Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 47

سورة آل عمران

قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۴۷﴾

She said, "My Lord, how will I have a child when no man has touched me?" [The angel] said, "Such is Allah ; He creates what He wills. When He decrees a matter, He only says to it, 'Be,' and it is.

کہنے لگیں الہٰی مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا فرشتے نے کہا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے پیدا کرتا ہے جب کبھی وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ... "O my Lord! How shall I have a son when no man has touched me." Mary said, "How can I have a son while I did not marry, nor intend to marry, nor am I an indecent woman, may Allah forbid" The angel conveyed to Maryam, Allah's answer, ... قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاء ... He said: "So (it will be) for Allah creates what He wills. He is Mighty in power and nothing escapes His ability. Allah used the word `create' here instead of the word `does' as in the tale about Zakariyya (3:40), to eradicate any evil thought concerning `Isa. Allah next emphasized this fact when He said, ... إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ When He has decreed something, He says to it only: "Be! ـ and it is. meaning, what Allah wills, comes into existence instantly and without delay. In another Ayah, Allah said, وَمَأ أَمْرُنَأ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ And Our commandment is but one as the twinkling of an eye. (54:50), meaning, "We only issue the command once, and it comes into existence instantly, as fast as, and faster than, a blink of the eye."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 تیرا تعجب بجا لیکن قدرت الٰہی کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے وہ تو جب چاہے اسباب عادیہ و ظاہریہ کا سلسلہ ختم کر کے حکم کن سے پلک جھپکتے میں جو چاہے کر دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ ۭ: مریم [ کو جب لڑکے کی خوشخبری دی گئی تو انھوں نے تعجب کا اظہار کیا، تعجب کا اظہار اس کے ناممکن ہونے پر نہیں بلکہ کس طرح ہونے پر کیا، کیونکہ ظاہری اسباب موجود نہیں۔ کہنے لگیں، مجھے تو آج تک کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا، پھر میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ! ؟ فرمایا : ” اللہ اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ “ زکریا (علیہ السلام) کے قصے میں ” يَفْعَلُ “ اور یہاں ” يَخْلُقُ “ فرمایا۔ پہلا لفظ عام ہے، کیونکہ وہاں میاں بیوی دونوں موجود تھے، گو بوڑھے تھے۔ ” يَخْلُقُ “ خاص ہے، کیونکہ مرد کے بغیر اسباب ہی مکمل نہیں۔ مزید دیکھیے سورة مریم (٢٠، ٢١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The glad tidings given by the angel (verse 46) regarding the birth of Sayyidna ` Isa without a father surprised Sayyidah Maryam as she was a virgin. She wondered how it would happen. Would that be a Divine miracle or would she be asked to marry a man? The Divine an¬swer eliminates the latter possibility. Not restricted by it, &Allah creates what He wills&, that is, His will is all sufficient to bring some-thing into existence. He needs no medium or cause. It is only His command |"be|" which makes things come into existence.

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ۝ ٠ۭ قَالَ كَذٰلِكِ اللہُ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝ ٤٧ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) حضرت مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار میرا لڑکا ہوگا جب کہ کسی بشر نے جائز یا ناجائز طریقہ پر مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا تب اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین کے واسطہ سے کہا جیسا تم سے کہا گیا، تم اسی طرح یقین رکھو اسی طرح ہوگا (جیسے وہ مصور حقیقی چاہے گا) جب اللہ تعالیٰ تم سے بغیر باپ کے لڑکا پیدا کرنا چاہے گا تو کن کہتے ہی وہ پیدا ہوجائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ ط) (قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ط) وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین فطرت کا پابند نہیں ہے۔ اگرچہ عام ولادت اسی طرح ہوتی ہے کہ اس میں باپ کا بھی حصہ ہوتا ہے اور ماں کا بھی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ ان اسباب اور وسائل و ذرائع کا محتاج نہیں ہے ‘ وہ جیسے چاہے پیدا کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44. Thus it was affirmed that a child would be born to Mary despite the fact that no man had touched her. The angel's answer mentioned here, 'Thus shall it be', was exactly the same as the response given to Zechariah. Both the following sentences and the preceding section support the view that the angel had conveyed to Mary the glad tidings that a son would be born to her without normal sexual contact, and it was thus that Jesus was born. For, if Mary's child was to be born to her in the usual manner in which children are born to women, and if the birth of Jesus did take place in the normal way, the entire narrative from verse 35 of this surah to verse 63 would have to be declared absurd. Indeed, one would be forced to treat as meaningless all those statements about the birth of Jesus which are found scattered elsewhere in the Qur'an. The Christians had begun to regard Jesus as God and the son of God because of this fatherless birth. The Jews, in turn, cast aspersions on Mary's chastity on the grounds that she had given birth to a child despite being unmarried. If the fatherless birth of Jesus was itself false, it would have been sufficient to tell the Christians that they were indulging in sheer mis-statement, that Mary had indeed been married, that she had a legitimate husband, and that it was as a result of that wedlock that Jesus was born. If this fact could have been stated plainly, there would have been no need for long preparatory statements and complicated propositions, and no need to call Jesus the son of Mary instead of naming his father. For far from resolving the issue such statements add to the confusion. Those who believe the Qur'an to be the word or command from God and yet try to prove that the birth of Jesus took place in the normal manner, as a result of union between his father and mother, end up by proving only that God is less capable of clear expression than they are!

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :44 یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچہ پیدا ہو گا ۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ ( ایسا ہی ہو گا ) حضرت زکریا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا ۔ اس کا جو مفہوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے ۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم علیہ السلام کو صنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اسی صورت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم علیہ السلام کے ہاں اسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش فی الواقع اسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے ، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادت مسیح علیہ السلام کے باب میں قرآن کے دوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں ۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی ، اور یہودیوں نے حضرت مریم علیہ السلام پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو ، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا ، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے ۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور الجھ جائے ۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسب معمول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اظہار ما فی الضمیر اور بیان مدعا کی اتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں ( معاذاللہ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:47) انی۔ کیونکر۔ کیسے۔ دیکھو (2:233) قضی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ قضاء مصدر۔ قضاء فعلی ہو یا قولی۔ بشری ہو یا الٰہی۔ بہرحال فیصلہ کردینا یا کرلینا۔ کسی بات کے متعلق آخری ارادہ یا حکم یا عمل کو ختم کردینا۔ ضرور مفہوم قضا کے اندر ماخوذ ہے۔ صلات کے اختلاف اور سیاق کی مناسبت سے مختلف معانی مراد ہوتے ہیں۔ بنانا۔ پورا کرنا۔ عزم کرنا۔ فیصلہ کرنا۔ حکم جاری کرنا۔ حکم دینا۔ مقدر کرنا۔ قطعی وحی بھیج کر اطلاع دینا۔ مقرر کرنا ۔ حاجت پوری کرکے قطع تعلق کرلینا۔ فارغ ہونا۔ مرجانا۔ مار ڈالنا۔ ان سب معانی کے لئے اس کا استعمال قرآن حکیم میں ہوا ہے۔ یہاں مراد فیصلہ کرنا ہے۔ اذا قضی امرا۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 حضرت مریم ( علیہ السلام) کو جب لڑکے کی خوشبری دی گئی تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا (انی یکون لی ولد) کہ مجھے تو آج تک کسی مردنے ہاتھ تک نہیں لگا یا پھر میرے ہاں بچہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ؟ اللہ تعالیٰ نے کذالک اللہ الخ فرماکر انہیں تسلی دی یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ مزید دیکھئے (سورت مریم آیت 20 ۔ 21)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی کسی چیز کے پیدا ہونے کے لئے صرف ان کا چاہنا کافی ہے کسی واسطہ و سبب خاص کی ان کو حاجت نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت مریم [ کو ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف، معجزات اور ان کے مشن کا بیان۔ ملائکہ کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ حضرت مریم (علیہ السلام) شرمندگی اور گھبراہٹ کے عالم میں فرشتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے عرض کرنے لگیں کیونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دے رہے تھے۔ اے میرے رب ! مجھے کیونکربیٹا ہوگا ؟ جب کہ کسی بشر نے آج تک مجھے چھوا ہی نہیں۔ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ صرف اس کام کے ہوجانے کا حکم دیتا ہے اور وہ کام اسی طرح ہوجا تا ہے۔ حضرت مریم [ یہ سوچنے لگی کہ میں کنواری ہوں میرے ماں باپ نے مجھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ معاشرہ مجھے نیک اور باحیا سمجھتا ہے۔ قوم میں میرے خاندان کی نیک نامی کا شہرہ ہے ‘ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں وہ انہی خیالات میں گم تھیں کہ اچانک حضرت جبریل امین (علیہ السلام) انسان کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ حضرت مریم [ چونک اٹھیں کہ میں تجھے رب رحمٰن کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اگر تم واقعی نیک ہو تو میرے قریب نہ آنا۔ جبریل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تیرے رب کی طرف سے بھیجا ہواہوں تاکہ تجھے نیک بچہ عطا کروں۔ (سورۂ مریم آیت ١٩) حضرت جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم [ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف، خصوصیات، مرتبہ میں بتلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب اور حکمت و دانائی کی تعلیم دے گا تورات اور انجیل بھی سکھلائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو لکھنے کا طریقہ سکھلایا ‘ ان کی گفتگو اتنی حکیمانہ ہوتی کہ لوگ حیران رہ جاتے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں انجیل سے نوازا اور تورات پر انہیں اتنا عبور تھا کہ اگر کوئی یہودی ان سے سوال کرتا تو وہ تورات کی عبارت کا زبانی حوالہ دے کر اسے قائل اور خاموش کردیتے۔ فرشتوں نے مریم [ کے سامنے یہ بات بھی واضح کی کہ وہ بنی اسرائیل کا رسول ہوگا۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ میں تمہارے رب کی طرف سے کھلے دلائل اور معجزات لے کر آیا ہوں، میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اڑنے لگتا ہے پیدائشی نابینے کو بینا، کوڑھی کو صحیح اور مردے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں پھر میں تمہیں یہ بھی بتلاتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کیا کھاتے اور کیا جمع کرتے ہو ؟ یقیناً ان معجزات اور دلائل میں تمہارے لیے ہدایت کے بڑے ثبوت ہیں۔ اگر تم ایمان لانے کے لیے تیار ہو۔ میں تورات کی تائید کرتا ہوں اور ان چیزوں کو تمہارے لیے حلال کرتا ہوں جو تمہاری نافرمانیوں اور گستاخیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام قراردیں ہیں۔ ان چیزوں کو بھی تمہارے لیے جائز قرار دیتا ہوں جو تمہارے مذہبی پیشواؤں نے اپنی مرضی سے تم پر حرام کی ہیں۔ میں یہ سب دلائل و معجزات تمہارے رب کی طرف سے پیش کرتا ہوں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابع داری میں لگ جاؤ۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ نبی جس قوم میں مبعوث کیا جاتا ہے وہ قوم جس فن میں ید طولیٰ رکھتی ہو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لیے اسے ایسے معجزات عطا فرماتا ہے کہ جس سے ظاہری اسباب کے حوالے سے بھی نبی کی صداقت لوگوں کے سامنے اظہر من الشمس ہوجائے اور لوگ نبی کے دلائل کے سامنے لاجواب ثابت ہوں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے اس زمانے کے اہل علم طب، جراحت اور جادوگری میں اپنے کمال کو پہنچے ہوئے تھے انہیں لاجواب کرنے کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا فرمائے کہ لوگ یہ معجزات دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ یاد رہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان معجزات کی نسبت اپنی طرف کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں کہ جس طرح میں اللہ کا رسول ہوں اسی طرح یہ معجزات اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں اس میں میرا کمال اور اختیار نہیں ہے۔ یہودیوں پر حرام کردہ چیزیں : (وَعَلٰی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ج وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ شُحُوْمَھُمَا إِلَّا مَاحَمَلَتْ ظُھُوْرُھُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ط ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ ز وَإِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ۔ فَإِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍج وَلَا یُرَدُّ بَأْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ) [ الأنعام : ١٤٦، ١٤٧] ” اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کردیے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربی ان پر ہم نے حرام کردی تھی مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو۔ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں۔ پھر اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے وہ ہوجاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب، حکمت، تورات اور انجیل سکھلائی۔ ٣۔ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے۔ ٤۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کی تصدیق کرتے تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہودیوں کے لیے حرام چیزیں حلال ہونے کا اعلان فرمایا۔ ٦۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے بیماروں کو شفاء اور مردے زندہ کرتے تھے۔ ٧۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی تابعداری اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیتے تھے۔ ٨۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مریم کنواری تھیں ‘ اس کی زندگی پاکیزہ تھی ‘ اس کی سوچ بابت ولادت ایسی ہی تھی جس طرح ماحول میں وہ دیکھ رہی تھی ‘ اس نے اس بشارت کو اسی طرح لیاجس طرح ایک جوان لڑکی اسے سمجھ سکتی ہے ‘ وہ فوراً اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئیں ‘ استدعا کی کہ یہ معملہ ان کے فہم کے لئے ناقابل حل ہے ۔ اس کی عقل حیران ہے ۔ قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ……………” میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا ‘ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ “………اس کا انہیں فوراً جواب دیا گیا ‘ اس جواب میں انہیں ایک سادہ سی حقیقت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ جسے انسان روز مرہ زندگی میں سلسلہ اسباب ومسببات کے ساتھ عادی ہوجانے کی وجہ ‘ بھول چکا ہے ۔ اس لئے کہ اس کے ذرائع علم قلیل ہیں ۔ اور وہ اپنے محدود دائرے عادت کے اندر بند رہتا ہے۔ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ……………” وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے۔ “ جب اللہ تعالیٰ ‘ اس معاملے کو ابتدائے آفرینش کی حقیقت سے وابستہ کرتے ہیں تو تعجب ختم ہوجاتا ہے ۔ حیرانی جاتی رہتی ہے۔ دل مطمئن ہوجاتا ہے ۔ اور انسان خود اپنے آپ سے تعجب کے ساتھ پوچھنے لگتا ہے کہ تمہیں اس قدر سادہ اور صاف بات پر تعجب کیسے ہوگیا۔ جو نہایت فطری اور قریب الفہم ہے ۔ اس طرح قرآن کریم ‘ اسلامی تصور ‘ کو اس قدر سادگی اور فطری انداز میں ‘ ایسے عظیم حقائق تک بھی پھیلا دیتا ہے۔ فطری انداز میں ‘ قریب الفہم انداز میں اور وہ شبہات جنہیں فلسفیانہ جذبات مزید الجھاتے تھے ۔ اسلام انہیں صاف کر کرے دلوں میں بٹھا دیتا ہے ۔ اور وہ عقل کے بھی قریب آجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش : حضرت مریم [ کو جو فرشتوں نے بشارت دی اس بشارت کو سن کر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگیں (رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ) (مریم عرض کرنے لگیں کہ اے میرے رب ! میرے لڑکا کہاں سے ہوگا حال یہ ہے کہ مجھے کسی بھی بشرنے چھوا تک نہیں) سورة مریم میں یہ بھی ہے کہ حضرت مریم نے عرض کیا (وَ لَمْ اَکُ بَغِیًّا) اور نہ میں بدکار ہوں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا (کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ) اللہ تعالیٰ اسی طرح پیدا فرماتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے انسانوں کی پیدائش عادۃً جس طرح ہوتی ہے چونکہ ان کی پیدائش اس کے خلاف تھی اس لیے لوگوں کو تعجب ہوا حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی بھی مشکل نہیں ہے کہ بغیر باپ کے پیدا فرما دے (اِذَا قَضآی اَمْرًا فَاِنَّمَایَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْن) وہ جب کسی چیز کے وجود میں لانے کا فیصلہ فرمائے تو کن (ہو جا) فرما دیتا ہے۔ پس وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ قادر مطلق جل مجدہٗ نے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرما دیا اور اپنی کتاب قرآن حکیم میں بتادیا لیکن یہود و نصاریٰ کی تقلید میں بعض لوگ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یوسف نجار کو باپ تجویز کرتے ہیں اور ان کو اپنے کفر یہ عقیدہ پر اصرار ہے۔ (اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ حضرت مریم چونکہ ابھی کنواری تھیں۔ اور نہایت ہی عفیفہ اور پاکدامن تھیں۔ اس لیے یہ خوشخبری سن کر تعجب اور حیرت سے بولیں کہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔ میرے بیٹا کس طرح پیدا ہوگا۔ 67 اس پر فرشتے نے کہا کہ تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ظاہری اسباب کے بغیر جو چاہتا ہے پیدا کرلیتا ہے۔ اس کے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں۔ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو بس اس کام کے مکمل ہوجانے کے لیے صرف اس کا ارادہ ہی کافی ہوتا ہے۔ وَیُعَلِّمُهٗ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاة وَالْاِنْجِیْلَ ۔ یہ بھی فرشتے کا مقولہ ہے اور یُبَشِّرُکَ پر معطوف ہے۔ فرشتے نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ اس ہونے والے بچے کو کتاب و حکمت و اور تورات وانجیل کا علم دے گا۔ یہاں الکتاب میں الف لام عہد کا ہے اور اس سے قرآن مراد ہے۔ اور حکمت سے سنت رسول اللہ یا پختہ باتیں مراد ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے اس وقت قرآن وسنت کا علم ان کو اللہ کی طرف سے وہبی طور پر عطا ہوگا۔ وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ۔ رسولا کا عامل ناصب محذوف ہے ای یجعلہ رسولا۔ (روح ج 3 ص 166) اِنِّیْ میں رسولا عامل ہے۔ یعنی وہ بچہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا اور ان سے کہے گا کہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے پاس اپنی صداقت کی نشانیاں لے کر آیا ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ اس پر حضرت مریم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہوگا حالانکہ مجھ کو تو کسی آدمی نے چھوا تک بھی نہیں ۔ فرشتے کے واسطے سے جواب دیا گیا کہ اسی طرح بلا مردھ کے تیرے ہاں بچہ ہوگا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ یعنی وہ کسی واسطے اور سبب کا محتاج نہیں ہے وہ جب کسی شے کو پورا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور کسی چیز کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس چیز کو کہتا ہے کہ موجود ہوجا بس وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ حضرت مریم نے کیفیت دریافت کی جواب دیا گیا کہ بغیر آدمی کے ہاتھ لگائے اور کسی مرد کی صحبت کئے بغیر ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اسباب دو سائط کا محتاج نہیں ہے جس طرح وہ کسی چیز کو اسباب کے ساتھ بتدریج پیدا کرنے پر قادر ہے اسی طرح دفعتہ اور بلا اسباب وسائط کے بھی پیدا کرنے پر قادر ہے۔ جب وہ کسی چیز کو موجود کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس چیز کو حکم دیتا ہے کہ موجود ہو وہ موجود ہوجاتی ہے اگر اسباب وہ سائط سے موجود ہونے کا حکم ہوتا ہے تو اسباب و وسائط سے ہوجاتی ہے اور اگر بلا اسباب و وسائط کے حکم ہوتا ہے تو بلا اسباب و وسائط کے موجود ہوجاتی ہے ان کے ارادے اور ان کی مشیت کے تعلق پر عالم تکوین کی ہر شے کے وجود عدم کا دارمدار ہے۔ قضی امراً اگرچہ احکام کی قضا پر بولا جاتا ہے لیکن یہاں حضرت حق جل مجدہٗ کا ارادہ مراد ہے یعنی جب وہ کسی چیز کے موجود کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کو یہ کہتا ہے کہ موجود ہو جاوہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ خلاصہ ی ہے کہ جملہ مقدورات پر کمال قدرت حاصل ہے۔ جس وقت چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے اس کو موجود کردیتا ہے اگرچہ عالم امکان میں عام طریقہ اسباب و وسائط کے ساتھ جاری ہے لیکن جب وہ چاہے اور جس کے لئے چاہے اور جس کو چاہے بلا ووسائط و اسباب مہیا کردیتا ہے۔ اب آگے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مزید اوصاف اور فضائل مذکور ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)