Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 181

سورة آل عمران

لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ ۘ سَنَکۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَ قَتۡلَہُمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ نَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ ﴿۱۸۱﴾

Allah has certainly heard the statement of those [Jews] who said, "Indeed, Allah is poor, while we are rich." We will record what they said and their killing of the prophets without right and will say, "Taste the punishment of the Burning Fire.

یقیناً اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کا قول بھی سُنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی فقیر ہے اور ہم تونگّر ہیں ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے ۔ اور ان کا انبیاء کو بلا وجہ قتل کرنا بھی ، اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھّو!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Warns the Idolators Allah says; لَّقَدْ سَمِعَ اللّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاء ... Indeed, Allah has heard the statement of those (Jews) who say: "Truly, Allah is poor and we are rich!" Sa`id bin Jubayr said that Ibn Abbas said, "When Allah's statement, مَّن ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً Who is he that will lend to Allah a goodly loan so that He may multiply it to him many times (2:245) was revealed, the Jews said, `O Muhammad! Has your Lord become poor so that He asks His servants to give Him a loan?' Allah sent down, لَّقَدْ سَمِعَ اللّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاء (Indeed, Allah has heard the statement of those (Jews) who say: "Truly, Allah is poor and we are rich!")" (3:181) This Hadith was collected by Ibn Marduwyah and Ibn Abi Hatim. Allah's statement, ... سَنَكْتُبُ مَا قَالُواْ ... We shall record what they have said, contains a threat and a warning that Allah followed with His statement. ... وَقَتْلَهُمُ الاَنبِيَاء بِغَيْرِ حَقٍّ ... and their killing of the Prophets unjustly, This is what they say about Allah and this is how they treat His Messengers. Allah will punish them for these deeds in the worst manner. ... وَنَقُولُ ذُوقُواْ عَذَابَ الْحَرِيقِ ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللّهَ لَيْسَ بِظَلَّمٍ لِّلْعَبِيدِ

کافروں کا قرض حسنہ پر احمقانہ تبصرہ اور ان کی ہٹ دھرمی پہ مجوزہ سزا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے زیادہ در زیادہ کر کے دے تو یہود کہنے لگے کہ اے نبی تمہارا رب فقیر ہو گیا ہے اور اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے اس پر یہ آیت ( لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ ) 3 ۔ آل عمران:181 ) نازل ہوئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودیوں کے مدرسے میں گئے یہاں کا بڑا معلم فخاص تھا اور اس کے ماتحت ایک بہت بڑا عالم اشیع تھا لوگوں کا مجمع تھا اور وہ ان سے مذہبی باتیں سن رہے تھے آپ نے فرمایا فخاص اللہ سے ڈر اور مسلمان ہو جا اللہ کی قسم تجھے خوب معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں وہ اس کے پاس سے حق لے کر آئے ہیں ان کی صفتیں توراۃ و انجیل میں تمہارے ہاتھوں میں موجود ہیں تو فخاص نے جواب میں کہا ابو بکر سن اللہ کی قسم اللہ ہمارا محتاج ہے ہم اس کے محتاج نہیں اس کی طرف اس طرح نہیں گڑگڑاتے جیسے وہ ہماری جانب عاجزی کرتا ہے بلکہ ہم تو اس سے بےپرواہ ہیں٠ ہم غنی اور تونگر ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض طلب نہ کرتا جیسے کہ تمہارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہا ہے ہمیں تو سود سے روکتا ہے اور خود سود دیتا ہے اگر غنی ہوتا تو ہمیں سود کیوں دیتا ، اس پر حضرت صدیق اکبر کو سخت غصہ آیا اور فخاص کے منہ پر زور سے مارا اور فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم یہود سے معاہدہ نہ ہوتا تو میں تجھ اللہ کے دشمن کا سر کاٹ دیتا جاؤ بد نصیبو جھٹلاتے ہی رہو اگر سچے ہو ۔ فخصاص نے جا کر اس کی شکایت سرکار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں کی آپ نے صدیق اکبر سے پوچھا کہ اسے کیوں مارا ؟ حضرت صدیق نے واقعہ بیان کیا لیکن فخاص اپنے قول سے مکر گیا کہ میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں ۔ اس بارے میں یہ آیت اتری ۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کلی خبر دیتا ہے کہ ان کا یہ قول اور ساتھ ہی اسی جیسا ان کا بڑا گناہ یعنی قتل انبیاء ہم نے ان کے نامہ اعمال میں لکھ لیا ہے ۔ ایک طرف ان کا جناب باری تعالیٰ کی شان میں بے ادبی کرنا دوسری جانب نبیوں کو مار ڈالنا ان کاموں کی وجہ انہیں سخت تر سزا ملے گی ۔ ان کو ہم کہیں گے کہ جلنے والے عذاب کا ذائقہ چکھو ، اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے پہلے کے کرتوت کا بدلہ ہے یہ کہہ کر انہیں ذلیل و رسوا کن عذاب پر عذاب ہوں گے ، یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور ظاہر ہے کہ مالک اپنے غلاموں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔ پھر ان کے اس خیال میں جھوٹا ثابت کیا جا رہا ہے جو یہ کہتے تھے کہ آسمانی کتابیں جو پہلے نازل ہوئیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دے رکھا ہے کہ جب تک کوئی رسول ہمیں یہ معجزہ نہ دکھائے کہ اس کی امت میں سے جو شخص قربانی کرے اس کی قربانی کو کھا جانے کے لئے آسمان سے قدرتی آگ آئے اور کھا جائے ان کی اس قول کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے کہ پھر اس معجزے والے پیغمبروں کو جو اپنے ساتھ دلائل اور براہین لے کر آئے تھے تم نے کیوں مار ڈالا ؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ بھی دے رکھا تھا کہ ہر ایک قبول شدہ قربانی آسمانی آگ کھا جاتی تھی لیکن تم نے انہیں بھی سچا نہ جانا ان کی بھی مخالفت اور دشمنی کی بلکہ انہیں قتل کر ڈالا ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمہیں تمہاری اپنی بات کا بھی پاس و لحاظ نہیں لہذا تم حق کے ساتھی نہ ہو نہ کسی نبی کے ماننے والے ہو ۔ تم یقینا جھوٹے ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ان کے جھٹلانے سے آپ تنگ دل اور غمناک نہ ہوں اگلے اوالوالعزم پیغمبروں کے واقعات کو اپنے لئے باعث تسلی بنائیں کہ وہ بھی باوجود دلیلیں ظاہر کر دینے کے اور باوجود اپنی حقانیت کو بخوبی واضح کر دینے کے پھر بھی جھٹلائے گئے زبر سے مراد آسمانی کتابیں ہیں جو ان صحیفوں کی طرح آسمان سے آئیں جو رسولوں پر اتاری گئی تھیں اور منیر سے مراد واضح جلی اور روشن اور چمکیلی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181۔ 1 جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا) 057:011 کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ! تو یہود نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا رب فقیر ہوگیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے ؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ 181۔ 2 یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء (علیہم السلام) کو ناحق قتل کرنا، ان کے سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٠] یہ قول یہود کا ہے۔ پہلے (٣: ٧٥) میں بیان ہوچکا ہے کہ یہود میں سود خوری اور حرام خوری کی وجہ سے مال و دولت کی ہوس، زر پرستی اور بخل کا مرض پیدا ہوگیا تھا چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ۭوَاللّٰهُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ ۠وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ٢٤٥۔ ) 2 ۔ البقرة :245) تو یہود اپنے جذبہ بخل سے مغلوب ہو کر کہنے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ & اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اسی لیے تو وہ ہم سے قرضہ مانگتا ہے & ان کے اسی جواب کو اللہ تعالیٰ نے یہاں حکایتاً نقل فرمایا ہے۔ یہود کا یہ جواب ان کے بخل کا ہی نہیں ان کے خبث باطن کا پورا پورا پتہ دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مال تو سب اللہ ہی کا ہے۔ اسی نے تمہیں عطا کیا ہے اور جو قرض مانگتا ہے وہ بھی تمہارے ہی بھائی بندوں پر خرچ ہوگا۔ کیونکہ اللہ تو بےنیاز ہے۔ پھر اس قرض کو اپنی طرف منسوب کرنا اور پھر اس پر بڑا اجر عطا فرمانا اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور اس کا فضل ہے پھر اس جملہ میں جس انداز سے صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے وہ نہایت لطیف پیرایہ ہے اور جتنا یہ پیرایہ لطیف ہے۔ اتنا ہی بھونڈے انداز سے یہود نے اس کا جواب دیا۔ چناچہ ان کی یہ بدکلامی بھی ان کے نامہ اعمال میں لکھ دی گئی ہے، اسی نامہ اعمال میں جہاں جہاں ان کی انتہائی بدکرداری یعنی انبیاء کا قتل لکھا گیا ہے۔ قیامت کے دن یہ سب کچھ ان کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ پھر ان کے کیے کی پوری پوری سزا بھی انہیں جلا دینے والے عذاب کی صورت میں دی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ : اوپر کی آیات میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے پر زور دیا، اب ان آیات میں یہود کے اعتراضات کا بیان اور ان کا جواب دینا مقصود ہے۔ دراصل یہود یہ اعتراضات نبوت پر طعن کی غرض سے کرتے تھے۔ کتب تفسیر میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ) [ البقرۃ : ٢٤٥ ] ” کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض “ نازل ہوئی تو بعض یہود نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : ” لو جی، اللہ میاں بھی فقیر ہوگئے ہیں اور بندوں سے قرض مانگنے پر اتر آئے ہیں۔ “ تو ان کے جواب میں یہ آیت اتری۔ (ابن کثیر) دراصل اس قسم کے اعتراضات وہ عوام کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے متنفر کرنے کی غرض سے کرتے تھے، ورنہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے الفاظ کہنا کتنی بڑی گستاخی اور کفر ہے۔ (قرطبی) 2 ۘسَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا : یعنی ان کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گستاخی اور رسولوں کو ناحق قتل کرنا، سب ان کے نامۂ اعمال میں درج کیا جا رہا ہے۔ قیامت کے دن ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور وہ عذاب حریق کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (18) warns Jews against their grave act of effrontery and mentions its punishment. According to the background of the event, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) presented the Qur&anic injunctions relating to Zakah and Sadaqat (charities), the arrogant Jews started saying that Allah had surely become poor and needy while they were rich, or else why would He go about asking us to give? We seek refuge with Allah from such effrontery. Obviously, they would have hardly believed in the absurd statement they made but, in all likelihood, they would have said so to prove that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was, God forbid, false in his statement. Their argument was: If these verses of the Qur&an are true, then, it neces¬sarily follows that Allah be poor and needy! This absurd argument of theirs being false in itself was not worth responding to because the injunction of Allah Almighty was not for His benefit; it was, rather, for the benefit of the owners of wealth themselves in this world and the hereafter. But, it was termed as giving loan to Allah elsewhere because repayment of a loan is necessary and certain in the sight of every good person. Similar is the case of charity given by someone, the repayment of which Allah Almighty takes upon Himself as if it was the payment of loan taken from someone. Anyone who believes in Allah Almighty as the Creator and Master of everything would never stoop to entertain the kind of doubt from these words of the verse which is there in the saying of the insolent Jews. For this reason, the Qur&an has certainly refrained from answering this doubt. Instead, it has simply restricted itself to announcing that they shall be appre-hended and punished for this effrontery of theirs, for having falsified the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and for having made fun of him. It was said that their insolent words will be put on record in &writing& so that the final evidence goes against them on the Day of Judgmentand they are punished for what they did. Otherwise, Allah Almighty needs no writing. Along with this act of effrontery committed by the Jews, yet another crime of theirs has been mentioned, that is, they not &only falsified the prophets and mocked at them, they even went to the limit of killing them! That such people could falsify and flout any prophet or messenger of Allah hardly remains surprising. Staying emotionally satisfied with disbelief in and disobedi-ence to Allah is also an equally grave sin Worth noticing at this point is the fact that those being addressed by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Qur&an are the Jews of Madinah while the incident of the killing of prophets belongs to a time much earlier than theirs, that is, to the time of Sayyidna Yahya and Sayyidna Zakariyya, may peace be on them. Now, the question is: How is it that the crime of the killing of the prophets referred to in this verse was attributed to these addressees? The reason is: The Jews of Madinah were quite satisfied with this act committed by their Jewish predecessors; therefore, they too were counted as those who fall under the injunction governing killers of prophets. Imam al-Qurubi (رح) has said in his Tafsir that &remaining satisfied with disbelief (kufr) is also included under disbelief and disobedience& which is a major juristic ruling in Islam. A saying of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) explains it further. He said: &When a sin is committed on God&s earth, following which; the person who is present on the spot opposes that sin and considers it to be bad, then, such a person shall be deemed as not present there, that is, he is no accomplice in their sin. And, a person who, though not present physically yet is quite satisfied with this act of sinners, then, this person shall be considered, despite his absence (from the scene of sin), an accomplice in their sin.& In the later part of the present verse (181) and in the third verse (182), the text recounts the punishment to be meted out to such loud-mouthed people by saying that they shall be consigned to the Hell to experience the taste of burning in fire which is but the outcome of their own deeds and certainly no injustice from Allah.

دوسری آیت میں یہود کی ایک سخت گستاخی پر تنبیہ اور سزاء کا ذکر ہے، جس کا واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوة و صدقات کے احکام قرآن سے بتلائے تو گستاخ یہود یہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ فقیر محتاج ہوگیا اور ہم مالدار ہیں جب ہی تو ہم سے مانگتا ہے (نعوذ باللہ من) ظاہر یہ ہے کہ اس بیہودہ قول کے موافق ان کا اعتقاد تو نہ ہوگا، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کے لئے کہا ہوگا کہ اگر قرآن کی یہ آیات صحیح ہیں تو ان سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ فقیر و محتاج ہے، ان کا یہ لغو استدلال تو بدایتا باطل ہونے کی وجہ سے قابل جواب نہ تھا، کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم صدقات کا اپنے نفع کے لئے نہیں خود اصحاب مال کے نفع دینی اور دنیوی کے لئے ہے، مگر اس کو کہیں اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کا عنوان اس لئے دے دیا گیا کہ جس طرح قرض کی ادائیگی ہر شریف آدمی کے لئے ضروری اور یقینی ہوتی ہے، اسی طرح جو صدقہ انسان دیتا ہے اس کی جزاء اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ ایسی قرار دیتے ہیں جیسے کسی کا قرض دینا ہو، جو شخص اللہ تعالیٰ کو کائنات کا خالق اور مالک جانتا ہے، اس کو ان الفاظ سے کبھی وہ شبہ نہیں ہوسکتا جو گستاخ یہودیوں کے اس قول میں ہے اس لئے قرآن کریم نے اس شبہ کا جواب تو دیا نہیں، صرف ان کی اس گستاخی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب اور آپ کا استہزاء کرنے کے متعدد شدید جرائم کی سزا میں یہ فرمایا کہ ہم ان کے گستاخانہ کلمات کو لکھ کر رہیں گے تاکہ قیامت کے روز ان پر حجت تمام کر کے عذاب دیا جائے، اور اللہ تعالیٰ کو لکھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر یہود کی اس گستاخی کے ذکر کے ساتھ ان کا ایک دوسرا جرم یہ بھی ذکر کردیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء کی صرف تکذیب و استہزاء ہی نہیں کیا، بلکہ قتل کر ڈالنے سے بھی باز نہیں رہے، تو ایسے لوگوں سے کسی نبی و رسول کی تکذیب یا استہزاء پر کیا تعجب ہوسکتا ہے۔ کفرو معصیت پر دل سے راضی ہونا بھی ایسا ہی عظیم گناہ ہے : یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے مخاطب یہود مدینہ ہیں، اور قتل انبیاء کا واقعہ ان سے بہت پہلے حضرت یحییٰ اور زکریا (علیہما السلام) کے زمانے کا ہے تو اس آیت میں قتل انبیاء کا جرم ان مخاطبین کی طرف کیسے منسوب کیا گیا، وجہ یہ ہے کہ یہود مدینہ اپنے سابق یہودیوں کے اس فعل پر راضی اور خوش تھے، اس لئے یہ خود بھی قاتلین کے حکم میں شمار کئے گئے۔ امام قرطبی نے فرمایا اپنی تفسیر میں کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ کفر پر راضی ہونا بھی کفر اور معصیت میں داخل ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ارشاد اس کی مزید توضیح کرتا ہے، آپ نے فرمایا کہ جب زمین پر کوئی گناہ کیا جاتا ہے تو جو شخص وہاں موجود ہو مگر اس گناہ کی مخالفت کرے اور اس کو برا سمجھے تو وہ ایسا ہے گویا یہاں موجود نہیں، یعنی وہ ان کے گناہ کا شریک نہیں اور جو شخص اگرچہ اس مجلس میں موجود نہیں مگر ان کے اس فعل سے راضی ہے وہ باوجود غائب ہونے کے ان کا شریک گناہ سمجھا جائے گا۔ انتہی اس آیت کے اخیر اور آگے والی آیت میں ان گستاخوں کی سزا یہ بتلائی ہے کہ ان کو دوزخ میں ڈال کر کہا جائے گا کہ اب آگ میں جلنے کا مزہ چکھو، جو تمہارے اپنے ہی عمل کا نتیجہ ہے، اللہ کی طرف سے کوئی ظلم نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ۝ ٠ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَھُمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ۝ ٠ ۙ وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝ ١٨١ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ فقر الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه : الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] . والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] . الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی. الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال : ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه . ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] لوگو ! تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔ الفقیر دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق ۔ ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨١) فخاص بن عاز وراء اور اس کے ساتھیوں نے کہا تھا کہ العیاذ باللہ اللہ تعالیٰ مفلس ہے، ہم سے قرض چاہتا ہے اور ہم اس کے قرض کے محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم ان کے اس قول کو نامہ اعمال میں محفوظ کرکے رہیں گے اور اسی طرح ان کا حضرات انبیاء کو ناحق قتل کرنا اور زمانہ یہودیت میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کے عوض سخت ترین عذاب چکھائیں گے۔ شان نزول : (آیت) ” لقد سمع اللہ “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہودیوں کو فخاص نامی ایک شخص کے پاس جمع پایا وہ شخص کہنے لگا اے ابوبکر (رض) ہمیں اللہ کی طرف کسی قسم کی احتیاج نہیں وہ ہمارا محتاج ہے اور اگر وہ غنی ہوتا تو وہ ہم سے کیوں قرض لیتا، جیسا کہ تمہارا صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) غصہ میں آگئے اور اس یہودی کے مونہہ پر ایک چانٹا مارا، فخاص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا، کہنے لگا دیکھیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے بہت بری بات کہی یہ کہتا ہے کہ العیاذ باللہ تعالیٰ مفلس ہے اور یہ لوگ مال دار ہیں، فخاص اپنے قول سے پھر گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بیشک اللہ تعالیٰ نے ان گستاخ لوگوں کا قول سن لیا ہے، نیز ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” من ذالذی یقرض اللہ “۔ (الخ) تو یہود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارا رب العیاذ باللہ محتاج ہے اپنے بندوں سے مانگتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨١ (لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآءُ ٧ ) ۔ یہ بات کہنے والوں میں منافقین بھی شامل ہوسکتے ہیں اور یہودی بھی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو انفاق مال کی ترغیب دیتے تھے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو تو یہودیوں اور ان کے زیر اثر منافقوں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنا شروع کردیا کہ ہاں اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم سے قرض مانگ رہا ہے ‘ جبکہ ہم غنی ہیں ‘ ہمارے پاس دولت ہے۔ (سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا) ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی جھلکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فوراً تو گرفت نہیں کرتا لیکن ایک وقت آئے گا جس دن انہیں اپنے اس قول کی پوری سزا مل جائے گی۔ اور صرف یہی نہیں : (وَقَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِحَقٍّ لا) اس سے پہلے یہ جو نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں ان کا یہ جرم بھی ان کے نامۂ اعمال میں ثبت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

128. This statement was made by the Jews. On the revelation of the Qur'anic verse (2: 245): 'Who of you will lend Allah a goodly loan?', the Jews began to ridicule it and said: 'Look, God has now gone bankrupt and has begun to beg of His creatures for loans.' (For this statement made by the Jews see the Tradition mentioned by Ibn Kathir in his comments on this verse - Ed.)

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :128 یہ یہودیوں کا قول تھا ۔ قرآن مجید میں جب یہ آیت آئی کہ مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا ، ”کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے “ ، تو اس کا مذاق اڑاتے ہوئے یہودیوں نے کہنا شروع کیا کہ جی ہاں ، اللہ میاں مفلس ہو گئے ہیں ، اب وہ بندوں سے قرض مانگ رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

62: جب زکوٰۃ وغیرہ کے احکام آئے تو بعض یہودیوں نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے اس قسم کے گستاخانہ جملے کہے تھے۔ ظاہر ہے کہ عقیدہ تو ان کا بھی یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ معاذ اللہ فقیر ہے، لیکن انہوں نے زکوٰۃ کے حکم کا مذاق اس طرح اُڑایا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ جملے کا کوئی جواب دیا، بلکہ اس پر عذاب کی وعید سنائی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(181 ۔ 182) ۔ ابن ابی حاتم اور ابن منذر نے اپنی تفسیر میں متعدد معتبر طریقوں سے جو اس آیت کی شان نزول بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب آیت میں من الذی یقرض اللہ اتری تو یہود کہتے تھے کہ اللہ محتاج اور فقیر ہے جو لوگوں سے قرض مانگتا ہے ایک روز ابوبکر صدیق (رض) یہود کے مدرسہ میں گئے وہاں فخاص یہودیوں کا بڑا عالم اور بہت سے یہود جمع تھے فخاص نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے یہی بات کہی کہ اللہ فقیر ہے جو لوگوں سے قرض مانگتا ہے حضرت ابوبکر صدیق نے فخاص کے منہ پر ایک طمانچہ مارا فخاص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی فریاد کی۔ آنحضرت نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے طمانچہ مارنے کا سبب پوچھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سارا قصہ بیان کیا۔ فخاص اس بات کے کہنے سے منکر ہوگیا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢۔ اور فرمایا کہ ان لوگوں کی سب گستاخیاں جو یہ لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ کر رہے ہیں اللہ کو وہ سب معلوم ہیں۔ وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ پھر ان کو سب گستاخیوں کا بدلا مل جائے گا حَرِیْقٌ بھرکتی ہوئی آگ کو کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:181) ذوقوا۔ تم چکھو۔ ذوق سے (باب نصر) امر جمع مذکر حاضر۔ ذائقۃ۔ مزا چکھنے والا۔ حریق۔ جلا دینے والا۔ فاعل اور مفعول دونوں کے لئے آتا ہے۔ یعنی جلانے والا۔ اور جلا ہوا۔ محرق بھی فاعل آتا ہے جیسے تپ محرقہ اردو میں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اوپر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا۔ اب ان آیات میں یہود کے شبہات کا بیان اور ان کا رفع کرنا مقصود ہے۔ دراصل یہود یہ شہبات نبو پر طعن کی غرض سے کرتے تھے۔ (رازی) کسب تفسیر میں ہے کہ جب آیت من ذا الذی یقرض اللہ ذصا حسنا نازل ہوئی تو بعض یہود نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا فوجی ! اللہ میاں بھی فقیہ ہوگئے ہیں اور بندوں سے قرض مانگنے پر اتر آئے ہیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر۔ کبیر) یہود اس قسم کے شہبات عوام کو انفاق فی سبیل اللہ سے متنفر کرنے کی غرض سے وارد کرتے تھے ورنہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت اس قسم کے خیالات کا اظہار کفر ہے (قرطبی)8 یعنی ان کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گساخی اور رسولوں کا ناحق قتل کرنا سب ان کے نامئہ اعمال میں درج کیا جارہا ہے۔ قیامت کے دن ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور عذاب حریق کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 181 189 اسرارو معارف لقد سمع اللہ……………وان اللہ لیس بظلام للعبید۔ اللہ ان کی بات بھی سن رہے ہیں جو صدقات وزکوٰۃ کے احکام کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو مالدار ہیں اور اللہ فقیر اور مفلس ہے کہ اپنے لئے خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ حالانکہ یہ خرچ کرنا بھی مخلوق ہی کو فائدہ پہنچانا ہے اور خود یہود کا بھی ممکن ہے ایسا عقیدہ تو نہ ہو صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ایسی لغوبات کہہ دی جو بداہتہً باطل ہے اور کسی طرح قابل جواب بھی نہیں۔ ارشاد ہوا کہ یہ جملہ کلمات لکھے جا رہے ہیں۔ یہ محض بات نہیں جو کہہ دی اور ختم ہوگئی۔ بلکہ نامہ اعمال کا حصہ ہے جو بالآخر سامنے آجائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی خرافات کی پرواہ نہ کریں کہ ان کا نامہ اعمال تو اس سے بھی بڑے جرائم سے پر ہے ۔ یہ تو انبیاء کے قتل سے بھی نہیں چوکے۔ حالانکہ خود ان کے نزدیک بھی یہ قتل ناحق تھے۔ گناہ میں شرکت : یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ برائی پہ رضامندی بھی برائی میں شرکت کے برابر ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ کسی کے سامنے جرم ہو مگر وہ اس سے منع کرے اور اس پر راضی نہ ہو تو ایسا ہے گویا وہ تھا ہی نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص وہاں موجود نہ بھی ہو مگر اس جرم پہ راضی ہو تو ویسا ہے جیسے واقعی اس میں شریک تھا ، جیسے یہ یہود کو اپنے آبائو اجداد کے قتل انبیاء پہ راضی ہونے کی وجہ سے شریک جرم ٹھہرے۔ امام فخرالدین رازی (رح) نے لکھا ہے کہ کسی نے امام شبلی (رح) کے سامنے حضرت عثمان غنی (رض) کے قتل کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا ، ” مسرت شریکا دمہ “ یعنی تو بھی ان کے قتل میں شریک ہوگیا۔ اس کے بدلے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا کہ آگ کے عذاب کی لذت چکھو ، یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے کہ اللہ کبھی بھی بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ یہ سب عذاب ان گناہوں کی عملی شکل ہیں جو تم نے دنیا میں کئے تھے۔ الذین قالوا………………والکتب المنیر۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ کہ اللہ نے تو انبیاء کو یا موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزہ دیا کو جو مال اللہ کی راہ میں پیش کیا جاتا اسے آگ آسمانوں سے آکر جلادیتی اور ہمیں ان کے ماننے کا حکم دیا تھا۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مال لے کر دین کی ترویج پر اور غرباء کی امداد پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذ اللہ نبی نہیں ہیں۔ ارشاد ہوا ، انہیں فرمادیجئے ! کہ کس قدر انبیاء مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے معجزات لائے جن میں یہ باتیں بھی شامل تھیں جن کا تم مطالبہ کرتے ہو۔ مگر تم نے یعنی تمہارے پیشروں نے انہیں قتل کردیا۔ جب تمہیں ان پر ایمان لانا نصیب نہ ہو تو آج اگر یہ چیز بھی ظاہر بھی ہوجائے تو تم کب مانوگے کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہوتے تو ان پر ایمان لے آتے اور چونکہ ہر نبی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا۔ تمہیں یہ سعادت بھی نصیب ہوتی ، مگر ایسا نہیں ہوا یعنی نہ صرف یہ کہ تم نے نبوت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا بلکہ اس انکار کے ذریعے سے تو تم نبوت موسوی کے بھی منکر ٹھہرے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی حرکات سے دل گرفتہ نہ ہوا کریں کہ یہ عادی مجرم ہیں اور پہلے بھی بہت سے انبیاء (علیہ السلام) کا انکار کرچکے ہیں۔ جو صیحفے اور روشن کتابیں لے کر ان کے پاس تشریف لائے۔ کل نفس ذائقۃ الموت………………ذالک من عزم الامور۔ دنیوی مال و دولت کے لئے حق سے منہ موڑنے کا کچھ بھی فائدہ نہیں کہ بالاخر ہر متنفس کو مرنا ہے اور اس آیہ کریمہ کا شان نزول بھی یہی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو اس یہودی کو مارنے سے منع فرمایا جس سے گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ معاذ اللہ ! خدا تو فقیر ہے اور ہم غنی۔ جو ہمیں صدقہ دینے کا حکم دے رہا ہے اس پر سیدنا صدیق اکبر (رض) نے تلوار پر ہاتھ رکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ غرض یہ کہ صدیق اکبر (رض) کی طرح جان ومال پر ، اعزہ و اقارب پر بھی اور کفار کی بدزبانی پر بھی صبر کیا جائے اور اللہ کے لئے انتقام سے ہاتھ اٹھا لیا جائے کہ بدکار تو برائی کرتا ہی ہے۔ اگر نیک بھی وہی روش اپنالیں گے تو دنیا میں نیکی یا شرافت کا وجود کیسے باقی رہے گا ؟ نیز صبر کے ساتھ تقویٰ کا حکم ہے کہ ایسا رویہ اپنایا جائے جو دوعالم کو خوبصورت بنادے۔ یعنی دنیا میں برائی کم ہو اور آخرت میں نعمتیں بڑھتی رہیں اور یہ بڑی جرات کا کام ہے۔ ہاں ! جہاد بقائے حق اور احیائے دین کے لئے تو ضروری ہے مگر محض اپنی ذات کے لئے جھگڑا کفر کرنا جہاد نہیں اور دین کی حفاظت اور نفاذ کے لئے نیز برائی کو روکنے اور ظلم وجور کو ختم کرنے کے لئے جہاد فرض ہے۔ اس میں بھی ذات اور ذاتی خواہشات پر تو صبر ہی کرنا پڑتا ہے۔ واذاخذ اللہ………………واللہ علی کل شیء قدیر۔ انہوں نے تو آپ اور آپ کے متبعین کو ایذا دینے کے لئے اللہ کے احکام کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے کہ اللہ نے اہل کتاب سے تو ان کی کتاب اور نبی کے ذریعے سے یہ عہد لے رکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جملہ محاسن جو تورات وانجیل میں بیان ہوئے ہیں وہ لوگوں پر بیان کریں۔ خود ایمان لائیں اور دوسروں کے ایمان لانے کا سبب بنیں مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اسے پس پشت ڈال دیا اور لوگوں سے دنیا کا مفاد حاصل کرنے کی خاطر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف جو ان کی کتابوں میں مذکور تھے ان کو چھپا لیا۔ انہوں نے یہ بہت گھاٹے کا سودا کیا کہ اگر دنیا کی سب نعمتیں بھی حاصل کرلیتے تو بھی فنا ان کے انتظار میں ہے اور آخرت ابدی اور لازوال نعمتوں کی جگہ ہے وہ بھی چھوٹ گئیں اور وہاں کے دائمی عذاب کا شکار ہوئے یہاں سے ظاہر ہے کہ علم اظہار ضروری ہے ۔ جاننے والا شخص اگر خاموش رہا اور لوگ گمراہ ہوتے رہے تو حدیث پاک کے مطابق میدان حشر میں اسے آگ کا لگام دیا جائے گا۔ ایسے ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر احکام الٰہی ترجمہ قرآن مجید یا دین کے لئے مصائب اٹھانے پہ گھبرانا نہ چاہیے کہ تمام غم وحزن بھی موت آنے پہ ختم ہوجائیں گے اور مرنا تو سب کو ہے اس سب میں بظاہر تو خیال پیدا ہوتا ہے کہ جملہ نفوس پہ موت آئے خواہ وہ جنتی ہوں یا دوزخی کہ سب نفوس ہیں نیز ذات باری کو بھی نفس کہا گیا ہے تو پھر عموم میں وہ بھی داخل ہوا ایسے ہی جمادات وغیرہ۔ صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ، بلکہ مراد وہ مکلف افراد ہیں جو دار تکلیف میں موجود ہیں کہ اس کے بعد ارشاد ہے کہ فمن زخرح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز۔ کہ جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں داخل ہوا کامیاب ٹھہرا۔ نیز نفس بدن کے علاوہ ہے اور یہی آیت اس کی زندگی اور بقاء پر دلیل ہے کہ وہ تو ذائق ہے ، چکھنے والا ہے اور ظاہر ہے کہ چکھنے والا تو نہ صرف باقی ہوگا بلکہ اسے وہ اوصاف بھی حاصل ہوں گے کہ وہ ذائقہ چکھے گا۔ موت کیا ہے ؟ ظاہر ہوا کہ موت ، حیات جسمانیہ کا خاصہ ہے ارواح مجردہ کا نہیں ، حیات دنیا کا انجام موت ہے اور اس کے بعد حصول اجر کی باری ہے وہ اجر دنیا کی نسبت بہت شدید بھی ہوگا اور نہ ختم ہونے والے عرصے کے لئے ہوگا۔ تو عقلمندی کی بات یہ ہے کہ اس روز کی فکر کی جائے کہ یہی فکر دنیا کے سارے دکھوں کا علاج ہے نگاہ آخرت پر ہو تو دین کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتیں بھی پیاری لگتی ہیں کہ آخرت میں بہت بڑے انعام کا سبب بننے والی ہوتی ہیں اور وہاں جو آگ سے بچ گیا عذاب سے چھٹکارا پاکر جنت میں داخل ہوگیا اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی اور یہ نعمت صرف مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔ خواہ شروع سے نجات نصیب ہو یا چندے سزا بھگت کر ، مگر یہ بات یقینی ہے کہ ایمان لے کر مرنے والے تمام لوگ ضرور جنت میں داخل ہوں گے اور ابدی نعمتیں پائیں گے۔ اس کے برعکس کافر کو ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے اور اگر اسی چند روزہ زندگی میں مال و دولت بھی مل گیا تو کیا حاصل کہ دنیا کی لذتیں بھی اس کے لئے ابدی کلفت کا سبب ہوں گی کہ دنیا اور اس کی زندگی تو محض ایک دھوکہ دینے والا سرمایہ ہے ۔ نیز اسلام نام ہی امتحان وآزمائش کا ہے کہ جان ومال نثار کرنا پڑے یا باطل فرقوں کی زبانوں سے زخم سہنے پڑیں۔ بلکہ ارشاد ہوا کہ تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت بدگوئی سنو گے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بد گوئی یا توہین مشرکین اور یہود کا شیوہ ہے اور یہی امتحان عملاً نیک لوگوں کے پیش آتے ہیں کہ بدکار اپنی زبانوں سے انہیں ایذا پہنچاتے ہیں اور یہ جان ومال نذر کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور راہ سلوک مشکل ترین گھاٹی ہے لیکن ارشاد ہے کہ تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔ اس حدیث پاک میں تبدیلی کرکے یا کوئی حصہ چھپا کر بیان کرنا انتہائی ظلم ہے اور ابدی خسر ان کا باعث ہے۔ نیز ایسے لوگوں کو یہ خوشی راس نہیں آئے گی کہ باوجود اس قبیحہ جرم کے لوگ تو انہیں نیک اور دیندار ہی سمجھتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے دین بیان کیا ہے حالانکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا بلکہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے دین کے نام پر اپنی بات کی ہوتی ہے۔ انہیں لوگوں کی تعریف اللہ کی گرفت سے بچا نہیں سکے گی۔ بلکہ ایسے دھوکا بازوں کو تو بڑا درد ناک عذاب ہوگا۔ یہ وصف بنیادی طور پر تو یہود و نصاریٰ کے ان علماء کا ہے جنہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر حق کو چھپایا مگر جو بھی اور جب کبھی بھی اپنے مفاد کے لئے لوگوں کو دھوکا دے گا۔ یعنی دین کے نام پر ایسی بات کہے گا جو دین نہیں تو وہ انہی لوگوں میں شمار ہوگا۔ اسی طرح بیشمار لوگ جنہوں نے تصوف و سلوک کے نام پر بیشمار بدعات جمع کررکھی ہیں ، اور جب کوئی پوچھے کہ حضرت ! یہ بات شرعاً جائز نہیں تو بڑی دیدہ دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ شریعت اور شے ہے اور طریقت اور ہے۔ حالانکہ ان کا مقصد صرف دنیا جمع کرنا ہوتا ہے ورنہ شریعت پر عمل کرنے کے لئے اور اس عمل میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لئے جو محنت اور مجاہدہ کیا جاتا ہے اسی کا نام تصوف ہے تو پھر یہ اور کیسے ہوسکتا ہے ؟ ایسے ہی وہ علماء جو محض حصول دنیا کے لئے خلاف اصل فتویٰ دیتے ہیں یا فروخت کرتے ہیں۔ غرض دنیا کے حصول کا سبب دین کو بنانا یعنی دین کو بیچ کردینا خریدنا انتہائی برافعل ہے اور اس پر بڑا درد ناک عذاب ہوگا ، اعاذنا اللہ منہا۔ پھر اگر کسی نے دنیا جمع بھی کرلی تو وہ اس کا مالک تو نہیں۔ آخر چھوڑ کر چل دے گا کہ ارض وسماء کی ریاست تو اللہ ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اس کا حکم ہمہ وقت نافذ ہے یعنی چاہے تو دین فروش کی رائی بھر فائدہ دنیا کا بھی حاصل نہ کرنے دے یا اسی دولت کو اس کے لئے مصیبت بنادے۔ نیز بالآخر تو سب کو چھوڑ ہی کر ہی جانا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 181 تا 183 سمع اللہ (اللہ نے سن لیا) اغنیاء (مال دار (غنی کی جمع) ذوقوا (تم چکھو (ذق) عذاب الحریق ( بھڑکتی آگ کا عذاب) ظلام (بہت زیادہ ظالم) عبید (بندے) ۔ تشریح : آیت نمبر 181 تا 183 سورة آل عمران کی ابتداء ہی سے خطاب اہل کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے ہو رہا تھا۔ درمیان میں غزوۂ احد سے متعلق ارشاد فرمایا گیا۔ اب پھر سلسلہ کلام اہل کتاب کی طرف ہے۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف کی جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال خرچ کرتے ہیں۔ اور ان کی برائی بیان کی گئی جو مال میں کنجوسی اختیار کرتے ہیں۔ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے سے کمزور اور بےبس لوگوں کی امداد واعانت کے لئے اپنا مال خرچ کریں تو اسی میں یہ آیت بھی نازل ہوئی ” من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسناً “ یعنی کون ایسا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے ؟ حالانکہ اس آیت میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس پر گستاخ یہودیوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا (نعوذباللہ) مسلمانوں کا اللہ تو مفلس اور غریب ہوچکا ہے۔ اس کا خزانہ خالی ہوگیا ہے۔ اب وہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے تاکہ اپنی سلطنت کو چلا سکے۔ مسلمانوں کا اللہ فقیر ہوچکا ہے اور ہم مال دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گستاخانہ انداز پر صرف اتنا فرمایا کہ ہم نے اس گستاخی کو اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان پر حجت تمام کرکے عذاب دیا جاسکے۔ پھر ان کی گستاخی کے ساتھ ان کے ایک اور جرم کا بھی ذکر فرما دیا کہ ان سے کوئی بعید نہیں ہے یہ تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے نبیوں تک کو قتل کیا ہے تو ایسے لوگوں سے اور کس بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ فرمایا کہ قیامت کے دن ان کو شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ ارشاد ہے اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ کچھ لوگ خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے عادی ہوتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں میں بخل کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہودیوں نے منافقوں کو یہ کہہ کر مالی تعاون سے منع کیا کہ مسلمانوں کا رب کنگال ہوگیا ہے اور ہم مال و دولت والے ہیں یہاں بخل کی مذمت اور اس گستاخی کی سزا سنائی گئی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) فنحاص یہودی عالم کے پاس بیت المدراس میں گئے۔ اسے کہنے لگے اللہ سے ڈرتے ہوئے مسلمان ہوجاؤ۔ کیونکہ تو جانتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے رسول ہیں اور یہ بات تورات وانجیل میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ فنحاص نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے محتاج نہیں۔ البتہ وہ ضرور ہمارا محتاج ہے اگر وہ ہمارا محتاج نہ ہوتا تو ہم سے قرضے کا مطالبہ نہ کرتا۔ حضرت ابوبکرصدیق (رض) غصے میں آئے اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور ساتھ یہ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر ہمارا آپس کا معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فنحاص یہ معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکرصدیق (رض) سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ فنحاص نے جب اپنی بات کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی تصدیق میں یہ آیات نازل فرمائیں۔[ تفسیر ابن کثیر ] انفاق فی سبیل اللہ کی تحریک کے خلاف منافقوں نے اپنے طریقہ کے مطابق کوشش اور زبان درازی کی۔ لیکن یہودیوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اب یہ نبی اور اس کا خدا لوگوں سے قرض کے نام پر چندہ مانگ رہے ہیں۔ در حقیقت مسلمانوں کا خدا فقیر اور کنگال ہوگیا ہے ہم ان کے مقابلے میں غنی اور دولت مند ہیں۔ جو خود لوگوں سے مانگتا ہے وہ ہمیں کہاں سے دوگنا تگنا کر کے واپس کرے گا ؟[ الرحیق المختوم ] اس ہرزہ سرائی اور یا وہ گوئی کے بارے میں سخت ناراضگی کے عالم میں فرمایا کہ جو کچھ یہ اپنی زبانوں سے نکال رہے ہیں۔ ہم نے اس کا ایک ایک حرف لکھ لیا ہے جس طرح ان کا انبیاء کو ناحق قتل کرنا ریکارڈ ہوچکا ہے۔ گویا کہ جس طرح انہوں نے انبیاء کو قتل کیا اس طرح ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی سزا یہ ہے کہ ہم قیامت کے دن انہیں کہیں گے کہ جس مال کو تم بچا بچا کر رکھتے تھے اب اسی مال کے ساتھ جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو۔ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اس کی سزا پائیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادتی نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں کرتا۔ بیشک انسان کتنا باغی ‘ کافر اور متکبر کیوں نہ ہو اسے اتنی ہی سزا ملے گی جتنا اس نے جرم کیا ہوگا۔ (عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْمَا رَوٰی عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنَّہٗ قَالَ یَاعِبَادِيْ إِنِّيْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِيْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَاتَظَالَمُوْا۔۔ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو ! یقینًا میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کرلیا ہے اور میں اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتا ہوں۔ پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔ “ مسائل ١۔ یہودی اللہ تعالیٰ کو فقیر اور اپنے آپ کو مال دار کہتے ہیں۔ ٢۔ ہر زہ سرائی اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے انہیں جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ ٣۔ لوگوں کو قیامت کے دن وہی کچھ ملے گا جو آگے بھیجیں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غنی ہے فقیر نہیں : ١۔ اللہ کے ہاتھ فراخ ہیں جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدۃ : ٦٤) ٢۔ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ (المنافقون : ٧) ٣۔ زمین و آسمان کی کنجیوں کا مالک اللہ ہے۔ (الزمر : ٦٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ رزق بڑھاتا اور کم کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٢) اللہ تعالیٰ ظلم پسند نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ عذاب دینا پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٤٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نبی بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا۔ (بنی اسرائیل : ١٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (آ : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کی ذات کے بارے میں بدترین خیالات یہودیوں کی تحریف شدہ کتب کے اندر بھی درج ہیں ۔ لیکن قرآن نے ان کا جو قول نقل کیا ہے یہ ان کا ذات باری کے متعلق نہایت گھٹیا تصور ہے……………” وہ جو کچھ کہتے ہیں ہم اسے لکھ لیں گے ۔ “ تاکہ ان کا محاسبہ کیا جاسکے ۔ ان کی یہ بات یونہی ہوا میں تحلیل نہ ہوجائے گی اور نہ ہی اسے مہمل اور لغو بات سمجھ کر چھوڑدیاجائے گا ۔ ان کی اس گستاخی کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے سابق کرتوتوں کا ایک حصہ بھی یہاں ذکر کردیا جاتا ہے ۔ یہ وہ گناہ ہیں جو ان کے ہم قوم ماضی میں کرتے رہے ہیں ۔ یہ سابقہ گناہ ان کے کھاتے میں اس لئے ڈالے جاتے ہیں کہ ان کی فطرت بدستور وہی ہے ۔ وہ اسی طرح نافرمان اور خطاکار تھے ۔ وَقَتْلَهُمُ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ……………” وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں ۔ “……بنی اسرائیل کی تاریخ نے قتل انبیاء کے اس مکروہ کام کے واقعات کو محفوظ رکھا ہے اور ان کا آخری کارنامہ وہ تھا جس میں انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی ۔ وہ تو اب بھی بہرحال یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو پھانسی دلوادی تھی اور اس عظیم جرم پر وہ فخر کرتے ہیں۔ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ……………” ہم ان سے کہیں گے کہ چکھو آگ میں جلنے کا عذاب۔ “ لفظ حریق یعنی جلنا اس لئے استعمال ہوا ہے کہ اس عذاب کی خوفناکی نظروں میں آجائے ۔ اور یہ بات ذہن میں آجائے کہ یہ عذاب پاتے وقت آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہوں گے ‘ اور وہ اپنا کام ہولناک انداز میں کررہے ہوں گے ۔ آگ میں خوفناک جوش ہوگا۔ یہ اس لئے کہ ان کا یہ فعل بھی اسی قدر مکروہ ہے ۔ انبیاء کو قتل کردینا اور بغیر کسی جواز کے قتل کردینا اور پھر وہ جو بات کررہے ہیں وہ بھی بہت ہی گھٹیا ہے کہ اللہ فقیر ہے اور وہ غنی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود کی بیہودگی اور ان کے لیے عذاب کی و عید لباب النقول صفحہ ٦١ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ایک دن یہودیوں کے بیت المدارس (یعنی مدرسہ) میں تشریف لے گئے وہاں ایک شخص کے پاس یہودی جمع تھے جس کا نام فخاص تھا فخاص نے کہا اے ابوبکر ہمیں اللہ کی طرف کوئی محتاجی نہیں اور اللہ ہمارا محتاج ہے اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض کیوں مانگتا، تمہارا نبی یہ بتاتا ہے کہ اللہ قرض طلب کرتا ہے اس پر حضرت ابوبکر (رض) کو غصہ آگیا اور فخاص کے چہرے پر طمانچہ مار دیا۔ فخاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گیا اور کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! دیکھو تمہارے ساتھی نے میرے ساتھ کیا کیا۔ آپ نے ابوبکر سے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے بہت سخت بات کہی ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اس پر فخاص منکر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ مروی ہے کہ جب آیت کریمہ (مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً ) نازل ہوئی تو یہودی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ! تمہارا رب تو فقیر ہوگیا، وہ بندوں سے مانگتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت (لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ یہ تو مشہور ہی ہے کہ اعتراض کرنے والا اندھا ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے زکوٰۃ صدقات دینے کا جو حکم فرمایا پھر اس پر آخرت میں ثواب دینے کا وعدہ فرمایا اس کی مہربانی کے طور پر قرض سے تعبیر فرما دیا کہ یہاں میرے بندوں پر خرچ کر دو اور اس کا اجر وثواب میں تم کو آخرت میں دے دوں گا، سارے بندے اور بندوں کے سارے مال سب اللہ ہی کی ملکیت ہیں وہ اگر سارا مال خرچ کرنے کا حکم دیتا اور بالکل کچھ بھی ثواب نہ دیتا تو اسے اس کا بھی اختیار ہے وہ تو بےغرض اور بےحاجت ہے غنی ہے مغنی ہے بےنیاز ہے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں اس نے ابتلاء اور امتحان کے طور پر بندوں کو حکم دیا کہ بندوں پر خرچ کریں۔ اور اپنے پاس سے دینے کا وعدہ فرما لیا۔ یہودیوں نے اس کرم اور فضل اور مہربانی کو نہ سمجھا اللہ نے اپنے دئیے ہوئے مال میں سے حکم کے مطابق خرچ کرنے کا نام قرض رکھ دیا اور ثواب کا وعدہ فرما لیا اور قرآن مجید کی اس تعبیر پر اعتراض کر بیٹھے اور کہنے لگے کہ اللہ فقیر ہوگیا ہم سے مانگتا ہے لہٰذا ہم مالدار ہوئے اور وہ فقیر ہوا (العباذ باللہ) اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ انہوں نے جو کہا ہے اس کو ہم لیں گے یعنی صحائف اعمال میں اس کو درج کرا دیں گے اور ان کی یہ بات محفوظ رہے گی، جس پر ان کو سزا ملے گی۔ یہودیوں کی اس بات میں اللہ جل شانہٗ کے بارے میں بد عقیدہ ہونے کا اظہار ہے اور قرآن کا استہزاء ہے اور ان کا ایک یہی قول باعث عذاب و عقاب نہیں ہے بلکہ وہ تو اور بھی بہت سے بری حرکتیں کرچکے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ناحق انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کیا، یہ کام کیا تو تھا ان کے آباؤ اجداد نے لیکن موجودہ یہودیوں کی اس پر کوئی نکیر نہیں اور اپنے آباؤ اجداد کے اس عمل سے راضی ہیں لہٰذا یہ بھی قیامت کے دن ان کے اعمال ناموں میں لکھا ہوا ملے گا۔ کافرانہ عقیدوں اور حرکتوں کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھ لو اور یہ عذاب تمہارے اعمال کی وجہ سے ہے جو تم نے دنیا میں کیے اور آخرت میں بھیج دئیے۔ جو کچھ بھی عذاب ہے تمہارے اپنے کیے کا پھل ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم فرمانے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد یہودیوں نے ایک اور بات نقل فرمائی پھر اس کا جواب دیا، یہودیوں نے یہ کہا کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تم پر کیسے ایمان لائیں، ہمیں تو اللہ نے تورات میں یہ حکم دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ جو بھی کوئی شخص رسالت اور نبوت کا مدعی ہو ہم اس کی تصدیق نہ کریں جب تک کہ وہ اللہ کی بار گاہ میں قربانی پیش نہ کرے اور یہ قربانی ایسی ہو جسے آگ جلا کر بھسم کر دے یہ آگ کا جلانا دلیل اس بات کی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہوگئی اور یہ شخص جس نے قربانی پیش کی ہے واقعی اللہ کا رسول ہے، اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ آپ جواب میں فرما دیجیے کہ تم سے پہلے کثیر تعداد میں انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے ان کے پاس کھلے کھلے معجزات تھے اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ قربانی پیش کی جائے جسے آگ جلا دے انہوں نے تمہارے سامنے یہ بھی کیا قربانیاں پیش کیں جنہیں آگ نے جلایا، تم تو اس پر بھی ایمان نہ لائے اور نہ صرف یہ کہ ایمان نہ لائے بلکہ تم نے ان کو قتل کردیا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو انبیاء سابقین پر ایمان لے آتے بات یہ ہے کہ تمہیں ایمان لانا نہیں ہے بطور کٹ حجتی حیلے بہانے تراشنے کے لیے ایسی باتیں کہتے ہو۔ (روح المعانی صفحہ ١٤١ تا ١٤٤: ج ٤)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

277 یہ ترغیب علی الانفاق اور تخویف اخروی کے بعد منافقین یہود کا شکوی ہے جب اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کی اَقْرَضُوْا اللہَ قَرْضًا حَسَنًا سے ترغیب دی تو وہ ازراہ استہزاء و تمسخر کہنے لگے کہ اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ہیں کیونکہ وہ ہم سے قرض مانگ رہا ہے۔ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا۔ یہ تخویف اخروی ہے اور یہاں سین تاکید کے لیے ہے اور لکھنے کی نسبت اللہ کی طرف مجازی ہے یعنی جو کچھ انہوں نے کہا ہے ہم ضرور کراماً کاتبین کو اسے لکھنے کا حکم دیں گے اور اسے ضرور قلمبند کرلیا جائے گا۔ ای نا مر الحفظۃ باثبات قولھم الخ (قرطبی ج 4 ص 494) ۔ والسین للتاکید ای لن یفوتنا ابدا تدوینہ واثباتہ الخ (روح ج 4 ص 141) ۔ وَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ، یہ مَا قَالُوْا پر معطوف ہے یعنی ہم نے ان کا مذکورہ بالا قول اور قتل انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے قتل پر رضا مندی کا جرم بھی ان کے اعمال ناموں میں ثبت کرلیا ہے قیامت کے دن وہ خود ہی اپنے اعمالنامے پڑھ لیں گے اس وقت ان کے عذاب میں اضافہ کرنے اور ان کی حسرت و یاس بڑھانے کے لیے ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنے ان سابقہ گناہوں کی پاداش میں جہنم کا عذاب چکھو۔ یہاں تک یہود کے لیے وعید اور تخویف اخروی ہے۔ ذَالِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکم وَاِنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعِبِیْد یہ ماقبل ہی کا تتمہ ہے اس میں بیان فرمایا کہ سزا ان کے خود کردہ گناہوں کی ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں کہ بندوں کو ناحق سزا دے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi