Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 162

سورة آل عمران

اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَ اللّٰہِ کَمَنۡۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۶۲﴾

So is one who pursues the pleasure of Allah like one who brings upon himself the anger of Allah and whose refuge is Hell? And wretched is the destination.

کیا پس وہ شخص جو اللہ تعالٰی کی خوشنودی کے درپے ہے ,اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالٰی کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنّم ہے جو بدترین جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Is then one who follows (seeks) the pleasure of Allah like the one who draws on himself the wrath of Allah! His abode is Hell, and worse indeed is that destination! This refers to those seeking what pleases Allah by obeying His legislation, thus earning His pleasure and tremendous rewards, while being saved from His severe torment. This type of person is not similar to one who earns Allah's anger, has no means of escaping it and who will reside in Jahannam on the Day of Resurrection, and what an evil destination it is. There are many similar statements in the Qur'an, such as, أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَأ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى Shall he then who knows that what has been revealed unto you (O Muhammad) from your Lord is the truth be like him who is blind! (13:19) and, أَفَمَن وَعَدْنَـهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاَقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَـعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا Is he whom We have promised an excellent promise (Paradise) which he will find true, like him whom We have made to enjoy the luxuries of the life of (this) world! (28:61) Allah then said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٨] یہاں پھر انہیں دو گروہوں کا تقابل پیش کیا جارہا ہے۔ جو غزوہ بدر یا احد میں نبرد آزما تھے۔ ان میں سے ایک گروہ اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے لڑ رہا تھا اور دوسرا اللہ کے دین کو کچلنے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لئے لڑ رہا تھا اور یہی دوسرا گروہ ہی اللہ کے غضب میں گرفتار ہوا اور بالآخر اپنا وجود ہی کھو بیٹھا اور اخروی زندگی میں جہنم اس کے مقدر ہوچکی ہے۔ لڑائی کے اعتبار سے دونوں کی سرگرمیاں ایک جیسی تھیں۔ مگر ان دونوں کے انجام ایک دوسرے کی عین ضد ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللہِ كَمَنْۢ بَاۗءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ١٦٢ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے باءَ وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید . اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے سخط السَّخَطُ والسُّخْطُ : الغضب الشدید المقتضي للعقوبة، قال : إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة/ 58] ، وهو من اللہ تعالی: إنزال العقوبة، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد/ 28] ، أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة/ 80] ، كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 162] . ( س خ ط ) السخط والسخط اس سخت غصہ کو کہتے ہیں جو سزا کا مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة/58 تو وہ فورا غصہ سے بھر جاتے ۔ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد انزال عقوبت ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد/ 28]( اور ان کی ) یہ نوبت اس لئے ( ہوگی ) کہ جو چیز خدا کو بری لگتی ہے یہ اسی ( کے رستے ) پر چلے ۔ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة/ 80] ( نتیجہ یہ ہوا ) کہ دنیا میں بھی خدا ان سے ناراض ہوا ۔ كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 162] اس شخص جیسا ( فعل سرزد ) ہوسکتا ہے جو خدا کے غضب میں آگیا ہو ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٢) اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے پھر اپنے خصوصی انعام کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ اس نے ان ہی میں سے ان جیسا ایک قریشی عرب معروف النسب ذات کو رسول بنا کر بھیجا جو مسلمانوں کو قرآنی احکام پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو توحید کے ذریعہ شرک سے اور زکوٰۃ لے کر گناہوں سے پاک صاف کرتے ہیں اور قرآن اور حلال و حرام کی تعلیم دیتے ہیں اور یقیناً رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اور قرآن کریم کے نزول سے قبل یہ لوگ کھلی گمراہی میں گرفتار تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:162) بائ۔ ماضی واحد مزکر غائب باء یبوء بوء (نصر) اس نے کمایا۔ وہ لوٹا ۔ البواء کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزاء کا مساوی (سازگار۔ موافق) ہونے کے ہیں ۔ مکان بواء اس مقام کو کہتے ہیں کہ جو اس جگہ پر اترنے والے کے سازگار اور موافق ہو۔ بوات لہ مکانا۔ میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا واوحینا الی موسیٰ واخیہ ان تبواء لقومکما بمصر بیوتا۔ (10:87) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ۔ باء بسخط۔ وہ ایسی جگی اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غصہ و عقوبت ہے۔ سخط۔ غصہ۔ وہ سخت غصہ جو عقوبت کا مقتضی ہو۔ ماوی۔ مصدر۔ و نیز اسم ظرف مکان ، قیام کرنا۔ سکونت پذیر ہونا۔ مقام سکونت ٹھکانہ اوی یاوی (ضرب) المصیر۔ اس ظرف مکان ومصدر۔ صیر۔ مادہ ۔ صار یصیر (ضرب) صیر صیرورۃ مصیر مصدر ہیں۔ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹنا۔ المصیر۔ بطور اسم ظرف مکان بمعنی لوٹنے کی جگہ۔ ٹھکانا۔ قرار گاہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : امانت ودیانت میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، خیانت و بددیانتی پر اللہ کی ناراضگی اور غضب ہوتا ہے ایک اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور دوسرا اس کے غضب کا سزا وار ہے کیا دونوں کردار کے حامل انسان برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ اب دو قسم کے کرداروں کا موازنہ کیا جارہا ہے کہ کیا ایسے کردار کے حامل انسان انجام اور اعمال کے حوالہ سے برابر ہوسکتے ہیں ؟ ان میں ایک وہ ہے جو سراپا سمع و اطاعت ہے اور اس کے ہر کام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا کار فرما ہوتی ہے۔ دوسرا وہ جو کفر اور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ آخر دم تک اللہ تعالیٰ کی بغاوت میں ہی سرگرم عمل رہا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہے جو لوٹنے کی بدترین جگہ ہے۔ پہلے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین درجات ‘ اعلیٰ مقامات اور ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ دوسرے کے لیے جہنم ہے۔ یاد رکھو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ انسان کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا اور اللہ کی ناراضگی مول لینے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والوں کے لیے بڑے درجات ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا جہنم میں جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مومن اور نافرمان برابر نہیں ہیں : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ : ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوسکتے۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہوسکتا۔ (الملک : ٢٢) ٤۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتا۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ وہ دوررس تبدیلی ہے جس کے سائے میں ‘ تربیت پانے والوں کی نظروں میں اموال غنیمت کی کوئی حیثیت نہیں ‘ اس دنیا کے بارے میں سوچنا ہی حقیر ہوجاتا ہے اور قرآن منہاج تربیت کے خطوط میں سے ایک خط ہے ۔ یہ عجیب نقوش ہیں جن پر یہ منہاج انسانی دلوں کی تربیت کرتا ہے۔ ان کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں ‘ ان کے افق ہی بدل جاتے ہیں ۔ اس لئے وہ دوسرے میدانوں کو چھوڑ کر زندگی کے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھتے ہیں۔ أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ……………” بھلایہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضاپر چلنے والا ہو ‘ وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا اور جس کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو ‘ جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ “ یہ ہیں حقیقی اقدار ۔ یہ ہے میدان جس میں امید ہونی چاہئے ۔ یہ ہے وہ میدان جس میں کام ہونا چاہئے اور یہ ہے وہ فیلڈ جس میں کمائی یا خسارے کی بات ہونی چاہئے ۔ اور کس قدر وسیع خلیج ہے اس شخص کے درمیان جو رضامندی باری تعالیٰ کا طلبگار ہو اور اس میں کامیاب بھی ہو اور اس شخص کے درمیان جو راہ غضب پر ہو اور اس میں گھر بھی چکاہو اور جہنم کا مستحق ہوگیا ہو جویقیناً بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اس جیسا نہیں جو ناراضگی کا مستحق ہو ان دونوں آیتوں میں اللہ کی رضا تلاش کرنے والے اور اللہ کے غصہ کے مستحق ہوجانے والے کے درمیان جو فرق ہے وہ بیان فرمایا ہے ارشاد ہے کہ اللہ کے طالب اور وہ لوگ جو اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے یہ دونوں فریق برابر نہیں ہوسکتے۔ اس مضمون کو بیان فرمانے کے لیے استفہام انکاری کا طریقہ اختیار فرمایا تاکہ سننے والے خود بھی غور کرلیں۔ اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے والوں کے ذیل میں جنت کا ذکر نہیں فرمایا۔ کیونکہ وہ تو حاصل ہو ہی جائے گی اور صرف اللہ کی رضا کے طالب ہونے پر اکتفا فرمایا کیونکہ اللہ کی رضا جنت سے بھی بڑی چیز ہے اور دوسری جانب میں غضب الٰہی کا تذکرہ فرمایا۔ اور یہ بھی ذکر فرمایا کہ غضب الٰہی کے مستحقین دوزخ میں داخل ہوں گے۔ اور فرمایا کہ دوزخ بہت بری جگہ ہے پھر ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں فریق مختلف درجات والے ہوں گے (جو لوگ اللہ کی رضا کے طالب ہیں وہ جنتوں میں طرح طرح کی نعمتوں میں ہوں گے اور جو لوگ غضب الٰہی کے مستحق ہوئے وہ دوزخ کے مختلف عذابوں میں ہوں گے) یہ درجات جنت اور درجات جہنم اللہ کے علم میں ابھی سے مقرر ہیں اور اللہ سب کے اعمال کو دیکھتا ہے، اچھے برے اعمال کی جزا دے گا کسی کا کوئی عمل اس کے علم سے باہر نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

249 یہ ماقبل ہی کا تتمہ ہے اور استفہام انکاری ہے یعنی جو شخص اپنے ہر قول وفعل میں رضائے الٰہی کا طالب ومتلاشی ہے جیسا کہ ہر پیغمبر کی شان ہے کیا وہ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو غضب الٰہی کا مستحق ہو کر جہنمی ہوچکا ہو جیسا کہ خائن اور دوسرے مجرموں کا حال ہے مطلب یہ کہ یہ دونوں ایک جیسے نہیں ہیں تو پھر یہ کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کا پیغمبر جس کی زندگی کا مقصد ہی رضائے الٰہی کی طلب ہو وہ خیانت ایسے جرم کا ارتکاب کرے جو سراسر غضب الٰہی اور عذاب خداوندی کا موجب ہے۔ ھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللہِ ۔ اللہ کے یہاں ان کے درجات مختلف ہیں جو لوگ اللہ کی رضا پر چلنے والے ہیں ان کے انعام واکرام اور درجات محبوبیت ہوں گے اور جو راہ حق کی مخالفت کر کے غضب خداوندی کے خریدار ہوئے ان کے لیے ذلت ورسوائی اور درجات مبغوضیت ہوں گے اس طرح یہ آیت اخروی بشارت اور تخویف پر بھی مشتمل ہے۔ ھُمْ دَرَجٰتٌ میں چونکہ دَرَجٰتٌ کا حمل ھُمْ پر صحیح نہیں اس لیے یا ھُمْ سے پہلے لام مقدر ہے یا درجتٌ سے پہلے ذَوُوْ ۔ ای ھم ذو درجات ای منازل۔ وھذا معنی قول مجاھد والدی لھم درجات (روح ج 4 ص 112) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi