Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 165

سورة آل عمران

اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۶۵﴾

Why [is it that] when a [single] disaster struck you [on the day of Uhud], although you had struck [the enemy in the battle of Badr] with one twice as great, you said, "From where is this?" Say, "It is from yourselves." Indeed, Allah is over all things competent.

۔ ( کیا بات ہے ) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے ، تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے ، بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason and Wisdom Behind the Defeat at Uhud Allah said, أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ ... When a single disaster smites you, in reference to when the Muslims suffered seventy fatalities during the battle of Uhud. ... قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا ... although you smote (your enemies) with one twice as great, during Badr, when the Muslims killed seventy Mushriks and captured seventy others. ... قُلْتُمْ أَنَّى هَـذَا ... you say: "From where does this come to us!" why did this defeat happen to us! ... قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ ... Say, "It is from yourselves." Ibn Abi Hatim recorded that Umar bin Al-Khattab said, "When Uhud occurred, a year after Badr, Muslims were punished for taking ransom from the disbelievers at Badr (in return for releasing the Mushriks whom they captured in that battle). Thus, they suffered the loss of seventy fatalities and the Companions of the Messenger of Allah gave flight and abandoned him. The Messenger suffered a broken tooth, the helmet was smashed on his head and blood flowed onto his face. Allah then revealed, أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَـذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ When a single disaster smites you, although you smote (your enemies) with one twice as great, you say: "From where does this come to us!" Say, "It is from yourselves", because you took the ransom." Furthermore, Muhammad bin Ishaq, Ibn Jurayj, Ar-Rabi bin Anas and As-Suddi said that; the Ayah, قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ (Say, "It is from yourselves.") means, because you, the archers, disobeyed the Messenger's command to not abandon your positions. ... إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ And Allah has power over all things. and He does what He wills and decides what He wills, and there is none who can resist His decision. Allah then said,

غزوات سچے مسلمان اور منافق کو بےنقاب کرنے کا ذریعہ بھی تھے یہاں جس مصیبت کا بیان ہو رہا ہے یہ احد کی مصیبت ہے جس میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے تو مسلمان کہنے لگے کہ یہ مصیبت کیسے آگئی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا بیان ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں نے فدیہ لے کر جن کفار کو چھوڑ دیا تھا اس کی سزا میں اگلے سال ان میں سے ستر مسلمان شہید کئے گئے اور صحابہ میں افراتفری پڑ گئی ، حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے آپ کے سر مبارک پر خود تھا وہ بھی ٹوٹا اور چہرہ مبارک لہولہان ہو گیا ، اس کا بیان اس آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ، مسند احمد بن حنبل ) حضرت علی سے مروی ہے کہ جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم کا کفار کو قیدی بنا کر پکڑ لینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اب انہیں دو باتوں میں سے ایک کے اختیار کر لینے کا حکم دیجئے یا تو یہ کہ ان قیدیوں کو مار ڈالیں یا یہ کہ ان سے فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں مگر پھر ان مسلمانوں سے اتنی ہی تعداد شہید ہو گی حضور علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے دونوں باتیں پیش کیں تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ ہمارے قبائل کے ہیں ہمارے رشتے دار بھائی ہیں ہم کیوں نہ ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں اور اس مال سے ہم طاقت قوت حاصل کر کے اپنے دوسرے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور پھر جو ہم میں سے اتنے ہی آدمی شہید ہوں گے تو اس میں ہماری کیا برائی ہے ، چنانچہ جرمانہ وصول کر کے ستر قیدیوں کو چھوڑ دیا اور ٹھیک ستر ہی کی تعداد مسلمانوں کی اس کے بعد غزوہ احد میں شہید ہوئی ( ترمذی نسائی ) پس ایک مطلب تو یہ ہوا کہ خود تمہاری طرف سے یہ سب ہوا یعنی تم نے بدر کے قیدیوں کو زندہ چھوڑنا اور ان سے جرمانہ جنگ وصول کرنا اس شرط پر منظور کیا تھا کہ تمہارے بھی اتنے ہی آدمی شہید ہوں وہ شہید ہوئے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی اس باعث تمہیں یہ نقصان پہنچا تیر اندازوں کو رسول کرم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں لیکن وہ ہٹ گئے ، اللہ تعالیٰ ہر چیز قادر ہے جو چاہے کرے جو ارادہ ہو حکم دے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے ۔ دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ کے دن جو نقصان تمہیں پہنچا کہ تم دشمنوں کے مقابلے سے بھاگ کھڑے ہوئے تم میں سے بعض لوگ شہید بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے تھا اس کی حکمت اس کی مقتضی تھی ، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ثابت قدم غیر متزلزل ایمان والے صابر بندے بھی معلوم ہو جائیں اور منافقین کا حال بھی کھل جائے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی جو راستے میں ہی لوٹ گئے ایک مسلمان نے انہیں سمجھایا بھی کہ آؤ ، اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کم از کم ان حملہ اوروں کو تو ہٹاؤ لیکن انہوں نے ٹال دیا کہ ہم تو فنون جنگ سے بےخبر ہیں اگر جانتے ہوتے تو ضرور تمہارا ساتھ ، یہ بھی مدافعت میں تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ تو رہتے جس سے مسلمانوں کی گنتی زیادہ معلوم ہوتی ، یا دعائیں کرتے رہتے یا تیاریاں ہی کرتے ، ان کے جواب کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تم سچ مچ دشمنوں سے لڑو گے تو تو ہم بھی تمہارا ساتھ دیتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ لڑائی ہونے کی ہی نہیں سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ ایک ہزار آدمی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد کی جانب بڑھے آدھے راستے میں عبداللہ ابی بن سلول بگڑ بیٹھا اور کہنے لگا اوروں کی مان لی اور مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور میری نہ مانی اللہ کی قسم ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس فائدے کو نظر انداز رکھ کر اپنی جانیں دیں؟ لوگوں کیوں جانیں کھو رہے ہو جس قدر نفاق اور شک و شبہ والے لوگ تھے اس کی آواز پر لگ گئے اور تہائی لشکر لے کر یہ پلید واپس لوٹ گیا ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام بنو سلمہ کے بھائی ہر چند انہیں سمجھاتے رہے کہ اے میری قوم اپنے نبی کو اپنی قوم کو رسوا نہ کروا انہیں دشمنوں کے سامنے چھوڑ کر پیٹھ نہ پھیرو لیکن انہوں نے بہانہ بنا دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ لڑائی ہونے ہی کی نہیں جب یہ بیچارے عاجز آگئے تو فرمانے لگے جاؤ تمہیں اللہ غارت کرے اللہ کے دشمنو! تمہاری کوئی حاجت نہیں اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مددگار ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت ہی نزدیک تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے احوال مختلف ہیں کبھی وہ کفر سے قریب جاتا ہے اور کبھی ایمان کے نزدیک ہو جاتا ہے ، پھر فرمایا یہ اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ، جیسے ان کا یہی کہنا کہ اگر ہم جنگ جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ، حالانکہ انہیں یقینًا معلوم تھا کہ مشرکین دور دراز سے چڑھائی کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینے کی ٹھان کر آئے ہیں وہ بڑے جلے کٹے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے سردار بدر والے دن میدان میں رہ گئے تھے اور ان کے اشراف قتل کر دئیے گئے تھے تو اب وہ ان ضعیف مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں اور یقینا جنگ عظیم برپا ہونے والی ہے ، پس جناب باری فرماتا ہے ان کے دلوں کی چھپی ہوئی باتوں کا مجھے بخوبی علم ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کے بارے میں کہتے ہیں اگر یہ ہمارا مشورہ مانتے یہیں بیٹھے رہتے اور جنگ میں شرکت نہ کرتے تو ہرگز نہ مارے جاتے ، اس کے جواب میں جناب باری جل و علا کا ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹھیک ہے اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ بیٹھ رہنے اور میدان جنگ میں نہ نکلنے سے انسان قتل و موت سے بچ جاتا ہے تو چاہئے کہ تم مروہی نہیں اس لئے کہ تم تو گھروں میں بیٹھے ہو لیکن ظاہر ہے کہ ایک روز تم بھی چل بسو گے چاہے تم مضبوط برجوں میں پناہ گزین ہو جاؤ پس ہم تو تمہیں تب سچا مانیں کہ تم موت کو اپنی جانوں سے ٹال دو ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

165۔ 1 یعنی احد میں تمہارے ستّر آدمی شہید ہوئے تو بدر میں تم نے ستّر کافر قتل کئے تھے اور ستّر قیدی بنائے تھے۔ 165۔ 2 یعنی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تاکیدی حکم کے باوجود پہاڑی مورچہ چھوڑ کر تم نے کی تھی۔ جیسا کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے کافروں کے ایک دستے کو اس درے سے دوبارہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦١] منافقین کی تو بات ہی الگ ہے۔ اکابر صحابہ کو چھوڑ کر مسلمان بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ جب ہم حق کی خاطر لڑ رہے ہیں بلکہ اپنا دفاع کر رہے ہیں اور اللہ کا رسول بہ نفس نفیس ہم میں موجود ہے تو کافر ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ پھر جب شکست سے دو چار ہونا پڑا تو انہیں سخت صدمہ بھی ہوا اور حیرانی بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں تمہیں فتح عظیم عطا فرمائی تھی۔ تم نے اپنے اس موجودہ نقصان سے کافروں کا دگنا نقصان کیا تھا اور اس وقت تم کمزور بھی تھے تو اللہ اگر اس حال میں تمہیں فتح عطا فرماسکتا ہے تو وہ تمہیں شکست بھی دلوا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ [١٦٢] رہی یہ بات کہ تمہیں شکست سے کیوں دوچار ہونا پڑا ؟ تو اس کے اسباب بھی تمہارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا، بعض کام تقویٰ کے خلاف کئے۔ اللہ کے رسول کے حکم کی نافرمانی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر اب یہ کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ : یعنی احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوگئے تو بدر میں تم نے ان کے ستر آدمی قتل اور ستر قید کیے تھے اور قیدی بھی مقتول کے حکم میں ہوتا ہے کہ جب گرفتار کرنے والے کی مرضی ہو اسے قتل کر ڈالے۔ 2 ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ۭ : یعنی تمہارے گناہوں کی وجہ سے، یا خود تمہارے پسند کرنے کی وجہ سے۔ (فتح القدیر) پہلی صورت سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی وجہ سے، جس کا ارتکاب تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر کیا۔ (قرطبی) دوسری صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے کی وجہ سے۔ قرآن نے یہاں ( ھو من عند انفسکم ) کے الفاظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ [ ابن کثیر۔ طبری۔ أحمد : ١؍٣٠، ٣١، ح : ٢٠٩ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Wisdom behind the hardships of the Muslims at Uhud The subject of verse 165, أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم translated as, And how is it that, when you suffered a hardship the twice of which you had inflicted upon them...° has appeared in several previous verses. Here, it comes for the sake of emphasis and further clarification because Muslims were very much disturbed as a result of this incident, so much so that some of them could not resist wondering why should they be suffering in that manner (أَنَّىٰ هَـٰذَا) while they were in the company of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، doing Jihad. In this verse, Muslims are being reminded that the hardship they were facing that day was only half of what they had already inflicted earlier at the battle of Badr, for seventy Muslims were martyred at اُحُد Uhud while seventy disbelievers were killed at بدر Badr and seventy others from them were taken prisoners by Muslims. The purpose behind this reminder is that Muslims should think positively in their present state of depression in view of the fact that they had already won a battle, inflicting a loss on the enemy twice as much as they had themselves suffered at their hands. Now, a winner-like this need not surrender to sorrow and grief in the event defeat comes once, or less. Secondly, and primarily too, the purpose of saying, قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ &This is from your ownselves& at the end of this verse, is to tell Muslims that the hardship they have faced is not because the enemy is stronger or his forces overwhelming, but all that has been caused by some of their own shortcomings, that is, they fell short in obeying the command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

واقعہ احد میں مسلمانوں کو عارضی شکست اور زخم و قتل کے مصائب پیش آنے کے بعض اسباب اور حکمتیں : آیتہ اولما اصابتکم آلایتہ، سابقہ آیات میں کئی جگہ اس مضمون کا ذکر آ چکا ہے، یہاں پھر اس کی تاکید مزید توضیح کے ساتھ بیان کی گئی ہے، کیونکہ مسلمانوں کو اس واقعہ سے سخت کلفت تھی یہاں تک کہ بعض حضرات کی زبان پر بھی آیا انی ھذا کہ یہ مصیبت ہم پر کہاں سے آ پڑی، جب کہ ہم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک جہاد ہیں۔ آیت مذکورہ میں اول تو یہ بات یاد دلائی کہ جتنی مصیبت تم پر آج پڑی ہے تم اس سے دوگنی اپنے مخالف پر اس سے پہلے غزوہ بدر میں ڈال چکے ہو، کیونکہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور غزوہ بدر میں مشرکین کے ستر سردار مارے گئے تھے اور ستر گرفتار ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے تھے، اس بات کے یاد دلانے سے ایک تو یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو اپنی موجودہ تکلیف و پریشانی کا احساس گھٹ جائے کہ جس شخص کی دوگنی جیت ہوچکی ہو اگر ایک دفعہ آدھی ہار و شکست بھی ہوجائے تو زیادہ غم اور تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرا اصل مقصد آیت کے آخری جملہ قل ھو من عند انفسکم میں بتلایا کہ یہ تکلیف مصیبت درحقیقت دشمن کی قوت و کثرت کے سبب سے نہیں، بلکہ تمہاری اپنی بعض کوتاہیوں کے سبب سے ہے کہ امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعمیل میں سے کوتاہی ہوگئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۝ ٠ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۝ ٠ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٦٥ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٥) اور اب پھر احد کے دن کی پریشانی کا اللہ تعالیٰ تذکرہ فرماتے ہیں تمہیں احد میں ایسی شکست ہوئی جس سے دو چند مکہ والوں کو بدر میں ہوئی تھی اور پھر حیرانی سے کہتے ہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں، پھر اس قدر پریشانی کہاں سے ہوئی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ مورچہ چھوڑ کر جو تم سے لغزش ہوئی اس بنا پر عارضی شکست ہوئی، اللہ تعالیٰ سزا وغیرہ سب پر قادر ہے۔ شان نزول : (آیت) ” اولما اصابتکم “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا کہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر جو چھوڑدیا تھا اس کی گرفت احد میں ہوئی کہ ستر صحابہ کرام (رض) شہید ہوئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے کہ آپ کے سرمبارک پر خود ٹوٹ گیا جس سے آپ کے چہرہ انور پر سے خون بہنے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٥ (اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَالا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا ط) یعنی یہ کیوں ہوگیا ؟ اللہ نے پہلے مدد کی تھی ‘ اب کیوں نہیں کی ؟ ( قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ط) ۔ غلطی تم نے کی تھی ‘ امیر کے حکم کی خلاف ورزی تم نے کی تھی ‘ جس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑا۔ ( اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ۔ گویا اسی مضمون کو یہاں دہرا کر لایا گیا ہے جو پیچھے آیت ١٥٢ میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تو وعدہ اپنا پورا کرچکا تھا اور تم دشمن پر غالب آ چکے تھے ‘ مگر تمہاری اپنی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اللہ چاہتا تو تمہیں کوئی سزا نہ دیتا ‘ بغیر سزادیے معاف کردیتا ‘ لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ تمہیں سزا دی جائے۔ اس لیے کہ ابھی تو بڑے بڑے مراحل آنے ہیں۔ اگر اسی طرح تم نظم کو توڑتے رہے اور احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے تو پھر تمہاری حیثیت ایک جماعت کی تو نہیں ہوگی ‘ پھر تو ایک انبوہ ہوگا ‘ ہجومِ مؤمنینہو گا ‘ جبکہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ایک منظم جماعت ‘ لشکر ‘ فوج ‘ حزب اللہ درکار ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

115. The more high ranking Companions were too well aware of reality to fall prey to any misunderstandings. The ordinary believers, however, had thought that as long as God's Messenger was in their midst and as long as they enjoyed God's support and help the unbeliever, could never triumph over them. Hence, when they suffered defeat at the Battle of Uhud, their expectations were shaken and they began to wonder why things had taken the course they had. They wondered why they had been defeated even though they had fought for the sake of God's true religion with God's support, and the Messenger of God was with them on the battlefield. Furthermore, they were worried that the defeat had been at the hands of those who were out to destroy God's true religion. These verses seek to allay this sense of anxiety and rid their minds of doubt and suspicion. 116. In the Battle of Uhud seventy Muslims were martyred. In the Battle of Badr. seventy unbelievers were killed and seventy taken as captives. 117. The calamity that had befallen them was the outcome of their own weaknesses and mistakes. They had not remained sufficiently patient, they had acted, in certain respects, in a manner inconsistent with the dictates of piety, they had disobeyed the command that had been given them, they were lured by material wealth and they disputed and quarrelled among them-selves. After all this, was it still necessary to ask what caused the debacle? 118. If God has the power to make them victorious He also has the power to bring about their defeat.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :115 اکابر صحابہ تو خیر حقیقت شناس تھے اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکتے تھے ، مگر عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جب اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہے اور اللہ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے تو کسی حال میں کفار ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے ۔ اس لیے جب احد میں ان کو شکست ہوئی تو ان کی توقعات کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے حیران ہو کر پوچھنا شروع کیا کہ یہ کیا ہوا ؟ ہم اللہ کے دین کی خاطر لڑنے گئے ، اس کا وعدہ نصرت ہمارے ساتھ تھا ، اس کا رسول خود میدان جنگ میں موجود تھا ، اور پھر بھی ہم شکست کھا گئے؟ اور شکست بھی ان سے جو اللہ کے دین کو مٹانے آئے تھے؟ یہ آیات اسی حیرانی کو دور کرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :116 جنگ احد میں مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہوئے ۔ بخلاف اس کے جنگ بدر میں کفار کے ۷۰ آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ۷۰ آدمی گرفتار ہو کر آئے تھے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :117 یعنی یہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ، بعض کام تقویٰ کے خلاف کیے ، حکم کی خلاف ورزی کی ، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے ، آپس میں نزاع و اختلاف کیا ، پھر کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :118 یعنی اللہ اگر تمہیں فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے تو شکست دلوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

56: اشارہ جنگ بدر کی طرف ہے جس میں کفار قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور ستر گرفتار ہوئے تھے، جبکہ جنگ احد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ستر ضرور تھی مگر کوئی مسلمان گرفتار نہیں ہوا تھا۔ اس لحاظ سے بدر میں مسلمانوں نے کفار کو جو نقصان پہنچایا تھا وہ اس نقصان سے دگنا تھا جو کافروں نے احد میں مسلمانوں کو پہنچایا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(165 ۔ 168) ۔ احد کی لڑائی میں جو مسلمانوں کو شکست ہوئی اس کی تسلی میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر فرمایا کہ اس لڑائی میں تمہارے ستر آدمی جو شہید ہوئے تو ان کا زیادہ رنج کیا تم بھی تو بدر میں لڑائی میں مخالفوں کو اس سے دو چند صدمہ پہنچا چکے ہو کہ ستر آدمی ان کے مارے اور ستر کو پکڑ لائے اور یہ جو تم کہتے کہ اتنی بڑی مصیبت ہم لوگوں پر کیوں آئی تو یہ مصیبت تم میں ہی کے بعض لوگوں کے سبب سے آئی کہ برخلاف مرضی اللہ تعالیٰ کے بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے لیا۔ اور برخلاف حکم اللہ تعالیٰ کے رسول کے تیر اندازوں نے گھاٹی چھوڑ دی۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شکست میں مصلحت تھی کہ کامل ایمان دار اور منافقوں کی اچھی طرح سے پردہ کھلے جائے وہی ہوا کہ ایمان دار ثابت قدم رہے اور منافق کچھ تو اپنے اپنے گھروں میں آن بیٹھے۔ اور کچھ طر طرح کی باتیں بنانے لگے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ایسی باتوں سے موت کو ہرگز نہیں ٹال سکتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:165) اصابتکم۔ ماضی واحد مؤنث غائب کم ضمیر جمع مذکر حاضر ۔ وہ (مصیبت) تم کو پہنچی۔ اصبتم۔ تم نے پہنچائی۔ اصاب یصیب (ضرب) لازم اور متعدی ہر دو طرح مستعمل ہے۔ اصابۃ سے جس کے معنی پہنچانا۔ پالینا۔ مصیبۃ۔ وہ مشکل جو آپہنچے۔ اولما۔ میں واؤ عطف کے لئے ہے اور ہمزہ استفہام کے لئے۔ لما جب الما کیا جب۔ آیت کا شروع کا جملہ کچھ اس طرح ہوگا۔ اولما اصابتکم مصیبۃ قلتم انی ھذا (و) قد اصبتم مثلہا۔ کیا جب ّاحد میں) تم کو مصیبت (بصورت قتال و ہزیمت) پہنچتی تو تم پکار اٹھے کہاں سے آپڑی یہ مصیبت (حالانکہ ہم مسلمان ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں موجود ہیں ۔ ( حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بدر کے غزوہ میں) تم نے اس سے دوگنی مصیبت ان کو پہنچائی تھی (جنگ احد میں ستر (70) صحابی شہید ہوئے تھے اور بدر کی جنگ میں مشرکین کے ستر (70) آدمی قتل ہوئے اور ستر قید کر لئے گئے۔ اور پھر بدر کی لڑائی فیصلہ کن تھی اور کفار کی شکست فاش تھی جبکہ احد میں پہلے مرحلہ پر مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا اور آخر میں اپنی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن باوجود پلہ بھاری ہونے کے دشمن اپنی فتح کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی احد کے دن جبکہ مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوگئے۔ (ابن کثیر ) 1 یعنی جنگ بدر میں جب مشرکین کے ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور اتنے ہی قید بن کر آئے تھے۔ (ابن کثیر)2 (ای بذ نو بکم لو بلختیار رکم (القدیر) یعنی تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو وجہ سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی وجہ سے جس کا تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر ارتکاب کیا ( قرطبی) دوسری صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے سے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قید یوں کے بارے میں صحا بہ (رض) کر اختیار دیا تھا کہ اگر تم فدیہ لینا چاہتے ہو تو اس کے بدلے آئندہ تمہارے ستر آدمی شہید ہوں گے۔ چناچہ صحانہ کرام (رض) نے اسے منظور کرلیا تھا۔ قرآن نے یہاں ھوں عندکم کے لفظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 165 تا 177 اصبتم (تم نے پہنچادیا) مثلیھا (اس سے دوگنا) ادفعوا (دور کرو) اقرب (زیادہ قریب) قعدوا (بیٹھے رہے) لواطاعونا (اگر ہماری بات مانتے) ادرء وا (تم دور کرو) یرزقون (رزق دیئے جاتے ہیں) فرحین (خوش ہوتے ہیں) یستبشرون (بشارت وخوش خبری دیتے ہیں) لم یلحقوا (نہیں ملے) حسبنا اللہ (ہمیں اللہ کافی ہے) یسارعون ( دوڑتے ہیں) حظ (حصہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 165 تا 177 غزوۂ احد میں بعض مسلمانوں کی اجتماعی غلطی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو تکلیف اٹھا نا پڑی اس پر اہل ایمان نے تو صبر اور برداشت سے کام لیا لیکن مناقفین کو بہت سی باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ کہنے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اس غزوے میں فتح و کامیابی ہوگی پھر یہ مصیبت کہاں سے اگئی اور ہماری فتح، شکست میں کیسے بدل گئی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردیا تھا جب تم کفار کو شکست دے کر ان کی گردنیں اڑا رہے تھے مگر تم ہی میں سے بعض لوگوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ بیشک وہ منافق نہیں تھے لیکن ان کی غلطی کی وجہ سے یہ سارا واقعہ پیش آیا۔ اللہ نے فرمایا اس سارے واقعہ سے بہرحال مومن اور منافق کا فرق بھی واضح ہوکر سامنے آگیا کیونکہ اس جبگ میں منافق اور مومن کی اچھی پہچان ہوگئی۔ منافق وہ ہیں جو اپنی جگہ بیٹھے رہے اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ان کو طعنے دے کر کہتے ہیں کہ ہمارا کہا مانتے تو اس طرح نہ مارے جاتے۔ اللہ نے فرمایا کہ موت تو بہرحال ایک دن آکر رہے گی کیا تم موت سے کسی طرح بچ سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کو مردہ کہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہ تو زندہ ہیں ان کو حیات جاودانی مل چکی ہے ان کو وہاں عزت کا مقام بھی نصیب ہے اور ان کو وہ رزق دیا جاتا ہے جس سے وہ خوش ہوتے ہیں ان کو جو راحتیں عطا کی جاتی ہیں تو وہ تمنا کرتے ہیں کاش ان کے عزیز اور رشتہ دار بھی ان کی طرح اللہ کی راہ میں شہید ہوکر عزت کا یہ مقام اور آسائش زندگی کی لذتیں حاصل کرلیتے۔ فرمایا کہ منافقین اس موقع پر طرح طرح کی افواہیں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کفار نے بہت سا اسلحہ جمع کرلیا ہے وہ عنقریب مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے لہٰذا آئندہ کے خطرات سے خوف کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح کی افواہوں سے مومن پریشان نہیں ہوتے بلکہ ان کا ایمانی جذبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ فرمایا کہ اے مومنو تم نہ ان کی باتوں میں آؤ اور نہ ان سے خوف کھاؤ کیونکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے پھر وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا۔ یقیناً کامیابی اہل ایمان ہی کا مقدر بن کررہے گی۔ شرط یہ ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیا جائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد کی شکست اور اس کے عوامل پر تبصرہ جاری ہے اس میں مسلمانوں کی انتظامی اور اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی جا رہی ہے۔ اُحد کی شکست کے اسباب میں دو سبب بڑے نمایاں تھے۔ منافقوں کا کردار اور مسلمانوں کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر پوری طرح عمل کرنے کی بجائے درہ چھوڑنا۔ لہٰذا مختلف انداز اور الفاظ میں منافقوں کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ ناقابل اعتماد اور آستین کے سانپ ہیں۔ ان سے ہر وقت بچنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے سبب پر تبصرہ کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم مسلمان ہو اور اللہ کا رسول تم میں موجود ہے لیکن تم نے رسول کے حکم کی نافرمانی کی۔ پہلے درّہ خالی کیا اور بعد میں میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور اب تم یہ کہتے ہو کہ یہ شکست کیونکر ہوئی ؟ اگر تم اپنے کیے پر توجہ کرو تو اس کا جواب تمہیں اپنے آپ سے مل جائے گا کہ یہ شکست تمہاری اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ یہاں ایک اور اصول بیان کیا ہے کہ انسان کو جو بھی مصائب اور پریشانیاں آتی ہیں حقیقتاً وہ اس کے اپنے ہی کیے دھرے کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہارے اعمال کی سزا دنیا میں دے یا اسے آخرت کے لیے مؤخر کر دے۔ ذرا ماضی کے آئینہ میں جھانک کر دیکھو کہ تم اس سے دوگنا نقصان انہیں پہنچا چکے ہو۔ بدر میں ان کے ستر سر کردہ آدمی واصل جہنم ہوئے جن کی وہ لاشیں بھی نہ اٹھا سکے۔ ستر قیدی ہوئے جو فدیہ دے کر چھوٹے اور ان کا کافی سامان تمہارے ہاتھ آیا۔ ان کے مقابلے میں تمہارا نقصان احد میں کئی گنا کم ہوا اور وہ بھی تمہاری کوتاہی کی وجہ سے۔ مسائل ١۔ انسان کو پہنچنے والے مصائب اس کی اپنی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ٢۔ جنگ میں اپنے اور کفار کے نقصان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ ٣۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لکھ دیا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرے گا ‘ جو اس کا جھنڈا اٹھانے والے ہوں اور جو اس پر پختہ ایمان اور عقیدہ رکھنے والے ہوں ۔ لیکن اس نے اس وعدے کو ایک شرط سے مشروط کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کے مستحق وہ اس وقت ہوں گے جب ان کے دلوں میں حقیقت ایمان اچھی طرح جاگزیں اور مستحکم ہوجائے ۔ اور وہ اپنی تنظیم اور طرزعمل میں ایمان کے تقاضے پورے کررہے ہوں ۔ اور ان کی وسعت اور طاقت کے اندر جو کچھ ہو وہ انہوں نے تیار کیا ہو۔ ان کی طاقت میں جس قدر ممکن ہو وہ جدوجہد کررہے ہوں ۔ یہ ہے سنت الٰہیہ اور سنت الٰہیہ کی کسی کے ساتھ خاص دوستی نہیں ہوتی نہ وہ کسی کی رورعایت کرتی ہے ۔ جب اللہ والے ان امور میں سے کسی میں بھی قصور اور کمی رکھتے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی تقصیرات کے نتائج بھی قبول کریں ۔ اس لئے کہ صرف مومن ہونے سے ان کے لئے ضابطہ سنن الٰہیہ معطل نہ کردیا جائے گا۔ نہ ناموس اعلیٰ باطل ہوجائے گا ۔ وہ تو مسلم ہی تب ہوں گے جب وہ اپنی زندگی کے اندر سنن الٰہیہ کو جاری وساری کردیں ۔ اور اپنی فطرت کو ناموس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کردیں ۔ لیکن ان کا نفس مسلمان ہونا بھی بیکار نہیں جاتا۔ نہ وہ بےاثر ہوتا ہے۔ ان کا اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ‘ اس کے جھنڈے اٹھانا ‘ اس کی اطاعت کا عزم کرلینا اور اس کے نظام حیات کا التزام کرنا وغیرہ ان امور کا یہ اثر ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان تقصیرات اور ان غلطیوں میں سے خیر اور برکت کا پہلو نکال دے ۔ اگرچہ ان غلطیوں کی وجہ سے وہ چوٹیں کھائیں ‘ قربانیاں دیں اور وقتی طور پر شکست کھالیں ۔ وہ ان غلطیوں سے ان کے تجربے میں اضافہ کرے گا ۔ اس طرح ان کا عقیدہ صاف ہوجائے گا ۔ ان کے دل صاف ہوں گے ۔ ان کی صفوں کی تطہیر ہوگی اور اس طرح آخر کار وہ اس نصرت کے حق دار ہوجائیں گے جس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے ۔ آخری انجام خیر و برکت پر ہوگا ‘ مسلمان اللہ کی بارگاہ سے ‘ اس کی رحمت و عنایت سے دھتکارے نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید زاد راہ سے نوازتا ہے۔ اگرچہ اثنائے راہ میں انہیں تکالیف پہنچیں ‘ مشکلات کا سامنا ہو اور رنج والم سے دوچار ہوں۔ اس وضاحت کے ساتھ اور فیصلہ کن انداز میں اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ سے خطاب فرماتے ہیں ۔ ان کے اس سوالیہ انداز میں اور جو واقعات پیش آئے ‘ ان پر ان کی حیرانی اور پریشانی کا جواب دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان واقعات کا قریبی سبب کیا تھا ؟ نیز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس میں تقدیر الٰہی کے اندر دوررس حکمت کیا پوشیدہ تھی ؟ اور منافقین کو بتایا جاتا ہے کہ موت کا ایک حق راستہ ہے ۔ ڈر سے موت ٹلتی نہیں اور نہ ہی جہاد میں شرکت نہ کرنے سے موت موخر ہوجاتی ہے ۔ ” اور تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آپڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی ؟ حالانکہ اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں ان پر پڑچکی ہے ۔ اے نبی ان سے کہو ‘ یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ “ جنگ احد میں مسلمانوں پر جو مصائب آئے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ستر آدمی شہید ہوئے اور زخمی اور مزید مصائب ان کے علاوہ تھے ۔ بہت ہی کڑوادن تھا یہ ان کے لئے ۔ ان پر یہ مصائب نہایت ہی شاق تھے اور ناقابل برداشت تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں ‘ اور ان کے مخالفین اللہ کے دشمن ہیں اور مشرک ہیں اور مسلمان جو اس مصیبت میں مبتلا ہوئے ‘ اس سے پہلے وہ ان دشمنان اسلام کو دوگنا نقصان پہنچاچکے تھے ۔ یہ اشارہ ہے بدر کی طرف وہاں انہوں نے کفار کو نقصان پہنچایا تھا جبکہ وہ اللہ کے حکم پر درست کھڑے تھے ۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل پیرا تھے ۔ اس سے قبل کہ وہ مال غنیمت کو دیکھ کر بےراہ ہوجائیں ۔ اور اس سے قبل کہ ان کے دلوں میں ایسے خیالات پیدا ہوں جو ایمان کے ساتھ لگا نہیں کھاتے ۔ اللہ انہیں یہ سب باتیں یاد دلاتے ہیں اور ان کے اس حیرانی سے بھرے ہوئے سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اس کا براہ راست سبب تو خود ان کے افعال تھے ۔ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ……………” اے نبی ان سے کہو یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے ۔ “ یہ خود تمہارے نفوس تھے ‘ جن میں خلل آگیا ‘ تم متفرق ہوگئے اور باہم تنازعہ کرنے لگے اور یہ تم ہی تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی شرائط پر عمل نہ کیا ۔ یہ تمہارے ہی نفوس تھے جن میں طمع اور لالچ داخل ہوگئی ‘ اور یہ تم ہی تھے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی اور آپ کے جنگی منصوبے کو سبوتاژ کیا ۔ پس یہ نتائج جن سے تم دوچار ہوئے اور جنہیں تم انہونی قرار دیتے ہو ‘ اور تم کہتے ہو کہ یہ حالات کیسے پیش آگئے ؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہوا۔ تم پر تو اللہ تعالیٰ کی سنت الٰہیہ کا انطباق ہوا ہے ۔ جب تم نے اپنے آپ کو اس سنت کے سامنے پیش کیا ۔ انسان جب اپنے آپ کو سنت الٰہیہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ سنت اس پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے ۔ یہ شخص مسلم ہو یا مشرک ہو ‘ اس سلسلے میں کسی رورعایت نہ ہوگی ۔ لہٰذا کسی کے اسلام کا کمال یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی سنت کے مطابق ڈھال لے اور وہ یہ کام پہلے ہی کرلے۔ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ……………” اللہ ہر چز پر قادر ہے ۔ “ اور اس کی قدرت کا ہی یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی سنت کو نافذ فرماتا ہے ۔ وہ اس کائنات میں اپنے ناموس کی کارفرمائی قائم کراتا ہے ۔ اور تمام کام اس کی قدرت اور ارادے کے مطابق چلتے ہیں ۔ اور یہ بھی اس کی قدرت کا تقاضا ہے کہ اس کی سنت معطل نہ ہو ‘ جس پر اس نے اس کائنات اس زندگی اور زندگی کے ان واقعات کو چلایا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مسلمانوں کو تسلی اور منافقوں کی بد حالی کا بیان مسلمانوں کو جو غزوہ احد میں وقتی طور پر شکست ہوئی اور اس سلسلہ میں تکلیف پہنچی اس مصیبت پر کچھ لوگوں کے منہ سے یہ نکلا انی ھذا (یہ مصیبت کہاں سے آئی) اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو جواب میں فرما دیں کہ یہ اسباب ظاہرہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے کہ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی اور پہاڑی پر جن تیر اندازوں کو بٹھا دیا گیا تھا انہوں نے باو جود تاکیدی حکم کے اس جگہ کو چھوڑ دیا۔ اور مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے اس بات کو بیان فرماتے ہوئے (قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا) بھی فرمایا کہ تم کو جو تکلیف پہنچی ہے گذشتہ سال غزوہ بدر میں اس سے دو گنی مصیبت تم دشمنوں کو پہنچا چکے ہو۔ ستر آدمی ان کے قتل ہوئے تھے اور ستر آدمی آدمیوں کو تم قیدی بنا کر مدینہ منورہ میں لے آئے تھے۔ اس میں تسلی دینے کا پہلو اختیار فرمایا کہ تم اپنے دشمنوں کو اپنی مصیبت سے دو گنی مصیبت پہنچا چکے ہو۔ اب اگر تمہیں مصیبت پہنچ ہی گئی اور وہ بھی تمہاری نافرمانی کی وجہ سے تو اس پر غمگین کیوں ہو رہے ہو۔ پھر فرمایا (وَ مَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ ) (جس دن دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں آئی تھیں اس روز تمہیں جو تکلیف پہنچی سو یہ تکلیف پہنچنا اللہ کے حکم سے تھا) یعنی سبب ظاہر وہی تھا، جس کا ذکر ہوا کہ تم نے نافرمانی کی اور حقیقت میں بات یہ ہے کہ جنگ کے موقع پر جو کچھ مصیبت پیش آئی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم تکوینی سے تھی وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہے۔ بعض حکمتیں پہلے بیان ہوچکی ہیں اور بعض حکمتیں آگے بیان ہوتی ہیں اور وہ یہ ہیں، (وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا) اور تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جان لے جنہوں نے منافقت کی، جو اندر سے مسلمان نہ تھے زبانوں سے کہتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں میں گھل مل کر رہتے تھے اب جب جنگ کا موقعہ آیا تو ظاہری دوستی بھی چھوڑ بیٹھے اور ان کا نفاق کھل کر ظاہر ہوگیا جس کی صورت آگے بیان فرمائی۔ (وَ قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوِ ادْفَعُوْا) یعنی ان سے کہا گیا کہ آجاؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو اگر جنگ نہیں کرسکتے ہو تو ہمارے ساتھ ہی رہو اگر ہمارے ساتھ رہو گے تو دشمن کو ہماری جماعت زیادہ نظر آئے گی اس سے بھی دشمن کے دفاع کی ایک صورت بنے گی (ذکرہ فی الروح عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما) آگے ان کا جواب نقل فرمایا (قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰکُمْ ) وہ کہنے لگے اگر ہم جنگ کرنا جانتے تو ضرور تمہارے ساتھ ہو لیتے اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں ظاہر کیا گیا اور ایک مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ واقعی لڑائی مفید ہوسکتی ہے تو ہم تمہارے ساتھ جنگ میں شرکت کرلیتے، ہمارے خیال میں تو لڑائی کا ڈھنگ نہیں ہے یہ کیا لڑائی ہے کہ تم تھوڑے سے آدمی ہو اور دشمن زیادہ ہے، سامان حرب بھی تمہارے پاس کم ہے کم سے کم برابر ہو تو لڑائی لڑی جائے، غالب ہونے کی امید نہ ہو تو کم ازکم مدافعت کرنے کی قوت تو ہو۔ اب تو ظاہری حالات میں اپنے کو جنگ میں جھونک دینا سراسر ہلاکت میں ڈال دینا ہے۔ (ذکرہ فی الروح)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

252 یہ مومنین کے لیے زجر ہے جنگ احد میں مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوئے اور وقتی طور پر ان کو شکست بھی ہوئی تو اس پر مسلمانوں نے حیرت واستعجاب سے کہا کہ یہ شکست کہاں سے آگئی ہم اللہ کے مسلمان بندے، اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اس کی توحید کی خاطر مشرکین سے جہاد کرنیوالے ہم مومن ہمارے مد مقابل مشرک اور ہم میں خدا کا نبی موجود پھر ہم سے اللہ کا وعدہ فتح ونصرت بھی لیکن ان سب باتوں کے باوجود پھر بھی شکست ہم کو ای من این اصابنا ھذا الانھزام والقتل ونحن نقاتل فی سبیل اللہ ونحن مسلمون وفینا النبی والوحی وھم مشرکون (قرطبی ج 4 ص 265) اس پر اللہ تعالیٰ نے بطور زجر فرمایا کہ جب تم پر مصیبت آئی یعنی احد میں تمہارے ستر آدمی مارے گئے تو تم بول اٹھے کہ یہ مصیبت ہم پر کہاں سے آگئی حالانکہ تم کافروں کو اس سے پہلے جنگ بدر میں اس سے دگنا نقصان پہنچا چکے تھے۔ بدر میں تم نے ان کے ستر آدمی قتل کیے اور ستر قید کیے۔ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ۔ مسلمانوں کو ان کی حیرت واستعجاب کا جواب دیا گیا کہ یہ شکست تمہاری اپنی ہی عملی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے تم نے مرکز کو چھوڑ دیا اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی پروا نہ کی اور مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے ای انھا السبب لہ حیث خالف الرماۃ امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بترکھم المرکز وحرصوا علی الغنیمۃ فعاقبھم اللہ تعالیٰ بذالک (روح ج 4 ص 116) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جب تم کو میدان احد میں ایک تکلیف پہنچی حالانکہ تم اس تکلیف کی دو مثل بدر میں اپنے مخالفوں کو پہنچا چکے ہو تو کیا یوں کہتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے اور کدھر سے آگئی آپ فرما دیجیے کہ یہ مصیبت آ کہاں سے گئی یہ مصیبت خود تمہاری طرف سے آئی اور تمہارے ہی ہاتھوں کی بدولت آئی ۔ یقین جانو ! اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ (تیسیر) جس طرح ایک شکست خوردہ فوج کو صدمہ و حیرانی اور تعجب ہوتا ہے وہی صورت احد میں بھی مسلمانوں کو پیش آئی ۔ یہں تعجب کی وجہ اس قدر اور بھی تھی کہ علاوہ جلیل القدر صحابہ کے جو حقیقت شناس تھے عام لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ جب خدا کا رسول ہم میں موجود ہے پھر ہم اسلام کی بلندی کے لئے لڑنے نکلے ہیں کافروں کی زیادتی بھی ہے کہ ہم پر چڑھ کر آئے ہیں ایسی حالت میں شکست کا کیا کام ! اب شکست ہوجانے سے حیرانی اور تعجب ہوا پھر وجوہات شکست پر بحث ہونے لگی کہ ایسا کیوں ہوا کدھر سے یہ ہار آئی اور ہم کو ہزیمت کیونکر ہوئی۔ حضرت حق نے اس کا جواب دیا اور ان کے تعجب کو دور کیا اور فرمایا تمہاری وجہ سے یہ مصیبت آئی نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتے اور نہ گھاٹی چھوڑ کر نکلتے نہ یہ ہزیمت پیش آتی اللہ تعالیٰ کو سب قدرت ہے وہ چاہے غلبہ دے چاہے مغلوب کر دے بدر میں تم نے اطاعت کی تو ستر کا فر قتل ہوئے ستر کو گرفتار کیا اور تمہاری فتح ہوئی۔ احد میں بھی شروع شروع کامیابی ہوئی لیکن قصور ہوتے ہی جنگ کا رنگ بگڑ گیا اور ستر مسلمان شہید ہوگئے بدر کو دو مثل اس لئے فرمایا کہ قیدیوں پر قابو پالینا بھی ان کے قتل ہی کرنے کے برابر ہے اگر تم چاہتے تو قتل کرسکتے تھے لیکن تم نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا تو یہاں ستر 70 اور وہاں ایک سو چالیس پھر تعجب کی کیا وجہ ہے شکست کی باقی حکمتیں اوپر بیان ہوچکی ہیں کچھ اور آگے آتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ تعجب نہ کرو ۔ تسلی پکڑو پہلے جیت چکے ہو اگر اب کے ہار گئے اور وہ بھی اپنی غلطی سے تو حیرانی کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی تم بدر کی لڑائی میں ستر کافروں کو مار چکے ہو اور ستر کو پکڑ لائے تھے تمہاری اس لڑائی میں ستر شہید ہوئے تو بددل کیوں ہوتے ہو سو یہ بھی اپنے قصور سے کہ بےحکمی سے لڑے یا قصور یہ کہ بدر کے اسیروں کو مار نہ ڈالا ماں لے کر چھوڑ دیا اور حضرت نے فرمایا تھا کہ اگر ان کو چھوڑتے ہو تم میں ستر آدمی شہید ہونگے لوگوں نے قبول کر کے مال لیا اور ان کو چھوڑا (موضح القرآن) شاہ صاحب کے فرمانے سے وہ بات صاف ہوگئی جو ہم اوپر کہہ آئے ہیں ایک خطا سابق اور ایک خطا لاحق اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ غلطی اور کوتاہی غلطی اور کوتاہی کو بڑھاتی ہے ۔ اب آگے اور تسلی دی جاتی ہے اور منافقوں کے بعض اعتراضات کا جواب بھی دیا جاتا ہے۔ (تسہیل)