Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
صَعِدَ |
يَصْعَدُ |
اِصْعَدْ |
صَاعِد |
مَصْعُوْد |
صُعُوْد |
اَلصَّعُوْ دُ کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحا ظ سے صَعُود ٌ اور نیچے اتر نے کے لحاظ سے حَدُورٌ کہا جا تا ہے ۔ اصل میں صَعَدٌ وَصَعِیْدٌ وَصَعُو دٌ تینو ں ہم معنی ہیں ، لیکن صَعُو دٌ وَصَعَدٌ کا لفظ عقبہ یعنی گھا ٹی پر بو لا جا تا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گرا ں امر کو صَعَدٌ کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے : (وَ مَنۡ یُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہٖ یَسۡلُکۡہُ عَذَابًا صَعَدًا۔۔۔۔) (۷۲۔۱۷) اور جو شخص اپنے پر وردگا ر کی یا د سے منہ پھیر ے گا وہ اس کو سخت عذاب میں دا خل کر ے گا ۔ (سَاُرۡہِقُہٗ صَعُوۡدًا) (۷۴۔۱۷) ہم اسے صَعُو دٌ پر چڑہا ئیں گے ۔ اور صَعِیْدٌ کا لفظ وَجْہٗ الْاَ رْ ضِ یعنی زمین کے با لا ئی حصہ کے معنی میں استعما ل ہو تا ہے ۔ (1) قرآن پا ک میں ہے : (فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا) (۴۔۴۳) تو پا ک مٹی لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ صَعِیْدٌ اس گر دو غبا ر کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جا تا ہے لہٰذا نما ز کے تیمم کے لیے ضروری ہے کہ گر دو غبا ر سے ہا تھ آلو دہ ہو جا ئیں اور آیت کریمہ : (کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ) (۶۔۱۲۵) گو یا وہ آ سما ن پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یَصَّعَّدٌ اصل میں یَتَصَعَّدُ ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ اَلْاِ صْعَادُ : (افعا ل ) بقو ل بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جا نا کے ہیں ۔ عا م اس سے کہ وہ جا نا بلندی کی طرف ہو یا پستی کی طرف ۔ گو اس کے اصل معنی بلند جگہوں کی طرف جا نا کے ہیں ۔ مثلاً بصرہ سے نجدیا حجا ز کی طرف جا نا بعدہٗ صرف دور نکل جا نے پر اِصْعَا دٌ کا لفظ بو لا جا نے لگا ہے جیسا کہ تَعَا لَ کہ اس کے اصل معنی علو یعنی بلندی کی طرف بلا نے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعما ل ہو نے لگا ہے عام اس سے کہ وہ آ نا با لا ئی کی طرف ہو یا پستی کی طرف ۔ قرآن پا ک میں ہے : (اِذۡ تُصۡعِدُوۡنَ وَ لَا تَلۡوٗنَ عَلٰۤی اَحَدٍ ) (۳۔ ۱۵۳ ) جب تم لو گ دور نکلے جا رہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہا ں اِصْعَا دٌ سے دور نکل جا نا مرا د نہیں ہے ۔ بلکہ اشا رہ ہے کہ انہو ں نے بھا گنے میں عُلُوٌّ اختیا ر کیا یعنی کو ئی کسر با قی نہ چھو ڑجیسے محا ورہ ہے : اَبَعَدْتُ فِی کَذَا وَارْ تَقَیتُ فِیہِ کُلَّ مُرْتَقیً : یعنی میں نے اس میں انتہا ئی کو شش کی لہٰذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نہ دشمن کا خوف محسو س کر نے اور لگا تا ر ہز یمت کھا نے میں انتہا کر دی اور استعا رہ کے طور پر صُعُو دًا کا لفظ انسا نی اعما ل کے متعلق بھی استعما ل ہو تاہے ۔ جو خدا تک پہنچتے ہیں جیساکہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جا نب سے انسا ن تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔ چنا نچہ فر ما یا : (اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ) (۳۵۔۱۰) اسی طرف پا کیزہ کلما ت چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : (یَسۡلُکۡہُ عَذَابًا صَعَدًا) (۷۲۔۱۷) وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کر ے گا ۔ میں صَعَدًا کے معنی شا ق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تَصَعَّدَ فِی کَذَا کے محا ورہ سے ماخو ذ ہے جس کے معنی کسی امر کے دشوار اور مشکل ہو نے کے ہیں ۔(2) چنا نچہ حضرت عمر ؓ نے فر ما یا ۔ (3) (۴) (مَا تَصَعَّدَ لِیْ اَمْرٌ مَا تَصَعَّدَ فِیْ خُطْبَۃُ النَّکا حِ ) کہ مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیا دہ دشوار محسو س نہیں ہو تی ۔
Surah:3Verse:153 |
تم چڑھے جارہے تھے
you were running uphill
|