Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 157

سورة آل عمران

وَ لَئِنۡ قُتِلۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوۡ مُتُّمۡ لَمَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَحۡمَۃٌ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾

And if you are killed in the cause of Allah or die - then forgiveness from Allah and mercy are better than whatever they accumulate [in this world].

قسم ہے اگر اللہ تعالٰی کی راہ میں شہید کئے جاؤ یا اپنی موت مرو تو بیشک اللہ تعالٰی کی بخشش ورحمت اس سے بہتر ہے جسے یہ جمع کر رہے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And if you are killed or die in the way of Allah, forgiveness and mercy from Allah are far better than all that they amass. indicating that death and martyrdom in Allah's cause are a means of earning Allah's mercy, forgiveness and pleasure. This, indeed, is better than remaining in this life with its short lived delights. Furthermore, whoever dies or is killed will return to Allah... , the Exalted and Most Honored, and He will reward him if he has done good deeds, or will punish him for his evil deeds. Allah said, وَلَيِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لاِلَى الله تُحْشَرُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

157۔ 1 موت تو ہر صورت آنی ہے لیکن اگر موت ایسی آئے کہ جس کے بعد انسان اللہ کی مغفرت و رحمت کا مستحق قرار پائے تو یہ دنیا کے مال اسباب سے بہت بہتر ہے جس کے جمع کرنے میں انسان عمر کھپا دیتا ہے اس لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے گریز نہیں، اس میں رغبت اور شوق ہونا چاہیے کہ اس طرح رحمت و مغفرت الٰہی یق... ینی ہوجاتی ہے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ ہو۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٢] اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا خود مرجائے یعنی اسے گھر پر طبعی موت آئے دونوں صورتوں میں اللہ کے حضور ہی پیش ہونا ہے۔ اب منافق یا کافر کی زندگی یا تادیر زندہ رہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دنیوی مفادات اور مال و دولت جمع کرسکے۔ اس کے برعکس مومن کو دونوں صورتوں میں جو ال... لہ کی مغفرت اور رحمت میسر ہوگی وہ اس مال و دولت سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ جسے یہ لوگ دن رات جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنی آخرت کی فکر سے یکسر غافل ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی اگر تمہارا مرنا یا قتل ہونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے تو یہ یقیناً تمہارے لیے مغفرت اور رحمت کا سبب بنے گا اور یہ مغفرت و رحمت اس مال و متاع سے بہتر ہے جس کے جمع کرنے کی فکر میں یہ کفار اور منافقین ہر آن لگے رہتے ہیں، یہ ان کے شبہ کا دوسرا جواب ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ قُتِلْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَحْمَۃٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۝ ١٥٧ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل ع... مران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٧) اے گروہ منافیقن اگر تم اپنے گھروں میں ہی میں ایمان قبول کرکے مرتے تو یہ چیز تمہارے گناہوں کی مغفرت اور رحمت خداوندی کا باعث ہوجاتی ؟ اور تمہارے دنیاوی اموال سے بہتر ہوتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٧ ( وَلَءِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ مُتُّمْ ) (لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ) اگر دنیا میں دس پندرہ سال اور جی لیتے تو کیا کچھ جمع کرلیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں شہادت کی موت دے دی ‘ تمہارے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:157) متم۔ ماضی معروف جمع مذکر حاضر۔ موت مصدر۔ باب نصر۔ یا اگر تم مرجاؤ۔ ماضی بمعنی مضارع۔ اصل میں نصرتم کے وزن پر متتم تھا۔ پہلی ہر دو تاکو تاء ثالث میں مدغم کیا متم ہوگیا۔ مصدر میں واؤ کی رعائیت سے میم کو ضمہ دیا گیا متم ہوگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس میں ان کے شبہ کا اصل جواب ہے کہ موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے پس جنگ یا سفر سے گریز کرنا موت سے نہیں بچا سکتا8 یعنی اگر تمہارا مرنا یا قتل ج ہونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے تو یہ یقینا تمہارے لیے مغفرت اور حمت کا سبب بنے اور یہ مغفرت و رحمت اس مال ومتاع سے بہتر ہے جس کے جمع کرنے...  کی فکر میں یہ کفار اور منافقین ہر آن لگے رہتے ہیں یہ ان کی شبہ کا دوسرا جواب ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق قتل ہوں یا طبعی موت مریں ان کے لیے حسرتیں ہیں مسلمان شہید ہوں یا فطری موت مریں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دنیا کی کوئی دولت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہاں تجزیاتی انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص جو اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے میدا... ن کار زار میں اترتا ہے اور شہید ہوجاتا ہے یا اسے اللہ تعالیٰ کی سمع و اطاعت میں طبعی موت آجاتی ہے اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی زندگی کی فرو گزاشتوں کو اپنے کرم سے معاف فرمائیں گے اور اس کے اعمال سے کہیں بڑھ کر اپنی رحمت سے نوازیں گے۔ یہ اجر وثواب دنیا کی دولت و ثروت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس کو لوگ زندگی بھر جمع کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مومن کو جب موت آتی ہے تو ملائکہ اس کا استقبال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی مہمان نوازی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں جو لوگ بدکردار اور اللہ کے نافرمان ہوتے ہیں۔ وہ بری موت مرتے ہیں اور ان کا انجام جہنم ہوگا۔ یہاں کفار کی حسرتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم دنیا میں کتنی مدت ٹھہرے رہو گے ؟ اگر تم قتل ہوجاؤ یا تمہیں طبعی موت آئے بالآخر تم نے اللہ کے حضور ہی جمع ہونا ہے۔ پھر موت سے فرار اور ان حرکتوں کا کیا فائدہ ؟ ذرا سوچیے کہ کتنا فرق ہے ایک اللہ کے حضور عزت و تکریم کے ساتھ مہمان کی حیثیت سے حاضر ہے اور اسے دائمی آرام و انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ دوسرا رو سیاہ ‘ ذلیل و خوار اور مجرم بن کر پیش ہو رہا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینکا جا رہا ہیلہٰذا سوچو دنیا بہتر ہے یا آخرت۔ مسائل ١۔ اللہ کا فرمانبردار اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والا بخشا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا کے مال و متاع سے بےانتہا گنا بہتر ہے۔ ٣۔ کوئی طبعی موت مرے یا قتل ہوجائے سب کو اللہ کے ہاں جمع ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی رحمت و بخشش دنیا کے خزانوں سے بہتر : ١۔ اللہ کا فضل ورحمت دنیا کے مال ومتاع سے بہتر ہے۔ (یونس : ٥٨) ٢۔ اللہ کی رحمت دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔ (الزخرف : ٣٢) ٣۔ حکمت و بصیرت خیر کثیر ہے۔ (البقرۃ : ٢٦٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ایک دوسری حقیقت پر غور ہوتا ہے ۔ موت اور قتل سے کیا زندگی ختم ہوجاتی ہے ‘ کیا زندگی اس انعام سے بہتر ہے جو اللہ دے گا ؟ نہیں ۔ کچھ اور اقدار حیات بھی تو ہیں ۔ کچھ پہلو بھی ہیں جو اللہ کے ترازو میں قابل غور ہیں : وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَح... ْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (١٥٧) وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ ” اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤیا مرجاؤ تو اللہ کی رحمت اور بخشش جو تمہارے حصے میں آئے گی وہ ان ساری چیزوں سے زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں اور خواہ تم مرو یامارے جاؤ۔ بہرحال تم سب کو سمٹ کر جانا اللہ ہی کی طرف ہے ۔ “ غرض اللہ کی راہ میں موت اور قتل ہونا ‘ ان شرائط وقیود کے ساتھ ‘ زندگی سے بدرجہا بہتر ہے ۔ ان تمام دنیوی مفادات اور مال و منال سے بہتر ہے جسے رات دن لوگ جمع کررہے ہیں ۔ اس عزت واحترام سے بہتر ہے جس کے لئے لوگ کوشاں ہیں ۔ یہ موت اس لئے بہتر ہے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کی رحمت اور مغفرت نصیب ہوتی ہے ۔ اللہ کے میزان حقیقت نما میں یہ بہتر ہے ‘ ان تمام چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔ یہ مغفرت اور یہ رحمت ہی مطلوب مومن ہوتی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ موت وحیات کے اس مقام میں لوگوں کو شخصی برتری اور انسانی مقاصد اور سربلندیوں کے حوالے نہیں کرتے ‘ بلکہ انہیں وہ کچھ دکھایا جاتا ہے جو اللہ کے ہاں ہے ‘ ان کے دلوں کو رحمت خداوندی سے جوڑا جاتا ہے ، اور رحمت خداوندی کو یونہی دنیا مال ومنال سے زیادہ خیر اور قیمتی قرار دیا جاتا ہے ۔ دنیا کے تمام ممکنہ مقاصد سے ‘ اسے برتر اور قیمتی قراردیا جاتا ہے ۔ سب لوگ لوٹ کر اللہ کی طرف جائیں گے ‘ سب لوگ حشر کے دن اٹھاکر اس کے سامنے حاضر کئے جائیں گے ۔ چاہے وہ اپنے بستر پر مریں ‘ چاہے وہ کرہ ارض پر کسی تجارتی سفر میں مریں اور چاہے وہ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران شہید ہوں۔ جانا انہوں نے بہرحال اللہ کی طرف ہے ۔ انجام کار انہوں نے وہاں حاضر ہونا ہے ۔ فرق اگر کوئی ہے تو وہ صرف لوگوں کے نقطہ نظر ‘ ان کے مطمح نظر اور طرزعمل میں ہے ۔ رہا واقعی عملی انجام تو اس میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ ایک مقررہ وقت میں ‘ ایک مقررہ مقام پر ‘ تحریر شدہ تقدیر کے مطابق جو اٹل ہے ‘ ہر شخص کی موت واقع ہوگی ۔ یوں وہ اللہ کی طرف لوٹ جائے گا ‘ اور پھر ایک مقرر وقت قیامت میں وہ حشر کے میدان میں اٹھے گا ۔ وہاں یا وہ اللہ کی رحمت اور مغفرت پانے والوں میں ہوگا یا وہ غضب الٰہی اور عذاب الٰہی کے چنگل میں جائے گا۔ اس لئے وہ شخص احمق الحمقاء ہے ‘ جو اپنے لئے برا انجام پسند کرتا ہے ‘ جبکہ اسے ہر حال میں مرنا تو ہے ۔ یوں دلوں میں حقیقت موت وحیات بیٹھ جاتی ہے ۔ اللہ کی تقدیر کا درس دیا جاتا ہے اور یوں قلوب مومنہ تقدیر کے رواں دواں واقعات کو دیکھتے ہوئے مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ تقدیر کے پردے کے پیچھے جو حکمت کارفرماہوتی ہے اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ ابتلا میں جو ثواب آخرت ہے اسے پسند کرتے ہیں ۔ اس پر غزوہ احد کے اہم واقعات یہاں ختم ہوجاتے ہیں اور ان کی جو متعلقہ باتیں تھیں ان پر کلام ختم ہوجاتا ہے۔ اب سیاق کلام ایک نئے مضمون کو جنم لیتا ہے ۔ اس مضمون کا موضوع قائد انقلاب کی شخصیت ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی صفات کے بارے میں ‘ حقیقت نبوت کے بارے میں اور امت مسلمہ کی زندگی ذات نبوی اور حقیقت نبوت کے اہم کردار کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ اس امت کے ساتھ کس قدر رحیم وکریم ہیں۔ اس موضوع کے ساتھ کچھ اور تاریں بھی ملی ہوئی ہیں کہ جماعت مسلمہ کی تنظیم کے سلسلے میں ربانی طریق کار کیا ہے۔ اور یہ کہ اس تنظیم کی اساس کیا ہے ۔ یعنی کن نظریات پر اسے قائم کیا گیا ہے اور کن حقائق پر وہ استوار ہے ۔ نیز اس تصور حیات کی اہمیت کیا ہے اور تنظیم کے لئے اس ربانی منہاج کی اہمیت کیا ہے اور پھر اس منہاج کا اثر پوری انسانیت پر کیا ہوگا ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت دنیاوی سامان سے بہتر ہے : پھر فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں اگر قتل ہوگئے یا اللہ کی راہ میں مرگئے تو یہ کوئی نقصان کا سودا نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا سبب ہے اور اللہ کی مغفرت اور رحمت اس سے بہتر ہے جو کچھ ایسی باتیں کرنے والے جمع کرتے ہیں۔ دن... یا کے لالچی دنیا ہی کے لیے سوچتے ہیں اور اسی دنیا کو دوسروں کے لیے پسند کرنے کی وجہ سے انہوں نے یہ بات کہی کہ یہ لوگ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ مزید زندگی پالیتے کچھ پیسہ اور کما لیتے اور یہ پیسہ اللہ کی مغفرت اور رحمت کے سامنے کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم مرگئے یا مقتول ہوگئے تو اللہ کی بار گاہ میں ضرور جمع کیے جاؤ گے، مرنا اور بار گاہ خداوندی میں پیش ہونا ہر ایک کے لیے ضروری ہے پھر اللہ کی راہ میں کیوں نہ مریں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

241 لَئِنْ قَتَلْتُمْ کی جزا محذوف ہے۔ یعنی فلا تحزنوا۔ اور مَغْفِرۃ ةٌالخ جزاء محذوف کی علت ہے اور یَجْمَعُوْنَ کی ضمیر اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا کی طرف راجع ہے کفار اور منافقین چونکہ دنیا کے بندے تھے ان کی ساری دوڑ دھوپ بس صرف دنیوی فوائد کے لیے تھے اور ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کی عمریں بہت ... لمبی ہوں اور وہ دنیا میں رہ کر خوب مزے کریں۔ سفر میں مرنے والوں اور اللہ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کے بارے میں ان کا مذکورہ قول جہاں ان کے باطنی خیالات اور قلبی رجحانات کو طشت ازبام کرتا ہے وہاں اس سے یہ بھی ممکن تھا کہ کہیں مسلمانوں کے دلوں میں کم ہمتی یا جہاد سے جی چرانے کا وسوسہ پیدا ہوجائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب فرمائی اور اللہ کی راہ میں ان کو جو تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں ان کے بارے میں ان کی تسلی اور تشفی فرمادی۔ وفیہ ترغیب المؤمنین فی الجھاد۔ وتعزیۃ لھم وتسلیۃ فما اصابھم فی سبیل اللہ تعالیٰ اثر ابطال ما عسی ان یثبطھم عن اعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ (روح ص 104 ج 4) یعنی اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مارا جائے یا کسی اور دینی کام میں موت طبعی سے مرجائے تو غم کرنے کی ضرورت سے نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت ومغفرت ان نفسانی خطوط اور دنیوی منافع سے کہیں بہتر ہے جن کو حاصل کرنے میں یہ کفار اور منافقین دن رات مصروف ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi