Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 31

سورة آل عمران

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾

Say, [O Muhammad], "If you should love Allah , then follow me, [so] Allah will love you and forgive you your sins. And Allah is Forgiving and Merciful."

کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's Love is Attained by Following the Messenger Allah says; قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ ... Say (O Muhammad to mankind): "If you (really) love Allah, then follow me (i.e. Muhammad), Allah will love you, This honorable Ayah judges against those who claim to love Allah, yet do not follow the way of Muhammad. Such people are not true in their claim until they follow the Shariah (Law) of Muhammad and his religion in all his statements, actions and conditions. It is recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said, مَنْ عَمِلَ عَمَلً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَد Whoever commits an act that does not conform with our matter (religion), then it will be rejected of him. This is why Allah said here, قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ ... Say (O Muhammad to mankind): "If you (really) love Allah, then follow me, Allah will love you...," meaning, what you will earn is much more than what you sought in loving Him, for Allah will love you. Al-Hasan Al-Basri and several scholars among the Salaf commented, "Some people claimed that they love Allah. So Allah tested them with this Ayah; قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ (Say (O Muhammad to mankind): "If you (really) love Allah, then follow me, Allah will love you...")." Allah then said, ... وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ "And forgive you your sins. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful." meaning, by your following the Messenger, you will earn all this with the blessing of his mission. Allah next commands everyone,

جھوٹا دعویٰ اس آیت نے فیصلہ کر دیا جو شخص اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے اور اس کے اعمال افعال عقائد فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہوں ، طریقہ محمدیہ پر وہ کار بند نہ ہو تو وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ، اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھنے کے دعوے میں سچے ہو تو میری سنتوں پر عمل کرو اس وقت تمہاری چاہت سے زیادہ اللہ تمہیں دے گا یعنی وہ خود تمہارا چاہنے والا بن جائے گا ۔ جیسے کہ بعض حکیم علماء نے کہا ہے کہ تیرا چاہنا کوئی چیز نہیں لطف تو اس وقت ہے کہ اللہ تجھے چاہنے لگ جائے ۔ غرض اللہ کی محبت کی نشانی یہی ہے کہ ہر کام میں اتباع سنت مدنظر ہو ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین صرف اللہ کے لئے محبت اور اسی کے لئے دشمنی کا نام ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ، لیکن یہ حدیث سنداً منکر ہے ، پھر فرماتا ہے کہ حدیث پر چلنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے تمام تر گناہوں کو بھی معاف فرما دے گا ۔ پھر ہر عام خاص کو حکم ملتا ہے کہ سب اللہ و رسول کے فرماں بردار رہیں جو نافرمان ہو جائیں یعنی اللہ رسول کی اطاعت سے ہٹ جائیں تو وہ کافر ہیں اور اللہ ان سے محبت نہیں رکھتا ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی مخالفت کفر ہے ، ایسے لوگ اللہ کے دوست نہیں ہو سکتے گو ان کا دعویٰ ہو ، لیکن جب تک اللہ کے سچے نبی امی خاتم الرسل رسول جن و بشر کی تابعداری پیروی اور اتباع سنت نہ کریں وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ ہیں کہ اگر آج انبیاء اور رسول بلکہ بہترین اور اولوالعزم پیغمبر بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی آپ کے مانے بغیر اور آپ کی شریعت پر کاربند ہوئے بغیر چارہ ہی نہ تھا ، اس کا بیان تفصیل کے ساتھ آیت ( وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ ) 3 ۔ آل عمران:81 ) کی تفسیر میں آئے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یہود اور نصاری دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ و مریم علہما السلام کی تعظیم و محبت میں اتنا غلو کیا کہ انہیں درجہ الوہیت پر فائز کردیا اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا و محبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعو وں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی اس کا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی پیروی کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کردیا ہے کہ محبت الہٰی کا طالب اگر اتباع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر تو یقینا وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوی میں سچا ہے ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان " جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے "۔ 31۔ 2 یعنی پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہونگے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] اس آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اہل کتاب، کفار و مشرکین اور عامۃ الناس ہیں کیونکہ تقریباً سب کے سب اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتے اور اس کا دم بھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو پھر اس کی صورت صرف یہی ہے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرنے لگ جاؤ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چہ جائیکہ تم اللہ سے محبت رکھو۔ اللہ تعالیٰ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔ نیز اس آیت میں مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جس خوبصورت انداز سے اس آیت میں اتباع سنت پر زور دیا گیا ہے۔ شاید اس سے زیادہ ممکن بھی نہ تھا۔ اتباع کے مفہوم میں اطاعت کی نسبت بہت زیادہ وسعت ہے۔ اطاعت صرف اوامرو نواہی میں ہوتی ہے۔ جبکہ اتباع یہ ہے کہ جیسے تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرتے دیکھو ویسے ہی تم بھی کرنے لگ جاؤ جس بات کو وہ پسند کریں اسے تم بھی پسند کرو اور جس بات سے نفرت کریں اس سے تم بھی نفرت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اور تیسرا سبق اس آیت سے یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ بدعت سنت کی عین ضد ہے اور بدعت کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا نیا کام دین میں شامل کرنا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو نیز وہ کام آپ کے بعد دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر بجا لایا جائے وہ مردود ہے اور بدعات کو رواج دینے والا شخص تو شدید مجرم ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد بھی اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہ کا حصہ رسدی اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ شدید مجرم اس لحاظ سے بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شارع کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے وضع کردہ نئے کام کو دین کا حصہ بنا کر دین کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ دین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ ۔۔ : یہود و نصاریٰ اور مشرکین سبھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ رکھتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو اب اس دعویٰ کے سچا ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ مجھے نبی مان کر میری پیروی اختیار کرو، اس سے نہ صرف تمہاری اللہ سے محبت قبول ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا، تم اللہ کے محبوب بن جاؤ گے اور وہ تمہارے گناہ بھی بخش دے گا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جو کوئی کسی کی محبت کا دعویٰ کرے تو اس طرح محبت کرے جس طرح محبوب چاہے، نہ کہ جس طرح اپنا جی چاہے اور اسی طرح چاہے تو محبوب اس کو چاہے۔ “ (موضح) اس خطاب کا تعلق مسلمانوں سے بھی ہے کہ اگر تم کو اللہ کی محبت کا دعویٰ ہے تو اس کے لیے زبانی اظہار محبت کافی نہیں ہے، بلکہ اپنے تمام اقوال و افعال میں میری پیروی اختیار کرو۔ اپنے پاس سے گھڑے ہوئے طریقوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوسکتی، اسی لیے حدیث میں بدعت کی شدید مذمت آئی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence In previous verses, there was affirmation of Allah&s Oneness and the condemnation of disbelief in it. Affirmed now is the belief in pro¬phethood as well as the necessity of following the Messenger so that we stand informed that the rejection of prophethood or refusal to obey the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is also an act of disbelief (kufr) like the rejec¬tion of the Oneness of Allah. Commentary Love is something secret. Whether or not a person loves another person, or loves less or more, are questions which cannot be answered precisely. There is no measure or yard-stick to determine the truth of the matter except that one makes an educated guess based on visible conditions and dealings, for love leaves traces and signs which could help in recognizing it as such. Now, in these verses, Allah Almighty tells those who claimed that they loved Allah and hoped to be loved by Him above the real criterion of His love. In other words, if a person liv¬ing in the world of today claims that he loves his Creator and Master, then, he must test it on the touch-stone of his obedience to the Mes¬senger, that is, match it against the frequency and quality of where and how he has been following him. Once this is done, the genuine and the fake of it will be exposed right there. How much true a person turns out to be in his claim will be visible from how much he makes it a point to follow the noble prophet (علیہ السلام) ، using the guidance brought by him as the guiding force in his life. The same test will show that the weaker a person is in his claim, so equally weak he shall be in his obedience to the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has said: He who obeyed Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) obeyed Allah and he who disobeyed Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) disobeyed Allah. (Tafsir Mazhari)

خلاصہ تفسیر ربط آیات پچھلی آیات میں توحید کا وجود اور کفر کی مذمت مذکور تھی، آگے اعتقاد رسالت اور اتباع رسول کا وجوب بیان فرماتے ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ جس طرح انکار توحید کفر ہے اسی طرح انکار رسالت بھی کفر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : آپ ( لوگوں سے) فرما دیجیے کہ اگر تم ( بزعم خود) خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو ( اور محبت رکھنے کی وجہ سے یہ بھی چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے) تو تم لوگ ( اس مقصد کے حاصل کرنے کے طریقوں میں) میرا اتباع کرو ( کیونکہ میں خاص اسی تعلیم کے لئے مبعوث ہوا ہوں جب ایسا کرو گے) خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے ( کیونکہ میں اس معافی کا طریقہ بھی تعلیم کرتا ہوں، اس پر عمل کرنے سے لا محالہ حسب وعدہ گناہ معاف ہوجائیں گے، مثلا گناہوں سے توبہ اللہ تعالیٰ کے حقوق جو فوت کئے ہیں ان کو پورا کرنا، حقوق العباد کا ادا کرلینا یا معاف کرالینا) اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے اور بڑی عنایت فرمانے والے ہیں، (اور) آپ یہ ( بھی) فرمادیجیے کہ تم اطاعت کیا کرو اللہ تعالیٰ کی ( کہ اصل مقصود تو وہی ہے ( اور (اطاعت کیا کرو) رسول کی ( یعنی میری اطاعت اس حیثیت سے کرنا ضروری ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، میری معرفت اپنی اطاعت کے طریقے بتلائے ہیں) پھر ( اس پر بھی) اگر وہ لوگ ( آپ کی اطاعت سے کہ ادنیٰ اس کا اعتقاد رسالت ہے) اعراض کریں سو ( وہ لوگ سن رکھیں کہ) اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتے ( اور اس صورت میں یہ لوگ کافر ہوں گے سو ان کو اللہ سے دعوائے محبت کرنا یا ہوس محبوبیت رکھنا محض بےحقیقت ہے) معارف و مسائل محبت ایک مخفی چیز ہے، کسی کو کسی سے محبت ہے یا نہیں، اور کم ہے یا زیادہ ہے، اس کا کوئی پیمانہ بجز اس کے نہیں کہ حالات اور معاملات سے اندازہ کیا جائے، محبت کے کچھ آثار اور علامات ہوتی ہیں ان سے پہچانا جائے، یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار اور محبوبیت کے متمنی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان آیات میں اپنی محبت کا معیار بتلایا ہے، یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ ہو تو اس کے لئے لازم ہے کہ اس کو اتباع محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسوٹی پر آزما کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا، جو شخص اپنے دعوی میں جتنا سچا ہوگا اتنا ہی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا زیادہ اہتمام کرے گا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بنائے گا، اور جتنا اپنے دعوے میں کمزور ہوگا اسی قدر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں سستی اور کمزوری دیکھی جائے گی۔ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کیا اس نے درحقیقت اللہ کا اتباع کیا، اور جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی |"۔ (تفسیر مظہری، جلد ٢)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٣١ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں سے فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے محبت رکھتے ہو تو میرے دین سے محبت رکھتے ہو تو میرے دین یعنی اسلام و پیغمبر اسلام کی اتباع کرو اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری محبت میں اضافہ فرمائیں گے، اور تمہاری یہودیت کے گناہوں کو بھی معاف فرمائیں گے۔ کیونکہ جو توبہ کرے اللہ تعالیٰ اسے بخشنے والے ہیں اور جو توبہ نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرما کر اسے مہلت معافی دیتے ہیں، یہ آیت کریمہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کیوں کہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو عبداللہ ابن ابی بولا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم ان سے اس طرح محبت کریں، جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے محبت کی اور بقیہ یہودی بولے ان کا منشایہ ہے کہ ہم ان کو رب حنان بنالیں جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حنان بنایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ ) یہ آیت بہت معروف ہے اور مسلمانوں کو بہت پسند بھی ہے۔ ہمارے ہاں مواعظ و خطابات میں یہ بہت کثرت سے بیان ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ‘ میرا اتباع کرو ! اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ : (یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ) ( وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط) (وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر ابن منذر میں حسن بصری سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں مختلف قوموں نے اللہ کی محبت کا دعویٰ کیا مثلًا قریش نے ایک دن اپنے بتوں کو خوب آراستہ کیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے جب کہا کہ ملت ابراہیم کے مخالف تم یہ بت پرستی کیوں کرتے ہو تو انہوں نے جواب کہا ہم تو ان کو درگاہ الٰہی کا مقرب جان کر اللہ کی محبت کی وجہ سے ان کو پوجتے ہیں اسی طرح نجران کے نصاریٰ نے کہا کہ ہم تو اللہ کی محبت کے سبب سے حضرت عیسیٰ کی اتنی قدر و منزلت کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے ایسے دعو وں پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٣۔ اور فرما دیا کہ اللہ کی محبت کا دنیا میں ایک یہ ہی طریقہ ہے کہ رسول وقت کی پوری تابعداری کی جائے کیونکہ ہر حاکم کی محبت کا طریقہ یہی ہے کہ اس کے احکام کو مانا جائے۔ اگر کوئی شخص ایک حاکم وقت کے احکام کی تعمیل میں سرتابی کرے اور منہ سے کہے کہ میرے جی میں اس حاکم کی محبت ہے تو ضرور ایسا شخص حاکم کا دوست اور مطیع نہیں بلکہ باغی کہلائے گا۔ اسی طرح اللہ کی محبت اس کے احکام کے ماننے سے ظاہر ہوگی اور اللہ کے احکام بغیر وسیلہ رسول وقت کے معلوم نہیں ہوسکتے۔ اس واسطے اللہ کی محبت کا دعویٰ بلا اطاعت رسول وقت کے بالکل ایک غلط دعویٰ ہے۔ چناچہ اسی واسطے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے جو روایت ہے اس میں صاف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا ہے کہ میری اطاعت عین اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور میری نافرمانی عین اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ١۔ اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوگیا کہ کوئی طریقہ جس میں اطاعت رسول کی نہ پائی جائے خواہ کسی قدر محبت الٰہی کے جوش کے دعویٰ کا ہرگز اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہود نصایٰ اور مشرکین سبھی یہ دعو یٰ کرتے ہیں تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ تم ان سے کہہ دو کہ اب اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم مجھے اللہ تعالیٰ کا نبی مان کر میری اتباع اختیار کرلو۔ (وحیدی) اور اس خطاب کا تعلق مسلمانوں سے بھی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ ہے تو اس کے لیے زبانی اظہار محبت کافی نہیں ہے بلکہ جمع اقوال وافعال میں میری پیروی اختیار کرو۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شرک غلط محبت کی راہ سے سرایت کرتا ہے۔ اور الدین نام ہے اللہ تعالیٰ کے لیے دوستی کرنے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دشمنی کرنے کا۔ (شوکانی۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 31 41 اسرارو معارف قل ان کنتم تحبون اللہ………………لا یحب الکفرین۔ رہا مذاہب عالم کا یہ دعویٰ کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ کی محبت اور اس کی طلب میں کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ اہل کتاب سے لے کر مشرکین تک سب میں مشترک ہے۔ محبت ، محب اور محبوب : اللہ کریم نے اس کا صحیح اور درست طریقہ ارشاد فرمادیا کہ میاں اگر تمہیں اللہ کی ذات بابرکات سے محبت ہے تو محبت ایک کیفیت ، ایک جذبہ ہے ، جو کسی کے بارے دل میں جاگزیں ہو پھر محبت کرنے والے کا دل خیال محبوب میں مستغرق ہوجاتا ہے اور ایسا بےبس کردیتا ہے کہ محبوب کی یاد اور اس کے اشتغال کے سوا چارہ ہی نہیں رہتا ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے محبت کی اپنی کوئی پسندوناپسند نہیں رہتی جو محبوب کی پسند ہو ، وہ طبعاً پسند ہوجاتی ہے اور جو شے محبوب کو پسند نہ ہو وہ طبعاً ناپسند ہوجاتی ہے بلکہ انتہا یہ ہوتی ہے کہ نہ ثواب کا لالچ رہتا ہے اور نہ عذاب کا خوف۔ اگرچہ طبعاً اس کی طلب میں طمع اور خوف کی آمیزش ہوتی ہے مگر آسائش نہیں ہوتی یہ محبت ذاتیہ ہے۔ اور رہی محبت صفاتیہ ، وہ کسی کا کوئی کمال دیکھ کر پیدا ہوتی ہے مگر اس کی بنیاد ذات پر نہیں ، اس وصف پہ پیدا ہوتی ہے کہ اگر وہ وصف موجودنہ ہو تو محبت بھی نہ ہو۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ طالب الدنیا کلب دنیا مردار اور فناء کا مقام ہے اس کا طالب کتا ہے اور طالب العقبیٰ مونث آخرت اور جنت کا طالب مونث ہے کہ حصول جنت کے لئے عبادت کرتا ہے اگر حصول جنت عبادت کے سوا ممکن ہو تو عبادت چھوڑ بیٹھے گا مگر طالب المولیٰ ھذکر اللہ کا طالب مرد ہے کہ جس طرح شفیع الامم آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پائوں مبارک عبادت میں کھڑے کھڑے متورم ہوجاتے ہیں اور اگر یہ سے ریش مبارک اور سینہ اقدس تر۔ تو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! آپ بھی ؟ حالانکہ دنیا آپ کی شفاعت کی امیدوار ہے تو ارشاد ہوا افلا اکون عبداً شکورا کہ میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں۔ گویا ذات باری کی طلب ہے اور مکالمہ باری مقصود۔ ارشاد ہو کہ جو بھی اللہ سے محبت کا مدعی ہے اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو اسے محبوب کی رضا پہ چلنا چاہیے اور وہ کام کرے جو محبوب کو پسند ہو اور محبوب کی پسند ہے اطاعت محمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اے لوگو ! اگر اللہ کے طالب ہو تو میری غلامی کرلو ، میری پیروی کرو ، جب تم میری اطاعت کرو گے تو پھر اللہ تم سے محبت کرے گا۔ تم کو پسند فرمالے گا۔ ایسے الفاظ جب ذات باری کی طرف منسوب ہوں تو معنی بعید مراد ہوا کرتا ہے یعنی جو کچھ نتیجتاً صادر ہو تو محبت کا معنی بعید پہ ہوگا کہ محبوب کی پسند اس کے ہر طرح کے آرام اور خوشی کا خیال رکھا جائے اور اہل جنت سے اللہ کا یہی وعدہ ہے کہ تم پر رحم کروں گا۔ اپنی رضا اور دائمی خوشنودی عطا کروں گا جو ہر طرح کے ابدی آرام کا باعث ہوگی ورنہ اللہ کسی کی یاد میں آہیں بھرنے سے بہت بلند ہے۔ اللہ کی محبت یہ ہے کہ اپنی رضا اور اپنے رحم سے نوازے اور یہی ارشاد ہے کہ تمہاری خطائیں بخش دے گا وہ بہت بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ پس یہ قاعدہ ارشاد ہوا کو جو مدعی بھی محبت الٰہی کا دعویٰ کرے اگر اتباع سنت میں ثابت قدم ہے اور پوری طرح کوشاں ہے تو درست بحیثیت انسان جو کوتاہیاں اس سے سرزد ہوجاتی ہیں اللہ وہ بخش دینے والا ہے لیکن اگر سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تارک ہے تو اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ ارشاد ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرو اس طرح کہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ مرضیات باری کو پانے کا واحد راستہ ہے آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی ، اس نے اللہ کی نافرمانی کی ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی اللہ کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں امتیاز قائم کردیا۔ (مظہری) فنانی الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور منازل سلوک : صوفیاء اسی کو فناء فی الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ روحانی طور پر ان کی ارواح بارگاہ رسالت پناہ میں حاضری سے مشرف ہوتی ہیں اور ظاہراً ہر موئے جسم اتباع رسالت کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور یہ فناء فی الرسول ہی فنا فی اللہ اور بقاباللہ کا راستہ ہے اگر کسی نے بقاباللہ کو پالیا تو سلوک کے ابجد سے واقف ہوگیا۔ گویا اس میں سالک بننے کی استعداد اللہ نے مہیا فرمادی اب ہمت مردانہ سے آگے بڑھے اور کسی مرد خدا کو پاسکے تو ان عظمتوں کے لئے کوشاں ہوجائے کہ مکاں رہے اور نہ لا مکاں باقی۔ بلکہ یہ دونوں عالم اس کے راستے کے نشاں ہوں کہ کوئی عاشق یہاں سے بھی دامن کشاں گزرا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پہ عقلی ونقلی دلائل اور معجزات قاہرہ اور دلائل باہر جمع ہوچکے۔ اگر کسی کو اب اتباع رسالت میں اعتراض ہے اور وہ رو گردانی کرتا ہے تو اللہ ایسے کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ گویا فیصلہ ہوگیا کہ اللہ کی محبت مومنوں کے لئے مخصوص ہے اور مومن وہ ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام ہو۔ یہاں ایک بات سمجھ لیں کہ بعض نادان محبت کرنے کے لئے اپنی طرف سے کئی اعمال ایجاد کرلیتے ہیں اور بدعات میں مبتلا ہو کر نگاہ رسالت پناہ میں گر جاتے ہیں۔ یادرکھیں ! اس بارگاہ میں عشق و محبت بھی آداب سے آزاد نہیں ہیں۔ بلکہ محبت کے لئے بھی وہی کچھ کرنا ہوگا جو محبوب کا ارشاد ہو۔ ورنہ کسی بھی کام کا اگر اپنی طرف سے کوئی طریقہ ایجاد کرو گے تو وہ اس کام کے کرنے کے اس طریقے کو مٹانے والا ہوگا جو محبوب نے ارشاد فرمایا ہے اور اس طرح حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فداہ ابی وامی کی ناپسندیدگی کا سبب بن جائے گا۔ ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آیند جنید (رح) وبایزید (رح) اینجا نیز اللہ کی رضا کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا ضروری قرار دیا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں کہ نبی ہی تو وہ ہستی ہے جو اللہ کی بات اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے اور اللہ کی پسند وناپسند سے بندوں کو آگاہ کرتا ہے نیز نبی کا ہر فعل اللہ کی اطاعت ہوتا ہے اور یہ تاریخ مذاہب میں موجود ہے۔ ان اللہ اصطفیٰ ادم……………واللہ سمیع علیم۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) ک ومنتخب فرمایا ، یعنی نبوت سے سرفراز فرمایا اور ان کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت قرار پائی۔ ایسے ہی نوح (علیہ السلام) کو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اور ان کی اولاد کو جیسے حضرت اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور انبیائے بنی اسرائیل (علیہم السلام) یا آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عمران کی اولاد یعنی عیسیٰ علیٰ بنیاد (علیہ السلام) صاحب مظہری فرماتے ہیں کہ عمران بن ماثان تھے اور ماثان حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور عمران حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد تھے۔ یہاں حضرت عمران اور حضرت مریم ، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدائش سے رفع سماوی تک مفصل ذکر فرمادیا کہ کسی کو کوئی غلط فہمی نہ رہے اور نصاریٰ اپنے غلط عقائد کو نہ پھیلاتے پھریں۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نیا نبی تو آنے کا نہیں جو امت کو تعلیم فرمائے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے آسمانوں سے نزول فرمانا ہے۔ ان مفصل حالات سے اس آخری امت کو مطلع کردیا جائے کہ گمراہی کا اندیشہ نہ رہے۔ نہ مرزا قادیانی جیسے نقال گمراہ کرسکیں۔ نہ نزول عیسیٰ کا انکار ہو اور نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پہچان میں کوئی مشکل۔ فرمایا ان تمام حضرات کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ آدمی (علیہ السلام) کو فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کا دشمن ابلیس مردود ہوا۔ اسی طرح نوح (علیہ السلام) کے دشمن تباہ ہوئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ہجرت کرنا پڑی مگر پھر غلبہ عطا ہوا یہی حال تقریباً سب انبیاء کا ہے کہ یا تو ان کے دشمن عذاب الٰہی کی زد میں آکر تباہ ہوئے جیسے قوم نوح (علیہ السلام) یا قوم ہود عادوثمود اور یا پھر انبیا نے ہجرت فرمائی اور کچھ عرصہ بعد سای ملک پر غلبہ نصیب ہوا ، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، گویا اس بات کی طرف بھی اشارہ یہاں موجود ہے کہ ایسے ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی غلبہ نصیب ہوگا۔ اور وہ سب کی سنتا ہے کہ اس کے انتخاب پہ کافرکس طرح سے اعتراض کرتے ہیں اور علیم ہے جانتا ہے کہ کس کو کس کام کے لئے مامور کیا جانا ہے۔ یہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بالتفصیل شروع فرمایا۔ اذقالت امراۃ عمران……………بغیر حساب۔ کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی اور عمران کی بیوی نے یہ نذر مانی کہ اللہ جو بچہ میرے پیٹ میں ہے میں نے تیری نذر کیا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ بوڑھی ہوچکی تھی مگر اولاد نہ تھی۔ ایک روز کسی پرندے کو دیکھا ، بچے کو چوگا دے رہا تھا۔ تو دل سے ہوک سی اٹھی اور بچے کے لئے دعا کی جب حاملہ ہوگئیں تو بطور تشکر یہ نذر مانی کہ میں نومولود کو بیت الٰہی کی خدمت کے لئے وقف کردوں گی اور دنیا کے جھمیلوں میں نہ ڈالوں گی۔ یہ نذر اس امت میں جائز تھی۔ عرض کیا کہ اللہ ! تو باتوں کو سنتا ہے اور دلوں کے بھید سے آگاہ ہے میری یہ نذر قبول فرما۔ لیکن جب بچے کی پیدائش ہوئی تو وہ لڑکی تھی ، پریشان ہوگئی کہ اللہ ! یہ تو بچی پیدا ہوئی ہے لڑکا اور لڑکی ایک سے تو نہیں ہوتے۔ کہ وہ مضبوط بھی ہوتا ہے اور نسوانی عوارض سے دور بھی۔ لڑی یہ خدمت کیسے کرسکے گی ؟ مگر اللہ نے فرمایا کہ میری ذات خوب جانتی ہے کہ کیا پیدا ہوا۔ میں تو خود پیدا کرنے والا ہوں۔ اس موقعہ پر اگر لڑکا ہوتا تو یہ رتبہ نہ ہوتا جو اس لڑکی کا ہے کہ اس سے ایک عظیم الشان رسول کو پیدا کرنا اور ایسے طریقے سے پیدا کرنا مقصود ہے کہ مخلوق پر اللہ کی حجت ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ ! میں نے اس کا نام مریم رکھا جس کا معنی عابدہ ہے اور آپ کی خاص رحمت کی امیدوار ہے۔ کہ حضرت عمران (علیہ السلام) دوران حمل فوت ہوچکے تھے۔ حضرت مریم (علیہا السلام) یتیمہ پیدا ہوئیں۔ میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ ایک ولیہ کی دعا کا اثر : حدیث شریف میں وارد ہے کہ ہر بچے کو پیدائش کے وقت شیطان ضرور مس کرتا ہے مگر حضرت مریم اور اس کا بچہ اس سے محفوظ رہے۔ یہ ایک ولیہ کی دعا کا اثر تھا۔ اللہ نے اس بچی کو حسن قبول بخشا۔ پیدا ہوتے ہی قبول فرمایا اور بہت اعلیٰ پرورش فرمائی کہ براہ راست اپنی قدرت سے غذا عطافرماتا تھا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جیسی پاکباز ہستی کو ان کا کفیل مقرر فرمایا۔ جب حضرت مریم (علیہا السلام) کو بیت المقدس لایا تو ہر شخص ان کو لینے کے لئے دوڑ پڑا۔ مگر حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا۔ میرے گھر ان کی خالہ ہے وہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے مگر لوگوں نے نہ مانا اور قرعہ اندازی ہوئی جس کا ذکر آگے ہے تو اس میں بھی حضرت ذکریا (علیہ السلام) ہی حقدار ٹھہرے۔ انہوں نے حجرہ حضرت مریم کے لئے خاص کردیا۔ اللہ نے ایسی پرورش فرمائی کہ انہیں دایہ یا دودھ پلانے والی کی حاجت ہی نہ رہی اور وہ بہت جلد چلنے پھرنے لگیں ۔ عیب سے رزق عطا ہوتا تھا۔ حضرت مریم علیھا السلام کی کرامت : حضرت زکریا (علیہ السلام) کہیں جاتے تو کمرہ مقفل کرجاتے مگر جب آتے تو دیکھتے کہ وہاں پھلوں کے ڈھیر ہیں اور موسم کی بھی قید نہیں جس پھل کا موسم نہیں وہ بھی وہاں رکھا ہے تو فرمانے لگے اے مریم ! یہ پھل کہاں سے آتے ہیں ؟ فرمانے لگیں ، ” اللہ کے پاس سے ! “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ملتا ہے کہ ان کا رزق جنت سے آتا تھا۔ فرمایا اللہ جسے چاہتا ہے اس قدر رزق عطا فرمادیتا ہے کہ وہ اس کا حساب بھی نہیں جان پاتا۔ یا یہ مطلب کہ اپنی عطا اور مہربانی سے بغیر کسی استحقاق کے عطا فرمادیتا ہے نہ وہ موسموں کا محتاج ہے نہ ذرائع کا۔ یہاں کرامت ولی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ ھنالک دعا ذکریا……………وسبح بالعشی والابکار۔ جب رحمت باری کو یوں ٹھاٹھیں مارتا ہوا دیکھا تو حضرت ذکریا (علیہ السلام) سے نہ رہا گیا جو خود بےاولاد تھے اور بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ پکار اٹھے اللہ ! مجھے صالح اور نیک اولاد نصیب فرما کہ تو ہی دعائوں کو سننے والا ہے۔ صالح اور نیک اولاد کے لئے دعا کر صالحین کی سنت ہے یعنی ایک طرف تو خاندان ختم ہورہا ہے اور کوئی نبوت اور علم کا وارث نہیں اور دوسری طرف لوگوں کی گمراہی کا اندیشہ۔ بے موسم کے پھل ، بند حجرے میں حضرت مریم علیھا اسلام کے پاس دیکھ کر ایسی تحریک پیدا ہوئی کہ کمرہ بند کرکے اللہ کے حضور التجا کی ، اللہ ! مجھے نیک اور پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ ابھی محراب میں کھڑے تھے کہ ملائکہ نے پکارا ، آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ فرشتے نے صدا دی جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے چونکہ وہ سیدالملائ کہ ہیں عموماً ان کے ساتھ فرشتوں کی جماعت ہوتی ہے اس لئے یہاں فنادتہ الملائکہ فرمادیا کہ اللہ نے آپ کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی بشارت دی ہے جو کلمۃ اللہ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے اس لئے انہیں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق فرمائی۔ سید کون ؟ : سیدا ، اور سردارہوں گے۔ یعنی علم ، عبادت اور تمام خصائل خیر میں سب کے سردار ہوں گے اسی لئے خانوادہ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سید کہا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو اتباع رسالت چھوڑ چکے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی سے نکل گئے ، سید کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں رہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد انا سیدولہ ادم موجود ہے مگر رشتہ اطاعت سے ثابت ہوگا۔ عورت کا قرب کا اثر : وحصورا ، یعنی عورتوں کے پاس نہ جائیں گے۔ یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ نکاح سنت انبیاء ہے اور یہاں نکاح نہ کرنا باعث فضیلت بیان ہوا ہے۔ تو حقیقت اس طرح ہے کہ ان پر عشق الٰہی ایسا غالب تھا کہ انہیں ان امور کا قطعاً خیال نہ تھا۔ جہاں حدیث شریف میں نکاح کی ترغیب ہے وہاں من استطاع کے الفاظ ہیں کہ استطاعت بھی رکھتا ہو ، اگر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی طرح ہو تو پھر نکاح نہ کرنا ہی بہتر ہے اور تجربہ ہے کہ عورت کا قرب بیشک جائز ہو مگر ساری توجہ جذب کرلیتا ہے جو سالک کے لئے چند لمحے ٹھہرائو کے ضرور پیدا کردیتی ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس طرح ساری توجہ سلب نہیں کرتا۔ اپنی مرضی سے شہوات کو روک لینا اور مباح اور جائز خواہشات سے بھی بچ جانا بہت بڑا کمال ہے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ پیدائشی نامرد تھے ، مگر یہ درست نہیں کہ نامرد کے لئے عورت سے مباشرت نہ کرنا کون سی مدح کی بات ہے اور پھر نبی نامرد نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ انبیاء میں دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ قوت ہوتی ہے وہ تو صالحین میں سے ، نیک خاندان میں سے انبیاء کی اولاد میں سے ، اللہ کے نبی تھے۔ تو عرض کیا اللہ ! میرے لڑکا کس طرح ہوگا ؟ کہ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی صرف بوڑھی ہی نہیں کہ اولاد کے قابل نہ ہو بلکہ ساتھ بانجھ بھی ہے۔ یہ سب تبقاضائے بشریت صادر ہوا اور بعض دفعہ طبیعت بشری علم اور عقل پر غالب آجاتی ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کہ وعدہ کرنے کے بعد پھر حضرت خضر (علیہ السلام) پہ اعتراض فرمایا۔ ارشا د ہوا کہ اللہ قادر ہے ۔ تمہارے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود لڑکا ہوگا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے پھر عرض کرنے لگے کہ اللہ ! استقرار حمل کی نشانی مقرر فرمادے کہ جیسے حمل ٹھہرئے ، مجھے اطلاع ہوجائے اور تیرا شکر ادا کرسکوں فرمایا نشانی یہ ہے کہ تو باوجود ذکر الٰہی کے تین روز تک لوگوں سے کوئی بات نہ کرسکے گا اور اشارہ سے اپنی بات سمجھا سکے گا۔ جب ایسا ہو تو کثرت سے اللہ کا ذکر کر اور صبح وشام ۔ یعنی مسلسل اللہ کی تسبیح بیان کرتارہ۔ ان کا مقصد تھا کہ شکر ادا کروں۔ اللہ نے نشانی ایسی مقرر فرمادی کہ وارے نیارے ہوگئے۔ یعنی ذکر پہ ایسا لگا دیا کہ اور کوئی کلام ہی نہ کر پائیں کہ کثرت سے شکر ادا کریں۔ یادرکھیں کہ کلام کرنا بھی دل کو متاثر کرتا ہے اگرچہ کلام نیک ہی ہو۔ دل ز پر گفتن بمیرد در بدن گرچہ گفتارش بود در عدن بات کا اثر : اگر کلام ہی نیک نہ ہو تو اس کا اثر ظاہر ہے لیکن نیکی کی بات بھی کسی انسان ہی سے کرے گا۔ مخاطب کی ظلمت خواہ مخواہ اس کی طبیعت کو متاثر کرے گی جیسے جھاڑو دینے والے کا لباس خاک آلود ہوجاتا ہے اس سے منازل میں کمی نہیں آتی کہ یہ کار ثواب ہے اور ثواب سے منازل میں ترقی ہوتی لیکن مشاہدات بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان حضرات سے جو گزشتہ نشین رہتے ہیں مشاہدات بکثرت روایت ہوئے ہیں اور جنہوں نے مخلوق خدا کو بات پہنچائی عموماً انہیں کشف کم ہی ہوا اگرچہ مقامات علیا تک رسائی ہوگئی۔ یہاں ان حضرات کی بات نہیں کررہا جو سلوک سے ہی ناآشنا ہیں۔ یہ بات مردان خدا کی ہے۔ ہر نعمت پہ شکر اور کثرت ذکر واجب ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 31 تا 32 تحبون (تم محبت کرتے ہو) اتبعونی (تم میری پیروی کرو، میرے پیچھے چلو (اتبعوا، ن، ی) یغفر (وہ معاف کردے گا) ان تولوا (یہ کہ اگر تم نے منہ پھیرلیا) لایحب (وہ پسند کرتا ہے) تشریح : آیت نمبر 31 تا 32 توحید کے بیان کے بعد آیت 31 سے 32 تک نبوت کے متعلق ارشاد فرمایا جارہا ہے اس میں اہل ایمان کو ایک معیار بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج دنیا میں جس کسی شخص کو اپنے معبود حقیقی سے محبت کا دعویٰ ہو اس کو اتباع محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کجی کسوٹی پر رکھ کر دیکھ لینا چاہئے۔ کھرا کھوٹا سامنے آئے گا۔ جو شخص نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ پر چلے گا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت اور روشنی کو مشعل راہ بنائے گا وہ اتنا ہی حضرت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی میں مضبوط اور مستعد ہوگا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حق تعالیٰ شانہ اس سے بےانتہا محبت فرمائیں گے۔ اللہ کی محبت اور رسول کی اتباع وپیروی کی برکت سے اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے اور آئندہ زندگی میں اس کو ہزاروں ظاہری اور باطنی برکتیں نصیب ہوں گی۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اصل چیز اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور محبت ہے یہی وہ بنیاد ہے جو انسان کو کامیابی کی عظیم منزلوں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اسلام کے دشمنوں سے محبت رکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اور یہ اطاعت رسول کے بغیر ممکن نہ ہوگی۔ دنیا میں ہر مذہب کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کے حصول کے لیے اپنے اپنے طریقے ایجاد کررکھے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد اور خود کو ان کا وارث سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب ہیں۔ مشرکوں نے اپنے بزرگوں، بتوں اور مزارات کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ ٹھہرا لیا ہے کچھ لوگوں نے دنیا سے لاتعلق ہو کر گوشہ نشینی، صحرا نور دی اور چلہ کشی کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ بنایا ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) ‘ ان کی والدہ، پوپ اور پادری کو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا زینہ بنایا ہے۔ مسلمانوں نے زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہاں مثبت اور لطیف انداز میں ان طریقوں کی نفی کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کروایا گیا ہے کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے طلب گار ہو تو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تم صرف اور صرف میری فرمانبرداری کرو۔ کیونکہ آپکی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرتے ہوئے تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ معاف کرنے والا ‘ نہایت ہی مہربان ہے۔ مسلمان اور کافر کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے ورنہ عیسائی، یہودی، مجوسی، ہندو، سکھ، بدھ مت، غرضیکہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا اعتراف اور اس کی عبادت نہ کرتی ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید انہیں کافر گردانتا ہے ؟ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے اپنے انداز میں مانیں اور اس کی عبادت اپنے اپنے طریقے سے کریں تو مقام رسالت اور آپ کی اتباع کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ کاش کہ مسلمان اتباع رسول کو سمجھنے کی کوشش کریں اور آپ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا وسیلہ بنا کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے سرفراز ہوجائیں۔ مقام نبوت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کو سمجھنے کے لیے عقل مند کے لیے آپ کا ایک ہی ارشاد کافی ہے جو شخص اس کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے انحراف کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) تشریف فرما تھے کہ حضرت عمر (رض) نے اچانک آپ کے سامنے تورات کا کچھ حصہ پڑھنا شروع کیا جس میں قرآن مجید کے احکامات کی تائید پائی جاتی تھی۔ جوں جوں حضرت عمر (رض) تورات پڑھ رہے تھے آپ کا چہرہ متغیر ہورہا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے عمر (رض) کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ آپ تورات پڑھے جارہے ہیں جب کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر خوش نہیں ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے معذرت خواہانہ انداز میں عرض کیا کہ میں تو اللہ اور اس کے رسول پر مطمئن اور راضی ہوں تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا جو ہر مسلمان کے لیے مشعل زندگی ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا : ( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ مُوْسٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ حَیًّا مَا وَسِعَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِیْ ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی مسند السابق ] ” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتّباع کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔ “ مسائل ١۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کے سبب اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کفار سے محبت نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ثمرات : ١۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ (النساء : ٨٠) ٢۔ اطاعت میں کامیابی ہے۔ (الاحزاب : ٧١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اللہ کی محبت اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ (آل عمران : ٣١) ٥۔ اطاعت رسول سے نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کی رفاقت نصیب ہوگی۔ (النساء : ٦٩) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ (الفتح : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کی محبت صرف زبانی دعویٰ نہیں ہے اور نہ کوئی وہ وجدانی امر ہے۔ اس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع ضروری ہے ۔ آپ کی سیرت اور نقش قدم پر چلنا ضروری ہے ۔ اپنی زندگی میں اسلامی نظام رائج کرنا ضروری ہے ۔ ایمان صرف چند کلمات ادا کرنے کا نام نہیں ہے ۔ نہ یہ شعور اور جذبات سے عبارت ہے ۔ نہ وہ صرف چند شعائر کے قیام کا نام ہے ۔ بلکہ ایمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے ۔ اور اس منہاج پر عمل کا نام جس کے حامل رسول اللہ ہیں ۔ پہلی آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں ” یہ آیت ہر اس شخص کے کیس کا فیصلہ کردیتی ہے جو اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کا سلوک طریقہ محمدیہ پر نہیں ہے ۔ یہ شخص فی الحقیقت جھوٹا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ شریعت محمدیہ کی اطاعت کرے ۔ اور اپنے تمام اقوال اور اعمال میں دین محمدی کی اطاعت کرے ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔” جس شخص نے جو عمل کیا ‘ جو ہمارے کام کے مطابق نہیں ہے ‘ تو وہ مردود ہے ۔ “ اور دوسری آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا……………” کہہ دو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو بس اگر وہ منہ پھیر دیں ۔ “………اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے کی مخالفت کفر ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے اوصاف والے شخص سے محبت ہرگز نہیں کرتا۔ اگرچہ ایسا شخص یہ دعویٰ کرے یا یہ یقین کرے کہ وہ محب اللہ ہے ۔ “ امام شمس الدین ابومحمد ‘ ابن قیم الجوزیہ اپنی کتاب زاد المعاد میں فرماتے ہیں ۔” جو شخص کتب سیرت اور ثابت شدہ احادیث پر غور کرے گا اسے معلوم ہوگا بیشمار اہل کتاب اور مشرکین ایسے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور حقانیت کی شہادت دیتے ہیں ۔ لیکن ان کی یہ شہادت انہیں اسلام میں داخل نہیں کرتی ۔ تو معلوم ہوا کہ اسلام اس سے کہیں زیادہ کوئی اور چیز ہے ۔ اسلام صرف علم اور معرفت کا نام نہیں ہے ۔ اور نہ ہی وہ معرفت اور اقرار سے عبارت ہے ۔ بلکہ اسلام عبارت ہے ‘ معرفت اقرار اور اطاعت تینوں سے ۔ یہ انقیاد اور طاعت ظاہری امور میں بھی لازمی ہے اور باطنی امور میں بھی ۔ “ دین اسلام کی ایک حقیقت اور ماہیت ہے اور جب تک وہ حقیقت اور ماہیت موجود نہ ہوگی دین نہ ہوگا۔ اور وہ حقیقت صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع ہے ۔ شریعت کا اتباع ہے ۔ کتاب اللہ کے مطابق عدالتی نظام کا قیام ہے ۔ اور یہ حقیقت عقیدہ توحید سے پھوٹ کر نکلتی ہے ۔ جس طرح اس عقیدے کی تشریح اسلام نے کی ہے ۔ یعنی یہ کہ اللہ اپنی ذات میں وحدہ لاشریک ہے ۔ اس کا حق ہے کہ لوگ پوری طرح اس کے غلام اور بندے ہوں ‘ وہ اللہ کے احکام نافذ کرنے والے ہوں۔ ان میں شریعت الٰہیہ نافذ ہو اور وہ ایسی اقدار قائم کریں جن کے مطابق لوگ اپنے فیصلے کریں اور پھر ان پر راضی ہوں ۔ اس عقیدے کی رو سے اللہ واحد نگہبان ہے ۔ اس لئے وہی حاکم ہے اور لوگوں کے درمیان تمام اجتماعی تعلقات اس حاکمیت کی اساس پر قائم ہوں ‘ جس طرح اس پوری کائنات کا نظام اس کے قانون قدرت کے مطابق رواں دواں ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ انسان بھی اس کائنات کا ایک جزء ہے ۔ جیسا کہ ہم نے تفصیل سے مطالعہ کیا اس سورت کا پہلا سبق بالکل وضاحت اور صاف ستھرے طریقے سے اس بات کا فیصلہ کردیتا ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول نظام زندگی صرف اسلام ہے۔ اس سے فرار اور جان چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو شخص بھی مسلمان بننا چاہتا ہے اسے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی ۔ اسلام کی یہی صورت ہے ‘ وہ صورت نہیں ہے جو آج کل لوگوں نے اپنے لئے خود گھڑ رکھی ہے ۔ وہ محض اوہام ہیں ‘ محض خرافات ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر اللہ سے محبت ہے تو رسول اللہ کا اتباع کرو ان دونوں آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، اطاعت فرمانبر داری اور حکم ماننے کو کہتے ہیں اور اتباع اپنے مقتدا کے پیچھے چلنے اور اس کی راہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ جتنی بھی مذہبی قومیں ہیں وہ اللہ کو مانتی ہیں (اگرچہ ماننے کے طریقے مختلف ہیں) اور انہیں یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی کتاب میں یہ اعلان کروا دیا کہ محبت صرف دعویٰ کرنے کی چیز نہیں اس کا ایک معیار ہے اور وہ محبت معتبر ہے جو محبوب کی مرضی کے مطابق ہو اس محبت کا معیار جو اللہ کے نزدیک معتبر ہے یہ ہے کہ حضرت خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کیا جائے آپ نے جو کچھ بتایا ہے اور جو کچھ کرکے دکھایا اسے اختیار کریں اور اسے عمل میں لائیں، اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کو بھی اس سے محبت ہوگی۔ اور یہ محبت دنیا اور آخرت میں خیر و خوبی کا ذریعہ بنے گی۔ اتباع کے ساتھ اطاعت کا بھی حکم دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، ان دونوں اطاعتوں سے اعراض کرنے والے کو کافر قرار دیا اور فرمایا کہ اگر وہ اعراض کریں تو اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا، فرمانبر داری عقائد میں بھی ہے اور ارکان دین میں بھی، فرائض میں بھی اور واجبات میں بھی، عقائد اسلامیہ سے اعراض کرنا تو کفر ہے ہی۔ فرائض کی فرضیت کا انکار بھی کفر ہے، اگر کسی کے عقائد صحیح ہوں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہو اور فرائض کو مانتا ہو تو ترک فرائض کی وجہ سے اس کا کفر اعتقادی نہیں بلکہ عملی ہوگا۔ محبت کے دعویداروں کو تنبیہ : جو لوگ دین اسلام قبول نہیں کرتے اور اللہ سے محبت کرنے کے دعویدار ہیں ان کے لیے تو آیت شریفہ میں تنبیہ ہے ہی کہ جب تک محبوب رب العالمین خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک نہ کہو گے ان کی دعوت اور ان کا دین قبول نہ کرو گے اللہ سے محبت کرنے والوں میں اللہ کے نزدیک شمار نہ ہو گے اور تمہاری محبت اور محبت کا دعویٰ سب ضائع ہے بیکار ہے اور اکارت ہے، ساتھ ہی ان مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے جو اللہ سے محبت کے بھی دعویدار ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کا بھی بڑھ چڑھ کر دعوی کرتے ہیں لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع اور اطاعت سے دور ہیں کاروبار بھی حرام ہے۔ پھر بھی اللہ و رسول سے محبت ہے داڑھی منڈی ہوئی ہے پھر بھی محبت کا دعویٰ ہے۔ لباس نصرانیوں کا ہے پھر بھی مدعیان محبت ہیں ملکوں کو کافروں کے قوانین کے مطابق چلاتے ہیں پھر بھی محبت کرنے والے ہیں، یہ محبت نہیں محبت کا دھوکہ ہے اور جھوٹا دعویٰ ہے۔ منکرین حدیث کی تردید : ساٹھ ستر سال سے ایک گروہ ایسا نکلا ہے جو عمل بالقرآن کا مدعی ہے یہ لوگ اطاعت رسول اور اتباع رسول کو دین کا جزو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے جو رسول کے ذریعہ آئی ہے اور رسول کی حیثیت ایک ڈاکیہ کی ہے کتاب کو ہم سمجھ لیں گے جیسے مکتوب الیہ اپنے نام کا خط خود پڑھ لیتا ہے رسول کو بیچ میں ڈالنے اور اس کے سمجھانے اور تفسیر کرنے کی کیا ضرورت ؟ العیاذ باللہ یہ لوگ ان تمام آیات کے منکر ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے سورة نحل میں فرمایا (وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ) اور ہم نے آپ کی طرف ذکر کو نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان فرمائیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا اور تاکہ لوگ فکر کریں۔ اور سورة نساء میں فرمایا (اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰیک اللّٰہُ ) (بےشک ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں اس چیز کے ساتھ جو اللہ نے آپ کو سمجھایا) معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کا بیان کرنا بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ہے اس سے ہٹ کر جو سمجھنے کا ارادہ کرے گا وہ اللہ کی کتاب سے دور ہوگا، عامل بالقرآن نہیں ہوگا۔ بلکہ اپنے نفس کی ذاتی رائے پر چلنے والا ہوگا۔ سورة اعراف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا، (یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ ) کہ وہ لوگوں کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں، معلوم ہوا کہ تحریم و تحلیل کا کام بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سپرد کیے ہوئے کاموں میں سے ہے۔ حدیث کو چھوڑ کر عمل بالقرآن کے مدعی درحقیقت نفس کی آزادی چاہتے ہیں اور اتباع رسول اور اطاعت رسول کے انکار کی لپیٹ میں انکار قرآن بھی مضمر ہے اور یہ لوگ عجمی سازش کا شکار ہیں اپنے عجمی استادوں یعنی یورپ اور امریکہ کے یہود و نصاریٰ کے اشاروں سے گمراہی اور زندقہ پھیلا رہے ہیں اگر قرآن کے ماننے والے ہوتے تو بحکم قرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کو لازم قرار دیتے اور احادیث شریفہ پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔ قرآن کے بارے میں قرآن ہی کا بیان معتبر ہے قرآن نے تو یہ نہیں فرمایا کہ میری حیثیت ایک ذاتی خط کی ہے قرآن نے تو اپنے بارے میں (ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ) فرمایا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا۔ اور چونکہ عقل انسانی ہدایت پانے کے لیے نا کافی ہے (اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل فرمائی) اور اللہ جل شانہٗ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبین قرآن اور مفسر قرآن بنا کر بھیجا اور آپ کے اتباع کا حکم دیا اس لیے آپ کی تشریحات وتعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہونا لازم ہے اگر کتاب اللہ کے معانی و مفاہیم ہر شخص کی سمجھ کے مطابق تسلیم کرلیے جائیں تو ہر ہر آیت کے معانی سینکڑوں طرح کے تجویز کردیئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب عقلمندی کے جھوٹے دعویداروں کا کھلونا بن کر رہ جائے گی۔ (اعاذنا اللّٰہ خرافاتھا) ان جاہلوں کو اپنے خیال میں قرآن سے عقیدت ہے لیکن قرآن کے نازل فرمانے والے کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کرتے وہ خالق ومالک ہے اسے سب کچھ اختیار ہے۔ اگر اس نے کتاب نازل فرما کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ اس کی تشریح و تفسیر عائد فرما دی اور بہت سے احکام آپ کی زبانی بیان کروا دیئے تو اس سے ناگواری کیوں ہے ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اے پیغمبر آپ ان لوگوں سے جو خدا کی محبت اور دوستی کے مدعی ہیں فرما دیجئے کہ اگر تم لوگ واقعی اپنے خیال اور اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو اور تمہاری یہ بھی خواہش ہے کہ تمہاری محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے تو تم لوگ میری پیروی اور میری اتباع کرو جب تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرلے گا اور تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنیوالا بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔ ( تیسیر) حب ، حب ، الجباب ، الحباب ، محبت یہ سب ہم معنی ہیں ۔ محبت کے معنی ہیں کسی چیز کے کمال کی وجہ سے نفس کا اس چیز کی طرف مائل ہونا۔ یعنی نفس کسی چیز میں کمال کا ادراک کرے پھر اس چیز کی طرف مائل ہو اور اس چیز کا تقرب اور اس سے قربت حاصل کرنے کے ذرائع اختیار کرے لیکن یہاں عام محبت زیر بحث نہیں ہے بلکہ یہاں جو محبت زیر بحث ہے وہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ کا بندے سے محبت کرنا ہے بندے کی محبت میں ت لغوی معنی کی گنجائش بھی ہوسکتی ہے رہا حضرت حق تعالیٰ کی جانب سے محبت کا اظہار تو اس محبت میں لغوی معنی کی گنجائش نہیں ہے ، اسی لئے اس موقع پر اہل علم نے بہت سے معنی کئے ہیں اور بعض نے مقتضائے محبت کو محبت کا ہم معنی قرار دے لیا ہے۔ محبت کے جو معنی ہم نے عرض کئے ہیں وہ قاضی بیضاوی (رح) کے بیان کردہ معنی ہیں ۔ ورنہ راغب نے تو لغوی معنی صرف اس قدر بیان کئے ہیں کہ کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا ۔ اس قسم کی بحث کے مختلف درجے اور مراتب ہیں ۔ بہر حال جو محبت یہاں زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ محبت کرینوالے کا قلب محبوب کے ساتھ اس قدر مشغول ہو اور محبوب کا انس اس قدر غالب ہو کہ کسی دوسری جانب التفات نہ کرسکے اور غیر کا دھیان نہ کرے اور ہر وقت توجہ محبوب کی جانب رہے۔ حضرات صوفیہ کا قول ہے العشق نار فی القلوب تحرق ما سوی المحبوب یعنی محبت اور عشق قلب کی ایک آگ ہے۔ جو محبوب کے سوا ہر چیز کو پھونک ڈالتی ہے یعنی قلب کی توجہ کو غیر اللہ سے بالکل منقطع کردیتی ہے اور غیر اللہ کو ایسا نسیاً منسیا ً کردیتی ہے کہ گویا غیر کا وجود ہی نہیں ہے یہاں تک کہ خود انسان اپنے وجود کو بھی فراموش کر دے۔ اس محبت کا مقتضایہ ہوتا ہے کہ محبوب کی مرضی اور اس کی رضا جوئی میں لگا رہتا ہے اور محبوب کی ہر ناپسند چیز کو برا سمجھتا ہے قطع نظر کسی خوف یا طمع کے یعنی بالذات نہ کوئی لالچ مقصود ہوتا ہے نہ کوئی خوف دامن گیر ہوتا ہے ، اگرچہ خوف و طمع ہو لیکن مقصود بالذات ادھر توجہ نہ ہو یہ وہ محبت ہے جو بندہ کی جانب منسوب ہوتی ہے اور یہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر یہ باتیں چسپاں نہیں ہوتیں نہ وہ کسی سے غافل ہوتا ہے اور نہ کسی جانب ایسا متوجہ ہوتا ہے کہ دوسری جانب کی خبر نہ رہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی محبت ایک خالص انس ہے جس کا مقتضا یہ ہے کہ بندے کو اپنے جانب متوجہ رکھیں اور غیر کی جانب متوجہ ہونے کی اس کو مہلت اور فرصت نہ دیں ۔ مطلب یہ کہ اس کو اپنے ہی کام میں لگائے رکھیں۔ اسی محبت کو حضرات صوفیہ کی اصطلاح میں محبت ذاتیہ کہتے ہیں ۔ اس محبت کی مزید تشریح یوں ہوسکتی ہے کہ جیسے ماں اپنے بیٹے سے بغیر کسی کمال کا لحاظ کئے ہوئے محبت کرتی ہے ، گویا ماں کی محبت بھی بعینہٖ محبت ذاتیہ نہیں ہے۔ اس تقریر کے بعید قاضی بیضاوی کی تعریف کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ قاضی نے جو کچھ کہا ا س سے وہ محبت مراد ہوسکتی ہے جس کو محبت صفاتیہ کہا جاتا ہے۔ ( واللہ اعلم) خلاصہ یہ ہے کہ اگر محض محبوب کی ذات بدون کسی کمال کا لحاظ کئے سبب محبت ہو تو محبت ذاتیہ کہلاتی ہے اور اگر محبوب کے بعض کمال کو مرأۃ محبت اور سب محبت قرار دیں تو اس کو محبت صفاتیہ کہتے ہیں۔ بغوی نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اتباع کریں اور اس کی اطاعت بجا لائیں اور مرضیات الٰہی کی تلاش و جستجو کریں اور اللہ کی محبت بندوں سے یہ ہے کہ وہ ان کو اطاعت و فرمانبرداری کا بدلہ دے اور ان کی محبت کو سرا ہے اسی طرح اور بھی مفسرین نے بہت سی باتیں فرمائی ہیں لیکن ان سب کی محبت کا مقتضا کہا جاسکتا ہے اور جب یہ سلسلہ محبت کسی بندے کے ساتھ قائم ہوتا ہے تو اس کے بہت سے اثرات ظاہر و نمایاں ہوتے ہیں جن کا یہاں احاطہ کرنا مشکل ہے اور چونکہ محبت کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ عاشق محبوب کی مرض اور اس کی رضا کا جویاں رہتا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہتا اور حضرت حق تعالیٰ کی مرضی اور غیر مرضی کو معلوم کرنے میں قیاس اور رائے کو داخل نہیں ، کوئی شخص ۔۔۔۔۔ اپنے قیاس سے یہ بات متعین نہیں کرسکتا ہے کہ حضرت حق تعالیٰ کو کیا بات پسندیدہ ہے اور کون سی بات ناپسندیدہ ہے یہ امر موقوف ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم پر اس لئے فرمایا جو لوگ محبت خداوندی کے مدعی ہیں ان کو میری اتباع لازم ہے اگر میری اتباع نہیں کریں گے تو وہ اپنے دعوئوں میں جھوٹے اور کذاب ہوں گے کیونکہ محبت کا سب سے بڑا کام رضائے مولا اور اس کی ناراضگی سے بچنا ہے اور یہ بات بدون میر ی اتباع کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا میری اتباع کرو اور چونکہ محبت الٰہی کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ حضرت حق تعالیٰ بندے کو اپنی خاص توجہ سے بہر ہ مند فرمائیں جس کو اللہ کی محبت کرنے سے تعبیر فرمایا ہے تو یہ بھی میری اتباع پر موقوف ہے اس لئے اگر تم میری اتباع کرو گے تو میں ہی تم کو وہ طریقہ تعلیم کروں گا جن سے اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ محبت کرے گا۔ لہٰذا تمہارا یہ مقصد بھی میری اتباع ہی سے پورا ہو سکے گا ۔ اس لئے فرمایا یحببکم اللہ اور اسی طرح ویغفر لکم ذنوبکم کا مطلب سمجھ لینا چاہئے کیونکہ گناہوں کی معافی کا طریقہ بھی ہیں ہی تعلیم کرسکتا ہوں۔ خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ اے پیغمبر ! جو لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مدعی ہیں اور ان کا یہ گمان ہے کہ ہماری محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی ہم سے محبت فرماتا ہے اور ہمارے گناہ معاف کردیتا ہے ان سے کہہ دو کہ یہ سب امورمیری اتباع پر موقوف ہیں جب تک میری اتباع نہ کرو گے تم کو کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ اور تمہارے سب دعادی جھوٹے اور باطل ہیں ، اگر تم میری پیروی کرو گے اور میرے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت بھی کرے گا اور تمہارے گناہ بھی بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کوئی کسی کی محبت کا دعویٰ کرے تو اس طرح محبت کرے جس طرح محبوب چاہے نہ جس طرح اپنا جی چاہے اور اسی طرح چاہے تو محبوب اس کو چاہے اور اللہ بندوں کو چاہے تو یہی کو ان پر مہربانی ہو اور گناہ پر نہ پکڑے اور خیالات عبث ہیں۔ ( موضح القرآن) حضرات مفسرین نے اس آیت میں مختلف ترکیبیں اختیار کی ہیں لیکن ہم نے آسا ن اور سہل ترکیب کی بنا پر ترجمہ اور تسہیل کی ہے تا کہ مطلب آیت کا آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ اب آگے ایک اور شبہ کا جواب فرماتے ہیں ، جیسا کہ بعض معترضین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہم خدا سے تعلق رکھنے والے ہیں ہم کو پیغمبر سے کیا واسطہ ۔ اس کا جواب دیا گیا کہ پیغمبر کی اطاعت اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ پیغمبر کوئی خود ساختہ انسان نہیں ہے بلکہ ہمارا فرستادہ ہے ۔ لہٰذا اس کے حکم کی تعمیل بعینہٖ ہمارے حکم کی تعمیل ہے۔ ( تسہیل)