Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 156

سورة آل عمران

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ اِذَا ضَرَبُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ کَانُوۡا غُزًّی لَّوۡ کَانُوۡا عِنۡدَنَا مَا مَاتُوۡا وَ مَا قُتِلُوۡا ۚ لِیَجۡعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسۡرَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۵۶﴾

O you who have believed, do not be like those who disbelieved and said about their brothers when they traveled through the land or went out to fight, "If they had been with us, they would not have died or have been killed," so Allah makes that [misconception] a regret within their hearts. And it is Allah who gives life and causes death, and Allah is Seeing of what you do.

اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں کے حق میں جب کہ وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں ہوں کہا کہ اگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کو اللہ تعالٰی ان کی دِلی حسرت کا سبب بنا دے ، اللہ تعالٰی جِلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Prohibiting the Ideas of the Disbeleivers about Death and Predestination Allah forbids His believing servants from the disbelievers' false creed, seen in their statement about those who died in battle and during travel; "Had they abandoned these trips, they would not have met their demise." Allah said, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ كَفَرُواْ وَقَالُواْ لاِخْوَانِهِمْ ... O you who believe! Be not like those who disbelieve (hypocrites) and who say to their brethren, about their dead brethren, ... إِذَا ضَرَبُواْ فِي الاَرْضِ ... when they travel through the earth, for the purpose of trading and otherwise, ... أَوْ كَانُواْ غُزًّى ... or go out to fight, participating in battles, ... لَّوْ كَانُواْ عِندَنَا ... "If they had stayed with us," in our area, ... مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ ... "they would not have died or been killed," they would not have died while traveling or been killed in battle. Allah's statement, ... لِيَجْعَلَ اللّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ... so that Allah may make it a cause of regret in their hearts. means, Allah creates this evil thought in their hearts so that their sadness and the grief they feel for their loss would increase. Allah refuted them by saying, ... وَاللّهُ يُحْيِـي وَيُمِيتُ ... It is Allah that gives life and causes death. for the creation is under Allah's power, and the decision is His Alone. No one lives or dies except by Allah's leave, and no one's life is increased or decreased except by His decree. ... وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ And Allah is All-Seer of what you do. for His knowledge and vision encompasses all His creation and none of their affairs ever escapes Him. Allah's statement, وَلَيِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

باطل خیالات کی نشاندہی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں جیسے فاسد اعتقاد رکھنے کی ممانعت فرما رہا ہے یہ کفار سمجھتے تھے کہ ان کے لوگ جو سفر میں یا لڑائی میں مرے اگر وہ سفر اور لڑائی نہ کرتے تو نہ مرتے پھر فرماتا ہے کہ یہ باطل خیال بھی ان کی حسرت افسوس کا بڑھانے والا ہے ، دراصل موت و حیات اللہ کے ہاتھ ہے مرتا ہے اس کی چاہت سے اور زندگی ملتی ہے تو اس کے ارادے سے تمام امور کا جاری کرنا اس کے قبضہ میں ہے اس کی قضا و قدر ٹلتی نہیں اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے کوئی چیز باہر نہیں تمام مخلوق کے ہر امر کو وہ بخوبی جانتا ہے ۔ دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا یا مرنا اللہ کی مغفرت و رحمت کا ذریعہ ہے اور یہ قطعاً دنیا و مافیہا سے بہتر ہے کیونکہ یہ فانی ہے اور وہ باقی اور ابدی ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ کسی طرح دنیا چھوڑو مر کر یا قتل ہو کر لوٹنا تو اللہ ہی کی طرف ہے پھر اپنے اعمال کا بدلہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے برا ہو تو بھلا ہو تو ۔ !

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

156۔ 1 اہل ایمان کو اس فساد عقیدہ سے روکا جا رہا ہے جس کے حامل کفار اور منافقین تھے کیونکہ یہ عقیدہ بذدلی کی بنیاد ہے اس کے برعکس جب یہ عقیدہ ہو کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ نیز یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے انسان کے اندر عزم اور حوصلہ اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ 156۔ 2 مذکورہ فساد عقیدہ دلی حسرت کا ہی سبب بنتا ہے کہ اگر وہ سفر میں یا میدان جنگ میں نہ جاتے بلکہ گھر میں ہی رہتے تو موت کی آغوش میں جانے سے بچ جاتے۔ درآنحالیکہ موت تو مضبوط قلعوں کے اندر بھی آجاتی ہے۔ اس لئے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتے ہیں جن کے عقیدے صحیح ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٩] یہاں کافروں سے مراد وہ منافق ہیں جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ بظاہر ایمان لانے والے اور دلوں میں کفر چھپائے ہوئے تھے۔ [١٥٠] ایسا عقیدہ رکھنا یا ایسی بات زبان سے نکالنا عقیدہ تقدیر کے خلاف ہے جو ایمان بالغیب کا چھٹا جزو ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ لوگ کافر ہوئے۔ کیونکہ موت کا وقت بھی معین ہے اور جگہ بھی۔ کچھ بھی ہو موت اپنے وقت پر آئے گی اور آ کے رہے گی۔ اس کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے اسی طرح جہاں مرنا مقدر ہے وہاں خود ہی انسان کسی حیلے بہانے جاپہنچتا ہے اور جب موت کا وقت نہ آیا ہو، تو انسان خواہ غزوات میں پوری زندگی گزار دے۔ اسے موت نہیں آتی۔ چناچہ حضرت خالد بن ولید جنہوں نے زندگی بھر جنگیں لڑیں اور جن کے جسم کا کوئی حصہ بھی تلوار یا تیر کے نشان سے بچا ہوا نہ تھا۔ انہیں موت آئی تو گھر پر آئی۔ چناچہ انہوں نے خود اپنی وفات کے وقت یہ الفاظ کہے تھے کہ میرے بدن پر ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہیں جو تلوار یا نیزہ کے زخم سے خالی ہو مگر میں آج اونٹ کی طرح (گھر پر) مر رہا ہوں۔ [١٥١] ایسے خیالات کہ اگر وہ فلاں سفر یا جہاد پر نہ جاتا تو شاید بچ رہتا۔ محض حسرت ہی حسرت ہے۔ ورنہ جو اللہ گھر میں زندہ رکھتا ہے جہاد میں بھی رکھ سکتا ہے اور جو جہاد میں مار سکتا ہے وہ گھر میں بھی مار سکتا ہے۔ زندہ رکھنا اور مارنا سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے علم میں ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا۔۔ : غُزًّى : یہ ” غَازٍ “ کی جمع ہے، جو ” غَزَا یَغْزُ “ سے اسم فاعل ہے، بمعنی لڑنے والے، جیسے ” رَاکِعٌ“ کی جمع ” رُکَّعٌ“ آتی ہے۔ مسلمانوں کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اپنے نفاق کی وجہ سے کافر ہیں اور یہ گندہ عقیدہ صرف دل ہی میں نہیں رکھتے بلکہ برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمارے جو بھائی جہاد کے سفر میں فوت ہوگئے یا لڑتے ہوئے مارے گئے، اگر ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے، نہ قتل ہوتے۔ ان کا یہ عقیدہ اور قول اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لیے ان کے دلوں میں حسرت و افسوس کا باعث بنائے رکھے گا۔ مسلمانوں کو اس عقیدہ سے اس لیے روکا کہ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بزدلی کا باعث بنتا ہے، جب کہ موت و حیات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا وقت مقرر ہے۔ یہی عقیدہ مسلمان کی قوت کا باعث ہے، اس لیے حکم دیا کہ دل مضبوط رکھو، موت اپنے وقت سے ایک لمحہ بھی پہلے نہیں آسکتی۔ اگر مگر کے الفاظ شیطان کو دخل اندازی کا موقع دیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قوی مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضعیف سے بہتر اور زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں کوئی نہ کوئی بھلائی ہے، اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے اور اللہ سے مدد مانگو اور عاجز مت ہوجاؤ اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ مت کہو، اگر میں ایسا اور ایسا کرتا (تو مجھے یہ مصیبت نہ پہنچتی) بلکہ یوں کہو کہ اللہ نے جو مقدر کیا اور جو چاہا کردیا، اس لیے کہ ” لَوْ “ (اگر کا لفظ) شیطان کے کام (کا راستہ) کھول دیتا ہے۔ “ [ مسلم، القدر، باب الإیمان بالقدر والاذعان لہ : ٢٦٦٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The saying of the hypocrites in verse 156 here is an extension of what was cited in verse 154 earlier: لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ‌ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا :|"If we had any say in the matter, we would have not been killed here.|" Since there were chances that sincere Muslims may be affected by such doubt-creating devices used by hypocrites, Muslims were asked through these verses to remain unconcerned with such sayings and doings and adhere to the belief that the span of life and the time of death are ordained by Allah alone.

زبط آیات : پچھلی آیتوں میں منافقین کا یہ قول بیان کیا گیا تھا کہ لوکان لنا من الامر شیء ما قتلناھما، یعنی اگر ہمارا کچھ اختیار ہوتا اور ہماری رائے مانی جاتی تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے جس کو آگے بھی نقل کیا گیا ہے، ایسے اقوال کے سننے سے یہ احتمال تھا کہ مخلص مسلمانوں کے دلوں میں کچھ شک و شبہات نہ پیدا ہوجائیں، اس لئے مذکورہ بالا آیات میں مسلمانوں کو ایسے اقوال و احوال سے پرہیز کرنے کی اور موت وحیات کو صرف تابع تقدیر ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔ خلاصہ تفسیر اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو (حقیقت میں) کافر ہیں (گو ظاہراً اسلام کا دعویٰ کرتے ہوں) اور کہتے ہیں اپنے (ہم نسب یا ہم مشرک) بھائیوں کی نسبت جبکہ وہ لوگ کسی سر زمین میں سفر کرتے ہیں (اور وہاں اتفاقاً مر جاتے ہیں) یا وہ لوگ کہیں غازی بنتے ہیں (اور اس میں تقدیر سے قتل ہوجاتے ہیں تو وہ منافق کہتے ہیں) کہ اگر یہ لوگ ہمارے پاس رہتے (سفر اور غزوہ میں نہ جاتے) تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (یہ بات انکے دل اور زبان پر اس لئے آتی ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ان کے قلوب کے لئے موجب حسرت کردیں (یعنی نتیجہ اس طرح کی باتوں میں حسرت کے سوا کچھ نہیں) اور مارتا چلاتا تو اللہ ہی ہے (خواہ سفر یا حضر اور جنگ ہو یا امن) اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ (تو اگر تم بھی ایسی باتیں کرو یا ایسے خیالات میں مبتلا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ رہے گا) اور اگر تم لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا کہ (اللہ کی راہ میں) مر جاؤ (تو یہ کوئی) خسارہ نہیں نفع ہی نفع ہے کیونکہ بالضرور اللہ تعالیٰ کے پاس مغفرت اور رحمت و دنیا کی، ان چیزوں سے بدر جہا بہتر ہے جن کو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں (اور اسی کے لالچ میں زندگی کو محبوب رکھتے ہیں اور) اگر تم (ویسے بھی) مر گئے یا مارے گئے (تب بھی) بالضرور اللہ ہی کے پاس جمع کئے جاؤ گے (پس اول تو قضا ٹلتی نہیں اور دوسرے اللہ کے پاس جانے سے کسی حال بچ نہیں سکتے اور دنیا کی راہ میں فرمایا مارا جانا تو موجب مغفرت و رحمت ہے تو پھر ویسے مرنے سے دین ہی کی راہ میں جان دینا بہتر ہے اس لئے ایسے اقوال دنیا میں موجب حسرت اور آخرت میں موجب نار جہنم ہے ان سے پرہیز لازم ہے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا۝ ٠ ۚ لِيَجْعَلَ اللہُ ذٰلِكَ حَسْرَۃً فِيْ قُلُوْبِھِمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ١٥٦ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ضَّرْبُ ( چلنا) والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ غزا الْغَزْوُ : الخروج إلى محاربة العدوّ ، وقد غَزَا يَغْزُو غَزْواً ، فهو غَازٍ ، وجمعه غُزَاةٌ وغُزًّى. قال تعالی: أَوْ كانُوا غُزًّى[ آل عمران/ 156] . ( غ ز و ) الغزو کے معنی دشمن سے جنگ کرنے کے ارادے نکلنا ہیں غزایغزو غزوا وہ دشمن سے جنگ کے ارادہ سے نکلا ایسے شخص کو الغازی کہاجاتا ہے اس کی جمع غزاۃ وغزا آتی ہے قرآن میں ہے : أَوْ كانُوا غُزًّى[ آل عمران/ 156] یا وہ جہاد کر رہے ہوں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حسر الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال : حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء/ 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) . ( ح س ر ) الحسر ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٦) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو ! لڑائی میں عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کی طرح مت ہوجاؤ کہ وہ راستہ ہی میں سے مدینہ منورہ لوٹ گئے اور پھر اپنے منافق ساتھیوں سے آکر کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ (صحابہ کرام (رض) اجمعین) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی سفر یا جہاد میں نہ جاتے اور مدینہ میں ہمارے ساتھ رہتے تو سفر اور جہاد میں نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ ان کا یہ خیال اللہ تعالیٰ نے ان ہی کے لیے افسوس و حسرت کا باعث کردیا، سفر میں بھی اللہ تعالیٰ زندہ رکھتا ہے اور اقامت میں بھی موت دے دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (وَقَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ کَانُوْا غُزًّی لَّوْ کَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا ج) ہر شخص کی موت کا وقت تو معین ہے۔ وہ اگر تمہاری گود میں بیٹھے ہوں تب بھی موت آجائے گی۔ چاہے وہ بہت ہی مضبوط پہرے والے قلعوں میں ہوں موت تو وہاں بھی پہنچ جائے گی۔ تو تم اس طرح کی باتیں نہ کرو۔ یہ تو کافروں کے انداز کی باتیں ہیں کہ اگر ہمارے پاس ہوتے اور جنگ میں نہ جاتے تو بچ جاتے۔ یہ ساری باتیں درحقیقت ایمان کے منافی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ ) (١) کاش کا لفظ شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ کاش ایسے ہوجاتا تو یوں ہوجاتا ‘ اس کلمہ ہی سے شیطان کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جو ہوا اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا ہونا منظور تھا ‘ اس کی حکمتیں اسے معلوم ہیں ‘ ہم اس کی حکمت کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ (لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوبِہِمْ ط) ۔ اس قسم کی باتوں سے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں حسرت کی آگ جلا دیتا ہے۔ یہ بھی گویا ان کے کفر کی سزا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

113. Such ideas had no solid ground. God's decree regarding the time of one's death cannot be deferred. Those who lack faith in God and think that everything is dependent on their own scheming and effort rather than on the overpowering Will of God become victims of perpetual remorse, since they never cease to reflect how a slightly different circumstance or slightly altered strategy could have led to an altogether different and wholesome result.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :113 یعنی یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قضاء الہٰی کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی ۔ مگر جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور سب کچھ تدبیروں ہی پر موقوف سمجھتے ہیں ان کے لیے اس قسم کے قیاسات بس داغ حسرت بن کر رہ جاتے ہیں اور وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ کاش یوں ہوتا تو یہ ہو جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(156 ۔ 158) ۔ اوپرذکر تھا کہ احد کی شکست کے وقت کچے مسلمان طرح طرح کی پریشانی اور ہراسگی کی باتیں کرتے تھے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پکے مسلمانوں بندوں کو ان کچے مسلمانوں کی باتوں اور ان کا سا اعتقاد رکھنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے جب موت کا وقت آجاتا ہے تو آدمی خواہ گھر میں ہو یا جنگل میں وہ وقت کہیں نہیں ٹلتا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ خدا کی راہ میں جان کا دینا دنیا کے رہنے اور مال کے جمع کرنے سے بہتر ہے جس کی بہتری تم کو حشر کے دن معلوم ہوجائے گی اور فرمایا کہ یہ حسرت اور افسوس کے کلمات ان منافقوں کی زبان سے اللہ تعالیٰ اس لئے نکلواتا ہے کہ صادق اور منافق اچھی طرح لوگوں کو معلوم ہوجائیں اور اس طرح کے کلمات سے منافقوں کا رنج اور افسوس و غم اور بڑھے غرض آیت میں کفار سے مراد وہ منافق ہیں جنہوں نے پریشانی کی باتیں منہ سے نکال کر اپنے ساتھ کے مسلمانوں کو بھی پریشانی میں ڈالنا چاہا تھا۔ اور گھڑی گھڑی یہ کہتے تھے کہ اگر وہ گھر سے باہر نہ نکلتے تو اس آفت میں نہ پھنستے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:156) غزی۔ جمع غازی واحد۔ غازی کی جمع غزاۃ بھی ہے غزو مصدر۔ غزا یغزو (نصر) ۔ ضربوا فی الارض۔ ای سافروا فی الارض لتجارۃ وغیرہا۔ یعنی تجارت وغیرہ کے لئے سفر کرتے۔ ضربوا میں فاعل اخوانھم ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مراد منافقین ہیں جو ظاہر میں مسلمان اور درحقیقت کافر ہیں۔ ( وحیدی) ان کی طرح مت بنو یعنی ان جیسے خیا لات دل میں نہ لا و اور ان کی طرح یہ عقیدہ مت رکھو۔ مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بئر معونہ کی طرح ایک دستہ بھیجا وہ شہید ہوگیا تو اس پر منافقین نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس قسم کے خیالات دم لانے سے منع فرمادیا۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) اسی قسم کے خیالات کا اظہار شہدا احد کے متعلق بھی کیا گیا۔ (دیکھئے آیت 168) 5 اپنے مسلمان بھائی بندوں کے حق میں یعنی لام سببیت ہے اور ان کو اپنا بھائی کہنا نسبی رشتہ داری کی بنا پر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اخوان سے ان کے دوسرے ہم مسلک منا فق بھائی مراد ہوں۔ اس صورت میں امام تبلیغ کا ہوگا یعنی انہوں نے اپنے منافق بھا ئیوں سے کہا ترجمہ میں پہلی شق کی اختیار کیا گیا ہے۔ (قرطبی۔ وحیدی)6 غزی یہ غاز کی جمع ہے جیسا کہ راکع کی جمع رکع آجاتی ہے اور لیجعل اللہ میں لام کا تعلق قالوا سے ہے یعنی ان کا یہ قول ان کے دلوں میں حسرت کا مو جب بن رہا ہے (شو کانی) پس مسلمان کو منع فرمایا کہ تم جلادت سے کام لو اور اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و تاکہ تمہارے اس عدم تائثر کی وجہ سے اس بات سے ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہو (المنار) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لام عاقبت کا ہو اور اس کا تعلق لاتکونو صغیہ نہیں سے ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے ضعف اعتقاد کی وجی سے اس قسم کے کلمات ان کی زبان پر جا ری کردیتے ہیں تاکہ وہ ساری عمر اسی ہی واہی تبا ہی باتیں کر کے اپنے مقتول بھا ئیوں پر پچھتاتے رہیں۔ پس لاتکو نوا فرماکر مسلما نوں کو متنبہ کیا کہ تم اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و ورنہ تم ان کی طرح حسرت وافسوس کی زندگی بسر کرو گے ( المنار۔ وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 156 171 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا………………اوقتلتم لا لی اللہ تحشرون۔ اسی بات ک وآگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومنین کو زیب نہیں دیتا کہ کفار کی سی حرکت کرے یا ان کی طرح سوچے اور بات کرے کیونکہ کافر کے اقوال وافعال بھی اس کے لئے اپنے اندر سزا کی کیفیت رکھتے ہیں جس طرح منافقین کا قول ہے کہ اگر ہمارے پاس ہمارے یہ بھائی رہتے اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سفر اختیار نہ کرتے ، نہ جہاد میں حصہ لیتے تو ہرگز قتل نہ ہوتے اور نہ ان کی یوں موت آتی۔ یہ سوچ ، ایک کرب ہے ، ایک حسرت ہے جو دل کو جلارہی ہے ایک چبھن ہے جس سے دل بےقرار ہے اور یہ صرف کافر کا حصہ ہے ورنہ موت اور زندگی اللہ کے دست قدرت میں ہے۔ جسے چاہے موت دے دے اور جسے چاہے زندہ رکھے۔ وہ قادر ہے پھر حسرت کس بات کی ، اور پریشانی کیسی ؟ یہ دولت ایمان سے نصیب ہوتی ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے یعنی جو شخص بھی جس راہ کو اپنالے گا اس کے نتائج اس پر وارد ہوں گے اور پھر موت تو ہر حال وارد ہو کر رہے گی۔ اس سے سفر نہیں ، اور ہر مرنے والا یا اللہ کی راہ میں موت سے ہمکنار ہوتا ہے اور یا شیطان کے رستہ پر موت سے دوچار ۔ پہلی راہ سعادت کی ہے کہ راہ خدا میں قتل ہو یا یاد خدا میں موت آئے تو یہ بڑی نعمت ہے کہ ا س پر اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت مرتب ہوگی جس کا ایک شمہ ، تمام دنیا کی دولت سے بہت زیادہ بھاری ہے اور یہ موت ایک تحفہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے تحفہ المومن الموت۔ یہ ایک انعام ہے اور عطا ہے۔ ورنہ تو ہر ایک کو مرنا ہے اگر ویسے مارے گئے یا مرگئے ، تو بھی اللہ کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اب سوچو کہ جو شیطان کی راہ میں مرگئے یا مارے گئے وہاں ان کی حالت کیا ہوگی تب اندازہ ہوسکے گا کہ اللہ کی راہ میں نصیب ہونے والی موت اس حیات مستعار سے قیمتی اور پر لطف ہے۔ فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم……………ان اللہ یحب المتوکلین۔ اللہ کی رحمت کس قدر عام ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بھی اسی کی رحمت سے سب کے ساتھ بہت نرمی اور محبت کا سلوک فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت اور رافت ان کی ڈھال ہے اور آپ کا عفو و درگزر ان کی جائے پناہ۔ آپ یہ عظمت شان اور آپ کا علم کے ساتھ جودوسخا سب رحمت باری ہی کے کرشمے ہیں۔ نیز اگر یہ اوصاف حمیدہ اور اخلاق جلیلہ آپ کے ہاں نہ ہوتے تو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گردجمع نہ ہوپاتے اور اصلاح خلائق کا فریضہ حسب منشا انجام نہ پا سکتا۔ اور لوگ محروم رہتے ، اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کے لئے انہیں کوئی دروازہ نصیب نہ ہو پاتا۔ مگر اللہ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے کریم اور رئوف ورحیم پیمبرکو مبعوث فرما کر عفوعام کا اذن فرمایا۔ اب بھی اگر کوئی محروم ہے یہ کمزوری یا نقص اس شخص کی اپنی ذات میں ہے جس کے بارے اسے دنیا میں محرومی کا اور آخرت میں وہاں کے مواخذہ کا سامنا کرنا ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین کے ساتھ درگزر کا معاملہ ہی فرمائیے کہ نادانی میں یا بحیثیت ایک انسان کے ان سے جو لغزشیں سرزد ہوسکتی ہیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر کو مکدر نہ کرسکیں۔ تکدر قلبی : تکدر قلبی منافی رافت ہے اور فیوضات کو منقطع کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ کے دل میں کدورت آجائے تو طالب کے فیوضات اور مقامات برباد ہوجاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لئے اللہ سے بخش مانگا کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ان کے لئے باعث برکات اور موجب تسلی ہوگی۔ نیز ایسے امور میں جو وحی سے متعین نہیں فرمادیئے جاتے مومنین سے مشورہ فرمایا کریں کہ انہیں آپ کا لطف خاص حاصل رہے۔ سبحان اللہ ! کیا انداز ہے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کے اظہار کا بھی اور خودذات باری صحابہ (رض) کی سفارشی بھی ہے اور ان کے طفیل قیامت تک پیدا ہونے والا وہ انسان جسے ان کا اتباع نصیب ہو ، اسی کرم کا امیدوار بھی ہے۔ صاحب معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہاں مشورہ کی شرعی حیثیت اور طریق کار نیز شوریٰ اور اسلامی حکومت وغیرہ جملہ امور پر خوب داد تحقیق دی ہے ، اللہ ان کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین۔ اگر دیکھنا چاہیں تو دوسری جلد کے صفحہ نمبر 215 سے صفحہ نمبر 224 ملاحظہ فرمائیں۔ مشورہ اور شوریٰ : لیکن مشورہ کی حیثیت بہرحال اپنی ہوگی کہ بعد مشورہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فیصلہ فرمالیں خواہ مشورہ کے مطابق ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے خلاف پسند فرمالیں۔ تو پھر اللہ پر بھروسہ کریں کہ تمام امور اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ مغربی جمہوریت تو کثرت رائے کو چاہتی ہے کہ دو اندھے اگر دن کو رات کہہ دیں تو ایک آنکھوں والا قبول کرنے پر مجبور ہے مگر اسلامی طرز زندگی میں امیر یا حاکم یا شیخ یعنی ہر طرح کا سربراہ وہی بن سکتا ہے جو ان لوگوں میں سب سے بہتر علمی وعملی اعتبار سے ورع وتقویٰ کے لحاظ سے ہو ، ایسے انسان کی رائے بفضل اللہ سب سے بہتر ہوگی۔ اسے چاہیے کہ سب سے مشورہ کرے۔ ممکن ہے اکثریت کی رائے ہی اس کے اطمینان کا سبب بن جائے یا خود اس کی رائے سے مطابقت رکھتی ہو لیکن اگر نہ بھی ہو تو وہ پابند نہیں بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق ان سب لوگوں کی بہتری کی خاطر اللہ کو حاضر جانتے ہوئے خود فیصلہ کرلے اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرے کہ اللہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ صاحب کشف الاسرار فرماتے ہیں۔ کہ بوعلی وفاق کا ارشاد ہے کہ تو کل کے تین درجے ہیں ، اول توکل ، دوم تسلیم اور سوم تفویض ۔ پھر فرماتے ہیں ، صاحب توکل وعدہ حق پر امید رکھتا ہے۔ صاحب تسلیم علم باری پر مطمئن ہے اور صاحب تفویض راضی برضا ہے۔ صاحب توکل طالب عطا ہے۔ صاحب تسلیم منتظر لقا اور صاحب تفویض آسودہ رضا ہوتا ہے۔ ان ینصرکم اللہ……………واللہ بصیر بما یعملون۔ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے اطاعت باری کے لئے ہی تو ہوگی یا جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی شرعی قاعدہ کے مطابق امیر ہوگا اس کی اطاعت نصرت الٰہی کا سبب بنے گی اور جب اللہ مدد فرمائے گا تو اے مسلمانو ! تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ یہی حال شیخ کا ہوتا ہے کہ اس کی محنت و کاوش یا رائے اور مشورہ مفادات ذاتی سے بالاتر ہوتا ہے اسی لئے اسے اللہ کی طرف سے نصرت حاصل ہوتی ہے اور مسلمانوں کی ترقی کا بنیادی سبب یہی چیز ہے لیکن خدانخواستہ کوئی ایسی صورت بن جائے کہ نااہل کسی منصب پر قابض ہوجائیں اور مفادات ذاتی کی خاطر فیصلے کریں تو پھر نہ صرف خود ذلیل ہوں گے بلکہ امت کی رسوائی کا سبب بنیں گے کیونکہ جب للہیت اٹھ گئی تو نہ صرف نصرت الٰہی ہاتھ سے گئی بلکہ خذلان اور ذلت حصے میں آئی اور جن لوگوں کو اللہ رسوا کردے کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر شیخ کی مسند پر قابض ہوں گے تو لوگوں کا دین برباد کرنے کا باعث بنیں گے اور محبت کی جگہ دلوں میں نفرت اور منافقت آجائے گی۔ اعاذنا اللہ منہا۔ نیز مومن تو اللہ پر ہی بھروسہ رکھتا ہے ، ظاہر ہے کہ توکل بھی تو جائز امور میں ہی کرے گا۔ یعنی ایمان کے ساتھ نیکی اور خلوص ہی زیب دیتا ہے۔ نیز خیانت کی امید نبی سے رکھنا فضول ہے کہ یہ ایسا مذموم فعل ہے کہ ہر خائن اپنی خیانت کردہ چیزسمیت میدان حشر میں حاضر ہوگا ۔ جس طرح آیات و احکام نازل ہوتے ہیں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح پہنچائیں گے۔ منافقین یا کفار یہ امید نہ رکھیں کہ ان کے عقائد کی جو خرابی آیات میں بیان کی جاتی ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد نہ فرمایا کریں یا کوئی بھی شخص اجرائے احکام میں یا تقسیم غنائم میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی ناروا رورعایت کی ہرگز امید نہ رکھے کہ یہ فعل نبی کو تو زیب ہی نہیں دیتا۔ غیر نبی بھی جو اس کا مرتکب ہوگا یہ اس کے لئے باعث رسوائی بنے گی۔ یہاں کفار کے اس شبہ کا رد بھی ہے کہ معاذ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فلاں کو زیادہ مال عطا فرمایا اور فلاں کو کم۔ اور اس کے ساتھ یہ اصول بھی ارشاد ہوا کہ غلول نہایت رسواکن فعل ہے اور یہ ہر طرح کی خیانت کو محیط ہے جیسے خانقا ہوں ، مساجد اور مدارس وغیرہ کے اموال یا خزانہ سرکار یعنی بیت المال کی اشیاء رقوم خواہ ان میں چوری کرے۔ لاپرواہی سے ضائع کرے تو اس بارہ حدیث شریف میں وعید آئی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے لوگ محروم رہیں گے۔ اور دوسرے درجہ میں ہر گناہ کو خیانت کرکے غضب الٰہی کو دعوت دینے والے تو کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے کہ مظہر عضب تو جہنم ہے اور وہی ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ہوگا جو بہت ہی تکلیف دہ جگہ ہے اور یاد رہے کہ عنداللہ لوگوں کے مدارج مختلف ہیں۔ نہ سب جنتی ایک درجے کے ہیں اور نہ سب دوزخی ایک جیسے جنت میں درجات بلندی کی طرف ہیں کہ دنیا میں جس قدر اطاعت خلوص کے ساتھ کرکے درجات پالئے یا پھر عدم اطاعت کے وبال میں گرفتار جتنا کوئی نیچے گرتا چلا گیا اور اللہ کریم سب کے اعمال دیکھتے ہیں اور جہنم کے درجات نیچے کو چلتے ہیں۔ لقد من اللہ……………لفی ضلل مبین۔ مومنین پر تو اللہ کا خاص احسان ہے کہ انہی میں سے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ للعالمین ہیں اور دنیا کی ساری رونقیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے طفیل ہیں جن سے ہر نوع تخلیق متمتع ہورہی ہے۔ مگر مسلمانوں پر تو یہ احسان عظیم ہے کہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکات سے ابدی طور پر مالا مال ہو رہے ہیں اور باقی لوگ صرف دنیا میں وہ بھی مادی چیزوں سے۔ انسان کی اصل روح ہے اور بدن اس کا آلہ۔ اس لئے حقیقی نعمتیں بھی لذت روحانی اور نعمائے روحانی ہیں جن سے مومنین مستفید ہو رہے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کسی اور جنس سے ہوتے یعنی فرشتے یا جن ، تو انسان پوری طرح استفادہ نہ کرسکتا۔ یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کی بعثت سے بشریت کو وہ شرف نصیب ہوا کہ ساری مخلوق سے اس کی شان زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کفر ہے صاحب روح المعانی اسی آیہ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ شیخ ولی الدین عراقی (رح) سے پوچھا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر اور عرب جاننا کیا صحت ایمانی کی شرط ہے۔ فرمایا ، ” بیشک ! “ پھر فرمایا ” اگر کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اقرار تو کرے مگر یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ بشر ہیں یا فرشتے یا جن اور پھر عرب یا عجم کے رہنے والے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں “۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہی برکات ہیں کہ اللہ کی آیات تلاوت فرماتے ہیں یعنی ، کردیا ہم سخن بندوں کو اللہ سے تو نے اس مشت خاک کو وہ عزم اور وہ طلب بخشی کہ اب ذات باری سے ہمکلام ہے اور اپنے تمام امور میں اللہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اسی کی خاطر مومنین کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ تزکیہ : تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس کا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کے آخری کنارہ پر پہنچ چکی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت نے انسانیت کو حیات نوبخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلوص وللہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات ، ارشادات اور اس کے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کافر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کیفیات کو حاصل کرتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں بٹتی ہیں چناچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اس نعمت کو ان کے مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہیں گے انشاء اللہ۔ کہ اسی کی برکت سے کتاب و حکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی حصول تعلیم کی اساس ہے۔ کتاب و حکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل کو آسان کردے جو اس کی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھر محض حروف کی شناخت رہ جائے گی اسے تعلیم کہنا درست نہ ہوگا۔ یہ بھی وضاحت فرمادی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہے یعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی۔ ورنہ قبل ازیں تو لوگ ایسی گمراہی میں مبتلا تھے جسے وہ خود بھی جانتے تھے یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انہیں بھی علم تھا۔ اور غالباً آ ج کے دور کی مصیبت بھی یہی ہے کہ کیفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں دنیا میں نظر نہیں آتے اور جب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔ لوگ کتاب اللہ پڑھتے بھی ہیں پڑھاتے بھی ہیں مگر عمل بہت ہی کم نصیب ہوتا ہے اللہ کریم دلوں کی روشنی نصیب فرمائے۔ آمین۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عطا کردہ کیفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انہیں تقسیم بھی کرسکیں اور دوسروں کے دلوں میں بھی وہ روشنی منتقل کریں جس کے وہ امین ہوں۔ چنیں مردے کہ یابی خاک اوشو اسیر حلقہ فتراک او شو ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہوا کرتی ہے اور حقیقی علم سے آشنائی نصیب کرتی ہے یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ تلاوت آیات ، پھر تزکیہ اور اس کے بعد تعلیم کتاب و حکمت۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد بھی انسان تکالیف ومصائب میں گھر سکتا ہے کہ کبھی تو بحیثیت انسان اس سے کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ تو یہ مصیبت تلافی مافات کا کام دیتی ہے اور کبھی ترقی درجات کا سبب بن جاتی ہے۔ نیز مومن ومنافق کی پہچان بھی ہوجاتی ہے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ…………ان کنتم صادقین۔ کہ یوم احد جو نقصان تمہیں پہنچایا جتنا نقصان لشکر اسلامی کا ہو اس سے دو چند تو یوم بدر کا کفار کا ہوچکا ہے یعنی اے مسلمانو ! تم انہیں اس سے دو چند صدمہ پہنچا چکے ہو پھر اس بات پہ پریشانی کیسی ؟ دوسری اور اصل بات یہ ہے کہ آپ حضرات نے غیرارادی طور پر سہی ، درہ خالی کرکے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی تعمیل میں کوتاہی کی ہے اس کا نتیجہ بھی ضرور سامنے آنا تھا۔ اور تیسری وجہ یہ بھی کہ اس مصیبت میں ڈال کر اللہ بعض مومنین کو تو شہادت سے سرفراز کرنا چاہتا تھا اور باقیوں کو بھی دنیا کی نگاہ میں سرفراز کرنا مقصود تھا۔ نیز منافقین کی شناخت کا باعث بھی یہی بات بنی کہ جب انہیں جنگ یا دشمن کی مدافعت کے لئے کہا گیا تو کہتے ہیں کہ اگر یہ جنگ ہوتی تو ہم ضرور ساتھ دیتے مگر یہ تو صریحا ً خود کشی ہے۔ ارشادات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ سلوک انہیں ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب لے گیا۔ حالانکہ یہ صرف زبانی بات تھی۔ ان کے دل میں تو اس سے کہیں زیادہ کدورت بھری ہوئی تھی اور اللہ تو ان کی پوشیدہ باتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ بدبخت خود تو جنگ سے علیحدہ ہو ہی گئے تھے دوسروں کو بھی کہتے تھے کہ اے کاش ! ہمارا کہا مان لیتے تو یوں تہ تیع نہ کئے جاتے۔ تو ان سے کہیے کہ تم اپنے آپ سے تو موت کو منع کرکے دیکھو۔ جب تم اپنی ذات سے موت کو نہیں روک سکتے تو دوسروں سے موت کو منع کرنے کی طاقت کیسے رکھتے ہو ؟ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ عین اس روز بھی متعدد منافقین موت کا شکار ہوئے تھے۔ ولا تحسبن الذین قتلوا……………وان اللہ لا یضیع اجرالمومنین۔ شہید کی حیات : جنہیں تم مقتول سمجھتے ہو وہ شہید ہیں اور شہید کو کبھی مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ یہ ارشاد ان لوگوں کے بارے ہے جو لوگوں کے سامنے قتل ہوئے اور جنہیں قبروں میں دفن بھی کیا گیا۔ اس کے باوجود حکم یہ ہے کہ انہیں مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ زندہ ہیں۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ حیات روحانی مراد ہے تو وہ ہر مرنے والے کو حاصل ہے مومن ہو یا کافر ، روح دونوں کی زندہ رہتی ہے اور سوال و جواب قبر کے بعد نیک لوگوں کے لئے راحت اور کفار وفجار کے لئے عذاب ، قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حیات سے مراد وہ حیات ہے جو آخرت میں نصیب ہوگی تو صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ یہ قول معتزلہ کا ہے اور باطل ہے پھر اس کی وجوہات بیان فرماتے ہیں تو پھر یقینا ایسی زندگی ہے جس میں روح کا تعلق بدن سے بھی بہت مضبوط طور پر قائم ہے۔ اس قدر تعلق تو ہر روح کو بدن سے ہوتا ہے کہ جو ثواب یا عذاب روح کو پہنچے بدن کے ذرات بھی اس سے متاثر ہوں اور اپنے حصے کی راحت یارنج جھیلتے ہیں۔ مگر شہید کی روح کا تعلق اس سے بہت قوی ہوتا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے انہیں رزق ملتا ہے کھاتے پیتے ہیں۔ یہاں کوئی کہے کہ شہید کی قبر میں مادی رزق تو نظر نہیں آتا ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ابیت عند ربی یطعمنی ویقینی۔ موجود ہے کہ کئی کئی روز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔ اللہ کی طرف سے کھلائے پلائے جاتے تھے اور وہ رزق نہ مادی ہوتا تھا نہ کسی کو نظر آتا تھا۔ اس کے باوجود وجود اقدس کو بھی غذا کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی نہ کوئی ایسا اثر مرتب ہوتا تھا ، ایسا ہی رزق شہید بھی پاتا ہے پھر لذت والم کا احساس وادارک رکھتا ہے جس کے لئے بھی حیات شرط ہے اور نہ صرف اپنی ذات سے بلکہ اپنے پسماندگان کے حالات سے بھی خوشی اور سرور حاصل کرتا ہے کہ وہ بھی اطاعت الٰہی کے راستے پر گامزن ہیں اور یہ تو انہوں نے دیکھ ہی لیا کہ اللہ مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس بات پہ خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پسماندگان بھی آکر انعامات پائیں گے۔ تو اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور روح کا تعلق بدن سے اس قدر قوی ہوتا ہے بدن نہ گلتا سڑتا ہے اور نہ خراب ہوتا ہے ، رزق دیا جاتا ہے ، خوشی اور الم کو محسوس کرتا ہے اس کا علم پہلے سے بھی وسیع ہوجاتا ہے کہ دنیا میں رہ جانے والوں کے حالات حاصل ہوتی ہے کہ عالم برزخ میں رہتا ہے۔ کھانا پینا ، سونا جاگنا راحت والم اور جملہ امور کا تعلق عالم برزخ سے ہے اگر شہید زندہ ہے تو یہ نبی کی برکات میں سے حصہ پاکر شہادت سے سرفراز ہو تو خود نبی کی حیات اس سے بھی اقویٰ ہوگی جس کی مثل غیر نبی کو نہیں ہوسکتی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 156 تا 158 سورۂ آل عمران کی آیات 156 ست 158 میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ وہ اپنی گفتار میں اور انداز میں منافقین اور کافروں کی مشابھت اختیار نہ کریں۔ بلکہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ زندگی اور موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس نے جس کی جتنی زندگی لکھ دی ہے اس میں ایک لمحہ کا بھی فرق نہیں ہوسکتا۔ کفار اور منافقین کا یہ کہنا کہ اگر تم ہمارے پاس ہوتے تو ہماری حفاظت میں ہوتے اور تمہیں اس طرح موت نہ آتی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مارا جانا دنیا کی زندگی سے کہیں بہتر ہے کیونکہ انسان دنیا کی چند روز زندگی میں انتہائی محنت اور مشقت کے بعد کچھ مال و دولت جمع کرتا ہے۔ اس سے وہ کچھ دن فائدہ بھی اٹھا لیتا ہے لیکن موت کے ساتھ ہی اس کا رشتہ ان چیزوں سے منقطع ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے جو پاکیزہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے اور آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے وہ اس دنیا سے کہیں بہتر ہے جو آدمی زندگی بھر کما کر اپنے بعد کے لوگوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ نیکیوں کے ساتھ زندگی گذارنے والا اس مال و دولت میں بھی اور آخرت میں بھی ابدی راحتوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ دنیا میں اس کو قلبی سکون اور آخرت میں ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ اس لئے زندگی کی لذتوں سے مومن کے لئے اللہ کی راہ میں مارا جانا کہیں بہتر ہے۔ لغات القرآن آیت نمبر 159 تا 160 فبمارحمة (رحمت ہے) لنت (آپ نرم دل ہیں) فظ (بدمزاج) غلیظ القلب (سخت دل) انفضوا (وہ بھاگ گئے ہوتے) من حولک (آپ کے اردگرد سے) ش اور ھم (ان سے مشورہ کیجئے) عزمت (آپ نے ارادہ کرلیا) یخذل (وہ برباد کرتا ہے) ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اوپر منافقین کا قول نقل کیا تھا چونکہ ایسے اقوال سننے سے احتمال ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس قسم کے وساوس پیدا ہونے لگیں اس لیے حق تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو ایسے اقوال اور ایسے احوال سے ممانعت فرماتے ہیں۔ 6۔ اس سفر سے دینی کام کے لیے سفر کرنا مراد ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین نے اپنے عزیزوں کی موت پر حسرت وافسوس کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ تمہیں منافقوں اور بزدلوں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اے صاحب ایمان لوگو ! تمہاری سوچ اور زبان کفار جیسی نہیں ہونی چاہیے جنہوں نے اپنے رشتے داروں کو یہ کہا کہ اگر تم قتال کے لیے نہ نکلتے اور ہمارے ہاں ٹھہرے رہتے تو قتل ہونے سے بچ جاتے دراصل یہ لوگ اپنی حد سے بڑھ کر بات کرتے ہیں۔ کیونکہ موت وحیات کے فیصلے صرف اللہ کے اختیار میں ہیں۔ کسی نیک کی نیکی ‘ برے کی برائی ‘ دانش مند کی دانش مندی اور محتاط کی احتیاط موت کو ٹال سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی موت کی جگہ سے ہٹا سکتی ہے۔ یہ تو کفار کی سوچ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یوں ہوجاتا اور یوں ہوتا تو اس طرح ہوجاتا۔ ایسے لوگ زندگی بھر ایسی حسرتوں کا شکار رہتے ہیں کہ کاش وسائل ہوتے تو یہ اور وہ ہوجاتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی گفتگو اور سوچ سے منع فرمایا ہے : (عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَّاأحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ وَ فِیْ کُلٍّ خَیْرٌ إِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْ ءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّی فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَ کَذَا وَلٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب فی الأمر بالقوۃ وترک العجز والإستعانۃ باللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے طاقتور مومن اللہ کے ہاں کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے تاہم بہتری اور خیر دونوں میں ہے۔ تجھے نفع بخش چیز کی طلب کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرنا چاہیے اور عاجز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تکلیف آئے تو یہ نہ کہنا چاہیے کہ اگر میں یہ کام کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اللہ نے جو تقدیر میں لکھا اور جو چاہا کردیا۔ کیونکہ لفظ ” اگر سے شیطان اپنے کام کی ابتدا کرتا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ پریشانی کے موقعہ پر آدمی کے اگر مگر کہنے سے شیطان آدمی کا عقیدہ کمزور کرنے اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ “ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم : آپ نے بچوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات پختہ کردی کہ جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کر رکھا ہے وہ ہو کر رہنے والا ہوتا ہے۔ نہ وہ ٹل سکتا ہے اور نہ اسے کوئی روک سکتا ہے آپ نے عبداللہ بن عباس (رض) کو یہ عقیدہ سکھایا : (وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” یقین رکھ کہ اگر پوری دنیا تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے کچھ نقصان دینے پہ تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیری قسمت میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔ “ مسائل ١۔ مسلمانوں کی سوچ اور گفتگو کفار جیسی نہیں ہونی چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو جہاد سے پھسلانا یا ہٹانا کفریہ سوچ ہے۔ ٣۔ موت اور زندگی اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیر بالقرآن حسرت زدہ لوگ : ١۔ اسلام کا انکار کرنا حسرت کا سبب ہوگا۔ (الحاقۃ : ٥٠) ٢۔ مشرکین قیامت کے دن حسرت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٣۔ قیامت کے منکرین حسرت وافسوس کریں گے۔ (الانعام : ٣١) ٤۔ قیامت کے دن مجرم دنیا کی بری دوستی پر اظہار افسوس کریں گے۔ (الفرقان : ٢٧ تا ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس مضمون کا خاتمہ موت وحیات کی حقیقت کے بیان کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس بارے میں کفار اور منافقین کے خیالات کس قدر کھوٹے ہیں ۔ اہل ایمان کو پکار کر کہا جاتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا تصور حیات ‘ ان کے تصور حیات سے بالکل جدا کرلیں ۔ آخر میں مشکلات اور قربانیوں کی ایک مختلف قدر و قیمت بتائی جاتی ہے ۔ فرماتے ہیں : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لإخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الأرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(١٥٦) وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (١٥٧) وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ (١٥٨) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز و اقارب اگر کبھی سفر پر جاتے ہیں یا جنگ میں شریک ہوتے ہیں (اور وہاں کسی حادثہ سے دوچارہوجاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے ) اللہ اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں کی حسرت واندوہ کا سبب بنا دیتا ہے ‘ ورنہ دراصل مارنے اور جلانے والا تو اللہ ہی ہے اور تمہاری تمام حرکات پر وہی نگراں ہے ۔ اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی جو رحمت اور بخشش تمہارے حصے میں آئے گی وہ ان ساری چیزوں سے زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں اور خواہ تم مرو یامارے جاؤبہرحال تم سب کو سمٹ کر جانا اللہ ہی کی طرف ہے ۔ “ اس معرکے کے حالات کے بیان کے دوران آیات کی مناسبت ظاہر ہے ۔ یہ منافقین مدینہ کے اقوال تھے ۔ یہ لوگ اس معرکہ کے آغاز ہی میں لشکر اسلام سے جدا ہوگئے تھے ۔ نیز مدینہ کے مشرکین بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے ۔ یہ لوگ ابھی اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے لیکن ان لوگوں اور مسلمانوں کے درمیان قرابت کے تعلقات قائم تھے ۔ جنگ احد میں جو لوگ مارے گئے ان کے منافق رشتہ داروں اور مشرک رشتہ داروں کے لئے یہ ایک موضوع بن گیا ‘ ان کو اپنے مسلم رشتہ داروں کے دلوں میں حسرت اور مایوسی پیدا کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اور اس معرکہ میں ان لوگوں کے چلے جانے اور قتل ہوجانے کو یہ مشرک اور منافق ان کے رشتہ داروں میں از سر نو زخم تازہ کرنے کے لئے بار بار استعمال کرتے تھے ۔ اس بات میں شک نہیں ہے کہ اسلامی صفوں پر اس قسم کی باتوں اور پروپیگنڈے سے بہت گہرے اثرات پڑتے تھے اور ان لوگوں نے اس طرح مایوسی اور ہیجان کی فضا پیدا کردی تھی ۔ چناچہ قرآن کریم کو ان کی غلط باتوں ان کے غلط عقائد اور ان کے غلط تصورات کو درست کرنے کے لئے یہاں ان کی تردید کرنا پڑی۔ اس طرح کہ ان کی وہ باتیں خود ان کے گلے پڑگئیں۔ ایک بات کافر یہ کرتے تھے کہ اگر ہمارے ساتھ رہتے یا واپس آجاتے تو وہ نہ مرتے ۔ ان کی اس بات سے یہ بات اچھی طرح سامنے آجاتی ہے کہ ایک شخص جو کسی نظریے کا علم بردار ہوتا ہے اور وہ شخص جس کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا ان دونوں میں کس قدر فرق ہوتا ہے۔ دونوں کا تصور ‘ ان اصولوں کے بارے میں جن پر زندگی رواں دواں ہے ‘ جس میں مشکلات بھی ہیں اور آسانیاں بھی ہیں ‘ بہت مختلف ہوتا ہے۔ ایک نظریاتی شخص اس کائنات میں اللہ کے تکوینی اصولوں کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر مطمئن ہوتا ہے ۔ وہ اچھی طرح جانتا اور مانتا ہے کہ اسے وہی کچھ پیش آسکتا ہے جو اللہ نے لکھ دیا ہے ۔ اور یہ کہ جس دکھ نے اسے پہنچنا ہے وہ ٹل نہیں سکتا اور جو مصیبت اس پر نہیں آئی ہے وہ آ نہیں سکتی ۔ اس لئے وہ مصیبت پر جزع وفزع نہیں کرتا اور نہ ہی مسرت اور خوشی میں آپے سے باہر ہوتا ہے ۔ اس کے نفس پر نہ اس کا اثر ہوتا ہے اور نہ اس کا ۔ وہ اس بات پر حسرت نہیں کرتا کہ اس نے یہ نہیں کہا اور وہ نہیں کیا تاکہ وہ فلاں مصیبت سے بچ جاتا یا فلاں فلاں مفاد حاصل کرلیتا ۔ جبکہ کام ہوچکا ہوتا ہے اور وقت چلا گیا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ تدبیر وتقدیر اور تجاویز وآراء کا موقعہ ومحل وہ ہوتا ہے جب کوئی واقعہ ابھی تک وقوع پذیر نہیں ہواہوتا ‘ کوئی اقدام اور کوئی حرکت ابھی ہونا ہوتی ہے ۔ جب تدبیر اور مشورہ کے بعد وہ حرکت میں آجاتا ہے تو اس کے جو نتائج بھی نکلتے ہیں وہ بڑے تسلیم ورضا اور اطمینان کے ساتھ انہیں قبول کرتا ہے ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کی یہ حرکت اللہ تعالیٰ کے اوامر اور مناہی کے مطابق ضروری ہیں ۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی تدبیر کے مطابق ہوا ہے ۔ عین اس کی حکمت کے مطابق ہوا ہے ۔ اور یہ کہ جس طرح ہوا اسی طرح ہونا تھا۔ اگرچہ اس نے اپنی حرکت اور فعل سے اس کے اسباب فراہم کئے ۔ یوں نظریہ عمل اور اس کے نتائج تسلیم کرنے کے درمیان ایک توازن ہوتا ہے ۔ وہ توکل اور مثبت سوچ کے درمیان بھی توازن پیدا کردیتا ہے ۔ اس کی وجہ سے انسان کا ہر اقدام درست ہوتا ہے اور ضمیر مطمئن ہوتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جن کا دل و دماغ نظریہ اور اس نظریہ کے تحت مثبت تصور حیات سے خالی ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ ہوا میں ہوتا ہے ‘ ہمیشہ قلق و پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی ” اگر مگر “” اے کاش “ اور ” اے افسوس “ جیسے الفاظ میں گزرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ‘ جماعت مسلمہ کی تربیت کرتے ہوئے ‘ واقعات احد کی روشنی میں ‘ جن میں مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ‘ انہیں اس امر سے شدید الفاظ میں ڈراتے ہیں کہ ان کا رویہ کہیں ان بےعقیدہ اور بےنظریہ کافروں کی طرح نہ ہوجائے ‘ جو ہر وقت حسرتوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔ جب بھی ان کا کوئی رشتہ دار ‘ کسی سفر پر برائے تجارت اور کاروبار بن جاتا ہے اور وہاں بقضائے الٰہی فوت ہوجاتا ہے یا کبھی کسی معرکے میں شریک ہوتا ہے اور قتل ہوجاتا ہے تو وہ یہ کہتے ہیں : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لإخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الأرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو ‘ کافروں کی سی باتیں نہ کرو ‘ جن کے عزیز و اقارب اگر سفر پر جاتے ہیں یا جنگ میں شریک ہوتے ہیں (اور وہاں کسی حادثہ سے دوچار ہوجاتے ہیں) تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے ۔ “ یہ باتیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اس کائنات کے بارے میں ان کی سوچ غلط ہے ۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ اس کائنات کے واقعات کے پیچھے دست قدرت کام کررہا ہے ۔ وہ صرف اس قدر دیکھ سکتے ہیں جس قدر ظاہری اسباب نظر آتے ہیں ۔ وہ صرف ان سطحی حالات کو دیکھ سکتے ہیں جن میں کوئی واقعہ رونما ہوا ‘ یہ محض اس لئے کہ ان کا تعلق اللہ کے ساتھ نہیں ہے ‘ اور وہ اس دست قدرت کو نہیں دیکھ سکتے جو اس کائنات میں جاری وساری ہے ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ……………” اللہ اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت واندوہ کا سبب بنا دیتا ہے۔ “ ان کا احساس یہ ہے کہ جو شخص تجارتی مقاصد کے لئے نکلتا ہے اور کسی حادثہ کا شکار ہوجاتا ہے یا کسی معرکے کے لئے نکلتا ہے اور وہاں قتل ہوجاتا ہے ‘ اس کا اصلی سبب گویا اس شخص کا خروج ہے اور یہی غلط احساس ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ حسرت واندوہ میں ہر وقت ڈوبے رہتے ہیں کہ کیوں نہ انہوں نے انہیں اس سفر ‘ اس معرکے کے لئے نکلنے سے منع کیا ؟ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اس کی حقیقی علت اور اصلی سبب تو یہ ہے کہ اس شخص کا وقت آپہنچا تھا ‘ اسے اس کی قتل تک جانا تھا ‘ تقدیر اسے بلارہی تھی ‘ موت وحیات کے بارے میں سنت الٰہیہ نے اپنا کام شروع کردیا تھا ‘ تو وہ اس طرح حسرت واندوہ میں نہ ڈوبتے ۔ وہ اس ابتلا میں صبر و سکون سے رہتے ‘ وہ اس میں راضی برضا اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتے اور کہتے وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ……………” اور تمہاری تمام حرکات پر وہ نگراں ہے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کی طرح نہ ہوجاؤ جن کو جہاد میں جانا پسند نہیں بہت سے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خیر کا کام نہ خود کرتے ہیں نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں اور جو لوگ خیر کے کاموں میں لگیں ان کو طعنے دیتے ہیں۔ اور جو خیر انہیں نصیب ہو اسے نقصان سے تعبیر کرتے ہیں جو لوگ حب دنیا میں غرق ہوں انہیں دوسروں کے آخرت کے اعمال نہیں بھاتے۔ اللہ کے لیے جو ان کی جانی یا مالی قربانی ہو وہ انہیں اچھی نہیں لگتی۔ منافقین کا یہی حال تھا انہوں نے کہا کہ ہمارے بھائی (نسب میں ان کے بھائی ہوتے تھے اور منافقین ظاہری طور پر دینی بھائی بھی کہلاتے تھے) جو سفر میں گئے یا جہاد میں شریک ہوئے یہ اگر یہیں ہمارے پاس رہتے، سفر میں نہ جاتے، جہاد نہ کرتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے بظاہر ان کا یہ کہنا ہمدردی جتانے کے لیے تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ہمدردی خیر کے کاموں سے روکنے میں نہیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ ایسا کہنا ان کے قلوب میں حسرت کا سبب ہے پھر فرمایا کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے کوئی شخص کسی جگہ قیام کرنے سے قضائے الٰہی سے نہیں بچ سکتا وہ جہاں بھی ہوگا قضا اور قدر کے موافق اجل مسمی پر اس کو موت آ ہی جائے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

238 اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے منافقین مراد ہیں وھم المنافقون کعبداللہ بن ابی و اصحابہ (روح ص 99 ج 4) لِاِخْوَانِھِمْ میں لام بمعنی فِیْ ہے اور اخوان سے یہاں مذہبی بھائی مراد ہیں یعنی منافقین اور اگر اخوت سے نسبی اخوت مراد ہو تو اس میں وہ مخلص مومنین بھی شامل ہوں گے جو ان کے ہم نسب تھے۔ ای فی حق اخوانھم فی النسب او فی النفاق (مدارک ص 184 ج 1) اس آیت لَااِلیَ اللہِ تُحْشَرُوْنَ تک ایمان والوں کو خطاب ہے اور ان کو ان منافقین کی طرح ہونے سے روکا گیا ہے جن کا تقدیر پر بھی ایمان نہیں تھا اور وہ اپنے ان مذہبی بھائیوں (منافقوں، یا نسبی بھائیوں (مسلمانوں) کے حق میں جو کسی تجارتی یا دوسرے سفر میں مرگئے یا کسی غزوہ میں شہید ہوگئے یوں کہتے تھے کہ اگر یہ ہمارے بھائی سفر پر نہ جاتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوتے تو موت اور قتل سے بچ جاتے اور زندہ رہ کر خوب مزے کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب فرمایا کہ محی اور ممیت تو میں خود ہوں موت وحیات میرے اپنے قبضہ میں ہے اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہو گے تو وہاں بھی موت تمہیں اپنے معین وقت پر آکر دبوچ لے گی اس لیے اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ جس کو جہاں چاہے مارے اور پھر اللہ کی راہ میں اور پھر جہاد کرتے ہوئے مرجانا تو سراسر اللہ کی رحمت ومغفرت کا موجب ہے ان آیتوں میں خطاب مومنوں سے ہے لیکن اس کے ضمن میں منافقوں کو زجر بھی کیا گیا ہے۔ 239 لِیَجْعَلَ میں لام عاقبت کا ہے اور قَالُوْا سے متعلق ہے ای قالوا ذالک واعتقدوا لیکون ذالک حسرۃ فی قلوبھم (مدارک ص 148 ج 1) یعنی ان منافقوں نے مذکورہ بالا بات کہی کہ اگر وہ گھر رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے اور دل میں بھی یہ اعتقاد جمالیا کہ واقعی گھر میں رہنا موت اور قتل سے بچا سکتا ہے تو اس اعتقاد کا نتیجہ اور انجام یہ ہوگا کہ ان کے دلوں میں حسرت وافسوس اور ندامت و پیشمانی پیدا ہوگی اور اس سے ان کو سخت اذیت اور تکلیف پہنچے گی۔ والاشارۃ الی القول لکن باعتبار ما فیہ من الاعتقاد واللام لام العاقبۃ (روح ص 101 ج 4) اور اگر لام کا متعلق محذوف مانیں یعن القی اللہ ذالک الاعتقاد فی قلوبھم تو اس صورت میں لام عاقبت کا نہیں بلکہ تعلیلیہ ہوگا۔ 240 یہ منافقوں کے قول مذکور کا رد ہے اور موت وحیات اللہ کے اختیار میں ہے سفروحضرت کو اس میں کوئی دخل نہیں وہ جب چاہے مسافر اور مجاہد کو زندہ سلامت واپس لے آئے اور جب چاہے گھر میں بیٹھے بٹھائے اور جہاد میں شریک نہ ہونے والوں کو لقمہ اجل بنا دے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا اور ان لوگوں کی سی باتیں نہ کرنا جو کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں یعنی منافق ہیں اور اپنے بھائیوں کے متعلق جب وہ بھائی کہیں ملک میں سفر کو نکلیں یا وہ کسی غزوے میں غازی بن کر شریک ہوں اور اتفاقاً وہ مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو یوں کہتے ہیں کہ اگر یہ ہمارے بھائی ہمارے ہی پاس رہتے اور سفر میں یا جہاد میں نہ جاتے تو یہ لوگ نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے۔ یہ بات اس لئے کہتے ہیں اور اس کا انجام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں اس بات کو موجب حسرت بنا دے اور ان کے قلوب میں پشیمانی اور افسوس کا سبب کر دے۔ (تیسیر) غزی غازی کی جمع ہے مطلب یہ ہے کہ مسلمانو ! تم ان منافقوں کی طرح باتیں نہ کرنا جو ہر مرنے والے اور قتل کئے جانے اولے کے متعلق خواہ وہ کسی سفر میں مرجائیں یا مارے جائیں یا کسی غزوہ میں غازی بن کر اپنی موت سے مرجائیں یا شہید کردیئے جائیں یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ اگر یہ ہمارے بھائی یعنی مسلمان اگر ہمارے پاس رہتے اور مدینہ سے باہر نہ جاتے تو نہ مرتے نہ مارے جاتے جیسا کہ احد میں شہید ہونے اولے مسلمانوں کو کہہدیا کہ لوکان لنا من الامر شیئی ما قتلنا ھبنا مسلمانوں کو بھائی یا تو ہم وطن ہونے کی وجہ سے کہا یا نسب کے اعتبار سے کہ سب ایک ہی برادری کے تھے یا عقیدے کے اعتبار سے کہا ہو کیونکہ وہ اپنے کو بھی مسلمان ہی ظاہر کیا کرتے تھے بہرحال چونکہ یہ لوگ تقدیر الٰہی کے منکر ہیں اور اللہ تعالیٰ پر صحیح اعتقاد نہیں رکھتے اس لئے ایسی باتیں کہا کرتے ہیں کہیں تم اے مسلمانو ! ایسی باتیں کر کے ان منافقوں کی مانند نہ ہوجانا آگے اس غلط بات کا نتیجہ بیان کیا ہے کہ جس خیال کی بنا پر یہ بات ان کے منہ سے نکلتی ہے یہ غلط خیالی اور یہ غلط بیانی ان کے لئے اللہ تعالیٰ موجب حسرت و پشیمانی بنا دے کیونکہ تقدیر الٰہی کے منکروں کو ہر حادثہ پر یہی حسرت ہوتی ہے کہ ہاں اگر فلاں تدبیر اختیار کرتے تو شاید یہ کام ہوجاتا۔ چونکہ مرنے اور مارے جانے کا احتمال سفر میں بھی ہے اور جہاد میں بھی اس لئے ہم نے تسہیل میں چاروں باتیں عرض کردیں۔ اگرچہ عام طور پر سفر میں مرنے کا احتمال زیادہ ہے اور مارے جانے کا کم ہے جس طرح جہاد میں مارے جانے کا احتمال زیادہ ہے اور اپنی موت سے مرنے کا احتمال کم ہے۔ بعض حضرات نے لیجعل اللہ کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ منافقوں کے اس کہنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتوں سے ان مسلمانوں کے قلب میں حسرت و پشیمانی پیدا کر دے کہ یہ لوگ کہتے تو سچ ہیں واقعی اگر ہم مدینہ میں رہتے تو محفوظ رہتے مگر یہ معنی ذرا بعید ہیں اس لئے ہم نے لام کو لام عاقبت قرار دے کر ترجمہ کیا ہے۔ لیکون لھم عدوا و حزنا کا لام لام عاقبت ہے۔ (واللہ اعلم) اب آگے منافقوں کی اس بات کا جواب ہے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)