمزوری اور بذدلی مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی، پھر بھاگنے یا بذدلی دکھانے کا کیا فائدہ ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں ہی گی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ آگے مذید حوصلہ افزائی اور تسلی کے لئے پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے پیروں کاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٢] اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت جرات مندانہ سبق سکھلایا گیا ہے۔ جس سے میدان جنگ میں بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ موت کا تعلق میدان جنگ سے قطعاً نہیں بلکہ وہ گھر پر بھی آسکتی ہے۔ اس کا تو ایک وقت مقرر ہے اب دیکھئے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین نے بیشمار غزوات میں شرکت فرمائی لیکن چونکہ ابھی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اس لیے صحیح سلامت واپس آتے رہے اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو گھر پر بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے حضرت خالد بن ولید کا جو مقام ہے اسے سب جانتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تلوار یا نیزہ کا نشان موجود نہ ہو۔ لیکن موت میدان جنگ میں نہیں بلکہ گھر پر بستر مرگ پر ہی آئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موت کا جنگ اور میدان جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ آجاتا ہے تو کوئی انسانی تدبیر مرنے والے کو موت کے منہ سے بچا نہیں سکتی۔ [١٣٣] ایک متواتر حدیث ہے۔ (اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَاتِ ) یعنی کوئی عمل کرتے وقت انسان کی جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک ہی کام ہوتا ہے جو نیت کی تبدیلی سے کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ مثلاً دور نبوی میں ایک صحابی نے مسجد نبوی کی طرف اپنے مکان کی کھڑکی رکھی۔ آپ نے پوچھا : یہ کھڑکی کیوں رکھی ہے ؟ اس نے جواب دیا۔ && اس لیے کہ ہوا آتی جاتی رہے۔ && آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت رکھتے کہ ادھر سے آذان کی آواز آئے گی تو تمہیں ثواب بھی ملتا رہتا اور ہوا تو بہرحال آنا ہی تھی۔ اگر غور کیا جائے تو انسان کے بہت کاموں کا یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنے بال بچوں کی پرورش اور ان پر خرچ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اب اگر یہی کام ایک مسلمان اللہ کا حکم سمجھ کر کرے تو اسے اخروی زندگی میں صدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔ یعنی جو لوگ صرف دنیوی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں وہی دیتا ہے اور جو اخروی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں اخروی تو ضرور دیتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی مفاد بھی جتنا اس کے مقدر ہے اسے عطا کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنا اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھانا ہے کہ موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے سے انسان موت کے پنجے سے نجات نہیں پاسکتا، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے، جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ ( اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ) میں ” اِذْنٌ“ بمعنی علم ہے، یعنی ہر شخص کی موت کا وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” اِذْنٌ“ بمعنی قضا و قدر ہو۔ الغرض ! تمہیں چاہیے کہ موت سے بھاگنے کی فکر چھوڑ کر بےجگری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس جہاد سے تمہارا مقصود آخرت کا ثواب ہونا چاہیے، ورنہ اگر تم صرف دنیا کا ثواب، شہرت اور مال غنیمت وغیرہ ہی چاہو گے تو تمہیں صرف وہی ملے گا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر اور آخرت سے محروم رہو گے۔ یہاں ( كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ۭ ) سے مراد وہ کتاب ہے جو ” آجَالٌ“ (مقررہ اوقات) پر مشتمل ہے۔ بعض نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ احادیث میں ہے : ” اللہ تعالیٰ نے قلم سے فرمایا : ( اُکْتُبْ فَکَتَبَ مَا ھُوَ کَاءِنٌ ) ” لکھ دے، تو قلم نے جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا۔ “ [ أحمد : ٥؍٣٧٣، ح : ٢٢٧٩١ ] اس آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ احد میں حاضر ہونے والے اپنی نیتوں کے اعتبار سے دو قسم کے تھے، بعض غنیمت کے طالب تھے اور بعض آخرت کے۔ یہ آیت گو خاص جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم کے اعتبار سے عام ہے اور تمام اعمال کا مدار انسان کے ارادے اور نیت پر ہے۔ معلوم ہوا مقتول بھی موت کے مقررہ وقت پر مرتا ہے اور مقررہ وقت میں تبدیلی ناممکن ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The need to learn that crucial lesson has been taken up in the second verse as well. In order to teach steadfastness under calamities and hardships, it has been said that the death of every human being lies written with Allah Almighty. Fixed is its date, the day and the time. Death cannot come to take one away before that, nor could one continue to live after that. If so, getting scared about a certain death means nothing. Now, towards the end, there comes an admonition about one of the apparent causes of this incident. As stated earlier, the Companions who were posted by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as guards on the hill in the rear saw that fellow Muslims were busy collecting spoils following the initial victory. Some of them started thinking about the fact of victory following which there was no need for them to stay at their post. If so, they concluded, why should they too not go in there and take part in the collection of spoils? So, they moved away from where they were ordered to be. Thereupon, it was said: وَمَن يُرِ‌دْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِ‌دْ ثَوَابَ الْآخِرَ‌ةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِ‌ينَ ﴿١٤٥﴾ And whoever seeks the return in this world, We shall give him out of it, and whoever seeks the return in the Hereafter, We shall give him out of it. And We shall soon reward the grateful. (145) Here, it has been hinted that they made a mistake when they abandoned the duty assigned to them by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in order to collect spoils. At this point, let us keep in mind that, in its real sense, the collection of spoils is not the same as the unabashed pursuit of the material which has been condemned in the Shari’ ah of Islam. On the contrary, collecting spoils, depositing it in safe custody and spending it where it must be spent is all a part of Jihad, and for that matter, an act of worship. So, the Companions who took part in this mission never did it for sheer material gain, for they would have been entitled to receive their due share in the spoils of war even if they had not actively participated in the collection of spoils as guaranteed under the Islamic Law. Therefore, it cannot be said that these blessed Companions abandoned their post of duty under the temptation of worldly gains. But, as explained earlier under comments on the first verse (144), even minor mistakes made by major people draw more attention. Even an ordinary deviation from their duty is taken to be serious and they are admonished for that. This applies here as well. Granted that their collecting of spoils could be related with the desire to make worldly gains, at the most in some minor way; and equally granted is the possibility that this small connection had not influenced their hearts; yet, it was to take the morals of the noble Companions (رض) to the highest possible level that this act of theirs was identified as &the seeking of return in this world& so that even the tiniest speck of worldly temptation fails to find its way into their hearts.

اس کے بعد دوسری آیت میں بھی حوادث اور مصائب کے وقت ثابت قدم رہنے کی تعلیم دینے کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کی موت اللہ تعالیٰ کے نزدیک لکھی ہوئی ہے اس کی تاریخ، دن اور وقت معین ہے، نہ اس سے پہلے کسی کو موت آسکتی ہے نہ اس کے بعد وہ زندہ رہ سکتا ہے، پھر کسی کی موت سے ایسے سراسیمہ ہوجانے کے کوئے معنی نہیں۔ آخر میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ اس حادثہ کے ظاہری اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ جن حضرات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقب کی جانب پہاڑی پر نگراں بنا کر بٹھایا تھا، ابتدائی فتح کے وقت عام مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول دیکھ کر ان میں بھی چند حضرات کو یہ خیال پیدا ہوگیا کہ اب فتح ہوگئی، اس جگہ ٹھہرنے کی ضرورت نہ رہی، پھر ہم بھی مال غنیمت جمع کرنے میں کیوں حصہ نہ لیں ؟ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گئے، اس لئے فرمایا : (ومن یرد ثواب الدنیا نوتہ منھا ومن یرد ثواب الاخرۃ نوتہ منھا وسنجزی الشکرین) یعنی جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا بدلہ چاہتا ہے ہم اس کو دنیا میں کچھ حصہ دیدتے ہیں، اور جو آخرت کا ثواب چاہتا ہے تو اس کو آخرت کا ثواب ملتا ہے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو بدلہ دیں گے۔ اس میں اشارہ فرمایا کہ مال غنیمت جمع کرنے کی فکر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ کام کو چھوڑ بیٹھنے میں ان سے غلطی ہوئی، یاد رہے کہ حقیقت کے اعتبار سے مال غنیمت جمع کرنا بھی نری دنیا طلبی نہیں جو شرعا مزموم ہے، بلکہ مال غنیمت جمع کر کے محفوظ کرنا اور پھر اس کو اس کے مصرف میں صرف کرنا یہ بھی ایک جزو جہاد ہے، اور عبادت ہی ہے، ان حضرات صحابہ کا اس میں شریک ہونا صرف طمع دنیوی کی وجہ سے نہ تھا، کیونکہ شرعی ضابطہ سے اگر وہ اس مال کے جمع کرنے میں شریک نہ ہوتے جب بھی ان کو مال غنیمت میں وہ حصہ ملتا جو اب ملا، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے طمع دنیا کے لئے اپنے مقام کو چھوڑا، لیکن جیسا کہ پہلی آیت کی تفسیر میں بتلایا گیا ہے کہ بڑوں کی تھوڑی لغزش بھی بڑی سمجھی جاتی ہے، ان کے معمولی جرم کو بڑا سخت جرم قرار دے کر عتاب و خطاب کیا جاتا ہے، وہی یہاں بھی ہے کہ مال غنیمت جمع کرنے میں کچھ نہ کچھ دنیوی منفعت کا تعلق ضرور تھا، اور اس تعلق کا طبعی اثر قلوب میں ہونا بھی مستبعد نہ تھا، صحابہ کرام کے معیار اخلاق کو بلند سے بلند کرنے کے لئے ان کے اس عمل کو بھی ارادہ دنیا سے تعبیر کردیا کہ طمع دنیا کا ادنی سا غبار بھی ان کے قلوب تک نہ جاسکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝ ٠ ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ۝ ١٤٥ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جہاد کی ترغیب قول باری ہے (وماکان لنفس ان تموت الاباذن اللہ کتبامؤجلا، کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا ، موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے) آیت میں جہاد پر ابھارا گیا ہے اس لیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو موت نہیں آسکتی تو پھر جہاد پر جانے میں کوئی پس وپیش نہیں ہونی چاہیے۔ آیت کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی صورت میں لوگوں کو پہنچنے والے صدمے کو یہ کہہ کر زائل کیا گیا ہے کہ آپ کی وفات بھی تو اللہ کے اذن سے ہوئی ہے۔ آیت سے یہ پہلو اس لیے احتد کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا تذکرہ ان الفاظ میں گزرچکا ہے ومامحمد الارسول قد خلت من قبلہ الرّسل افان مّات او قتل انقلبتم علی اعقابکم محمد اس کے سواکچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے ؟ ) قول باری ہے (ومن یردثواب الدنیا نؤتہ منھا جو شخص ثواب دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دے دیں گے) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے کام کرے گا تو اسے دنیا ہی میں اس کا متصررحصہ دے دیاجائے گا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ابن اسحاق سے یہی تفسیر مروی ہے۔ ایک قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص جہلا کرتے ہوئے دنیا کے اجرکا ارادہ رکھے گا تو وہ مال غنیمت میں اپنے حصے سے محروم نہیں رکھاجائے گا ایک قول یہ بھی ہے کہ جو شخص نفلی عباوتوں کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہے گا جب کہ وہ اللہ کے علم میں اس وجہ سے جنت کے مستحقین میں سے نہیں ہوگا، کہ وہ کاف رہے یا اس کے اعمال حبط اور بے کار ہوگئے ہیں، تو ایسی صورتوں میں اسے دنیا ہی میں اس کی عبادتوں کا بدلہ دے دیا جائے گا، آخرت کے ثواب میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید جعلنا لہ جھنم یصلنھا مذموما مدحورا، جو کوئی دنیا کی نیت رکھے گا ہم اس کو دنیا میں سے جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے فوراہی دے دیں گے پھر ہم اس کے لیے جہنم رکھیں گے اس میں وہ بدحال اور راندہ ہوکرداخل ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٥) کسی بھی شخص کو بغیر حکم خداوندی اور مشیت الہی کے موت آنا ممکن نہیں اس کی زندگی اور روزی کی میعاد لکھی ہوئی ہے، جس میں ایک کو دوسرے پر تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی اور جو شخص اپنے عمل اور جہاد سے دنیاوی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم دنیا ہی میں اس کی نیت کے مطابق دے دیتے ہیں، البتہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ اور جو اپنے عمل اور جہاد سے آخرت میں ثواب چاہتا ہے تو ہم اسے اس کی نیت کے موافق آخرت میں دیتے ہیں اور مومنین کو ہم ان کے ایمان اور جہاد کا جلد ہی نیک بدلا دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٥ (وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ) (کِتٰبًا مُّؤَجَّلاً ط) ّاجل معین کے ساتھ ہر ایک کا وقت طے ہے۔ لہٰذا انسان کی بہترین محافظ خود موت ہے۔ آپ کی موت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے کوئی آپ کے لیے موت نہیں لاسکتا۔ (وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَاب الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا ج) (وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْہَا ط) یہ مضمون سورة البقرۃ کی آیات ٢٠٠۔ ٢٠٢ میں حج کے سلسلے میں آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. The purpose of this directive is to bring home to the Muslims that it would be futile for them to try to flee from death. No one can either die before or survive the moment determined for death by God. Hence one should not waste one's time thinking how to escape death. Instead, one should take stock of one's activities and see whether one's efforts have either been directed merely to one's well-being in this world or to well-being in the Hereafter. 105. The word thawab denotes recompense and reward. The 'reward of this world' signifies the totality of benefits and advantages which a man receives as a consequence of his actions and efforts within the confines of this world. The 'reward of the Other World' denotes the benefits that a man will receive in the lasting World to Come as the fruits of his actions and efforts. From the Islamic point of view, the crucial question bearing upon human morals is whether a man keeps his attention focused on the worldly results of his endeavours or on the results which will acrue to him in the Next World. 106. The 'ones who are grateful' are those who fully appreciate God's favour in making the true religion available to them, and thereby intimating to them knowledge of a realm that is infinitely vaster than this world. Such people appreciate that God has graciously informed them of the truth so that the consequences of human endeavour are not confined to the brief span of earthly life but cover a vast expanse, embracing both the present life and the much more important life of the Hereafter. A grateful man is he who, having gained this breadth of outlook and having developed this long-range perception of the ultimate consequences of things, persists in acts of righteousness out of his faith in God and his confidence in God's assurance that they will bear fruit in the Hereafter. He does so even though he may sometimes find that, far from bearing fruit, righteousness leads to privation and suffering in this world. The ungrateful ones are those who persist in a narrow preoccupation with earthly matters. They are those who disregard the evil consequences of unrighteousness in the Hereafter, seizing everything which appears to yield benefits and advantages in this world, and who are not prepared to devote their time and energy to those acts of goodness which promise to bear fruit in the Hereafter and which are either unlikely to yield earthly advantages or are fraught with risks. Such people are ungrateful and lack appreciation of the valuable knowledge vouchsafed to them by God.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :104 اس سے یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ موت کے خوف سے تمہارا بھاگنا فضول ہے ۔ کوئی شخص نہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے وقت سے پہلے مر سکتا ہے اور نہ اس کے بعد جی سکتا ہے ۔ لہٰذا تم کو فکر موت سے بچنے کی نہیں بلکہ اس بات کی ہونی چاہیے کہ زندگی کی جو مہلت بھی تمہیں حاصل ہے اس میں تمہاری سعی و جہد کا مقصود کیا ہے ، دنیا یا آخرت؟ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :105 ثواب کے معنی ہیں نتیجہ ، عمل ۔ ثواب دنیا سے مراد وہ فوائد ومنافع جو انسان کو اس کی سعی و عمل کے نتیجہ میں اسی دنیا کی زندگی میں حاصل ہوں ۔ اور ثواب آخرت سے مراد وہ فوائد ومنافع ہیں جو اسی سعی و عمل کے نتیجہ میں آخرت کی پائیدار زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے انسانی اخلاق کے معاملہ میں فیصلہ کن سوال یہی ہے کہ کارزار حیات میں آدمی جو دوڑ دھوپ کر رہا ہے اس میں آیا وہ دنیوی نتائج پر نگاہ رکھتا ہے یا اخروی نتائج پر ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :106 ”شکر کرنے والوں“سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اس نعمت کے قدر شناس ہوں کہ اس نے دین کی صحیح تعلیم دے کر انہیں دنیا اور اس کی محدود زندگی سے بہت زیادہ وسیع ، ایک ناپیدا کنار عالم کی خبر دی ، اور انہیں اس حقیقت سے آگاہی بخشی کہ انسانی سعی و عمل کے نتائج صرف اس دنیا کی چند سالہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم تک ان کا سلسلہ دراز ہوتا ہے ۔ یہ وسعت نظر اور یہ دور بینی و عاقبت اندیشی حاصل ہوجانے کے بعد جو شخص اپنی کوششوں اور محنتوں کو اس دنیوی زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں بار آور ہوتے نہ دیکھے ، یا ان کا برعکس نتیجہ نکلتا دیکھے ، اور اس کے باوجود اللہ کے بھروسہ پر وہ کام کرتا چلا جائے جس کے متعلق اللہ نے اسے یقین دلایا ہے کہ بہرحال آخرت میں اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلے گا ، وہ شکر گزار بندہ ہے ۔ برعکس اس کے جو لوگ اس کے بعد بھی دنیا پرستی کی تنگ نظری میں مبتلا رہیں ، جن کا حال یہ ہو کہ دنیا میں جن غلط کوششوں کے بظاہر اچھے نتائج نکلتے نظر آئیں ان کی طرف وہ آخرت کے برے نتائج کی پروا کیے بغیر جھک پڑیں ، اور جن صحیح کوششوں کے یہاں بار آور ہونے کی امید نہ ہو ، یا جن سے یہاں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ، ان میں آخرت کے نتائج خیر کی امید پر اپنا وقت ، اپنے مال اور اپنی قوتیں صرف کرنے کے لیے تیار ہوں ، وہ ناشکرے ہیں اور اس علم کے ناقدر شناس ہیں جو اللہ نے انہیں بخشا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: اس سے اشارہ مال غنیمت کی طرف ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف مال غنیمت حاصل کرنے کی نیت سے جہاد میں شریک ہوگا، اسے مال غنیمت میں سے حصہ تو مل جائے گا، لیکن آخرت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس کے برعکس اگر اصل نیت اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی ہوگی تو آخرت کا ثواب حاصل ہوگا، اور مال غنیمت بھی ایک اضافی فائدے کے طور پر ملے گا (روح المعانی)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:145) کتابا مؤجلا۔ کتابا حکم ازلی۔ قانون ۔ فریضہ ۔ اللہ کی کتاب ، قرآن۔ تحریر لوح محفوظ۔ مؤجلا۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ تاجیل۔ مصدر (تفعیل) اجل مادہ مؤجلا مقرر الوقت وہ جس کا وقت مقرر ہو۔ تاجل۔ وقت دینا۔ مہلت دینا۔ وقت مقرر کرنا ۔ دیر کرنا۔ کتاب مؤجلا۔ موصوف و صفت ہیں۔ یہ یا تو موت کی تعریف ہے کہ موت ایسا تحریر شدہ امر ہے جس کا وقت مقرر ہے یا اذن اللہ کی تعریف ہے کہ اذن اللہ ایک ایسا حکم ہے کہ جس کے نفاذ کا وقت مقرر شدہ ہے۔ نؤتہ منھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ دینا کے لئے ہے۔ اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب ثواب کے لئے ہے یا من کی طرف راجع ہے۔ منھا میں من۔ فی کے معنوں میں بھی لیا جاسکتا ہے اب اس کا ترجمہ یوں ہوگا۔:۔ (1) جو شخص اپنے اعمال کا صلہ دنیا میں چاہتا ہے ہم یہ صلہ دنیا سے ہی یا دنیا میں ہی دیدیتے ہیں۔ (2) جو شخص اپنے اعمال کا صلہ دنیا میں چاہتا ہے ہم اس کو یہ صلہ دنیا سے ہی یا دنیا میں ہی دیدیتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 جب منافقین نے یہ افواہ اڑائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے اب اپنا آبائی دین اختیار کرلو یا صحابہ (رض) کرام جب جنگ احد سے واپس آئے اور ان میں سے کچھ صحابہ شہید ہوچکے تھے تو منافقین نے کہا لو کانوا عندنا ماماتوا وما قتلوا کہ اگر ہو مدینہ میں رہتے قتل نہ ہوتے۔ پس اس قسم کے شبہات کو رفع کرنے کے لئے یہ بات نازل ہوئی (کبیر) اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ابھار نا اور ان کے زہن میں یہ بات بٹھا نا ہے کہ موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے سے انسان موت کے پنچہ سے نجات نہیں پاسکتا، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو موت کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے جس میں تقدم تاخر نہیں ہوسکتا۔ پس اذن بمعنی علم ہے یعنی ہر شخص کی موت کا وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں مقدر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اذن معنی قضا وقدر کے ہو۔ الغرض تمہیں چاہیے کو موت سے بھاگنے کی فکر چھوڑ کر بےجگری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس جہاد سے تمہارا مقصود آخرت کا ثواب ہونا چاہیے ورنہ اگر تم صر دنیا کا ثواب شیرت اور مان غنیمت وغیرہ۔ ہی چاہو گے تو تمہیں صرف وہی ملے گا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محروم رہو گے۔ یہاں کتابا موجلا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محرور رہو گے یہاں کتابا موجلا سے مراد وہ کتاب ہے جو آجالج پر مشتمل ہے بعض نے لوح محفوظ مراد لیا ہے احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم سے فرمایا : اکتب فکتب ما ھو کا ئن کہ لکھ دے پس قلم نے جو کچھ ہونے والا تھا سب لکھ دیا۔ ، آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ احد میں حاضر ہونے والے لوگ اپنی نیتوں کے اعبتار سے دو قسم کے تھے۔ بعض غنیمت کے طالب تھے اور بعض آخرت کے، یہ آیت گو خاص طور پر جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم کے اعتبار سے خام ہے اور تمام اعمال صالحہ کا مدار انسان کے ارادے اور نیت پر ہے (کبیر) معلوم ہوا ہے کہ مقتول بھی اپنی اجل سے مرتا ہے اور احبل میں ممتنع ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کا اشارہ دے کر ہر کسی کا مرنا یقینی بتلایا ہے اور حوصلہ دیا ہے کہ موت سے ڈرنا اور موت کی وجہ سے نیکی کے کام اور جہاد سے پیچھے ہٹنا گناہ ہے۔ موت ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی شخص محفوظ نہیں۔ موت کا وقت اور اس کی جگہ کا تعین کردیا گیا ہے۔ کوئی ذی روح اس ضابطے سے بچ نہیں سکتا۔ جب موت یقینی ‘ اس کا وقت مقرر اور اس کی جگہ متعین کردی گئی ہے تو اس سے ڈرنے کا کیا مطلب ؟ اسلام نے موت کا تصور اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جس سے انسان میں بیک وقت شجاعت اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان جان لے کہ اس نے مر کر ملیا میٹ نہیں ہونا بلکہ اپنے ایک ایک عمل کا اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینا ہے۔ موت پر یقین محکم ہو تو آدمی گھمسان کے رن میں اتر کر بھی خوف زدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی موت کا دن اور جگہ متعین ہے۔ اسی جذبہ کے پیش نظر مجاہد تلوار کی دھار ‘ نیزے کی نوک کے سامنے اور توپ کے برستے ہوئے گولوں میں مسکرایا کرتا ہے۔ وہ موت کو سامنے آتے ہوئے دیکھ کر کترانے کی بجائے اس سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے یقین کامل ہے کہ موت ہر وقت اور ہر جگہ نہیں آسکتی۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ قَالَ مِنْ خَیْرِ مَعَاش النَّاسِ لَھُمْ رَجُلٌ مُمْسِکٌ عِنَانَ فَرَسِہٖ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَطِیْرُ عَلٰی مَتْنِہٖ کُلَّمَا سَمِعَ ھَیْعَۃً أَوْ فَزْعَۃً طَارَ عَلَیْہِ یَبْتَغِی الْمَوْتَ وَالْقَتْلَ مَظَانَّہٗ أَوْ رَجُلٌ فِيْ غَنِیْمَۃٍ فِيْ رَأْسِ شَعَفَۃٍ مِنْ ھٰذِہِ الشَّعَفِ أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَوْدِیَۃِ یُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَیُؤتِيَ الزَّکٰوۃَ وَیَعْبُدُ رَبَّہٗ حَتّٰی یَأْتِیَۃُ الْیَقِیْنُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِيْ خَیْرٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الأمارۃ، باب فضل الجھاد والرباط ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر زندگی اس آدمی کی ہے جو جہاد میں اپنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے اس کی پیٹھ پر اڑتا پھرتا ہے جب بھی کوئی شور یا ہنگامہ سنتا ہے تو وہ اس پر اڑتا ہواپہنچتا ہے موت اور قتل کی جگہوں کو تلاش کرتا ہے یا وہ آدمی سب سے بہتر زندگی والا ہے جو پہاڑ کی چوٹیوں میں کسی چوٹی یا وادیوں میں سے کسی وادی میں اپنی بکریوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہاں نماز پڑھتا ‘ زکوٰۃ ادا کرتا اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتا رہتا ہے وہ لوگوں میں بہترین آدمی ہے۔ “ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ان کا چچا غزؤہ بدر میں حاضر نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی جنگ میں غیر حاضر تھا اگر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیسی بہادری کے ساتھ لڑتا ہوں۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پھیلی تو انہوں نے کہا : اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں اس معاملہ میں معذرت کرتا ہوں جو مسلمانوں نے کیا اور میں مشرکین کے مسلمانوں پر غلبہ پانے سے تیرے حضور برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو سعد بن معاذ کو ملے۔ کہنے لگے اے سعد ! کہاں جا رہے ہو ؟ میں تواحد کی دوسری طرف جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے اور شہید ہوگئے۔ پہچانے نہ گئے یہاں تک کہ میں نے ان کی انگلیوں کے پوروں سے ان کی لاش کو پہچانا۔ ان کے جسم پر نیزہ ‘ تیر اور تلوار کے 80 سے اوپر زخم آئے تھے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد ] حضرت خالد بن ولید (رض) نے اپنی وفات کے وقت مدینے کے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہی فلسفہ بیان کیا تھا کہ آج تم موت سے ڈرتے اور کتراتے ہو میری طرف دیکھو کہ میرے جسم پر درجنوں نشانات ہیں اور میں ہمیشہ میدان جنگ میں ہر اول دستہ کے طور پر لڑتا رہا ہوں لیکن افسوس ! مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور ہونٹ کانپنے لگے۔ تب ایک بزرگ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” سیف من سیوف اللّٰہ “ کا خطاب دیا تھا اگر یہ تلوار کفار کے ہاتھوں ٹوٹ جاتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان پر آنچ اور اسلام کے لیے آپ کی موت طعنہ بن جاتی۔ کفار کہتے کہ ہم نے اللہ کی تلوار توڑ دی ہے۔ (سیرت خالد بن ولید (رض) مسائل ١۔ کوئی ذی روح اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں مرتا۔ ٢۔ ہر کسی کے لیے موت کا دن اور جگہ مقرر ہے۔ ٣۔ دنیا چاہنے والے کو دنیا اور آخرت چاہنے والے کو اللہ تعالیٰ آخرت کا اجر دیں گے۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت کے طلب گار میں فرق : ١۔ دنیا دار صرف دنیا طلب کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٢۔ نیکو کار دنیا وآخرت کی اچھائی چاہتے ہیں۔ (البقرۃ : ٢٠١) ٣۔ دنیا چاہنے والوں کو دنیا اور آخرت چاہنے والوں کو آخرت ملتی ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٤۔ دنیا کی زیب وزینت عارضی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الکہف : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے فطری خوف کو ایک ٹچ دیتے ہیں یہ ایک نہایت ہی الہامی مس ہے ۔ وہ یکدم اس خوف کو دور کردیتا ہے اور موت وحیات کے بارے میں ایک اٹل حقیقت بیان کردی جاتی ہے ۔ نیز موت کے بعد لوگوں کے ساتھ اللہ کا سلوک اور جزاء وسزا کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ” کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے ۔ جو شخص دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دے دیں گے اور جو ثواب آخرت کے ارادے سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطاکریں گے۔ “ ہر شخص کی موت کے لئے ایک لکھا ہوا وقت مقرر ہے اور کوئی شخص اس لکھے ہوئے وقت تک زندگی گزارنے سے پہلے ہرگز مر نہیں سکتا ۔ اس لئے ڈر ‘ خوف ‘ ہراس اور جزع وفزع ایک پل بھر زندگی کی میعاد کو آگے نہیں بڑھاسکتا ۔ شجاعت ‘ ثابت قدمی ‘ اقدام اور وفاداری سے عمر کم نہیں ہوتی ۔ ناس ہو بزدلی کا ! بزدلوں کی آنکھ نیند کو تر سے ! جس کے لئے جو دن مقرر ہے ‘ اس میں نہ ایک دن کی کمی ہو سکتی ہے اور نہ اضافہ ! اس حقیقت کے بیان سے نفس انسانی میں تقدیر اور اجل کی حقیقت بیٹھ جاتی ہے ۔ اس لئے نفس انسانی اس کے بارے میں سوچنا چھوڑدیتا ہے ۔ اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا ۔ اس کی سوچ تمام تر ادائے فرض ‘ وفائے عہد اور ایمانی تقاضوں کو پورا کرنے میں صرف ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ سے وہ حرص اور کنجوسی کے بندھنوں سے بھی آزاد ہوجاتا ہے اور خوف اور جزع وفزع پر بھی قابو پالیتا ہے ۔ اب وہ راہ حق کی تمام مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے اور راہ حق کے فرائض پورے کرتے ہوئے بڑے صبر و سکون کے ساتھ اور توکل علی اللہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے ۔ کیونکہ اب کی اس نئی سوچ کے مطابق ‘ موت کا وقت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور لکھا ہوا ہے ۔ ذرا ایک قدم اور آگے جائیں ۔ اس بات کا فیصلہ ہوگیا کہ عمر لکھی ہوئی ہے اور موت کا وقت متعین اور مقرر ہے تو بتایا جاتا ہے کہ اصل سوچ یہ ہے کہ تم اپنی کمائی کو دیکھو کہ اس وقت ‘ آنے والے وقت ‘ کے لئے تم نے کیا تیاری کی ہے اور کس مزید کمائی کا ارادہ ہے۔ اس نفس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم اپنی کمائی کو دیکھو کہ اس وقت ‘ آنے والے وقت ‘ کے لئے تم نے کیا تیاری کی ہے اور کس مزید کمائی کا ارادہ ہے ۔ اس نفس سے پوچھا جاتا ہے کہ اے نفس ! کیا تم ایمان کے تقاضوں کو پس پشت ڈالنا چاہتے ہو اور کامیابی اور ناکامی کو اسی دنیا کے اندر محدود اور بند کردینا چاہتے ہو اور صرف اس دنیا کے لئے زندہ رہنا چاہتے ہو یا کہ تمہاری نظریں افق اعلیٰ پر بھی ہیں ؟ کیا اس محدود دنیا کے مقابلے میں بہت بڑی دنیا کی فکر بھی تمہیں ہے ۔ اس دنیا کی محدود عمر کے غم اور اہتمام کے ساتھ ساتھ کیا آخرت کا ارادہ بھی ہے ؟ وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ” جو شخص ثواب دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں دے دیں گے اور جو شخص آخرت کے ارادے سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا۔ “ اور ان دونوں زندگیوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اور ان دونوں ارادوں میں بہت بڑا امتیاز ہے جبکہ دونوں صورتوں میں موت کا وقت وہی ہے جو مقرر ہے۔ فرق یہ ہے کہ جو شخص صرف اس دنیا کے لئے زندہ ہے اور صرف اس دنیا کا عوضانہ چاہتا ہے اس کی زندگی اور کیڑوں مکوڑوں اور ڈھورڈنگروں کی زندگیوں میں کیا فرق ہے ۔ دونوں کا وقت مقرر ہے ۔ اور جس شخص کی نظریں دار آخرت پر لگی ہوئی ہیں ‘ وہ انسانوں جیسی شریفانہ اور کریمانہ زندگی بسر کرتا ہے ‘ اسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے ۔ وہ اس کرہ ارض پر اللہ کا خلیفہ ہے اور یہ بھی وقت مقرر پر اس دنیا سے رخصت ہوگا۔ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلا……………” کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرکستا۔ موت کا وقت لکھا ہوا ہے ۔ “ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ……………” اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطاکریں گے ۔ “ یہ کون ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو مقام انسانیت کو پالیتے ہیں اور اللہ نے انسان کو جو شرف عطا کیا ہے اس کی قدر کرتے ہیں ۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو حیوانی سطح سے ذرا اوپر رکھتے ہیں ۔ اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس شکریہ کی صورت یہ ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں ۔ غرض اس انداز میں حیات وممات کی حقیقت ذہن نشین کرنے اور زندگی کے ان مقاصد اور ترجیحات کے حوالے سے اپنے لئے چن لیتے ہیں ‘ قرآن کریم انسانوں کے سامنے دوراستے رکھتا ہے ‘ ان کو دعوت فکر دی جاتی ہے کہ وہ اپنے لئے کون سا راستہ منتخب کرتے ہیں ۔ وہ اپنے لئے محض کیڑے مکوڑوں کی زندگی پسند کرتے ہیں یا انسان مکرم کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ۔ یوں نفس انسانی خوف موت اور دنیا کی تکالیف پر جزع وفزع ترک کرکے ایک زیادہ مفید کام کی طرف منتقل ہونا پسند کرتا ہے اور یہ انتخاب وہ اپنے اختیار تمیزی سے کرتا ہے کیونکہ وہ دونوں میں سے ہر راستہ وہ اختیار کرسکتا ہے۔ چاہے تو دنیا کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو آخرت کا راستہ اختیار کرے ۔ جو راہ بھی وہ اختیار کرے ‘ اس کا صلہ پائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ مَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا) (الآیۃ) یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر مرجائے۔ یعنی جس کو بھی موت آئے گی اللہ کے حکم سے آئے گی اور اجل مقرر کے مطابق آجائے گی جس کی جو اجل یعنی موت کا وقت مقرر ہے اس سے پہلے موت نہیں آسکتی اور اس وقت سے ٹل بھی نہیں سکتی جو اس کے لیے مقرر ہے۔ صاحب روح المعانی (صفحہ ٧٥: ج ٤) فرماتے ہیں کہ اس میں جہاد کی ترغیب ہے اور قتل کے ڈر سے جہاد کو چھوڑ دینے پر ملامت کی گئی ہے۔ پھر فرماتے ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہو کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی جو خبر سنی اس میں استبعاد کی کوئی بات نہیں۔ ان کو بھی اللہ کے حکم سے موت آئے گی۔ جیسا کہ سب جانوں کو موت آنا ہے۔ اگر ان کو موت ہو ہی گئی جو اللہ کے حکم سے ہے تو ان کے دین کو چھوڑنے کا کیا جواز ہے۔ پھر ارشاد فرمایا (وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَاب الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا) (الآیۃ) کہ جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا بدلہ چاہے گا۔ مثلاً جہاد سے مال غنیمت کا طالب ہو تو ہم اس میں سے اسے دے دیں گے۔ (مگر ضروری نہیں کہ دے ہی دیں کمافی سورة بنی اسرائیل) (عَجَّلْنَا لہٗ فِیْھَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ) اور جو شخص آخرت کے ثواب کا ارادہ کرے گا تو ہم اس میں سے دے دیں گے۔ پھر فرمایا (وَ سَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَ ) (اور عنقریب ہم شکر گزاروں کو بدلہ دیں گے) ۔ اس میں ان حضرات پر تعریض ہے جنہوں نے غنیمت کے مالوں کی طرف توجہ کرلی اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں جو مصلحت تھی اس پر غور نہ کیا اور ان حضرات کی تعریف ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ دور حاضر کے مقررین اور اصحاب جرائد کو تنبیہ : اللہ جل شانہٗ کے افعال میں بڑی بڑی حکمتیں ہوتی ہے۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی خبر اڑ جانے سے مسلمانوں کے پریشان اور سراسیمہ ہونے میں پھر اللہ تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے عتاب نازل ہونے میں (کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرجائیں یا مقتول ہوجائیں کیا تم اللہ کا دین چھوڑ دو گے اور واپس دین باطل کو اختیار کرلو گے) ہمیشہ کے لیے سبق دے دیا گیا کہ دین اللہ جل شانہٗ کا ہے اسی کی عبادت کرنا وہ ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اور اسی آیت کو سامنے رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے دن حضرت عمر (رض) اور تمام صحابہ (رض) کو خاموش کیا اور اسی سے تسلی دی اور آئندہ رہتی دنیا کے تمام مسلمانوں کو سبق دے دیا کہ کسی بھی شخصیت کے وفات پا جانے پر اگر طبعی رنج ہو تو ہو لیکن عقلی طور پر اس بات کے سمجھنے اور جاننے اور ماننے کی ضرورت ہے کہ جس خادم دین مفتی، مرشد، محدث کی وفات ہونی ہے اس کی موت ہونا تو ضروری ہی تھا رنج کر کے اور آنسو بہا کر بیٹھ کر رہنا کوئی سمجھدرای کی بات نہیں جس محنت اور دعوت اور اعمال صالحہ پر انہوں نے زندگی گزاری اسی پر زندہ رہیں اور باقی زندگی گزاریں نہ عقلی طور پر رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے نہ جاہلانہ دہائی کا موقعہ ہے کہ ہائے اب کیا ہوگا۔ ہمارے حضرت کی وفات ہوگئی اور نہ اعمال صالحہ میں اور دعوت حق کو کچا پڑنے کی ضرورت ہے عالم برحق اور مرشد برحق نے جو کچھ کیا اسی کو کرتے رہیں جو گیا وہ تو دوبارہ دنیا میں آنے والا نہیں اور یہ بات کہ آگے کیا ہوگا اس کے بارے میں سوچ لیں کہ جب یہ نہیں تھے تو دین کس طرح قائم تھا آخر ان کے بھی تو مشائخ تھے جن کی موت کا رونا لے کر بیٹھے ہیں۔ جب دین اللہ کا ہے اور اللہ حیّ اور باقی ہے تو اس کے دین پر چلتے رہو آنے والے آتے رہیں گے اور جانے والے جاتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں اصحاب جرائد، مدیران صحف و مجلات تعزیتی جلسوں کے مقررین بڑی بیباکی سے ایسے کلمے کہہ گزرتے ہیں جن سے کفر تک عائد ہوجاتا ہے کوئی کہتا ہے کہ قدرت کے سفاک ہاتھوں نے (العیاذ باللہ) اس شخص کو ہم سے ایسے موقعہ پر چھین لیا جبکہ اس کی ہم کو بہت زیادہ ضرورت تھی۔ کوئی لکھتا ہے کہ اب اس جیسا کوئی شخص کہاں پیدا ہوگا۔ کوئی کہتا ہے کہ حضرت ہم کو بےسہارا چھوڑ گئے۔ یتیم کر گئے، (گویا کہ وہ اجل مقرر سے پہلے اور اذن الٰہی کے بغیر خود سے چلے گئے) ۔ (العیاذ باللہ) آیت بالا میں اس قسم کے ماتمی کلمات کہنے والوں کا جواب ہے۔ اللہ کی قضا اور قدر پر راضی رہو اور اعمال صالحہ ادا کرتے رہو۔ جب تک اللہ چاہے گا اس کا دین دنیا میں رہے گا کسی شیخ اور محدث اور مفتی اور پیر و مرشد کے مرنے جینے پر دین کی بقاء موقوف نہیں، واقعہ احد سے حضرت حسین (رض) کا سالانہ ماتم کرنے والوں کی بھی تردید ہوگئی۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ احد کے بعد سات سال تک اس دنیا میں تشریف فرما رہے آپ نے اپنے چچا حضرت حمزہ (رض) کا کوئی ماتم نہیں کیا۔ اور ماتم کرنا ٹسوے بہانا یوں بھی زندہ قوم کو زیب نہیں دیتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

215 پھر مضمون جہاد کا اعادہ ہے یہاں سے وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ تک مختلف طریقوں سے ترغیب الی القتال ہے۔ ھذا حض علی الجھاد واعلام ان الموت لا بد منہ (قرطبی ص 226 ج 4) یعنی موت کے ڈر سے جہاد مت ترک کرو کیونکہ موت تو ہر حال میں اپنے مقررہ وقت پر آئے گی خواہ تم گھر ہی کیوں نہ بیٹھے رہو اور اس لیے پھر بہتر یہی ہے کہ تم خدا کی راہ میں لڑتے ہوئے مارے جاؤ اور رتبہ شہادت حاصل کرو۔ 216 جہاد کرنے سے گھاٹے میں کوئی بھی نہیں رہتا کیونکہ موت تو ہر حال میں آکر رہے گی۔ خواہ گھر بیٹھا رہے یا جہاد میں شریک ہو۔ جہاد سے اگر کسی کی غرض ثواب دنیا یعنی مال غنیمت ہو تو اسے اس سے جو اس کا مقدر ہے مل جاتا ہے اور اگر کسی کی غرض محض اللہ کے دین کو سر بلند کرنا اور آخرت میں اجر وثواب پانا ہو تو اللہ کے یہاں اس کی بھی کمی نہیں اس آیت میں تیر انداز دستہ کے فعل سے تعریض ہے۔ جنہوں نے مال غنیمت کی خاطر اپنا مورچہ چھوڑا۔ نیز ان لوگوں کی مدح ہے جو مورچہ پر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ وھذا تعریض بمن شفلتھما لغنائم یوم احد من مصلحۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واشارۃ الی مدح الثابتین مع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (روح ص 78 ج 4) سَسَنَجْزِیْ الشَّاکِرِیْنَ ۔ جنگ احد میں جو لوگ ثابت قدم رہے اور اپنے فرائض سے غافل ہو کر مال غنیمت کی طرف مائل نہیں ہوئے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مزید انعام واکرام کا وعدہ فرمایا ہے۔ جزا کی کمیت وکیفیت کو مبہم چھوڑ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ان کی جزا اس قدر جزیل و جمیل ہوگی کہ اس کا اندازہ سوا اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ وسنجزی الجزاء المبھم الذین شکروا نعمۃ اللہ فلم یشغلھم شیئ عن الجھاد (مدارک ص 145، ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور بغیر اذن الٰہی اور بدون اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی جاندار کا مرنا اس کو موت آنا ممکن نہیں خواہ طبعاً مرے یا قتل کیا جائے ہر ایک کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے جس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی اور جو شخص اپنے اعمال کا بدلہ اور نتیجہ دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کو دنیا کے حصہ میں سے اپنی مشیت کے موافق دیدیتے ہیں اور جو شخص آخرت کا ثواب اور اخری بدلہ چاہتا ہے تو ہم اس کو آخرت کے ثواب کا حصہ دیدیتے ہیں اور ہم عنقریب ایسے شکر گزاروں کو اچھا بدلہ اور نیک صلہ عطا فرمائیں گے۔ (تیسیر) خلاصہ یہ ہے کہ موت کا ایک مقررہ وقت لکھا ہوا ہے اور کوئی کسی طرح میرے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا مرنا اس کے لئے ممکن ہی نہیں اور چونکہ موت مشیت اور حکم الٰہی پر موقف ہے تو اس پر گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ حکم الٰہی پر راضی رہنے کی ضرورت ہے اور جب موت کا مقررہ وقت لکھا ہوا ہے تو میدان سے بھاگنے اور میدان چھوڑنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ توکل اور ثابت قدمی کی ضرورت تھی اور چونکہ بعض لوگ غنیمت جمع کرنے کی خواہش میں مبتلا ہ وگئے تھے اور بعض جنگ کی کامیابی اور مسلمانوں کی فتح کے خواہشمند تھے اور اس طرح اس دن دو گروہ تھے اس لئے آخر میں فرمایا کہ جو اپنے اعمال کا پھل دنیا ہی میں چاہتے ہیں تو ہم ان کو دنیوی حصہ جس قدر چاہتے ہیں دیدیتے ہیں مگر آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اور جو اپنے کئے کا دین اخروی صلہ چاہتے ہیں تو ان کا حصہ ان کو آخرت میں دیتے ہیں۔ بلکہ دنیا بھی ملتی ہے اور دین بھی پھر مزید اطمینان کے لئے فرمایا کہ بہت جلد ہم شاکرین کو جزا اور صلہ دینے والے ہیں۔ دنیوی حصہ میں ہم نے مشیت کی قید اس لئے لگائی کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ہے ۔ عجلنا لرفیھا مانشاء اور ثواب اخروی چونکہ وعدے کی بنا پر ہے اس لئے فرمایا ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سمعیھا فاولئک کان سعیھم منکم اوپر کی آیت میں نیک اعمال بجا لانے والوں کو شاکرین فرمایا تھا۔ اس آیت میں آخرت کے ثواب کی نیت رکھنے والوں کو شاکرین فرمایا ہے اس لئے تکرار نہیں ہے اور یہ بھی ہو سکات ہے کہ اس شاکر سے ایک تیسری قسم ہو یعنی بعض وہ جو دنیوی پھل چاہتے ہیں اور بعض وہ جو اخروی پھل چاہتے ہیں اور کچھ وہ بندے بھی ہیں جن کا مقصد نفس شکر ہے نہ ان کے سامنے دنیا ہے نہ آخرت، ان کو فرمایا کہ ہم ان کو عنقریب ان کی نیک نیتی کا صلہ دیں گے اور اس کو بتانا نہیں چاہتے کہ ہم ان کو کیا کچھ دیں گے کیونکہ وہ کسی فہم و ادراک میں نہیں آسکتا شکر کا ترجمہ اہل لغت نے عرفان الاحسان کیا ہے ہم نے تیسیر میں حق شناس کردیا ہے۔ حدیث میں انس بن مالک (رض) سے مرفوعاً آیا ہے جس شخص کی طلب آخرت کی طلب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں غنا رکھ دیتا ہے اور اس کی ہمت مضبوط کردیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس شخص کی نیت دنیا طلب کرنے کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یعنی پیشانی پر فقر اور محتاجگی رکھ دیتا ہے اور اس کی ہمت پراگندہ کردیتا ہے اور اس کے لئے جو لکھ دیا گیا ہے اس سے زائد نہیں ملے گا۔ (بغوی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جو لوگ اس دین پر ثابت رہیں گے ان کو دین بھی ملے گا اور دنیا بھی لیکن جو کوئی اس نعمت کی قدر جانے۔ (موضح القرآن) اب آگے انم سابقہ کے بعض مخلصین کی ثابت قدمی اور استقامت اور ان کے جہاد کا ذکر فرما کر مسلمانوں کو غیرت دلائی جاتی ہے اور ان کے صبر و استقامت اور میدانی جہاد میں ان کی دعا کا ذکر فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)