Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 183

سورة آل عمران

اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰی یَاۡتِیَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡکُلُہُ النَّارُ ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِیۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡہُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۸۳﴾

[They are] those who said, "Indeed, Allah has taken our promise not to believe any messenger until he brings us an offering which fire [from heaven] will consume." Say, "There have already come to you messengers before me with clear proofs and [even] that of which you speak. So why did you kill them, if you should be truthful?"

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچّے ہو تو مجھ سے پہلے تمہارے پاس جو رسول دیگر معجزوں کے ساتھ یہ بھی لائے جیسے تم کہہ رہے ہو پھر تم نے انہیں کیوں مار ڈالا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلاَّ نُوْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىَ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ... Those (Jews) who said: "Verily, Allah has taken our promise not to believe in any Messenger unless he brings to us an offering which the fire (from heaven) shall devour." Ibn Abbas and Al-Hasan stated, Allah refuted their claim that in their Books, Allah took a covenant from them to only believe in the Messenger whose miracles include fire coming down from the sky that consumes the charity offered by a member of the Messenger's nation. Allah replied, ... قُلْ قَدْ جَاءكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ ... Say: "Verily, there came to you Messengers before me, with Al-Bayinat..." with proofs and evidence, ... وَبِالَّذِي قُلْتُمْ ... and even with what you speak of, a fire that consumes the accepted charity, as you asked, ... فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ ... why then did you kill them! Why did you meet these Prophets with denial, defiance, stubbornness and even murder! ... إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ if you are truthful. if you follow the truth and obey the Messengers. Allah then comforts His Prophet Muhammad, فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَأوُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

183۔ 1 اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی اور صدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے حکم الٰہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے ہیں جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨١] یہودیوں کا یہ قول صریح جھوٹ اور اللہ پر بہتان ہے۔ تورات میں یا موجودہ بائیبل میں کہیں بھی مذکور نہیں کہ جو نبی آتشیں قربانی کا معجزہ پیش نہ کرسکے وہ نبی نہ ہوگا البتہ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ بعض انبیاء کو یہ معجزہ دیا گیا تھا۔ سب سے پہلے تو قابیل اور ہابیل کی قربانی کے قبول ہونے کا ہی یہ معیار مقرر ہوا تھا۔ پھر بعد میں حضرت الیاس، حضرت سلیمان اور حضرت یحییٰ (علیہم السلام) کو یہ معجزہ عطا ہوا تھا اور بیشتر انبیاء ایسے تھے جنہیں یہ معجزہ نہیں دیا گیا تھا۔ اب یہود سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک کسی نبی کے برحق ہونے کا یہی معیار ہے تو پھر جن انبیاء کو یہ معجزہ دیا گیا تھا۔ انہیں تم نے کیوں قتل کیا تھا۔ حضرت یحییٰ کو ان یہود نے قتل کردیا اور اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاس کی دشمن ہوگئی اور زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کو خوش کرنے کے لیے ان کے قتل کے درپے ہوا۔ آخر انہیں وہاں سے نکل کر جزیرہ نمائے سینا میں پناہ لینا پڑی (سلاطین باب ١٨: ١٩) لیکن اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ اور بھی کئی نبی تھے جنہیں یہ معجزہ عطا ہوا تھا اور یہود نے انہیں قتل کیا تھا اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے یہ صریح بہتان اس لیے گھڑا تھا کہ نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لانے کے لیے ایک عذر کا کام دے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہود اپنے اللہ سے کئے ہوئے عہد کے کس حد تک پابند ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَيْنَآ : یہ ان کا دوسرا اعتراض ہے جو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان نہ لانے کے سلسلے میں پیش کیا کہ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا ہے کہ اگر کوئی نبی یہ معجزہ پیش نہ کرے تو اس پر ایمان نہ لائیں۔ (رازی) حالانکہ ان کی کسی کتاب میں یہ حکم نہیں اور ان کے تمام انبیاء کو یہ معجزہ عطا بھی نہیں ہوا تھا، جیسا کہ اسی آیت میں اشارہ ہے : ( قُلْ قَدْ جَاۗءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ ) یہاں ” رسل “ نکرہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تمام انبیاء کو نہیں، بلکہ بعض کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ جب کوئی سوختنی (جلائی جانے والی) قربانی (نذر) پیش کی جاتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، اس قربانی (نذر) کی قبولیت کی علامت کے طور پر آسمان سے آگ اترتی، جو اسے جلا ڈالتی۔ جیسا کہ ایلیاء اور سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق مذکور ہے۔ (ابن کثیر) 2 قُلْ قَدْ جَاۗءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ : یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے، جو اوپر ذکر ہوا کہ اگر واقعی تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تمہارے آباء و اجداد نے ان بہت سے انبیاء کو قتل کیوں کر ڈالا، جو اپنی نبوت کے صدق پر دوسری واضح دلیلوں کے ساتھ یہ معجزہ بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کر رہے ہو ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (183) takes up the case of a false accusation made by these very Jews who came up with an excuse in order to reject the prophethood of the Messenger of Allah. Their contention was that, during the period of past prophets, there used to be a method under which charities and offerings were placed in the centre of an open ground or on top of a hill where heavenly fire came and burnt these to ashes. This used to symbolize that offerings were accepted. But, to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and to his community, Allah Almighty had given the unique distinc¬tion that charities were not left to be consumed by heavenly fire. They were given to the poor and needy among Muslims. Since the later method was contrary to the former, the disbelievers found an excuse to say: If you were a prophet, you too would have been given the miracle whereby the heavenly fire would have consumed the offerings and charities. They, not resting at that, became audacious enough to fabri¬cate lies against Allah Almighty claiming that &He has taken pledge from them to the effect that they are not to believe in a person who is unable to cause the miracle of the coming of a heavenly fire which burns the charitable offerings. Since this claim of the Jews that Allah had taken a pledge from them was false, there was really no need to counter it. So, to disarm them through their very proven saying, Allah Almighty said: If you are true in saying that Allah has taken such a pledge from you, then, the past prophets who had obliged you by showing the miracle of your choice whereby the heavenly fire consumed the offerings certainly deserved that you should have at least believed in them! But, what actually happened is that you did not spare them either. You still falsi-fied them. In fact, you went to the extreme of transgression by killing them. Let no one have any doubt here despite the fact that while this claim of the Jews was absolutely false, may be, if this miracle did come to pass at the hand of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) chances were that they would probably have come to believe. Such a doubt is unfounded &because Allah Almighty knew that these people were saying such things simply out of hostility and obstinacy. Thus, even if the miracle they demanded came to pass, they would have still not believed.

چوتھی آیت میں انہی یہود کا ایک افتراء و بہتان کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کے لئے یہ حلیہ پیش کیا کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے زمانہ میں یہ طریقہ تھا کہ صدقات کے مال کسی میدان یا پہاڑ پر رکھ دیئے جاتے تھے اور آسمانی آگ ان کو آ کر جلا دیتی تھی، یہی علامت صدقات کی قبولیت کی ہوتی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو حق تعالیٰ نے یہ خاص امتیاز عطا فرمایا تھا کہ اموال صدقات آسمانی آگ کی نذر کرنے کے بجائے مسلمان فقیروں و محتاجوں کو دیئے جاتے ہیں، چونکہ پچھلے انبیاء کے طرز مذکور کے یہ طرز خلاف تھا، اس لئے اس کو مشرکین نے بہانہ بنایا کہ اگر آپ نبی ہوتے تو آپ کو بھی یہ معجزہ عطا ہوتا کہ آسمانی آگ اموال صدقات کو کھا جاتی اس پر مزید یہ جرأت کی کہ اللہ تعالیٰ پر یہ بہتان باندھا کہ اس نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم اس شخص پر ایمان نہ لائیں جس سے یہ معجزہ آسمانی آگ کے آنے اور مال صدقہ کو جلانے کا صادر نہ ہو۔ چونکہ یہود کا یہ دعویٰ بالکل بےدلیل اور باطل تھا کہ اللہ نے ان سے یہ عہد لیا ہے، اس کا جواب دینے کی تو ضرورت نہ تھی، ان کو انہی کے مسلمہ قول سے مغلوب کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے ایسا عہد لیا ہے، تو پھر جن انبیاء سابقین نے تمہارے کہنے کے مطابق یہ معجزہ بھی دکھلایا تھا کہ آسمانی آگ مال صدقہ کو کھا گئی تو تم ان پر تو ایمان لاتے، مگر ہوا یہ کہ تم نے ان کی بھی تکذیب ہی کی، بلکہ ان کو قتل تک کر ڈالا۔ یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اگرچہ یہود کا یہ دعویٰ اور مطالبہ قطعاً غلط تھا، لیکن اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر یہ معجزہ بھی ہوجاتا تو شاید ایمان لے آتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ لوگ محض عناد اور ہٹ دھرمی سے یہ باتیں کہہ رہے ہیں اگر ان کے کہنے کے مطابق معجزہ ہو بھی جاتا، جب بھی یہ ایمان نہ لاتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ عَہِدَ اِلَيْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰى يَاْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُہُ النَّارُ۝ ٠ ۭ قُلْ قَدْ جَاۗءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ وَبِالَّذِيْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْھُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ١٨٣ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ قُرْباناً والقُرْبَانُ : ما يُتَقَرَّبُ به إلى الله، وصار في التّعارف اسما للنّسيكة التي هي الذّبيحة، وجمعه : قَرَابِينُ. قال تعالی: إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة/ 27] ، حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران/ 183] ، وقوله : قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف/ 28] ، فمن قولهم : قُرْبَانُ الملک : لِمَن يَتَقَرَّبُ بخدمته إلى الملک، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، ولکونه في هذا الموضع جمعا القربان ( نیا ز ) ہر وہ چیز جس سے اللہ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعیة نسیکۃ یعنی ذبیحۃ آتا ہے اس کی جمع قرابین ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة/ 27] ان دونوں نے خدا کی جناب میں کچھ نیازیں چڑھائیں ۔ حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران/ 183] جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز لے کر آئے اور آیت کریمہ : ۔ قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف/ 28] تقرب خدا کے سوا معبود ( بنایا تھا ) میں قربان کا لفظ قربان الملک کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی بادشاہ کا ہم نشین اور ندیم خاص کے ہیں اور یہ واحد دونوں پر بولا جاتا ہے اور یہاں چونکہ جمع کے معنی میں ہے اس لئے الھۃ بلفظ جمع لا یا گیا ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٣۔ ١٨٤) اور یہود جھوٹ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم کسی رسول کی تصدیق نہ کریں جب تک کہ جیسا کہ انبیاء کرام کے زمانہ میں غیب سے آگ آکر نذر ونیاز خداوندی کو کھاجایا کرتی تھی اسی طرح اب بھی یہ بات ظاہر نہ کرو۔ اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں سے فرما دیجیے کہ بہت سے انبیاء کرام مثلا حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اوامرو نواہی، اور بہت سے دلائل اور خصوصیات کے ساتھ یہ قربانی والا معجزہ بھی لے کر آئے پھر کیوں تم نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا۔ یہود بولے ہمارے آباؤ اجداد نے تو انبیاء کو ظلما قتل نہیں کیا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی تکذیب سے غم نہ کیجیے کیونکہ بہت سے انبیاء جو ان کے پاس اوامرو نواہی، دلائل نبوت اور پہلے لوگوں کے واقعات اور حلال و حرام کو ظاہر کردینے والی کتاب لے کر آئے تھے مگر ان کی قوم واضح اور کھلی نشانیاں دیکھنے کے بعد پھر بھی انھیں جھٹلایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٣ (اَلَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیْنَآ) (اَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُط یہاں روئے سخن پھر یہود کی طرف ہوگیا ہے۔ نوع انسانی جب عہد طفولیت میں تھی تو خرق عادت چیزیں بہت ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ اگر کوئی شخص اللہ کی جناب میں کوئی جانور ذبح کر کے پیش کرتا تو آسمان سے ایک آگ اترتی جو اسے بھسم کردیتی تھی اور یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ قربانی قبول ہوگئی۔ جیسے ہابیل اور قابیل کے قصے میں آیا ہے کہ : (اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط) (المائدۃ : ٢٧) جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ یہ پتا کیسے چلا ؟ عید الاضحی کے موقع پر ہم جو قربانیاں کرتے ہیں ان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ کس کی قربانی قبول ہوئی اور کس کی قبول نہیں ہوئی۔ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن پہلے ایسی حِسّی علامات ہوتی تھیں کہ پتا چل جاتا تھا کہ یہ قربانی اللہ نے قبول کرلی ہے۔ بنی اسرائیل کے ابتدائی دور میں بھی یہ نشانی موجود تھی کہ آسمان سے اترنے والی آگ کا قربانی کو بھسم کردینا اس کی قبولیت کی علامت تھی۔ مدینہ کے یہود نے کٹ حجتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے تو اللہ نے یہ عہد لے لیا تھا کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ یہ معجزہ نہ دکھائے۔ تو اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو یہ معجزہ دکھائیں۔ اس کا جواب دیا جا رہا ہے : (قُلْ قَدْ جَآءَ کُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بالْبَیِّنٰتِ ) ( وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ ) انہوں نے سوختنی قربانی کا معجزہ بھی دکھایا جس کا تم مطالبہ کر رہے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

129. The Bible mentions at several places that the token of Divine acceptance of a person's sacrificial offering was the appearance of a mysterious fire which consumed the offering. (See Judges 6: 20-1 and 13: 19-20; 2 Chronicles 7: 1-2.) The Bible does not state, however, that the consuming fire was an indispensable token of prophethood and that anyone not endowed with that miracle could not be a Prophet. The Jews in discussing the claim of Muhammad (peace be on him) to be a Messenger of God brought up the question of this miraculous sign, and used it as a pretext for denying that claim. There was even clearer evidence of the Jews' hostility to Truth: they had not hesitated to murder a number of Prophets who had been endowed with the miracle of consuming fire. The Bible mentions, for example, the Prophet Elijah who had challenged the worshippers of Ba'l to sacrifice a bull, promising that he too would sacrifice a bull. He stated that the offering of the one who was truthful would be consumed by the miraculous fire. The confrontation took place before a large crowd and it was Elijah's sacrifice which was consumed by the fire. This so antagonized the Ba'1-worshipping Queen that the henpecked King decided to put the Prophet Elijah to death. Elijah was forced to leave his homeland and take refuge in the mountains of Sinai. (See 1 Kings 18 and 19.) The Jews are told in effect: 'How dare you ask for the miracle of the consuming fire when in the past you have not even refrained from murdering Prophets who performed that miracle?'

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :129 بائیبل میں متعدد مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ خدا کے ہاں کسی قربانی کے مقبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہو کر اسے بھسم کر دیتی تھی ( قضاة ٦: ۲۰ ۔ ۲١ و ١۳: ١۹ ۔ ۲۰ ) ۔ نیز یہ ذکر بھی بائیبل میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر کوئی نبی سوختنی قربانی کرتا تھا اور ایک غیبی آگ آکر اسے کھا لیتی تھی ( احبار ۔ ۹ : ۲٤ ۔ ۲ ۔ تواریخ ۔ ۷ : ١ ۔ ۲ ) ۔ لیکن یہ کسی جگہ بھی نہیں لکھا کہ اس طرح کی قربانی نبوت کی کوئی ضروری علامت ہے ، یا یہ کہ جس شخص کو یہ معجزہ نہ دیا گیا ہو وہ ہرگز نبی نہیں ہو سکتا ۔ یہ محض ایک من گھڑت بہانا تھا جو یہودیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے تصنیف کر لیا تھا ۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی حق دشمنی کا ثبوت یہ تھا کہ خود انبیاء بنی اسرائیل میں سے بعض نبی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے آتشیں قربانی کا یہ معجزہ پیش کیا اور پھر بھی یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے قتل سے باز نہ رہے ۔ مثال کے طور پر بائیبل میں حضرت الیاس علیہ السلام ( ایلیاہ تشبی ) کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے بعل کے پجاریوں کو چیلنج دیا کہ مجمع عام میں ایک بیل کی قربانی تم کرو اور ایک کی قربانی میں کرتا ہوں ۔ جس کی قربانی کو غیبی آگ کھالے وہی حق پر ہے ۔ چنانچہ ایک خلق کثیر کے سامنے یہ مقابلہ ہوا اور غیبی آگ نے حضرت الیاس علیہ السلام کی قربانی کھائی ۔ لیکن اس کا جو کچھ نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاس علیہ السلام کی دشمن ہو گئی ، اور وہ زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کی خاطر ان کے قتل کے درپے ہوا اور ان کو مجبوراً ملک سے نکل کر جزیرہ نما ئے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی ( ١ ۔ سلاطین ۔ باب ١۸ و ١۹ ) ۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا ہے کہ حق کے دشمنو! تم کس منہ سے آتشیں قربانی کا معجزہ مانگتے ہو ؟ جن پیغمبروں نے یہ معجزہ دکھایا تھا انہی کے قتل سے تم کب باز رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

63: پچھلے انبیائے کرام کے زمانے میں طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کوئی جانور قربان کرتا تو اس کو کھانا حلال نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ جانور ذبح کر کے کسی میدان میں یا ٹیلے پر رکھ دیتا تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ قربانی قبول فرماتے تو آسمان سے ایک آگ آکر اس کو قربانی کو کھا لیتی تھی۔ اس کو سوختنی قربانی کہا جاتا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں یہ طریقہ ختم کردیا گیا اور قربانی کا گوشت انسانوں کے لیے حلال کردیا گیا۔ یہودیوں نے کہا تھا کہ چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی قربانی لے کر نہیں آئے اس لیے ہم ان پر ایمان نہیں لاتے۔ چونکہ یہ محض وقت گذاری کا ایک بہانہ تھا اور حقیقت میں ایمان لانا پیش نظر نہیں تھا۔ اس لیے انہیں یاد دلایا گیا کہ ماضی میں ایسے نشانات تمہارے سامنے آئے تب بھی تم ایمان لانے کے بجائے انبیاء کرام کو قتل کرتے رہے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(183 ۔ 184) ۔ انبیاء بنی اسرائیل میں سے بعض نبیوں کا یہ معجزہ تھا کہ اللہ کی نیاز جس چیز پر کی جاتی تھی ان نبیوں کے معجزہ کے سبب سے آگ آسمانی اس نیاز کی چیز کو جلا دیتی تھی اور یہی نشانی تھی کہ وہ نیاز قبول ہوگئی۔ اب یہود نے نبی آخر الزمان پر جب ایمان لانے کو کہا جاتا تھا تو یہ بہانہ کرتے تھے کہ ہم کو تورات میں حکم ہے کہ جس نبی سے وہ آگ کا معجزہ ظاہر نہ ہو اس پر ہم ایمان نہ لائیں اگرچہ یہ بہانہ جھوٹا تھا تورات میں کہیں ایسا ذکر نہیں ہے کہ ہر نبی کے لئے وہ آگ کا معجزہ ضروری ہے لیکن یہود کو پورا قائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ حد سے زیادہ زیادتی انہیں یاد دلائی جس کا اوپر کی آیت میں ذکر تھا۔ چناچہ فرمایا کہ اگر تم اپنے اس بہانے میں سچے ہو کہ ہر نبی کے لئے وہ آگ کا معجزہ ضرور ہے تو جن نبیوں کے پاس یہ معجزہ بھی تھا ان کے خون ناحق کے درپے تم کیوں ہوئے اور ان کو کیوں قتل کیا پھر آخر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی یوں تسلی فرمائی کہ اس قائلی معقولی کے بعد بھی یہ لوگ اپنی ہٹ دہرمی سے باز نہ آئیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان یہ ہٹ دہرمی کچھ نئی نہیں ہے۔ بلکہ ان کے بڑوں سے یہی ہوتی آئی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:183) الذین۔ یعنی وہ لوگ جن کو ذوقوا عذاب الحریق کہا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ ان کا دوسرا شبہ ہے جو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان نہ لانے کے سلسلہ میں پیش کیا کہ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا ہے کہ اگر کوئی نبی یہ معجزہ پیش نہ کرے تو اس پر ایمان نہ لائیں۔ (کبیر) حالانکہ ان کی کسی کتاب میں یہ حکم نہیں ہے۔ ہاں بعض انبیا ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) کے بارے میں یہ ضرور مذکور ہے کہ جب کوئی سوختی قربانی (نذر) پیش کی جاتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ اس قربانی (نذر) کی علامت قبولیت کے طور پر آسمان سے آگ اترتی جو اسے جلا ڈالتی جیسا کہ حضرت ایلیا ( علیہ السلام) اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے متعلق مذکور ہے۔ (کبیر، ابن کثیر)3 یہ ان کی اس شبہ کا جواب ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ اگر واقعی تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تمہارے آباواجداد نے ان بہت سے انبیا ( علیہ السلام) کو قتل کیوں کر ڈالا جو اپنے دعوائے صدق نبوت پر دوسری واضح نشانیوں کے ساتھ (وبالذی قلتم) معجزہ بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کررہے ہو (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 183 تا 185 عھد (وعدہ کیا) حتی یا تینا (جب تک نہ لائے ہمارے پاس) بقربان (قربانی) تاکله النار (اس کو آگ کھالے) کذب (جھٹلایا گیا) زبر (صحیفے) الکتاب المنیر (روشن کتاب) ذائقة الموت (موت کا مزہ چکھنا ہے) زحزح ( بچا لیا گیا) ادخل (داخل کردیا گیا) متاع الغرور (دھوکے کا سامان) تشریح : آیت نمبر ا 83 تا 185 یہود جو ہر طرح اسلام کا مذاق اڑانے میں سب سے آگے رہتے تھے انہوں نے ایک نئی بات کہنا شروع کردی کہ ہم ایمان تو لے آئیں مگر دشواری یہ ہے کہ ہمیں اللہ نے حکم دے رکھا ہے کہ جب تک آنے والا نبی ایک قربانی کا جانور پیش نہ کردے جس کو آسمان سے آکر غیبی آگ کھا جائے اس وقت تک ہم اس پر ایمان نہ لائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس احمقانہ بات کا جواب یہی دیا کہ اس سے پہلے انبیاء کرام بھی تو اس طرح کے معجزات دکھا چکے ہیں کیا تمہارے آباء واجدادا ن معجزات کو دیکھ کر ایمان لائے ؟ اگر ان کو توفیق نہیں ہوئی تو تمہیں کای توفیق ہوگی۔ انبیاء کرام نے یہ معجزات دکھلائے لیکن اس کے باوجود بھی ان کو قتل کردیا گیا ۔ جس کو ایمان لانا ہوتا ہے وہ اتنے بہانے اور باتیں نہیں کیا کرتا۔ فرمایا گیا کہ اے اللہ کے رسول اگر آج یہ آپ کو طرح طرح سے ستا رہے ہیں اور آپ پر ایمان نہیں لاتے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ اس سے پہلے انبیاء کرام کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرچکے ہیں۔ فرمایا گیا کہ موت سے تو ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے پھر انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کامیاب ہونے والے کون تھے اور دنیا وآخرت کی ناکامیاں کس نے سمیٹ لی ہیں۔ یقیناً وہ شخص جو دوزخ کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب و بامراد ہے اور یہ دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔ اصل چیز آخرت اور اس کی زندگی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پہلے بعض انبیاء کا یہ معجزہ ہوا ہے کہ کوئی چیز جاندار یا غیر جاندار اللہ کے نام کی نکال کر کسی میدان یا پہاڑ پر رکھ دی غیب سے ایک آگ نمودا رہوئی اور اس چیز کو جلا دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ پر فقر کا الزام لگا کر یہودی مسلمانوں میں بخل کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کی ذات اور دین سے روکنے کے لیے قربانی کے جل کر خاکستر ہونے کی جھوٹی شرط پیش کرتے جس کی یہ کہہ کر تردید کی گئی ہے کہ پہلے انبیاء میں سے کچھ نے یہ معجزہ بھی دکھایا تھا پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا ؟ یہودی کسی صورت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تھے اور ایسا ہی ان کا رویّہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ بات بات پر اعتراضات، ہر مسئلے کو سوالات کے ذریعے الجھانے اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے۔ جب نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہر طرح لا جواب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے ذمّہ بات لگاتے کہ در اصل اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی رسول پر ایمان نہیں لانا جب تک وہ رسول قربانی ذبح نہ کرے جسے تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے آئی ہوئی آگ نگل جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے بار بار مطالبہ کی وجہ سے بعض انبیاء کے دور میں یہ واقعات رونما ہوئے کہ جو نہی قربانی پیش کی گئی آسمان سے آگ آئی اس نے اسے جلا کر خاکستر کردیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس شخص کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں مستجاب ہوچکی ہے اور یہ نبی سچا ہے۔ اس بات کو یہود نے اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جیسے یہ نبوت کے لیے لازمی نشانی ہو۔ حالانکہ تورات اور انجیل میں نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے ایسی کسی شرط کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اے نبی ! ان سے پوچھیے کہ مجھ سے پہلے بیشمار رسول ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ آئے اور وہ چیز بھی انہوں نے کر دکھائی جس کا تم مطالبہ کرتے ہو اگر تم اپنی اس حجت میں سچے ہو تو بتاؤ کہ قربانی کے جل کر راکھ ہونے اور واضح دلائل آنے کے باوجود تم نے پہلے انبیاء کو قتل کیوں کیا ؟ اس کے بعد آپ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو بلاشبہ پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا ہے۔ جبکہ یہ انبیاء واضح دلائل لے کر آئے تھے اور حضرت داوٗد اور عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی روشن کتابوں اور کھلے معجزات کے ساتھ آئے تھے۔ جھٹلانے والوں نے ان کی بھی تکذیب کی۔ سورۂ یٰس میں یہاں تک بیان ہوا کہ ایک بستی میں پہلے ایک رسول آیا پھر دوسرے رسول بھیجے گئے اور ان کے بعد تیسرے نبی مبعوث کیے گئے جنہوں نے ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق فرمائی لیکن اس کے باوجود لوگوں نے تینوں نبیوں کو جھٹلایا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ (وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ اِذْجَآءَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ ) [ یٰسین : ١٣، ١٤] ” ان کے سامنے اس بستی کے رہنے والوں کی مثال بیان کرو۔ جن کے پاس پیغمبر تشریف لائے جب ہم نے ان کی طرف دو رسول مبعوث کیے تو انہوں نے دونوں کو جھٹلایا۔ ہم نے تیسرے کو بھیجا تینوں پیغمبروں نے لوگوں کو بتلایا کہ ہم رسول اور پیغمبر ہیں۔ “ لہٰذا اے محبوب پیغمبر ! تمہیں دل چھوٹا کرنے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا : (فَإِنَّھُمْ لَایُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بآیَات اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ) [ الانعام : ٣٣] ” یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے لیکن ظالم لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ یہودی اپنی صداقت کے لیے من گھڑت دعوے اور جھوٹی نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیائے عظام کو معجزات اور آسمانی کتابیں پیش کرنے کے باوجود جھٹلایا گیا۔ تفسیر بالقرآن حقائق کو جھٹلانا اہل کفر کا وطیرہ ہے : ١۔ اہل کفر انبیاء کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (آ : ١٤) ٢۔ باطل پرست اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ (المائدۃ : ٨٦) ٣۔ کفار قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ (الروم : ١٦) ٤۔ کفار اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ (المائدۃ : ١٠٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں قرآن کریم ان کی اس بات کا تاریخی حوالوں سے جواب دیتا ہے کہ انہوں نے جن انبیاء کو قتل کیا تھا ‘ انہوں نے تو ایسے معجزات دکھادیئے تھے ‘ جو خود انہوں نے طلب کئے تھے ۔ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ” جو لوگ کہتے ہیں ” اللہ نے ہم کو ہدایت کردی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے (غیب سے آکر) آگ کھالے ۔ “ تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آچکے جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا ذکر تم کرتے ہو ‘ پھر اگر (ایمان لانے کے لئے یہ شرط پیش کرنے میں ) تم سچے ہو تو ان رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا ؟ یہ نہایت ہی قوی الزامی جواب تھا ۔ جس سے ظاہر ہوگیا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور بات توڑ موڑ کر بیان کرتے ہیں اور کفر پر اصرار کرتے ہیں ۔ اور مزید یہ کہ سخت تکبر کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور اللہ پر اختراء باندھتے ہیں ۔ یہاں آکر اب بات کا رخ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مڑجاتا ہے ‘ آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کی دلجوئی کی جاتی ہے اور آپ کے لئے ان مخالفین کے رویے کو قابل برداشت بنایا جارہا ہے کہ یہ لوگ ایسا ہی سلوک اپنی تاریخ میں بیشمار رسولوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

278 یہ پہلے اَلَّذِیْنَ قَالُوْا سے بدل ہے اور اس میں یہود کے ایک قول باطل اور ان کے ایک صریح بہتان کا شکوی ہے جہاں انہوں نے ازراہ تمسخر یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ محتاج ہے جو بندوں سے خیرات مانگتا ہے وہاں انہوں نے اللہ تعالیٰ پر یہ صریح بہتان بھی باندھا کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ جب تک کوئی پیغمبر ہمیں یہ معجزہ نہ دکھائے کہ آسمان سے آگ آئے اور اس کی قربانی کو کھا جائے اس وقت تک ہم اس پر ایمان نہ لائیں اس سے ان کا مقصد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر طعن کرنا تھا کہ چونکہ آپ نے ایسا کوئی معجزہ نہیں دکھایا اس لیے آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں (عیاذاً باللہ) نیز وہ کہتے کہ پہلے پیغمبر تو قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ لیکن یہ قربانی کا گوشت کھاتا ہے اور پہلے رسولوں کی مخالفت کرتا ہے اس لیے یہ کس طرح رسول ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ہم اس کے پیش کردہ مسئلہ توحید کو بھی نہیں مانتے۔ ان دعوی اولئک الیھود ھذا العھد من مفتریاتھم (روح ج 4 ص 144) ۔ 279 یہ یہود کے کذب و افتراء شکوی اور ان کے مطالبہ کا جواب ہے۔ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کو یہ جواب دیں کہ مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ کے کئی رسول تمہارے پاس آئے اور انہوں نے تمہیں کئی معجزے بھی دکھائے اور خاص طور پر جس معجزے کا تم اب مطالبہ کر رہے ہو یعنی آسمانوں سے آگ اترے اور قربانی کی چیز کھا جائے، وہ بھی تمہیں دکھایا گیا لیکن اس کے باوجود تم نے ان رسولوں کو نہ مانا بلکہ ان میں سے کئی ایک کو تمہارے باپ دادا نے قتل بھی کردیا اس لیے تمہارا مخصوص معجزے کا مطالبہ تلاش حق اور طلب ہدایت پر مبنی نہیں بلکہ محض تعنت اور ضد کی وجہ سے تم یہ مطالبہ کر رہے ہو اگر تم اپنے مطالبہ میں صادق ہوتے اور تم سچائی اور ہدایت کے طالب ہوتے تو ان رسولوں کو مان لیتے اور ان پر ایمان لے آتے، ان کی تکذیب نہ کرتے اور نہ ان کو قتل کرتے فالمعنی ان ھذا منکم معشر الیھود تعلل و تعنت او لو جاء بالقربان لتعللوا بغیر ذالک مما یقترحونہ (بحر ج 3 ص 163) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 یہ یہود ایسے غلط گو لوگ ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نبیوں کی معرفت ہم کو یہ حکم دے رکھا ہے اور ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ ہم کسی مدعی نبوت پر اس وقت تک ہرگز ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے سامنے کوئی خاص معجزہ یعنی کوئی ایسی قربانی اور نذر و نیاز نہ لائے کہ اس کو آسمانی آگ کھاجائے یعنی آسمان سے آگ نازل ہو اور وہ آگ اس نیاز کو جلادے چونکہ آپ نے یہ خاص معجزہ دکھایا نہیں اس لئے ہم لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے فرما دیجئے کہ بلاشبہ مجھ سے پہلے بہت سے رسول تمہارے پاس بکثرت روشن دلائل اور واضح معجزات لے کر آئے اور بعینہ یہ معجزہ بھی لے کر آئے جس کو تم کہہ رہے ہو پھر اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ تم کو خدا نے ایسا حکم دے رکھا ہے تو تم نے ان پیغمبروں کو کیوں قتل کیا تھا۔ (تیسیر) یہود کے بڑے بڑے لوگوں کی ایک جماعت کے قول کو ظاہر فرمایا ہے۔ کعب بن اشرف ، مالک بن الصیف، دہب بن یہودہ، زید بن التابوہ فنحاص بن عازور، حیی بن اخطب وغیرہ جمع ہوکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ بات بنائی کہ ہم لوگ آپ کو اس لئے نبی ماننے سے معذور ہیں کہ پہلے نبیوں کی معرفت اللہ تعالیٰ ہم سیح یہ عہد لے چکا ہے کہ جب تک کوئی مدعی نبوت خواہ وہ کیسا ہی ہو تم کو قربانی کا معجزہ نہ دکھائے اور اس کی نیاز کو آسمانی آگ نہ جلائے اس وقت تک اس پر ایمان نہ لانا چونکہ آپ یہ مخصوص معجزہ دکھاتے نہیں اس لئے ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی دو باتیں تھیں ایک تو یہ ان اللہ عھد الینا اور دوسری وہ جو اس کو لازم ہے۔ یعنی یہ کہ اگر آپ یہ بات کردکھائیں تو ہم آپ کی نبوت پر ایمان لے آئیں۔ پہلی بات تو ان کی بلا دلیل تھی صرف ان کے دلوں کی ایک تراشی ہوئی بات تھی اسی لئے انہوں نے کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی اور یہ بات بھی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص معجزے کے ساتھ ایک ایسے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کو موقوف کردے جس کی نبوت کتب سماویہ سے ثابت ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے معجزات کا ظہور ہوتا ہے اور ان کے معجزات کو دعویٰ نبوت کی تقویت میں بھی دخل ہوتا ہے لیکن کسی خاص معجزے کے ساتھ ان کو مقید کردینا یہ تو بالکل ہی مہمل چیز ہے بلکہ اگر کسی قوم نے اپنے نبی سے کوئی خاص معجزہ طلب بھی کیا ہے تو اس میں احتیاط برتی گئی ہے اور ہمیشہ منہ مانگا معجزہ دکھانے سے انکار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر منہ مانگا معجزہ دیکھنے کے بعد کوئی قوم ایمان نہیں لائے گی تو اس کو عذاب سے بالکل ختم کردیا جائے گا۔ پس جب عام طورپر قوموں کے منہ مانگے معجزات اور نشانات دکھانے سے انکار کیا گیا ہے اور ایمان نہ لانے کی حالت میں ان معجات کو عذاب و استیصال کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ تو کسی نبی کی نبوت کو کسی مخصوص معجزے کے ساتھ وابستہ کردینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بات صرف اتنی ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے اور بائیبل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ دستور چلا آتا تھا کہ جب کوئی شخص اپنا ذبیحہ یا نذر و نیاز خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہتا تھا تو وہ اس ذبیحہ کو پہاڑ پر یامکان کی چھت پر رکھ دیتا تھا اور اس زمانہ کا نبی دعا کرتا تھا اس پر آسمان سے ایک سفید رنگ کی آگ نازل ہوتی تھی جو اس قربانی یا ذبیحہ کو جلا دیتی تھی اس آگ میں دھواں نہیں ہوتا تھا اور اس کے نازل ہوتے وقت ایک ہلکی سی بھنبھناہٹ ہوتی تھی۔ اس آگ کا قربانی کو جلا دینا قربانی کے مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ یہ شاید پرانا دستور تھا۔ نبی کا دعا کرنا اور آگ کا نازل ہونا یہ نبی کا معجزہ تھا۔ جہاں اور معجزات کا ظہور اس سے ہوتا تھا وہاں یہ بھی ایک معجزہ تھا اس سے زیادہ اس واقعہ کی اور کوئی حقیقت نہیں ہے قربانی ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنایا جائے اگرچہ اب عام طور سے ذبیحہ پر بولا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ پہلی امتوں پر غنیمت کا مال حلال نہیں تھا اس لئے غنائم کا بھی یہی طریقہ تھا کہ غنائم کے اموال پہاڑ پر رکھ دیا کرتے تھے اور آسمان کی آگ اس کو آکر جلا دیا کرتی تھی۔ بہرحال ! انبیاء بنی اسرائیل کا یہ ایک معجزہ ہوتا تھا کہ ان کی دعا کی برکت سے لوگوں کی نیاز اس طرح قبول ہوتی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہ دستور موقوف ہوچکا تھا بلکہ صدی کا بیان ہے کہ حضرت مسیح کے زمانے میں بھی یہ دستور نیاز کا باقی نہ رہا تھا۔ یہود نے اس واقعہ کو سامنے رکھ کر یہ افترا کیا کہ قربانی کو اس طرح آگ کا نازل ہوکر کھا جانا یہ ہر مدعی نبوت کے لئے ضروری تھا۔ اگر وہ یہ مخصوص معجزہ نہ دکھائے تو وہ نبی نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ ان کی یہ بات بلا دلیل اور محض جھوٹ تھی اور اس کا جواب بھی بالکل ظاہر تھا اس لئے اس کی جانب کوئی التفات نہیں فرمایا بلکہ جواب دوسری بات کا دیا جو لزوماً ان پر عائد ہوتی تھی اور جواب بھی ایسا الزامی دیا جس سے پہلی بات کا افترا ہونا خود بخود ظاہر ہوگیا۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اچھا اگر کسی نبی کی نبوت کا یہی معیار صداقت ہے جو تم کہتے ہو تو تم نے ان انبیاء کو کیوں قتل کیا جو علاوہ اور معجزات کے یہ معجزہ بھی لے کر آئے تھے۔ گویا ان کی نبوت فریقین کے نزدیک مسلم تھی ہمارے نزدیک تو اس لئے کہ وہ صاحب معجزات تھے اور یہ صاحب معجزات ہونا ان کی نبوت کے لئے کافی تھا اور تمہارے نزدیک نہ تو کسی مدعی نبوت کی نبوت کا یہ معیار ہے اور نہ خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور اگر میرے ہاتھ سے یہ معجزہ ظاہر بھی ہوجائے تب بھی تم مجھے نبی تسلیم نہیں کروگے کیونکہ اس مخصوص معجزے کے ظاہر کرنے والوں کو قتل تک کرچکے ہو تو بھلا تم سے کیا امید ہوسکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بعضے رسولوں سے یہ معجزہ ہوا کہ کچھ چیز اللہ کی نیاز رکھی پھر آسمان سے آگ آئی اس کو کھا گئی پس وہ قبول ہوئی اب یہود بہانہ پکڑتے تھے کہ ہم کو یہ حکم ہے کہ جس سے یہ معجزہ نہ دیکھیں اس پر یقین نہ لاویں اور یہ جھوٹے بہانے تھے ہر نبی کو معجزے ملے ہیں جدا سب کو ایک ہی معجزہ کیا لازم۔ (موضح القرآن) رہی یہ بات کہ پیغمبروں کے قتل کی نسبت ان کی طرف کیوں کی گئی جب کہ قتل ان کے بڑوں نے کی تھا تو اس کا جواب ہم ابھی اوپر آیت میں عرض کرچکے ہیں اور سورة بقرہ میں بھی کئی بار عرض کیا گیا ہے۔ اگر یہ شبہ کیا جائے کہ ان کا یہ مطالبہ پورا کرکے دیکھ لیا جاتا تو کیا حرج تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مطالبہ عناداً تھا صدق دل سے نہ تھا۔ نیز اس کے بعد یہ لوگ ایمان نہ لاتے اور عذاب استیصال کے مستحق ہوتے اور اس امت پر عذاب استیصال پہنچنا مقصود نہیں ہے پھر یہ کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور ایک علمی دور ہے اور ترقی یافتہ زمانہ ہے اس میں علمی مباحث اور عقلی دلائل کی اہمیت ہے۔ قانونی ترقیاں اس امر کی ستدعی ہیں کہ قانون سے بحث کی جائے اور اپنی صداقت دنیا کو سمجھائی جائے۔ معجزات تو وقتی ہوا کرتے ہیں اگر معجزات کو نبوت کی شرط بھی تسلیم کرلیا جائے تو قرآن شریف کا معجزہ ہونا کافی ہے اور یہ معجزہ قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔ جس کا جواب دینے سے دنیا عاجز رہی اور آئندہ بھی عاجز رہے گی۔ اس لئے جس پیغمبر کی نبوت پر شواہد عقلیہ اور نقلیہ موجود ہوں اور جس کا کمال اور بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہونا ظاہر ہو اس پیغمبر کو ہر منہ مانگے معجزے کی تعمیل ضروری نہیں۔ مزیدبرآں جب کہ اس منہ مانگے معجزے کی مانگ بھی محض عناداً ہو اور اس میں صداقت کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ اب آگے اپنے پیغمبر کو تسلی دیتے ہیں۔ چونکہ ان یہود کی ناشائستہ حرکات سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حزن و ملال ہونا ظاہر ہے اس لئے آپ کی تسلی فرمائی اور نہ ماننے والوں کے لئے وعید اور ماننے والوں کے لئے بشارت کا اظہار فرمایا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)