Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 18

سورة آل عمران

شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾

Allah witnesses that there is no deity except Him, and [so do] the angels and those of knowledge - [that He is] maintaining [creation] in justice. There is no deity except Him, the Exalted in Might, the Wise.

اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے ، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Testimony of Tawhid Allah says; شَهِدَ اللّهُ ... Allah bears witness, Allah bears witness, and verily, Allah is sufficient as a Witness, and He is the Most Truthful and Just Witness there is; His statement is the absolute truth, ... أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ ... that La ilaha illa Huwa, meaning, He Alone is the Lord and God of all creation; ev... eryone and everything are His servants, creation and in need of Him. Allah is the Most Rich, Free from needing anyone or anything. Allah said in another Ayah, لَّـكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَأ أَنزَلَ إِلَيْكَ But Allah bears witness to that which He has sent down (the Qur'an) unto you (O Muhammad). (4:166) Allah then mentioned the testimony of His angels and those who have knowledge after he mentioned His own testimony, شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلَيِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ ... Allah bears witness that none has the right to be worshipped but He), and the angels, and those having knowledge (also bear witness to this). This Ayah emphasizes the great virtue of those who have knowledge. ... قَأيِمَاً بِالْقِسْطِ ... (He) maintains His creation in justice, in all that He does. ... لااَ إِلَـهَ إِلااَّ هُوَ ... None has the right to be worshipped but He, thus emphasizing this fact. ... الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ the Almighty, the All-Wise. the Mighty that does not submit to weakness due to His might and greatness, the Wise in all His statements, actions, legislation and decrees. The Religion with Allah is Islam Allah said,   Show more

اللہ وحدہ لاشریک اپنی وحدت کا خود شاہد اللہ تعالیٰ خود شہادت دیتا ہے بس اس کی شہادت کافی ہے وہ سب سے زیادہ سچا گواہ ہے ، سب سے زیادہ سچی بات اسی کی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ تمام مخلوق اس کی غلام ہے اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اور اسی کی طرف محتاج ہے ، وہ سب سے بےنیاز ہے ، الوہیت میں اللہ ہونے می... ں وہ یکتا اور لاشریک ہے ، اس کے سوا کوئی پوجے جانے کے لائق نہیں ، جیسے فرمان ہے آیت ( لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ) 4 ۔ النسآء:166 ) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جو وہ تیری طرف اپنے علم سے اتار رہا ہے ، گواہی دے رہا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی ہے ، پھر اپنی شہادت کے ساتھ فرشتوں کی شہادت پر علماء کی گواہی کو ملا رہا ہے ۔ یہاں سے علماء کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ خصوصی قائما کا نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے وہ اللہ ہر وقت اور حال میں ایسا ہی ہے ، پھر تاکیداً دوبارہ ارشاد ہوتا ہے کہ معبود حقیقی صرف وہی ہے ، وہ غالب ہے ، عظمت اور کبریائی والی اس کی بارگاہ ہے ، وہ اپنے اقوال افعال اور شریعت قدرت و تقدیر میں حکمتوں والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اس آیت کی تلاوت کی اور الحکیم تک پڑھ کر فرمایا وانا علی ذالک من الشاھدین یا رب ، ابن ابی حاتم میں ہے آپ نے یوں فرمایا وانا اشھدای رب طبرانی میں ہے حضرت غالب قطان فرماتے ہیں میں کوفے میں تجارتی غرض سے گیا اور حضرت اعمش کے قریب ٹھہرا ، رات کو حضرت اعمش تہجد کیلئے کھڑے ہوئے پڑھتے پڑھتے جب اس آیت تک پہنچے اور آیت ( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) 3 ۔ آل عمران:19 ) پڑھا تو فرمایا وانا اشھد بما شھد اللہ بہ واستودع اللہ ھذہ الشھادۃ وھی لی عند اللہ ودیعتہ یعنی میں بھی شہادت دیتا ہوں اس کی جس کی شہادت اللہ نے دی اور میں اس شہادت کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، یہ میری امانت اللہ کے پاس ہے ، پھر کئی دفعہ آیت ( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) 3 ۔ آل عمران:19 ) پڑھا ، میں نے اپنے دِل میں خیال کیا کہ شاید اس بارے میں کوئی حدیث سنی ہوگی ، صبح ہی صبح میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد کیا بات تھی جو آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے؟ کہا کیا اس کی فضیلت تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے کہا حضرت میں تو مہینہ بھر سے آپ کی خدمت میں ہوں لیکن آپ نے حدیث بیان ہی نہیں کی ، کہنے لگے اللہ کی قسم میں تو سال بھر تک بیان نہ کروں گا ، اب میں اس حدیث کے سننے کی خاطر سال بھر تک ٹھہرا رہا اور ان کے دروازے پر پڑا رہا جب سال کامل گزر چکا تو میں نے کہا اے ابو محمد سال گزر چکا ہے ، سُن مجھ سے ابو وائل نے حدیث بیان کی ، اس نے عبداللہ سے سنا ، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پڑھنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اللہ عزوجل فرمائے گا میرے اس بندے نے میرا عہد لیا ہے اور میں عہد کو پورا کرنے میں سب سے افضل و اعلیٰ ہوں ، میرے اس بندے کو جنت میں لے جاؤ ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وہ صرف اسلام ہی کو قبول فرماتا ہے ، اسلام ہر زمانے کے پیغمبر کی وحی کی تابعداری کا نام ہے ، اور سب سے آخر اور سب رسولوں کو ختم کرنے والے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کے سب راستے بند ہوگئے اب جو شخص آپ کی شریعت کے سوا کسی چیز پر عمل کرے اللہ کے نزدیک وہ صاحب ایمان نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ) 3 ۔ آل عمران:85 ) جو شخص اسلام کے سوا اور دین کی تلاش کرے وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح اس آیت میں دین کا انحصار اسلام میں کر دیا ہے ۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں ( آیت شھد اللہ انہ ) ہے اور ان الاسلام ہے ، تو معنی یہ ہوں گے ، خود اللہ کی گواہی ہے اور اس کے فرشتوں اور ذی علم انسانوں کے نزدیک مقبول ہونے والا دین صرف اسلام ہی ہے ، جمہور کی قرأت میں ان زیر کے ساتھ ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں ہی ٹھیک ہیں ، لیکن جمہور کا قول زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پہلی کتاب والوں نے اپنے پاک اللہ کے پیغمبروں کے آنے اور اللہ کی کتابیں نازل ہونے کے بعد بھی اختلاف کیا ، جس کی وجہ سے صرف ان کا آپس کا بغض و عناد تھا کہ میں اس کیخلاف ہی چلوں چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو ، پھر ارشاد ہے کہ جب اللہ کی آیتیں اتر چکی ، اب جو ان کا انکار کرے انہیں نہ مانے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اس کی تکذیب کا بہت جلد حساب لے گا اور کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے سخت عذاب دے گا اور اسے اس کی اس شرارت کا لطف چکھائے گا ۔ پھر فرمایا اگر یہ لوگ تجھ سے توحید باری تعالیٰ کے بارے میں جھگڑیں تو کہہ دو کہ میں تو خالص اللہ ہی کی عبادت کروں گا جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ اس جیسا کوئی ہے ، نہ اس کی اولاد ہے نہ بیوی اور جو میرے امتی ہیں میرے دین پر ہیں ۔ ان سب کا قول بھی یہی ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۷ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:108 ) یعنی میری راہ یہی ہے میں خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں ، میں بھی اور میرے تابعدار بھی یہی دعوے دے رہے ہیں ، پھر حکم دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب ہے اور مشرکین سے جو اَن پڑھ ہیں کہہ دو کہ تم سب کی ہدایت اسلام میں ہی ہے اور اگر یہ نہ مانیں تو کوئی بات نہیں ، آپ اپنا فرض تبلیغ ادا کر چکے ، اللہ خود ان سے سمجھ لے گا ، ان سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے وہ جسے سیدھا راستہ دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ، اپنی حکمت کو وہی خوب جانتا ہے اس کی حجت تو پوری ہو کر ہی رہتی ہے ، اس کی اپنے بندوں پر نظر ہے اسے خوب معلوم ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے اور کون ضلالت کا مستحق ہے؟ اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ۔ دوسری آیتوں میں بھی صاف صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہیں ، اور خود آپ کے دین کے احکام بھی اس پر دلالت کرتے ہیں اور کتاب و سنت میں بھی بہت سی آیتیں اور حدیثیں اسی مفہوم کی ہیں ، قرآن پاک میں ایک جگہ ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف:158 ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ) 25 ۔ الفرقان:1 ) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندوں پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کیلئے تنبیہ کرنے والا بن جائے ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں کئی کئی واقعات سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب و عجم کے تمام بادشاہوں کو اور دوسرے اطراف کے لوگوں کو خطوط بھجوائے جن میں انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی خواہ وہ عرب ہوں عجم ہوں اہل کتاب ہوں مذہب والے ہوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے فرض کو تمام و کمال تک پہنچا دیا ۔ مسند عبدالرزاق میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اس امت میں سے جس کے کان میں میری نسبت کی آواز پہنچے اور وہ میری لائی ہوئی چیز پر ایمان نہ لائے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو مگر مجھ پر ایمان لائے بغیر مر جائے گا تو قطعاً جہنمی ہوگا ، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث مروی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ میں ہر ایک سرخ و سیاہ کی طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، ایک اور حدیث میں ہے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا اور میں تمام انسانوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مسند احمد میں حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک یہودی لڑکا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وضو کا پانی رکھا کرتا تھا اور جوتیاں لا کر رکھ دیتا تھا ، بیمار پڑا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لائے ، اس وقت اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں لا الہ الا اللہ کہہ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور باپ کو خاموش دیکھ کر خود بھی چپکا ہو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا باپ نے کہا ابو القاسم کی مان لے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پس اس بچے نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ وہاں سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے اسے جہنم سے بچا لیا ، یہی حدیث صحیح بخاری میں حضرت امام بخاری بھی لائے ہیں ، ان کے سوا اور بھی بہت سی صحیح حدیثیں بھی اور قرآن کریم کی آیتیں ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور بیان کیا اس کے ذریعے سے اس نے اپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اور اہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں ک... ے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب اور سنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] اللہ تعالیٰ کی گواہی تو اس لحاظ سے سب سے زیادہ معتبر ہے کہ وہ خود خالق کائنات ہے اور اسے ٹھیک ٹھیک علم ہے کہ اس کائنات کی تخلیق و تدبیر میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ دوسرے نمبر پر فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے معتبر ہے کہ وہ مدبرات امر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق کائنات کی تدبیر و انتظام و...  انصرام انہیں کے سپرد ہے، اگر کائنات میں دوسرا الٰہ بھی ہوتا تو انہیں یقینا اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ تیسرے نمبر پر ان لوگوں کی گواہی معتبر ہے جو اہل علم ہوں۔ کائنات میں غور و فکر کرنے والے ہوں اور ایسے تمام لوگوں کی گواہی بھی یہی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ یا اس کا شریک نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو کائنات کا نظام مدتوں پیشتر تباہ و برباد ہوچکا ہوتا یا سرے سے ایسا منظم و مربوط نظام وجود میں ہی نہ آسکتا، اور جو کچھ وہ کر رہا ہے عین عدل و انصاف کے مطابق کر رہا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ ) : اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر دین اسلام ہے، جیسا کہ آئندہ آیت میں آ رہا ہے اور اسلام کی بنیاد توحید الٰہی پر ہے۔ اس حقیقت سے وفد نجران اور تمام دنیا کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ” شَهِدَ “ کا معنی ” بَیَّنَ وَ اَعْلَمَ “ یعنی بیان کیا اور آگاہ کیا ہے۔ (فتح ال... قدیر) شاہد وہ ہے جو اپنے یقینی علم کے ساتھ آگاہ کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق اور ساری کائنات میں موجود بیشمار دلائل اور نشانیوں کے ساتھ اور اپنے رسولوں کے ذریعے سے پیغام بھیج کر شہادت دی اور آگاہ کیا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس حال میں کہ وہ اپنی مخلوق کے تمام معاملات و احوال میں عدل پر قائم ہے اور اس سے بڑھ کر کس کی شہادت ہوسکتی ہے اور اس کے پاک فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہ شہادت دی ہے۔ آیت کے آخر میں پھر وہی دعویٰ ” لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ“ دہرایا اور اس کی دو مزید دلیلیں پیش فرمائیں کہ وہ سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے، کوئی اس پر غالب نہیں اور کمال حکمت والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ کوئی ہے تو لاؤ پیش کرو۔ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ: یہ لفظ ” اللہ “ سے حال ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The subject of توحید Tauhid (Oneness of Allah) which began with the opening of Surah &Al-` Imran reappears in the first verse in a very spe¬cial manner. Out of the three witnesses mentioned here, the evidence of Allah Almighty is in a figurative sense. It means that the being and the attributes of Allah and the manifestations of His power and crea¬tivity all over are open signs of His Oneness....  Then there are the Mes¬sengers and Books sent by Allah, all confirming. that truth. The second testimony mentioned is that of angels who are close to Allah. They carry out His instructions and bear testimony (knowing and seeing) that Allah alone is worthy of worship. The third witness is that of the men of knowledge. This expression, ulul` ilm, means the blessed prophets and men who have the knowledge of Islam. Imam al-Ghazali and Ibn Kathir رحمۃ اللہ علیہم find this a matter of great honour for ` Ulama for Allah has mentioned their witness along with His, and that of angels. It is also possible that the term, ulul` ilm (the men of knowledge) may, in an absolute sense, be referring to those who, by conducting an inquiry based on sound intellectual prin¬ciples, or by deliberating into this universe, could acquire the knowl-edge of the unity of Allah Almighty - even if they are not ` alim or &men of knowledge& in the traditional sense, whose knowledge is acquired under a formal discipline from Islam&s own original sources. The next verse (19) clearly settles that the only faith& (دین din) acceptable to Allah is Islam. Thus, totally excluding any other faith or religion as acceptable to Allah, the verse completes the subject of Allah&s Oneness, any oppo¬sition to which is doomed. Related considerations Merits of the verse meaning |"Allah bears witness|" The verse beginning with شَهِدَ اللَّـهُ : &shahidal-lahhu& has a special ele¬gance. Imam al-Baghawi (رح) ، the renowned mufassir reports that two lead¬ing Jewish scholars came to Madinah from Syria. With the township of Madinah before them, they started talking to each other about the looks of the place which matched the prophecy in Torah that the last of the prophets would be living here. Later, they came to know that someone very pious lives here and whom people refer to as the proph¬et. They went to see the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sight of him reminded them of all attributes which Torah had predicted he would have. They presented themselves before him and said: |"You are Muhammad?|" He said: |"Yes.|" Again, they said: |"You are Ah¬mad?|" He said: |"Yes, I am Muhammad and Ahmad.|" Then they said: We are going to ask you a question. If you answer it correctly, we shall embrace Islam.|" He (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Go ahead and ask.|" They asked: |"Which is the greatest witness in the Book of Allah?|" This verse of شَهِدَہ &shahadah& (witness) was revealed as an answer to this question. He recited it for them. Both of them embraced Islam immediately. According to a hadith in the Musnad of Ahmad, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse in ` Arafat, he said right after that: و انا علیٰ ذلک من الشٰھدین یا رَبِّ And to that, 0 my Lord, I too am a witness. (Ibn Kathir) And a narration from Imam al-A&mash (رح) says: Whoever recites this verse and then says: و انا علیٰ ذلک من الشٰھدین یا رَبِّ ; (And to that, 0 my Lord, I too am a witness), Allah Almighty will say to the angels on the Last Day: &My servant has made a promise while I am the Foremost to keep a promise when I make it, so let my servant be admitted into Para¬dise.& (Ibn Kathir) Another hadith from Sayyidna Abu Ayyub al-Ansari (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Whoever recites Ayah al-Kursi (2:255) and the Ayah : شَهِدَ اللَّـهُ Shahidal-lahu (3:18) and قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ : Qulil-lahumma malik al-mulki upto بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ bighairi hisab (3:26, 27), Allah Almighty will forgive all his sins, admit him to Paradise and take care of seventy (i.e. plenty) of his needs, the simplest of these being his forgiveness.& (Ruh a1-Ma` ani with reference to Dailami)   Show more

خلاصہ تفسیر ربط آیات سابقہ آیات میں توحید کا بیان ہوا ہے مذکورہ آیتوں میں سے پہلی آیت میں بھی توحید خداوندی کا مضمون ایک خاص انداز سے بیان فرمایا گیا ہے کہ اس پر تین شہادتوں کا ذکر ہے ایک خود اللہ جل شانہ کی شہادت دوسرے اس کے فرشتوں کی، تیسرے اہل علم اللہ جل شانہ کی شہادت تو بطور مجاز ہے مراد ی... ہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات وصفات اور اس کے تمام مظاہر و مصنوعات اللہ تعالیٰ کی توحید کی کھلی نشانیاں ہیں۔ ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لا شریک لہ گوید اس کے علاوہ اس کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول اور کتابیں بھی اس کی توحید پر شاہد ہیں، اور یہ سب چیزیں حق تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو گویا خود اس کی شہادت اس بات پر ہے کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ دوسری شہادت فرشتوں کی ذکر کی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کے تکوینی امور کے اہلکار ہیں، وہ سب کچھ جان کر اور دیکھ کر شہادت دیتے ہیں کہ لائق عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ تیسری شہادت اہل علم کی ہے کہ اہل علم سے مراد انبیاء (علیہم السلام) اور عام علماء اسلام ہیں، اسی لئے امام غزالی (رح) اور ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ اس میں علماء کی بڑی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے مطلق وہ لوگ مراد ہیں جو علمی اصول پر صحیح نظر کر کے یا کائنات عالم میں غور و فکر کر کے حق جل وعلا شانہ کی وحدانیت کا علم حاصل کرسکیں اگرچہ وہ ضابطہ کے عالم نہ ہوں اور دوسری آیت میں اللہ کے نزدیک صرف دین اسلام کا مقبول ہونا اس کے سوا کسی دین و مذہب کا مقبول نہ ہونا بیان کر کے مضمون توحید کی تکمیل فرمائی، اور اس سے اختلاف کرنے والوں کی تباہ حالی بیان فرمائی، مختصر تفسیر ان دونوں آیتوں کی یہ ہے : گواہی دی ہے اللہ نے ( کتب سماویہ میں) اس ( مضمون) کی کہ بجز اس ذات ( پاک) کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں، اور فرشتوں نے بھی ( اپنے ذکر و تسبیح میں اس کی گواہی دی ہے، کیونکہ ان کے اذکار توحید سے بھرے ہوئے ہیں) اور ( دوسرے) اہل علم نے بھی ( اپنی تقریرات و تحریرات میں اس کی گواہی دی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے) اور معبود بھی وہ اس شان کے ہیں کہ ( ہر چیز کا) اعتدال کے ساتھ انتظام رکھنے والے ہیں ( اور پھر کہا جاتا ہے کہ) ان کے سوال کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں وہ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں، بلا شبہ دین ( حق اور مقبول) اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور ( اس کے حق ہونے میں اہل اسلام کے ساتھ) اہل کتاب نے جو اختلاف کیا ( اس طرح سے کہ اسلام کو باطل کہا) تو ایسی حالت کے بعد کہ ان کو ( اسلام کے حق ہونے کی) دلیل پہنچ چکی تھی محض ایک دوسرے سے بڑھنے کی وجہ سے ( یعنی اسلام کے حق ہونے میں کوئی وجہ شبہ کی نہیں ہوئی، بلکہ ان میں مادہ دوسروں سے بڑا بننے کا ہے اور اسلام لانے میں یہ سرداری جو ان کو اب عوام پر حاصل ہے فوت ہوتی تھی، اس لئے اسلام کو قبول نہیں کیا، بلکہ الٹا اس کو باطل بتلانے لگے) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرے گا ( جیسا ان لوگوں نے کیا) تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد اس کا حساب لینے والے ہیں ( اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے حساب کا انجام عذاب ہوگا) ۔ معارف و مسائل آیت شہد اللہ الخ کے فضائل : یہ آیت شہادت ایک خاص شان رکھتی ہے، امام تفسیر بغوی (رح) نے نقل کیا ہے کہ یہود کے دو بڑے عالم ملک شام سے مدینہ طیبہ میں وارد ہوئے، مدینہ کی بستی کو دیکھ کر آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ یہ بستی تو اس طرح کی ہے جس کے لئے توراۃ میں پیشنگوئی آئی ہے کہ اس میں نبی آخر الزمان قیام پذیر ہوں گے، اس کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ یہاں کوئی بزرگ ہیں جن کو لوگ نبی کہتے ہیں، یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نظر پڑتے ہی وہ تمام صفات سامنے آگئیں جو توراۃ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بتلائی گئی تھیں، حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، پھر عرض کیا کہ آپ احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، میں محمد ہوں اور احمد ہوں، پھر عرض کیا کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سوال کرتے ہیں اگر آپ اس کا صحیح جواب دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دریافت کرو، انہوں نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہ آیت شہادت نازل ہوئی، آپ نے ان کو پڑھ کر سنادی، یہ دونوں اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ عرفات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی تو اس کے بعد فرمایا : (وانا علی ذلک من الشھدین یا رب ( ابن کثیر) |" یعنی اے پروردگار میں بھی اس پر شاہد ہوں |" ) اور امام اعمش (رح) کی ایک روایت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اس آیت کی تلاوت کے بعد یہ کہے کہ انا علی ذلک من الشاھدین۔ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرشتوں سے فرمائیں گے کہ |" میرے بندے نے ایک عہد کیا ہے اور میں عہد پورا کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہوں، اس لئے میرے بندے کو جنت میں داخل کردو |" (ابن کثیر) اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز فرض کے بعد سورة فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور آیت شھد اللہ (٣ : ١٨) اور قل اللھم مالک الملک سے بغیر حساب (٣: ٢٦، ٢٧) تک پڑھا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ معاف فرمائیں گے اور جنت میں جگہ دیں گے اور اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائیں گے، جن میں سے کم سے کم حاجت اس کی مغفرت ہے۔ (روح المعانی بحوالہ دیلمی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝ ٠ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ۝ ٠ ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ١٨ ۭ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : ... أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ قسط الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] . ( ق س ط ) القسط ( اسم ) ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) اب اللہ تعالیٰ اپنی توحید کو خود بیان فرماتے ہیں اگرچہ اس کی ذات کے علاوہ اور کوئی بھی اس کی توحید کے متعلق گواہی نہ دے تب بھی اس ذات الہی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم فرشتے اور انبیاء کرام اور مومنین بھی اس کی توحید کی قولی وعملی گواہی دیتے ہیں۔ اور معبود حقیقی ہر ایک چیز کا اعتدال کے ساتھ انتظ... ام رکھنے والے ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے اس سے انتقام لینے میں غالب اور حکمت والے ہیں اور اس نے بات کو حکم دیا کہ اس اللہ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَلا) سب سے بڑی گواہی تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے ‘ جو کتب سماویہ سے بھی ظاہر ہے اور مظاہر فطرت سے بھی۔ (وَالْمَلآءِکَۃُ ) (وَاُولُوا الْعِلْمِ ) اولوالعلم وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن کہیں اولوالالباب قرار دیتا ہے اور کہیں ان کے لیے الَّذِیْنَ یَعْقِل... ُوْنَجیسے الفاظ آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقی کے حوالے سے اللہ کو پہچان لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے۔ سورة البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت ہم نے پڑھی تھی جسے میں آیت الآیاتقرار دیتا ہوں۔ اس میں بہت سے مظاہر فطرت بیان کر کے فرمایا گیا : (لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (ان میں) یقیناً نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ تو یہ جو قَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ہیں ‘ جو اولوالالباب ہیں ‘ اولوالعلم ہیں ‘ وہ بھی گواہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ( قَآءِمًام بالْقِسْطِ ط) ۔ یہ اس آیت مبارکہ کے اہم ترین الفاظ ہیں۔ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ عدل قائم کرتا ہے اور عدل کرے گا ‘ البتہ اہل سنت کے نزدیک یہ کہنا سوء ادب ہے کہ اللہ پر عدل کرنا واجب ہے۔ اللہ پر کسی شے کا وجوب نہیں ہے۔ اللہ کو عدل پسند ہے اور وہ عدل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ) (الحجرات) اور اللہ خود بھی عدل فرمائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. The testimony in question is from God Himself, Who knows directly all the realities of the universe, Who observes every existing thing without obstruction. It is the testimony of the One from Whose sight nothing is hidden, and who can be a better first-hand witness than He? His testimony is that no one but He is possessed of the attributes of godhead; no one has the power to govern the univers... e, and no one has the right to claim the rights which belong exclusively to God. 15. After God, the most trustworthy testimony is that of the angels, for they carry out the administration of the universe. The testimony of the angels, based on their own observations, is that the Will of God alone reigns supreme in the universe, and they turn to Him alone in the governance of the heavens and the earth. Moreover, all creatures possessing knowledge of reality have testified, unanimously, that no one except the One True God reigns and rules over the universe.  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :14 یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہ راست علم رکھتا ہے ، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے ، جس کی نگاہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، یہ اس کی شہادت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پورے عالم و... جود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے ، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو ، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو ، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :15 اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے ، کیونکہ وہ سلطنت کائنات کے انتظامی اہل کار ہیں اور وہ براہ راست اپنے ذاتی علم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے ، جس کی طرف زمین وآسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رجوع کرتے ہوں ۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے ، ان سب کی ابتدا ئے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مدبر ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(18 ۔ 20) جن نجرانی عیسائی لوگوں کا اوپر ذکر تھا یہ آیتیں بھی انہی کے ذکر میں ہیں۔ لیکن توحید پر تو آخر یہود عیسائی مشرکین مکہ سب کو لانا اللہ کو منظور ہے۔ اس لئے توحید کے ذکر کے بعد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اس کا ذکر تصدیق کے طور پر کیا ہے کہ اول صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام... ) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک سب او لوالعزم انبیاء اور ان کے ساتھی اسی توحید کے دین پر تھے کبھی کوئی شر کی دین اللہ کو پسند نہیں ہوا اسی طرح اللہ کے فرشتے آسمان پر ہمیشہ سے اس توحید کا دم بھرتے ہیں اور اب یہی توحید نبی آخر الزمان کے دین میں ہے جس پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ پر اس توحید دین کے قائم کرنے کے لئے بھیجا اس پیغمبر وقت کی اطاعت کا نام اسلام ہے اس آخر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سب پچھلی شریعتوں کو اس آخری شریعت پر ختم کیا ہے اس لئے اب کوئی نجات کا رستہ سوائے اس شریعت کے پابندی کے باقی نہیں رہا چناچہ فرمایا کہ { وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ } (٣۔ ٨٥) جس کا مطلب یہ ہے کہ اس آخر زمانہ میں سوائے اس آخر شریعت کے اور کوئی شریعت اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا کہ اہل کتاب مشرکین مکہ سب سے کہہ دیا جائے کہ اس آخر شریعت کو جس میں سب پچھلی شریعتوں کی صداقت اور سب پچھلی شریعتوں میں اس کی صداقت موجود ہے تم سب مل کر مانتے ہو یا نہیں۔ اگر انہوں نے اس آخری شریعت کو اے نبی اللہ کے تمہارے کہنے سے مان لیا تو اپنا بھلا کیا نہیں تو تم نے اپنا کام پورا کردیا۔ پھر ان سب کے اعمال اللہ کی نظر میں ہیں ہر ایک جزا سزا وقت مقررہ پر اس کے سامنے آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اچھی طرح پورا کردیا زبان سے خط و کتاب سے سب طرح آخری دم تک لوگوں کو سمجھا یا حدیث کی کتابوں میں صدہا روایتیں اس باب میں موجود ہیں قائما بالقسط کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان اور زمین میں بےگنتی چیزیں اس طرح کے منصفانہ اور حکیمانہ ڈہنگ سے پیدا کی ہیں کہ ان میں کی ہر ایک چیز اس کی وحدانیت کی پوری گواہی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:18) شھد اللہ اللہ تعالیٰ نے گواہی دی۔ اس صورت میں اس کا مصدر شھادۃ ہے اور اگر شھود سے ہو تو معنی ہوں گے اس نے پایا والملئکم واولوا العلم۔ واؤ حرف عطف ہے اور ملائکہ اور اولوا العلم معطوف اللہ معطوف علیہ معطوف ہمیشہ معطوف علیہ کے حکم میں ہوتا ہے پس فعل شہد کا اطلاق ان ہر دو معطوف پر بھی ہوگا یعن... ی اللہ کی گمراہی دیتا ہے اور فرشتے اور اہل علم بھی گواہی دے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ لا الہ الا ھو۔ صاحب تفسیر خازن لکھتے ہیں ومعناہ انہ تعالیٰ قائم ب تدبیر خلقہ وقائم بارزاقھم ومجازیہم باعمالہم۔ ابو الاعلیٰ مودودی اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں : اور فرشتے اور سب اہل علم بھی راستی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں۔ پیر کرم شاہ ضیاء القرآن میں یوں رقمطراز ہیں :۔ ” قائما بالقسط کی ایک ترکیب یہ ہے کہ یہ حال ہے اور لفظ اللہ ذوالحال۔ اور دوسری ترکیب یہ ہے کہ : لا الہ الا ھو میں ھو ضمیر اس کا ذوالحال ہے اور یہ حال معنی اس کی صفت ہے اس صورت میں یہ مشہور بہٖ میں داخل ہوگا۔ یعنی ان سب گواہوں نے اس کی وحدانیت کی گواہی بھی دی اور اس کے ساتھ اس کے عدل و انصاف کی بھی شہادت دی۔ لا الہ الا ھو۔ کو دوبارہ تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 قائما القسط حال من الا وم الشرد یعنی قا ٗم بالقسط حال من الا الشر یفتد اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا خالق رازق اور مدتبر ہے وہ خود یہ گواہی دے رہا ہے اور اس کی گواہی سے بڑھ کر سچی اور منبی بر حقیت کسی کی گواہی ہوسکتی ہے کہ اپنی مخلوقات کا صرف وہی معبود ہے اور اس کا ہ... ر کام اس کا ئنات میں جو بھی ہو ہستی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ اسی کی متحاج اور اس کے رزق پر جینے وا لی ہے اور پھر یہی گواہی فرشتے اور وہ تمام اہل علم بھی دے ر ہے رہیں جو کتاب وسنت کے ماہر ہیں اور جن ہو نوں نے اس کا ئنات کی حقیقت اور اس کے مبدائ اور معاد پر خوب غور کیا ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ قائما بالقسط کی صفت غالبا اس لئے بڑھادی کہ وہ ایسے نہیں کہ صرف اپنی تعظیم و عبادت ہی کراتے ہوں، بلکہ وہ سب کے کام بھی بناتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اوصاف حمیدہ کا تقاضا اور خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی توحید اور انصاف پر قائم رہنا ضروری ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہوئی تھی اور اب پھر اسی مضمون کا اعادہ شہادت کے الفاظ میں ہورہا ہے۔ سب سے پہلے رب ذو الجلال اپنی ذات، صفات اور وحدانیت پر خود گواہی دے رہا ہے کہ میرے ب... غیر کائنات کا کوئی خالق ومالک نہیں اور میں ہی معبودِ برحق اور واحد ہوں اس کے بعد ملائکہ کی شہادت ڈالی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بادشاہت کے عینی گواہ ہیں۔ ان کے بعد اہل علم کی گواہی پیش کی جارہی ہے جو انصاف کی گواہی دینے والے اور ہر حال میں اس پر قائم رہنے والے ہیں۔ یہاں ” اُولُوا الْعِلْمِ “ سے مراد سب سے پہلے انبیاء کرام ہیں اور ان کے بعد درجہ بدرجہ ان کے اصحاب، شہداء اور مومن ہیں۔ اس فرمان سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ حقیقی اہل علم اور علمائے حق وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرنے والے اور اس پر قائم ہیں۔ کائنات میں توحید سے بڑھ کر کوئی انصاف کی بات نہیں ہوسکتی جسے قسط کہا گیا ہے۔ قسط کا معنی ہے ” ہر چیز اپنے اپنے دائرۂ کار میں ٹھیک ٹھیک کام کرتی رہے “ جسے اللہ تعالیٰ نے سورة الرحمن کی ابتدا میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ شمس و قمر، نجم وشجر، زمین و آسمان اور ہوا و فضا میں جو کچھ بھی ہے وہ اصول قسط کے تحت رواں دواں اور قائم دائم ہے۔ یہ سب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی نظام کائنات پر غالب ‘ مالک اور تدبیر و حکمت کے ساتھ اس کا انتظام وانصرام کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت پر خود گواہی دیتا ہے۔ ٢۔ ملائکہ اور اہل علم اس کی توحید پر گواہ ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور وہی غالب ‘ حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی شہادت : ا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر شہادت (آل عمران : ١٨) ٢۔ رسول کی وحی پر شہادت۔ (النساء : ١٦٦) ٣۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر شہادت۔ (النساء : ٧٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ وہ پہلی حقیقت ہے ‘ جس پر اسلام کے نظریاتی تصورات قائم ہیں یعنی عقیدہ توحید ‘ الوہیت میں توحید ‘ قیومیت میں توحید اور یہ کہ اس کائنات کی پوری نگہبانی اصول انصاف وعدل پر منجانب اللہ ہورہی ہے ۔ اس پہلی حقیقت کے ساتھ اس سورت میں کلام کا آغاز ہوا تھا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ……... ……… ” اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور وہ زندہ جاوید اور نگہبان ہے۔ “ اس آغاز سے ایک تو اسلامی عقیدہ کا اظہار اور توضیح مقصود تھی اور دوسری جانب سے اہل کتاب کے پھیلائے ہوئے شبہات کا رد مطلوب تھا ۔ ایک تو خود اہل کتاب کے لئے ان کے موروثی عقیدہ توحید کی تشریح اور توضیح بھی مقصود تھی ‘ دوسرے یہ کہ ان کے پھیلائے ہوئے شبہات کا جو اثر اہل اسلام پر ہورہا تھا ‘ اس کی توضیح بھی مقصود تھی ‘ کیونکہ بعض اوقات اہل اسلام بھی ان سے متاثر ہوجاتے تھے ۔ اللہ کی شہادت ‘ کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ یہ ہر اس شخص کے لئے کافی وشافی عقیدہ ہے ‘ جو ایمان لاچکا ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اللہ کی گواہی تو ان کے لئے کافی وشافی ہوسکتی ہے۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہوں ‘ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہوں ۔ پھر ان کو شہادت کی ضرورت کیا رہتی ہے ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اہل کتاب تو اللہ پر ایمان لاتے تھے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے لئے اولاد بھی ٹھہراتے تھے اور اس کے لئے شریک بھی ٹھہراتے تھے ۔ بلکہ مشرکین مکہ بھی خدا پر ایمان لاتے تھے ۔ وہ گمراہ اس حوالے سے ہوتے تھے کہ وہ اللہ کے ساتھ کئی شرکاء بناتے تھے ۔ کئی کو اللہ کے مساوی ٹھہراتے تھے ۔ اللہ کے لئے بیٹے اور بیٹیوں کے قائل تھے ۔ اس لئے جب قرآن کریم نے اس بات کی تصدیق کی کہ خود وہ جس خدا کے قائل ہیں وہ شہادت دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ شہادت ان کے تطہیر افکار کے لئے ایک مؤثر شہادت تھی ۔ نیز یہ معاملہ جس طرح کہ ہم نے اس حصے سے قبل اپنے تبصرے میں اس کا جائزہ لیا ہے ۔ یہ ایک بڑا ہی گہرا اور دقیق معاملہ ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نظریہ توحید پر شہادت اس لئے دی گئی ہے کہ شہادت توحید کے ساتھ اس کے تقاضے بھی وابستہ ہیں اور ان تقاضوں کا ذکر بعد میں آرہا ہے ۔ اور وہ یہ عقیدہ توحید کے حاملین سے بندگی اور اطاعت بھی صرف اس وحدہ لاشریک کی متوقع ہے ۔ اور وہ بندگی اور اطاعت بھی صرف اسلام کی شکل میں ہے ۔ اور اسلام بھی سر تسلیم خم کردینے اور مکمل انقیاد کے معنی میں مطلوب ہے ۔ اسلام سے مراد صرف شعور ‘ تصور اور عقیدہ مراد نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مراد عمل ‘ اطاعت اور مکمل انقیاد بھی ہے ۔ اور یہ انقیاد بھی اسلامی نظام زندگی کی اس شکل و صورت کے مطابق جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے ۔ اس پہلو سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور اور ہر زمانے میں لوگوں کی اکثریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ایمان لاچکے ہیں ‘ لیکن وہ اس اللہ کے ساتھ بیشمار غیروں کو شریک بھی ٹھہراتے ہیں ‘ اس صورت میں جب وہ اپنے فیصلے ایسے قوانین کے مطابق کراتے ہیں جو شریعت پر مبنی نہیں ہیں اور وہ ایسے لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں جو اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں کرتے ‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اخلاق واقدار ‘ اپنے تصورات و افکار اور اپنے حسن وقبح کے پیمانے غیر اللہ سے لیتے ہیں ‘ تو یہ سب باتیں ان کے اس قول سے متصادم ہوتی ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں ‘ نیز ان کا یہ طرزعمل خود اللہ کی شہادت کے بھی منافی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اب سوال رہ جاتا ہے ‘ ملائکہ اور علماء کی شہادت کا ‘ تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ علماء اور ملائکہ کے مکمل طور پر اللہ اور اس کے اوامر ونواہی کی اطاعت کرتے ہیں ‘ وہ صرف اللہ سے ہدایات لیتے ہیں ۔ اور اللہ کی جانب سے جو کچھ نازل ہوتا ہے اس کی پیروی کرتے ہیں ۔ نہ اس کے بارے میں بحث ومناظرہ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا شک کرتے ہیں ۔ بشرطیکہ یہ ثابت ہوجائے کہ یہ بات منجانب اللہ ہے ۔ اس سورت میں اولوالعلم کا حال بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا تھا۔ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا …………… ” اور علم میں جو لوگ پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں ‘ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے ۔ یہ ہے اہل علم اور فرشتوں کی شہادت یعنی تصدیق ‘ اطاعت اتباع اور انقیاد ‘ اور فرشتوں ‘ اہل علم کی شہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ یعنی عدل و انصاف ایک ایسی صفت ہے جو اس کی شان الوہیت کے ساتھ وہ قائم و لازم ہے۔ “ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ” اللہ خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور فرشتے اور سب اہل علم بھی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ راستی اور انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ “ جس طرح عبارت نص سے معلوم ہوتا ہے قائمابالقسط ایسی حالت ہے جو شان الوہیت کے ساتھ لازم ہے ۔ اور یہ اس بات کی وضاحت ہے جو اس سے پہلے سورت میں کہا گیا کہ اللہ قیوم اور نگہبان ہے ‘ مطلب یہ ہوا کہ اس کی نگہبانی عدل پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جہان کے چلانے کے لئے جو تدابیر اختیار کی ہیں ‘ یا یہاں لوگوں کی زندگی کے قیام و دوام کے لئے جو تدابیر اختیار کی ہیں وہ عدل و انصاف کے اصولوں پر کی ہیں ۔ اس لئے لوگوں کی زندگیوں میں عدل تب قائم ہوسکتا ہے جب ان کی زندگیاں کتاب اللہ کی شریعت پر استوار ہوں ‘ جس طرح اس کائنات کو نوامیس فطرت کے عادلانہ اصولوں پر قائم کیا گیا ہے اور وہ استوار ہے ۔ صرف اسی صورت میں انسان اور فطرت ہم آہنگ ہوکر چل سکتے ہیں ‘ شریعت وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ اگر یہ ہوگا تو اس جہان میں عدل و انصاف نہ ہوگا اور یہاں توازن و اعتدال قائم نہ ہوسکے گا۔ اس کائنات کی چلن اور انسان کی چلن کے درمیان تطابق اور ملائمت نہ ہوگی ۔ نتیجہ ظلم ‘ افتراق اور قوتوں کے ضیاع کی صورت میں برآمد ہوگا۔ انسانی تاریخ شاہد عادل ہے کہ اس میں انسانیت نے عدل و انصاف کا مزہ انہیں ادوار میں چکھا جن میں صرف کتاب اللہ کی حکمرانی رہی ۔ اور ان کی زندگی اس طرح منظم اور استوار ہوئی جس طرح اس زمین کے گردش منظم اور استوار ہے ۔ اس قدر جس قدر انسانی فطرت کے لئے ممکن ہو ۔ یعنی فطرت انسانی کے رجحانات اطاعت اور جحانات معصیت کے درمیان توازن ہو ۔ اور ان دونوں پلڑوں کے درمیان توازن ہو ۔ اور انسان اسلامی نظام زندگی کے قیام اور کتاب اللہ کی حکمرانی کی صورت میں اللہ کی اطاعت کی طرف مائل ہو۔ اگر انسانی زندگی پر کوئی ایسا نظام حکمران ہو ۔ جو خود انسان نے بنایا ہو تو اس میں لازماً انسانی جہلات کا دخل ہوگا۔ انسان کے تصور اور ادراک کا قصور اس میں شامل ہوگا۔ اور اس کے نتیجے میں یہ نظام کسی نہ کسی شکل میں ظلم اور تضاد کا شکار ہوگا۔ کبھی ایک فرد پوری سوسائٹی پر ظلم ڈھائے گا ، اور کبھی ایک سوسائٹی ایک فرد پر ظلم کررہی ہوگی ‘ یا کبھی ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر ظلم کررہا ہوگا یا ایک قوم دوسری اقوام پر ظلم کررہی ہوگی یا ایک نسل دوسری نسل پر ظلم کررہی ہوگی ‘ رہا اسلامی نظام زندگی تو وہ ان تمام میلانات رجحانات سے پاک ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ سب کا الٰہ ہے ۔ اور اس ارض وسماء میں کوئی راز مخفی بھی نہیں ہے ۔ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ……………” اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ وہی غالب ہے اور وہی حکیم ہے۔ “ یہاں اس آیت کے اس ٹکڑے میں دوبارہ وحدت الہٰیت کو دو اہم صفات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ ایک صفت یہ کہ وہ غالب ہے قوت والا ہے اور دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے اور قدرت و حکمت دونوں ایسی صفات ہیں جن کا موجود ہونا اللہ کی شان عدل ونگہبانی کے لئے ضروری ہے ۔ اس لئے کہ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ حقدار کو حق ملے اور اسے حق دلایا جاسکے ۔ اور اللہ کی صفات کا تصور یہ ہے کہ مثبت کارکردگی کا شعور دیتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلام کے تصور خدا میں کوئی سلبیت نہیں ہے ۔ ایجاب ہی ایجاب ہے ‘ اور یہ تصور اللہ کا سب سے مکمل تصور ہے ۔ سب سے سچا تصور ہے ‘ اور یہ تصورخود اللہ تعالیٰ نے اپنے حوالے سے پیش کیا ہے ۔ اور اس مثبت اور ایجابی فعالیت کا اثر انسان پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل اللہ کے ارادے سے متعلق ہوجاتا ہے ۔ اس لئے انسان کا عقیدہ زندہ اور موثر عقیدہ ہوتا ہے ‘ وہ محض خشک تصور ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر فعالیت اور تروتازگی ہوتی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید پر گواہی روح المعانی صفحہ ١٠٤: ج ٣ اور معالم التنزیل صفحہ ٢٨٥: ج ١ میں کلبی سے نقل کیا ہے کہ شام کے علماء یہود میں سے دو عالم مدینہ منورہ آئے انہوں نے مدینہ کو دیکھا ان میں سے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ شہر تو ہو بہو وہی معلوم ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم نے پڑھا ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ ... علیہ وآلہ وسلم) اس شہر میں قیام پذیر ہوں گے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو انہیں صفات کے ساتھ پہچان لیا جو انہیں پہلے سے معلوم تھیں انہوں نے دریافت کیا کہ آپ محمد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں محمد ہوں ! پھر سوال کیا کہ آپ احمد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں احمد ہوں ! کہنے لگے کہ ہم ایک شہادت کے بارے میں آپ سے دریافت کرتے ہیں اگر آپ نے ہم کو بتادیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور آپ کی تصدیق کریں گے، آپ نے فرمایا تم دونوں سوال کرو، کہنے لگے ہمیں یہ بتائیے کہ اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ اس کو سن کر ان دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی گواہی کا ذکر ہے کہ اس نے اپنے معبود لا شریک لہ ہونے کی گواہی دی، اور فرشتوں کی گواہی کا بھی ذکر ہے جو اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندے ہیں ہر طرح گناہوں سے معصوم اور محفوظ ہیں۔ ان میں سے بہت سے دربار الٰہی کے حاضرین بھی ہیں اور تمام فرشتوں کی معرفت بھی حاصل ہے، پھر اہل علم کی گواہی کا ذکر فرمایا کہ ان حضرات نے بھی اللہ کے معبود وحدہ لا شریک ہونے کی گواہی دی۔ اہل علم کون ہیں ؟ اہل علم سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور وہ تمام حضرات مراد ہیں جنہوں نے حضرات انبیاء (علیہ السلام) کا اتباع کیا۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے دلائل قطعیہ عقلیہ سے انہوں نے اللہ کو پہچانا اور اسے اپنی ذات وصفات میں اور معبود حقیقی ہونے میں وحدہ لا شریک لہ، ہونے میں خوب اچھی طرح سے جانا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے لوگ جو اللہ کی مخلوقات کا تجزیہ اور تحلیل کرنے میں مصروف ہیں اور کائنات میں طرح طرح کی ریسرچ کرتے ہیں۔ حیوانات، نباتات، جمادات کے احوال جاننے کے لیے محنتیں کرتے ہیں۔ ان میں اہل علم کہنے کے لائق وہی لوگ ہیں جو مخلوق کے ذریعہ خالق کی معرفت حاصل کرنے میں عمریں خرچ کرتے ہیں اور جو خالق جل مجدہ، کے منکر ہیں یہ لوگ اہل علم نہیں ہیں۔ بڑی بڑی ریسرچ کرتے ہوئے بھی جہالت میں مبتلا ہیں۔ اسی کو سورة زمر میں فرمایا۔ (قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَاْمُرُوْنَنِیْْ اَعْبُدُ اَیُّہَا الْجَاھِلُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کیا اللہ کے سوا کسی کی عبادت کا تم مجھے حکم دیتے ہو اے جاہلو ! ) مخاطبین کو جاہل فرمایا حالانکہ وہ اس زمانہ کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت میں بہت زیادہ آگے بڑھے ہوئے تھے۔ قَآءِمًام بالْقِسْطِ پھر فرمایا (قَآءِمًا بالْقِسْطِ ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کاملہ کے ساتھ عدل کے ساتھ قائم ہے۔ اس کے سب احکام اور فیصلے انصاف کے ساتھ ہیں مخلوق کی جزاء اور سزا کے سب فیصلے جو دنیا میں ہیں اور آخرت میں ہوں گے سب میں انصاف ملحوظ ہے۔ کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں ہے اور نہ ہوگا جو لوگ ظلم اور انصاف کے معانی نہیں سمجھتے وہی اشکال کرتے ہیں۔ اللہ کے احکام اور قضایا میں کوئی ظلم نہیں۔ پھر فرمایا (لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) اس میں بطور تاکید ابتدائی آیت کے مضمون کا اعادہ فرمایا ہے۔ شروع آیت میں توحید بیان فرمائی اور اس آیت میں بھی اور دو صفات کا ذکر فرمایا کہ وہ عزیز ہے یعنی زبردست ہے اور سب پر غالب ہے اور حکمت والا ہے جو کچھ مخلوق میں تصرفات ہوتے ہیں وہ سب اس کی حکمت کے مطابق ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ذکر مضمون توحید بار دوم۔ یہ دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے یعنی اللہ کی شہادت کتب سابقہ میں اور فرشتوں کی شہات انبیاء (علیہم السلام) کے پاس اور علماء ربانیین بھی لکھ گئے ہیں۔ اور قَائِماً بِالْقِسْطِ تینوں سے حال ہے۔ اس میں توحید پر دلیل نقلی کی تین قسموں سے استدلال کیا گیا ہے۔ (1) دلیل نقلی کتب ساب... قہ سے (2) دلیل نقلی فرشتوں سے اور (3) دلیل نقلی انبیاء (علیہم السلام) اور علماء ربا نیین سے شَھِدَ اللہُ سے مراد ہے اللہ کی شہادت کتب سابقہ میں اس سے قسم اوّل کی طرف اشارہ ہے اور شہادت ملائکہ سے قسم دوم اور شہادت اولی العلم سے قسم سوم مراد ہے۔ 26 یہ دلائل ثلثہ کا نتیجہ اور ثمرہ ہے اور یہ دونوں صفتیں ذکر کرکے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ قوت کے اعتبار سے وہ سب پر غالب اور تدبیر و حکمت کے لحاظ سے ہر چیز پر حاوی ہے اس لیے اسے کسی شریک اور معاون کی ضرورت بھی نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ اللہ تعالیٰ نے خود بہ نفس نفیس اس امر کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا معبود ہونے کے لائق نہیں اور اس کی نشان یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ ہر چیز کا انتظام رکھنے والا ہے اور فرشتوں نے اور دوسرے اہل علم نے بھی حضرت حق کی توحید اور اس کے یکتا ہونے پر شہادت دی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اس مع... بود برحق کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں وہ کمال قوت اور کمال علم و حکمت کا مالک ہے۔ ( تیسیر) بغوی نے روایت کیا ہے کہ دو یہودی عالم شام سے مدینہ آئے تھے ۔ انہوں نے مدینہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ شہر تو بالکل اس شہر کے مشابہ ہے جو نبی آخر الزماں کا وطن ہوگا اور جس کا ذکرہماری کتابوں میں موجود ہے اس پر ایک نے دوسرے کی تصدیق کی ۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہوئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ کی صفات سے آپ کو پہچان کر دریافت کیا آپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں آپ نے فرمایا کہ ہاں میرا نام محمد ہے پھر انہوں نے کہا کیا آپ احمد ؐ ہیں آپ نے فرمایا میرا نام محمد بھی ہے احمد بھی ہے اس کے بعد انہوں نے کہا اچھا ایک بات اور بتا دیجئے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہوں نے جب یہ آیتیں سنیں تو وہ مسلمان ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ تمام کتب سماویہ میں اس کا فرمان توحید موجود ہے اور یہی اس کی شہادت ہے جب اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک اور خالق ہے اور مخلوق کے ذرے ذرے کو اس کا علم ہے اور وہ خود گواہی دیتا ہے کہ میرے سوا میری تمام مخلوق میں کوئی قابل عبادت نہیں ہے اور نہ کوئی معبود ہونے کا مستحق ہے تو اس سے بڑھ کر اور کس کی گواہی معتبر ہوسکتی ہے پھر دوسری شہادت فرشتوں کی ہے ۔ فرشتے انتظامات کائنات کے کارندے ہیں وہ بھی یہی شہادت دیتے ہیں اور ان کو تسبیح و تمحید سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات میں کوئی ہستی اس قابل نہیں کہ سوائے اللہ کے معبودبننے کی مستحق اور اہل ہو ۔ فرشتے چونکہ خود توحید کے مقرر ہیں اس لئے یہی ان کی شہادت ہے باقی اہل علم تو وہ خود بھی توحید کے قائل ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے ہیں اور مختلف دلائل سے تقریر اور تحریر میں اثبات توحید کرتے ہیں لہٰذا یہ ان کی شہادت ہے ۔ ان تین زبردست شہادتوں کے بعد کسی مشرک کو شرک کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے۔ ایک خود باری تعالیٰ کی شہادت دوسری فرشتوں کی شہادت ، تیسری اہل علم کی شہادت۔ قائما ً بالقسط کے معنی کئی طرح کئے گئے ہیں لیکن ہم نے ایک معنی اختیار کر لئے ہیں اور قائما کو اللہ تعالیٰ سے حال رکھا ہے جیسا کہ ہمارے ترجمہ اور تیسیر سے ظاہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ شہادت اللہ تعالیٰ کی راستی اور انصاف کے ساتھ یا قیام انصاف کی غرض سے ہے جو اصل مقصد شہادت کا ہے جیسا کہ پانچویں پارے میں ارشاد ہے۔ کونوا قوامین بالقسط شھداء اللہ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہر چیز کا انصاف اور اعتدال کے ساتھ انتظام کرنے والا ہے یعنی توحید کی شہادت کے ساتھ اس کی یہ شان بھی ہے کہ وہ پوری کائنات کا اعتدال کے ساتھ انتظام چلا رہا ہے اور جب اس کی یہ شان ہے تو اس کے علاوہ دوسرا کون ہے جس کو اس کا ہمسر کہا جاسکے ۔ آخر میں پھر مضمون شہادت کی تاکید ہے جو مستقل دلیل عقلی بھی ہے کہ جب وہی ہر قسم کی قوت و حکمت کا مالک ہے تو وہی معبود برحق ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آخری جملہ قائما بالقسط کی دلیل ہو اس لئے کہ انصاف کے لئے دو باتوں کی عام طور سے ضرورت ہوتی ہے ایک حکومت و قوت کہ اس کے فیصلے سے کوئی سرتابی نہ کرسکے۔ دوسرے حکمت کہ جو فیصلہ کرے دانائی اور حکمت کے ساتھ کرے اور خوب جانچ کر فیصلہ صادر کرے اس لئے فرمایا : لاالہ الا ھو العزیز الحکیم اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عیسائیوں کے کفارے کا د ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ سب کی طرف سے ایک شخص کو کفارہ کردیا گیا یہ تو بالکل انصاف کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ انصاف کا حاکم ہے اور اعتدال کے ساتھ انتظام عالم کا حقیقی منتظم ہے وہ ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کس طرح کرسکتا ہے کہ مسیح کو ساری مخلوق کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کا کفارہ لے لے اور تمام مجرموں کو بری کر دے ( واللہ اعلم بالصواب) یوں تو احتمالات بہت ہیں لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی اہمیت کے لحاظ سے اولہ ٗ توحید کو بیان کرنے کے بعد مکرر ذکر کردیا گیا ہے بعض لوگوں نے قائما بالقسط کو اولو العلم کا حال کہا ہے اور اس کی بھی گنجائش ہے جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ جب توحید کا مسئلہ صاف اور اسلام کی بنیاد اسی کلمہ توحید پر قائم ہے اور توحید اسلام کے لئے بمنزلہ بنیاد ہے تو اب آگے اسلام کی عام دعوت کا ذکر فرماتے ہیں اور جھگڑا لو لوگوں کے لئے اپنے پیغمبر کی زبانی اسلام کا اعلان کراتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)  Show more