Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 160

سورة آل عمران

اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۶۰﴾

If Allah should aid you, no one can overcome you; but if He should forsake you, who is there that can aid you after Him? And upon Allah let the believers rely.

اگر اللہ تعالٰی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ایمان والوں کو اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ... If Allah helps you, none can overcome you; and if He forsakes you, who is there after Him that can help you! is similar to His statement that we mentioned earlier. وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ And there is no victory except from Allah the Almighty, the All-Wise. (3:126) Allah next commands the believers to trust in Him, ... وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكِّلِ الْمُوْمِنُونَ And in Allah (Alone) let believers put their trust. Treachery with the Spoils of War was not a Trait of the Prophet Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٥] جیسا کہ میدان بدر میں اللہ نے مسلمانوں کی کئی طرح سے مدد فرمائی تھی۔ اسی طرح آج احد میں بھی تمہاری مدد کرکے تمہیں غالب کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ تم اللہ کے فرمانبردار بن کر رہو اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے دل و جان سے کوشش کرو۔ [١٥٦] جیسا کہ غزوہ احد میں کچھ وقت کے لیے ہوا، اور جس کی وجہ اللہ کے رسول کی نافرمانی تھی۔ اس آیت میں بتلایا یہ جارہا ہے کہ بھروسہ تو صرف اس پر کیا جاسکتا ہے جو سب سے زیادہ طاقتور اور سب اسباب پر غالب اور حاکم ہو اور ایسی ذات چونکہ صرف ایک اللہ ہی کی ہے، لہذا وہی بھروسہ کے قابل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the first verse (16o) here, the recurring sense of grief that gripped the noble Companions after what happened at the battle of Uhud is being removed through elegant counsel. Verses 161-164 declare that the station of Allah&s messenger is free of failings, that he exhibits the highest standard of trustworthiness, and that the very presence of his on the face of the earth is a great blessing and a favour shown to the people of the world. Verses 165-167 explain the reason why Muslims faced hardships at Uhud, while refuting the view of the hypocrites alongwith it in verse 168. Towards the end, in verses 169-171, it has been said that those who lay down their lives in the way of Allah achieve the ultimate success, real, permanent and full. Details follow.

ربط آیات : واقعہ احد میں عارضی شکست اور مسلمانوں کی پریشانی پر حضرات صحابہ کرام کی تسلی کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چند امور کا حکم ہوا تھا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضی کا خطرہ تو زائل ہوگیا، لیکن ان حضرات کو اس واقعہ مغلوبیت سے حسرت بھی تھی، اس لئے متذکرہ بالا بارہ آیات میں سے پہلی آیت میں ان کی حسرت مغلوبیت کو دل سے اتارتے ہیں، نیز بدر کے روز مال غنیمت میں ایک چادر گم ہوگئی، بعض (کم سمجھ یا منافق) لوگوں نے کہا کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لی ہو اور یہ امر حقیقتا ہو یا صورة خیانت ہے، نبی کی شان اس سے منزہ ہے لہٰذا دوسری تیسری اور چوتھی آیات کے اندر جناب رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم الشان صفت امانت اور اس خیال کی غلطی کو بیان کر کے پانچویں آیت کے اندر خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود باجود کا نعمت عظمی ہونا اور آپ کی بعثت کا انسانیت کے لئے احسان عظیم ہونا واضح فرمایا گیا ہے۔ چونکہ مؤمنین کو اس شکست کی سخت کلفت تھی کہ باوجود مسلمان ہونے کے یہ مصیبت کیوں اور کدھر سے آگئی، اس پر صحابہ کرام کو تعجب اور افسوس تھا، نیز منافقین کہا کرتے تھے کہ اگر یہ لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے تو ہلاک نہ ہوتے اور ان شہداء کی موت کو بدنصیبی اور محرومی قرار دیتے تھے، اس لئے چھٹی، ساتویں اور آٹھویں آیات کے اندر دوسرے عنوان سے اس عارضی مصیبت و تکلف کی علت و حکمت واضح فرمائی گئی اور اس کے ضمن میں منفاقین کی تردید بھی۔ اور نویں آیت میں ان کے غلط عقیدہ کہ گھروں میں بیٹھے رہنا ہلاکت سے نجات کا سبب ہے تردید کی گی اور دسویں، گیارہویں اور بارہویں آیات میں حضرات شہداء کرام کی اعلی درجہ کی کامیابی اور حیات حقیقیہ اور دائمی نعمتوں کا اثبات فرما دیا گیا ہے۔ خلاصہ تفسیر اگر حق تعالیٰ تمہارا ساتھ دیں تب تو تم سے کوئی نہیں جیت سکتا اور اگر تمہارا ساتھ نہ دیں تو اس کے بعد ایسا کون ہے جو تمہارا ساتھ دے اور (اور تم کو غالب کر دے) اور صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان والوں کو اعتماد رکھنا چاہیے اور نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ (نعوذ باللہ) خیانت کرے حالانکہ (خائن کی تو قیامت میں رسوائی اور فضیحت ہوگی، کیونکہ) جو شخص خیانت کرے گا وہ شخص اپنی اس خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن (میدان حشر میں) حاضر کرے گا (تاکہ سب خلائق مطلع ہوں اور سب کے روبرو فضیحت اور رسوائی ہو) پھر (میدان قیامت کے بعد) ہر شخص کو (ان خائنوں میں سے) اس کے کئے کا (دوزخ میں) پورا عوض ملے گا اور ان پر بالکل ظلم نہ ہوگا (کہ جرم سے زائد سزا ہونے لگے، غرض خائن تو مغضوب اور مستحق جہنم ہوا اور انبیاء (علیہم السلام) بوجہ رضا جوئی حق کے قیامت میں سربلند ہوں گے پس دونوں امر جمع نہیں ہو سکتے، جیسا آگے ارشاد ہے) سو ایسا شخص جو رضائے حق کا تابع ہو (جیسے نبی) کیا وہ اس شخص کے مثل ہوجائے گا جو کہ غضب الٰہی کا مستحق ہو اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہو، (جیسے خائن) اور وہ جانے کی بری جگہ ہے (ہرگز دونوں برابر نہیں ہوں گے بلکہ) یہ مذکورین (یعنی متبعان رضائے حق اور مغضوبین) درجات میں مختلف ہوں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک (کہ متبع محبوب جنتی ہے اور مغضوب دوزخی ہے) اور اللہ تعالیٰ خوب دیکھتے ہیں ان کے اعمال کو (اس لئے ہر ایک کے مناسب معاملہ فرما دیں گے) حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر (بڑا) احسان کیا، جب کہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے (عظیم الشان) پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں (اور احکام) پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور (ظاہری اور باطنی گندگیوں سے) ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں اور ان کو کتاب (الٰہی) اور سمجھ کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ (آپ کی بعثت کے) قبل سے صریح غلطی (یعنی شرک و کفر) میں (مبتلا) تھے اور جب (احد میں) تمہاری ایسی ہار ہوئی جس سے دوگنا تم (بدر میں) جیت چکے تھے (کیونکہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور بدر میں ستر کافروں کو قید اور ستر کو قتل کیا تھا) تو کیا ایسے وقت میں تم (بطور اعتراض نہ سہی بطور تعجب کے) یوں کہتے ہو کہ (باوجود ہمارے مسلمان ہونے کے) یہ (ہار) کدھر سے ہوئی (یعنی کیوں ہوئی) آپ فرما دیجئے کہ یہ ہار تمہاری طرف سے ہوئی (اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے خلاف نہ کرتے تو نہ ہارتے، کیونکہ اس قید کے ساتھ وعدہ نصرت ہوچکا تھا) بیشک اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے (جب تم نے اطاعت کی اپنی قدرت سے تم کو غالب کردیا اور جب خلاف کیا اپنی قدرت سے تم کو مغلوب کردیا) اور جو مصیبت تم پر پڑی جس روز کہ دونوں گروہ (مسلمانوں اور کفار کے) باہم (مقاتلہ کے لئے) مقابل ہوئے۔ (یعنی احد کے دن) سو (وہ مصیبت) اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی (کیونکہ چند در چند حکمتیں تھیں جن کا بیان اوپر بھی آ چکا ہے) اور (ان میں سے ایک حکمت یہ ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کو بھی دیکھ لیں (کیونکہ مصیبت کے وقت اخلاص و غیر اخلاص ظاہر ہوجاتا ہے جیسا گذر بھی چکا ہے) اور ان لوگوں کو بھی دیکھ لیں جنہوں نے نفاق کا برتاؤ کیا اور ان سے (شروع جنگ کے وقت جبکہ تین سو آدمیوں نے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا جیسا کہ پہلے آ چکا ہے) یوں کہا گیا کہ (میدان جنگ میں) آؤ (پھر ہمت ہو تو) اللہ کی راہ میں لڑنا یا (ہمت نہ ہو تو گنتی ہی بڑھا کر) دشمنوں کی مدافعت کرنا (کیونکہ بہت سی بھیڑ دیکھ کر کچھ تو ان پر رعب ہوگا اور اس سے شاید ہٹ جاویں) وہ بولے کہ اگر ہم ڈھنگ کی لڑائی دیکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ ہو لیتے (لیکن یہ کوئی لڑائی ہے کہ وہ لوگ تم سے تین چار گنے زیادہ پھر ان کے پاس سامان بھی زیادہ ایسی حالت میں لڑنا ہلاکت میں پڑنا ہے، لڑائی اس کو نہیں کہتے حق تعالیٰ اس پر ارشاد فرماتے ہیں کہ) یہ منافقین اس روز (جبکہ ایسا خشک جواب دیا تھا) کفر سے (ظاہراً بھی) نزدیک تر ہوگئے، بہ نسبت اس حالت کے کہ وہ (پہلے سے ظاہراً ) ایمان سے (کسی قدر) نزدیک تھے (کیونکہ پہلے سے گو وہ دل سے مومن نہ تھے مگر مسلمانوں کے سامنے موافقت کی باتیں بناتے رہتے تھے، اس روز ایسی طوطا چشمی غالب ہوئی کہ کھلم کھلا مخالفت کی باتیں منہ سے نکلنے لگیں، اس لئے پہلے سے جو ظاہری قرب ایمان کے ساتھ تھا وہ کفر کے قرب میں تبدیل ہوگیا اور یہ قرب اس قرب سے زیادہ اس لئے ہے کہ موافقت کی باتیں دل سے نہ تھیں، اس لئے زور دار نہ تھیں اور یہ مخالفت کی باتیں دل سے تھیں اس لئے عبارت بھی زور دار تھی) یہ لوگ اپنے منہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں (یعنی دل میں تو یہ ہے کہ ان مسلمانوں کا کبھی ساتھ نہ دیں گو لڑائی ڈھنگ ہی کی کیوں نہ ہو) اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ اپنے دل میں رکھتے ہیں (اس لئے ان کے اس قول کا غلط ہونا اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے) یہ ایسے لوگ ہیں کہ (ود تو جہاد میں شریک نہ ہوئے اور) اپنے (٢ م نسب) بھائیوں کی نسبت (جو کہ مقتول ہوگئے، گھروں میں) بیٹھے ہوئے باتیں بناتے ہیں کہ اگر ہمارا کہنا مانتے (یعنی ہمارے منع کرنے پر نہ جاتے) تو (بےفائدہ) قتل نہ کئے جاتے، آپ فرما دیجئے کہ اچھا تو اپنے اوپر سے موت کو ہٹاؤ اگر تم (اس خیال میں) سچے ہو (کہ میدان میں جانے سے ہی ہلاکت ہوتی ہو، کیونکہ قتل سے بچنا تو موت ہی سے بچنے کے لئے مقصود ہے جب وقت مقرر پر موت گھر بیٹھے بھی آجاتی ہے تو قتل بھی وقت مقرر پر نہیں ٹل سکتا) اور (اے مخاطب) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں (یعنی دین کے واسطے) قتل کئے گئے ان کو (اور مردوں کی طرح) مردہ مت خیال کر بلکہ وہ لوگ (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں (اور) اپنے پروردگار کے مقرب (یعنی مقبول ہیں) ان کو رزق بھی ملتا ہے (اور) وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم) سے عطا فرمائی (مثلاً درجات قرب وغیرہ یعنی رزق ظاہری بھی ملتا ہے اور رزق معنوی یعنی مسرت بھی) اور (جس طرح وہ اپنے حال پر خوش ہیں اس طرح) جو لوگ (ابھی دنیا میں زندہ (شہداء) خوش ہوتے ہیں کہ (اگر وہ بھی شہید ہوجاویں تو ہماری طرح) ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ (کسی طرح) مغموم ہوں گے (غرض ان کو دو خوشیاں کا سبب یہ بتلایا کہ) وہ (اپنی حالت پر تو) خوش ہوتے ہیں بوجہ نعمت و فضل خداوندی کے (جس کا انہوں نے مشاہدہ کرلیا) اور (دوسروں کی حالت پر خوش ہوتے ہیں) اس وجہ سے کہ جو لوگ ان کے متعلقین پیچھے رہ گئے ہیں اور نیک اعمال جہاد وغیرہ میں لگے ہیں ان کو بھی ایسے ہی انعامات ملیں گے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝ ٠ ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ١٦٠ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے خذل قال تعالی: وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] ، أي : كثير الخذلان، والخِذْلَان : ترک من يظنّ به أن ينصر نصرته، ولذلک قيل : خَذَلَتِ الوحشيّة ولدها، وتَخَاذَلَت رجلا فلان، ومنه قول الأعشی بين مغلوب تلیل خدّه ... وخَذُول الرّجل من غير كسح «2» ورجل خُذَلَة : كثيرا ما يخذل . ( خ ذل ) قرآن میں ہے : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کو عین موقعہ پر دغا دینے والا ہے ۔ الخذول ( صیغہ مبالغہ ) بہت زیادہ خدلان یعنی دغا دینے والا ہے ۔ الخذلان ایسے شخص کا عین موقعہ پر ساتھ چھوڑ کر الگ ہوجانا جسکے متعلق گمان ہو کہ وہ پوری پوری مدد کریگا ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے : خذلت الوحشیۃ ولدھا وحشی گائے نے اپنے بچہ کو چھوڑ دیا اس کی ٹانگیں کمزور پڑگئیں اسی سے اعشی نے کہا ہے ( الرمل ) (132) بین مغلوب تلیل خدۃ وخذول الرجل من غیر کسح ( بعض مغلوب ہو کر رخسارے کے بل گر پڑے ہیں اور بعض ٹانگیں بدوں بےحسی کے جواب دے چکی ہیں ۔ رجل خذلۃ بےبس آدمی ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٠) غزوہ بدر کے طریقہ پر اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھ دیں تو پھر تمہارا کوئی بھی دشمن تم پر غلبہ نہیں پاسکتا اور اگر احد کے طریقہ پر مغلوب کردیں تو کون ہے جو اس مغلوبیت کے بعد تمہارا ساتھ دے، مومنوں پر تو یہ چیز لازم ہے کہ فتح ونصرت میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:160) یخذلکم۔ مضارع معروف واحد مذکر غائب لام پر جزم حرف ان کی وجہ سے ہے۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ ان یخذلکم۔ اگر وہ تمہیں بےمدد چھوڑ دے۔ تمہاری مدد نہ کرے۔ خذلان سے جس کے معنی ہیں ایسے شخص کا عین موقعہ پر ساتھ چھوڑ کر الگ ہوجانا جس کے متعلق گمان ہو کہ وہ پوری پوری مدد کرے گا۔ لہٰذا ساتھ چھوڑ دینا۔ دغا دینا۔ قرآن حکیم میں ہے وکان الشیطن للانسان خذولا (25:29) اور شیطان انسان کو عین موقعہ پر دغا دینے والا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ‘ اس میں منافقوں کے پروپیگنڈہ کا جواب دیتے ہوئے بنیادی عقیدہ سمجھایا گیا ہے کہ عزت وذلت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور مومنوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر کام کرنے سے پہلے اس پر غور و خوض اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ احد میں بھی ایسا ہی کیا گیا لیکن چند ساتھیوں کی کمزوری کی وجہ سے آپ اور مسلمانوں کو مالی ‘ جانی نقصان اٹھانا پڑا جس پر کمزور مسلمانوں نے غیر محتاط انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور منافقوں نے اسے ایک دوسرے انداز میں اچھالا۔ اس موقعہ پر یہ بنیادی اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرنے کا فیصلہ صادر فرمائے تو ساری دنیا جمع ہو کر بھی تم پر غالب نہیں آسکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا کرنا چاہے تو تمہیں کوئی بھی عزت نہیں دے سکتا لہٰذا مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اللہ پر توکل کا یہ معنیٰ نہیں کہ آدمی حاصل شدہ وسائل کو استعمال کرنا چھوڑ دے بلکہ توکل کا معنی ہے ہر قسم کی استعداد حاصل کرنے کی کوشش کرے اور پھر وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور یقین رکھے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! (أَعْقِلُھَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُھَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق ] ” میں اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اونٹ کو باندھو اور توکل کرو۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو آدمی کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ ٢۔ جسے اللہ تعالیٰ ذلیل کرے اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ ہی پر مومنوں کو ہمیشہ بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبہ : ١٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حقیقت توکل کو مزید ذہن نشین کرانے کے لئے اور اس کے اصول کو ثابت اور مستحکم کرنے کے لئے اگلی آیت میں ذرا تفصیل سے واضح کرکے اس حقیقت کو ظاہر کیا جاتا ہے کہ حقیقی قوت فاعلہ ذات باری ہے ۔ فتح و کامرانی اور شکست اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے اگر نصرت چاہتے ہو تو اسی سے چاہو اور اگر شکست سے بچنا چاہتے ہو تو اسی کے آگے گڑگڑاؤ۔ اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ ‘ اسی پر بھروسہ کرو ‘ لیکن پوری تیاری کے بعد ‘ نتائج سے بےفکر ہوجاؤ اور نتائج و عواقب اللہ پر چھوڑ دو ۔ إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ” اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں ‘ اور وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو ؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “ اس کی وجہ سے ایک مومن کا تصور اس بات سے پاک ہوجاتا ہے کہ کوئی چیز اللہ کے سوا کسی اور سے بھی طلب ہوسکتی ہے ۔ ایک مومن کی سوچ براہ راست اس ذات کے ساتھ پیوست ہوجاتی ہے جو اس کائنات میں حقیقتاً متصرف ہے ۔ اس لئے وہ ان تمام کھوٹے خداؤں اور باطل اسباب سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور ان کی حمایت اور نصرت طلب نہیں کرتا ۔ اور وہ اچھے نتائج کے لئے صرف اللہ وحدہٗ پر توکل کرتا ہے ۔ اسی سے توقع کرتا ہے کہ وہ معاملات کو اچھے رخ پر ڈالے گا ‘ اور اپنی حکمت سے درست کرے گا ۔ اس عقیدے کے بعد پھر تقدیر الٰہی کے نتیجے میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اسے بڑی فراخ دلی سے قبول کرتا ہے ۔ فکر ونظر کا یہ ‘ وہ توازن ہے جسے انسانی فکر نے ‘ صرف اسلام کے زیر سایہ پایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ مدد فرمائے تو کوئی غالب نہیں ہوسکتا پہلی آیت میں ارشاد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ تو کل کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں) اس آیت شریفہ میں اللہ پر تو کل کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا ہے کہ کسی قوم پر غالب ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد ہی اصل چیز ہے قلت اور کثرت اور اسباب سے اس کا حقیقی تعلق نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب ہونے والا نہیں۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے نصرت فرمائی۔ مسلمان تھوڑے تھے سامان حرب بھی معمولی تھا دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان کے پاس سامان بھی بہت تھا لیکن دشمن مغلوب ہوئے۔ پھر فرمایا اگر اللہ تعالیٰ تم کو مدد کے بغیر چھوڑ دے تو کون ہے جو تمہاری مدد کرے ؟ اور واقعہ احد میں یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے حاصل یہ کہ مدد اور نصرت کے لیے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کریں۔ اور اسی سے مدد طلب کریں اور اسی پر تو کل کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

246 ۔ فتح وشکست اور نصرت وخذلان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ مدد کرنے پر آتا ہے تو بےسروسامانی کے باوجود غلبہ عطا فرما دیتا ہے اور بڑی بڑی طاقت ور اور کثیر فوجوں کو مغلوب کردیتا ہے جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا بےسروسامان اور مٹھی بھر مسلمانوں نے اللہ کی تائید وامداد سے مشرکین کی عظیم فوج کو شکست فاش دیدی لیکن اگر اللہ تعالیٰ تمہاری امداد اور نصرت سے دست کش ہوجائے تو پھر زمین و آسمان میں کوئی تمہارا ناصروغمخوار اور یارومددگار نہیں ہوگا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا۔ اس لیے حقیقی اعتماد اور بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی ہونا چاہئے۔ وَعَلیَ اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ اور ایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے صرف ایک اللہ کو اپنا معبود (عبادت اور پکار کے لائق، کارساز، حاجت روا اور مشکلکشا مانا ہے اور ان کا ایمان ہے کہ صرف اللہ پر توکل واعتماد ہی سے ان کو ہر کام میں کامیابی اور ہر میدان میں غلبہ حاصل ہوگا اور وہ جانتے ہیں کہ قضاء وقدر اسی کے ہاتھ میں ہے اور کار گاہ عالم کا ہر معاملہ اس کے قبضہ میں ہے۔ یعنی لما ثبت ان الامر کلہ بید اللہ وانہ قادر لقضاءہ ودافع لحکمہ واجب ان لایتوکل المؤمن الا علیہ (کبیر ج 3 ص 123) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے اور تمہارے ساتھ دے تو تم پر کوئی فتح حاصل نہیں کرسکتا اور کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارا ساتھ نہ دے اور تم سے اپنا ہاتھ اٹھا لے تو دوسرا ایسا کون ہے جو اس کے دستکش ہوئے، پیچھے تمہاری مدد کرسکے اور تمہارا ساتھ دیکر تم کو غالب کرسکے لہٰذا مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ (تیسیر) آیت میں مسلمانوں کو تسلی دینا اور شکست کی وحشت کو دور کرنا مقصود ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ تم کسی کے بہکانے میں نہ آئو کامیابی اور کامرانی ہوتی ہے تو ہماری مدد سے اور شکست و ناکامی ہوتی ہے تو ہماری سرپرستی اور ساتھ چھوڑ دینے سے ہوتی ہے اور جب تمام امور میں اصل دار و مدار ہماری ہی ذات ہے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھا کریں کیونکہ ہمارے سوا کوئی ان کی مدد اور حمایت کرنے والا نہیں۔ اوپر کی آیت میں پیغمبر کو توکل کا حکم تھا اس آیت میں عام مسلمانوں کو وہی حکم ہے۔ توکل کے معنی ہیں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کردینا۔ اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیانت و امانت کا اظہار فرماتے ہیں کیونکہ جب پیغمبر سے ہم نے تمہارا قصور معاف کرا دیا تو اب تم بھی ان باتوں سے توبہ کرو اور آئندہ کے لئے احتیاط کرو جو بلا وجہ کی کبھی کبھی بدگمانی کر بیٹھتے ہو اور پیغمبر کی شان میں کوئی نا مناسب اور نازیبا بات کہہ بیٹھتے ہو مثلاً اسی جنگ میں تم گھاٹی کو مال غنیمت کے شوق میں چھوڑ نکلے اور یہ سمجھے کہ غنیمت کے مال میں کہیں پیغمبر تمہارے حق میں خیانت نہ کرلے اس لئے چلو خود ہی چل کر قبضہ کریں اس قسم کے رکیک خیالات کا آئندہ اعادہ نہ ہو اور نبی کی شان کو پوری طرح سمجھو اس کی ذات بنی نوع انسان کے لئے ایک رحمت ہے اور وہ تو تم کو اعلیٰ مرتبے کا انسان بنانے کے لئے تشریف لائے ہیں اس لئے ان کی مقدس ذات اور ان کے مرتبے کے بارے میں پورے ہوشیار ہو اور پوری طرح ان کے ادب و احترام کو محلوظ رکھو چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)