Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 193

سورة آل عمران

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ﴿۱۹۳﴾ۚ

Our Lord, indeed we have heard a caller calling to faith, [saying], 'Believe in your Lord,' and we have believed. Our Lord, so forgive us our sins and remove from us our misdeeds and cause us to die with the righteous.

اے ہمارے رب! ہم نے سُنا کہ مُنادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بُلا رہا ہے کہ لوگو! اپنے رب پر ایمان لاؤ ، پس ہم ایمان لائے یا الٰہی! اب تُو ہمارے گُناہ معاف فرما اور ہماری بُرائیاں ہم سے دُور کردے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلِيمَانِ ... "Our Lord! Verily, we have heard the call of one calling to faith," a caller who calls to faith, referring to the Messenger of Allah. ... أَنْ امِنُواْ بِرَبِّكُمْ فَأمَنَّا ... `Believe in your Lord,' and we have believed, accepted his call and followed him. ... رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ... "Our Lord! Forgive us our sins," on account of our faith and obeying Your Prophet. فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ("Forgive us our sins"), and cover them. ... وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّيَاتِنَا ... "and expiate from us our evil deeds," between us and You, in private, ... وَتَوَفَّنَا مَعَ الابْرَارِ "and make us die along with Al-Abrar," join us with the righteous people.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٣] پکارنے والے سے مراد اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ہے۔ جو وحی الٰہی کی روشنی میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے اس معمہ کو محض انسانی عقل کے حوالے نہیں کیا بلکہ اپنے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے اس معمہ کا حل خود ہی بتلا دیا ہے۔ اس کو بتلایا یہ گیا ہے کہ کائنات میں اس کا صحیح مقام یہ ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ سنوار سکتی ہے۔ اس کا تمام تر نفع و نقصان اس خالق ومالک کے ہاتھ میں ہے جو اس پوری کائنات کا خالق ہے۔ پھر رسولوں اور کتابوں ہی کے ذریعہ انسان کو اس کی زندگی کا مقصد یہ بتلایا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے اور دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جس سے اسے اخروی نجات حاصل ہوجائے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ وہ محض اپنے نیک اعمال پر تکیہ نہ کرے بلکہ اپنے اللہ سے گناہوں کی بخشش بھی طلب کرتا رہے اور بھلائی کے لیے دعائیں بھی مانگتا رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا ۔۔ : اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا قرآن یا پھر ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دعوت حق پیش کرے۔ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا : اس میں اپنے ایمان لانے کے عمل کے وسیلے سے گناہوں کی مغفرت کی دعا ہے اور یہ مسنون ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا۝ ٠ ۤۖ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۝ ١٩٣ ۚ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُور أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٣) اور اہل ایمان کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار ہم نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا وہ توحید کی طرف بلاتے ہیں ہم آپ پر اور آپ کی کتاب اور آپ کے رسول پر ایمان لے آئے، لہٰذا ہمارے بڑے گناہوں کو معاف فرمائیے اور اسکے ساتھ ساتھ چھوٹے گناہوں سے بھی درگزر فرمائیے، ہمارے روحوں کو حالت ایمان پر قبض فرمائیے اور انبیاء کرام اور صالحین کے ساتھ ہمارا حشر فرمائیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٣ (رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا) (یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّاق) ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد ایسے لوگوں کے کانوں میں جونہی کسی نبی یا رسول کی پکار آتی ہے تو فوراً لبیک کہتے ہیں ‘ ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فوری طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلی ‘ اس لیے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت تک تو وہ خود پہنچ چکے تھے۔ سورة الفاتحہ کے مضامین کو ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ اولوا الالباب میں سے ایک شخص جو اپنی سلامت ‘ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامت ‘ عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اللہ کو پہچان لیا ‘ آخرت کو پہچان لیا ‘ یہ بھی طے کرلیا کہ اسے اللہ کی بندگی ہی کا راستہ اختیار کرنا ہے ‘ لیکن اس کے بعد وہ نبوت و رسالت کی راہنمائی کا محتاج ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے حضور دست سوال دراز کرتا ہے : (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) یہاں بھی یہی مضمون ہے کہ اب ایسے شخص کے سامنے اگر کسی نبی کی دعوت آئے گی تو اس کا ردِّعمل کیا ہوگا۔ اب آگے ایک عظیم ترین دعا آرہی ہے۔ یہ اس دعا سے جو سورة البقرہ کے آخر میں آئی تھی بعض پہلوؤں سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔ (رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا) ( وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا) ہمارے نامۂ اعمال کے دھبے بھی دھو دے اور ہمارے دامن کردار کے جو داغ ہیں وہ بھی صاف کر دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

137. Many eras have passed before you. Go about, then, in the land and behold the end of those who gave the lie to (the directives and ordinances of Allah).

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :137 اسی طرح یہی مشاہدہ ان کو اس بات پر بھی مطمئن کر دیتا ہے کہ پیغمبر اس کائنات اور اس کے آغاز و انجام کے متعلق جو نقطہ نظر پیش کرتے ہیں اور زندگی کا جو راستہ بتاتے ہیں وہ سراسر حق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:193) کفر۔ امر معروف واحد مذکر حاضر۔ تکفیر۔ مصدر۔ مٹا دے۔ معاف کر دے۔ دور کر دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 اس سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا قرآن اور پھر ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دعوت الہیٰ الحق پیش کرے (قرطبی کبیر) 10 ابراد یہ بر کی جمع ہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ نیک لوگوں ساتھ ہمارا حشر فرما اور ابرار سے مراد خاص طور انبیا ( علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں یعنی مرنے کے بعد ہمیں ان کے غلاموں میں شامل فرما (وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد اس سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں بواسطہ یا بلاواسطہ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہ پر خشوع دعا ذرا آگے بڑھتی ہے : رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِ ” مالک ! ہم نے ایک پکارنے والے کوسنا ‘ جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کی مانو ‘ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی ‘ پس اے ہمارے آقا جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزرفرما ‘ جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر ۔ “ اہل دانش کھلے دل لئے ہوئے ہیں ‘ ان پر جو القاء ہوتا ہے وہ لبیک کہتے ہیں ۔ ان کا احساس مزید تیز ہوجاتا ہے ‘ اب ان کی نظریں اپنی تقصیروں ‘ کوتاہیوں ‘ گناہوں اور نافرمانیوں پر لگ جاتی ہیں ۔ وہ فوراً اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مغفرت کے طلبگار ہوتے ہیں ‘ وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاتے اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی موت نیک لوگوں کے زمرے میں ہو۔ اس فقرے میں اس دعا کا جو پرتو ہے وہ اس پوری سورت کے مضامین کے شیڈ کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ تمام سورت مضامین تطہیر اخلاق ‘ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصیت اور نافرمانی سے استغفار کا رنگ لئے ہوئے ہیں ۔ اس پوری سورت میں شہوات نفسانیہ اور ذنوب وخطیئات کے خلاف ایک بھرپور جنگ کا سماں ہے ۔ اور یہ وہ جنگ ہے کہ ہر میدانی معرکہ میں کس بھی فتح مندی کا دارومدار اس جنگ میں کامرانی اور فتح مندی پر ہے ۔ جب تک اس اخلاقی تطہیر کی جنگ میں فتح نصیب نہ ہو ۔ اس وقت تک اللہ کے دشمنوں اور ایمان کے دشمنوں کے خلاف کوئی میدانی جنگ نہیں جیتی جاسکتی ۔ اور اس پوری سورت میں یہی مضامین دیئے گئے ہیں جو باہم وابستہ ‘ ہم آہنگ ‘ متکامل ‘ ہمسایہ اور ایک جیسے اثرات کے حامل ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اولو الالباب یعنی عقل والوں کی یہ دعا بھی ذکر فرمائی (رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) (اے ہمارے رب بلاشبہ ہم نے ایک پکارنے والے کی پکار سنی جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، سو اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے، سو ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے گناہوں کا کفارہ فرما اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ موت دیجیے اے ہمارے رب اور ہمیں وہ اجر وثواب عطا فرما جس کا ہم سے آپ نے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجیے اور بلاشبہ آپ وعدہ خلافی نہیں فرماتے) اس دعا میں جو (مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ ) وارد ہوا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے مفسرین کے دو قول لکھے ہیں۔ اول یہ کہ اس سے سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں اور لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس (رض) سے یہی مروی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے قرآن کریم مراد ہے مفسر طبری نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن ایسا منا دی ہے جو قیامت تک باقی رہے گا اور ایمان کی دعوت دیتا رہے گا۔ پھر صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جس کو بھی (تا قیامت) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی اطلاع ملی اور آپ کی دعوت پہنچی (اگرچہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے) ان سب کے حق میں آپ منا دی اور ہادی اور داعی ہیں۔ اس لیے بعد میں آنے والے بھی آپ کے بارے میں (سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ ) کہہ سکتے ہیں، لہٰذا پہلا قول بھی صحیح ہے۔ صاحب روح المعانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ منا دیاً فرمایا اور داعیاً نہیں فرمایا کیونکہ نداء معنوی اعتبار سے ابلغ ہے، کیونکہ نداء آواز بلند کرنے کے بغیر نہیں ہوتی اور ظاہر ہے نداء دور تک پہنچتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبوں میں خوب بلند آواز سے نصیحت اور موعظت فرماتے تھے۔ اور حاضرین سے یہ بھی فرماتے تھے، لیبلغ الشاھد منکم الغائب (یعنی جو لوگ موجود ہیں ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں) (فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا) اس میں فاء تفریعیہ ہے مطلب یہ ہے کہ ہم منادی کی آواز سن کر ایمان لے آئے لہٰذا ہمارے گناہ معاف فرما دیجیے، چونکہ مغفرت ایمان پر مرتب ہے اس لیے درمیان میں فاء لائی گئی۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایمان نہ ہو تو گناہوں کی مغفرت نہیں ہوسکتی اور کافر کی توبہ کافر ہوتے ہوئے مقبول نہیں۔ (وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا) (اور ہماری برائیوں کا کفارہ فرما دیجیے) ذُنُوْبَنَا کے بعد جو سَیّءَاتِنَا لایا گیا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ذنوبنا سے پہلے گناہ اور سیئاتنا سے پچھلے گناہ مراد ہیں۔ اور دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ ذنوبنا سے کبائر اور سَیّءَاتِنَا سے صغائر مراد ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ذُنُوْبَنَا سے وہ گناہ مراد ہیں جن کا یہ جانتے ہوئے ارتکاب کیا ہو کہ یہ گناہ ہیں اور سَیّءَاتِنَا سے وہ گناہ مراد ہیں جو جہالت اور لا علمی کی بناء پر صادر ہوگئے ہوں (چونکہ لاعلمی بھی گناہ ہے اس لیے ایسے گناہوں کی بخشش طلب کرنے کی بھی ضرورت ہے) ۔ (روح المعانی صفحہ ١٦٤: ج ٤) (وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ) (اور ہمیں نیک آدمیوں کے ساتھ وفات دیجیے) مطلب یہ ہے کہ ہمیں صالحین میں شمار فرمائیے اور موت کے بعد ہم سے وہی معاملہ فرمائیے جو نیک آدمیوں کے ساتھ ہوگا، جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں یوں کہا تھا (تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بالصّٰلِحِیْنَ ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ لفظ مع الابرار میں تواضع ہے اور حسن ادب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ابرار میں سے تو نہیں ہیں لیکن ہمیں ابرار میں شامل فرما دیجیے ہم اس کے امید وار ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

293 یہ بھی ان کی دعا کی حکایت ہے اور اس میں مضمون رسالت کا اعادہ ہے کیونکہ منادی سے یہاں حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں۔ یعنی اے اللہ ! تیرے پیغمبر نے مسئلہ توحید بیان کیا، ہم نے اسے مان لیا۔ جیسا کہ ابن عباس (رض) ، ابن مسعود (رض) اور ابن جریج وغیرہم سے منقول ہے۔ والمراد بالمنادی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھو المروی عن ابن مسعود و ابن عباس وابن جریج و اختارہ الجبائی وغیرہ (روح ج 4 ص 163) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi