In the first verse (16o) here, the recurring sense of grief that gripped the noble Companions after what happened at the battle of Uhud is being removed through elegant counsel. Verses 161-164 declare that the station of Allah&s messenger is free of failings, that he exhibits the highest standard of trustworthiness, and that the very presence of his on the face of the earth is a great blessing and a favour shown to the people of the world. Verses 165-167 explain the reason why Muslims faced hardships at Uhud, while refuting the view of the hypocrites alongwith it in verse 168. Towards the end, in verses 169-171, it has been said that those who lay down their lives in the way of Allah achieve the ultimate success, real, permanent and full. Details follow.
ربط آیات : واقعہ احد میں عارضی شکست اور مسلمانوں کی پریشانی پر حضرات صحابہ کرام کی تسلی کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چند امور کا حکم ہوا تھا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضی کا خطرہ تو زائل ہوگیا، لیکن ان حضرات کو اس واقعہ مغلوبیت سے حسرت بھی تھی، اس لئے متذکرہ بالا بارہ آیات میں سے پہلی آیت میں ان کی حسرت مغلوبیت کو دل سے اتارتے ہیں، نیز بدر کے روز مال غنیمت میں ایک چادر گم ہوگئی، بعض (کم سمجھ یا منافق) لوگوں نے کہا کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لی ہو اور یہ امر حقیقتا ہو یا صورة خیانت ہے، نبی کی شان اس سے منزہ ہے لہٰذا دوسری تیسری اور چوتھی آیات کے اندر جناب رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم الشان صفت امانت اور اس خیال کی غلطی کو بیان کر کے پانچویں آیت کے اندر خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود باجود کا نعمت عظمی ہونا اور آپ کی بعثت کا انسانیت کے لئے احسان عظیم ہونا واضح فرمایا گیا ہے۔ چونکہ مؤمنین کو اس شکست کی سخت کلفت تھی کہ باوجود مسلمان ہونے کے یہ مصیبت کیوں اور کدھر سے آگئی، اس پر صحابہ کرام کو تعجب اور افسوس تھا، نیز منافقین کہا کرتے تھے کہ اگر یہ لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے تو ہلاک نہ ہوتے اور ان شہداء کی موت کو بدنصیبی اور محرومی قرار دیتے تھے، اس لئے چھٹی، ساتویں اور آٹھویں آیات کے اندر دوسرے عنوان سے اس عارضی مصیبت و تکلف کی علت و حکمت واضح فرمائی گئی اور اس کے ضمن میں منفاقین کی تردید بھی۔ اور نویں آیت میں ان کے غلط عقیدہ کہ گھروں میں بیٹھے رہنا ہلاکت سے نجات کا سبب ہے تردید کی گی اور دسویں، گیارہویں اور بارہویں آیات میں حضرات شہداء کرام کی اعلی درجہ کی کامیابی اور حیات حقیقیہ اور دائمی نعمتوں کا اثبات فرما دیا گیا ہے۔ خلاصہ تفسیر اگر حق تعالیٰ تمہارا ساتھ دیں تب تو تم سے کوئی نہیں جیت سکتا اور اگر تمہارا ساتھ نہ دیں تو اس کے بعد ایسا کون ہے جو تمہارا ساتھ دے اور (اور تم کو غالب کر دے) اور صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان والوں کو اعتماد رکھنا چاہیے اور نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ (نعوذ باللہ) خیانت کرے حالانکہ (خائن کی تو قیامت میں رسوائی اور فضیحت ہوگی، کیونکہ) جو شخص خیانت کرے گا وہ شخص اپنی اس خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن (میدان حشر میں) حاضر کرے گا (تاکہ سب خلائق مطلع ہوں اور سب کے روبرو فضیحت اور رسوائی ہو) پھر (میدان قیامت کے بعد) ہر شخص کو (ان خائنوں میں سے) اس کے کئے کا (دوزخ میں) پورا عوض ملے گا اور ان پر بالکل ظلم نہ ہوگا (کہ جرم سے زائد سزا ہونے لگے، غرض خائن تو مغضوب اور مستحق جہنم ہوا اور انبیاء (علیہم السلام) بوجہ رضا جوئی حق کے قیامت میں سربلند ہوں گے پس دونوں امر جمع نہیں ہو سکتے، جیسا آگے ارشاد ہے) سو ایسا شخص جو رضائے حق کا تابع ہو (جیسے نبی) کیا وہ اس شخص کے مثل ہوجائے گا جو کہ غضب الٰہی کا مستحق ہو اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہو، (جیسے خائن) اور وہ جانے کی بری جگہ ہے (ہرگز دونوں برابر نہیں ہوں گے بلکہ) یہ مذکورین (یعنی متبعان رضائے حق اور مغضوبین) درجات میں مختلف ہوں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک (کہ متبع محبوب جنتی ہے اور مغضوب دوزخی ہے) اور اللہ تعالیٰ خوب دیکھتے ہیں ان کے اعمال کو (اس لئے ہر ایک کے مناسب معاملہ فرما دیں گے) حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر (بڑا) احسان کیا، جب کہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے (عظیم الشان) پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں (اور احکام) پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور (ظاہری اور باطنی گندگیوں سے) ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں اور ان کو کتاب (الٰہی) اور سمجھ کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ (آپ کی بعثت کے) قبل سے صریح غلطی (یعنی شرک و کفر) میں (مبتلا) تھے اور جب (احد میں) تمہاری ایسی ہار ہوئی جس سے دوگنا تم (بدر میں) جیت چکے تھے (کیونکہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور بدر میں ستر کافروں کو قید اور ستر کو قتل کیا تھا) تو کیا ایسے وقت میں تم (بطور اعتراض نہ سہی بطور تعجب کے) یوں کہتے ہو کہ (باوجود ہمارے مسلمان ہونے کے) یہ (ہار) کدھر سے ہوئی (یعنی کیوں ہوئی) آپ فرما دیجئے کہ یہ ہار تمہاری طرف سے ہوئی (اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے خلاف نہ کرتے تو نہ ہارتے، کیونکہ اس قید کے ساتھ وعدہ نصرت ہوچکا تھا) بیشک اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے (جب تم نے اطاعت کی اپنی قدرت سے تم کو غالب کردیا اور جب خلاف کیا اپنی قدرت سے تم کو مغلوب کردیا) اور جو مصیبت تم پر پڑی جس روز کہ دونوں گروہ (مسلمانوں اور کفار کے) باہم (مقاتلہ کے لئے) مقابل ہوئے۔ (یعنی احد کے دن) سو (وہ مصیبت) اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی (کیونکہ چند در چند حکمتیں تھیں جن کا بیان اوپر بھی آ چکا ہے) اور (ان میں سے ایک حکمت یہ ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کو بھی دیکھ لیں (کیونکہ مصیبت کے وقت اخلاص و غیر اخلاص ظاہر ہوجاتا ہے جیسا گذر بھی چکا ہے) اور ان لوگوں کو بھی دیکھ لیں جنہوں نے نفاق کا برتاؤ کیا اور ان سے (شروع جنگ کے وقت جبکہ تین سو آدمیوں نے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا جیسا کہ پہلے آ چکا ہے) یوں کہا گیا کہ (میدان جنگ میں) آؤ (پھر ہمت ہو تو) اللہ کی راہ میں لڑنا یا (ہمت نہ ہو تو گنتی ہی بڑھا کر) دشمنوں کی مدافعت کرنا (کیونکہ بہت سی بھیڑ دیکھ کر کچھ تو ان پر رعب ہوگا اور اس سے شاید ہٹ جاویں) وہ بولے کہ اگر ہم ڈھنگ کی لڑائی دیکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ ہو لیتے (لیکن یہ کوئی لڑائی ہے کہ وہ لوگ تم سے تین چار گنے زیادہ پھر ان کے پاس سامان بھی زیادہ ایسی حالت میں لڑنا ہلاکت میں پڑنا ہے، لڑائی اس کو نہیں کہتے حق تعالیٰ اس پر ارشاد فرماتے ہیں کہ) یہ منافقین اس روز (جبکہ ایسا خشک جواب دیا تھا) کفر سے (ظاہراً بھی) نزدیک تر ہوگئے، بہ نسبت اس حالت کے کہ وہ (پہلے سے ظاہراً ) ایمان سے (کسی قدر) نزدیک تھے (کیونکہ پہلے سے گو وہ دل سے مومن نہ تھے مگر مسلمانوں کے سامنے موافقت کی باتیں بناتے رہتے تھے، اس روز ایسی طوطا چشمی غالب ہوئی کہ کھلم کھلا مخالفت کی باتیں منہ سے نکلنے لگیں، اس لئے پہلے سے جو ظاہری قرب ایمان کے ساتھ تھا وہ کفر کے قرب میں تبدیل ہوگیا اور یہ قرب اس قرب سے زیادہ اس لئے ہے کہ موافقت کی باتیں دل سے نہ تھیں، اس لئے زور دار نہ تھیں اور یہ مخالفت کی باتیں دل سے تھیں اس لئے عبارت بھی زور دار تھی) یہ لوگ اپنے منہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں (یعنی دل میں تو یہ ہے کہ ان مسلمانوں کا کبھی ساتھ نہ دیں گو لڑائی ڈھنگ ہی کی کیوں نہ ہو) اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ اپنے دل میں رکھتے ہیں (اس لئے ان کے اس قول کا غلط ہونا اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے) یہ ایسے لوگ ہیں کہ (ود تو جہاد میں شریک نہ ہوئے اور) اپنے (٢ م نسب) بھائیوں کی نسبت (جو کہ مقتول ہوگئے، گھروں میں) بیٹھے ہوئے باتیں بناتے ہیں کہ اگر ہمارا کہنا مانتے (یعنی ہمارے منع کرنے پر نہ جاتے) تو (بےفائدہ) قتل نہ کئے جاتے، آپ فرما دیجئے کہ اچھا تو اپنے اوپر سے موت کو ہٹاؤ اگر تم (اس خیال میں) سچے ہو (کہ میدان میں جانے سے ہی ہلاکت ہوتی ہو، کیونکہ قتل سے بچنا تو موت ہی سے بچنے کے لئے مقصود ہے جب وقت مقرر پر موت گھر بیٹھے بھی آجاتی ہے تو قتل بھی وقت مقرر پر نہیں ٹل سکتا) اور (اے مخاطب) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں (یعنی دین کے واسطے) قتل کئے گئے ان کو (اور مردوں کی طرح) مردہ مت خیال کر بلکہ وہ لوگ (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں (اور) اپنے پروردگار کے مقرب (یعنی مقبول ہیں) ان کو رزق بھی ملتا ہے (اور) وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم) سے عطا فرمائی (مثلاً درجات قرب وغیرہ یعنی رزق ظاہری بھی ملتا ہے اور رزق معنوی یعنی مسرت بھی) اور (جس طرح وہ اپنے حال پر خوش ہیں اس طرح) جو لوگ (ابھی دنیا میں زندہ (شہداء) خوش ہوتے ہیں کہ (اگر وہ بھی شہید ہوجاویں تو ہماری طرح) ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ (کسی طرح) مغموم ہوں گے (غرض ان کو دو خوشیاں کا سبب یہ بتلایا کہ) وہ (اپنی حالت پر تو) خوش ہوتے ہیں بوجہ نعمت و فضل خداوندی کے (جس کا انہوں نے مشاہدہ کرلیا) اور (دوسروں کی حالت پر خوش ہوتے ہیں) اس وجہ سے کہ جو لوگ ان کے متعلقین پیچھے رہ گئے ہیں اور نیک اعمال جہاد وغیرہ میں لگے ہیں ان کو بھی ایسے ہی انعامات ملیں گے۔ )