The subject of توحید Tauhid (Oneness of Allah) which began with the opening of Surah &Al-` Imran reappears in the first verse in a very spe¬cial manner. Out of the three witnesses mentioned here, the evidence of Allah Almighty is in a figurative sense. It means that the being and the attributes of Allah and the manifestations of His power and crea¬tivity all over are open signs of His Oneness.... Then there are the Mes¬sengers and Books sent by Allah, all confirming. that truth. The second testimony mentioned is that of angels who are close to Allah. They carry out His instructions and bear testimony (knowing and seeing) that Allah alone is worthy of worship. The third witness is that of the men of knowledge. This expression, ulul` ilm, means the blessed prophets and men who have the knowledge of Islam. Imam al-Ghazali and Ibn Kathir رحمۃ اللہ علیہم find this a matter of great honour for ` Ulama for Allah has mentioned their witness along with His, and that of angels. It is also possible that the term, ulul` ilm (the men of knowledge) may, in an absolute sense, be referring to those who, by conducting an inquiry based on sound intellectual prin¬ciples, or by deliberating into this universe, could acquire the knowl-edge of the unity of Allah Almighty - even if they are not ` alim or &men of knowledge& in the traditional sense, whose knowledge is acquired under a formal discipline from Islam&s own original sources. The next verse (19) clearly settles that the only faith& (دین din) acceptable to Allah is Islam. Thus, totally excluding any other faith or religion as acceptable to Allah, the verse completes the subject of Allah&s Oneness, any oppo¬sition to which is doomed. Related considerations Merits of the verse meaning |"Allah bears witness|" The verse beginning with شَهِدَ اللَّـهُ : &shahidal-lahhu& has a special ele¬gance. Imam al-Baghawi (رح) ، the renowned mufassir reports that two lead¬ing Jewish scholars came to Madinah from Syria. With the township of Madinah before them, they started talking to each other about the looks of the place which matched the prophecy in Torah that the last of the prophets would be living here. Later, they came to know that someone very pious lives here and whom people refer to as the proph¬et. They went to see the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sight of him reminded them of all attributes which Torah had predicted he would have. They presented themselves before him and said: |"You are Muhammad?|" He said: |"Yes.|" Again, they said: |"You are Ah¬mad?|" He said: |"Yes, I am Muhammad and Ahmad.|" Then they said: We are going to ask you a question. If you answer it correctly, we shall embrace Islam.|" He (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Go ahead and ask.|" They asked: |"Which is the greatest witness in the Book of Allah?|" This verse of شَهِدَہ &shahadah& (witness) was revealed as an answer to this question. He recited it for them. Both of them embraced Islam immediately. According to a hadith in the Musnad of Ahmad, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse in ` Arafat, he said right after that: و انا علیٰ ذلک من الشٰھدین یا رَبِّ And to that, 0 my Lord, I too am a witness. (Ibn Kathir) And a narration from Imam al-A&mash (رح) says: Whoever recites this verse and then says: و انا علیٰ ذلک من الشٰھدین یا رَبِّ ; (And to that, 0 my Lord, I too am a witness), Allah Almighty will say to the angels on the Last Day: &My servant has made a promise while I am the Foremost to keep a promise when I make it, so let my servant be admitted into Para¬dise.& (Ibn Kathir) Another hadith from Sayyidna Abu Ayyub al-Ansari (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Whoever recites Ayah al-Kursi (2:255) and the Ayah : شَهِدَ اللَّـهُ Shahidal-lahu (3:18) and قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ : Qulil-lahumma malik al-mulki upto بِغَيْرِ حِسَابٍ bighairi hisab (3:26, 27), Allah Almighty will forgive all his sins, admit him to Paradise and take care of seventy (i.e. plenty) of his needs, the simplest of these being his forgiveness.& (Ruh a1-Ma` ani with reference to Dailami) Show more
خلاصہ تفسیر ربط آیات سابقہ آیات میں توحید کا بیان ہوا ہے مذکورہ آیتوں میں سے پہلی آیت میں بھی توحید خداوندی کا مضمون ایک خاص انداز سے بیان فرمایا گیا ہے کہ اس پر تین شہادتوں کا ذکر ہے ایک خود اللہ جل شانہ کی شہادت دوسرے اس کے فرشتوں کی، تیسرے اہل علم اللہ جل شانہ کی شہادت تو بطور مجاز ہے مراد ی... ہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات وصفات اور اس کے تمام مظاہر و مصنوعات اللہ تعالیٰ کی توحید کی کھلی نشانیاں ہیں۔ ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لا شریک لہ گوید اس کے علاوہ اس کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول اور کتابیں بھی اس کی توحید پر شاہد ہیں، اور یہ سب چیزیں حق تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو گویا خود اس کی شہادت اس بات پر ہے کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ دوسری شہادت فرشتوں کی ذکر کی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کے تکوینی امور کے اہلکار ہیں، وہ سب کچھ جان کر اور دیکھ کر شہادت دیتے ہیں کہ لائق عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ تیسری شہادت اہل علم کی ہے کہ اہل علم سے مراد انبیاء (علیہم السلام) اور عام علماء اسلام ہیں، اسی لئے امام غزالی (رح) اور ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ اس میں علماء کی بڑی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے مطلق وہ لوگ مراد ہیں جو علمی اصول پر صحیح نظر کر کے یا کائنات عالم میں غور و فکر کر کے حق جل وعلا شانہ کی وحدانیت کا علم حاصل کرسکیں اگرچہ وہ ضابطہ کے عالم نہ ہوں اور دوسری آیت میں اللہ کے نزدیک صرف دین اسلام کا مقبول ہونا اس کے سوا کسی دین و مذہب کا مقبول نہ ہونا بیان کر کے مضمون توحید کی تکمیل فرمائی، اور اس سے اختلاف کرنے والوں کی تباہ حالی بیان فرمائی، مختصر تفسیر ان دونوں آیتوں کی یہ ہے : گواہی دی ہے اللہ نے ( کتب سماویہ میں) اس ( مضمون) کی کہ بجز اس ذات ( پاک) کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں، اور فرشتوں نے بھی ( اپنے ذکر و تسبیح میں اس کی گواہی دی ہے، کیونکہ ان کے اذکار توحید سے بھرے ہوئے ہیں) اور ( دوسرے) اہل علم نے بھی ( اپنی تقریرات و تحریرات میں اس کی گواہی دی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے) اور معبود بھی وہ اس شان کے ہیں کہ ( ہر چیز کا) اعتدال کے ساتھ انتظام رکھنے والے ہیں ( اور پھر کہا جاتا ہے کہ) ان کے سوال کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں وہ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں، بلا شبہ دین ( حق اور مقبول) اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور ( اس کے حق ہونے میں اہل اسلام کے ساتھ) اہل کتاب نے جو اختلاف کیا ( اس طرح سے کہ اسلام کو باطل کہا) تو ایسی حالت کے بعد کہ ان کو ( اسلام کے حق ہونے کی) دلیل پہنچ چکی تھی محض ایک دوسرے سے بڑھنے کی وجہ سے ( یعنی اسلام کے حق ہونے میں کوئی وجہ شبہ کی نہیں ہوئی، بلکہ ان میں مادہ دوسروں سے بڑا بننے کا ہے اور اسلام لانے میں یہ سرداری جو ان کو اب عوام پر حاصل ہے فوت ہوتی تھی، اس لئے اسلام کو قبول نہیں کیا، بلکہ الٹا اس کو باطل بتلانے لگے) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرے گا ( جیسا ان لوگوں نے کیا) تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد اس کا حساب لینے والے ہیں ( اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے حساب کا انجام عذاب ہوگا) ۔ معارف و مسائل آیت شہد اللہ الخ کے فضائل : یہ آیت شہادت ایک خاص شان رکھتی ہے، امام تفسیر بغوی (رح) نے نقل کیا ہے کہ یہود کے دو بڑے عالم ملک شام سے مدینہ طیبہ میں وارد ہوئے، مدینہ کی بستی کو دیکھ کر آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ یہ بستی تو اس طرح کی ہے جس کے لئے توراۃ میں پیشنگوئی آئی ہے کہ اس میں نبی آخر الزمان قیام پذیر ہوں گے، اس کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ یہاں کوئی بزرگ ہیں جن کو لوگ نبی کہتے ہیں، یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نظر پڑتے ہی وہ تمام صفات سامنے آگئیں جو توراۃ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بتلائی گئی تھیں، حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، پھر عرض کیا کہ آپ احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، میں محمد ہوں اور احمد ہوں، پھر عرض کیا کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سوال کرتے ہیں اگر آپ اس کا صحیح جواب دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دریافت کرو، انہوں نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہ آیت شہادت نازل ہوئی، آپ نے ان کو پڑھ کر سنادی، یہ دونوں اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ عرفات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی تو اس کے بعد فرمایا : (وانا علی ذلک من الشھدین یا رب ( ابن کثیر) |" یعنی اے پروردگار میں بھی اس پر شاہد ہوں |" ) اور امام اعمش (رح) کی ایک روایت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اس آیت کی تلاوت کے بعد یہ کہے کہ انا علی ذلک من الشاھدین۔ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرشتوں سے فرمائیں گے کہ |" میرے بندے نے ایک عہد کیا ہے اور میں عہد پورا کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہوں، اس لئے میرے بندے کو جنت میں داخل کردو |" (ابن کثیر) اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز فرض کے بعد سورة فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور آیت شھد اللہ (٣ : ١٨) اور قل اللھم مالک الملک سے بغیر حساب (٣: ٢٦، ٢٧) تک پڑھا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ معاف فرمائیں گے اور جنت میں جگہ دیں گے اور اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائیں گے، جن میں سے کم سے کم حاجت اس کی مغفرت ہے۔ (روح المعانی بحوالہ دیلمی) Show more