Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 176

سورة آل عمران

وَ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ ۚ اِنَّہُمۡ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَلَّا یَجۡعَلَ لَہُمۡ حَظًّا فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۶﴾

And do not be grieved, [O Muhammad], by those who hasten into disbelief. Indeed, they will never harm Allah at all. Allah intends that He should give them no share in the Hereafter, and for them is a great punishment.

کُفر میں آگے بڑھنے والے لوگ تجھے غمناک نہ کریں ، یقین مانو کہ یہ اللہ تعالٰی کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اللہ تعالٰی کا ارادہ ہے کہ ان کے لئے آخرت کا کوئی حصّہ عطا نہ کرے ، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Comforting the Messenger of Allah Allah said to His Prophet, وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ... And let not those grieve you who rush with haste to disbelieve, Because the Prophet was eager for people's benefit, he would become sad when the disbelievers would resort to defiance, rebellion and stubbornness. Allah said, `Do not be saddened by this behavio... r,' ... إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللّهَ شَيْياً يُرِيدُ اللّهُ أَلاَّ يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الاخِرَةِ ... verily, not the least harm will they do to Allah. It is Allah's will to give them no portion in the Hereafter. for He decided with His power and wisdom that they shall not acquire any share in the Hereafter. ... وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ For them there is a great torment. Allah said about the disbelievers,   Show more

مشفق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عوام چونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں پر بیحد مشفق و مہربان تھے اس لئے کفار کی بےراہ روی آپ پر گراں گذرتی تھی وہ جوں جوں کفر کی جانب بڑھتے رہتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دل غمزدہ ہوتا تھا اس لئے جناب باری آپ کو اس سے روکتا ہے اور فرماتا ہے حک... مت الٰہیہ اسی کی مقتضی ہے ان کا کفر آپ کو یا اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ یہ لوگ اپنا اخروی حصہ برباد کر رہے ہیں اور اپنے لئے بہت بڑے عذابوں کو تیار کر رہے ہیں ان کی مخالفت سے اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا آپ ان پر غم نہ کریں ۔ پھر فرمایا میرے ہاں کا یہ بھی مقررہ قاعدہ ہے کہ جو لوگ ایمان کو کفر سے بدل ڈالیں وہ بھی میرا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اپنے لئے المناک عذاب مہیا کر رہے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کافروں کا اللہ کے مہلت دینے پر اترانا بیان فرماتے ہیں ارشاد ہے ۔ آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ ) 23 ۔ المومنون:55 ) یعنی کیا کفار کا یہ گمان ہے کہ ان کے مال و اولاد کی زیادتی ہماری طرف سے ان کی خیریت کی دلیل ہے؟ نہیں بلکہ وہ بےشعور ہیں اور فرمایا آیت ( فَذَرْنِيْ وَمَنْ يُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ ۭ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 68 ۔ القلم:44 ) یعنی مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں علم بھی نہ ہو ۔ اور ارشاد ہے آیت ( وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَاَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:85 ) یعنی ان کے مال اور اولاد سے کہیں تم دھوکے میں نہ پڑ جانا اللہ انہیں ان کے باعث دنیا میں بھی عذاب کرنا چاہتا ہے اور کفر پر ہی ان کی جان جائے گی پھر فرماتا ہے کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ بعض احکام اور بعض امتحانات سے اللہ جانچ لے گا اور ظاہر کر دے گا کہ اس کا دوست کون ہے؟ اور اس کا دشمن کون ہے؟ مومن صابر اور منافق فاجر بالکل الگ الگ ہو جائیں گے اور صاف نظر آنے لگیں گے ۔ اس سے مراد احد کی جنگ کا دن ہے جس میں ایمانداروں کا صبرو استقامت پختگی اور توکل فرمانبرداری اور اطاعت شعاری اور منافقین کی بےصبری اور مخالفت تکذیب اور ناموافقت انکار اور خیانت صاف ظاہر ہو گئی ، غرض جہاد کا حکم ہجرت کا حکم دونوں گویا ایک آزمائش تھی جس نے بھلے برے میں تمیز کر دی ۔ سدی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے کہا تھا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو ذرا بتائیں تو کہ ہم میں سے سچا مومن کون ہے اور کون نہیں؟ اس پر آیت ( ما کان اللہ ) الخ ، نازل ہوئی ( ابن جریر ) ۔ پھر فرمان ہے اللہ کے علم غیب کو تم نہیں جان سکتے ہاں وہ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ مومن اور منافق میں صاف تمیز ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے پسندیدہ کر لیتا ہے ، جیسے فرمان ہے آیت ( عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا ) 72 ۔ الجن:26 ) اللہ عالم الغیب ہے پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر جس رسول کو پسند کر لے اس کے بھی آگے پیچھے نگہبان فرشتوں کو چلاتا رہتا ہے ۔ پھر فرمایا اللہ پر اس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ یعنی اطاعت کرو شریعت کے پابند رہو یاد رکھو ایمان اور تقوے میں تمہارے لئے اجر عظیم ہے ۔ خزانہ اور کوڑھی سانپ پھر ارشاد ہے کہ بخیل شخص اپنے مال کو اپنے لئے بہتر نہ سمجھے وہ تو اس کے لئے سخت خطرناک چیز ہے ، دین میں تو معیوب ہے ہی لیکن بسا اوقات دینوی طور پر بھی اس کا انجام اور نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ حکم ہے کہ بخیل کے مال کا قیامت کے دن اسے طوق ڈالا جائے گا ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ مال دے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کا مال قیمت کے دن گنجا سانپ بن کر جس کی آنکھوں پر دو نشان ہوں گے طوق کی طرح اس کے گلے میں لپٹ جائے گا اور اس کی باچھوں کو چیرتا رہے گا اور کہتا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ نے اسی آیت ( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَيْرًا لَّھُمْ ) 3 ۔ آل عمران:180 ) کی تلاوت فرمائی ، مسند احمد کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ یہ بھاگتا پھرے گا اور وہ سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا پھر اسے پکڑ کر طوق کی طرح لپٹ جائے گا اور کاٹتا رہے گا ۔ مسند ابو یعلی میں ہے جو شخص اپنے پیچھے خزانہ چھوڑ کر مرے وہ خزانہ ایک کوڑھی سانپ کی صورت میں جس کی دو آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے ان کے پیچھے دوڑے گا یہ بھاگے گا اور کہے گا تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں تیرا خزانہ ہوں جسے تو اپنے پیچھے چھوڑ کر مرا تھا یہاں تک کہ وہ اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی ، طبرانی کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے آقا کے پاس جا کر اس سے اپنی حاجت طلب کرے اور وہ باوجود گنجائش ہونے کے نہ دے اس کے لئے قیامت کے دن زہریلا اژدہا پھن سے پھنکارتا ہوا بلایا جائے گا ، دوسری روایت میں ہے کہ جو رشتہ دار محتاج اپنے مالدار رشتہ دار سے سوال کرے اور یہ اسے نہ دے اس کی سزا یہ ہو گی اور وہ سانپ اس کے گلے کا ہار بن جائے گا ( ابن جریر ) ابن عباس فرماتے ہیں اہل کتاب جو اپنی کتاب کے احکامات کو دوسروں تک پہنچانے میں بخل کرتے تھے ان کی سزا کا بیان اس آیت میں ہو رہا ہے ، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے گو یہ قول بھی آیت کے عموم میں داخل ہے بلکہ یہ بطور اولیٰ داخل ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی میراث کا مالک اللہ ہی ہے اس نے جو تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے اس کے نام خرچ کرو تمام کاموں کا مرجع اسی کی طرف ہے سخاوت کرو تاکہ اس دن کام آئے اور خیال رکھو کہ تمہاری نیتوں اور دلی ارادوں اور کل اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

176۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر اس بات کی شدید خواہش تھی کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں، اسی لئے ان کے انکار اور تکذیب سے آپ کو سخت تکلیف پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمگین نہ ہوں، یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اپنی ہی آخرت ... برباد کر رہے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٤] اس دور میں مسلمانوں کے علاوہ جتنی بھی اقوام تھیں۔ سب ہی اسلام دشمن اور اسے مٹانے کے درپے تھیں خواہ وہ مشرکین مکہ ہوں یا یہود مدینہ، منافقین ہوں یا دیگر قبائل عرب اور یہ سب لوگ اسلام کو کچلنے کے لیے حتیٰ المقدور کوششیں بھی کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ... تمہارا یا اسلام کا کچھ بھی بگاڑنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بس اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ دوسری بات جو آپ کو فی الواقعہ غمزدہ بنا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی کوششوں کے باوجود یہ لوگ اسلام کو سمجھنے اور اس کے قریب آنے یا اسے قبول کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تھے اور اس بات سے آپ سخت پریشان ہوجاتے تھے اور اس بات کا قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ جس کے جواب میں اللہ نے اپنے پیارے نبی کو یہی کہہ کر تسلی دی کہ تمہارا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اب اگر یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تو اس کا وبال انہیں پر ہوگا اور نہ ہی میرا پیغام پہنچا دینے سے آگے آپ کی کوئی ذمہ داری ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کافر اور منافق مختلف طریقوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے رہتے، جس سے آپ طبعی طور پر رنجیدہ خاطر بھی ہوجاتے، خصوصاً غزوۂ احد کے واقعہ کو منافقین نے بہت ہوا دی اور مسلمانوں کو اللہ کی نصرت سے مایوس کرنے کی کوشش کی تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو...  تسلی دی گئی کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کفار اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اس قسم کا رویہ اختیار کر کے خود ہی آخرت کے حصے سے محروم ہو رہے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Previous verses mentioned the treachery and ill-will of the hypo¬crites. The present verses comfort the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asking him not to grieve over the mischief made by the disbelievers for they cannot harm him in any way. The last verse (178) carries a refutation of the false notion about disbelievers: How can they, while obviously prospering in the present world, be reg... arded as victims of Allah&s wrath and rejection?  Show more

ربط آیات : سابقہ آیات میں منفاقین کی بےوفائی، بدخواہی کا ذکر تھا، مذکورہ آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے کہ آپ ان کفار کی حرکتوں سے رنجیدہ اور شکستہ خاطر نہ ہوں، وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، آخری آیت میں اس خیال کا جواب ہے کہ بظاہر تو دنیا میں یہ کفار پھلتے پھولتے نظر آت... ے ہیں تو ان کو مقہور و مغضوب کیسے سمجھا جائے ؟ خلاصہ تفسیر اور آپ کے لئے وہ لوگ موجب غم نہ ہونے چاہئیں جو جلدی سے کفر (کی باتوں) میں جا پڑتے ہیں، (جیسے منافقین کہ ذرا مسلمانوں کا پلہ ہلکا دیکھا تو کھلم کھلا کفر کی باتیں کرنے لگتے ہیں، جیسا کہ واقعات مذکورہ میں معلوم ہوچکا ہے) یقینا وہ لوگ اللہ تعالیٰ (کے دین) کو ذرہ برابر بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے ( اس لئے آپ کو یہ غم تو ہونا نہیں چاہئے کہ ان کی حرکتوں سے اللہ کے دین کو ضرر پہنچ جائے گا اور اگر آپ کو خود ان کافروں کا غم ہو کہ یہ بدنصیب کیوں جہنم کی طرف جا رہے ہیں تو بھی آپ غم نہ کریں) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو (تکوینی طور پر) یہ منظور ہے کہ آخرت میں ان کو کوئی حصہ نہ دے ( اس لئے ان سے موافقت کی امید رکھنا صحیح نہیں، اور رنج وہیں ہوتا ہے جہاں امید ہو) اور (ان کے لئے صرف آخرت کی نعمتوں سے محرومی ہی نہیں بلکہ) ان لوگوں کو سزائے عظیم بھی ہوگی ( اور جس طرح وہ لوگ دین اسلام کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اسی طرح) یقینا جتنے لوگوں نے ایمان (کو چھوڑ کر اس) کی جگہ کفر کو اختیار کر رکھا ہے (خواہ منافق ہوں یا کھلے کافر اور خواہ پاس کے ہوں یا دور کے) یہ لوگ (بھی) اللہ تعالیٰ (کے دین) کو ذرہ برابر ضرر نہیں پہنچا سکتے اور ان کو (بھی پہلے لوگوں کی طرح) دردناک سزا ہوگی، اور جو لوگ کفر کر رہے ہیں وہ یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ ہمارا ان کو (عذاب سے) مہلت دینا (کچھ) ان کے لئے بہتر (اور مفید) ہے (ہرگز نہیں بلکہ) ہم ان کو اس لئے مہلت دے رہے ہیں (جس میں زیارت عمر کی وجہ سے) ان کو جرم میں اور ترقی ہوجائے (تاکہ یکبارگی پوری سزا ملے گی) اور (دنیا میں اگر سزا نہ ہوئی تو کیا ہے آخرت میں تو) ان کو توہین آمیز سزا ہوگی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ۝ ٠ۚ اِنَّھُمْ لَنْ يَّضُرُّوا اللہَ شَـيْــــًٔـا۝ ٠ۭ يُرِيْدُ اللہُ اَلَّا يَجْعَلَ لَھُمْ حَظًّا فِي الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ١٧٦ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ... ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ حظَّ الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] . ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٦) منافقین نے یہود کا ساتھ دے کر جو بےوفائی کی، اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی فرما رہے ہیں کہ منافقین کا یہودیوں کے ساتھ ملنے میں سبقت کرنا آپ کے لیے غم کا باعث نہ ہونا چاہیے۔ یقیناً ان منافقین کا یہودیوں کے ساتھ مل جانے میں سبقت کرنا دین خداوندی کو ذرہ بر... ابر نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ یہود اور منافقوں کو جنت میں قطعا کوئی حصہ نہ دے اور ان کی سختی سے زیادہ اللہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ یہود اور منافقوں کو جنت میں قطعا کوئی حصہ نہ دے اور ان کی سختی سے زیادہ اللہ کہ ہاں ان کی سخت سزا ملے گی ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٦ (وَلاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ ج) مدینہ کے یہود اور مکہ کے مشرکین مسلمانوں کے خلاف ساز باز میں مصروف رہتے۔ کبھی یہودیوں کا کوئی وفد سرداران مکہ کے پاس جاکر کہتا کہ تم مسلمانوں پر چڑھائی کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ کبھی قریش یہودیوں سے رابطہ کرتے۔ گویا آج...  کل کی اصطلاح میں بڑی Diplomatic Activity ‘ ہو رہی تھی۔ ان حالات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اہل ایمان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے رنجیدہ نہ ہوں ‘ ان کی ساری ریشہ دوانیوں کی حیثیت سیلاب کے اوپر آجانے والے جھاگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا ط) (یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ ج) یہ گویا اللہ کے اس فیصلے کا ظہور ہے کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(176 ۔ 180) ۔ کافر اور منافق جب کوئی مخالف کی بات کرتے تھے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا بڑا رنج ہوا کرتا تھا اس لئے اس لڑائی کے موقع سے جب عبد اللہ بن ابی ایک تہائی لشکر لے کر مدینہ واپس چلا آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا رنج ہوا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی او... ر ان میں اپنے رسول کی یوں تسلی فرمائی۔ کہ یہ لوگ اس طرح کی مخالفت کے سبب سے اللہ کے دین کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ بلکہ اس مخالفت کے سبب سے ان ہی کو وقت مقرر پر وہ سخت عذاب بھگتنا پڑے گا جو اللہ کے ارادہ میں ان کے لئے قرار پا چکا ہے اور یہ منکر حکم الٰہی یہ نہ سمجھیں کہ اللہ نے ان کو جیتے جی کچھ مہلت جو دے رکھی ہے اس میں ان کے حق میں کچھ بہتری ہے۔ بلکہ اس طرح کی زیست سے ان کے گناہوں کا تو وہ اور بڑھتا جاتا ہے۔ عقبٰی میں اس کی سب کسر نکل جائے گی رہی لڑائیوں میں اس طرح کی شکست اس سے تو پردہ غیب میں جو بھلے برے ہیں ان کا حال اللہ کے رسول کے ذریعہ سے معلوم ہوجاتا ہے پھر جس طرح ان برے لوگوں کو اپنی جان پیاری پیاری ہے اسی طرح ان کو اپنا مال بھی پیارا ہے جس کے سبب سے حق مال ادا کرنے میں یہ لوگ پہلو تہی کرتے ہیں لیکن یہ مال قیامت کے دن ان کے حق میں بڑا وبال ہوجائے گا۔ صحیح بخاری صحیح ابن حبان وغیرہ میں ابو ہرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں کے مال کا ایک گنجا سانپ طوق کی طرح ان کے گلے میں لپٹیا جائے گا جو سانپ گھڑی گھڑی صاحب مال کو کاٹے گا اور یہ کہے گا اے شخص میں تیرا مال ہوں ١۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:176) حظا۔ حظ (واحد) حظوظ (جمع) حصہ۔ نصیب۔ مقررہ حصہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کافر اور منافق مختلف طریقوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخاطب کرتے رہتے جس سے طبعی طوپر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ خاطر بھی جاتے خصوصا غزوہ احد کے واقعہ کو منافقین نے بہت ہو ادی اور بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نصرت سے مایوس کردیا۔ اس پر آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی ... اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کفار اسلام کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ اس قسم کا رویہ اختیار کر کے خودہی حظوظ آخرت سے محرومی ہو رہے ہیں۔ (رازی، ترجمان )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کی سازشوں اور شیطان کے ساتھیوں کی شرارتوں سے دل گیر نہیں ہونا چاہیے انہیں دنیا اور آخرت میں اذیت ناک سزا ملنے والی ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ منافقوں کے ساتھ درگزر کا رویّہ اختیار کیا اور ہر موقع پر انہیں سمجھاتے رہے تاکہ ان کی دنیا اور آخرت سدھر ج... ائے۔ لیکن وہ سدھرنے کے بجائے شرارتوں اور منافقت میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ آپ کی درگزر اور اعلیٰ ظرفی سے انہوں نے ہمیشہ غلط فائدہ اٹھایا اور ہر نازک موقعہ پر خبث باطن کا اظہار اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز کرتے رہے۔ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کا پلڑا ہلکا رہا جس سے انہیں امید ہوگئی کہ اب مسلمان ختم ہوجائیں گے اس لیے سر عام مسلمانوں سے الگ ہوگئے۔ ان کے منافقت میں آگے بڑھنے اور مسلمانوں سے الگ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دلی رنج پہنچا کہ یہ کیسے ناعاقبت اندیش اور بدنصیب لوگ ہیں ؟ جو سدھرنے کی بجائے نافرمانیوں میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں اس پر آپ کو تسلی دی گئی کہ میرے نبی ! اطمینان خاطر رکھو کیونکہ آپ کا کام تو فقط سمجھانا ہے جس میں آپ نے کسی غفلت کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہ جو چاہیں کرلیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رہے۔ بلاشبہ جو لوگ ایمان کے مقابلے میں کفر کو ترجیح دیتے ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ان کے لیے عظیم اور اذیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ کفار کی سرگرمیاں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ ٢۔ ایمان کے بجائے کفر کو ترجیح دینے والے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

غزوہ احد کے واقعات کا یہ بہترین اختتامیہ ہے ۔ اس لئے کہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تھے اور اس جنگ میں کفار کو فتح اور غلبہ نصیب ہوا تھا ۔ حق و باطل کی کشمکش میں ہمیشہ یہ شبہ پیدا ہوجاتا ہے اور اہل حق کے دلوں میں یہ بات ہمیشہ کھٹکتی ہے یا بعض اوقات کامیابی کی خواہش دلوں میں ابھرتی رہت... ی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں حق کو کامیاب ہی ہونا چاہئے اور اگر کسی جگہ حق کو شکست ہو جس طرح احد میں اور کفر و باطل کو فتح وظفر نصیب ہو تو یہ کیوں ہوتی ہے ؟ یہ جھوٹا شبہ ہوتا ہے اور ہمیشہ دلوں میں اٹھتا رہتا ہے۔ اور انسان کی خواہش کامیابی اسے مسلسل دبارہی ہوتی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اے رب ! حق کو شکست اور باطل کو فتح کیوں ہوتی ہے ؟ اہل حق مصائب میں مبتلاہو رہے ہیں اور اہل باطل نجات پا رہے ہیں اور کامیاب ہورہے ہیں اور اس طرح کیوں نہیں ہوتا کہ جب بھی حق و باطل کی باہم کشمکش ہو تو حق کو فتح نصیب ہو اور وہ غلبہ اور غنیمت لے کر واپس ہو ؟ کیا حق اور سچائی اس بات کی مستحق نہیں ہے کہ اسے فتح نصیب ہو اور باطل کے لئے یہ قوت اور یہ رعب کیوں ہے کہ حق کے ساتھ ٹکراؤ میں اسے ایسی کامیابیاں ہوتی ہیں جس سے اہل حق کے دلوں میں فتنے پیدا ہوتے ہیں اور ان کے دل متزلزل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ سوالات عملاً اس وقت سامنے آئے جب احد کے دن اہل ایمان نے نہایت ہی تعجب اور سراسیمگی میں یہ سوال کیا کہ اَنّٰی ھٰذَا ؟…………… ” یہ کیسے ہوگیا “………لہٰذا اس آخری اختتامیہ میں اس کا آخری جواب دیا جاتا ہے ۔ آخری اور فیصلہ کن بات کردی جاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ پریشان دلوں کو سکون فراہم فرمادیتے ہیں اور اس پہلو سے جو بڑا وسوسہ بھی دلوں کے اندر راہ پاتا ہے ‘ اسے صاف کردیا جاتا ہے ۔ اللہ کی سنت کا بیان ہوتا ہے ۔ اللہ کی سنت کے تحت اس کی تقدیروں کا بیان ہوتا ہے اور پھر ان تمام سنن اور تقدیروں کے پیچھے جو اس کی وسیع تر تدبیر اور حکمت کارفرماہوتی ہے ‘ وہ بھی بتادی جاتی ہے اور یہ حکمت کل بھی تھی ‘ آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی۔ اور ہر اس جگہ ہوگی جہاں حق و باطل کی کشمکش ہو اور احد جیسے نتائج نکلیں۔ دنیا کے کسی معرکے سے باطل کا فتح مندی کے ساتھ نکل کر چلاجانا اور ایک وقت کے لئے اس کا پھول جانا اور طاقتور نظر آنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بس اللہ تعالیٰ نے اسے کھلی چھٹی دے دی ہے ۔ یا یہ کہ وہ اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ اس پر اب غلبہ نہیں پایا جاسکے گا یا یہ کہ باطل ہمیشہ کے لئے حق کے لئے مضر ہی رہے گا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسی معرکے میں سچائی کا شکست اور مصائب میں مبتلا ہوکر نکلنا یا سچائی کا کسی دور میں ضعف کا شکار ہوجانا ‘ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کوئی انصاف فرما رہے ہیں یا اللہ نے حق کو بھلادیا یا اس نے باطل کو آزاد چھوڑدیا کہ وہ سچائی کو بیخ وبن سے اکھاڑکر تباہ کردے۔ یوں ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ یہ تو اللہ کی گہری حکمت اور تدبیر ہوتی ہے جو ہر جگہ اپنا کام کررہی ہوتی ہے ۔ کبھی حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باطل کو مہلت دی جائے اور وہ اپنی آخری سرحد تک پہنچ جائیں ۔ وہ اپنے تمام برے نتائج ظاہر کریں ‘ وہ لوگوں پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیں اور آخر کار وہ اس بات کے مستحق ہوجائیں کہ ان پر سخت سے سخت حملہ کیا جائے اور پھر حق کو آزمائش میں اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ حق و باطل کے درمیان فرق ہوجائے ۔ طیب اور خبیث کے اندر امتیاز ہوجائے ‘ اور ان آزمائشوں میں جو لوگ ثابت قدم رہیں انہیں عظیم اجر ملے اور وہ ممتاز مقام کے مستحق ہوجائیں ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ صورت حال سچائی کے لئے کمائی ہے اور باطل کے لئے خسارہ ہے ۔ ادہر یہ کمائی زیادہ سے زیادہ ہورہی ہو تو ادہر خسارہ زیادہ سے زیادہ ہورہا ہے۔ وَلا ﻳَﺤۡﺴَﺒَﻦَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لأنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ” اے پیغمبر جو لوگ کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں۔ یہ اللہ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے ۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ‘ اور بالآخر ان کو سخت سزاملنے والی ہے۔ “ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے ‘ اس کے ذریعہ آپ کے غبار خاطر کو دور کیا جارہا ہے جو آپ کے دل پر ان واقعات کی وجہ سے تھا۔ آپ اس سے بےحد دلگیر تھے کہ جو لوگ کفر میں غلامی کررہے ہیں وہ کفر میں سرپٹ بھاگے جارہے ہیں ۔ وہ نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ گویا ان کے لئے کوئی ہدف مقرر ہے اور انہوں نے اسے حاصل کرنا ہے۔ یہ ایسے الفاظ ہیں اور ایسی تعبیر ہے ‘ جن کے ذریعہ ان کی حقیقی نفسیاتی حالت کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ اکثر اوقات نظرآتا ہے کہ بعض لوگ کفر میں متشدد ہوتے ہیں ۔ وہ باطل ‘ شر اور اللہ کی نافرمانی کو اپنا نصب العین بنالیتے ہیں ۔ اس طرح کہ گویا انہوں نے اس کے مقابلے میں گول تک پہنچنا ہے ۔ اس لئے ایسے لوگ نہایت قوت ‘ نہایت جرأت اور نہایت ہی تیزی سے آگے بڑھتے ہیں ‘ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید پیچھے سے انہیں کوئی دھکیل رہا ہے کہ آگے بڑھو یا آگے سے کوئی انہیں پکار رہا ہے کہ جلدی پہنچو یہ ہے تمہارا انعام ۔ آپ کا یہ غبار خاطر اور رنج وغم اللہ کی اس مخلوق کے لئے تھا ۔ آپ حسرت سے انہیں دیکھتے تھے کہ یہ لوگ آستین چڑھائے آگ کی طرف تیزی سے گامزن ہیں اور آپ وہ قوت نہیں پا رہے کہ انہیں بزور بازو روک دیں ۔ یہ لوگ اللہ کی طرف سے بار بار کے ڈراوے کی طرف بھی کان نہیں دھرتے ۔ پھر آپ اس سے بھی پریشان ہوتے ہیں کہ یہ لوگ جو آستین چڑھائے جہنم کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں ‘ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مصیبت میں مبتلا نہیں کررہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اہل اسلام کے لئے بھی رنج والم اور درد ودکھ کا باعث بن رہے ہیں ۔ یہ لوگ دعوت اسلامی کو بھی دکھ دے رہے ہیں اور جمہور کے اندر اس کے پھلاؤ کو بھی روک رہے ہیں ۔ اس لئے کہ جمہور عربب یہ دیکھ رہے تھے کہ مدینہ اور مکہ کی معرکہ آرائی کا انجام کیا ہوتا ہے تاکہ وہ بھی اس صف میں شامل ہوجائیں جس کا مستقبل روشن ہو۔ جب قریش مسلمان ہوگئے اور انہوں نے سرتسلیم خم کرلیا تو تمام لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوگئے ۔ اور اس بات میں شک نہیں کہ اس صورت حال کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر اثرات تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطمئن کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔ آپ کو تسلی دی گئی اور آپ کے غبار خاطر کو دور کیا گیا۔ وَلا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ” اے پیغمبر جو لوگ آج کفر کی راہ میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں۔ یہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ “……یہ کمزور بندے اس جو گے نہیں ہوسکتے کہ وہ اللہ کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ اور یہ بات محتاج بیان ہی نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ نظریاتی جنگ نظریاتی رہے اور مشرکین کے ساتھ معرکہ اپنی جگہہ رہے ۔ اور یہ خود اس کی جنگ اور اس کا معرکہ رہے ۔ اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھوں سے اس ذمہ داری کو اٹھالیا جاتا ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری نہیں رہتی کہ وہ لوگوں کے نظریات تبدیل کرنے کے پابند ہوں ۔ جو لوگ کفر کے اندر تیزی دکھا رہے ہیں وہ درحقیقت اللہ کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اور اللہ کے ساتھ اس جنگ میں انہیں ہرگز کامیابی نہیں ہوسکتی ‘ اس لئے کہ وہ اس ذات باری کے مقابلے میں بہت ہی ضعیف ہیں ۔ لہٰذا وہ دعوت اسلامی کو مآل کار کوئی ضرر نہیں پہنچاسکتے ۔ اور اس سے نتیجہ خود بخود نکل آتا ہے کہ وہ ان حاملین دعوت اسلامی کو بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں جنہیں وہ اس وقت شکست خوردہ سمجھتے ہیں ۔ چاہے جس قدر بھی وہ سرعت دکھائیں اور جس قدر بھی وہ اہل دعوت کو اذیتیں دے دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں یہ کھلی چھٹی کیوں دے رکھی ہے کہ وہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں اور اپنے غلبہ کی وجہ سے پھولے نہ سمائیں ۔ حالانکہ وہ اللہ کے براہ راست دشمن ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ نے ان کے لئے نہایت ہی برا اور نہایت ہی رسواکن انجام تیار کررکھا ہے۔ يُرِيدُ اللَّهُ أَلا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الآخِرَةِ……………” اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ۔ “ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اپناتمام سرمایہ یہاں ہی ختم کردیں اور اپنے تمام گناہوں کو اٹھائے ہوئے ہوں اور آخرت میں تمام عذاب کے سزاوار ہوجائیں اور یہ کفر کی راہ میں تیزی سے آگے بڑھ کر اپنی آخری منزل تک پہنچ جائیں ۔ اس لئے کہ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ……………” ان کے لئے بڑا عظیم عذاب ہے ۔ “ اور ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس شرمناک انجام کا ارادہ کیوں کرلیا ہے ؟ اس لئے کہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے ایمان کے بدلے میں کفر خرید کر اپنے آپ کو اس کا مستحق بنالیا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو لوگ تیزی کے ساتھ کفر میں گرتے ہیں ان کے عمل سے رنجیدہ نہ ہوں اس آیت میں حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پاک نے تسلی دی ہے، خطاب تو آپ کو ہے لیکن تسلی کے مضمون میں تمام مسلمان شریک ہیں مطلب یہ ہے کہ جو لوگ تیزی کے ساتھ کفر میں گر رہے ہیں اور کفر انہیں خوب زیادہ مرغوب ہے ان کی حرک... توں اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف ان کی کوششوں سے رنجیدہ نہ ہوں اور یہ اندیشہ نہ کریں کہ یہ لوگ آپ کو نقصان پہنچا دیں گے اور آپ کے مقابلہ میں دوسروں کی مدد کردیں گے۔ قال صاحب الروح صفحہ ١٣٣: ج ٤ والمراد لا یحزنک و خوف ان یضروک و یعینوا علیک۔ حضرت مجاہد تابعی (رح) نے فرمایا ہے کہ (الذین یسار عون فی الکفر) سے یہاں منافقین مراد ہیں جنہوں نے غزوہ احد میں شرکت نہیں کی، اور حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ اس سے تمام کفار مراد ہیں، آیت نازل ہونے کے وقت خواہ منافقین ہی مراد ہوں لیکن مضمون عام ہے، تمام کافروں کی ہر قسم کی حرکتیں سامنے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کو غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ کافر تیزی کے ساتھ کفر میں پڑتے ہیں، اور اسلام کے خلاف کافرانہ سازشیں کرتے ہیں یہ لوگ اللہ کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے، صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہاں مضاف مقدر ہے، مطلب یہ ہے کہ لن یضروا اولیاء اللہ شیئا اور بعض اکابر نے یہاں لفظ ” دین “ کو مقدر مانا ہے ای لن یضروا دین اللہ شیئا یعنی یہ لوگ اللہ کے دین کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے کافروں کی سازشیں ہمیشہ سے رہیں اور برابر رہیں گے، مومن بندے غمگین نہ ہوں کیونکہ دشمن کو تو دشمنی کرنی ہی ہے لیکن ان کی دشمنی سے اللہ کو کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا وہی تمہارا مددگار ہے، لہٰذا اسی پر بھروسہ کرو اور اس سے مدد مانگو۔ دشمن جو تیزی سے کفر میں گر رہے ہیں اور اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کا ذرا سا حصہ بھی نہ ہو ظاہری دنیا کے اعتبار سے ان کو غلط فہمی ہے کہ ہم اچھے رہے کہ اسلام قبول نہ کیا اور اپنے جان و مال کو بچا لیا۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ آخرت کے منافع سے بالکل محروم ہوگئے بلکہ وہ وہاں بڑے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

268 یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کافروں کے لیے تخویف اخروی ہے اَلَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ سے مراد وہ منافقین ہیں جنہوں نے جنگ احد کے موقع پر اپنے قول وعمل سے کھلم کھلا کفر کا اظہار کردیا تھا۔ ولمراد بالموصول المنافقون من المتخلفی (ابو السعود ج 3 ص 148) ۔ ادھر ... مسلمانوں کو معمولی سی شکست ہوئی ادھر وہ علانیہ کفر میں جا پڑے اور الٹے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگے۔ یہاں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان منافقین کے علانیہ کفر میں پڑنے پر غم کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن یہ مناسب نہیں کیونکہ کفر قبیح ہے اور اس پرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غمگین ہونا آپ کی شان رحمت اور حرص علی الایمان کے عین مطابق تھا۔ بلکہ یہاں آپ کو اس خوف پر غم کرنے سے منع فرمایا کہ یہ منافقین جواب علانیہ کفر کا اظہار کر رہے ہیں کہیں دوسرے کافروں سے مل کر مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کریں اور انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ جیسا کہ اِنَّھُمْ لَنْ یَّضُرُّوْ اللہَ شیْئاً اس پر دال ہے والمراد لا یحزنک خوف ان یضروک و یعینوا علیک ویدل علی ذالک ایلاء قولہ تعالیٰ اِنَّھُمْ لَنْ یَّضُرُّوْا اللہَ شَیْئاً (روح ج 4 ص 133) ۔ اِنَّھُمْ لَنْ یَضُرُّوْ اللہَ شَیْئاً ۔ یہاں لَنْ یَّضُرُّوْا کے بعد مضاف محذوف ہے ای لن یضروا بذالک اولیاء اللہ البتۃ (ابو السعود ج 3 ص 148) ۔ یعنی وہ اللہ کے دوستوں (حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہ مذکورہ نہی کی علت اور تسلی کی تکمیل ہے۔ یرید اللہ ان لا یجعل لھم خطا فی الاخرۃ۔ یعنی ان کے کفر میں دوڑ دوڑ کر گرنے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت مضمر ہے کہ دنیا میں وہ اپنے اعمالنامے خوب سیاہ کرلیں اور جو کچھ نیکی ان کے پلے میں ہے اس کا بدلہ ان کو دنیا ہی میں دے دیا جائے اور آخرت میں ان کے لیے صرف عذاب عظیم ہو اور اجر وثواب میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔ ای حکمتہ فیھم انہ یرید بمشیئتہ و قدرتہ ان لا یجعل لھم نصیبا فی الاخرۃ (ابن کثیر ج 1 ص 432) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور اے پیغمبر آپ کو وہ لوگ آزردہ خاطر نہ کریں اور آپ کے لئے ایسے لوگ موجب حزن و ملال نہ ہوں جو دوڑ دوڑ کر کفر کی باتوں میں ج اگر تے ہیں اور کفر کی طرفجانے میں جلدی کرتے ہیں جیسے منافق کہ ذرا کافروں کی کوئی بات اونچی ہوئی اور لگے کھلے کھلا کفر کی حمایت کرنے یہ جلد باز لوگ اللہ تعالیٰ کو یعنی اس ک... ے دین کو یقینا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ آخرت میں ان کو بالکل کوئی حصہ نہ دے اور اس محرومی کے ساتھ ساتھ ان کو بڑا ہی سخت عذاب ہوگا اور بڑی سخت سزا ان کو دی جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی منافق لوگ جہاں مسلمانوں کی نیچ دیکھی اور کفر کی باتیں کرنے لگے ۔ (موضح القرآن) آیت کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کے اس کھل جانے سے جس کو قرآن نے یسارعون فی الکفر سے تعبیر کیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قلق ہوتا ہوگا اور آپ کا قلق اور ملال طبعاً محض اس بنا پر ہوتا ہوگا کہ اس سے دین کو نقصان پہنچے گا اور دوسرے مسلمانوں پر برا اثر پڑے گا اس سے آپ کو مطمئن فرمایا کہ اللہ کے دین کو یہ لوگ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور جب دین کی طرف سے ہم آپ کو مطمئن کر رہے ہیں تو اب تم ملول خاطر نہ ہو کیونکہ جس ضرر سے تم نریدہ ہوتے ہو اس سے ہم تم کو اطمینان دلا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ تکوینی طور پر ایک اور بات فرمائی جس کو یرید اللہ سے تعبیر کیا ۔ یہاں ارادہ یا چانا اس معنی میں نہیں کہ اس کو یہ بات پسند ہے یا اس کی مرضی کے موافق ہے بلکہ وہی بات ہے جو ہم شروع میں عرض کرچکے ہیں کہ مریض کی بدپرہیزی کا یہ تکوینی اثر ہے کہ طبیب مطلق اس سے دستکش ہوجائے اور جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مریض ابدی طور پر روحانی زندگی سے محروم ہوجائے اور کفر کی موت مرجائے۔ ہم بار بار اس مر کو صاف کرچکے ہیں کہ ہر بری بات کا ایک اثر ہوتا ہے بعینیہ جس طرح ہر بد پر ہیزی کا ایک اثر ہوتا ہے … بد پرہیزی کا انتہائی اثر موت ہے اور روحانی بد پرہیزی کا اثر آخرت کے اجر وثواب سے محرومی ہے یہ اصل حقیقت ہے گناہ اور اس کے انجام کی اور اسی کو فرمایا ہے۔ یرید اللہ الا یجعل لھم حظا فی الاخرۃ اسی کو اللہ تعالیٰ کی صفت اضلال کے مظہر سے تعبیر کرتے ہیں اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے۔ جب نافرمانی کے خوگر ہو گے اور بد پرہیزی سے باز نہ آئو گے تو نتیجہ یہی ہوگا اور روحانی زندگی سے محروم ہو جائو گے پھر فرمایا صرف حرمان نصیبی ہی نہیں بلکہ ایسے اشقیا اور بدنصیبوں کے لئے عذاب عظیم بھی ہے آگے پھر اسی کی تفصیل و تاکید ہے۔ (تسہیل)  Show more