Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 173

سورة آل عمران

اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ ﴿۱۷۳﴾

Those to whom hypocrites said, "Indeed, the people have gathered against you, so fear them." But it [merely] increased them in faith, and they said, "Sufficient for us is Allah , and [He is] the best Disposer of affairs."

وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں ۔ تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً ... Those unto whom the people said, "Verily, the people have gathered against you, therefore, fear them." But it (only) increased them in faith, it means, those who threatened the people, saying that the disbelievers have amassed against them, in order to instill fear in them, but this did not worry them, rather, they trusted in Allah and sought His help. ... وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ and they said: "Allah is Sufficient for us, and He is the Best Disposer of affairs." Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas said, حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ "("Allah Alone is Sufficient for us and He is the Best Disposer of affairs for us)," "Ibrahim said it when he was thrown in fire. Muhammad said it when the people said, `Verily, the people have gathered against you, therefore, fear them.' But it only increased them in faith, and they said, `Allah is Sufficient for us and He is the Best Disposer of affairs for us."' Abu Bakr Ibn Marduwyah recorded that Anas bin Malik said that the Prophet was told on the day of Uhud, "Verily, the people have gathered against you, therefore, fear them." Thereafter, Allah sent down this Ayah (3:173) This is why Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

173۔ 1 کہا جاتا ہے کہ ابو سفیان نے بعض لوگوں کو معاوضہ دے کر یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں، لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کی بجائے مذید عزم اور ولولہ سے سرشار ہوگئے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔ اسی لئے حدیث میں حسبنا اللّٰہ و نَعْم الْوکِیْل پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧١] غزوہ احد سے واپسی کے وقت ابو سفیان نے مسلمانوں سے جو خطاب کیا تھا۔ (٣: ١٥٢) اس میں اس نے مسلمانوں کو چیلنج کیا تھا کہ ایک سال بعد پھر میدان بدر میں مقابلہ ہوگا اور اس چیلنج کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرما لیا۔ لیکن جب وعدہ کا وقت قریب آیا تو ابو سفیان خود ہی ہمت ہار بیٹھا۔ کیونکہ اس سال مکہ میں قحط پڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنی اس خفت و ندامت کو چھپانے اور الزام دوسرے کے سر تھوپنے کے لیے یہ تدبیر سوچی کہ خفیہ طور پر ایک شخص نعیم بن مسعود کو مدینہ بھیجا اور کچھ دے دلا کر اس کی ڈیوٹی یہ لگائی کہ وہاں جاکر یہ خبر مشہور کردے کہ اس دفعہ قریش نے اتنی زبردست تیاری کی ہے اور اتنا لشکر جرار جمع کر رہے ہیں کہ پورا عرب بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے گا۔ اور اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ مقابلہ کرنے کی انہیں ہمت ہی نہ رہے۔ چناچہ اس نے مدینہ جاکر یہ افواہ خوب پھیلائی۔ لیکن اس پروپیگنڈا کا اثر ابو سفیان کی توقع کے برعکس نکلا۔ اس خبر سے مسلمانوں کا ایمانی جوش اور بھی بڑھ گیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پندرہ سو صحابہ کو ساتھ لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔ اسی ضمن میں بخاری کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے (وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣۔ ) 3 ۔ آل عمران :173) کہا تھا اور جب لوگوں نے آنحضرت سے کہا کہ قریش کے کافروں نے آپ کے مقابلے کے لیے بڑا لشکر جمع کرلیا ہے تو آپ نے بھی یہی کلمہ کہا اور یہ خبر سن کر صحابہ کا ایمان بڑھ گیا اور انہوں نے بھی یہی کلمہ کہا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) جب ابو سفیان کو یہ صورت حال معلوم ہوئی تو چار و ناچار نکلنا ہی پڑا۔ چناچہ وہ دو ہزار کی جمعیت لے کر مکہ سے روانہ ہوا۔ مگر دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔ اس سال لڑنا مناسب معلوم نہیں ہوتا آئندہ سال آئیں گے۔ اس کے ساتھی پہلے ہی یہی کچھ چاہتے تھے۔ چناچہ وہ وہیں سے واپس مکہ چلے گئے اور اس کی وجوہ کئی تھیں۔ مثلاً اس دفعہ اس کی فوج غزوہ احد کے مقابلہ میں صرف دو تہائی تھی۔ جبکہ مسلمانوں کی فوج دوگنا سے بھی زیادہ تھی۔ دوسرے وہ مسلمانوں کی جرات ایمان کو خوب ملاحظہ کرچکا تھا۔ تیسرے جو پروپیگنڈہ وہ پہلے کرچکا تھا اس مناسبت سے اس کے پاس لشکر نہایت قلیل تھا۔ چناچہ اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے واپس مڑ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اس غزوہ کو غزوہ سویق بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ ابو سفیان رسد کے طور پر ستو ہی ساتھ لایا تھا جو راستے میں گرتے بھی رہے اور واپسی پر اس رسد کو یہیں چھوڑ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو سفیان کے انتظار میں آٹھ روز تک بدر کے مقام پر ٹھہرے رہے۔ اس دوران صحابہ کرام (رض) نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کرکے خوب فائدہ اٹھایا۔ پھر جب یہ پتہ چلا کہ ابو سفیان واپس چلا گیا ہے تو آپ بھی مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ ۔۔ : یہ آیت بھی واقعہ حمراء الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابوسفیان کو، جو اس وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا، مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلے کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ چیلنج بھیجا کہ میں نے بڑا لاؤ لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں، یہ سن کر مسلمانوں میں خوف اور کمزوری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے کہا : ( حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) ” ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ “ (ابن کثیر) 2 عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) کا کلمہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کہا تھا جب انھیں آگ میں ڈالا گیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کہا، جب لوگوں نے کہا : (اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ ۔۔ الخ ) ” بیشک لوگوں نے تمہارے لیے (فوج) جمع کرلی ہے، سو ان سے ڈرو، تو اس بات نے انھیں ایمان میں زیادہ کردیا “ اور انھوں نے کہا : (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) ” ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( الذین قال لہم الناس۔۔ ) : ٤٥٦٣ ] 3 فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا : اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کا ایمان مشرکین کے چیلنج کرنے سے بڑھ گیا، ظاہر ہے وہ پہلے نسبتاً کم تھا، تب ہی بڑھا۔ اس سے ایمان کی کمی بیشی ثابت ہوتی ہے اور ان لوگوں کی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان جبریل (علیہ السلام) اور ابوبکر (رض) کے ایمان جیسا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان جس قدر بڑھتا ہے جذبۂ جہاد بھی بڑھتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے نہ جنگ کی نہ اپنے دل سے جنگ کی بات کی، وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔ “ [ أبو داوٗد، الجہاد، باب کراھیۃ ترک الغزو : ٢٥٠٢، عن أبی ہریرہ (رض) ۔ نسائی : ٣٠٩٩ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (173), more praises have been showered on the noble Companions, may Allah be pleased with them all, who so coura¬geously stepped forward to join this Jihad. The words of the verse are: الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا - those to whom people said, |"The people have gathered against you; so, fear them.|" It increased them in Faith ... That is, blessed are such people who heard the news that the enemy has assembled a big fighting force against them and also the advice that they should fear them and avoid fighting - still, this news further increased the fervour of their faith. The reason is simple: When these blessed people had agreed to obey Allah and His Messenger, they had realized right from day one that the path they have chosen to travel on is full of dangers. There will be difficulties and impediments at every step. Their passage will not be easy. They will be stopped. Even armed efforts will be made to suppress their revolutionary movement. Thus, when these noble people came across such hardships, the power of their Faith increased to levels higher than before and, as a result, they worked harder, more selflessly, more than ever. As obvious, the Faith of these noble souls was perfect from the very first day they had embraced Islam, therefore, the reference to the increase in Faith in these two verses (172-173) means the increase in the qualitative contents and end-results of Faith. Even this state of the Companions who readily responded to the call of Allah and His Messenger has been specially mentioned at this point by saying that they kept reciting: حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (173) all along their march to the Jihad mission. The sentence means: Allah is all-sufficient for us and the best one to trust in. Let us consider an important rule of conduct at this point. It is a fact and we know it too well that no one in this world can claim to have placed his trust in Allah, a degree more pronounced than the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to and his noble Companions (رض) . But, the form and manner of such trust was different. He would never think of sitting back forsaking all physical means available and end up saying: Allah is all-sufficient for us - He will bless us with victory while we sit out and do nothing! No. This did not work like that. Instead, he gath¬ered the noble Companions together, infused a new fighting spirit in the hearts of those injured, prepared them for the Jihad, both materi¬ally and spiritually before marching out. It means that he collected and used all physical means which were available to him and it was only after that he said: &Allah is all-sufficient for us.& This, then, is the most authentic form of Tawakkul (Trust in Allah) taught by the Holy Qur&an, personally practiced by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and this was what he made others around him do. All physical means which we have in the life of this world are blessings from Allah. Rejecting or abandoning them amounts to being ungrateful to Him. Placing trust in Allah after having forsaken available physical means is no Sunnah (established practice) of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . However, if there be someone comprehensively overwhelmed by his state of being, he could be deemed as excusable while being unable to observe this precept of the Shari` ah. Otherwise, the most sound practice is no more than what has been curtly expressed in a Persian poetic line: بر توکل زانوے اشتربہ بند Before placing trust, do tie your camel. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has himself stated the meaning of this very verse: حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (173) &Allah is all-sufficient for us, and the best one to trust in,& while deciding a case reported in Hadith: As reported by Sayyidna ` Awf ibn Malik (رض) ، a case involving two men came up for hearing before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He gave his verdict. The man who lost the case heard the verdict in perfect peace and started walking out with the words: حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (Allah is all-sufficient for me, and the best one to trust in) on his lips. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked: &Bring this man to me.& He said to him: اِنَّ اللہ یَلُومُ عَلَی العجزِ ولٰکِن علیک بالکیسِ فاذا غلبک اَمرُفقُل حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ Allah censures inaction but it is your duty to use means, following which, when you find yourself powerless against odds, then say: &Allah is all-sufficient for me, and the best one to trust in.&

دوسری آیت میں اس جہاد کے لئے بڑھنے والے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مزید توصیف و تعریف اس طرح کی گئی۔ الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایماناً یعنی یہ وہ حضرات ہیں کہ جب ان لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف دشمنوں نے بڑا سامان اکٹھا کیا ہے ان سے ڈرو جنگ کا ارادہ نہ کرو تو اس خبر نے ان کا جوش ایمان اور بڑھا دیا درجہ یہ ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت جب ان حضرات نے قبول کی تھی تو پہلے ہی دن سے محسوس کرلیا تھا کہ ہم نے جس راستہ پر سفر شروع کیا ہے وہ خطرات سے پر ہے، قدم قدم پر مشکلات و موانع پیش آئیں گے، ہمارا راستہ روکا جائے گا اور ہماری انقلابی تحریک کو مٹانے کے لئے مسلح کوششیں کی جائیں گی اس لئے جب یہ حضرات اس قسم کی مشکلات کو دیکھتے تھے تو ایمان کی قوت پہلے سے زیادہ ہوجاتی تھی اور پہلے سے زیادہ جانفشانی اور فداکاری کے ساتھ کام کرنے لگتے تھے۔ ظاہر یہ ہے کہ ان حضرات کا ایمان تو اسلام لانے کے اول روز ہی سے کامل تھا، لہٰذا ان دونوں آیتوں میں ایمان کی زیادتی سے ایمان کی صفات اور ایمان کے ثمرات کی زیادتی مراد ہے اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر تیار ہوجانے والے صحابہ کی اس حالت کو بھی اس جگہ خصوصیت کے ساتھ بیان کیا کہ اس جہاد کے سفر میں تمام راستہ یہ جملہ ان کے ورد زبان رہا حسبنا اللہ و نعم الوکیل اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہتر کار ساز ہے یہاں یہ بات خصوصیت سے قابل غور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام سے زیاد ہوتا دنیا میں کسی کا توکل و اعتماد اللہ تعالیٰ پر نہیں ہو سکتا، لیکن آپ کی صورت توکل یہ نہ تھی، کہ اسباب ظاہرہ کو چھوڑ کر بیٹھے رہتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ بیٹھے بیٹھائے ہمیں غلبہ عطا فرما دے گا، نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کو جمع کیا، زخم خوردہ لوگوں کے دلوں میں نئی روح پیدا فرمائی، جہاد کے لئے تیار کیا اور نکل کھڑے ہوئے جتنے اسباب و ذرائع اپنے اختیار میں تھے وہ سب مہیا اور استعمال کرنے کے بعد فرمایا کہ ہمیں اللہ کافی ہے، یہی وہ صحیح توکل ہے جس کی تعلیم قرآن میں دی گئی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر عمل کیا اور کرایا، اسباب ظاہرہ دنیویہ بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہیں، ان کو ترک کردینا اس کی ناشکری ہے، ترک اسباب کر کے توکل کرنا سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ہے، کوئی مغلوب الحال ہو تو وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے، ورنہ صحیح بات یہی ہے کہ برتوکل زانوے اشتر بہ بند رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ایک واقعہ میں اسی آیت حسبنا اللہ و نعم الوکیل کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے : عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دو شخصوں کا مقدمہ آیا آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا، یہ فیصلہ جس شخص کے خلاف تھا اس نے فیصلہ نہایت سکون سے سنا اور یہ کہتے ہوئے چلنے لگا کہ حسبی اللہ ونعم الوکیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کو میرے پاس لاؤ اور فرمایا : ” یعنی اللہ تعالیٰ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانے کو ناپسند کرتا ہے بلکہ تم کو چاہئے کہ تمام ذرائع اختیار کرو پھر بھی عاجز ہوجاؤ اس وقت کہو حسبی اللہ و نعم الوکیل۔ “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝ ٠ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝ ١٧٣ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (الذٰن قال لھم الناس ان الناس قد جمعوالکم۔ اور وہ، جن سے لوگوں نے کہا، تمہارے خلاف برفوجیں جمع ہوئی ہیں۔ ) تاآخرت آیت ۔ ابن عباس (رض) ، قتادہ اور ابن اسحاق سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے یہ خبردی تھی، وہ ایک قافلے والے تھے، اس قافلے میں ابوسفیان بھی تھا۔ مقصد یہ تھا کہ جب مسلمان احد سے واپس جانے لگیں تو انھیں روکاجائے۔ دوسری طرف مشرکین کا ارادہ یہ تھا کہ ایک بار پھر پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ ایک بدو تھا جسے معاوضہ دے کر مسلمانوں تک یہ خبرپہنچائے پر مامور کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص پر لفظ الناس کا اطلاق کیا یہ بات ان لوگوں کے بقول ہے جنھوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ دراصل یہ ایک شخص تھا۔ اس بناپران کے نزدیک عموم کے لفظ کا اطلاق کرکے خصوص مراد لیا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں چونکہ الناس کا لفظ اسم جنس ہے اور یہ بات تو واضح ہے کہ تمام لوگوں نے یہ اطلاق نہیں دی تھی اس لیے اسم جنس اپنے مدلول کے کم سے کم عددپر مشتمل ہے، جوان میں سے صرف ایک ہے۔ یہ گنجائش اس لیے پیداہوئی کہ لفظ الناس اسم جنس ہے اور صرف ایک فردمرادلینے پر اسم جنس کا تقاضاپورا ہوجاتا ہے۔ اسی بناپر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی نے یہ کہا : میں نے اگر لوگوں سے کلام کیا تو میراغلام آزاد ہے، تو اس صورت میں ایک شخص سے کلام کرنے پر بھی اسے غلام آزاد کرنا ہوگا اس لیے کہ الناس ، اسم جنس ہے اور یہ بات واضح ہے کہ یہاں استغراق یعنی تمام افراد نہیں ہیں اس بناپریہ صرف ایک فرد کو شامل ہوگا۔ آزمائش کے وقت ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے قول باری ہے افاخشوھم فزادھم ایمانا، تم ان سے ڈروہ یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا) یہاں یہبات بتائی گئی ہے کہ خوف اور مشقت کے بڑھ جانے کے ساتھ ان کے یقین میں بھی اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ یہ خبرسن کر صحابہ کرام، اپنی پہلی حالت پر نہیں رہے بلکہ اس موقعہ پر ان کا یقین اور بڑھ گیا، اور دین کے متعلق ان کی بصیرت میں اور اضافہ ہوا۔ اس کی مثال وہ آیت ہے جس میں ارشادباری ہے (ولما رأی المؤمنوں الاحزاب قالواھذا ماوعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ۔ ومازادھم الاایمانا وتسلیما۔ جب اہل ایمان نے دشمنوں کی جماعتوں کو دیکھا تو کہنے لگے، اسی کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا۔ اس کی وجہ سے ان کا ایمان اور تسلیم و رضا کی کیفیت اور بڑھ گئی) دشمنوں کو دیکھ کر ان کے ایمان میں نیز اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے اور دشمنوں کے خلاف جہاد میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کرنے اور ڈٹ جانے کے جذبے میں اور اضافہ ہوگیا۔ ذرا اس اندازبیان پر غورکیجیے، کس بھرپورطریقے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے اور ان کی فضیلت وکمال کے اظہار کے لیے کیسا جامع پیرایہ بیان اپنایاگیا ہے۔ اس کا ایک پہلویہ ہے کہ ہمیں ان کے نقش قدم پرچلنے کی تعلیم دی جارہی ہے۔ نیز یہ بتایاجارہا ہے کہ ہم بھی اللہ کے حکم کی طرف رجوع کریں، اس کے حکم پر ڈٹ جائیں ، اسی پر بھروسہ کریں اور (حسبنا اللہ ونعم الوکیل اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے) ک اوردکریں نیز یہ کہ اگر ہم اس طریقے پر عمل پیراہوں گے تو اس کے نتیجے میں اللہ کی مدد اور تائید ہمارے شامل حال ہوجائے گی اور اس کی رضا اور ثواب کے حصول کے ساتھ ساتھ دشمن کے مکر اور شرارت کا رخ بھی موڑدیاجائے گا جیسا کہ قول باری ہے (فانقلبوابنعمۃ من اللہ وفضل لم لیسسھم سوء واتبعوارضوان اللہ۔ آخرکاروہ اللہ کی عنایت سے اس طرح پلٹ آئے کہ ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضاپرچلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٣) اگلی آیت بھی ان حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نعیم بن مسعود اشجعی نے ان حضرات سے کہہ دیا تھا کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے مکہ مکرمہ کے قریب لطیمہ نامی بازار میں ایک لشکر تمہارے مقابلے کے لیے تیار کیا ہے مگر صحابہ کرام (رض) میں یہ خبر سن کر اور جرأت پیدا ہوگئی، اور انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ اللہ تعالیٰ سب مہمات میں ہمارے لیے کافی ہیں اور جو کچھ کفار نے بازار میں اسباب جمع رکھے تھے، ان کو اور مال غنیمت اور اللہ تعالیٰ کی طرف ثواب لے کر لوٹ آئے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ) اُسی کا سہارا سب سے اچھا سہارا ہے۔ چناچہ یہ لوگ بےخوف ہو کر مقابلے کے لیے نکلے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :123 یہ چند آیات جنگ احد کے ایک سال بعد نازل ہوئی تھیں مگر چونکہ ان کا تعلق احد ہی کے سلسلہ واقعات سے تھا اس لیے ان کو بھی اس خطبہ میں شامل کر دیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

59: جب کفار مکہ احد کی جنگ سے واپس چلے گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید ان کے ارادے سے باخبر ہو کر یا احد کے نقصان کی تلافی کے لیے جنگ احد کے اگلے دن سویرے صحابہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابہ کرام اگرچہ احد کے واقعات سے زخم خوردہ تھے، اور تھکے ہوئے بھی تھے، مگر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت پر لبیک کہا جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص معبد آپ سے ملا جو کافر ہونے کے باوجود آپ سے ہمدردی رکھتا تھا، اس نے مسلمانوں نے کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس کی ملاقات کفار مکہ کے سردار ابو سفیان سے ہوگئی، اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے لشکر اور اس کے حوصلوں کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ وہ لوٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے واپس چلا جائے۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس تو چلے گئے لیکن عبدالقیس کے ایک قافلے سے جو مدینہ منورہ جا رہا تھا یہ کہہ گئے کہ جب راستے میں ان کی ملاقات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو تو ان سے یہ کہیں کہ ابو سفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہونے والا ہے مقصد یہ تھا کہ اس خبر سے مسلمانوں پر رعب پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ جب حمراء الاسد پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو یہی بات کہی، لیکن صحابہ کرام نے اس سے مرعوب ہونے کے بجائے وہ جملہ کہا جو اس آیت میں تعریف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:173) حسبنا اللہ۔ کافی ہے ہمارے لئے اللہ کی ذات ۔ اللہ ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ حسب۔ مصدر۔ حسب یحسب (نصر) سے۔ وکیل۔ صفت مشبہ۔ وکل مصدر۔ (باب ضرب) کارساز۔ نگران ، نگہبان۔ ضامن ۔ ذمہ دار۔ آیۃ 172 میں اللہ اور اس کے رسول کا فرمان قبول کرنے والوں اور ان میں نیکوکاروں اور پرہیزگاروں کے لئے اجر عظیم کی بشارت ہے یہی بشارت ان کے لئے بھی ہے جن کا ذکر آیۃ 173 میں ہوا ہے جو دشمن کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا ایمان اور مضبوط ہوگیا اور انہوں نے کلیۃً اللہ پر ڈوری ڈال دی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ آیت بھی وقعہ حمرا الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابو سفیان کو۔ جو ان وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلہ کے ذریعہ آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ چلینج بھیجا کہ میں نے بڑا لاو لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں۔ یہ سن کر مسلمانوں میں خوف یا کمزری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحا بہ (رض) نے فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر الصغری ٰ کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس کا پس منظر یہ ہے کہ جنگ احد میں کے خاتمہ پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں لڑائی ہوگی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ منظور کرلو اور کہ دو ان شا التہ عالی۔ جب اگلا سال آیا۔ ابو سفیان مکہ سے فوج لے کر نکلا جب مر نفہر ان میں پہنچا تو مرعوب ہوگیا۔ قحط سالی کا عذار کر کے مکہ کو لوٹنا چاہا اتفاق سے ابو نعیم بن مسعود الا سجعی سے ملا قات ہوگئی جو عمرہ کر کے واپس جا رہا تھا۔ اس کو کچھ انٹوں کا لالچ دے کہا کہ مدینہ پہنچ کر ہماری طرف سے خبر مشہور کردینا کہ وہ بہت بڑی جمیعت لے کر آرہے ہیں تاکہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں اور نکلنے کی جرات نہ کریں۔ چناچہ اس نے مدینہ پہنچ کر اسی قسم کی افواہیں پھیلادیں کچھ مسلما نن مرعوب بھی ہوئے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی قس کھا کر فرمایا۔ میں ضرور جاوں گا خواہ مجھ اکیلے کو ہی جانا پڑے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور انہوں نے کہا اللہ ہی ہم کا کافی ہے آخر مسلمان وہاں پہنچے۔ بدرالصغریٰ (مابنی کنانتہ) میں بڑابازار لگتا تھا۔ تین روز رہ کر تجارت کے ذریعے خوب نفع کمایا اور صحیح سلامت مدینہ لوٹ آئے مشرکین بھی مرا الظہرن سے لوٹ گئے تھے انہوں ن اپنی اس مہم کا نام حبیش السو یق رکھا۔ (رازی۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

محمد بن اسحاق نے عبداللہ ابن جارحہ ‘ ابوالسائب سے روایت کی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب جو بنو عبدالاشہل سے تعلق رکھتے تھے ‘ وہ احد میں شریک تھے ۔ اس نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احد میں شریک ہوئے تھے ۔ میں تھا ‘ میرا بھائی تھا ‘ ہم لوٹے دونوں زخمی تھے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موذن نے اعلان کیا کہ نکلو ‘ دشمن کا تعاقب کرنا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا یا بھائی نے مجھ سے کہا کیا اب ہم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ جنگ رہ جائے گی ۔ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور ہم دونوں شدید زخمی بھی ہیں ۔ ہم دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکل پڑے ۔ میرا زخم بھائی سے ذرا کم تھا۔ جب اس کی طبیعت خراب ہوتی تو میں اسے پیچھے سے تھامتا ‘ یہاں تک کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ گئے ۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ احد کی جنگ بروز ہفتہ ١٥ شوال کو ہوئی تھی ۔ دوسرے دن ١٦ شوال کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موذن نے اذان دی ۔ اور حکم دیا کہ دشمن کا تعاقب کرنا ہے ۔ اور موذن نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہمارے ساتھ صرف وہ لوگ جائیں گے جو کل کے معرکے میں شریک ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھی جابر ابن عبدللہ ابن عمرو ابن حرام نے کہا کہ میرے باپ نے مجھے اپنی بہنوں کی نگرانی کے لئے چھوڑدیا تھا۔ میری سات بہنیں تھیں ۔ میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ ” برخوردار نہ یہ میرے لئے مناسب ہے اور نہ آپ کے لئے مناسب ہے کہ آپ ان سات عورتوں کو چھوڑ کر جہاد کے لئے نکلیں ۔ “ اور میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کا شرف تمہیں دے دوں۔ اس لئے تم بہنوں کے پاس رہو ۔ صرف ان کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دے دی اور وہ آپ کے ساتھ نکلے ۔ جب اس عظیم حقیقت کا اعلان ہوا ‘ تو اس قسم کے عظیم اور بےمثال واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔ لوگوں کی ذہنی دنیا میں انقلاب آیا۔ ایسے تربیت یافتہ نفوس قدسیہ تیار ہوئے جو صرف اللہ کو اپنا وکیل و مددگار سمجھتے تھے۔ وہ صرف ذات باری پر راضی تھے ‘ ذات باری ہی کو کافی سمجھتے تھے ۔ وہ ذات باری ہی کو یاد کرتے تھے اور جب سخت سے سخت حالات پیش آتے تو ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا اور جب لوگ انہیں مشکلات سے ڈراتے تو ان کا جواب یہ ہوتا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ” ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

265 اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمَا الخ، یہ اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا سے بدل ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ابو سفیان نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں ہماری تمہاری جنگ ہوگی لیکن اس میعاد مقررہ سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں خوف اور رعب ڈال دیا۔ اور اس نے جنگ کا ارادہ ترک کردیا۔ ابو سفیان نے کچھ آدمیوں کے ذریعے مسلمانوں سے کہلا بھیجا کہ ابو سفیان نے تو بہت بڑا بھاری لشکر تیار کیا ہوا ہے اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بالکل مستعد ہے اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس خبر سے بد دل ہوجائیں گے اور مقابلہ میں نہیں آئیں گے۔ تو اس طرح اس پر وعدہ خلافی اور بزدلی کا الزام نہ آئے گا۔ لیکن جب مسلمانوں کے پاس یہ خبر پہنچی تو ان کے ایمان میں مزید جوش پیدا ہوگیا۔ ان کے ارادے اور مضبوط ہوگئے اور اللہ پر ان کے توکل اور بھروسے میں مزید قوت اور پختگی پیدا ہوگئی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اسی پختگی ایمان اور ان کے عزم و توکل کا ذکر فرمایا ہے۔ اَلنَّاس میں دونوں جگہ الف لام عہد کے لیے ہے۔ پہلے الناس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں ابو سفیان نے بطور جاسوس مسلمانوں کے پاس بھیجا تھا اور دوسرے الناس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھی مراد ہیں۔ (مدارک ج 1 ص 152، کبیر ج 3 ص 145) ۔ سید محمود آلوسی اور کئی دوسرے مفسرین نے لکھا ہے کہ جنگ احد سے دوسرے دن جب ابو سیفان دوبارہ بغرض جنگ واپس مسلمانوں کی طرف جانے کا منصوبہ بنا رہا تھا اس وقت کسی نے اسے بتایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاری جمعیت کے ساتھ تمہارے تعاقب میں نکل پڑے ہیں تو وہ مرعوب ہوگیا۔ ادھر قبیلہ عبد القیس کے چند سوار جو مدینہ جا رہے تھے ابو سفیان کے پاس سے گذرے تو اس نے ان کے ہاتھ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ پیغام دے بھیجا کہ ہم نے دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے اور ہم ان کو بالکل مٹانے کا عزم کرچکے ہیں جس کے جواب میں مسلمانوں نے حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ کا نعرہ بلند کیا۔ اس صورت میں الناس اول سے عبد القیس کے وہ سوار مراد ہوں گے جو ابو سفیان کا پیغام مسلمانوں کے پاس لائے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 یہ کہنا ماننے والے اور جہاد کو قبول کرنے والے ایسے مخلص لوگ ہیں کہ کچھ لوگوں نے یعنی عبدالقیس والوں نے یا نعیم بن مسعود نے جب ان سے کہا کہ ان کافروں نے تمہارے مقابلہ کے لئے بڑا سامان جمع کیا ہے اور اب کے حملہ پوری تیاری سے ہوگا لہٰذا تم ان سے ڈرتے رہنا اور تم کو ان سے خوف کرنا چاہئے۔ تو اس خبر نے ان کے ایمان کو اور قوی کردیا اور ان کے جوش ایمانی اور کمال ایمانی کو اور بڑھا دیا اور انہوں نے نہایت استقلال سے بےخوف ہو کر جواب دیا کہ تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ ہم کو کافی اور بس ہے اور جملہ امور کے لئے وہی بہتر وکیل اور کار ساز ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ابوسفیان نے چاہا کہ حضرت وعدے پر نہ آویں تو الزام ان پر رہے اور لڑائی سے خوف کھایا ایک شخص مدینہ کی طرف جاتا تھا اس کو کچھ دینا کیا کہ وہاں اس طرف کی ایسی خبریں کہیو کہ وہ خوف کھا دیں اور جنگ کو نہ آویں وہ شخص مدینہ میں پہنچ کر کہنے لگا کہ مکہ کے لوگوں نے بڑی جمعیت کی تم کو لڑنا بہتر نہیں مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے استقلال دیا اور یہی کہا کہ ہم کو اللہ بس ہے آخر بدر پر گئے تین روز تجارت کر کے نفع لے کر پھر آئے اگلی آیتوں میں بھی یہی ذکر ہے۔ (موضح القرآن) آیت میں دو جگہ الناس آیا پہلے الناس سے مراد پروپیگنڈہ کرنے والے لوگ ہیں خواہ وہ عبدالقیس کے قافلے والے ہوں خواہ نعیم بن مسعود ہو۔ اگرچہ نعیم ایک شخص تھا لیکن وہ بہت سے آدمیوں کی ترجمانی کر رہا تھا اس لئے اس کو الناس کہہ دیا دوسرے الناس سے مراد کفار مکہ اور ان کے حلیف ہیں۔ قد جمعوا لکم کا مطلب یہ ہے کہ اجتماع کے اعتبار سے بھی اب کے تعداد بہت ہوگی اور سامان کے اعتبار سے بھی بڑا سامان مکہ والوں نے تمہارے تباہ کرنے کی غرض سے جمع کیا ہے۔ فزادھم ایمانا کا مطلب یہ ہے کہ کفار سے ڈرانے والوں کے ڈرانے کا اثر الٹا ہوا بجائے ڈرنے کے مسلمانوں کا ایمان ان کی باتوں سے اور مضبوط ہوگیا ایمان کی زیادتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تصدیق بڑھتی گھٹتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جوش ایمانی اور کمال ایمانی میں اضافہ ہوگیا کیونکہ نفس تصدیق زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے بخاری نے نقل کیا ہے کہ حسبنا اللہ ونعم الوکیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وہ آخری جملہ ہے انہوں نے آگ میں ڈالے جانے کے وقت کہا تھا۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جب تم کسی سخت مشکل میں گرفتار ہو جائو تو حسبنا اللہ و نعم الوکیل پڑھا کرو۔ ابن مردویہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کے مابین فیصلہ کیا جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا حسبی اللہ ونعم الوکیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو لوٹا کر لائو جب وہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تو نے کیا کہا تھا اس نے کہا میں نے حسبی اللہ ونعم الوکیل کہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ عجز اور بےچارگی پر ملامت کرتا ہے ہاں تجھ کو ہوشیار رہنا چاہئے جب کوئی کام تجھ پر غالب آجائے تو اس وقت یہ جملہ کہا کر ۔ حضرت عائشہ (رض) جب صفوان بن معطل کی سواری پر سوار ہوئیں تھیں تو انہوں نے بھی حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا تھا جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت نازل فرمائی۔ شداد بن اوس سے ابو نعیم نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ یہ کلمہ پڑھنے والے کے لئے موجب امان ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت غمگین ہوتے تو اپنے چہرئہ مبارک اور سر پر ہاتھ پھیرتے اور حسبی اللہ ونعم الوکیل پڑھتے اس روایت کو ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے وکیل اس کو کہتے ہیں جس کے کام سپرد کیا جائے۔ عرب کے لوگ جمع لشکر اور جیش کو بولتے ہیں صاحب مواہب لدینہ نے فرمایا ہے کہ نعیم بن مسعود نے غزوئہ احزاب میں اسلام قبول کرلیا تھا ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی ابتدائی روش کفر و نفاق کی رہی اور آخر میں مشرف با اسلام ہوگئے۔ ومنھم من یولد کافر او یحییٰ کافر او یموت مئومنا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے الناس سے مراد مدینہ کے منافق ہوں اور انہوں نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کی غرض سے اس قسم کی خرطناک افواہیں مشہور کی ہوں۔ (واللہ اعلم) اب آگے بدر سے یا حمراء الاسد سے مسلمانوں کی کامیاب واپسی کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)