Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 178

سورة آل عمران

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ خَیۡرٌ لِّاَنۡفُسِہِمۡ ؕ اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۱۷۸﴾

And let not those who disbelieve ever think that [because] We extend their time [of enjoyment] it is better for them. We only extend it for them so that they may increase in sin, and for them is a humiliating punishment.

کافر لوگ ہماری دی ہوئی مُہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں یہ مُہلت تو اس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں ان ہی کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And let not the disbelievers think that Our postponing their punishment is good for them. We postpone the punishment only so that they may increase in sinfulness. And for them is a disgraceful torment. This statement is similar to Allah's other statements, أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that because We have given them abundant wealth and children, (that) We hasten unto them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55-56) and, فَذَرْنِى وَمَن يُكَذِّبُ بِهَـذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ Then leave Me Alone with such as belie this Qur'an. We shall punish them gradually from directions they perceive not. (68:44) and, وَلاَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَأَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِى الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَـفِرُونَ And let not their wealth or their children amaze you. Allah's plan is to punish them with these things in this world, and that their souls shall depart (die) while they are disbelievers. (9:85) Allah then said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

178۔ 1 اس میں اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے) کا بیان ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق کافروں کو مہلت عطا فرماتا ہے، وقتی طور پر انہیں دنیا کی فراغت و خوش حالی سے، فتوحات سے، مال اولاد سے نوازتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ان پر اللہ کا فضل ہو رہا ہے لیکن اگر اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے والے نیکی اور اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو یہ دنیاوی نعمتیں، فضل الٰہی نہیں، مہلت الٰہی ہے۔ جس سے ان کے کفر و فسوق میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بالآخر وہ جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق قرار پاجاتے ہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ مثلاً (اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55؀ۙ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ 56؀) 023:055، 056 " کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کے مال و اولاد میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ہم ان کے لیے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ "

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٥] معاندین اسلام بالخصوص مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر تم فی الواقعہ سچے نبی ہو تو جو سلوک ہم تم سے کر رہے ہیں۔ اس بنا پر تو اب تک ہم پر کوئی عذاب آجانا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس نہ صرف یہ کہ ہم پر کوئی عذاب نہیں آیا۔ بلکہ اللہ ہمیں اپنی نعمتوں سے نواز بھی رہا ہے۔ اسی بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں دیا ہے کہ ہم انہیں اس لیے مہلت دیئے جارہے ہیں کہ جتنے یہ زیادہ سے زیادہ گناہ اور سرکشی کے کام کرسکتے ہیں، کرلیں۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رسوائی اور ذلت والے عذاب سے دوچار ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فرمایا، ہم جو کافروں کی عمریں لمبی کرتے چلے جا رہے ہیں اور انھیں ان کے حال پر چھوٹ دے رہے ہیں، مال، اولاد اور دنیا کی نعمتیں وافر دے رہے ہیں، تو کیا یہ سب کچھ ان کے لیے بہتر ہے ؟ نہیں، بلکہ یہ ان کے لیے بہت برا ہے، کیونکہ اس سے ان کے گناہوں میں اضافہ ہوگا، ان کے خلاف حجت مضبوط ہوگی، بلکہ دنیا میں بھی یہ سب کچھ ان کے لیے عذاب کا باعث بنے گا، دیکھیے سورة مومنون (٥٥، ٥٦) ، سورة قلم (٤٤) اور سورة توبہ (٥٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Material affluence of disbelievers is, after all, an extension of Divine punishment Let there be no doubt about the worldly wellbeing of disbelievers for one may be tempted to believe that since Allah Almighty has given respite, long life, security and comfort to disbelievers so that they go on increasing in their crimes, they should, then, be taken as innocent. Far from it, because the verse means that Muslims should not feel upset about this temporary respite and affluence given to disbelievers as all this worldly wealth and power in their hands - despite their disbelief and disobedience - is nothing but a form of the very punishment destined for them. Today, they do not realize it. But, once they leave the mortal world, they would. They would discover to their dismay that all those articles of comfort they acquired and spent in sin were, in reality, the very embers of Hell. This is corroborated by several other verses of the Qur&an. For instance, (Allah intends to punish them with it – 9:55) which means that the wealth and power of disbelievers and their vulgarly luxurious consu¬merism should not be a matter of pride for them for this is nothing but an installment of that very punishment from Allah which will cause their punishment in the Hereafter to increase.

معارف و مسائل کفار کی دنیوی عیش و عشرت بھی درحقیقت عذاب ہی کی تکمیل ہے :۔ یہاں کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مہلت اور عمر دراز اور عافیت و راحت کے سامان اس لئے دیئے ہیں کہ وہ اپنے جرم میں اور بڑھتے جائیں تو پھر کفار بےقصور ہوئے، کیونکہ مقصود آیت کا یہ ہے کہ کفار کی اس چند روزہ مہلت اور عش و عشرت سے مسلمان پریشان نہ ہوں، کیونکہ باوجود کفر و عصیان کے ان کو دنیوی قوت، طاقت، سامان دنیا یہ بھی ان کے عذاب ہی کی ایک صورت ہے، جس کا احساس آج نہیں اس دنیا سے جانے کے بعد ہوگا کہ یہ دنیا کا سامان راحت جو انہوں نے گناہوں میں خرچ کیا، درحقیقت جہنم کے انگارے تھے، جیسا کئی آیتوں میں خود حق تعالیٰ نے فرمایا : انما یرید اللہ لیعذبھم بھا (٩: ٥٥) یعنی کفار کے اموال اور عیش و عشرت ان کے لئے کو فخفر کرنے کی چیز نہیں، یہ تو اللہ کی طرف سے عذاب ہی کی ایک قسط ہے، جو ان کے عذاب آخرت بڑھانے کا سبب ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝ ٠ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝ ٠ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝ ١٧٨ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ملي الْإِمْلَاءُ : الإمداد، ومنه قيل للمدّة الطویلة مَلَاوَةٌ من الدّهر، ومَلِيٌّ من الدّهر، قال تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] وتملّيت دهراً : أبقیت، وتملّيت الثَّوبَ : تمتّعت به طویلا، وتملَّى بکذا : تمتّع به بملاوة من الدّهر، ومَلَاكَ اللهُ غير مهموز : عمّرك، ويقال : عشت مليّا . أي : طویلا، والملا مقصور : المفازة الممتدّة والمَلَوَانِ قيل : اللیل والنهار، وحقیقة ذلک تكرّرهما وامتدادهما، بدلالة أنهما أضيفا إليهما في قول الشاعر نهار ولیل دائم ملواهما ... علی كلّ حال المرء يختلفان فلو کانا اللیل والنهار لما أضيفا إليهما . قال تعالی: وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] أي : أمهلهم، وقوله : الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] أي : أمهل، ومن قرأ : أملي لهم «3» فمن قولهم : أَمْلَيْتُ الکتابَ أُمْلِيهِ إملاءً. قال تعالی: أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] . وأصل أملیت : أمللت، فقلب تخفیفا قال تعالی: فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ، وفي موضع آخر : فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] . ( م ل ی ) الا ملاء کے معنی امداد یعنی ڈھیل دینے کے ہیں اسی سے ملا وۃ من الدھر یا ملی من الدھر کا محاورہ ہے جس کے معنی عرصہ دراز کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ تملیت الثوب میں نے اس کپڑا سے بہت فائدہ اٹھایا ۔ تملیٰ بکذا اس نے فلاں چیز سے عرصہ تک فائدہ اٹھا یا ۔ ملاک اللہ ( بغیر ہمزہ ) اللہ تیری عمر دراز کرے ۔ چناچہ اسی سے غشت ملیا کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تم عرصہ دراز تک جیتے رہو ۔ الملا ( اسم مقصود ) وسیع ریگستان ۔ بعض نے کہا ہے کہ الملوان کے معنی ہیں لیل ونہار مگر اصل میں یہ لفظ رات دن کے تکرار اور ان کے امتداد پر بولا جاتا ہے ۔ کیونکہ لیل ونہار کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 413 ) مھار ولیل دائم ملوا ھما علیٰ کل جال المرء یختلفان رات دن کا تکرار ہمیشہ رہتا ہے اور ہر حالت میں یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ملوان کا اصل لیل ونہار ہوات تو ان کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال نہ ہوتا اور آیت کریمہ : ۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں ۔ میری تدبیر ( بڑی ) مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی ( بڑی مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی مہلت دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] کہ ہم ان کو مہلے دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] طول ( عمر کا وعدہ دیا ۔ میں املا کے معنی امھل یعنی مہلت دینے کے ہیں ۔ ایک قراءت میں املا لھم ہے جو املیت الکتاب املیہ املاء سے مشتق ہے اور اس کے معنی تحریر لکھوانے اور املا کروانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور وہ صبح شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اصل میں املیت املک ( مضاف ) ہے دوسرے لام کو تخفیف کے لئے یا سے تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ هان الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٨) منافقین کو ان کے کفر میں جو اللہ تعالیٰ عذاب کے نازل کرنے سے کچھ مہلت دے رہے ہیں، اس کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ منافقین ویہود اس سے یہ نہ سمجھیں کہ ہم انھیں مہلت دے رہے ہیں اور اموال اولاد دے رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس لیے دے رہے ہیں تاکہ جرم اور گناہ میں اور ترقی ہوجائے اور ایک بارپوری پوری سز مل جائے اور روزانہ اور ایک ایک گھڑی کے بعد آخرت میں ان کو ذیل و خوار کیا جائے گا، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ احد کے دن یہ آیات مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٨ (وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِہِمْ ط) ُ کافروں کو مہلت اس لیے ملتی ہے کہ وہ اپنے کفر میں اور بڑھ جائیں تاکہ اپنے آپ کو برے سے برے عذاب کا مستحق بنا لیں۔ اللہ ان کو ڈھیل ضرور دیتا ہے ‘ لیکن یہ نہ سمجھو کہ یہ ڈھیل ان کے حق میں اچھی ہے۔ (اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْآ اِثْمًاج ) ہم تو ان کو صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور اضافہ کرلیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:178) انما۔ بیشک۔ تحقیق۔ بجز اس کے نہیں ۔ ان۔ حرف مشبہ بالفعل ما کافہ ہے حصر کے معنی دیتا ہے اور ان کو عمل سے روکتا ہے۔ انما۔ ایضاً ۔ نملی مضارع جمع متکلم ۔ املائ۔ مصدر۔ ملی مادہ (باب افعال) ہم ڈھیل دیتے ہیں ۔ ہم مہلت دیتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی مفید نہیں ہے بلکہ اس طرح کی زندگی سے ان کے کنارہ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، قیامت کے دن سب کو کسر نکل جائے گی۔ (ترجمان) جنگ احد میں کفر و نفاق اور ایمان و اخلاص الگ ہو کر سامنے آگئے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں اس آیت کا تعلق بھی قصئہ احد سے ہے۔ جنا نچہ اس حادثہ میں قتل وہزمیت پھر دشمن کا تعاقب اور اس کے بعد ابو سفیان کے چیلنج کے جواب میں بدر الصغریٰ کا غزوہ وغیرہ سب ایسے واقعات تھے جن سے کفر و نفاق اور ایمان وخلاص الگ الگ ہو کر سامنے آگئے اور مومن اور منافق میں امتیاز ہوگیا ج۔ چونکہ منافقین کامو منوں کے ساتھ ملاجلا ہنا حکمت الہی کے خلاف تھا اس لیے یہ تمام واقعات پیش آئے (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 178 تا 180 نملی (ہم ڈھیل دیتے ہیں) لیزدادوا (تاکہ وہ بڑھ جائیں) لیذر (البتہ وہ چھوڑے) حتی یمیز (جب تک وہ جدا نہ کردے) الخبیث (گندگی) الطیب (پاکیزگی) لیطلعکم (تاکہ وہ تمہیں بتادے) یجتبی (وہ منتخب کرتا ہے) یبخلون (وہ کنجوسی کرتے ہیں) سیطوقون (عنقریب وہ طوق پہنائے جائیں گے) میراث (ملکیت) ۔ تشریح : آیت نمبر 178 تا 180 کفار اپنی عیش و عشرت کی زندگی پر فخر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جب ہم اس دنیا میں اس قدر عیش و آرام کے ساتھ ہٰن تو آخرت میں بھی ہم اس سے زیادہ راحت و آرام میں ہوں گے۔ اگر اللہ ہم سے ناراض ہوتا تو کیا ہمیں یہ عیش و آرام نصیب ہوتا یقیناً اللہ ہم سے بہت خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دنیاوی عیش و عشرت اللہ کے خوش ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ تو ان کے لئے ڈھیل ہے جو اس نے ان کفار کو دے رکھی ہے۔ اس سے ان کو یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ اللہ نے ان کو یہ مہلت اس لئے دے رکھی ہے تاکہ وہ اپنے کفر اور جرم میں خوب آگے بڑھ جائیں اور گناہوں میں خوب ترقی کرتے چلے جائیں تب ایک دن اللہ ان کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ جس سے بچنا ممکن ہی نہ ہوگا۔ وہ کفار سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی عزت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ ان کے لئے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب تیار ہے۔ تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ وہ عذاب ان کو دنیا میں بھی مل سکتا ہے اور آخرت میں بھی۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مسلمانوں پر غزوۂ احد میں جو مصائب اور مشکلات پیش آئی ہیں اس میں بھی بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ کیونکہ اب بھی مسلمانوں کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن حالات کی شدت انکے دلی جذبات کو کھول کر رکھ دیگی۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ منافقوں کے نام بتاکر مسلمانوں سے انکو علیحدہ کرادیتا لیکن اس کی حکمت ومصلحت کا تقاضا تھا کہ وہ ایسے حالات پیدا کردے جس سے کھرا اور کھوٹا کھل کر سامنے آجائے۔ ان آیتوں میں اہل ایمان کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ وہ مشکلات سے نہ گھبرائیں بلکہ ان مشکلات میں ڈالے جانے کی بہت سی مصلحتیں ہیں کیونکہ منافق کبھی بھی مشکلات میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ وہ تو دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے مومنوں میں شامل ہوا ہے۔ اگر اس کے مفاد پر ضرب پڑے گی تو وہ کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ نہ رہے گا۔ لہٰذا فرمایا گیا ہے کہ یہ حالات اس لئے لائے گئے تاکہ ایک پاک طینت اور ایک بدباطن کھل کر سامنے آجائے ۔ فرمایا گیا کہ اگر ایمان پر قائم رہے اور اللہ کا تقوی اختیار کئے رہے تو دنیا وآخرت میں تمہارے لئے بہت زیادہ اجر وثواب ہے۔ ان آیتوں میں تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ یہ منافقین جس طرح اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے بھاگتے ہیں اسی طرح اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے ساے بھی جی چراتے ہیں لیکن جس طرح جہاد سے بچ کر دنیا کی چند روزہ زندگی کی مہلت حاصل کرنا ان کے حق میں کچھ بہتر نہیں ہے ایسے کنجوسی اختیار کرکے بہت سا مال اکٹھا کرلینے میں بھی ان کے لئے کوئی فائدہ مند بات نہیں ہے۔ اگر بالفرض دنیا میں کوئی مصیبت پیش نہ آئی تو قیامت کے دن یقیناً یہ جمع کیا ہوا مال جو کنجوسی سے جمع کیا گیا تھا عذاب کی صورت میں ان کے گلے کا ہار بن کررہے گا لہٰذا وقتی مفادات میں زندگی گذارنا کسی کے لئے بھی مفید نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس آیت سے کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسی لیے مہلت دی ہے کہ اور زیادہ جرم کرنے سے عذاب کیوں ہوگا اصل سبب امہال کا زیادہ عقوبت ہے لیکن اس سبب کے سبب یعنی ازدیار اثم کو جو باختیار عبد ہے قائم مقام سبب بغرض افادہ بلاغت کلام کردیا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیا کی بجائے کافر کو آخرت میں مکمل سزا دینا، کفریہ کاموں میں ان کا جلدی کرنا، احد میں معمولی کامیابی حاصل کرلینا یہ مہلت دینے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دل بھر کر گناہ کرلیں تاکہ قیامت کو انہیں ٹھیک ٹھیک سزادی جائے۔ اُحد میں کفار مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار تھے اور منافق ہمدرد اور خیر خواہ بن کر ان کے حق میں خفیہ کردار ادا کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے کبھی کافروں کے کردار پر تنقید کی جاتی ہے اور کبھی منافقوں کے روییّ کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ بسا اوقات منافقوں کے کردار اور اعتقاد کی بنا پر ان کے لیے بھی کفر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس فرمان میں منافق اور کافر دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ تاہم کفار کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر احد میں تھوڑی سی کامیابی اور دنیا میں تمہیں کچھ مہلت میسر ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو مہلت دیے جا رہے ہیں اس میں تمہارے لیے کوئی خیر ہوسکتی ہے۔ اگر اللہ کی گرفت سے بچے ہوئے ہو تو اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان حرکتوں سے بیخبر ہے یا اس کی دسترس سے تم باہر ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری رسی ڈھیلی اور دراز کر رکھی ہے تاکہ گناہ کرنے میں تمہیں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ جب اللہ تعالیٰ گرفت کی رسی کھینچے گا تو وہ تمہاری گردن میں اس طرح پھندا بن جائے گی جس سے چھٹکارا پانا ممکن نہ ہوگا اور کافر ہمیشہ کے لیے ذلیل کردینے والے عذاب میں سزائیں بھگتتے رہیں گے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہمیشہ کسمپرسی کی حالت میں اور منافقوں کو ان کے ساتھ خلط ملط رہنے دے بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جس سے منافق الگ ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ احد میں ہوا۔ یہاں مومنوں کے وجود اور کردار کو طیب اور منافقوں کے کردار کو خبیث کہا گیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مومن کتنے عمدہ ‘ پاک اور منافق کس قدر گندے ہیں۔ اللہ کے ہاں یہ بھی درست نہیں کہ وہ ہر کسی کو اپنی تقدیر یعنی امور غائب سے مطلع کرتا رہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بھید پانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی اطلاع کے لیے پیغمبروں کو منتخب کر رکھا ہے۔ ان میں بھی جس پیغمبر کو جتنا چاہا امور غیب سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اگر کافر اور منافق بھی ایمان لائیں تو ایمانداروں کی طرح یہ بھی اجر عظیم پائیں گے۔ بعض لوگ پیروں ‘ فقیروں اور علماء کے حوالے سے ایسے واقعات لکھتے اور بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ بھی غیب کے واقعات جانتے تھے۔ یہاں دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے ان کے بھی درجنوں واقعات ہیں کہ وہ غیب کا علم ہرگز نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کرام خود تو غیب کا علم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں عطائی علم غیب ضرور تھا۔ عطائی کا معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا اور عطا کردہ علم۔ علم غیب کی یہ تعریف بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انبیاء یا کسی کو کوئی بات بتلا دے تو وہ غیب کس طرح رہا۔ یہ بات علم غیب کی تعریف میں نہیں آتی اس لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کئی بار یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ از خود یہ اعلان فرمائیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ سورة الانعام کی تفسیر میں کی جائے گی۔ مسائل ١۔ کفار کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل بہتر نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کے بغیر کسی کو غیب کی خبریں نہیں دیتا۔ ٣۔ ایمان اور تقو ٰی اختیار کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار کے لیے مہلت مفید نہیں : ١۔ ڈھیل کفار کے لیے گناہوں کا باعث بنتی ہے۔ (آل عمران : ١٧٨) ٢۔ کفار اور بخیل کے لیے مہلت نقصان دہ ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) ٣۔ کفار کے لیے دنیا کی فراوانی نقصان دہ ہے۔ (الانعام : ٤٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَلا ﻳَﺤۡﺴَﺒَﻦَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لأنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ” جو ڈھیل ہم انہیں دے رہے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں ‘ ہم تو انہیں اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں پھر ان کے لئے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے ۔ “ یہاں آکر اب بات اس عقدے پر پہنچ جاتی ہے جو بعض دلوں میں خلجان کا باعث بنا ہوا تھا۔ بعض دلوں میں یہ سوال پیدا ہورہا تھا اور وہ خلجان جسے بعض لوگوں کی روح محسوس کررہی تھی ‘ وہ دیکھ رہے تھے کہ بعض اللہ کے دشمن اور بعض سچائی کے دشمن مہلت پا رہے ہیں اور وہ عذاب الٰہی کی گرفت میں نہیں آرہے ہیں۔ بظاہر خوب کھاتے پیتے ہیں ‘ قوت ‘ حکومت اور مال و مرتبے سے بہرہ ور ہیں اور خود بھی فتنے میں مبتلاہو رہے ہیں ۔ اور ان کے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا میں بھی فتنہ سامانیاں کررہے ہیں اور وہ اہل ایمان جن کے ایمان ضعیف ہیں ‘ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں زمانہ جاہلیت کی طرح غیر مناسب تصورات اور خیالات رکھتے ہیں ۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید اللہ تعالیٰ باطل ‘ شر ‘ انکارحق ‘ کفر اور طغیان پر خوش ہوتا ہے ‘ نعوذباللہ ۔ اس لئے وہ اسے مہلت دیتا ہے اور ان کے لئے رسی ڈھیلی چھوڑتا ہے۔ وہ یہ بھی گمان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ معرکہ حق و باطل میں کوئی مداخلت نہیں کرتے ‘ اس لئے وہ باطل کو اس کے لئے آزاد چھوڑتے ہیں کہ وہ حق کا سرچھوڑدے اور اللہ اس کی نصرت وامداد کے لئے کچھ نہ کریں ‘ یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید باطل ہی حق ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ اسے پنپنے ‘ بڑھنے اور غالب ہونے نہ دیتے ۔ یا وہ سمجھتے تھے کہ باطل کا حق یہ ہے کہ وہ حق پر غالب آجائے اور جزیرۃ العرب کی پوزیشن یہی رہے ۔ اور سچائی کے حق میں غلبہ نہیں ہے ورنہ کیوں اللہ اہل باطل ‘ ظالموں ‘ باغیوں اور مفسدوں کو یوں چھوڑ دے کہ وہ باطل میں سرگرم رہیں ‘ کفر کی طرف شتابی سے بڑھیں ‘ طغیان میں سرگرداں رہیں اور یہ سمجھیں کہ وہ مستحکم ہوگئے ہیں اور اب کوئی قوت ان کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ یہ سب افکار باطلہ تھے ۔ اللہ کے حق میں سوچ بری تھی ۔ معاملہ ایسا نہ تھا اس لئے خود اللہ تعالیٰ اہل کفر کو متنبہ کرتے ہیں کہ ایسا ہرگز گمان نہ کرو ۔ یہ جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ تمہیں گھیرتی نہیں ہے حالانکہ وہ کفر میں تیزی دکھا رہے ہیں ‘ اور یہ کہ انہیں جو اس دنیا میں حظ وافر دیا جارہا ہے جس سے وہ لطف اندوز ہورہے ہیں اور گمراہی میں آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لئے مزیدفتنہ ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط اسکیم ہے اور یہ ان کے لئے سخت آزمائش ہے کہ ان کی رسی ڈھیلی چھوڑی ہوئی ہے ۔ وَلا ﻳَﺤۡﺴَﺒَﻦَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لأنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا……………” یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیئے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں ‘ ہم تو انہیں اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں ۔ پھر ان کے لئے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے ۔ “ اگر وہ اس بات کے مستحق ہوتے کہ اللہ انہیں ان انعامات سے نکالے ‘ انہیں ایسی ابتلا میں ڈالے جو ان کی آنکھیں کھولنے والی ہو تو ضرور اللہ انہیں ایسی ابتلا میں ڈال دیتے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں چاہتے ۔ اس لئے کہ انہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر خرید لیا ہے ۔ پھر وہ کفر کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اس میں جدوجہد کررہے ہیں ۔ اس لئے اب وہ اس بات کے مستحق ہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس غفلت اور خواب خرگوش سے جگائے اور ابتلا میں ڈالے ۔ یہ انعامات الٰہی اور سلطنت وقوت کے غرے میں ڈوبے ہوئے ہی بہتر ہیں ۔ اس لئے لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ……………” ان کے لئے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ “ اہانت آمیز عذاب ہے اور اس کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے بلند مقام ‘ مرتبہ اور انعامات ہوں گے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلا بھی اللہ کی جانب سے ایک انعام ہوتا ہے اور یہ انعام بھی صرف اس شخص پر ہوتا ہے جس کے لئے اللہ نے خیر و فلاح کا ارادہ کیا ہو۔ اگر ابتلا اللہ کے دوستوں پر ہو تو اس میں ان کی کوئی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ اگرچہ اللہ کے ان دوستوں کی تصرفات کی وجہ ابتلا ابتداءً آئی ہو اور ان کے اپنے اعمال کے نتیجے میں آئی ہو ۔ بہرحال اس میں کوئی خفیہ حکمت کارفرما ہوتی ہے ‘ کوئی نہایت ہی لطیف تدبیر ہوتی ہے اور اپنے دوستوں پر اللہ کا فضل وکرم مقصود ہوتا ہے۔ یوں دل اپنی جگہ ٹھہر جاتے ہیں ‘ نفس انسانی مطمئن ہوجاتا ہے اور اسلام کے واضح اور سیدھے حقائق مسلمانوں کے تصور کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اللہ کی حکمت کا یہ تقاضا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ اللہ کی ایک بڑی بھلائی تھی کہ اس نے انہیں چھانٹ کر ان منافقین سے علیحدہ کردیا جو ان کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے اور ان کے آنے کے مختلف اسباب تھے ۔ وہ اس لئے نہیں آئے تھے کہ انہیں اسلام کے ساتھ کوئی محبت یا دلچسپی تھی بلکہ وہ مختلف حالات کی وجہ سے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے ۔ اس لئے اللہ نے مسلمانوں کو احد میں ابتلا میں ڈالا اور یہ ابتلا بھی خود ان کی اپنی سوچ اور ان کے بعض کاموں کی وجہ سے ان پر آئی ‘ لیکن اس میں حکمت یہ تھی کہ مجاہدین راہ حق کی صفوں میں سے خبیث اور طیب کے درمیان تمیز ہوجائے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) (اور ہرگز گمان نہ کریں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ ہم جو ان کو مہلت دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے۔ یہ مہلت اس لیے ہے کہ وہ گناہوں میں اور زیادہ ترقی کرلیں اور ان کے لیے عذاب ہے ذلیل کرنے والا) کافروں کو جو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم تو بہت اچھے حال میں ہیں۔ صاحب مال ہیں، صاحب اولاد ہیں، کھاتے پیتے ہیں، ہمیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور ہماری زندگیاں دراز ہو رہی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہیں ہے یہ ان کی ناسمجھی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو متنبہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ہمارے ڈھیل دینے کو یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا ڈھیل دینا ان کے حق میں بہتر ہے، ہم تو صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ گناہوں میں ترقی کرتے چلے جائیں پھر ان کو خوب زیادہ سزا ملے، اور سزا بھی خوب ذلیل کرنے والی ہوگی۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی جگہ وارد ہوا ہے۔ سورة اعراف میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ) (اور جن لوگوں نے کہ ہماری آیات کو جھٹلایا ہم ان کو اس طور پر بتدریج لیے جا رہے ہیں کہ ان کو علم بھی نہیں اور میں ان کو مہلت دیتا ہوں، بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے) سورة توبہ میں فرمایا (فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَ لَآ اَوْلَادُھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ تَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ) (سو ان کے اموال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے دنیاوی زندگی میں ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کی جانیں اس حال میں نکل جائیں کہ وہ کافر ہوں) ۔ مسلمانوں کو بھی اس سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ دنیا میں مال و اولاد زیادہ ہونا دلیل اس بات کی نہیں ہے کہ جس کے پاس یہ چیزیں ہوں، وہ اللہ کا محبوب ہی ہو اللہ تعالیٰ جن سے ناراض ہے ان کو بھی یہ چیزیں دیتا ہے بلکہ اپنے محبوبین سے زیادہ دیتا ہے، اپنے دشمنوں کی جو دنیاوی چیزیں زیادہ عنایت فرماتا ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ یہ لوگ کفر اور معاصی میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرتے رہیں پھر ان کو یکبارگی سخت ترین عذاب میں مبتلا کردیا جائے اسی طرح بہت سے سے فاسقوں اور فاجروں کو بھی مال بہت زیادہ دیتا ہے، مخلصوں اور متقیوں کو اتنا نہیں دیتا۔ جن لوگوں کو تکوینی قانون معلوم نہیں ہے وہ اس پر تعجب کرتے ہیں اور بعض تو تعجب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر اعتراض بھی کردیتے ہیں جنہیں ایمان اور اعمال کے ساتھ حلال مال مل گیا گوتھوڑا ہی ہو وہ بہت مبارک ہے اور جسے کفر کے ساتھ مال دولت مل گیا یا فسق و فجور کے ساتھ مال مل گیا جس کی وجہ سے کافر ہوجاتے ہیں یا وہ شخص فسق و فجور میں ترقی کرتے رہتے ہیں، تو یہ کوئی نعمت کی چیز نہیں ہے۔ استدراج کا خطرہ پیش نظر رہنا چاہیے اگر مال حلال ہی ہو اور گناہوں میں خرچ ہو تو یہ زبردست مواخذہ کی چیز ہے اور اگر حرام ہو تو وہ تو سراپا عذاب ہی عذاب ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہرگز کسی فاجر کی نعمت پر شک نہ کر کیونکہ تجھے معلوم نہیں کہ موت کے بعد اسے کس مصیبت سے دو چار ہونا ہے اس کے لیے اللہ کے نزدیک ایک قاتل ہے جو کبھی نہ مرے گا یعنی دوزخ کی آگ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٤٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

270 اِنَّمَا نُمْلِی لَھُمْ میں مَا مصدریہ ہے اور وہ اپنے ما بعد کے ساتھ بتاویل مفرد مبتدا ہے اور خَیْرٌ لِّاَنْفُسِہِمْ اس کی خبر ہے ما مع ما بعدھا فی تقدیر المصدر والتقدیر لا یحسبن الذین کفروا ان املائی لھم خیر (کبیر ج 3 ص 151) ۔ اور یہ جملہ لا یحسبن کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے اور اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اس کا فاعل ہے والفعل مسند الی الموصول و ان بما فی حیزھا سا ادۃ مسد مفعولیہ (ابو السعود ج 3 ص 151) ۔ یعنی دنیا میں ہم نے کافروں کو زندہ رہنے اور عیش و عشرت میں منہمک رہنے کی مہلت دے رکھی ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہماری طرف سے یہ مہلت ان کے حق میں اچھی اور عمدہ نتائج کی حامل ہے بلکہ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْماً ان کو ہمارا مہلت دینا ان کے لیے خیر اور بہتر نہیں یہ مہلت ان کو صرف اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گناہ کر کے آخرت میں اپنے کیفر کردار کو پہنچیں۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْن اور وہ ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں اور ان کفار کے لمبی عمر کے ساتھ گناہوں میں اضافہ ہونا اور ان کا ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہونا یہ سب چیزیں ان کے کفر اختیاری کا نتیجہ ہیں۔ کیونکہ جب ایک شخص سمجھ بوجھ کر محض ضد وعناد کی وجہ سے حق کا انکار کرتا ہے تو اسے قبول حق کی توفیق سے محروم کردیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت ہوتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 اور جو منکرین حق کفر میں مبتلا ہیں اور کفر کر رہے ہیں وہ عذاب کی اس مہلت کو جو ہم نے ان کو دے رکھی ہے یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا ان کو عذاب سے یہ مہلت دینا ان کے حق میں کچھ بہتر اور مفید ہے۔ یہ ڈھیل تو بس ہم ان کو اس لئے دے رہے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور ترقی کر جائیں اور کفر میں اور بڑھ جائیں کیونکہ جتنی عمر زیادہ ہوگی کفر اور افعال یہ زیادہ ہوں گے اور آخرت میں ان کو توہین آمیز اور ذلیل و رسوا کن عذاب ہوگا۔ (تیسیر) کافروں کے ظاہری عیش اور عزت و غلبہ کی حقیقت ظاہر فرمائی اور یہ بتایا کہ دنیا میں مجرم کو فوری عذاب نہ آنا اور اس کی گرفت میں جلدی نہ کرنا کچھ اس کے حق میں اچھا نہیں ہے اور ان راہ گم کردہ لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ دنیوی عیش اور کثرت مال و جاہ اور عارضی فتح اور کامرانی ان کے حق میں کوئی خیر ہے نہیں یہ تو ایک موقع دینا ہے پوری طرح عذاب دینے کا ۔ جس طرح قرآن کریم میں اور جگہ بھی فرمایا ایحسبون انما نمد ھوبہ من مال و بنین نسارع لھم فی الخیرات۔ یعنی کیا یہ کافر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو ان کو مال میں اور بیٹوں میں بڑھا رہے ہیں تو کوئی ان کے ساتھ بھلائی میں جلدی کر رہے ہی۔ غرض اس قسم کی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ امہال سبب ہے ۔ آئندہ عقوبت اور بھرپور عذاب کا لیکن کافر اسی امہال کو جو سبب ہے عقوبت فی المآل کا سبب قرار دے لیتا ہے از دیا واثم کا کیونکہ وہ اس امہال کو آئندہ عقوبت کا سبب ہی نہیں سمجھتا اس لئے گناہ زیادہ کرتا ہے یا اس بنا پر کہ اس کی طبیعت کا مقتضا ہی یہ ہے کہ جتنا اس کو موقع ملے گا وہ گناہ ہی کرے گا ۔ لہٰذا امہال اصل میں تو سبب ہے عقوبت کا لیکن کافر نے اس سبب کے سبب کو جو ازد یا اثم ہے اختیار کر رکھا ہے۔ اس لئے حضرت حق نے سبب کے سبب کو قائم مقام سبب کے بیان فرمایا اور یہ انتہائی بلاغت ہے ورنہ از یا داثم سبب ہے امہال کا اور امہال سبب ہے عقوبت فی المال کا اسی لئے اہل سنت نے لیزدادوا کے لام کو علت کا لام قرار دیا ہے بخلاف معتزلہ کے انہوں نے اس لام کو عاقبت کہا ہے۔ فقیر نے جو عرض کیا ہے اس سے معتزلہ کی توجیہ کا بطلان ظاہر ہے ۔ مقاتل نے اس آیت کا شان نزول مشرکین مکہ کے حق میں بتایا ہے۔ عطا نے کہا قریضہ اور نفیر کے یہودیوں کی عیش پسندی کے سلسلے میں اس کا نزول ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا لوگوں میں سے کونسا آدمی بہتر ہے آپ نے فرمایا جس کی عمر طویل ہو اور اس کے عمل اچھے ہوں پھر پوچھا آدمیوں میں برا آدمی کون ہے آپ نے فرمایا جس کی عمر طویل ہو اور اس کے عمل برے ہوں اس روایت کو احمد۔ ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ بیہقی نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت میں ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا ساٹھ برس والے کہاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا یہی وہ عمر ہے جس کو قرآن کریم نے کہا ہے۔ اولم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر وجائکم النذیر آیت میں جو لفظ خیر آیا ہے وہ تفصیل کے لیے نہیں ہے اور اگر تفصیل کے لئے ہو تو یہ مطلب ہوگا کہ کافر چونکہ امہال کو بہت بہتر سمجھتے تھے اس لئے اسم تفضیل لائے اس آیت میں کافروں کے غلط نظریہ کا جواب تھا کیونکہ وہ اس امہال سے استدلال کرتے تھے کہ اگر ہم برے ہیں اور خدا کی مرضی کے خلاف کام کررہے ہیں تو وہ ہم کو عذاب کیوں نہیں کرتا اور ہماری گرفت کیوں نہیں ہوتی۔ اب آگے مسلمانوں پر جو مصائب و آلام آتے ہیں جیسے غزوئہ احد میں ہوا اس کی بعض حکمتیں بیان کرتے ہیں تاکہ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو ان پر بلائیں اور مصائب کیوں نازل ہوتے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)