Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 154

سورة آل عمران

ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ؕ یُخۡفُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ مَّا لَا یُبۡدُوۡنَ لَکَ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ؕ قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمۡ ۚ وَ لِیَبۡتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۵۴﴾

Then after distress, He sent down upon you security [in the form of] drowsiness, overcoming a faction of you, while another faction worried about themselves, thinking of Allah other than the truth - the thought of ignorance, saying, "Is there anything for us [to have done] in this matter?" Say, "Indeed, the matter belongs completely to Allah ." They conceal within themselves what they will not reveal to you. They say, "If there was anything we could have done in the matter, some of us would not have been killed right here." Say, "Even if you had been inside your houses, those decreed to be killed would have come out to their death beds." [It was] so that Allah might test what is in your breasts and purify what is in your hearts. And Allah is Knowing of that within the breasts.

پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی ۔ ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی ، وہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگُمانیاں کر رہے تھے اور کہتے تھے کیا ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے ؟آپ کہہ دیجئیے کہ کام کُل کا کُل اللہ کے اختیار میں ہے ، یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ گو تم اپنے گھروں میں ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے اللہ تعالٰی کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پاک کرنا تھا ، اور اللہ تعالٰی سینوں کے بھید سے آگاہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Slumber Overcame the Believers; the Fear that the Hypocrites Suffered Allah says; ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَى طَأيِفَةً مِّنكُمْ ... Then after the distress, He sent down security for you. Slumber overtook a party of you, Allah reminds His servants of His favor when He sent down on them tranquility and slumber that overcame them while they were carrying their weapons and feeling distress and grief. In this case, slumber is a favor and carries meanings of calmness and safety. For instance, Allah said in Surah Al-Anfal about the battle of Badr, إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ (Remember) when He covered you with a slumber as a security from Him. (8:11) Al-Bukhari recorded that Anas said that, Abu Talhah said, "I was among those who were overcome by slumber during the battle of Uhud. My sword fell from my hand several times and I would pick it up, then it would fall and I would pick it up again." Al-Bukhari collected this Hadith in the stories of the battles without a chain of narration, and in the book of Tafsir with a chain of narrators. At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Al-Hakim recorded from Anas that Abu Talhah said, "On the day of Uhud, I raised my head and looked around and found that everyone's head was nodding from slumber." This is the wording of At-Tirmidhi, who said, "Hasan Sahih". An-Nasa'i also recorded this Hadith from Anas who said that Abu Talhah said, "I was among those who were overcome by slumber." The second group mentioned in the Ayah were the hypocrites who only thought about themselves, for they are the most cowardly people and those least likely to support the truth, يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ (and thought wrongly of Allah - the thought of ignorance) for they are liars and people who have doubts and evil thoughts about Allah, the Exalted and Most Honored. Allah said, ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَى طَأيِفَةً مِّنكُمْ ... Then after the distress, He sent down security for you. Slumber overtook a party of you, the people of faith, certainty, firmness and reliance (on Allah) who are certain that Allah shall give victory to His Messenger and fulfill his objective. ... وَطَأيِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ ... While another party was thinking about themselves, and they were not overcome by slumber because of their worry, fright and fear. ... يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ... and thought wrongly of Allah --- the thought of ignorance. Similarly, Allah said in another statement, بَلْ ظَنَنْتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ أَبَداً Nay, but you thought that the Messenger and the believers would never return to their families. (48:12) This group thought that the idolators achieved ultimate victory, when their forces took the upper hand in battle, and that Islam and its people would perish. This is typical of people of doubt and hesitation, in the event of a hardship, they fall into such evil thoughts. Allah then described them that, ... يَقُولُونَ ... they said, in this situation, ... هَل لَّنَا مِنَ الاَمْرِ مِن شَيْءٍ ... "Have we any part in the affair?" Allah replied, ... قُلْ إِنَّ الاَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لاَ يُبْدُونَ لَكَ ... Say: "Indeed the affair belongs wholly to Allah." They hide within themselves what they dare not reveal to you. Allah exposed their secrets, that is, ... يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ... saying: "If we had anything to do with the affair, none of us would have been killed here." although they tried to conceal this thought from the Messenger of Allah. Ibn Ishaq recorded that Abdullah bin Az-Zubayr said that Az-Zubayr said, "I was with the Messenger of Allah when fear intensified and Allah sent sleep to us (during the battle of Uhud). At that time, every man among us (except the hypocrites) was nodding off. By Allah! As if in a dream, I heard the words of Mu`attib bin Qushayr, `If we had anything to do with the affair, none of us would have been killed here.' I memorized these words of his, which Allah mentioned later on, يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا (saying: "If we had anything to do with the affair, none of us would have been killed here.)" Ibn Abi Hatim collected this Hadith. Allah the Exalted said, ... قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ ... Say: "Even if you had remained in your homes, those for whom death was decreed would certainly have gone forth to the place of their death," meaning, this is Allah's appointed destiny and a decision that will certainly come to pass, and there is no escaping it. Allah's statement, ... وَلِيَبْتَلِيَ اللّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحَّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ... that Allah might test what is in your breasts; and to purify that which was in your hearts, means, so that He tests you with whatever befell you, to distinguish good from evil and the deeds and statements of the believers from those of the hypocrites. ... وَاللّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ and Allah is All-Knower of what is in the breasts, and what the hearts conceal. Some of the Believers Give Flight on the Day of Uhud Allah then said,

تلواروں کے سایہ میں ایمان کی جانچ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس غم و رنج کے وقت جو احسان فرمایا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے ان پر اونگھ ڈال دی ہتھیار ہاتھ میں ہیں دشمن سامنے ہے لیکن دل میں اتنی تسکین ہے کہ آنکھیں اونگھ سے جھکی جا رہی ہیں جو امن و امان کا نشان ہے جیسے سورۃ انفال میں بدر کے واقعہ میں ہے آیت ( اذ یغشیکم النعاس امنتہ منہ ) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن بصورت اونگھ نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں لڑائی کے وقت انکی اونگھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے ، حضرت ابو طلحہ کا بیان ہے کہ احد والے دن مجھے اس زور کی اونگھ آنے لگی کہ بار بار تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی آپ فرماتے ہیں جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو تقریباً ہر شخص کو اسی حالت میں پایا ، ہاں البتہ ایک جماعت وہ بھی تھی جن کے دلوں میں نفاق تھا یہ مارے خوف و دہشت کے ہلکان ہو رہے تھے اور ان کی بدگمانیاں اور برے خیال حد کو پہنچ گئے تھے ، پس اہل ایمان اہل یقین اہل ثبات اہل توکل اور اہل صدق تو یقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد کرے گا اور ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو کر رہے گی لیکن اہل نفاق اہل شک ، بےیقین ، ڈھلمل ایمان والوں کی عجب حالت تھی ان کی جان عذاب میں تھی وہ ہائے وائے کر رہے تھے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسو اس پیدا ہو رہے تھے انہیں یقین کامل ہو گیا تھا کہ اب مرے ، وہ جان چکے تھے کہ رسول اور مومن ( نعوذ باللہ ) اب بچ کر نہیں جائیں گے اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ، فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے کہ جہاں ذرا نیچا پانسہ دیکھا تو ناامیدی کی گھٹگھور گھٹاؤں نے انہیں گھیر لیا ان کے برخلاف ایماندار بد سے بد تر حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھتا ہے ۔ ان کے دلوں کے خیالات یہ تھے کہ اگر ہمارا کچھ بھی بس چلتا تو آج کی موت سے بچ جاتے اور چپکے چپکے یوں کہتے بھی تھے حضرت زبیر کا بیان ہے کہ اس سخت خوف کے وقت ہمیں تو اس قدر نیند آنے لگی کہ ہماری ٹھوڑیاں سینوں سے لگ گئیں میں نے اپنی اسی حالت میں معتب بن قشیر کے یہ الفاظ سنے کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ ہوتے ، اللہ تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں مرنے کا وقت نہیں ٹلتا گو تم گھروں میں ہوتے لیکن پھر بھی جن پر یہاں کٹنا لکھا جا چکا ہوتا وہ گھروں کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں میدان میں آ کر ڈٹٹ گئے اور اللہ کا لکھا پورا اترا ۔ یہ وقت اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے ارادوں اور تمہارے مخفی بھیدوں کو بےنقاب کرے ، اس آزمائش سے بھلے اور برے نیک اور بد میں تمیز ہو گئی ، اللہ تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں اور ارادوں سے پوری طرح واقف ہے اس نے اس ذرا سے واقعہ سے منافقوں کو بےنقاب کر دیا اور مسلمانوں کا بھی ظاہری امتحان ہو گیا ، اب سچے مسلمانوں کی لغزش کا بیان ہو رہا ہے جو انسانی کمزوری کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئی فرماتا ہے شیطان نے یہ لغزش ان سے کرا دی دراصل یہ سب ان کے عمل کا نتیجہ تھا نہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے نہ ان کے قدم اکھڑتے انہیں اللہ تعالیٰ معذور جانتا ہے اور ان سے اس نے درگزر فرما لیا اور ان کی اس خطا کو معاف کر دیا اللہ کا کام ہی درگزر کرنا بخشنا معاف فرمانا حلم اور بربادی برتنا تحمل اور عفو کرنا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان وغیرہ کی اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ولید بن عقبہ نے ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا آخر تم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان سے اس قدر کیوں بگڑے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا اس سے کہدو کہ میں نے احد والے دن فرار نہیں کیا بدر کے غزوے میں غیر حاضر نہیں رہا اور نہ سنت عمر ترک کی ، ولید نے جا کر حضرت عثمان سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کہہ رہا ہے آیت ( وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ ) 3 ۔ آل عمران:155 ) یعنی احد والے دن کی اس لغزش سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا پھر جس خطا کو اللہ نے معاف کر دیا اس پر عذر لانا کیا ؟ بدر والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری بیوی حضرت رقیہ کی تیمارداری میں مصروف تھا یہاں تک کہ وہ اسی بیماری میں فوت ہو گئیں چنانچہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے پور احصہ دیا اور ظاہر ہے کہ حصہ انہیں ملتا ہے جو موجود ہیں پس حکماً میری موجودگی ثابت ہوا ہے ، رہی سنت عمر اس کی طاقت نہ مجھ میں ہے نہ عبدالرحمن میں ، جاؤ انہیں یہ جواب بھی پہنچا دو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

154۔ 1 مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کردی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نعاسا امنۃ سے بدل ہے۔ طائفہ واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر) 154۔ 2 اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو اپنی جانوں کی فکر تھی۔ 154۔ 3 وہ یہ تھیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ 154۔ 4 یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے ؟ یا یہ کہ ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جاسکتی ہے۔ 154۔ 5 تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد بھی اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اسی کے حکم سے ہوگی اور امر و نہی بھی اسی کا ہے۔ 154۔ 6 اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں، ظاہر یہ کرتے ہیں، کہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ 154۔ 7 یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ 154۔ 8 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دی گئی۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضرور وہاں کھینچ لے جاتی۔ 154۔ 9 یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہوجائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ 154۔ 10 یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے ؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جنہیں عام لوگ دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٣] اتنے شدید قسم کے غموں کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر اونگھ طاری کرنا ایک نعمت غیر مترقبہ اور غیر معمولی امداد تھی۔ اونگھ سے جسمانی اور روحانی دونوں طرح کا سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ بدن کی تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور غم یکدم بھول جاتے ہیں۔ چناچہ حضرت ابو طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ احد کے دن عین جنگ کے دوران مجھے اونگھ نے آدبایا، تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی، میں اسے تھام لیتا، پھر گرنے کو ہوتی، پھر تھام لیتا۔ (بخاری کتاب التفسیر) [١٤٤] جو مسلمان غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے۔ سب ایک جیسے پختہ ایمان والے اولوالعزم اور بہادر نہ تھے بلکہ کچھ کمزور دل بھی تھے اور انصار میں سے کچھ منافقین بھی تھے۔ جو انصار کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک تھے۔ اور یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے علاوہ تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہیں نہ اسلام کی فکر تھی نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی، انہیں بس اپنی ہی جانوں کی فکر تھی، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابو سفیان نے دوبارہ حملہ کردیا تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا۔ کبھی وہ یہ سوچتے تھے اللہ اور اس کے رسول نے فتح و نصرت کے جو دعوے کئے تھے وہ کہاں گئے ؟ ان لوگوں کے متعلق ترمذی میں جو روایت آئی ہے وہ یوں ہے : & یہ دوسرا گروہ منافقین کا تھا، جنہیں اپنی باتوں کے علاوہ اور کسی بات کی فکر نہ تھی وہ قوم میں سب سے زیادہ بزدل سب سے زیادہ مرعوب اور سب سے زیادہ حق کی حمایت سے گریز کرنے والے تھے۔ & (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٤٥] یعنی جنگی تدابیر اور ان کے متعلق مشورہ میں ہماری بات کو بھی درخور اعتنا سمجھا جاسکتا ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ اس گروہ کے لوگوں کا بھی یہی خیال اور رائے تھی کہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور ان کی یہ رائے کسی صوابدید پر نہیں بلکہ محض بزدلی کی بنا پر تھی۔ اب شکست کے بعد انہیں یہ کہنے کا موقع میسر آگیا کہ اگر ہماری رائے پر عمل کیا جاتا تو یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ نہ ہی ہمارے بھائی بند یہاں مارے جاتے۔ [١٤٦] کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ جس مقام پر کسی کی موت واقع ہونا مقدر ہوتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے مقررہ وقت پر وہاں پہنچ کے رہتا ہے، وہ مقام کون سا ہوگا ؟ یہ ایسی بات ہے جس کا اللہ کے سوا کسی کو بھی علم نہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ 34؀ ) 31 ۔ لقمان :34) (٣١: ٣٤) (کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس جگہ مرے گا) یعنی اگر جنگ برپا نہ بھی ہوتی تو جن جن لوگوں کا یہاں مرنا مقدر ہوچکا تھا وہ کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ کے رہتے اور اگر میدان جنگ میں ان کا مرنا مقدر ہوتا اور میدان جنگ میں نہ آنے کے ہزاروں جتن کرتے، وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے یہاں پہنچ کے رہتے۔ کیونکہ اللہ کی تقدیر باقی سب باتوں پر غالب ہے۔ [١٤٧] اس جنگ اور پھر اس میں شکست کے واقعہ سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ ہر مسلمان کے متعلق سب کو پتہ چل گیا کہ وہ اپنے ایمان میں کس قدر مضبوط ہے۔ بہادر ہے اور عزم کا پکا ہے اور اسی طرح کمزور ایمان والوں، بزدلوں اور منافقوں کا بھی سب کو پتہ چل گیا۔ گویا یہ جنگ ایک امتحان گاہ تھی جس نے واضح کردیا کہ ہر ایک کے دل میں کیا کچھ ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مخلص مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرسکیں اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لیے وساوس اور کمزوریوں سے پاک و صاف بنا دے، اور منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آجائے اور لوگ ان کے خبث باطن سے بچ سکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ ۔۔ : ان پے درپے صدموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں موجود مسلمانوں پر اپنا خاص فضل فرمایا کہ ان پر اونگھ مسلط کردی، جس سے انھیں امن و اطمینان حاصل ہوگیا۔ ابو طلحہ (رض) بیان کرتے ہیں : ” ہم پر اونگھ چھا گئی، جب کہ ہم احد کے دن اپنی صفوں میں کھڑے تھے، حالت یہ تھی کہ میری تلوار میرے ہاتھ سے گری جاتی تھی، میں اسے اٹھا لیتا تھا، وہ پھر گرجاتی تھی اور میں اسے پھر اٹھا لیتا تھا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ ( أمنۃ نعاسًا ) : ٤٥٦٢ ] ابو طلحہ (رض) ہی بیان فرماتے ہیں : ” میں نے احد کے دن اپنا سر بلند کیا اور لوگوں کو دیکھنے لگا تو ( کیا دیکھتا ہوں کہ) ہر شخص اونگھ کی وجہ سے اپنے سر کو ڈھال کے نیچے جھکائے ہوئے ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مطلب ہے : ( ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا ) [ ترمذی، أبواب التفسیر، باب ومن سورة آل عمران : ٣٠٠٧ ] 2 ۙ وَطَاۗىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ : اس سے مراد منافقین اور ضعیف ایمان والے مسلمان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انھیں تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔ ابو طلحہ (رض) بیان فرماتے ہیں : ” دوسرا گروہ منافقین کا تھا، انھیں اپنی جانوں کے سوا اور کوئی دوسری فکر نہ تھی، وہ قوم میں سے سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مرعوب اور حق کی حمایت سے سب سے زیادہ گریز کرنے والے تھے۔ “ [ ترمذی، أبواب التفسیر، ، باب و من سورة آل عمران : ٣٠٠٨ ] 3 يَظُنُّوْنَ باللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۭ۔۔ : ” ِ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۭ“ یہ ” غیر الحق “ سے بدل ہے، یعنی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اسلام اور اس کے حاملین بس اب ہلاک ہوگئے، مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں ہوگی اور یہ دعوت حق پروان نہیں چڑھے گی۔ 4 يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ : یہ جملہ ” يَظُنُّوْنَ “ سے بدل ہے اور ” من الامر “ سے مراد فتح و نصرت ہے، یعنی بالکل مایوسی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہوگی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا ” من الامر “ سے مراد معاملے کا فیصلہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری بات تو مانی ہی نہیں گئی، ہمیں مجبوراً ساتھ دینا پڑا، ورنہ ہم تو شہر سے باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ ہم تو مجبور محض ہیں، ہمارا تو کچھ بھی اختیار نہیں۔ (فتح القدیر) 5 مَّا قُتِلْنَا ھٰهُنَا ۔۔ : مطلب یہ کہ اگر ہماری بات مان لی جاتی کہ شہر کے اندر رہ کر ہی جنگ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا، مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی جو جنگ میں شریک تھے، جیسا کہ زبیر (رض) فرماتے ہیں : ” اللہ کی قسم ! میں معتب بن بشیر، جو بنو عمرو بن عوف سے تھا، اس کی بات سن رہا تھا، جب کہ اونگھ مجھے ڈھانپ رہی تھی، میں خواب کی طرح اس کی بات سن رہا تھا، جب وہ کہہ رہا تھا، اگر اس معاملے میں ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ “ [ المختارۃ، ح : ٨٦٤، ٨٦٥ ] اسے ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں بھی حسن سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو عبداللہ بن ابی کے ساتھ مدینہ لوٹ آئے تھے، اس صورت میں ” ھٰھُنَا “ ( یہاں) کا اشارہ مدینہ کے قریب احد کی طرف ہوگا۔ (قرطبی، شوکانی) 6 قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ ۔۔ : اس سے ان کے خیال کی تردید مقصود ہے، یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے ہیں، وہیں مارے جاتے، کیونکہ اللہ کی تقدیر سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ 7 وَلِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ ۔۔ : یہ جملہ محذوف کی علت ہے، یعنی جنگ احد میں جو کچھ ہوا اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے، اس سے کئی اور حکمتوں کے ساتھ مقصود یہ بھی تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہوجائے اور تمہارے دل وساوس سے پاک ہوجائیں، یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آئے، چناچہ ایسا ہی ہوا اور احد کی لڑائی بگڑنے سے سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Hardships at Uhud: A Test, not Punishment : The noble Companions as evident from: وَلِيَبْتَلِيَ اللَّـهُ مَا فِي صُدُورِ‌كُمْ (154), were actually tested through their sufferings at the battle of Uhud. This was no punishment. The objective was to make true and sincere Muslims distinct from the hypocrites. The mode was a &test of inner qualities&. The eloquent Qur&anic expression أَثَابَكُمْ (He awarded you sorrow), which is suggestive of punishment, can be resolved by saying that the outward form was, no doubt, that of punishment but the real purpose was a sort of affectionate correction, something similar to a well-meaning reprimand from a father to his son or a teacher to his student. In common usage, this can be called a punishment of some sort, but this is, in all reality, a form of training and correction. This is very different from a pure legal punishment. Why did Muslims suffer at Uhud ? The last part of verse 154 beginning with لِيَبْتَلِيَكُمْ (so that Allah may test) seems to indicate that the cause of hardships faced by Muslims was this wise divine arrangement. But, the statement: إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا in the verse (155) following immediately seems to suggest that some past mistake of theirs is the cause of this Satanic effect. The answer is that the particular past mistake was the obvious reason which gave Satan the incentive to make them slip once again, an effort in which the شیطان Satan incidentally succeeded. But there was much more to it; there were wise arrangements made by the Creator behind this slip and its outcome. These have been covered under the expression لِيَبْتَلِيَكُمْ :&so that Allah may test&. In Ruh al-Ma&ani, a report from Zajjaj says that the Satan made them recall some of their sins in the presence of which they hesitated to appear before their Lord. So they moved away from Jihad hoping to fight later on following personal correction and thus meet Allah as martyrs in Jihad. One sin becomes the Cause of another: From the last verse we discover that one sin drags in yet another sin, very much like one good deed which pulls in- another good deed. In other words, all deeds - good and bad - have a sort of magnetic pull of their own. When a person accomplishes a good deed, experience shows that other good deeds become easy on him. His very heart starts desiring to do what is good and righteous. Similarly, a person who commits a sin finds that it has cleared the way for other sins. His very heart starts desiring to do what is sinful. Therefore, some elders say: ان من جزاء الحسنۃ الحسنۃ بعدھا ، وان من جزاء السیٔۃ السیٔۃ بعدھا the ready reward of a good deed is another good deed which a person is enabled to accomplish and the ready punishment of an evil deed is another evil deed the way to which has been cleared by the first.& In Masa&ilus-Suluk, Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) has said: As explained in hadith, sin makes the heart dark and when the heart goes dark, Satan شیطان prevails.& The position of the Noble Companions (رض) in the sight of Allah Almighty : As briefly stated earlier, the mistakes made by some. noble Companions (رض) at the battle of Uhud were intrinsically serious. The majority from among the fifty Companions who were commanded by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to guard a hill-top strategic point, with clear instruction not to leave their duty-post, no matter what happens at the battle front underneath, moved away from their assigned place. Granted that the reason for their abandonment of the post of duty was an erroneous independent judgment, as they thought their side had won the battle. The order to guard their post, according to their view, had been carried out, therefore, they thought, they could go down and join in with the rest of Muslims. But, in reality, their action was in clear contravention of definite instructions given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This mistake of theirs motivated them to leave the battlefield, no matter how this is explained, as reported earlier from Zajjaj. Moreover, this retreat from the battlefield took place while the Messenger of Allah was with them unmoved from the front line and calling them back from behind them. If this situation is viewed without reference to personalities and circumstances that action would certainly be classed as a very serious breach of conduct in a military encounter. In fact, of the many blames imputed to various Companions under the unfortu¬nate genre of Mushajarat (the mutual quarrels and armed confronta¬tions between the noble Companions which took place after the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) this would be rated as the most serious. But, something more worthy of consideration is what Allah Almighty has done in their case inspite of all their mistakes. Stated right here in the present verses, is how their grief was physically changed into tranquility through drowsiness. Then, they were told that their suffering was no punishment; it was a matter of test. Then came the clearly worded proclamation of forgiveness for them. It will be recalled that these have appeared earlier, yet they have been reaf¬firmed here. There is an element of wisdom behind this repetition. The first time it was said, the purpose was to comfort the noble Compan¬ions themselves. Incidentally, here is a refutation of what the hypo-crites said to Muslims. They chided them for not acting on their advice, as a result of which they (the Muslims) suffered all those hardships. In short, all these related verses make it very clear that the Companions of the Messenger of Allah hold a unique position of affec¬tion in His sight inspite of such serious mistakes made by them. Not only that they have been pardoned and forgiven but actually they have been blessed with much more. They have been made special recipients of Allah&s grace and mercy. This is what comes from Allah Almighty Himself through the authentic words of the Holy Qur&an. A similar case, as reported in hadith, relating to Sayyidna Hatib ibn Abi Bilta&ah (رض) was brought before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He had written a letter to the mushrikin (disbelievers) of Makkah in which he had passed on information about Muslims living in Madinah. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was told about it through a revelation, the letter was intercepted. The noble Companions (رض) were very angry with Sayyidna Hatib ibn Abi Bilta&ah (رض) for what he had done. Sayyidna ` Umar, may Allah be pleased with both of them, asked for permission to behead that &hypocrite&. But, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) knew that Hatib was no hypocrite; he was a true, sincere Muslim but he had made a mistake inadvertently. So, he forgave him his mistake and declared that he was one of the people (veterans) of Badr and, perhaps, Allah Almighty has enforced general pardon for all participants of Badr, (This narration appears in all authentic books of ahadith). The Noble Companions (رض) : Lesson for Muslims It is based on this affirmation that the followers of Sunnah and Jama` ah (ahl al-Sunnah wa al-Jama&ah: Muslims who adhere to the practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and that of his blessed Companions (رض) find the confirmation of their belief and practice. That is, even though the noble Companions are not above sin, for sins can be and have been committed by them, but despite this, it is not permissible for the Muslim community to ascribe any evil or defect to them in a derogatory manner. When Almighty and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) forgave such serious slips and errors coming from them and dealt with them generously and mercifully and gave them the great station of (رض) و رضوا عنہ &may Allah be pleased with them and may they be pleased with Allah,& how can anyone claim to have the right to talk about anyone of them in a derogatory manner? This is why Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) on hearing somebody satirize Sayyidna ` Uthman al-Ghani (رض) and some noble Companions (رض) by saying that they had run away from the battlefield, the reference being to this incidence at Uhud, said, &Nobody has the right to criticize that which Allah has expressly proclaimed to have been forgiven (Sahih al-Bukhari). Therefore, all doctrinal source-books of the ahl al-Sunnah wa al-Jama` ah unanimously agree that it is wajib or necessary to honour the position of the noble Companions and to abstain from criticizing, mocking or speaking ill of them. It appears in al-` Aqa` id an-Nasfiyah: و یکف عن ذکر الصحابہ الا بخیر ~ It is necessary that one should not talk about the Companions except in a good manner. In Sharh al-Musamarah, Ibn Humam has said: اعتقاد اھل السنۃ تزکیۃ جمیع السحابۃ والثناء علیھم The belief of the followers of the Sunnah is that all Companions were purified and that they be remembered with praise. This is what appears in Sharh Muwaqif: یجب تعظیم الصحابۃ کلھم و الکف عن القدح فیھم It is obligatory to honour the Companions, all of them; and avoiding satire or criticism against them is equally manda¬tory. Abridged below is what Hafiz Ibn Taymiyyah (رح) has said in al-&Aqidatul Wasitiyah: |"It is a cardinal belief of Ahl al-Sunnah wal-Jama&ah that Muslims must refrain from accusing or criticizing any Companion of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the matter of disagreements or armed conflicts which may have come up among them. There is a reason for this. Most of the narrations imputing drawbacks in them which have crept into history are a pack of lies planted by enemies. They simply have no truth in them. Then, there are others in which the reality has been reversed by additions and alterations. Even if, there was some truth about something, that has to be taken as the independent judgment of the Companions in which they have no choice. Going a step further, we can assume a situation where they may not be helpless but be capable of using their choice, then, what works there is the Divine Law إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ that is, good deeds make up for the bad ones. And it is more than obvious that nobody can claim equality with them in the matter of good deeds. The good they did cannot be matched by the good done by anybody else. Similarly, nobody else can be more deserving of the mercy and forgiveness of Allah Almighty as compared to them. Therefore, nobody has the right to sit on judgment against them and call their deeds to account and in that process, criticise or speak ill of them.|"

احد کے مصائب سزا نہیں بلکہ آزمائش تھے اور جو لغزش بعض صحابہ کرام سے ہوئی وہ معاف کردی گئی ولیبتلی اللہ ما فی صدور کم آلایتہ سے معلوم ہوا کہ غزوہ احد میں جو مصائب اور تکالیف صحابہ کرام کو پیش آئیں وہ بطو سزا نہیں بلکہ بطور آزمائش تھیں، اس امتحان کے ذریعہ مؤ منین، مخلصین اور منافقین میں فرق کا اظہار کرنا تھا اور اثابکم غماً کے الفاظ سے جو اس کا سزا ہونا معلوم ہوتا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ صورت تو سزا ہی کی تھی مگر یہ سزا مربیانہ اصلاح کے لئے تھی، جیسے کوئی بات اپنے بیٹے کو، استاذ اپنے شاگرد کو کچھ سزا دیتا ہے تو عرف میں اس کو سزا بھی کہہ سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ تربیت اور اصلاح کی ایک صورت ہوتی ہے، حاکمانہ سزا اس سے مختلف ہے۔ واقعہ احد میں مسلمانوں پر مصائب کے اسباب کیا تھے ؟:۔ جملہ مذکور لیبتلی سے آخر آیت تک جو ارشاد ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقوع مصائب کا سبب یہ ربانی حکمتیں تھیں، لیکن اگلی آیت میں انما استزلھم الشیطان بعض ماکسبوا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کی کوئی سابقہ لغزش اس شیطانی اثر کا سبب ہے۔ جواب یہ ہے کہ ظاہری سبب تو وہ لغزش ہی ہوئی کہ اس کی وجہ سے شیطان کو ان سے اور معصیت کرا دینے کی بھی طمع ہوگئی اور اتفاق سے اس کی وہ طلمع پوری بھی ہوگئی، مگر اس لغزش اور اس کے پیچھے آنے والے نتائج میں یہ تکوینی حکمتیں مستر تھیں، جن کو لیبتلیکم دلائے جن کو لے کر حق تعالیٰ سے ملنا ان کو اچھا نہ معلوم ہوا، اس لئے جہاں سے ہٹ گئے، تاکہ وہ اپنی حالت کو درست کر کے پھر پسندیدہ حالت پر جہاد کریں اور شہید ہو کر اللہ سے ملیں۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کا بھی سبب ہوجاتا ہے :۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے، جیسے ایک نیکی دوسری کو کھینچتی ہعے، بعض اعمال حسنہ اور سیسہ میں تجاذب ہے، جب انسان کوئی ایک نیک کام کرلیتا ہے تو تجربہ شاہد ہے اس کے لئے دوسری نیکیاں بھی آسان ہوا کرتی ہیں، اس کے دل میں نیک اعمال کی رغبت بڑھ جاتی ہے، اسی طرح انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے دسرے گناہوں کا راستہ ہموار کردیتا ہے، دل میں گناہ کی رغبت بڑھ جاتی ہے، اسی لئے بعض بزرگوں نے فرمایا۔ ” یعنی نیک کام کی ایک نقد جزاء وہ دوسری نیکی ہے جس کی توفیق اس کو ہوجاتی ہے اور برے عمل کی ایک سا وہ دوسرا گناہ جس کے لئے پہلے گناہ نے راستہ ہموار کردیا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے مسائل السلوک میں فرمایا کہ حدیث کی تصریح کے مطابق گناہ سے قلب میں ایک ظلمت اور تاریکی پیدا ہوجاتی ہے اور جب قلب میں ظلمت آجاتی ہے تو شیطان قابو پا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحابہ کرام کا مقام بلند اور ان کی خطاؤں پر عفو و درگذر کا بیمثال معاملہ :۔ واقعہ احد میں جو لغزشیں اور خطائیں بعض اصحاب کرام سے صادر ہوئیں وہ اپنی ذات میں بڑی شدید اور سخت تھیں، جس مورچہ پر پچاس صحابہ کو یہ حکم دے کر بٹھایا تھا کہ ہم پر کچھ بھی حال گذرے تم یہاں سے نہ ہٹنا، ان کی بڑی تعداد یہاں سے ہٹ گی، اگرچہ ہٹنے کا سبب ان کی یہ اجتہادی غلطی سہی کہ اب فتح ہوچکی ہے اس حکم کی تعمیل پوری ہوچکی ہے، یہاں سے نیچے آ کر سب مسلمانوں کے ساتھ مل جانا چاہئے، مگر درحقیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واضح ہدایات کے خلاف تھا، اسی خطاء و قصور کے نتیجہ میں میدان جنگ سے بھاگنے کی غلطی سر زد ہونی چاہئے اس میں بھی کسی تاویل ہی کا سہارا لیا گیا ہو، جیسا کہ زجاج سے اوپر نقل کیا جا چکا ہے پھر یہ میدان جنگ سے بھاگنا ایسی حالت میں ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ ہیں اور پیچھے سے ان کو آواز دے رہے ہیں، یہ چیزیں اگر شخصیات اور گرد و پیش کے حالات سے الگ کر کے دیکھی جائیں تو بلاشبہ سخت ترین اور ایسے سنگین جرم تھے، کہ مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں مختف صحابہ پر جتن الزامات مخالفین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں یہ ان سب سے زیادہ شدید جرائم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر غور کیجئے کہ حق تعالیٰ نے ان تمام خطاؤں اور لغزشوں کے بعد بھی ان حضرات کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا، وہ مذکورہ آیات میں بڑی وضاحت سے آگیا کہ اول ظاہری انعام اونگھ کا بھیج کر انکی تکلیف اور تکان و پریشانی دور کی گئی، پھر یہ بتلایا گیا کہ جو مصائب اور غم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا ہے وہ نری سزا اور عقوبت نہیں بلکہ اس میں کچھ مربیانہ حکمتیں مستور ہیں، پھر صاف لفظوں میں معافی کا اعلان فرمایا، یہ سب چیزیں ایک مرتبہ اس سے پہلے آ چکی ہیں، اس جگہ پھر ان کا اعادہ فرمایا، اس تکرار کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ پہلی مرتبہ تو خود صحابہ کرام کی تسلی کے لئے یہ ارشاد فرمایا گیا اور اس جگہ منافقین کے اس قول کا رد بھی مقصود ہے، جو وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم نے ہماری رائے پر عمل نہ کیا اس لئے مصائب و تکالیف کا سامنا ہوا۔ بہرحال ان تمام آیات میں یہ بات بڑی وضاحت سے سامنے آگئی کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے رسول محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہے کہ اتنی بڑی عظیم خطاؤں اور لغزشوں کو باوجود ان کے ساتھ معاملہ صرف عفو و درگزر کا ہی نہیں، بلکہ لطف و کرم کار فرمایا گیا، یہ معاملہ تو خود حق تعالیٰ کا اور نصوص قرآنی کا بیان کیا کیا ہوا ہے، اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ کا حضور کے سامنے پیش ہوا، انہوں نے مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے حالات کے متعلق ایک خط لکھ رہا تھا، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذریعہ وحی اس کی حقیقت کھلی اور خط پکڑا گیا تو صحابہ کرام میں حاطب ابن ابی بلتعہ کے خلاف سخت غیظ و غضب تھا، فاروق اعظم، نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن مار دوں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم تھا کہ وہ منافق نہیں مومن مخلص ہیں مگر یہ غلطی ان سے سرزد ہوگئی۔ اس لئے اس کو معاف فرمایا اور فرمایا کہ یہ اہل بدر میں سے ہیں اور شاید اللہ تعالیٰ نے تمام حاضر بن بدر کے متعلق مغفرت اور معافی کا حکم نافذ کردیا ہے (یہ روایت حدیث کی سب معتبر کتب میں موجود ہے) صحابہ کرام کے متعلق عام مسلمانوں کے لئے ایک سبق :۔ یہیں سے اہل سنت والجماعت کے اس عقیدہ اور عمل کی تصدیق ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگرچہ گناہوں سے معصوم نہیں، ان سے بڑے گناہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ ان کی طرف کسی برائی اور عیب کو منسوب کرے، جب اللہ تعالیٰ اور اس کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اتنی بڑی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کر کے ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ فرمایا اور ان کو (رض) و رضوا عنہ کا مقام عطا فرمایا، تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ ان میں سے کسی کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے حضرت عثمان غنی اور بعض صحابہ کرام پر غزوہ احد کے اسی واقعہ کا ذکر کر کے طعن کیا کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جس چیز کی معافی کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا اس پر طعن کرنے کا کسی کو کیا حق ہے۔ (صحیح بخاری) اس لئے اہل السنت و الجماعتہ کے عقائد کی کتابیں سب اس پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم اور ان پر طعن اعتراض سے پرہیز واجب ہے، عقائد نسفیہ میں ہے : ” یعنی واجب ہے کہ صحابہ کا ذکر بغیر خیر کے اور بھلائی کے نہ کرے۔ “ ” یعنی اہل السنتہ و الجماعتہ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کو عدول و ثقافت سمجھیں، ان کا ذکر مدح وثناء کے ساتھ کریں۔ “” یعنی تمام صحابہ کی تعظیم واجب ہے، اور ان پر طعن و اعتراض سے باز رہنا واجب ہے۔ “ حافظ ابن تیمیمہ نے عقیدہ واسطیہ میں فرمایا ہے کہ :۔ اہل سنت والجماعتہ کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلافات اور قتل و قتال ہوئے ہیں ان میں کسی پر الزام و اعتراض کرنے سے باز رہیں وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو روایات ان کے عیوب کے متعلق آئی ہیں ان میں بکثرت تو جھوٹی اور غلط ہیں جو (دشمنوں نے اڑائی ہیں اور بعض وہ ہیں جن میں کمی بیشی کر کے اپنی اصلیت کے خلاف کردی گئی ہیں اور جو بات صحیح بھی ہے تو صحابہ کرام اس میں اجتہادی رائے کی بناء پر معذور ہیں اور بالفرض جہاں وہ معذور بھی نہ ہوں تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ ان الحسنات یدھبن السیات یعنی اعمال صالحت کے مجولے اعمال کا بھی کفارہ ہوجاتا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے اعمال صالحہ کے برابر کسی دوسرے کے اعمال نہیں ہو سکتے، اور اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کے جتنے وہ مستحق ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، اس لئے کیسے ہو سکتے اور اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کے جتنے وہ مستحق ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، اس لئے کسی کو یہ حق نہیں کہ ان کے اعمال پر مواخذہ کرے اور ان میں سے کسی پر لعن و اعتراض کی زبان کھولے (عقیدہ واسطیہ ملخصاً ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَۃً مِّنْكُمْ۝ ٠ ۙ وَطَاۗىِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّـتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَيْرَ الْحَـقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِيَّۃِ۝ ٠ ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ۝ ٠ ۭ يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ۝ ٠ ۭ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۝ ٠ ۭ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝ ٠ ۚ وَلِــيَـبْتَلِيَ اللہُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِـيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ١٥٤ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ نعس النُّعَاسُ : النَّوْمُ القلیلُ. قال تعالی: إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال/ 11] ، نُعاساً [ آل عمران/ 154] وقیل : النُّعَاسُ هاهنا عبارةٌ عن السُّكُونِ والهُدُوِّ ، وإشارةٌ إلى قول النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «طُوبَى لِكُلِّ عَبْدٍ نُوَمَةٍ» ( ن ع س ) النعاس کے معنی اونگھ یا ہلکی سی نیند کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال/ 11] جب اس نے تمہیں نیند کی چادر اڑھادی ۔ نُعاساً [ آل عمران/ 154] تسلی ۔۔۔۔ یعنی نیند بعض نے کہا ہے کہ یہاں نعاس سے مراد سکون اور اطمینان ہے اور یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول مبارک کی طرف اشارہ ہے طوبیٰ لکل عبد نومۃ کہ ہر باسکون آدمی کے لئے خوش خبری ہے ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) همم الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] ( ھ م م ) الھم کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظ َلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ مضاجعھم ۔ اسم ظرف مکان۔ مضاف۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ ۔ قتل گاہیں۔ مقتل ۔ صنجع سے جس کا اصل معنی سونا ہے لیکن سونے سے کبھی موت مراد لی جاتی ہے۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے محص أصل المَحْصِ : تخلیص الشیء مما فيه من عيب کالفحص، لکن الفحص يقال في إبراز شيء من أثناء ما يختلط به، وهو منفصل عنه، والمَحْصُ يقال في إبرازه عمّا هو متّصل به، يقال : مَحَصْتُ الذّهب ومَحَّصْتُهُ : إذا أزلت عنه ما يشوبه من خبث . قال تعالی: وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا[ آل عمران/ 141] ، وَلِيُمَحِّصَ ما فِي قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 154] ، فَالتَّمْحِيصُ هاهنا کالتّزكية والتّطهير ونحو ذلک من الألفاظ . ويقال في الدّعاء : ( اللهمّ مَحِّصْ عنّا ذنوبنا) «5» أي : أزل ما علق بنا من الذّنوب . ومَحَصَ الثّوبُ «6» : إذا ذهب زِئبِرُهُ «7» ، ومَحَصَ الحبل يَمْحَصُ : أخلق حتی يذهب عنه وبره، ومَحَصَ الصّبيُّ : إذا عدا . ( م ح ص ) المحص کے اصل معنی کسی چیز کو کھوٹ اور عیب سے پاک کرنے کے ہیں یہ فحص کے ہم معنی ہے مگر فحص کا لفظ ایک چیز کو دوسری ایسی چیزوں سے الگ کرنے پر بولا جاتا ہے جو اس میں مل جائیں لیکن درحقیقت اس سے منفصل ہوں مگر محص کا لفظ ان ملی ہوئی چیزوں کو کسی چیز سے الگ کرنے کے لئے آتا ہے جو اس سے متصل اور گھل مل گئی ہوں ۔۔۔۔۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ محصت الذھب ومخصتہ سونے کو آگ میں گلا کر اس کے کھوٹ کو الگ کردیا چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا[ آل عمران/ 141] اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص مومن بنادے وَلِيُمَحِّصَ ما فِي قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 154] اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو خالص اور صاف کردے ۔ میں دلوں کے پاک کرنے پر تمحیص کا استعمال ایسے ہی ہے جیسا کہ تزکیۃ اور اس قسم کے دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں چناچہ دعا کرتے وقت کہا جاتا ہے ۔ اللھم محص عنا ذنوبنا اے اللہ ہمارے گناہوں کو جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں دور کر دے ۔ محص الثوب کپڑے کا رواں استعمال سے گھس گیا اور اس کی تاذگی چلی گئی ۔ محص الحبل یمحص رسی پرانی ہوگئی ۔ اور اس کا روآں صاف ہوگیا ۔ محص النبی بچہ ( طاقت ور ہوکر ) دوڑ نے لگا ۔ ( م ح ق ) المحق کے معنی گھٹنے اور کم ہونے کے ہیں اور اسی سے المحاق قمری مہینہ کی ان آخری راتوں کو کہتے ہیں جن میں چاند نمودار نہیں ہوتا ۔ انمحق وامتحق کے معنی کم ہونا اور مٹ جانا ہیں اور محقہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے اور اس سے برکت کو ختم کردینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] خدا سود کرنا بود ( یعنی بےبرکت کرتا ) اور خیرات ( کی برکت ) کو بڑھاتا ہے ۔ وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران/ 141] اور کافروں کو نابود کردے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

میدان احد میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی عجیب کیفیت قول باری ہے (ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ نعاسا لیغشی طائفۃ منکم ، اس غم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمنان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ ادنگھنے لگے) حضرت طلحہ (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، قتادہ، ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہ واقعہ غزوہ احد میں پیش آیا، مسلمانوں میں سے کچھ تو شکست کھاکرپیچھے ہٹ گئے، ساتھ ہی مشرکین کی طرف سے دوبارہ حملے کی دھمکی کی، ادھر جو مسلمان میدان جنگ میں ڈٹے رہے اور دشمن سے دودوہاتھ ہونے کے لیے پوری طری تیار تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے اطمینان کی کیفیت طاری کردی اور وہ اونگھ گئے ، لیکن منافقین کو ان کے سوئے ظن اور خوف کے غلبے کی بناپر یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا کہنا ہے کہ ہم سوگئے حتی کہ پورے لشکر میں اونگھ کی کیفیت میں منہ سے نکلنے والی آواز پھر گئی۔ منافقین کو یہ کیفیت نصیب نہیں ہوئی بلکہ انھین اپنے جان کے لالے پڑے رہے۔ ایک صحابی نے یہ کہا کہ میں نے نیم خوابی کے عالم میں معتب بن قشیر اور کچھ دوسرے منافقین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ، اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے۔ ایسے موقعہ پر جبکہ دشمن سرپرسوار تھا، بہت سے رفقاء شکست کھاچکے تھے اور بہت سے شہید ہوچکے تھے، یہ اللہ کا محض لطف و کرم تھا اور اس کی طرف ہے نبوت کی نشانی کا اظہار کہ مسلمانوں کو اس وقت عین دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑے کھڑے نیند آگئی حالانکہ وہ ایسا نازک وقت تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھوں سے بھی گھبراہٹ کی وجہ سے نینداڑجاتی ہے چہ جاٹی کہ جو دشمن کے خلاف صف آراہوں اور دشمن کی تلواریں اور نیزے ان کی جان لینے اور ان کا نام ونشان مٹادینے کے لیے لہرا رہے ہوں۔ اس واقعہ میں کئی وجوہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی بڑی سے بڑی نشانی اور قوی سے قوی حجت اور دلیل موجود ہے۔ اول ایسے وقت میں اطمینان کا حصول جبکہ بظاہر دشمن غالب ہو، کسی طرف سے کسی کمک کے آنے کی امیدنہ ہو، دشمن کا زیادہ نقصان بھی نہ ہو اہو، نیز وہ میدان چھوڑکرجانا بھی نہ چاہتا ہو اور اس کی تعدادبھی کم نہ ہو۔ ایسے نازک وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی طورپر اہل ایمان ویقین کے دلوں میں اطمینان پیدا کردینا ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے دوم ایسے نازک موقعہ پر اونگھ کی کیفیت کا طاری ہوجانا جبکہ اس منظر کا مشاہدہ کرکے لوٹنے والے کی آنکھوں سے بھی نینداڑجاتی ہے، ان لوگوں کی حالت کا آسانی سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے جو اس منظر میں موجود ہیں اور دشمن انھیں ختم کرنے اور ان کا نام ونشان مٹانے پر تلاہوا ہے۔ سوم، اہل ایمان اور منافقین کے درمیان خط امتیاز کھینچ دینا کہ اول الذکرگردہ کو سکون واطمینان اور راونگھ جانے کی نعمت مل گئی جبکہ موخرالذکر گروہ انتہائی خوف ودہشت اور قلق واضطراب کے عالم میں گرفتاررہا بیشک پاک ہے وہ ذات جو عزیز وعلیم ہے۔ جو نیکوکاروں کے اجر کو ضائع ہونے نہیں دیتی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٤) اس غم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا کہ اہل صدق ویقین کو کفار سے بھاگنے کے بعد ایک اونگھ جیسے سکینت آگئی۔ (جنگ کی اس شدید افراتفری میں جب جسم وذہن پر شدید بوجھ ہوتا ہے اور جنگ کے مہیب شعلے اور تڑپتی لاشیں، زخمیوں کی چیخ و پکار کے اس سخت ترین ماحول میں کہ جب نیند اڑ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بطور سکینت نیند کے جھونکے دے کر تروتازہ کردیا۔ ابوطلحہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا، جن پر احد کے روز نیند چھا رہی تھی، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی، حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا، پھر گرتی تھی اور میں پھر پکڑتا تھا۔ (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ٨٥٢) جس سے انکا سارا غم دور ہوگیا اور دوسری معتب بن قشیر منافق کی جماعت کو اپنی جان کی فکروہی رہی تھی ان پر اونگھ طاری نہیں ہوئی یہ لوگ جاہلیت کے عقیدہ کے مطابق یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد نہیں فرمائے گا اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارا ہی سب کچھ اختیار چلتا ہے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ دولت ونصرت سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ یہ منافق اپنے دلوں میں ایسی خطرناک سازش پوشیدہ رکھتے ہیں، جو آپ کے سامنے قتل ہونے کے ڈر سے ظاہر نہیں کرتے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقین سے فرما دیجیے کہ اگر تم مدینہ منورہ میں بھی ہوتے تو جن کے مقدر میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور احد کے میدان میں آتے یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے دلوں کی آزمائش کرتا اور ان کے نفاق کو سامنے لاتا ہے اور ان کے دلوں میں جو خیر و شر ہے، اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” انزل علیکم من بعد “۔ (الخ) ابن راہویہ نے حضرت زبیر (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ احد کے دن جب ہم پر دشمنوں کا خوف ہوا سمجھے دیکھتے کہ ہم میں سے ہر ایک پر ایک قسم کی اونگھ طاری ہوگئی اور میں خواب دیکھنے کی طرح معتب بن قشیر کا یہ قول سن رہا تھا کہ اگر اہمار اکچھ اور اختیار چلتا تو ہم یہاں مقتول نہ ہوتے، میں نے اس کے اس قول کو یاد کرلیا، اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ثم انزل “۔ سے ”۔ علیم بذات الصدور “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٤ (ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْم بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً (نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآءِفَۃً مِّنْکُمْ لا) انسان کو نیند جو آتی ہے یہ اطمینان قلب کا مظہر ہوتی ہے کہ جیسے اب اس نے سب کچھ بھلا دیا۔ عین حالت جنگ میں ایسی کیفیت اللہ کی رحمت کا مظہر تھی۔ (وَطَاءِفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْہُمْ اَنْفُسُہُمْ ) (یَظُنُّوْنَ باللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِط ) ۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے تین سو ساتھی تو میدان جنگ کے راستے ہی سے واپس ہوگئے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر مسلمانوں کی جماعت میں کچھ منافقین باقی رہ گئے تھے تو ان کا حال یہ تھا کہ اس وقت انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ایسی کیفیت میں انہیں اونگھ کیسے آتی ؟ ان کا حال تو یہ تھا کہ ان کے دلوں میں وسوسے آ رہے تھے کہ اللہ نے تو مدد کا وعدہ کیا تھا ‘ لیکن وہ وعدہ پورا نہیں ہوا ‘ اللہ کی بات سچی ثابت نہیں ہوئی۔ اس طرح ان کے دل و دماغ میں خلاف حقیقت زمانۂ جاہلیت کے گمان پیداہو رہے تھے۔ (یَقُوْلُوْنَ ہَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ ط) یہ وہ لوگ ہوسکتے ہیں جنہوں نے جنگ سے قبل مشورہ دیا تھا (جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی رائے بھی تھی) کہ مدینے کے اندر محصور رہ کر جنگ کی جائے۔ جب ان کے مشورے پر عمل نہیں ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ان معاملات میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے یا ساری بات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی چلے گی ؟ یہ بھی جماعتی زندگی کی ایک خرابی ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ میری بات بھی مانی جائے ‘ میری رائے کو بھی اہمیت دی جائے۔ آخر ہم سب اپنے امیر ہی کی رائے کیوں مانتے چلے جائیں ؟ ہمارا بھی کچھ اختیار ہے یا نہیں ؟ (قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلَّہِ ط) ۔ (یُخْفُوْنَ فِیْ اَنْفُسِہِمْ مَّا لاَ یُبْدُوْنَ لَکَ ط) ان کے دل میں کیا ہے ‘ اب اللہ کھول کر بتارہا ہے۔ (یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا ہٰہُنَا ط) ۔ اگر ہماری رائے مانی جاتی ‘ ہمارے مشورے پر عمل ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔ یعنی ہمارے اتنے لوگ یہاں پر شہید نہ ہوتے۔ (قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ ) (لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمْ ج) اللہ کی مشیت میں جن کے لیے طے تھا کہ انہیں شہادت کی خلعت فاخرہ پہنائی جائے گی وہ خود بخود اپنے گھروں سے نکل آتے اور کشاں کشاں ان جگہوں پر پہنچ جاتے جہاں انہوں نے خلعت شہادت زیب تن کرنی تھی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہوتے ہیں ‘ تمہاری تدبیر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

112. A strange phenomenon was then experienced by certain Muslim soldiers. Abu Talhah, who took part in the battle, states that the Muslims were seized by such drowsiness that their swords were slipping from their hands. (For several Traditions stating this incident, including one related by Abu Talhah, see Waqidi, Maghazi, vol. 1, pp. 295-6 - Ed.)

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :112 یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکر اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹی پڑتی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

51: جنگ احد میں جو غیر متوقع شکست ہوئی، اس پر صحابہ صدمے سے مغلوب ہو رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے جانے کے بعد بہت سے صحابہ پر اونگھ مسلط فرما دی جس سے غم غلط ہوگیا۔ 52: یہ منافقین کا ذکر ہے وہ جو کہہ رہے تھے کہ : کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے؟ اس کا ظاہری مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی تقدیر کے آگے کسی کا اختیار نہیں چلتا اور یہ بات صحیح تھی ؛ لیکن ان کا اصل مقصد وہ تھا جو آگے قرآن کریم نے دہرایا ہے یعنی یہ کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر دفاع کیا جاتا تواتنے سارے آدمیوں کے قتل کی نوبت نہ آتی. 53: اشارہ اس طرف ہے کہ اس طرح کے مصائب سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور باطنی بیماریاں دور ہوتی ہیں.

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(154 ۔ 155) ۔ جب مسلمان ان طرح طرح کے غموں میں مبتلا ہوئے جن کا ذکر اوپر گذرا تو اللہ تعالیٰ نے عین لڑائی کے وقت ان پر تھوڑی دیر کے لئے ایک طرح کی غنودگی اتاری جس سے ان کی تھکان ذرا رفع ہوگئی۔ مگر اس غنودگی میں یہ حکمت الٰہی تھی کہ جو پکے مسلمان تھے ان کو تو غنودگی ہوگی اور جو کچے تھے وہ اسی طرح پریشانی کے عالم میں رہے اور گھبرا کر یہ کہتے تھے کہ ہمارا کچھ اختیار ہوتا اور مدینہ کے اندر سے لڑائی لڑنے کی صلاح مان لی جاتی تو ہم یہاں جنگل میں کیوں ہلاکت میں پڑتے یہ مقولہ دبی زبان سے اس طرح چپکے چپکے کہتے تھے کہ آنحضرت کو معلوم نہ ہو۔ مگر اس مقولہ کے کہنے والے کے پہلو میں جو شخص تھے انہوں نے اس مقولہ کو سنا ابھی آنحضرت تک یہ چرچا نہیں پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کچے مسلمانوں کا کچا پن ظاہر ہوجانے کی غرض سے یہ آیت نازل فرمائی۔ چناچہ اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں حضرت زبیر (رض) سے روایت کی ہے حضرت زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک غنودگی کی حالت میں تھا جس طرح خواب میں کوئی شخص کوئی آواز سنتا ہے۔ اسی طرح میں نے معتب بن قنبیر ١ کی زبان سے یہی مقولہ سنا اور غنودگی میں اس کو میں نے یاد بھی کرلیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی ٢۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ یہ ان لوگوں کی خام خیالی ہے کہ ان کا اختیار ہوتا تو جو کچھ اللہ کے اختیار اور قدرت سے ہوا ہے یہ لوگ اس کو روک لیتے۔ بلکہ یہ لوگ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جو کچھ ہونے والا تھا وہ ہوتا کہ پکے مسلمانوں اور منافقوں کی جانچ ہوجاتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ تدبیر سے تقدیر نہیں ٹلتی۔ خواہ آدمی گھر میں ہو یا جنگل میں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:154) امنۃ۔ امن ۔ دلجمی۔ چین۔ امن سے نعاسا۔ اونگھ۔ نعسان۔ نیند سے بھرا ہوا آدمی۔ اونگھتا ہوا آدمی۔ نفس اور نعاس مصدر۔ اونگھنا۔ انعاس (افعال) کسی کو سلا دینا۔ امنۃ مؤنث ہے اور نعاس مذکر۔ لہٰذا فعل یغشی (جو نعاسا کے فورا بعد آیا ہے) میں ضمیر فاعل نعاسا کی طرف راجع ہے۔ امنۃ نعاسا کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں : (1) امنۃ۔ فعل انزل کا مفعول ہے اور نعاسا اس کا بدل ہے یعنی بدل اور مبدل منہ (امنۃ) مطلب وہ ذہنی اور جسمانی سکون کی تحصیل ہے جس سے گزشتہ وماغی اور جسمانی پریشانیاں اور تھکاوٹیں دور ہوجائیں۔ (2) نعاسا فعل انزل کا مفعول ہے اور امنۃ اس کا حال جو اس سے پہلے لایا گیا ہے مثال اس کی رأیت راکبا رجلا (نوٹ) حال وہ اسم ہے جو کہ فاعل یا مفعول بہٖ یا دونوں کی حالت (صورت) کو بیان کرے۔ یعنی اللہ نے ان پر اونگھ نازل کی کہ وہ پرسکون حالت میں آگئے۔ (3) نعاسا۔ امنۃ کا عطف بیان ہے (یعنی وہ تابع جو اپنے مبتوع کو صاف طور پر بیان کر دے) یعنی سکون و اطمینان کی وہ حالت جو ہلکی سء نیند کی صورت میں تھی۔ (4) یا امنۃ مفعول لہ ہے کہ (جس کے واسطے فعل واقع ہو) اس نے نازل کیا اونگھ کو تم پر اس واسطے کہ باعث سکون ہو۔ (5) امنۃ امن کی جمع ہے (جیسے بررۃ بار جو اصل میں بارر ہے کی جمع ہے) اور یہ کم ضمیر مفعول پر حال ہے اب ترجمہ یوں ہوگا۔ اور نازل کیا اونگھ کو تم پر جو کہ امن میں آچکے تھے۔ یغشی۔ مضارع واحد مذکر غائب غشی اور غشیان مصدر باب سمع اس نے ڈھانپ لیا۔ اس میں نعاس فاعل ہے۔ اھمتہم۔ ماضی واحد مؤنث غائب اھمام (افعال) سے بمعنی فکر میں ڈالنا ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ اھمتھم انفسھم۔ ان کی جانوں نے ان کو فکر میں ڈال دیا تھا۔ یعنی جن کو اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی۔ ہل لنا من الامر من شیئ۔ کیا ہمارا بھی اس کام میں کچھ دخل ہے استفہام انکاری ہے۔ یعنی ہمارا تو اس کام میں کوئی دخل ہی نہیں (یہ ان منافقین کا قول ہے جو مدینہ میں ہی رہ کر مدافعت کا مشورہ دیتے تھے۔ لیکن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مشورہ کے خلاف باہر نکل کر مقابلہ کا فیصلہ کیا) برز۔ وہ نکلا۔ باب نصر۔ برور کے معنی کھلم کھلا ظاہر ہونے کے ہیں۔ بروز کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک تو بذاتہٖ کسی چیز کا خود نما ہوجانا۔ جیسے وتری الارض بارزۃ (18:47) اور تو دیکھے کہ زمین کھل گئی۔ یہاں زمین کا صاف طور پر کھل جانا مراد ہے کیونکہ اس روز زمین پر مختلف قسم کے جو نشانات ارضی از قسم مکانات ، پہاڑ۔ ٹیلے۔ مکان و مکین وغیرہ مٹ جائیں گے کبھی چھپی ہوئی چیز کے کھل جانے کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وبرزت الجحیم للغرین (26:91) اور دوزخ ظاہر کردی جائے گی گمراہوں کے لئے۔ میدان جنگ میں صف سے نکل کر سامنے میدان میں کھل کر آجانے کو مبارزت کہتے ہیں۔ مضاجعھم۔ اسم ظرف مکان۔ مضاف۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ ۔ قتل گاہیں۔ مقتل ۔ صنجع سے جس کا اصل معنی سونا ہے لیکن سونے سے کبھی موت مراد لی جاتی ہے۔ لبرز الذین ۔۔ مضاجعھم۔ جن کا قتل لکھا جا چکا ہے وہ تو اپنے اپنے مقتلوں کی طرف نکل کر ہی رہیں گے۔ ولیبتلی اللہ ۔۔ یہ سب صائب اس لئے تھے کہ آزمائے اللہ تعالیٰ ۔ یمحص محص یمحص (باب تفعیل) تاکہ صاف کر دے (دیکھو 3:141)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس طائفہ سے مراد پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ یعنی ان پر امن و اطمینان کی کیفیت طاری کردی اور ان کو اونگھ آنے لگی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) کا بیان ہے کہ اونگھ سے میری کیفیت یہ تھی کہ باربار تلوار مرے ہاتھ گرتی اور بڑی مشکل سے اس پر قابو پاتا۔ ( ابن کثیر)7 اس طائفہ سے منا فق اور ضعیف ال ایمان کے لوگ مراد ہیں جو محض مال غنیمت کے لالچ میں لٹرنکلے تھے۔ (قرطبی) ظن الجا ھلیہ یہ غیر الحق سے بدل ہے ینی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اوسلام اور اس کے حا ملین بس اب ہلاک ہوگئے۔ مسلمانوں کی کبھی مدد نہ ہوگی اور نہ یہ دعوت حق پر وان پڑھیگی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) یہ جملہ نظینون سے بدل ہے اور من الا مر سے مراد فتح اور نصرت ہے یعنی بالکل مایو سی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیا کی ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہوگی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا یہ کہ ہمیں تو مجبورا ساتھ دینا پڑا اور نہ ہم تو باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہ تھے۔ بعض نے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چاہا سو کیا ہمارا اس میں کیا اختیار ہے۔ (فتح القدیر۔ وحیدی)10 یعنی نفافق اور مسلمانوں کی بدخو اہی۔ (وحید ی)11 شاہ صاحب کے ترجمہ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی کہ جو جنگ میں شریک تھے جیسا کہ حضرت زبیر (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے معتب بن قشیر (منافق) سے اس قسم کے کلمات سنے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو ابن ابی کے ساتھ مد ینہ کو لوٹ آئے تھے۔ اس صورت میں ھنا کا اشارہ قریب معرکہ احد کی طرف ہوگا۔ (قرطبی۔ شوکانی)12 اس سے ان کے خیال کی تردید یا مقصود ہے یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ صرف اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے وہیں مارے جاتے کیونکہ قضا الہی سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ (شوکانی ) 1 یہ جملہ مخذوف کی علت ہے یعنی جنگ احد میں کچھ ہو اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے اس سے مقصود یہ تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہوجائے اور تمہارے دل وسا وس سے پاک ہوجائیں یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آٗے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ احد کی لڑائی بگڑ نے سے یہ سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ جب کفار میدان سے واپس ہوگئے تو اس وقت غیب سے مسلمانوں پر اونگھ غالب ہوئی جس سے سب غم غلط ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد کے بارے میں تبصرہ جاری ہے۔ احد کے میدان سے ایک دفعہ ہٹنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ پر سکینت کا نزول۔ اُحد میں سراسیمگی اور پے درپے صدمات کے عالم میں اچانک اللہ کی رحمت کا نزول ہوا جہاں جہاں کوئی تھا۔ لمحہ بھر کے لیے اسے اونگھ آئی جس سے کئی دنوں کی تھکاوٹ اور دماغ کا بوجھ ہلکا ہوا۔ صحابہ (رض) اس طرح تازہ دم ہوئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حضرت طلحہ (رض) اپنی کیفیت ذکر کرتے ہیں : (کُنْتُ فِیْمَنْ تَغَشَّاہ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ حَتّٰی سَقَطَ سَیْفِيْ مِنْ یَدِيْ مِرَارًا یَسْقُطُ وَآخُذُہٗ وَیَسْقُطُ فَآخُذُہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب ثم أنزل علیکم من بعد الغم الخ ] ” میں ان لوگوں میں تھا جنہیں اونگھ نے آلیا حتیٰ کہ میرے ہاتھ سے کئی مرتبہ تلوار گری اور میں اسے اٹھاتا رہا۔ “ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں نہ اونگھ آئی اور نہ ہی انہیں کچھ سکون حاصل ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ کاش ! ہمارے پاس فیصلہ کرنے کا کچھ اختیار ہوتا۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھے۔ یہ بھی کہے جا رہے تھے کہ اگر ہماری بات چلتی تو ہم یہاں مرنے اور کٹنے کے بجائے اپنے گھروں میں ٹھہرے رہتے انہیں سمجھاتے ہوئے یہ عقیدہ بتلایا گیا ہے کہ کلی اختیارات صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں بستروں پر لیٹے ہوتے تو پھر بھی موت کے وقت اپنے مقتل پر پہنچ جاتے۔ گو شکست تمہاری اپنی کمزوریوں کا نیتجہ ہے لیکن حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں آزمائش ہے تاکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ ظاہر ہوجائے اور تمہیں معلوم ہو کہ تم ایمان کے کس مقام پر کھڑے ہو ؟ اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات سے خوب واقف ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں کے ساتھ بعض کمزور مسلمانوں نے بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جن کے متعلق یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے احد کے دن پیٹھ دکھائی درحقیقت ان کی کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ نہایت ہی معاف فرمانے والا، بُردبار ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) اس فرمان کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان کے اعمال لشکر کی طرح ہیں جو آدمی کو اپنے مطابق گھسیٹ لیتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں گے تو وہ نیکی کی طرف کھینچ لیں گے اور اگر برے اعمال ہوں گے تو وہ برائی کی طرف لے جائیں گے۔ یہاں معافی کا اعلان ان مسلمانوں کے لیے ہے جو درّہ اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے کسی شخص نے حضرت عثمان (رض) پر اعتراض کیا کہ وہ تین اہم موقعوں پر غیر حاضر تھے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ صلح حدیبیہ کے وقت حضرت عثمان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اور مسلمانوں کی طرف سے مکہ میں نمائندہ بنا کر بھیجا تھا کہ وہ کفار کے ساتھ مذاکرات کریں۔ جب آپ نے صحابہ سے بیعت لی تو اپنے ہاتھ کو عثمان (رض) کا ہاتھ قرار دیا تھا۔ اس سے بڑھ کر کونسا اعزاز ہوسکتا ہے ؟ غزوۂ بدر میں حضرت عثمان (رض) کی غیر حاضری اس لیے تھی کہ ان کی بیوی جو نبی کریم کی بیٹی تھی وہ ان دنوں شدید بیمار تھیں۔ آپ نے اس کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمان (رض) کو گھر میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ جہاں تک احد میں میدان چھوڑ کر بھاگنے کا تعلق ہے۔ اس میں چودہ صحابہ (رض) کے علاوہ باقی سب شامل تھے۔ حضرت عثمان (رض) تنہا نہیں تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کردینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے بعدابن عمر (رض) نے یہ آیت پڑھتے ہوئے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃ سے مرا دایسا خیال ہے جو عقیدہ توحید اور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہو۔ کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ (إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللَّہِ الْغَرُورُ )[ لقمان : ٣٣] ” بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے چناچہ تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ شیطان اللہ کے بارے میں دھوکے میں رکھے۔ “ مسائل ١۔ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ ٢۔ مرنے کے وقت آدمی خود بخود موت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ ٣۔ مرنے کے وقت آزمائش میں انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ کا کرم نہ ہو تو شیطان آدمی کو پھسلا دیتا ہے۔ ٥۔ اللہ سینوں کے رازوں کو جانتا ہے۔ ٦۔ اللہ بخشنے والا ‘ حوصلے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ظَنّ کے معانی : ١۔ ظن کا معنٰی یقین۔ (الحاقۃ : ٢٠) ٢۔ ظن کا معنی گمان کرنا۔ (یوسف : ٤٢) (موقعہ کی مناسبت سے معنٰی کا تعین کیا جاتا ہے) موت ہر کسی کا مقدر ہے : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب اس ہزیمت کا خوف وہراس فرو ہوگیا ‘ اس کی افراتفری ختم ہوگئی تو اہل ایمان پر ایک عجیب سکون طاری ہوگیا۔ اہل ایمان جو اپنے رب کی طرف دوبارہ پلٹ آئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد جمع ہوئے تو ان پر ایک عجیب اونگھ طاری کردی گئی ۔ انہیں ایک ناقابل فہم سکون حاصل ہوگیا اور وہ مطمئن ہوگئے ۔ اس نئی معجزانہ فضائے امن و سکون کی تعبیر نہایت ہی تعجب انگیز ہے ۔ وہ نہایت شفاف ‘ نرم اور خوشگوار فضا ہے اور اس کے زمزمہ اور خوشگوار چھاؤں کی تصویر کشی ان الفاظ میں ہے ۔ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ……………” اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے ۔ “ یہ ایک ایسی فضاتھی جس سے رحمت الٰہی کا اظہار ہورہا تھا اور اللہ کے خاص مومن بندوں پر یہ خاص رحمت نازل ہوا کرتی ہے ۔ یہ ایک اونگھ تھی اور خوفزدہ اور پریشان حال مجاہدین پر جب اونگھ آجائے ‘ اگرچہ ایک لحظہ کے لئے کیوں نہ ہو تو وہ ان کے جسم کے اندر ساحرانہ اثر کرتی ہے ‘ اونگھ دور ہوتے ہی وہ تروتازگی محسوس کرتے ہیں ‘ گویا وہ ایک نئی مخلوق ہیں ‘ دلوں پر اطمینان کی حالت طاری ہوجاتی ہے ۔ جسم آرام محسوس کرتا ہے ۔ اس اونگھ کی کیا حقیقت ہے ‘ اس کی حقیقت اور ماہیت اور کیفیت کا ادراک ہم نہیں کرسکتے ۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے شدید پریشانی کے عالم میں ایسی حالت کو محسوس کیا ہے ۔ میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ اس میں اللہ اللہ کی رحمت کی شبنم ہے ۔ اور اس قدر معجزانہ کہ ہمارے الفاظ اس کے بیان سے قاصر ہیں ۔ ترمذی ‘ نسائی ‘ حاکم نے حماد ابن سلمہ کے واسطہ سے ثابت کی روایت حضرت انس (رض) نے ابوطلحہ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں ” میں نے احد کے دن اپنا سر اٹھایا اور دیکھنے لگا ‘ ہر شخص کا سر ہودج پر جھکا ہوا ہے ۔ اور ایک دوسری روایت ابوطلحہ سے یہ ہے ” ہم احد کے دن میدان جنگ میں تھے ‘ کہ ہم پر ایک خاص اونگھ طاری ہوگئی ۔ میری تلوار گرتی اور میں اسے اٹھاتا ‘ گرتی اور میں دوبارہ اٹھاتا۔ “ ایک گروہ کا حال تو یہ تھا اور دوسرے گروہ کا حال یہ تھا کہ وہ متزلزل الایمان تھا۔ یہ لوگ تھے جنہیں صرف اپنی جان کی فکر تھی ‘ اسی کو اہمیت دیتے تھے ۔ یہ لوگ ابھی تک جاہلیت کے تصورات سے نکل کر باہر نہیں آئے تھے ۔ نہ انہوں نے پوری طرح اپنے آپ کو اس تحریک کے سپرد کردیا تھا ‘ نہ وہ پوری طرح تن بتقدیر الٰہی ہوگئے تھے ۔ وہ اس بات پر مطمئن نہ تھے کہ انہیں جو چوٹ لگی ہے وہ ان میں چھانٹی کے لئے لگی ہے ‘ آزمائش کے لئے یہ سب کچھ ہوا ہے ۔ یہ اس لئے نہیں ہوا کہ اللہ نے اپنے دوستوں اور حامیوں کو دشمنوں کے حوالے کردیا ہے اور نہ کہیں اللہ نے یہ آخری فیصلہ کردیا ہے کفر ‘ شر اور باطل کو اب آخری غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔ اور انہیں اب پورا کنٹرول حاصل ہوگیا ہے ۔ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الأمْرِ مِنْ شَيْءٍ ” مگر ایک دوسراگروہ جس کے لئے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی ‘ اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سرا سر خلاف حق تھے ۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ ” اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے۔ “ اسلامی نظریہ حیات ‘ اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کی جان میں ان کا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ تو سب کے سب اللہ کے ہیں اور جب وہ جہاد فی سبیل اللہ کے نکلتے ہیں تو وہ اللہ کے لئے نکلتے ہیں ‘ وہ اللہ کے لئے حرکت میں آتے ہیں اور اللہ ہی کے لئے جنگ کرتے ہیں ۔ جہاد کے اس عمل میں ان کی ذات کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اس میں پھر وہ اپنے آپ کو اللہ کی تقدیر کے سپرد کردیتے ہیں اور اللہ کی تقدیر ان پر جو حالات بھی لاتی ہے وہ اسے قبول کرتے ہیں ‘ مکمل تسلیم ورضا کے ساتھ جو بھی ہو سو ہو۔ رہے وہ لوگ جو اپنی ذات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ان کی سوچ اور ان کے اندازے ان کی اپنی ذات ارد گرد گھومتے ہیں ‘ ان کی سرگرمی اور ان کے تمام اہتمام صرف اپنی ذات کے لئے ہوتے ہیں ‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایمان کی حقیقت ابھی تک جاگزیں ہی نہیں ہوتی ۔ یہ دوسرا طائفہ جس کا ذکر یہاں ہورہا ہے وہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا ۔ یہاں قرآن کریم نے ان پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا ۔ اس گروہ کے نزدیک ساری اہمیت ان کی ذات کے لئے تھی ۔ وہ نہایت کرب اور پریشانی میں مبتلا تھے ۔ انہیں یہ احساس کھائے جارہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحتیوں کو ایسے کام میں ضائع کررہے ہیں ‘ جو ان کے ذہن میں واضح نہیں ہے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ بغیر ان کی مرضی کے اس معرکے میں شریک ہونے پر مجبور ہوگئے ‘ انہیں اس میں خواہ مخواہ جھونک دیا گیا اس کے باوجود ان کو یہ تلخ چوٹ لگی اور وہ خوامخواہ اس قدر بھاری قیمت ادا کررہے ہیں ‘ قتل ہورہے ہیں ‘ زخمی ہوگئے ہیں اور پریشان کا تو حال نہ پوچھو ۔ یہ لوگ اللہ کی صحیح معرفت سے محروم ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بدگمانیاں کرتے ہیں جس طرح جاہل لوگ کیا کرتے تھے اور سب سے بڑی بدگمانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس معرکہ میں ضائع کررہا ہے ‘ جس کے انتظام میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بس انہیں تو یہاں دھکیل کر لایا گیا ہے تاکہ وہ مریں ‘ زخمی ہوں ۔ اللہ تو نہ انہیں بچاتا ہے اور نہ ان کی مدد کرتا ہے۔ اللہ نے انہیں دشمنوں کے لئے لقمہ تر بنادیا ہے ۔ وہ پوچھتے ہیں هَلْ لَنَا مِنَ الأمْرِ مِنْ شَيْءٍ ” اس کام میں ہمارا بھی حصہ ہے ۔ “ ان کے اس اعتراض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس معرکے کے لئے قیادت نے جو منصوبہ بنایا اس میں ان کی ایک نہ سنی گئی۔ شاید اس گروہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر لڑا جائے اور باہر جاکر لڑنے سے پرہیز کیا جائے لیکن اس کے باوجود وہ عبداللہ ابن ابی کے ساتھ لوٹ نہ گئے تھے ۔ لیکن ان کے دل اس منصوبے پر مطمئن نہ تھے ۔ اس سے قبل کہ اس سیاق کلام میں ان کی بدگمانیوں کی بات ختم کی جائے ‘ درمیان میں مختصر سا جواب دیا جاتا ہے اور اس میں ان کے اس اعتراض کو رد کردیا جاتا ہے ۔ قُلْ إِنَّ الأمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ……………” کہہ دو کہ اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ “ کسی کے لئے کوئی اختیار نہیں ہے ‘ نہ ان کا کوئی اختیار اور کسی کا کوئی اختیار ہے ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کو یہ حکم دے دیالیسَ لَکَ مِنَ الاَمرِ شَئٌ……………” اس کام میں کوئی اختیار تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ “ لہٰذا اس دین کے تمام معاملات ‘ اس کی خاطر جہاد ‘ اس کے نظام کا قیام ‘ لوگوں کے دلوں کے اندرہدایت داخل کرنا وغیرہ یہ سب کام اللہ کے لئے ہیں ۔ ان اختیارات میں کوئی انسان شریک نہیں ہے ۔ بشر کا کام تو صرف یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دے ۔ وہ اپنے وعدہ ایمان کے تقاضے پورے کرے ۔ یہ اب صرف اللہ کا کام ہے کہ اس جدوجہد کے کیا نتائج نکلتے ہیں ۔ اور وہ کیا نکالتا ہے ۔ اس موقعہ پر اللہ ان کے دل کے اندر ایک چھپی ہوئی کمزوری کو بھی طشت ازبام کردیتے ہیں يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لا يُبْدُونَ لَكَ……………” یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں تم پر ظاہر نہیں کرتے ۔ “ ان کا یہ سوال کہ ” کیا ان کے لئے بھی اس معاملے میں کوئی اختیا رہے ؟ “ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کے شعور اور لاشعور میں یہ بات تھی کہ انہیں ایک ایسے کام میں ڈال دیا گیا ہے جس میں وہ از خود نہیں آئے ۔ یہ کہ قیادت کی غلطیوں کی وجہ سے وہ قربانی کا بکرابن گئے ہیں ۔ اگر وہ خود اس معرکے کا نقشہ تیار کرتے تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَا هُنَا……………” ان کی اصل بات یہ ہے کہ اگر قیادت کے اختیارات میں ہمارا کوئی حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے ۔ “ یہ ایک وسوسہ ہے ‘ جو اس وقت تک دلوں میں پیدا ہوتا ہے ‘ جب تک وہ نظریہ کے لئے خالص اور یکسو نہیں ہوجاتے ۔ جب ایسے لوگوں کو کسی موقعہ پر شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے ‘ جب ان پر مصائب آتے ہیں ‘ جب انہیں ان کے تصور اور توقع سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ‘ جب انہیں ناقابل تصور ناگوار نتائج کا سامنا ہوتا ہے ‘ جب ان کے دل و دماغ میں وہ نظریہ حیات اچھی طرح جاگزیں نہیں ہوجاتا اور جب یہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ان پر یہ مصائب محض قیادت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ٹوٹ پڑے ہیں اور اگر وہ خود منصوبہ بندی کرتے تو بڑی کامیابی ہوتی ۔ غرض جب لوگوں کی ذہنی صورت حال یہ ہوتی تو اس گدلے تصور کے ہوتے ہوئے ایسا شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ تمام واقعات کے پیچھے حکمت خداوندی کارفرماہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچ سکتا کہ تمام واقعات کے پیچھے حکمت خداوندی کارفرماہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اللہ کی طرف سے یہ آزمائش ہے ۔ ان کے خیال میں ایسی صورت حال میں خسارہ ہی خسارہ ہوتا ہے۔ ہر طرح کا ضیاع ہی ضیاع ہے۔ ایسے تصورات اور وسوسے رکھنے والوں کے خیالات کی درستگی کے لئے اللہ تعالیٰ ایک نہایت ہی گہری سچائی ان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ وہ سچائی موت کی سچائی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ابتلا کے اندر جو حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اس کے بارے میں بھی وضاحت ہوتی ہے ۔ فرماتے ہیں : قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (١٥٤) ” ان سے کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی ‘ وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے ۔ اور یہ معاملہ جو پیش آیا ‘ یہ تو اس لئے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے ۔ اللہ اسے آزمالے ۔ اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے ‘ اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ “ اگر تم گھروں میں بھی ہوتے اور اسلامی قیادت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ‘ اس معرکے میں نہ کود پڑتے ‘ اور تمام معاملات تم خود اپنی مرضی سے طے کرتے ‘ تو تم میں سے بعض لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنے مقتل کی طرف دوڑے آتے ۔ اس لئے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ۔ وہ اس سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے ۔ ہر شخص کی موت کے لئے ایک جگہ بھی مقرر ہے اور ہر شخص لازماً اس جگہ کی طرف کھنچا آئے گا اور وہاں دم توڑ دے گا ۔ جب موت کا وقت قریب ہوگا تو وہ شخص اپنے پاؤں پر چل کر وہاں پہنچے گا ۔ دوڑتا ہوا آئے گا ۔ کوئی اسے کھینچ کر نہ لائے گا ۔ نہ کوئی اسے اس طرف دھکیلنے والا ہوگا۔ یہ کیا ہی طرز ادا ہے ؟” اپنی جائے آرام کی طرف “ گویا اس کا مقتل نرم بستر ہے ‘ جس پر اس نے آرام کرنا ہے ۔ اس کے قدم وہاں آرام سے لمبے ہوجائیں گے ۔ تمام لوگ ‘ اس دنیا میں اپنی قتل گاہوں اور اپنی آخری آرام کی جگہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور وہ ان مقامات کی طرف بعض اوقات ایسے محرکات کی وجہ سے آتے ہیں جو ان کے لئے ناقابل فہم ہوتے ہیں بلکہ یہ محرکات ان کے لئے ناقابل کنٹرول ہوتے ہیں ۔ یہ محرکات صرف اللہ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور وہی ان کے نتائج کو جانتا ہے ۔ اور اس کا خاص تصرف ہوتا ہے ‘ جس طرح چاہتا ہے وہ سر انجام دیتا ہے ۔ اس لئے اگر ہم اللہ کے مقرر کردہ جائے قرار پر راضی ہوجائیں تو یہ ہمارے لئے روحانی سکون اور نفیساتی اطمینان اور ہمارے ضمیر کے مفاد میں ہوگا۔ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور اس کے پس پشت جو حکمت کام کررہی ہے وہ یہ ہے لِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ……………” اور یہ معاملہ جو پیش آیا ‘ یہ تو اس لئے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اسے آزمالے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے۔ “ اس سے بڑی آزمائش اور کوئی نہیں کہ دلوں کی بات کو ظاہر کردیا جائے ‘ اور جو دلوں کی تہہ میں ہے وہ اوپر آجائے ۔ اس سے کھوٹ اور ریاکاری کو علیحدہ کردیا جائے اور بغیر کسی ملمع کاری اور بغیر کسی کور کے اصل حقیقت سامنے آجائے ۔ یہ بہت بڑی آزمائش ہے ‘ ان باتوں کے لئے جو دل کے خزانے میں پوشیدہ رکھی ہوتی ہیں ۔ حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ یہ ہے تطہیرالقلوب اور تصفیہ القلوب ‘ اس طرح کہ ان میں کوئی ملاوٹ اور کھوٹ نہ رہے ۔ اس طرح نظریات صحیح ہوکر صاف صورت میں سامنے آجاتے ہیں اور ان میں کوئی نقص اور ملاوٹ نہیں رہتی۔ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ……………” اللہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے ۔ “ ذات الصدور سے مراد وہ خفیہ راز ہیں جو دلوں کی تہہ میں ہوتے ہیں اور ہر وقت دل میں ہوتے ہیں جو دل سے جدا نہیں ہوتے اور نہ روشنی میں آتے ہیں ۔ اللہ ان بھیدوں کو بھی خوب جانتا ہے ۔ ان بھیدوں کو اللہ لوگوں پر اس لئے ظاہر کرتا ہے کہ لوگ خود بھی بعض اوقات ان خفیہ باتوں سے بیخبر ہوتے ہیں یعنی یہ ان کے لاشعور میں ہوتے ہیں ‘ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انہیں سطح پر لے آتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غم غلط کرنے کے لیے نیند کا غلبہ : مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچ گئی اور شکست کا جو سامنا ہوا (جو بہت بڑا غم تھا) اس غم کو غلط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ بھیج دی اور اتنی زیادہ اونگھ سوار ہوئی کہ رنج و غم کی طرف توجہ ہی نہ رہے۔ علاج کرنے والوں کا یہ قاعدہ ہے کہ جب مریض کی تکلیف بڑھ جاتی ہے اور کسی طرح سے افاقہ نہیں ہوتا تو تکلیف سے بیخبر کرنے کے لیے کوئی ایسی دوا دیتے ہیں یا انجکشن لگا دیتے ہیں جس سے نیند آجائے اللہ جل شانہ نے ان حضرات پر نیند غالب فرما دی جس سے غم کا محسوس ہونا ختم ہوگیا (ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآءِفَۃً مِّنْکُمْ ) میں اسی کو بیان فرمایا اور اونگھ کو امنۃٌ یعنی چین اور راحت بتایا، یہ تو مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ جو منافقین تھے ان کا دوسرا ہی رنگ تھا۔ ان کو اپنی جانوں کی پڑی تھی، انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور دین اسلام سے کچھ بھی ہمدردی نہ تھی اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیت کے خیالات پکار رہے تھے کہتے تھے کہ ہماری تو کچھ چلتی ہی نہیں۔ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ شہر سے باہر جا کر نہ لڑیں ہماری بات چلتی اور ہماری رائے پر عمل ہوتا تو یہاں آکر ہم کیوں مارے جاتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو جواب دے دو کہ سب اختیار اللہ ہی کو ہے، سب کام اللہ کی قضا اور قدر کے مطابق ہوتے ہیں اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی وہ لوگ گھروں سے نکل کر اپنی اپنی قتل گاہوں میں پہنچ جاتے جن کے بارے میں مقتول ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ پھر فرمایا (وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) ” اور تاکہ اللہ آزمائے جو تمہارے سینوں میں ہے اور تاکہ اس کو صاف کرے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ سینوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس لیے پیش آیا کہ اللہ تمہارے باطن کی آزمائش فرمائے کیونکہ مصیبت کے وقت سچوں اور جھوٹوں کا پتہ چلتا ہے، چناچہ منافقوں کا نفاق کھل گیا اور مومنین کا ایمان اور زیادہ مضبوط اور ثابت ہوگیا اور یوں تو اللہ تعالیٰ سب باتوں کو جانتا ہی ہے لیکن علم ظہور کے طور پر یہ باتیں ظاہر ہوگئیں اور مسلمانوں کو بھی سچوں اور جھوٹوں کا پتہ چل گیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

229 نُعَاساً ، اَمَنَةً سے بدل ہے جب مسلمانوں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی جو مخلص مسلمان میدان میں باقی تھے ان پر ایک دم غنودگی طار ہوگئی اور وہ کھڑے کھڑے ہی اونگھنے لگے۔ اور ان کے ہاتھوں سے تلواریں چھوٹ چھوٹ کر زمین پر گرنے لگیں۔ عین لڑائی اور ہنگامہ کا رازار میں نیند کا ا آجانایہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی اس کا اثر یہ ہوا کہ تھکے ہارے، زخموں سے چور اور سہمے ہوئے مجاہدین کے دلوں سے خوف وہراس کا اثر کافور ہوگیا اور وہ تازہ دم ہو کر از سر نو دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ طَائِفةٌ مِّنْکُم یہ غنودگی تمام مسلمانوں پر طاری نہیں ہوئی بلکہ صرف مخلص مومنین پر ان ھذہ الطائفۃ ھم المؤمنون الذین کافوا علی البصیرۃ فی ایمانھم (کبیر ص 103 ج 3) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنے انعام و احسان کا ذکر فرمایا کہ کس طرح اس نے شکست وخذلان کے بعد دوبارہ فتح عطا کی اور کس طرح ان کے خوف ہراس کو سکون و اطمینان سے تبدیل کیا۔ جو لوگ صادق الایمان تھے ان پر عین معرکہ جنگ میں غوندگی ڈال دی جس سے خوف ہراس جاتا رہا۔ 230 اس طائفہ سے منافقین مراد ہیں اجمع الفرسرون علی ان ھذہ الطائفۃ ھم المنافقون (بحر ص 87 ج 3) قد اھمتھم ان فسہم ان کو تو بس اپنی جانوں کی فکر تھی نہ اسلام کی فکر تھی۔ نہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال تھا اور نہ مسلمانوں کا۔ کیونکہپ یہ لوگ تو آئے ہی مال غنیمت کی خاطر تھے نہ کہ اسلام کے لیے غَیْرَالْحَقِّ خلاف حقیقت اور ایسا گمان جو خدا کے ایان شان نہ ہو۔ یَظُنُّوْنَ بِاللہِ غیر الظن الحق الذی یجب ان یظن بہ (کبیر ص 105 ج 3) ظَنَّ الْجَاھِلِیَّةِ یہ مفعول مطلق ہے، تشبیہ کے لیے یا ماقبل سے بدل ہے اور لفظ جاہلیت محاورہ قرآنی میں اسلام سے پہلے ؟ شرک کے لیے استعمال ہوا ہے اہل اخلاص پر تو ہلکی سی نیند طاری کردی جو ان کے لیے زوال خوف اور ثبات و استقامت کا باعث ہوئی لیکن منافقین اس رحمت نعاس سے محروم رہے اس لیے ان کی گھبراہٹ اور بزدلی بحال رہی اور لگے وہ اپنے کفر ونفاق کا اظہار کرنے اور اللہ کی ذات منزہ صفات سے متعلق ایسی بدگمانیا کرنے لگے جو سراسر اس کی شان نے پایاں کے خلاف اور بالکل دور جاہلیت کے مشرکوں اور جاہلوں کے خیالات باطلہ سے ملتی جلتی تھیں مثلاً وہ یہ گمان کرنے لگے کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی سے تائید ونصرت اور فتح وظفر کا وعدہ کرے اور پھر اسے پورا نہ کرے۔ ای ٰطنون ان اخلاف وعدہ سبحانہ حاصل (روح ص 54 ج 4) ۔ 231 وہ تو ان کے باطن کا حال تھا اب ظاہر کا حال بھی سن لو۔ استفہام انکار کے لیے ہے اور امر سے فتح ونصرت مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ منافقین آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جس فتح ونصرت کا محمد ہم سے وعدہ کرتا ہے وہ ہرگز نہیں آئے۔ المعنی یقول لیس لنا من الظفر الذی وعدنا بہ محمد شیئ (قرطبی ص 242 ج 4) یا استفہام اپنے اصل پر ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ منافقین بطور سوال نیاز مندانہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے ہیں کہ حضور ! جس فتح ونصرت کا اللہ نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے کیا وہ آئے گی۔ یقول الحاضرون منھم لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی صورۃ لاسترشاد ھل لنا من امر اللہ تعالیٰ ووعدہ بالنصر شیئ (روح ص 95 ج 4) تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ جواب دینے کا حکم دیا کہ فتح ونصرت کا معاملہ مکمل طور پر خدا کے اختیار میں ہے جب اس نے اپنے رسول سے وعدہ کرلیا تو وہ ضرور اس کی مدد فرمائے گا۔ یُخْفُوْنَ فِیْ اَنْفُسِہِمْ مَّالَا یُبْدُوْنَ لَک۔ ان کی یہ ساری نیاز مندیاں اور چاپلوسیاں محض منافقانہ ہیں وہ اپنے دلوں میں ایسی ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں جن کو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے۔ 232 یہ ماقبل سے بدل ہے یا سوال مقدر کا جواب ہے۔ اور منافقین جو کچھ اپنے دلوں میں چھپائے پھرتے تھے۔ اس کا بیان ہے۔ والجملۃ لما بدل من یخفون او استئناف وقع جوابا عن سؤال نشا مما قبلہ کانہ قیل مالذی اخفوہ۔ فقیل ذالک (روح ص 96 ج 1) اور المر سے وہی فتح ونصرت کا وعدہ مراد ہے منافقین آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف وعدہ وغیرہ نہیں اگر واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے اللہ نے ہم سے فتح ونصرت کا کوئی وعدہ کیا ہوتا تو ہم یوں بری طرح شکست نہ کھاتے اور نہ ہی اس طرح ہمارے عزیز رشتہ دار قتل ہوتے دوسرے لفظوں میں یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب تھی بعض مفسرین نے الامر سے تدبیر اور مشورہ مراد لیا ہے۔ مِنَ الْاَمْرِ قیل من الری والتدبیر (بحر ص 89 ج 3) یعنی وہ آپس میں کہتے ہیں کہ ہماری تو سنی کسی نے نہیں ہم نے تو کہا تھا کہ ہم مدینہ سے باہر نکلیں ہی نہیں اپنے گھروں ہی میں رہیں اگر ہماری رائے مان لی جاتی اور ہمارے مشورہ پر عمل کرلیا جاتا تو نہ ہمیں یہ ہزیمت ہوتی اور نہ ہمارا اس قدر خون ہوتا۔ 233 مَضَاجِعْ جمع مضجع کی ہے اور اس سے قتل ہو کر گرنے کی جگہ مراد ہے جہاں اللہ کے علم میں ان کا قتل مقدر تھا ای مصارعھم التی علم اللہ تعالیٰ وقدر قتلھم فیھا (روح ص 96 ج 4) یہ منافقین کے مذکورہ بالا قول کا جواب ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موت کا وقت مقدر کسی صورت میں نہیں ٹل سکتا اور نہ تدبیر و احتیاط سے قضاء وقدر کو بدلا جاسکتا ہے اے منافقین ! اگر تم جہاد کے لیے نہ نکلتے اور گھروں ہی میں بیٹھے رہتے تو جن لوگوں کا قتل اللہ کے علم ازلی میں غزوہ احد میں مقدر ہوچکا تھا وہ اللہ کے تکوینی اور تقدیری قانون کے ماتحت ضرور اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے اور اپنی قتل گاہوں میں پہنچ کر یقیناً قتل ہوجاتے بھلا اللہ کے تکوینی احکام بھی کسی سے ٹل سکتے ہیں ؟ ومعنی الایۃ ان الحذر لا ینفع من القدر التدبیر لا یقاوم التقدیر فالذین قدر علیھم القتل وقضاہ وحکم بہ علیھم لا بدو ان یقتلوا الخ (خازن 366 ج 1) ۔ 234 وَلِیَبْتَلِیَ میں واؤ عاطفہ ہے اور اس کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ای فعل ذالک لمصالح جمۃ وللابتاوالتمحیص (مدارک ص 147 ج 1) اور یہ خطاب عام ہے مومنین اور منافقین دونوں کو شامل ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جہاد فرض کیا اور پھر جنگ احد میں تھوڑی دیر کے لیے امداد ونصرت کو روک لیا اور تمہیں شکست دے دی یہ سب کچھ بہت ہی حکمتوں کے تحت کیا جن میں سے ایک یہ تھی کہ تاکہ تمہارے صبر و استقلال کا امتحان لیا جائے اور تمہارے دلوں کے پوشیدہ رازوں کو منکشف کیا جائے یعنی مخلصین کا اخلاص اور منافقین کا نفاق ظاہر کیا جائے۔ لیختبر اللہ تعالیٰ ما فی صدورکم باعمالکم۔ ای لیکشف ما فی قلوبکم من مخفیات الامور او النفاق یمیزھا (روح ص 97 ج 4) ۔ 235 اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی سے دلوں کے بھید جانتا ہے اس لیے اسے تو ابتلاء وامتحان کی ضرورت نہیں البتہ بعض مصلحتوں کی بنا پر وہ اپنے بندوں کو امتحان میں مبتلا کرتا ہے مثلاً مخلص مؤمنین کی تمرین وتثلیث اور منافقین کے نفاق کا کشف و اظہار وغیرہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 پھر اس مذکورہ رنج و غم کے بعد امن و اطمینان اور راحت نازل فرمائی جو ایک اونگھ تھی یعنی امن و راحت کی صورت یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اونگھ بھیجی کہ سب لوگ جس حالت میں تھے اونگھنے لگے اس اونگھ کا اثر یہ ہوا کہ یہ غنودگی تم میں سے ایک جماعت پر تو پوری طرح چھا گئی اور مسلمانوں پر تو اس غنودگی کا پورا غلبہ ہوگیا اور ایک جماعت وہ تھی جس کو اپنی جانوں ہی کی فکر پڑی ہوئی تھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹے اور ناروا اور غیر واقع خیالات باندھ رہے تھے جو محض جاہلوں جیسے احمقانہ خیالات تھے۔ (تیسیر) امنۃ نعاسآ کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی غنودگی نازل فرمائی جو امن و سکون والی تھی اور جس سے مسلمانوں کا خوف و ہراس اور ہر قسم کی پریشانی اور خطرات سب دور ہوگئے اور سارا غم غلط ہوگیا۔ یغشیٰ طائفۃ سے مراد یہ ہے کہ اس غنودگی کا مسلمانوں پر گہرا اثر ہوا۔ حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں جن لوگوں پر غنودگی طاری ہوئی تھی ان میں میں بھی تھا اونگھ ایسی آئی کہ میرے ہاتھ سے تلوار گرگئی میں نے ہوشیار ہو کر تلوار اٹھائی مگر وہ پھر ہاتھ سے گرگئی، نعاس کی تفصیل ہم آیت الکرسی کی تفسیر میں عرض کرچکے ہیں۔ دوسرا گروہ منافقین کا تھا جن کو اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی کہ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ شاید پھر حملہ آور آتے ہیں یا اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں ہم یہاں سے زندہ جاتے ہیں یا یہیں کھیت ہوجاتے ہیں چناچہ ان پر اس غنودگی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اس امن و راحت سے محروم رہے جو مسلمانوں کو نصیب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے منافقین کو مسلمانوں سے متمیز کردیا یہ منافق طرح طرح کے گمان اور اٹکلیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں دوڑا رہے تھے ان کے یہ ظنون غیر واقعی اور ناحق و ناروا تھے اور اللہ تعالیٰ کی شان اس سے منزہ ہے کہ اس کے بارے میں ایسے گمان کئے جائیں یہ گمان زمانہ جاہلیت اور اہل جاہلیت کے سے گمان تھے جیسے کافر کیا کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امن و راحت کا یہ سامان کیا کہ تھوڑی دیر کے لئے سب پر غنودگی طاری کردی مسلمان تو اونگھنے لگے مگر منافقین اپنی اپنی بدگمانیوں میں مبتلا رہے اور خدا کے بارے میں طرح طرح کی اٹکلیں دوڑاتے رہے مثلاً اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد نہیں کرے گا۔ یا مسلمان اب ختم ہوجائیں گے یا پیغمبر قتل کردیئے گئے۔ وغیرہ وغیرہ اب آگے ان منافقین کی دو رخہ پالیسی اور ان کی باتوں کا ذکر ہے کہ زبان سے کچھ کہتے ہیں اور دل میں کچھ چھپاتے ہیں شکست کی وجہ زبان سے اور بتاتے ہیں دل میں اور درجہ چھپائے ہوئے ہیں زبان سے بھی جو کچھ کہتے ہیں وہ بھی گول مول اور ذومعنی کہتے ہیں ان کی باتیں اور ان باتوں کا جواب مذکور ہے۔ (تسہیل) ف 2 وہ گمان کرنے والے یوں کہہ رہے تھے بھلا ہمارے اختیار میں بھی کوئی چیز ہے اور کچھ کام بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اے پیچمبر ! آپ ان سے فرما دیجیے کہ اختیار تو سب اللہ ہی کا ہے اور سب کام تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے یہ لوگ اپنے دلوں میں ایسی بات چھپائے ہوئے ہیں جس معاملہ میں ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو ہم اس جگہ اور اس میدان کار زار میں مارے نہ جاتے یعنی ہم میں سے جو لوگ مارے گئے وہ نہ مارے جاتے۔ اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے اگر تم اپنے اپنے گھروں میں بھی رہتے اور اپنے گھروں ہی میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کے لئے خدا کی جانب سے قتل مقدر ہوچکا تھا وہ ان مقامات کی طرف جانے کے لئے نکل پڑتے جہاں وہ قتل ہو ہو کر گرے ہیں اور جو کچھ یہ واقعہ پیش آیا اس لئے پیش آیا تاکہ اللہ تعالیٰ اس بات کی آزمائش کرے جو تمہارے سینوں میں ہے یعنی تمہارے ایمان کی آزمائش کرنے کے لئے ایسا ہوا اور سا لئے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو ہر قسم کے میل کچیل سے صاف کر دے اور نکھار دے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ سینوں کی سب باتوں سے خوب واقف ہے اور باطن کی سب باتوں کو خوب جانتا ہے۔ (تیسیر) مضجع کے معنی ہیں مصرع یعنی لیٹنے اور بچھڑنے کی جگہ قبر کو بھی مضجع کہتے ہیں اور خواب گاہ کو بھی مضجع کہتے ہیں اسی طرح مقتل کو بھی مضجع فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ لشکر میں جو منافق تھے ان کی یہ حالت تھی کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں مختلف قسم کے جاہلانہ خیالات ائم کر رہے تھے اور جب کوئی ان سے دریافت کرتا کہ یہ شکست کیوں ہوئی تو ایک معصوم سا فقرہ کہہ دیتے کہ ہمارے اختیار میں کوئی چیز نہیں اور ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے لوگ یہ سمجھتے کہ یہ پختہ مسلمان ہیں کامیابی اور ناکامی کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے کر رہے ہیں اگر اس فقرے کا اور مطلب بھی ہوسکتا تھا مثلاً یہ کہ کچھ بنے گا یا سب بگڑا ہی رہے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ غنیمت وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ لگے گی یا خالی ہاتھ رہیں گے غرض اللہ تعالیٰ نے بھی اس فقرے کا خوب جواب دیا کہ بیشک اختیار تو سب اللہ ہی کے ہاتھ ہے اس کے بعد پھر ان کی شرارت اور منافقت کا اظہار فرمایا کہ جو کچھ ان کے د ل میں بھرا ہوا ہے اور جو کچھ ان کے جی میں پوشیدہ ہے اے پیغمبر اس کو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے اور کھل کر نہیں کہتے۔ ظاہر میں یہ ایک سیدھی اور معصوم سی بات کہتے ہیں لیکن ان کا اصل منشا یہ ہے کہ اگر ہمارا کچھ اختیار چلتا اور ہماری بات مانی جاتی اور ہماری رائے پر عمل ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اور ہم اس جنگ میں قتل نہ کئے جاتے یعنی جو لوگ مقتول ہوئے وہ قتل نہ ہوتے۔ حضرت حق تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ جس کو جہاں مرنا ہوتا ہے وہیں مرت ا ہے اور اگر تم اپنے گھروں میں بھی بیٹھے رہتے اور تمہارے مقدر میں یہ ہوتا کہ احد پہاڑ کی تلیئی میں مرو گے تو تم گھروں سے نکلتے اور مقتل تک پہنچ کر رہتے یہ ناممکن تھا کہ تم نہ مرتے جو نقصان مقدر ہوچکا تھا وہ ٹلنے والا نہ تھا اور اس شکست میں جو منافع مضمر تھے اس کا تم کو علم نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سینے کی چیز یعنی تمہارے ایمان کی آزمائش کرنی تھی اور منافقوں کو ظاہر کرنا تھا چناچہ مصائب سامنے آتے ہی منافقوں کا نفاق کھل گیا اور مخلص مسلمانوں کا ایمان اور مضبوط و محقق ہوگیا اور نیز اللہ تعالیٰ اک مقصد یہ تھا کہ وہ تمہارے دلوں کو کمزوری اور وساوس و خطرات کی آلائشوں سے نکھار کر پاک و صاف کر دے چناچہ ان غیر معمولی مصائب و آلام سے مومنین کی توجہ اللہ تعالیٰ کی جانب اور زائد ہوئی اور ان کے اعتقاد ایمان میں خوب صفائی اور جلا ہوگئی۔ آخر میں سینوں کی پوشیدہ باتوں سے اپنے علم اور اپنی واقفیت کا اظہار فرمایا کہ ہمیں تو ہر چھپی سے چھپی بات کا علم ہے لیکن ہماری آزمائش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ منافقین کی حقیقت آشکارا ہوجائے اور لوگ ان کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس آیت میں بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ منافق تو سب عبداللہ بن ابی کے ہمراہ واپس ہوگئے تھے باقی ماندہ لوگوں میں منافق کوئی نہ تھا اس لئے یہ باتیں مدینہ میں کہی جا رہی ہوں گی۔ حالانکہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ بدر کی فتح کے بعد سے مدینہ منورہ میں دشمنوں کی سازشوں کا جال بچھا ہوا تھا اس لئے تین سو منافق جو عبداللہ بن ابی کی ٹولی میں تھے وہ تو واپس چلے گئے تھے لیکن اور منافق لشکر میں موجود تھے اور منافقوں نے یہ جو کہا کہ ہم اس جگہ قتل نہیں کئے جاتے مرنے والوں کو ہم کہنا اس کی وجہ یہ ہے کہ بہرحال سب کے سب ہم وطن تھے۔ آپس میں برادریاں تھیں اس لئے ان کو اپنا ہی سمجھتے تھے۔ ابتلا اور تمحیص کا ذکر اوپر آچکا ہے پھر اس کو فرمانا یا تو بطور تاکید ہے کہ اس شکست میں بڑا نفع ہوا کہ منافقوں کا حال کھل گیا اور مئومنین کا ایمان خلاص ہوگیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے اوپر مسلمانوں کو تسلی دینے کی غرض سے فرمایا تھا اور یہاں منافقین کے خیالات کا رد کرنے کی غرض سے فرمایا کہ نقصان میں منافع بھی پوشیدہ تھے اور حقیقی نقصان جس کو گناہ کہتے ہیں اس کی معافی کا اعلان آگے کی آیت میں فرماتے ہیں اور دوسرے یقولون کا مطلب یہ ہے کہ منافق آپس میں کہتے ہوں یا دل ہی دل میں کہتے ہوں یا کسی مسلمان سے بھی کہتے ہوں کہ ہماری رائے پر عمل کرتے تو یہ نقصان نہ ہوتا مگر تم نے چند جوشیلے نوجوانوں کے کہنے میں آ کر یہ ہزیمت کھائی۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اس شکست میں جن کو شہید ہونا تھا ہوچکے اور جن کو ہٹنا تھا ہٹ گئے اور جو میدان میں باقی رہے ان پر اونگھ آئی اس کے بعد رعب اور دہشت رفع ہوگئی اور اتنی دیر حضرت کو غشی رہی پھر جب ہوشیار ہوئے سب حضرت پاس جمع ہو کر پھر لڑائی قائم کی اور سست ایمان والے کہنے لگے کہ کچھ بھی کام ہمارے ہاتھ ہے ظاہر یہ معنی کہ اس شکست کے بعد کچھ بھی ہمارا کام بنا رہے گا یا بالکل بگڑ چکا یا معنی کہ اللہ نے چاہا سو کیا ہمارا کی ا اختیار اور نیت میں یہ معنی تھے کہ ہماری مشورت پر عمل نہ کیا جو اتنے لوگ مرے ۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں معنوں کا جواب فرما دیا اور بتایا کہ اللہ کو اس میں حکمت منظور تھی تاکہ صادق اور منافق معلوم ہوجائیں۔ (موضح القرآن) اب آگے اس لغزش کے اسباب کی طرف اشارہ ہے اور آخر میں پھر معافی کا اعلان ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)