Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 32

سورة آل عمران

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۲﴾

Say, "Obey Allah and the Messenger." But if they turn away - then indeed, Allah does not like the disbelievers.

کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرو ، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالٰی کافروں سے محبت نہیں کرتا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ ... Say: "Obey Allah and the Messenger." But if they turn away, by defying the Prophet, ... فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ then Allah does not like the disbelievers. thus, testifying that defiance of the Messenger's way constitutes Kufr. Indeed, Allah does not like whoever does this, even if he claims that he loves Allah and seeks a means of approach to Him, unless, and until, he follows the unlettered Prophet, the Final Messenger from Allah to the two creations: mankind and the Jinn. This is the Prophet who, if the previous Prophets and mighty Messengers were to have been alive during his time, they would have no choice but to follow, obey him, and to abide by his Law. Allah willing, we will mention this fact when we explain the Ayah, وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ (And (remember) when Allah took the Covenant of the Prophets). (3:81)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھر تاکید کر کے واضح کردیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اور اس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گریز کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں مگر اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتے وہ سب کافر ہیں۔ اس آیت کے مخاطب اہل کتاب اور کفار و مشرکین ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں کیونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جو صرف قرآن ہی کو ہدایت کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ رہا قرآن پر عمل کرکے دکھانے کا وہ طریقہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو دکھلایا تھا۔ یہ لوگ اس سے مستغنی ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پر ہر دور کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ بھی اس آیت کی رو سے کافر ہیں۔ خواہ وہ خود کو مسلمان کہلوانے پر کتنے ہی مصر ہوں۔ اسی طرح جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ کسی نئے نبی کی اطاعت بھی ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں خواہ وہ خود کو مسلمان کہلوانے پر کتنے ہی مصر ہوں، کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ: پچھلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا حکم تھا جس کا معنی آپ کے نقش قدم پر چلنا، آپ کی پیروی کرنا ہے، اگرچہ اتباع میں حکم ماننا بھی آجاتا ہے مگر اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا، جس کا معنی حکم ماننا ہے۔ آگے فرمایا کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔ یہاں بات صاف سمجھ میں آرہی ہے کہ بات مختصر کردی گئی ہے، جو اس طرح تھی کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو وہ کافر ہیں اور اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ ” ُ الْكٰفِرِيْنَ “ میں الف لام عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” ایسے کافروں “ کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ” َالرَّسُوْلَ “ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا مستقل حیثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ” َالرَّسُوْلَ “ کی اطاعت سنت کی پیروی ہی سے ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہوگی جو قرآن کے مطابق ہو، حالانکہ قرآن نے متعدد مواقع پر حدیث کو مستقل دلیل اور شریعت کے ماخذ کی حیثیت دی ہے، لہٰذا قانون کا ماخذ قرآن و حدیث دونوں قرار پائیں گے۔ حدیث میں قرآن سے زائد حکم تو ہوسکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کی عقل و فہم کا قصور ہے، یا اس کی نیت کا فتور۔ مزید دیکھیے سورة نجم (٤) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کے پاس میرے حکم میں سے کوئی حکم آئے، ان چیزوں میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے، یا میں نے منع کیا تو وہ کہے، ہم نہیں جانتے، ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی کی پیروی کریں گے۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ : ٤٦٠٥، عن أبی الدرداء ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝ ٠ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٣٢ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٣٣۔ ٣٤) تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی کہ تم فرائض و واجبات میں اطاعت کرو اور اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرتے ہو تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ یہودیوں اور کافروں سے محبت نہیں فرماتے، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو یہودی بولے کہ ہم تو آدم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اور مسلمان ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور اولاد ابراہیم موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کو اسلام کی وجہ سے تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد مراد نہیں۔ یہ ایک دوسرے کے دین پر ہیں اور بعض ان میں سے بعض کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ یہود کے اس دعوے کو خوب سننے والے اور ان کے انجام کو اور جو ان کے دین پر ہو، اس کے انجام وسزا کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج) (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ ) یہ دو آیتیں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دو الفاظ آئے ہیں اطاعت اور اتباع۔ اطاعت اگر نہیں ہے تو یہ کفر ہے۔ چناچہ اطاعت تو لازم ہے اور وہ بھی دلی آمادگی سے ‘ مارے باندھے کی اطاعت نہیں۔ لیکن اطاعت کس چیز میں ہوتی ہے ؟ جو حکم دیا گیا ہے کہ یہ کرو وہ آپ کو کرنا ہے۔ اتباع اس سے بلند تر شے ہے۔ انسان خود تلاش کرے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعمال کیا تھے اور ان پر عمل پیرا ہوجائے ‘ خواہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا حکم نہ دیا ہو۔ گویا اتباع کا دائرہ اطاعت سے وسیع تر ہے۔ انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس سے ہر طرح سے ایک مناسبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چناچہ وہ اس کے لباس جیسا لباس پہننا پسند کرتا ہے ‘ جو چیزیں اس کو کھانے میں پسند ہیں وہی چیزیں خود بھی کھانا پسند کرتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا حکم نہیں دیا گیا لیکن ان کا التزام پسندیدہ ہے۔ ایک صحابی (رض) ‘ کا واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کرتے کے بٹن نہیں لگے ہوئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گریبان کھلا تھا۔ اس کے بعد ان صحابی (رض) نے پھر ساری عمر اپنے ُ کرتے کے بٹن نہیں لگائے۔ حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہ صحابی (رض) کہیں دور دراز سے آئے ہوں گے اور ایک ہی مرتبہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہوں گے ‘ لیکن انہوں نے اس وقت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس شان میں دیکھا اس کو پھر اپنے اوپر لازم کرلیا۔ اتباع کے ضمن میں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ اگرچہ دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں کہ انہیں جس درجے میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورا فرمایا اس درجے میں پورا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ‘ پھر بھی اس کی کوشش کرتے رہنا اتباع کا تقاضا ہے۔ مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی مکان نہیں بنایا ‘ کوئی جائیداد نہیں بنائی ‘ جیسے ہی وحی کا آغاز ہوا ‘ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی دنیوی کام نہیں کیا ‘ کوئی تجارت نہیں کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اور اپنی توانائی کی ایک ایک رمق اللہ کے دین کی دعوت اور اس کی اقامت میں لگا دی۔ سب کے لیے تو اس مقام تک پہنچنا یقینامشکل ہے ‘ لیکن بہرحال بندۂ مؤمن کا آئیڈیل یہ رہے اور وہ اسی کی طرف چلنے کی کوشش کرتا رہے ‘ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور زیادہ سے زیادہ وسائل فارغ کرے اور اس کام کے اندر لگائے تو اتباعکا کم سے کم تقاضا پورا ہوگا۔ البتہ جہاں تک اطاعتکا تعلق ہے اس میں کوتاہی قابل قبول نہیں۔ جہاں حکم دے دیا گیا کہ یہ حلال ہے ‘ یہ حرام ہے ‘ یہ فر ض ‘ ہے یہ واجب ہے ‘ وہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں۔ اگر اطاعت ہی سے انکار ہے تو اسے قرآن کفر قرار دے رہا ہے۔ اتباع کا معاملہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ‘ میری پیروی کرو۔ دیکھو ‘ میرے شب و روز کیا ہیں ؟ میری توانائیاں کن کاموں پر لگ رہی ہیں ؟ دنیا کے اندر میری دلچسپیاں کیا ہیں ؟ ان معاملات میں تم میری پیروی کرو۔ اس کے نتیجے میں تم اللہ تعالیٰ کے محب سے بڑھ کر محبوببن جاؤ گے اور اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ وہ یقیناً غفور اور رحیم ہے۔ باقی اطاعت تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی بہرصورت کرنی ہے۔ اگر یہ اس اطاعت سے بھی منہ موڑیں تو اللہ تعالیٰ کو ایسے کافر پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار تو کفر ہوگیا۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کا ثلث اوّل مکمل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس سورة مبارکہ کی پہلی ٣٢ آیات تمہیدی اور عمومی نوعیت کی ہیں۔ ان میں دین کے بڑے گہرے اصول بیان ہوئے ہیں ‘ نہایت جامع دعائیں تلقین کی گئی ہیں اور محکمات اور متشابہات کا فرق واضح کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. This marks the conclusion of the first discourse. Reflection upon its contents, particularly the reference to the Battle of Badr, leads one to the conclusion that this section was probably revealed between the battles of Badr and Uhud, i.e. sometime in 3.A.H. The tradition mentioned by Muhammad b. Ishaq has led to the common misunderstanding that the first eighty verses of this surah were revealed on the occasion of the arrival of the deputation from Najran in 9 A.H. (See Ibn Hisham. Sirah, vol. 1, pp. 573 ff., especially p. 576; Ibn Ishaq, Life of Muhammad, tr. A. Guillaume, second impression, London, Oxford, 1968. pp. 270 ff.. especially p. 272 - Ed.) This is not true. In the first place, the introductory section indicates that the surah was revealed much earlier. Second, the Tradition narrated by Muqatil b. Sulayman states explicitly that on the occasion of the arrival of the deputation from Najran only those verses which concern the Prophets John (Yahya) and Jesus ('Isa) (peace be on them) were revealed, and the number of those verses is about thirty.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :28 یہاں پہلی تقریر ختم ہوتی ہے ۔ اس کے مضمون ، خصوصاً جنگ بدر کی طرف جو اشارہ اس میں کیا گیا ہے ، اس کے انداز پر غور کرنے سے غالب قیاس یہی ہوتا ہے کہ اس تقریر کے نزول کا زمانہ جنگ بدر کے بعد اور جنگ احد سے پہلے کا ہے ، یعنی سن ۳ ہجری ۔ محمد بن اسحاق کی روایت سے عموماً لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس سورت کی ابتدائی ۸۰ آیتیں وفد نجران کی آمد کے موقع پر سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی تھیں ۔ لیکن اول تو اس تمہیدی تقریر کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ اس سے بہت پہلے نازل ہوئی ہو گی ، دوسرے مقاتل بن سلیمان کی روایت میں تصریح ہے کہ وفد نجران کی آمد پر صرف وہ آیات نازل ہوئی ہیں جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بیان پر مشتمل ہیں اور جن کی تعداد ۳۰ یا اس سے کچھ زائد ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیت جب نازل ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا حکم لوگوں کو سنا دیا کہ اللہ کی محبت بدوں فرماں برداری رسول کے حاصل نہیں ہوسکتی تو عبد اللہ بن ابی منافق نے لوگوں کو بہکانا شروع کیا کہ جس طرح نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تم لوگوں سے اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان سے وہ محبت کریں جو نصاریٰ حضرت عیسیٰ سے کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ ٹکڑا آیت کا نازل فرمایا ٢۔ اور فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو دنیا میں اسی واسطے بھیجا ہے کہ وہ تم کو اللہ کی مرضی اور نامرضی کی باتیں بتلائیں اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم تم پر جو ْآتے ہیں وہ تم کو سنا دیں پھر بغیر فرماں برداری رسول کے اللہ کی مرضی کے حکم تم کو کیوں کر معلوم ہوسکتے ہیں۔ اور جب ضد سے تم نے اللہ کی مرضی کے حکموں کو ہی نہ جانا اور ان حکموں کے منکر رہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا تمہارا دعویٰ غلط ہے کیونکہ ایسے منکروں کو اللہ تعالیٰ ہرگز اپنا دوست نہیں ٹھہراتا اور نصاریٰ نے جس طرح کی محبت حضرت عیسیٰ کی اپنے دل سے تراشی ہے نہ وہ رسول وقت نے تم سے چاہی ہے اور نہ وہ اللہ کی مرضی ہے اور نہ انہوں نے حضرت عیسیٰ سے سیکھی ہے پھر یہ مغالطہ تم کہاں سے پیدا کرتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے وہ اپنی محبت چاہتے ہیں جو نصاریٰ حضرت عیسیٰ سے رکھتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس آیت میں اطاعت الہیٰ کے ساتھ الر سول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ کی اطاعت کا مستقبل حثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد الرسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ کی اطاعت سنت کی پیروی سے ہی ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہوگی جو قرآن کے مطابق ہو حالا ن کہ قرآن نے متعدد موقعوں پر حدیث کو مستقل دلیل اور ما خذ شریعت کی حثیت دی ہے۔ لہذا قانون کا ماخذ قرآن سے زائد حکم تو ہوسکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کے عقل وفہم کا قصور ہے یا اس کی نیت کا فتور۔ (سلسلہ کلام کے لیے دیکھئے سورت النجم 4)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ یہ فَاِنَّ اللہَ لَایُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ تک تخویف علی سبیل الترقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے آپ مسلمانوں سے کہہ دیں کہ کافروں سے دوستی مت کرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کو اپنی محبت کا مرکز بناؤ اور اللہ کی محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرو اگر پیغمبر کی اطاعت سے روگردانی کروگے تو اسلام سے خارج ہو کر کافروں میں شامل ہوجاؤ گے اور کافروں کا انجام سب سے بد تر ہوگا۔ یُحْبِبْکُمُ اللہُ ۔ یہ امر کا جواب ہے۔ یعنی جب تم میری اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوجائے گا اور تم سے محبت کرے گا۔ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ، یہ یُحْبِبْکُمْ پر معطوف ہے۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَایُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ ۔ لیکن اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے اعراض کریں تو اللہ تالیٰ ایسے کافروں کو پسند نہیں کرتا اور انہیں اپنے انعام واکرام سے نہیں نوازتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اے پیغمبر ! آپ ان سے یہ بھی فرما دیجئے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پھر اگر یہ لوگ اس سے اعراض کریں اور روگردانی کے مرتکب ہوں تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا اور ایسے منکروں کو پسند نہیں فرماتا ۔ ( تیسیر) حدیث میں آتا ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی ۔ مگر جس نے انکار کیا ، لوگوں نے دریافت کیا وہ انکار کرنے والے کون لوگ ہیں ۔ آپ نے فرمایا جس نے میرا کہامانا اور میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا ۔ دوسری روایت میں ہے جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔۔۔۔ مذکورہ بالا دو آیتوں میں بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے اصول اور ہدایت کی ایسی راہ تجویز کی ہے جس کو اختیار کرنا ہی انسان کی دائمی نجات کا سبب ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کا معاملہ ایسا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات کا اقرار کرتا ہے وہ ضرور کسی نہ کسی درجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا مدعی ہوتا ہے حتیٰ کہ کافر بلکہ مشرک بھی اس امر کے مدعی ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرنے والے ہیں اور اسی وجہ سے حضرت حق نے جہاں مختلف طریقے اپنے عذاب کے بیان کئے ہیں ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم نافرمانوں سے کلام نہیں کریں گے اور ان کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ جیسا کہ دوسرے پارے میں گزر چکا ہے اور اس پارے کے آخر میں بھی انشاء اللہ آئے گا اور یہ دھمکی جب ہی موزوں اور مناسب ہوسکتی ہے جب کہ کافر بھی یہ خیال رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ میرا محبوب ہے میں نے اس محبت کی ہے اور قیامت میں وہ مجھ سے اچھا برتائو کرے گا ۔ 1۔ ہم دوسرے پارے میں اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں چونکہ اس خیال میں نہ صرف اہل کتاب مبتلا ہیں بلکہ جس کافر اور مشرک سے بات کیجئے وہ اس خیال میں مبتلا ہوگا اس لئے اس محبت کے سلسلے میں ایک ایسا پائیدار اور مضبوط اصول بیان کیا گیا جس نے کھرے اور کھوٹے کو بالکل الگ الگ کردیا ۔ 2۔ محبت کے معنی کچھ بھی ہوں خواہ وہ ذاتی ہو یا صفاتی ہو اور بندے کی محبت کے معنی اوہوں اور خدا کی محبت کے معنی اور ہوں بہر حال محبوب کی محبت کا وہی طریقہ صحیح ہوسکتا ہے جو محبوب کو پسند ہو ورنہ خواہ کتنی ہی محبت ہو جب محبوب ہی کو پسند نہہو تو بےکار ہے ۔ ایسی ناپسندیدہ محبت اور عداوت میں کوئی فرق نہیں ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ محبت کو معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے ۔ سوائے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے اور کسی کو وہ طریقہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ اس لئے اپنے رسول کو بتلایا کہ اے پیغمبر ! جو آپ کی پیروی کرے اور آپ کے قدم بہ قدم چلے وہی ہم سے صحیح محبت کرنے والا ہے اور اسی کو یہ توقع رکھنیچاہئے کہ ہم اس سے محبت کریں گے اس لئے کہ جیسی کوئی بندہ ہماری طرف پیش قدمی کرے گا ویسا ہی جواب ہماری طرف سے بھی ہوگا ، کوئی ہمارا ذکر کرتا ہے تو ہم اس کا ذکر کرتے ہیں ۔ کوئی ہم سے غفلت اختیار کرتا ہے تو ہم بھی اس سے ویسا ہی برتائو کرتے ہیں اور جو ہم سے محبت کرتا ہے۔ تو ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، لیکن شرط یہ ہے کہ محبت وہی ہو جو ہماری نظر میں محبت ہو اور ہم اسی کی محبت کو قابل التفات اور قابل توجہ سمجھتے ہیں جو ہمارے پیغمبر کی اتباع اور پیروی کرتا ہے۔ 3۔ یہی حالت اطاعت کی ہے کہ پیغمبر کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا تا کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ رسول کو اللہ تعالیٰ نے ہی مطاع قرار دیا ہے اور جو ان کے مطاع کی اطاعت بجا لاتا ہے وہ در حقیقت خدا ہی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ 4۔ آخر میں کافروں کی محبت کا انکار فرمایا کہ جو ہمارے رسول کی اطاعت نہیں کرتا یا ہمارے رسول کی رسالت کو نہیں مانتا وہ کافر ہے اور کافر کسی طرح بھی ہم کو محبوب نہیں۔ 5۔ شاید یاد ہوگا کہ ہم نے پہلے پارے میں عرض کیا تھا کہ ایک جگہ تمام باتیں مذکور نہیں ہوتیں ، اگر ایک جگہ کسی چیز کا ذکر نہ آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز قابل تعمیل نہیں ہے جو بات وہاں مذکور نہ تھی اس کا ذکر یہاں موجود ہے۔ بہرحال قرآن کریم میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ کی اطاعت کرنا ضروری قرار دیا ہے اور جب تک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لا کر آپ کی اتباع نہ کی جائے اس وقت تک نہ توحید قابل اعتبار ہے اور نہ محبت کا دعویٰ قابل سماعت ہے اس لئے کہ رسول سے بےنیاز ہو کر جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ غیر آئینی اور غیر معتبر ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بندے کی محبت یہی کا شوق سے اللہ کے کام پر اور حکم پر دوڑے ۔ فائدہ :۔ اب آگے سے مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو محبت کے لفظ فرمائے ہیں ۔ سو محبت اللہ کی بندوں پر تو وہی ہے جو سن چکے اور پسند کے لفظ اکثر مقربوں کو فرمائے ہیں ایسے لفظوں سے شبہ نہ کھایا چاہئے۔ ( موضح القرآن) ہم نے اس سورت کی تمہید میں عرض کیا تھا کہ کتب سماویہ میں بعض الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو متشابہات کہتے ہیں ۔ اسی قسم کے بعض الفاظ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بھی انجیل میں فرمائیں ہوں گے یا آدم کی اولاد کو اپنی اولاد فرمایا ہوگا ان الفاظ سے بعض اہل باطل نے اولاد اور بیوی کا عقیدہ بنا لیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معاذ اللہ خدا کا بیٹا اور اپنے کو خدا کا دوست اور اولاد سمجھنے لگے اور اسی فائد عقیدے کو نجران کے عیسائی قرآن کے الفاظ کلمۃ اللہ اور روح اللہ سے ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے حضرت شاہ صاحب (رح) نے اسی کا جواب دیا ہے کہ محبت یا پسندیدگی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں جو عیسائی لیتے ہیں بلکہ محبت سے مراد انبیاء کی اتباع ہے اور پسندیدگی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں جو عیسائی لیتے ہیں بلکہ محبت سے مراد انبیاء کی اتباع ہے اور پسندیدگی کے الفاظ عام انبیاء کے متعلق بھی ارشاد ہوئے ہیں ، کچھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ان الفاظ میں تخصیص نہیں ہے۔ ( تسہیل)