Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 50

سورة آل عمران

وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۵۰﴾

And [I have come] confirming what was before me of the Torah and to make lawful for you some of what was forbidden to you. And I have come to you with a sign from your Lord, so fear Allah and obey me.

اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور میں اس لئے آیا ہوں کہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں ، اس لئے تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ ... If you believe. And I have come confirming that which was before me of the Tawrah, affirming the Tawrah and upholding it, ... وَلاُِحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ... and to make lawful to you part of what was forbidden to you. This part of the Ayah indicates that `Isa abrogated some of the Laws of the Tawrah and informed the Jews of the truth regarding some issues that they used to dispute about. In another Ayah; وَلاُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِى تَخْتَلِفُونَ فِيهِ And in order to make clear to you some of the (points) in which you differ. (43;63) `Isa said next, ... وَجِيْتُكُم بِأيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ... And I have come to you with a proof from your Lord. "Containing affirmation and evidence to the truth of what I am conveying to you." ... فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَطِيعُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 اس سے مراد یا تو وہ بعض چیزیں ہیں جو بطور سزا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کردی تھیں یا پھر وہ چیزیں جو ان کے علماء نے اجتہاد کے ذریعے سے حرام کیں تھیں اور اجتہاد میں ان سے غلطی کا ارتکاب ہوا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس غلطی کا ازالہ کر کے انہیں حلال قرار دیا۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ ۔۔ : عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت تورات میں سے کئی حکم جو مشکل تھے، موقوف ہوئے، باقی وہی تورات کا حکم تھا۔ (موضح) عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی کوئی الگ مستقل شریعت لے کر مبعوث نہیں ہوئے تھے، بلکہ موسوی شریعت کی تائید و تصدیق کرنے اور بنی اسرائیل کو تورات پر عمل کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے، البتہ تورات میں بعض چیزیں جو بطور تشدید ان پر حرام کردی گئی تھیں، ان کو اللہ کے حکم سے حلال قرار دینا بھی ان کے مقصد بعثت میں شامل تھا، جیسے اونٹ کا گوشت اور حلال جانوروں کی چربی وغیرہ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے صرف ان چیزوں کو حلال قرار دیا جنھیں یہود نے آپس کے اختلافات اور موشگافیوں کی وجہ سے حرام قرار دے لیا تھا۔ لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ انھوں نے بعض چیزوں کی حرمت کو منسوخ بھی کیا ہے۔ ( ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ ۣ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝ ٥٠ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ توراة التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔ حلَال حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل . ( ح ر م ) الحرام ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) میں تمہارے پاس ایک ایسا دین اور توحید لے کر آیا ہوں جو توریت اور مجھ سے پہلی ساری کتابوں کے مطابق ہے، اور یہ شریعت اس لیے لے کر آیا ہوں کہ تم لوگوں کے لیے بعض ایسی چیزیں حلال کردوں جو تم پر پہلے حرام کردی گئی تھیں مثلا اونٹ کا گوشت اور گائے، بکری کی چربی اور ہفتہ کو شکار کھیلنا وغیرہ لہٰذا جن باتوں کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس کی نافرمانی کرنے میں اللہ رب العزت سے ڈرو اور کفر وشرک سے توبہ کرو اور میرے دین اور میرے حکم کی اتباع کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰٹۃِ ) (وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ) ۔ یہ اصل میں سبت کے حکم کے بارے میں اشارہ ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بھی بعض مذہبی مزاج کے لوگوں میں بڑی سختی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ دین کے احکام میں غلو کرتے چلے جاتے ہیں ‘ اسی طرح سبت کے حکم میں یہودیوں نے اس حد تک غلو کرلیا تھا کہ اس روز کسی مریض کے لیے دعا کرنا کہ اللہ اسے شفا دے دے ‘ یہ بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بھی دنیا کا کام ہے۔ چناچہ وہ اس معاملے میں ایک انتہا تک پہنچ گئے تھے۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے آکر اس کی وضاحت کی کہ اس طرح کی چیزیں سبت کے تقاضوں میں شامل نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46. The fact that Jesus preached the same religion as that expounded earlier by Moses and the other Prophets is also borne out by the statements of the existing Gospels: According to Matthew, in his Sermon on the Mount the Messiah categorically declared: 'Think not that I have come to abolish the law and the prophets; I have come not to abolish them but to fulfil them' (Matthew 5: 17) . And when a Jewish lawyer enquired: 'Teacher, which is the greatest commandment in the Law?', Jesus replied: 'You shall love the Lord your God with all your heart, and with all your soul, and with all your mind. This is the greatest and the first commandment. And a second is like it, you shall love your neighbour as yourself. On these two commandments depends the law and the prophets' (ibid., 22: 37-40) . He also instructed his disciples: The scribes and the Pharisees sit on Moses' seat, so practise and observe whatever they tell you, but not what they do; for they preach, but do not practise' (ibid., 23: 2-3) . 47. What Jesus wanted to impress upon them was that he would abolish the prohibitive innovations which had infiltrated the original Divine Law (Shari'ah}. These were the results of the superstitions of their ignorant commoners, the legal hair-splitting of their lawyers, the extremism of their world-renouncing pietists, and the ascendancy and predominance of non-Muslim peoples over them. In determining what is lawful and unlawful, Jesus would be guided by the injunctions of God and not by the inventions of human beings.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :46 یعنی یہ میرے فرستادہ خدا ہونے کا ایک اور ثبوت ہے ۔ اگر میں اس کی طرف سے بھیجا ہوا نہ ہوتا بلکہ جھوٹا مدعی ہوتا تو خود ایک مستقل مذہب کی بنا ڈالتا اور اپنے ان کمالات کے زور پر تمہیں سابق دین سے ہٹا کر اپنے ایجاد کردہ دین کی طرف لانے کی کوشش کرتا ۔ لیکن میں تو اسی اصل دین کو مانتا ہوں اور اسی تعلیم کو صحیح قرار دے رہاہوں جو خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر مجھ سے پہلے لائے تھے ۔ یہ بات کہ مسیح علیہ السلام وہی دین لے کر آئے تھے جو موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیا نے پیش کیا تھا ، رائج الوقت اناجیل میں بھی واضح طور پر ہمیں ملتی ہے ۔ مثلاً متی کی روایت کے مطابق پہاڑی کے وعظ میں مسیح علیہ السلام صاف فرماتے ہیں: ”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“ ۔ ( ۵ : ١۷ ) ایک یہودی عالم نے حضرت مسیح علیہ السلام سے پوچھا کہ احکام دین میں اولین حکم کونسا ہے؟ جواب میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”خداوند اپنے خدا سے اپنےسارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ۔ اور دوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے“ ۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں: ”فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں ۔ جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو مگر ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں ۔ “ ( متی ۲۳:۲ ۔ ۳ ) سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :47 یعنی تمہارے جہلا کے توہمات ، تمہارے فقیہوں کی قانونی موشگافیوں ، تمہارے رہبانیت پسند لوگوں کے تشددات ، اور غیر مسلم قوموں کے غلبہ و تسلط کی بدولت تمہارے ہاں اصل شریعت الہٰی پر جن قیود کا اضافہ ہوگیا ہے ، میں ان کو منسوخ کروں گا اور تمہارے لیے وہی چیزیں حلال اور وہی حرام قرار دوں گا جنہیں اللہ نے حلال یا حرام کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: بنی اسرائیل کے لئے موسوی شریعت میں بعض چیزیں حرام کی گئی تھیں، مثلا اُونٹ کا گوشت اور چربی، بعض پرندے اور مچھلیوں کی بعض اقسام، حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت میں انہیں جائز قرار دے دیا گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے وقت تورات میں سے کئی حکم جو مشکل تھے موقوف ہوئے باقی وہی تورات کا حکم تھا۔ (موضح) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنی کوئی الگ مستقل شریعت لیکر مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ مسوی شریعت کی تائید و تصدیق کرنے اور بنی اسرائیل کو اقامت تورات کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے۔ ، البتہ تورات میں بعض چیزیں جو بطور تشدید ان پر حرام کردی گئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال قرار دینا بھی ان کے مشن میں شامل تھا۔ جیسے اونٹ کا گوشت اور حلال جا نوروں کی چربی وغیرہ بعض علما نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے صرف ان چیزوں کو حلال قرار دیا جنہیں یہود نے آپس کے اختلا فات اور مو شگافیوں کی رج سے حرام قرار دے لیا تھا۔ لیکن زیادہ ص صحیح یہی ہے کہ انہوں نے بعض چیزوں کی حرمت کو منسوخ کیا ہے۔۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا یہ خاتمہ ہے ۔ یعنی یہ تھی وہ دعوت جو آپ نے بنی اسرائیل کو دی ۔ اس میں انہی بنیادی نکات کی وضاحت کی گئی ہے جو ہمیشہ اللہ کے دین کے اصل نکات رہے ہیں ۔ اور جن کی طرف تمام رسول دعوت دیتے رہے ہیں ۔ اور یہ وہ حقائق ہیں جن کی بہت ہی اہمیت ہے ۔ خصوصاًجبکہ ان حقائق کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے دہرایا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی ولادت ہی وجہ نزاع تھی اور یہ نزاعات اس لئے پیدا ہوگئے تھے کہ لوگوں نے دین اور رسولوں کی حقیقت پر غور نہ کیا ۔ یعنی یہ کہ رسول بھی ایک ہیں اور ان کا دین بھی ایک ہے ۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں ۔ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلأحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ……………” اور میں اس کی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے موجود ہیں ۔ اور اس لئے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان چیزوں کو حلال کردوں جو تم پر حرام کردی گئی تھیں۔ “ یہاں وہ سچا مذہب بیان کیا جاتا ہے جو مسیحیت کا اصل مذہب تھا ۔ پس تو راقت جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تھی اس میں وہ دین برحق پوری طرح موجود تھا ۔ اور اس میں وہ پوری شریعت موجود تھی جو اجتماعی زندگی کو بہترین طور پر منظم کرتی تھی ۔ یعنی اس دور کی ضروریات کے مطابق اور اس وقت بنی اسرائیل کے جو حالات تھے ۔ ان کی نسبت سے اور اس نقطہ نظر سے کہ اس وقت وہ انسانوں کے ایک خاص گروہ کے لئے ایک خاص نظام زندگی تھا ۔ اور حضرت مسیح اپنی رسالت میں اسی تورات پر اعتماد فرماتے تھے ۔ آپ نے تورات کی تصدیق کی ۔ ہاں اس میں بعض حرام چیزوں کو حلال کردیا گیا اور وہ چیزیں ان پر حرام بھی بطور سزا دی گئی تھیں ‘ اس لئے کہ انہوں نے بعض گناہوں اور بعض بداعمالیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اور ان کی تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو بھی حرام کردیا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بذریعہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان پر رحم فرمایا اور وہ بعض اشیاء جو حرام کردی گئی تھیں انہوں دوبارہ حلال کردیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کا یہ حقیقی مزاج ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی زندگی بذریعہ قانون سازی منظم کرتا ہے ۔ دین کا مزاج صرف تہذیب اخلاق نہیں ہوتا ۔ نہ دین انسان کے تصورات اور اس کے وجدان و شعور کو درست کرنے پر اکتفا کرتا ہے ۔ نہ دین کا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے کچھ عبادات تجویز کردے اور وہ ان مراسم عبودیت کے عابد بن کر بیٹھ جائیں ۔ ایسے جزوی مسائل ہی پر اکتفاء کرنے والا دین ‘ اپنے اصل معنوں میں دین نہیں ہوتا ۔ دین تو صرف وہ ہوتا ہے جو پوری زندگی کا نظام ہو ‘ وہ اللہ تعالیٰ کا تجویز کردہ ہو ۔ اور جو انسانوں کی زندگی کو اللہ کی منہاج کے مطابق استوار کرے ۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ ایمانی عقائد ‘ مراسم عبودیت ‘ اخلاقی قدریں اگر دین سے علیحدہ کردی جائیں تو اس صورت میں دین صرف فقہ بن جاتا ہے ۔ اور پھر وہ انسانی زندگی میں صحیح طرح کام نہیں کرتا ۔ پھر یہ بات دینی مزاج کے خلاف ہوجاتی ہے ۔ یہی وہ حادثہ ہے جو مسیحیت کے ساتھ پیش آیا کہ بعض تاریخی اسباب کی وجہ سے ‘ اور پھر اس وجہ سے بھی کہ وہ ایک محدود وقت کے لئے نازل ہوئی تھی ‘ اور وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری نبوت کے لئے بطور تمہید آئی تھی ۔ مسیحیت کی روحانی تعلیمات سے نظام شریعت علیحدہ ہوگیا ۔ وہ تاریخی اسباب یہ تھے کہ یہودیوں اور مسیح (علیہ السلام) کے درمیان سخت عداوت پیدا ہوگئی ۔ آپ کے بعد آپ کے انصار اور یہودیوں کے درمیان بھی سخت عداوت رہی ۔ جس کی وجہ سے یہ شریعت تورات بھی ایک محدود قوم اور محدود وقت کے لئے تھی اور حضرت عیسیٰ کی اخلاقی تعلیمات بھی ۔ تاکہ اللہ کے نظام قدرت میں طے شدہ منصوبے کے مطابق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری اور جامع شریعت نازل ہو اور ہمیشہ کے لئے پوری انسانیت کے لئے شریعت ہو۔ بہرحال صورتحال یہ ہوگئی کہ مسیحیت ایک ایسا تناور درخت بن گئی جن میں نظام شریعت نہ تھا۔ اس لئے وہ ہمیشہ ان اقوام کی اجتماعی زندگی کنٹرول کرنے سے عاجز رہی جن اقوام نے کبھی اسے قبول کیا ۔ اس لئے کہ اجتماعی زندگی کی راہنمائی کے لئے ایک ایسا تصور حیات ضروری ہے جو زندگی کے ہر شعبے کی وضاحت کرتا ہو ‘ وہ یہ بتاتا ہو کہ اس پوری کائنات میں انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ۔ اس کے اندر ایک مضبوط نظام عبادت ہو ‘ اور ایک اچھا اخلاقی اور روحانی نظام بھی رکھتا ہو ‘ اور اس کے بعد اس کے پاس ایک بہترین اجتماعی قانونی نظام ہو اور یہ اخلاقی اور قانونی نظام اس کے اصل تصور حیات سے ماخوذ ہو۔ اگر دین ان عناصر ترکیبی سے مرکب ہو تب وہ اجتماعی زندگی کو منظم کرسکتا ہے۔ اس وقت انسان کو حکمت دین بھی سمجھ میں آتی ہے اور وہ پھر انسانی نظام کی ضمانت دیتا ہے۔ غرض جب مسیحیت کی اخلاقی تعلیمات شریعت سے جدا ہوگئیں تو پھر مسیحیت اس قابل نہ رہی کہ وہ مکمل نظام حیات بن جائے۔ اس لئے لوگوں کی زندگی میں اخلاقی قدروں اور اجتماعی قدروں کے درمیان مکمل جدائی واقع ہوگئی ۔ اور ان کے اخلاق اور ان کے اعمال کے درمیان اتحاد نہ رہا ۔ اس طرح ان کا اجتماعی نظام ایک فطری نظام نہ رہا جو ان کی اخلاقی قدروں سے ہم آہنگ ہو ۔ اس لئے عیسائیوں کا اجتماعی نظام ہمیشہ یا تو ہوا میں معلق رہا ‘ روحانی دنیا اس کا کوئی تعلق نہ رہا اگر وہ چلا بھی تو وہ ایک لولا لنگڑا نظام تھا۔ تاریخ انسانی کے اندر جب انسانیت اس صورت حال سے دوچار ہوئی تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ ایک عظیم حادثہ تھا ۔ یہ بہت ہی تباہ کن حادثہ تھا ۔ یہ ایک ایسا عظیم واقعہ تھا جس کی وجہ سے انسانیت کے لئے بدبختی کے چشمے پھوٹے ۔ انسانی حیرانی اور پریشانی کا شکار ہوئے ۔ ان پر اخلاقی بےراہ روی کا سیلاب آیا۔ اور ایسی ایسی مصیبتیں آئیں جن میں لادین مادی اجتماعی نظام آج تک گرفتار ہے اور آج یورپ اس کی مثال ہے ۔ چاہے اب یہ نظام ان ممالک میں ہو ‘ جن کا مسیحیت کے ساتھ ابھی تک تعلق ہو ۔ اس لئے کہ مسیحیت میں سرے سے کوئی اجتماعی نظام ہی نہیں ہے ۔ یا ان ممالک میں ہو جہاں سے مسیحیت ختم ہوگئی ہے ۔ بہر حال دونوں ممالک کے درمیان کوئی زیادہ امتیاز نہیں ہے۔ اس لئے کہ مسیحیت جس طرح اسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا ‘ اور جس طرح ہر وہ نظام جس پر دین کا اطلاق ہوتا ہے ‘ ایک ایسا نظام تھا جس میں زندگی کے لئے ایک مکمل شریعت اور نظام و قانون موجود تھا ۔ جو عقیدہ توحید پر مبنی تھا ۔ اور جو ان اخلاقی تصورات پر قائم تھا جو اس عقیدے سے ماخوذ تھے ۔ اس لئے موجودہ مسیحیت کو اس لئے مسیحیت نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں وہ پورا نظام زندگی موجود نہیں ہے جو حضرت مسیح نے پیش کیا ۔ بلکہ مسیحیت سرے سے دین ہی نہ ہوگی ۔ غرض ان عناصر ترکیبی کے سوا زندگی کے مسائل کے حل کے لئے کوئی اجتماعی نظام قائم نہیں ہوسکتا جو مکمل بھی ہو ‘ جو نفس انسانی کی پوری ضروریات کے لئے بھی کافی ہو ‘ جو انسان کی عملی زندگی کے مسائل کے حل کرتا ہو اور جو حیات انسانی کا وثیق رابطہ اپنے رب کے ساتھ قائم کردے ۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اس قول کی تفسیروں اور مفہومات میں سے ایک مفہوم ہے ‘ آپ فرماتے ہیں : وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلأحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ……………” میں تصدیق کرتا ہوں تورات کے اس حصے کی جو میرے سامنے موجود ہے اور تمہارے لئے بعض ان چیزوں کو حلال قرار دیتا ہوں جو تم پر حرام قرار دی گئی ہیں ۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے اس منصب کے اظہار کا استدلال توحید الٰہی سے کرتے ہیں جو اسلام میں پہلی عظیم حقیقت ہے ‘ فرماتے ہیں وَجِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (٥٠)إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ ” دیکھو ‘ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں ۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارے بھی ‘ لہٰذا تم اس کی بندگی اختیار کرو ‘ یہی سیدھا راستہ ہے۔ “ یہاں آپ اس نظریاتی تصور حیات کو پیش فرماتے ہیں جس پر اللہ کا دین قائم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے جو معجزات پیش کئے ہیں وہ میں نے اپنی طرف سے نہیں پیش کئے ۔ بذات خودتو وہ ایک بشر ہیں وہ ایسے معجزات کیسے صادر کرسکتے ہیں ۔ یہ اللہ کے معجزات ہیں اور میری دعوت خدا خوفی اور اطاعت کے اساسی اصولوں پر قائم ہے ۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ اللہ جس طرح میرا رب ہے اسی طرح تمہارا رب ہے ۔ اور یہ کہ وہ بذات خود رب نہیں ہیں بلکہ عبد ہیں ۔ اس لئے بندگی اور عبادت رب واحد کی کی جائے کیونکہ عبادت اس کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی ۔ اس کے بعد ان تمام باتوں کا اظہار یعنی یہ کہ رب واحد ہے ۔ اسی کی بندگی ہوگی ‘ رسول اور اس کے لائے ہوئے نظام حیات کی اطاعت ہوگی ۔ یہ تو ہے صراط مستقیم اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ بےراہی ‘ گمراہی اور انحراف ہے۔ ملائکہ کی جانب سے حضرت مریم کو بشارت ‘ پھر آنے والے نبی کی صفات ‘ اس کی رسالت ‘ اس کے معجزات اور کلمات کے تذکرے کے بعد اب اس قصے میں اچانک وہ منظر آتا ہے جب حضرت عیسیٰ محسوس کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل کفر اور انکار پر تک گئے ہیں ‘ اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے اللہ کے دین کی نشر و اشاعت اور اس کے قیام کے لئے ایک عام اپیل کی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72 مُصَدِّقاً کا عطف رسولا پر ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک فریضہ یہ بھی تھا کہ وہ تورات کی تصدیق کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ تورات خدا کی کتاب ہے اور اس کی تعلیمات پر ایمان لانا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ۔ تورات کے بعض احکام حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے منسوخ بھی کیے گئے مثلا کئی چیزیں جو تورات میں حرام تھیں حلال کردی گئیں۔ وَجِئْتُکُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۔ مذکورہ دلائل میری نبوت و رسالت پر کافی ہیں۔ اس لیے خدا سے ڈرو۔ میرا انکار نہ کرو اور میری اطاعت کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اور اے بنی اسرائیل میرا حال یہ ہے کہ میں اس کتاب توریت کی جو مجھ سے پہلے نازل ہوچکی ہے تصدیق کرنے والا اور اس کو سچا بتانے والا ہوں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ بعض ایسی چیزیں جو شریعت موسوی میں تم پر حرام کردی گئیں تھیں ان کو تمہارے لئے حلال کر دوں یعنی بحیثیت ایک صاحب شریعت اور صاحب کتاب نبی ہونے کے توریت کے بعض احکام کو منسوخ کردوں اور ایسا کرنے کا مجھے حق ہے کیونکہ میں کہہ چکا ہوں کہ میں اپنی نبوت پر تمہارے رب کی طرف سے دلیل اور نشان لے کر آیا ہوں لہٰذا اے بنی اسرائیل تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور تمام دینی امور میں میری اطاعت کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جب معجزات صریحہ اور دلائل واضحہ سے میرا نبی ہونا ثابت ہوگیا اور یہ معلوم ہوگیا کہ میں مستقل کتاب اور مستقل شریعت لے کر آیا ہوں تو اب مجھ پر ایمان لانا اور میری اطاعت کرنا ضروری ہے اور مجھ کو بعض احکام سابقہ کے منسوخ کرنے کا بھی حق ہے جیسے جانوروں کی چربی اور گوشت کا بعض حصہ تم پر حرام تھا میں اس کی حرمت کی منسوخ کر کے اس کی حلت کا حکم دوں گا ، اور یہ توریت کی تصدیق کے منافی نہیں ہے بلکہ جس طرح قرآن کا بعض حصہ بعض کو منسوخ کرتا ہے حالانکہ تمام قرآن مومن یہ ہے اسی طرح توریت کا مصدق ہونے کے باوجود بعض احکام کو منسوخ کر دوں گا آگے ان کی تصدیق کا باقی حصہ مذکور ہے۔ ( تسہیل)