46. The fact that Jesus preached the same religion as that expounded earlier by Moses and the other Prophets is also borne out by the statements of the existing Gospels: According to Matthew, in his Sermon on the Mount the Messiah categorically declared: 'Think not that I have come to abolish the law and the prophets; I have come not to abolish them but to fulfil them' (Matthew 5: 17) . And when a Jewish lawyer enquired: 'Teacher, which is the greatest commandment in the Law?', Jesus replied: 'You shall love the Lord your God with all your heart, and with all your soul, and with all your mind. This is the greatest and the first commandment. And a second is like it, you shall love your neighbour as yourself. On these two commandments depends the law and the prophets' (ibid., 22: 37-40) . He also instructed his disciples: The scribes and the Pharisees sit on Moses' seat, so practise and observe whatever they tell you, but not what they do; for they preach, but do not practise' (ibid., 23: 2-3) .
47. What Jesus wanted to impress upon them was that he would abolish the prohibitive innovations which had infiltrated the original Divine Law (Shari'ah}. These were the results of the superstitions of their ignorant commoners, the legal hair-splitting of their lawyers, the extremism of their world-renouncing pietists, and the ascendancy and predominance of non-Muslim peoples over them. In determining what is lawful and unlawful, Jesus would be guided by the injunctions of God and not by the inventions of human beings.
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :46
یعنی یہ میرے فرستادہ خدا ہونے کا ایک اور ثبوت ہے ۔ اگر میں اس کی طرف سے بھیجا ہوا نہ ہوتا بلکہ جھوٹا مدعی ہوتا تو خود ایک مستقل مذہب کی بنا ڈالتا اور اپنے ان کمالات کے زور پر تمہیں سابق دین سے ہٹا کر اپنے ایجاد کردہ دین کی طرف لانے کی کوشش کرتا ۔ لیکن میں تو اسی اصل دین کو مانتا ہوں اور اسی تعلیم کو صحیح قرار دے رہاہوں جو خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر مجھ سے پہلے لائے تھے ۔
یہ بات کہ مسیح علیہ السلام وہی دین لے کر آئے تھے جو موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیا نے پیش کیا تھا ، رائج الوقت اناجیل میں بھی واضح طور پر ہمیں ملتی ہے ۔ مثلاً متی کی روایت کے مطابق پہاڑی کے وعظ میں مسیح علیہ السلام صاف فرماتے ہیں:
”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“ ۔ ( ۵ : ١۷ )
ایک یہودی عالم نے حضرت مسیح علیہ السلام سے پوچھا کہ احکام دین میں اولین حکم کونسا ہے؟ جواب میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”خداوند اپنے خدا سے اپنےسارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ۔ اور دوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے“ ۔
پھر حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں:
”فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں ۔ جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو مگر ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں ۔ “ ( متی ۲۳:۲ ۔ ۳ )
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :47
یعنی تمہارے جہلا کے توہمات ، تمہارے فقیہوں کی قانونی موشگافیوں ، تمہارے رہبانیت پسند لوگوں کے تشددات ، اور غیر مسلم قوموں کے غلبہ و تسلط کی بدولت تمہارے ہاں اصل شریعت الہٰی پر جن قیود کا اضافہ ہوگیا ہے ، میں ان کو منسوخ کروں گا اور تمہارے لیے وہی چیزیں حلال اور وہی حرام قرار دوں گا جنہیں اللہ نے حلال یا حرام کیا ہے ۔