Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 148

سورة آل عمران

فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۴۸﴾٪  6

So Allah gave them the reward of this world and the good reward of the Hereafter. And Allah loves the doers of good.

اللہ تعالٰی نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأتَاهُمُ اللّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا ... So Allah gave them the reward of this world, victory, triumph and the good end. ... وَحُسْنَ ثَوَابِ الاخِرَةِ ... and the excellent reward of the Hereafter. added to the gains in this life. ... وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ And Allah loves the good-doers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاٰتٰىھُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٤٨ ۧ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فاتاھم اللہ ثواب الدنیا وحسن ثواب الاخرۃ۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہترثواب آخرت بھی عطا کیا) قتادہ، ربیع بن انس اور ابن جریچ کا قول ہے کہ دنیا کا ثواب جو انھیں دیا گیا وہ دشمن پر ان کی فتح تھی جس کی بناپروہ ان پر غالب آگئے اور ان کے مقابلے میں انھیں پوری کامیابی حاصل ہوگئی۔ اور آخرت کا ثواب جنت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک شخص کے لیے دنیا اور آخرت دونوں کا اجتماع جائز ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے کام کرے گا وہ اپنی آخرت کا نقصان پہنچائے گا اور جو شخص آخرت کے لیے کام کرے گا وہ اپنی دنیا کو بگاڑلے گا۔ لیکن کبھی اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں عطاکردیتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨ (فَاٰ ‘ تٰٹہُمُ اللّٰہُ ثَوَاب الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ ط) انہیں دنیا کی سربلندی بھی دی ‘ فتوحات سے بھی نوازا اور آخرت کا بہترین اجر بھی عطا فرمایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:148) فاتھم۔ میں ف سبب کے لئے ہے یعنی بہ سبب ان کے جہاد فی سبیل اللہ اور استقامت فی الحرب۔ صبر و توکل علی اللہ کے اللہ تعالیٰ ان کو طواب دینا (یعنی نصرت۔ غنیمت۔ غفران الذنوب) سے بھی نوازتا ہے۔ اور بہترین ثواب آخرت سے بھی۔ وحسن ثواب الاخرۃ۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور اتی کا مفعول ثانی ہے۔ اور اللہ (ان کو) آخرت کا بھی عدمہ بدلہ دیگا۔ واؤ عاطفہ۔ حسن (حسن یحسن کا مصدر) بہتر ہونا۔ عمدہ ہونا۔ مضاف۔ ثواب الاخرۃ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ حسن کا ثواب آخرت کا عمدہ ثواب یا بدلہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ مثال کہ اہل ایمان اپنے لئے کچھ نہیں مانگتے ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ سب کچھ دے دیا ۔ انہیں وہ کچھ دے دیا جس کی طالب دنیا کبھی تمنا کرسکتا ہے ۔ نیز انہیں وہ سب کچھ بھی دے دیا جس کی تمنا کوئی طالب آخرت کرسکتا ہے ۔ فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَةِ …………… ” آخر کار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر آخرت کا ثواب بھی دیا۔ “ اب اللہ تعالیٰ شہادت دیتے ہیں کہ یہ لوگ محسنین میں سے تھے ‘ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں بہترین ادب کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے بہترین مظاہرہ دوران جہاد کیا ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہے جو ہر قسم کے ثواب سے بھی زیادہ قیمتی ہے ۔ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ……………” اللہ کو ایسے ہی نیک لوگ پسند ہیں ۔ “ اس انداز میں پیراگراف ختم ہوتا ہے ‘ جس میں اسلامی تصور حیات کے نہایت ہی اساسی حقائق کو پیش کیا گیا ہے ‘ جن کی وجہ سے پہلی اسلامی جماعت کی بہترین تربیت ہوئی اور جو ہر نسل اور ہر دور میں اٹھنے والی تحریک اور ہر دور کی امت کے لئے سرمایہ بصیرت ہے ۔ اب یہ تبصرہ آگے ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے ۔ اس معرکہ کے کچھ اور واقعات سامنے رکھے جاتے ہیں تاکہ ان سے بصیرت افروز نتائج اخذکئے جاسکیں۔ اہل ایمان کی نظریاتی تصحیح ہو ‘ ان کے نفوس کی تربیت ہو انہیں آگاہ کیا جائے کہ اس راہ میں کہاں کہاں پھسلنے کا خطرہ ہے ‘ انہیں بتایا جائے کہ ان کے اردگرد سازشوں کے جال بچھے ہوئے ہیں ‘ اور دشمن گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ احد میں شکست کی وجہ سے مدینہ کے کفار ‘ منافقین اور یہود کو از سر نو سازشیں کرنے کا موقع مل گیا تھا ‘ اس لئے کہ اس وقت تک اہل مدینہ اہل اسلام کے لئے نیک نیت نہ ہوئے تھے ۔ اس شہر میں ابھی تک مسلمان اجنبی تھے ۔ اس اجنبی تحریک اور اس نئے پودے کے اردگرد جنگ بدر نے رعب اور دبدبے کی ایک باڑ قائم کردی تھی ۔ کیونکہ بدر میں اہل اسلام کو نہایت ہی فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی تھی اور جب احد میں شکست ہوئی تو یہ صورت حال بدل گئی ۔ اسلام کے ان خفیہ دشمنوں کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے دلی کینہ اور بغض وعناد کا اظہار کرسکیں ۔ اور معاشرے کے اندر زہر آلود پروپیگنڈا کرسکیں ۔ اور جن گھرانوں میں لوگ شہید ہوگئے تھے ‘ یا جن میں لوگ شدید زخمی تھے اور ایک کہرام مچاہوا تھا ان میں اس کے زہر آلودپروپیگنڈے اور سازشوں کے لئے راہ ہموار ہوگئی تھی چناچہ ان لوگوں نے اب کھل کر ریشہ دوانیاں شروع کردی تھیں ۔ آنے والے پیراگرافوں میں اس معرکہ کے اہم واقعات کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اس کے بڑے بڑے واقعات قلم بند کئے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ کافروں کی پیروی مت کرو ‘ تمہیں فتح حاصل ہوگی اور کافروں کے دلوں میں تمہارا رعب از سر نو پیدا ہوگا ‘ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ابتدائے معرکہ میں تو تمہیں فتح ہوئی اور یہ میرے وعدے کے مطابق تھی جسے تم نے کمزوری دکھاکر ضائع کیا ‘ آپس میں نزاع اور خلاف کیا ‘ رسول اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ‘ اس کے بعد انہیں اس معرکے کے دونوں رخ زندہ اور متحرک صورت میں بتائے جاتے ہیں ۔ ہزیمت کے بعد افراتفری ‘ پھر اہل ایمان کے لئے تسلی و اطمینان کا سامان اور اہل نفاق کے دلوں میں حسرت ویاس ‘ جن کے خیالات اللہ کے بارے میں اچھے نہ تھے ۔ نیز انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس معرکہ میں واقعات کا رخ شکست کی جانب پھیرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی لطیف حکمت کارفرماتھی ‘ نیز یہ کہ موت کا ایک دن متعین ہے اور اس سلسلے میں اہل کفر اپنے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعہ جو گمراہی پھیلا رہے ہیں ان سے بچ کر رہو اور آخر کار تمہیں بہرحال اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے وہ اپنی موت مریں یا شہید ہوں جانا تو ادہر ہی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

219 تو اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر و استقلال کے عوض اور ان کی دعاء وازری کی بنا پر ان کو دنیا کی جزاء یعنی فتح ونصرت اور مال غنیمت بھی دی اور آخرت میں بھی ان کو اجر جزیل ثواب جمیل اور جنات نعیم عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے اخلاص نیت اور احسان عمل کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ مخلص اور محسن لوگوں کو پسند فرماتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور بہت سے نبی ایسے ہوچکے ہیں جن کے ساتھ ہو کہ ان کی امت کے بہت سے صلحاء اور بکثرت با خدا لوگ کفار سے لڑے ہیں ینی تم سے پہلے بھی بکثرت اللہ والوں نے اپنے اپنے زمانہ کے نبیوں کے ساتھ ہو کر کافروں سے جہاد کیا ہے پھر ان باخدا لوگوں کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے جو مصائب پیش آئے ان کی وجہ سے نہ تو انہوں نے امر حق بجا لانے میں ہمت ہاری اور نہ ان کے قلب میں ضعف اور سستی پیدا ہوئی اور نہ ان کے جسم سست پڑے اور نہ و باطل کے آگے سرنگوں ہوئے اور نہ اہل باطل سے دبے اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی مستقل مزاج اور ثابت قدم رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے جو ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے باوجود اپنی جگہ سے نہ ملیں اور ان باخدا مجاہدین کے منہ سے سوائے اس دعا کے اور کوئی بات نہیں نلکی کہ اے ہمارے پروردگار ہماری خطائوں کو اور ہمارے کاموں میں ہماری زیادتی اور حد سے نکل جانے کو بخش دیجیے اور کفار کے مقابلہ میں ہم کو ثابت قدم اور جمائے رکھے اور ان کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرمائیے اور ان پر غم کو غالب کیجیے لہٰذا اس استقلال اور عاجزانہ دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کا بدلہ بھی دیا یعنی فتح اور ملک اور اقتدار وغیرہ اور آخرت کا بھی ان کو عہدہ عطا فرمایا یعنی جنت اور اپنی خوشنودی سے نوازا اور اللہ تعالیٰ ایسے نیک کردار اور نیک روش اختیار کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے جو مصائب و شدائد میں استقلال اور توکل علی اللہ کے پابند رہتے ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جہاد کے مصائب کا یہ موقعہ صرف تمہارے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ہو کر اللہ والے لوگ جہاد کرچکے ہیں ۔ پھر ان سے تو کسی کمزوری کا اظہار نہیں ہوا نہ انہوں نے ہمت ہاری نہ سستی دکھائی نہ دشمنوں کے مقابلے میں ذرا لچکے ۔ استکان کے معنی ہیں اطاعت قبول کرلینا جھک جانا غرض ان سے کوئی بات ایسی سر زد نہیں ہوئی جو مسلمانوں کے لئے موجب شرمندگی اور باعث ذلت ہوتی ایک تم ہو کہ ذرا سی تکلیف میں گھبرا اٹھے اور جہاد سے بھاگ نکلے اور ابوسفیان سے امن حاصل کرنے کا ارادہ کرنے لگے پھر ان مجاہدین کی دعا نقل فرمائی۔ ذنوب اور اسراف ان دونوں سے یا تو کبائر مراد ہیں اور ایک لفظ دوسرے لفظ کی تاکید ہے یا ذنوب سے صغائر اور اسرافنا سے کبائر مراد ہیں۔ ہم نے دوسرے معنی اختیار کئے ہیں جیسا کہ تیسیر سے ظاہر ہے۔ اسراف کے معنی ہیں حد سے نکل جانا یہاں شاید میدان جاد کی بےعنوانیاں مراد ہیں۔ ثواب الدنیا کی تفسیر میں بعض حضرات نے فتح اور غنیمت کہا ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ پہلی امتوں پر غنائم حلال نہیں تھے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے تو وہ ثواب دنیا سے صرف فتح اور ملک کرتے ہیں ۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ امم سابقہ پر غنائم حلال نہیں تھے یعنی مجاہدین غنائم کو استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ غنائم پر قبضہ کر کے مساکین کو بھی نہیں دے سکتے تھے یا جمع کر کے آسمانی آگ کے جلانے کو بھی کسی پہاڑ پر نہیں رکھ سکتے تھے بہرحال احتیاطاً ہم نے لفظ غنیمت کو ترجمہ اور تیسیر میں نہیں رکھا ہے۔ (واللہ اعلم) اب آگے اللہ تعالیٰ کی ولایت اور اس کی مدد پر بھروسہ رکھنے کی تاکید اور کافروں کی اطاعت اور ان کے مشوروں پر عمل کرنے کی ممانعت مذکور ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)