Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 67

سورة آل عمران

مَا کَانَ اِبۡرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّ لَا نَصۡرَانِیًّا وَّ لٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۶۷﴾

Abraham was neither a Jew nor a Christian, but he was one inclining toward truth, a Muslim [submitting to Allah ]. And he was not of the polytheists.

ابراہیم تو نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ تو یک طرفہ ( خالص ) مسلمان تھے وہ مشرک بھی نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا ... Ibrahim was neither a Jew nor a Christian, but he was a true Muslim Hanifa, shunning Shirk and living in Iman, ... وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ and he was not of the Mushrikin. This Ayah is similar to the Ayah in Surah Al-Baqarah, وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَـرَى تَهْتَدُواْ And they say, "Be Jews or Christians, then you will be guided..." (2:135) Allah said next, إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ امَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 خالص مسلمان۔ یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یاد رکھو کہ حضرت ابراہیم خالصتاً ایک اللہ کا حکم ماننے والے تھے۔ کسی دوسری طاغوتی طاقت کے آگے جھکنے والے نہیں تھے۔ وہ خالصتاً موحد تھے مشرک نہیں تھے جبکہ تم دونوں مشرک ہو۔ یہود عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا، الٰہ اور تین خداؤں میں کا تیسرا سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں تم اللہ کے بھی سب احکام بجا نہیں لاتے۔ کتاب اللہ کو تم نے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ پھر تم حضرت ابراہیم کے متبع کیسے بن سکتے ہو۔ ؟ اور وہ تمہارے دین پر کیسے ہوسکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا۔۔ : اس آیت میں اشارہ ہے کہ یہود و نصاریٰ ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے اپنے گروہ میں شمار کرتے ہیں، حالانکہ یہ مشرک ہیں، کیونکہ انھوں نے اپنے مشائخ اور علماء کو رب اور ان کے اقوال کو شریعت بنا رکھا ہے اور عزیر و عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجدیں بنائے ہوئے ہیں، جب کہ ابراہیم (علیہ السلام) ایک اللہ کی پرستش کرنے والے مسلم تھے، وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔ کچھ ایسا ہی حال اس امت کا بھی ہے کہ ہر فرقے والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اپنے گروہ میں شامل کرتے ہیں، حالانکہ وہ سب گروہ بہت بعد میں بنے، اور انھوں نے اپنے اپنے سربراہوں کے اقوال کو شریعت قرار دے کر ان سربراہوں کو اللہ کا درجہ دے دیا۔ جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ” مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ “ (اللہ کے نازل کردہ دین) پر چلنے والے مسلم تھے اور ہرگز مشرک نہ تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ اِبْرٰہِيْمُ يَہُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ٦٧ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا) ( وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ط) (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ۔ نزول قرآن کے وقت عربوں میں جو تین طبقات موجود تھے ‘ یعنی مشرکین عرب ‘ یہودی اور نصرانی ‘ وہ تینوں اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے منسوب کرتے تھے۔ مشرکین عرب حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی نسل سے ہونے کی نسبت سے کہتے تھے کہ ہمارا رشتہ ابراہیم (علیہ السلام) سے ہے۔ اسی طرح یہودی اور نصرانی بھی ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) ہونے کے دعوے دار تھے۔ لیکن قرآن نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے ‘ نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکین میں سے تھے ‘ بلکہ مسلمان تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. The word hanif denotes someone who turns his face away from all other directions in order to follow one particular course. We have tried to convey this sense through the expression: 'a Muslim, wholly devoted to God'.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :59 اصل میں لفظ حنیف استعمال ہوا ہے جس سے مراد ایسا شخص ہے جو ہر طرف سے رخ پھیر کر ایک خاص راستہ پر چلے ۔ اسی مفہوم کو ہم نے ”مسلم یک سو“ سے ادا کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:67) حنیفا۔ سب باطل راہیں چھوڑ کر راہ حق کو پکڑنے والا۔ دیکھو 2:135 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس آیت اشارہ ہے کہ یہود ونصایٰ اپنے آپ کو اہل کتاب کہلواتے ہیں مگر درحقیقت وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے اپنے مشائخ اور علما کو خدا بنا رکھا ہے اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ (وحیدی) مطلب یہ کہ اگر تم اس معنی میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو یہود یا نصرانی کہتے ہو کہ ان کی شریعت سے ملتی چلتی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ شریعت محمدی کو شریعت ابراہیمی سے زیادہ منا سب ہے۔ تو اس اعتبار سے مسلمانوں کو یہ کہنے کا تم سے زیادہ حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے اسے طریق پر تھے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان حضرات کی بحث و تکرار کا پول کھولنے کے بعد اور اس بحث کی حیثیت ختم کردینے کے بعد اور انہیں مکمل طور پر ناقابل اعتبار کردینے کے بعد ‘ اب اللہ تعالیٰ وہ اصل حقیقت بیان فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ۔ کیونکہ تاریخ انسانی میں بہت زیادہ قدیم واقعات کی اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ نیز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر جو دین نازل فرمایا گیا تھا ‘ اس کی حقیقت کو بھی اللہ ہی جانتا ہے ۔ اور اللہ کا فیصلہ بہرحال قاطع ہے ۔ اللہ کے فیصلے کے بعد کسی کے لئے کوئی بات کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ الایہ کہ کوئی ہر صورت میں ‘ بغیر کسی دلیل وبرہان کے ‘ مجادلہ پر اتر آیاہو مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ” ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھا ‘ نہ عیسائی بلکہ وہ ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ “ یوں ‘ اس سے پہلے اشارۃً بات کی گئی تھی کہ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے ‘ اس لئے کہ تورات وانجیل بعد میں نازل ہوئی ۔ یہاں اس کی تصریح کردی گئی ہے کہ وہ یہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ مسلم حنیف تھے ۔ اور وہ اسلام کے سوا کسی اور ملت کی طرف مائل نہ تھے ۔ اس لئے کہ وہ مسلم تھے ۔ اور مسلم بھی ان معنوں میں تھے ‘ جن کی تفصیل ہم نے اس سے پہلے بیان کردی ہے وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ……………” اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ “ یہ فقرہ سابقہ فقرے کی تاکید مزید ہے کہ وہ مسلم حنیف تھے ۔ اور اس لئے کہ مسلم حنیف جو بھی ہو وہ مشرک نہیں ہوتا۔ اب حنیف مسلم کے بعدیہ کہنا کہ وہ مشرک نہ تھے اس میں چند لطیف اشارے مقصود ہیں ۔ پہلا اشارہ یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ جن کے اندر عقائد کا انحراف اس حد تک پہنچ گیا ہے وہ در حقیقت مشرک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابراہیم نہ یہودی ہوسکتا ہے اور نہ نصرانی ‘ بلکہ وہ مسلم حنیف ہی ہے۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ اسلام ایک علیحدہ حقیقت ہے اور شرک بالکل ایک الگ چیز ہے ۔ ان دونوں کا ایک جگہ اکٹھ کبھی نہیں ہوسکتا ۔ اسلام مطلق توحیدکانام ہے اور توحید بھی از ہمہ جہت وباہمہ خصوصیات وباہمہ مقتضیات اس لئے اسلام شرک کے کسی رنگ کے ساتھ لگا نہیں کھاتا۔ اس میں تیسرا اشارہ یہ مطلوب ہے کہ مشرکین قریش اپنے آپ کو حنیفی اور دین ابراہیم (علیہ السلام) کے پیرو سمجھتے تھے ۔ اور وہ خانہ کعبہ کے خادم اور مجاور تھے ۔ ان کو بتایا جارہا ہے کہ وہ تو مسلم حنیف تھے ۔ اور تم مشرکین ہو وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ……………” وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ “ جب ابراہیم (علیہ السلام) مسلم حنیف تھے اور مشرک نہ تھے تو یہود ونصاریٰ یا مشرکین میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ان کے وارث ہیں ۔ اور نہ ہی ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ابراہیم کے دین کے والی ہیں حالانکہ وہ اس دین سے بہت ہی دور جاچکے ہیں ۔ عقیدہ اور نظریہ وہ رابطہ ہے جس پر لوگ اسلام میں باہم جمع ہوتے ہیں ۔ جبکہ ہم نسب ‘ ہم قوم ‘ ہم جنس اور ہم وطن ہوکر بھی لوگ دوسرے سے دور ہوتے ہیں ۔ اگر وہ مسلمان نہ ہوں اور جب اسلامی نظریہ حیات کی اس مضبوط اساس پر اہل ایمان جمع ہوتے ہیں تو پھر ان کی نظر میں انسان وہ ہوتا ہے جو روحانی اعتبار سے انسان ہو۔ یعنی انسان اس وجہ سے ممتاز ہے کہ اس کے جسم میں اللہ نے ایک پاک روح ڈالی ہے ۔ چناچہ اس کا صحیح اکٹھ بھی عقیدے کی اساس ہو سکتا ہے جو اس کی روح کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے ۔ انسان کا اجتماعی نظام ان اساسوں پر قائم نہیں ہوتا جس پر مویشیوں کا اکٹھ ہوتا ہے ۔ مثلاً ای جگہ چرنے والے مویشی ‘ ایک جنس کے مویشی ‘ ایک چراگاہ والے مویشی ایک ہی باڑے میں اور اہل زندان میں روکے ہوئے مویشی باہم مل کر رہتے ہیں ۔ اسلامی نقطہ نظر سے ایک فرد اور دوسرے فرد ‘ ایک گروہ اور دوسرے گروہ ‘ ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان ماسوائے عقیدہ اور نظریہ حیات کے اور کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ اس میں ایک مومن دوسرے مومن سے محبت کرتا ہے ‘ ایک مسلم گروہ کو دوسرے مسلم گروہ سے محبت ہوتی ہے ۔ ایک اسلامی جماعت کا دوسرے اسلامی جماعت سے تعلق ہوتا ہے اور مسلم نسلوں کا دوسری مسلم نسلوں سے تعلق ہوتا ہے اور اس کی راہ میں زمان ومکان کی حدود حائل نہیں ہوسکتیں۔ اس تعلق کی راہ میں خون اور نسب کے فاصلے حائل نہیں ہوسکتے ۔ قوم اور علاقے کے فاصلے حائل نہیں ہوتے ۔ وہ باہم نظریاتی دوست ہوتے ہیں ۔ صرف نظریہ کی اساس پر اور ان سب کے اوپر پھر ذات باری سب کی دوست ہوتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل کتاب کی بات کی تردید کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا نصرانی تھے لباب النقول صفحہ ٥٣ میں ہے (بحوالہ دلائل النبوۃ للبیہقی) حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ نجران کے نصاریٰ اور یہودیوں کے علماء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جمع ہوئے اور آپ کے پاس جھگڑا کرنے لگے علماء یہود نے کہا کہ ابراہیم یہودی ہی تھے اور نصاریٰ کے کہا وہ تو نصرانی ہی تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی اور یہود و نصاریٰ دونوں جماعتوں کی سر زنش فرمائی کہ تم کو جو تھوڑا سا علم حضرت موسیٰ و عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں تھا اس کے متعلق تو تم نے کچھ حجت بازی کرلی لیکن جس چیز کا تمہیں بالکل ہی علم نہیں اس کے بارے میں کیوں حجت بازی کرتے ہو۔ تورات اور انجیل میں جو باتیں ہیں ان کا کچھ تمہیں علم ہے لیکن ان باتوں سے غلط نتیجے نکال کر تم نے حجت بازی کرلی۔ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی تھے یہ تو جھوٹ ہی جھوٹ اس کی طرف تو کوئی بھی اشارہ تمہاری کتابوں میں نہیں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی نسل سے ہیں اور ان سے سینکڑوں سال کے بعد دنیا میں تشریف لائے اور مبعوث ہوئے اور ان پر تورات شریف نازل ہوئی، دین یہودیت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شروع ہوا اب تم بتاؤ کہ جو شخص ان سے سینکڑوں سال پہلے گزر چکا ہو وہ ان کے دین پر کیسے ہوگا ؟ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سینکڑوں سال کے بعد تشریف لائے ان پر انجیل شریف نازل ہوئی۔ اب بتاؤ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے دین پر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اور تم نے تو دین یہودیت اور دین نصرانیت میں شرک ملا لیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرلی ہے۔ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) خالص موحد تھے مشرک نہ تھے۔ وہ حق کو اختیار کرنے والے اور باطل سے دوررہنے والے تھے بھلا وہ کیسے یہودی یا نصرانی ہوگئے ؟ تم علم کے دعویدار ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس بات کا وجود ہی نہیں تم اس کے مدعی ہو یہ سب تمہاری بےعقلی بھی ہے بےعلمی بھی ہے۔ پہلی آیت کے ختم پر (اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) فرمایا اور دوسری آیت کے ختم پر (وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) فرمایا اس سے ان کا بےعقل ہونا بھی بتادیا اور بےعلم ہونا بھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

93 اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ تو حنیف مسلم تھے اور مشرک بھی نہیں تھے یہاں نفی اس یہودیت اور نصرانیت کی ہے جس کے مدعی یہود ونصاریٰ تھے۔ کیونکہ ان لوگوں نے تورات وانجیل کو محرف اور دین موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو مسخ کر کے اس کی اصل شکل بالکل بگاڑ کر رکھ دی تھی اور شرک و بدعت کو دین کا حصہ بنا ڈالا تھا البتہ اصل دین جو حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) نے پیش کیا تھا وہ سراسر دین اسلام اور توحید پر مبنی تھا۔ مگر موجودہ یہود ونصاریٰ کو اس اصل دین سے سخت دشمنی تھی جسطرح آجکل کے غلط کار عاملوں اور یہودیوں نے اصل دین کو بگاڑ کر اس میں نئی نئی من گھڑت باتیں داخل کر ڈالی ہیں۔ یہودیت اور نصرانیت کی نفی کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تین صفتیں بیان فرمائی ہیں اور تینوں سے یہود ونصاریٰ کے دعوی کی تردید وتکذیب ہوتی ہے اول یہ کہ وہ حنیف تھے یعنی ادیان باطلہ اور عقائد فاسدہ سے الگ تھے۔ دوم یہ کہ وہ مسلم تھے یعنی خدا کی توحید کے معتقد اور احکام خداوندی کے فرمانبردار تھے۔ سوم یہ کہ وہ مشرک نہیں تھے۔ حنیفا ای مائلا عن العقائد الزائغۃ مسلما ای منقاد الطاعۃ الحق او موحدا لان الاسلام یرد بعض التوحید ایضا (روح ج 3 ص 195) اور مشرکین سے مراد یہود ونصاریٰ ہی ہیں کیونکہ وہ حضرت عزیر اور عیسیٰ (علیہما السلام) کو خدا کے نائب سمجھتے تھے اور انہیں پکارتے تھے کانہ اراد بالمشرکین الیہود والنصاری لاشراکھم بہ عزیر او المسیح (مدارک ج 1 ص 127، بحر ج 2 ص 487) وقیل اراد بہم الیہود والنصاری لقول الیہود عزیر ابن اللہ وقول النصاری المسیح ابن اللہ تعالیٰ اللہ عن ذالک علوا کبیرا (روح ج 3 ص 196) بعض نے کہا ہے کہ مشرکین سے مشرکین عرب مراد ہیں۔ کیونکہ وہ بھی اس بات کے مدعی تھے کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دعویٰ کی بھی تردید فرمادی کہ تم مشرک ہو ابراہیم مشرک نہیں تھے اس لیے تم کس طرح ان کے دین پر ہوسکتے ہو۔ ای عبدۃ الاصنام کالعرب الذین کانوا یدعون انہم علی دینہ (روح ج 3 ص 195) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ سنو ! تم لوگ ایسے ہو کہ ان چیزوں میں تو کٹ حجتی کیا ہی کرتے تھے جن کا تم کو تھوڑا بہت علم تھا اور تم ان کو تھوڑی بہت واقفیت رکھتے تھے پھر اب تم ایسی باتوں میں کیوں حجت کرتے ہو اور کیوں جھگڑتے ہو جن کا تم کو بالکل ہی علم نہیں اور تم ان سے کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ وہ نصرانی تھے بلکہ وہ ایک مخلص فرمانبرداری اور سیدھی راہ چلنے والے مسلمان تھے اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے بھی نہ تھے۔ تھوڑے بہت علم کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کے معجزات وغیرہ کا تو تم کو تھوڑا بہت علم تھا اس میں تو بحث مباحثہ کر کے تم غلط نتیجے نکالا کرتے ہو اور حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انہی غلط نتیجوں کی بناء پر حضرت حق کا شریک بنائے بیٹھے ہو اب جن باتوں کا علم نہیں ان میں کیوں بحث و تکرار کرتے ہو جب تھوڑے بہت علم کے باوجود بعض خرق عادت کی بنا پر بندے کو الوہیت میں شریک ٹھہرا چکے تو اب نہ جاننے کی حالت میں خدا جانے کیا گل کھلائوگے اللہ تعالیٰ جانتا ہے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ کو اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جن باتوں میں تم جھگڑتے ہو ان کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر نبی پر جو احکام نازل ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اگر یہ شبہ کیا جائے جیسا کہ بعض نے کا ہے کہ سب سے علم کی نفی کرنا مشکل ہے جبکہ ان میں اکثر عالم اور احبا بھی تھے اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا علم جو غلط نتائج کا موجب ہو اور بےعملی اور گمراہی کا سبب ہو اس میں اور جہل میں کوئی فرق نہیں گویا ایسا علم عدم علم کے برابر ہے۔ لفظ حنیف کے معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں یعنی سب سے کٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کا ہوجائے۔ مفسرین نے اس لفظ کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ہم نے ان معنی میں سے مخلص اختیار کرلیا ہے اور ایسا مسلمان جو تمام غلط راستوں کو چھوڑ کر اور سب سے قطع تعلق کر کے ایک راہ کا ہوجائے اس سے بڑھ کر کون مخلص ہوسکتا ہے۔ یہودیت نصرانیت کی نفی کے ساتھ مشرکوں کو بھی نفی کردی اس کی وجہ ہم پہلے پارے میں عرض کرچکے ہیں کہ حضرت ابراہیم کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص ان سے اپنی نسبت قائم کرتا تھا اور ہر ملت والا حضرت ابراہیم کو اپنی ملت کا کہتا تھا یا اپنی ملت کو حضرت ابراہیم کی ملت سمجھتا تھا اس لئے ان کا حقیقی مسلک بیان فرما کر تمام ادیان باطلہ کی نفی فرما دی کہ وہ ان موجودہ ملل باطلہ میں سے کسی ملت پر بھی نہ تھا وہ تو سچا پکا مخلص اور سیدھی راہ چلنے والا مسلمان تھا اب آگے ان لوگوں کا بیان ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے واقعی صحیح نسبت رکھتے ہیں اور جو ان کی ملت کے اعتبار سے ان سے قریب تر ہیں ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)