Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 66

سورة آل عمران

ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ حَاجَجۡتُمۡ فِیۡمَا لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡمَا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۶﴾

Here you are - those who have argued about that of which you have [some] knowledge, but why do you argue about that of which you have no knowledge? And Allah knows, while you know not.

سُنو! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمہیں علم تھا پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ؟اور اللہ تعالٰی جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَاأَنتُمْ هَوُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَأجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ... Verily, you are those who have disputed about that of which you have knowledge. Why do you then dispute concerning that of which you have no knowledge! This Ayah criticizes those who argue and dispute without knowledge, just as the Jews and Christians did concerning Ibrahim. Had they disputed about their religions, which they had knowledge of, and about the Law that was legislated for them until Muhammad was sent, it would have been better for them. Rather, they disputed about what they had no knowledge of, so Allah criticized them for this behavior. Allah commanded them to refer what they have no knowledge of to He Who knows the seen and unseen matters and Who knows the true reality of all things. This is why Allah said, ... وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ It is Allah Who knows, and you know not. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 تمہارے علم اور دیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے۔ یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے بےاصل بھی ہیں اور بےعقلی کا مظہر بھی تو پھر تم اس بات پر کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شان اور ان کی ملت حنفیہ کے بارے میں جس کی اساس توحید و اخلاص پر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یعنی ایسی باتوں میں تو تمہیں جھگڑا کرنے کا کسی حد تک حق پہنچتا ہے۔ جن کے متعلق تمہیں کچھ علم ہے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو تورات اور انجیل میں بشارات دی گئی ہیں۔ مگر جن باتوں کا تمہیں علم ہی نہیں ان میں تمہیں جھگڑا کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ تم دونوں فرقوں میں سے کسی نے بھی حضرت ابراہیم کو دیکھا نہ ان کا زمانہ پایا نہ ان کے حالات زندگی اور ان کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ یہودی تھے ؟ یا نصرانی تھے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ: یعنی اس دین ابراہیمی سے متعلق۔ مراد یہ ہے کہ جب تم تورات و انجیل ہی کے مسائل میں بھٹکے اور کیسے بھٹکے، حالانکہ وہاں کچھ علم تمہیں حاصل تھا، تو اب دین ابراہیمی کے بارے میں کیوں کٹ حجتی پر تلے ہو، جس کے بارے میں تو تمہیں علم کا شائبہ بھی حاصل نہیں ؟ (ماجدی) اس آیت میں نہ صرف غلط طور پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ مطلقاً جھگڑے سے گریز کی نصیحت بھی کی ہے۔ (ابن کثیر، فتح القدیر )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٦٦ حاجَّة والمُحاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر : يحجّ مأمومة في قعرها لجف الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

بحث ومباحثہ بغیر علم کے فضول ہے قول باری ہے۔ (ھا انتم ھئولاء حاججتم فیمالکم بہ علم فلم تحاجون فیمالیس لکم بہ علم، تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کرچکے ہو اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہوں جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں) حق کی خاطر بحث ومباحثہ کرنے اور دلائل پیش کرنے کی صحت کی یہ آیت سب سے واضح دلیل ہے۔ اس لیئے کہ اگر ہر قسم کے بحث ومباحثہ کی ممانعت ہوتی تو علم کی بنیادپر اور علم کے بغیر بحث ومباحثہ کے درمیان فرق نہ کیا جاتا۔ قول باری (حاججتم فیمالکم بہ علم کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے مراد باتیں ہیں جو انہیں اپنی کتابوں سے ملی تھی۔ جس بات کا انہیں علم نہیں تھا تو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ان کا یہ کہنا کہ آپ یہودی یا نصرافی تھے

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ) (فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ ط) ان چیزوں کے بارے میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ‘ کوئی علمی بنیاد نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :58 یعنی تمہاری یہ یہودیت اور یہ نصرانیت بہرحال تورات اور انجیل کے نزول کے بعد پیدا ہوئی ہیں ، اور ابراہیم علیہ السلام جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت یا نصرانیت تو نہ تھا ۔ پھر اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام راہ راست پر تھے اور نجات یافتہ تھے تو لامحالہ اس سے لازم آتا ہے کہ آدمی کا راہ راست پر ہونا اور نجات پانا یہودیت و نصرانیت کی پیروی پر موقوف نہیں ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ١۳۵ و ١٤١ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، توحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بے بنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم (علیہ السلام) تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:66) ھا انتم ھولائ۔ ھا حرف تنبیہ۔ انتم ضمیر جمع مذکر حاضر مرفوع مبتدائ۔ ھؤلائ۔ یہ ھا اس ضمیر مرفوع پر آتی ہے جس کی خبر اسم اشارہ ہو یہاں اولاء خبر ہے۔ دیکھو تمہیں ہو وہ لوگ۔ حاججتم۔ حاج یحاج محاجۃ سے ماضی جمع مذکر حاضر۔ تم نے حجت بازی کی۔ تم نے جھگڑا کیا ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مباحثہ کیا ‘ پھر انہوں نے بعض فقہی موضوعات پر بھی مجادلہ کیا ‘ اور جب انہیں دعوت دی گئی کہ آؤ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں تو انہوں نے روگردانی کی ۔ یہ دونوں موضوعات ایسے تھے ‘ جن کے بارے میں انہیں کچھ علم تھا۔ رہے وہ معاملات جو تمہارے وجود سے پہلے ہیں ‘ تمہاری کتابوں سے پہلے ہیں ۔ تمہارے اس دین سے پہلے ہیں جن پر تمہارا ایمان ہے ۔ تو اس بارے میں تمہارے پاس نہ علم ہے اور نہ سند ہے۔ اگرچہ ہماری سند ہو ‘ لہٰذا ان موضوعات پر تمہارا مباحثہ کرنا صرف بحث برائے بحث ہوگا۔ وہ محض تیر تکے چلانا ہوگا۔ کوئی بامقصد کام نہ ہوگا ۔ بلکہ محض مطلب براری اور نفس پرستی ہوگی ۔ اور جن لوگوں کا حال یہ ہو وہ ہرگز قابل اعتبار نہ ہوں گے بلکہ ایسے لوگوں سے بات نہ کرنا مناسب ہے اور نہ ان کی بات پر کان دھرنا مناسب ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

92 یہاں اہل کتاب کی حماقت کا مزید اظہار فرمایا کہ پہلے تو تم حضرت مسوی اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے بارے میں جھگڑتے ہیں لیکن خیر ان کے بارے میں تو تمہیں کچھ ناقص سا علم تھا۔ لیکن اب یہ کیا حماقت ہے کہ تم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے بارے میں جھگڑا شروع کردیا حالانکہ تمہیں ان کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے بارے میں تم بالکل بیخبر ہو اور اللہ تعالیٰ کو ان کے دین کا خوب علم ہے اس لیے اب اللہ تعالیٰ کا اس بارے فیصلہ سن لو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi