Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 71

سورة آل عمران

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَلۡبِسُوۡنَ الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۷۱﴾  15

O People of the Scripture, why do you confuse the truth with falsehood and conceal the truth while you know [it]?

اے اہل کتاب ! باوجود جاننے کے حق وباطل کو کیوں خلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O People of the Scripture: Why do you mix truth with falsehood and conceal the truth while you know! by hiding what is in your Books about the description of Muhammad, while you know what you do.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشان دہی کر کے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے دوسرا حق چھپانا۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے انہیں لوگوں سے چھپ... انا تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے اور یہ دونوں جرم جان بوجھ کر کرتے تھے۔ جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورة بقرہ میں بھی کی گئی ہے۔ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے جس میں یہود و نصاری دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنونضیر اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا براہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکالفت میں پیش پیش تھے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بالْبَاطِلِ ۔۔ : اہل کتاب کی مذہبی بدبختیوں کی طرف اشارہ ہے، اس سے پہلی آیت میں علمائے یہود کی یہ بدبختی بیان کی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا پیغمبر ہونے کے دلائل جان لینے کے باوجود کفر کر رہے ہیں، اب یہاں بتایا جا رہا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ مل... انا اور حق کو چھپانا ان کا عام شیوہ بن چکا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی اپنی گمراہی کا بیان تھا، اس آیت میں دوسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٢) ۔ (رازی) یہ مقام عبرت ہے کہ ہمارے دور کے فرقہ پرست علماء اور تجدد زدہ حضرات بھی دنیوی اور مادی اغراض و مصالح کے پیش نظر قرآن مجید سے وہی سلوک کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو تورات و انجیل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالکل صحیح فرمایا : ( لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل : ٣٤٥٦ ] ” تم لازماً پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ٧١ ۧ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباسا... ً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١۔ ٧٢) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت میں تبدیلی کرتے ہو اور کیوں آپ کی نعت وصفت کو چھپاتے ہو حالانکہ کہ تم اپنی کتابوں میں اس اصل حقیقت کو جانتے ہو، تحویل قبلہ کے بعد کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے جو مشورہ کیا اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں ہیں، یعنی کعب وغیرہ سرداران یہ... ود نے اپنے لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر دن کے شروع میں یعنی صبح کی نماز کے وقت ایمان لے آؤ اور ظہر کی نماز کے وقت انکار کر بیٹھو، تو لوگ یہ دیکھ کر کہیں گے کہ اہل کتاب اس قبلہ پر ایمان لے آئے جس کی طرف منہ کر کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے صبح کی نماز پڑھی اور اس قبلہ سے انکار کیا جن کی طرف منہ کرکے ان لوگوں نے ظہر کی نماز پڑھی، شاید اس طرح دوسروں کو شک وشبہ میں ڈالنے سے عوام الناس تمہارے قبلہ اور تمہارے دین کی طرف پلٹ آئیں۔ شان نزول : (آیت) ” وقالت طائفۃ “ (الخ) ابن اسحاق (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن صیف، عدی بن زید اور حارث بن عوف ان لوگوں میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب جو احکام بیان کرتے ہیں ہم ان پر صبح کو ایمان لائیں اور شام کو ان کا انکار کردیں، تاکہ ان کے اصحاب بھی اسی طرح کرنے لگیں اور پھر ممکن ہے کہ ہماری اس تدبیر کے سبب یہ مسلمان ہمارے دین کی طرف لوٹ آئیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یا ھل الکتاب لم تلبسون الحق “ سے واسع علیم “۔ تک آیات نازل فرمائیں (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع میں یہ مضمون بایں الفاظ آیا تھا : (وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ کے صیغۂ خط... اب کے ساتھ ان آیات میں اسی طرح کا داعیانہ انداز ہے جو سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع میں ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:71) تلبسون مضارع جمع مذکر حاضر لبس سے۔ تم غلط ملط کرتے ہو۔ ملابسۃ باہم خلط ملط ہونا تلبسون۔ لبس سے بمعنی پہننا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ دونوں جو تشہدون اور تعلمون فرمایا، تو اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ عدم اقرار یا عدم علم کی حالت میں کفر جائز ہے، قبیح ذاتی تو کسی حال میں جائز ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وجہ یہ ہے کہ اقرار اور علم کے وقت کفر اور زیادہ قابل ملامت ہے۔ اوپر مذکور تھا کہ بعض اہل کتاب مسلمانوں کے اضلال کی فکر میں رہتے ہیں۔ آگے ... ان کی ایک تدبیر کا بیان فرماتے ہیں جس کو اضلال مومنین کے لئے انہوں نے تجویز کیا تھا۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس مقام پر اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو سختی سے جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اپنے اس مشکوک اور کمزور موقف پر ذرا نظر ثانی کریں۔ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” اے اہل کتاب ! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ...  کررہے ہو ؟ اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔ “ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی اور آج بھی اہل کتاب حق اور سچائی کا مشاہدہ کررہے ہیں اور واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ یہ دین ‘ دین حق ہے ۔ ان میں سے بعض تو وہ تھے جو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی کتابوں میں رسول آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت بشارتیں اور اشارے موجود ہیں ‘ ان میں سے بعض ایسے تھے جو ان اشارات کے بارے میں بالصراحت بتلاتے تھے ۔ اور کچھ لوگ ایسے تھے کہ وہ ان بشارتوں کی بناء پر شہادت حق بھی دیتے تھے لیکن بعض دوسرے ایسے تھے کہ وہ اگرچہ اپنی کتابوں سے کچھ نہ جانتے تھے لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے دین کو دیکھ کر واضح طور یقین کئے ہوئے تھے کہ یہ دین ‘ دین حق ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ کفر پر کمربستہ تھے ۔ اس لئے نہیں کہ دلیل وبرہان میں کوئی کمی تھی بلکہ محض خواہشات نفسانیہ ‘ ذاتی مصلحتوں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر وہ کفر کررہے تھے ۔ قرآن کریم اہل کتاب کہہ کر انہیں کو پکارتا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی اس صفت اہل کتاب کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اللہ کی اس کتاب جدید کو سینہ سے لگائیں۔ ایک بار پھر اللہ انہیں پکارتے ہیں تاکہ انہیں ان کے اس فعل پر اچھا شرمندہ کریں کہ وہ حق پر باطل کا رنگ چڑھاتے ہیں ‘ حق کو چھپاتے ہیں ‘ حق کو ضائع کرتے ہیں ‘ اور وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کرتے ہیں اور یہ ان کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔ یہ ان کی نہایت ہی مکروہ اور قبیح حرکت …………اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے اہل کتاب پر جو تنقید فرمائی ہے ‘ اس پر وہ اس وقت سے لے کر آج تک قائم ہیں ۔ پوری اسلامی تاریخ میں ان کا کردار یہی رہا ہے۔ سب سے پہلے اس کا آغاز یہودیوں نے کیا اور یہودیوں کے بعد یہی منصب صلیبیوں نے سنبھال لیا ۔ اور اس پوری تاریخ میں انہوں نے اسلامی علوم میں بعض ایسے افکار شامل کردئیے کہ ان کی تنقیح صرف قرآن کریم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ انہوں نے تمام اسلامی علوم میں حق کے ساتھ باطل ملادیا ہے ۔ ہاں ان کی ان خفیہ سازشوں سے صرف قرآن کریم محفوظ رہا ہے اس لئے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ابدالابد تک وہ قرآن کریم کو محفوظ رکھے گا ۔ انہوں نے تاریخ اسلامی میں دسیسہ کاری کی ۔ اسلامی تاریخ کے واقعات میں ملاوٹ کی ۔ انہوں نے ذخیرہ احادیث کے اندر احادیث گھڑ کر جعلی احادیث ملانے کی کوشش کی ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے اس کے مقابلے کے لئے بعض ایسے رجال پیدا کئے جنہوں نے اس میدان میں داد تحقیق دی اور ذخیرہ احادیث کو ان کی جعل سازیوں سے پاک کیا ۔ الا یہ کہ انسان کے محدود جدوجہد کی وجہ سے کوئی چیز بچ گئی ۔ لیکن وہ شاذ اور محدود ہوگئی ۔ انہوں نے قرآن کے ذخیرہ تفاسیر میں بھی ملمع کاری کی اور اسے ایک ایسا صحرائے بےآب وگیا بنادیا جس میں سے انسان کے لئے نشان راہ پانا مشکل ہوگیا ۔ انہوں نے اسلام کے بعض لیڈروں میں اپنے آدمی داخل کئے ۔ سینکڑوں لوگ ایسے تھے جو مسلمان بن کر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔ اور آج دیکھئے کہ مستشرقین اور مستشرقین کے شاگردوں کی شکل میں اور بیسیوں ایسے لیڈر ہیں جو یہودیوں اور صلیبیوں نے ہمارے لئے لیڈر بنائے تاکہ وہ اس نام نہاد عالم اسلام میں یہودیوں اور صلیبیوں کے مفادات کا تحفظ کریں ۔ اس لئے کہ اسلام کے یہ دشمن اگر کھل کر آئیں تو وہ یہ مفادات حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ سازشیں مسلسل روبعمل ہیں ۔ اور آج بھی اگر ہم ان میں سے کوئی جائے پناہ حاصل کرسکتے ہیں تو وہ صرف قرآن کے دامن میں حاصل کرسکتے ہیں ‘ جو محفوظ ترین کتاب ہے۔ اس قرآن کو اگر ہم اس تاریخی کشمکش میں اپنا مشیر بنالیں تو ہمیں محفوظ پناہ مل سکتی ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان لوگوں کی بعض کوششوں کو بھی ریکارڈ پر لاتا ہے جو انہوں نے جماعت مسلمہ کو اپنے دین سے بدراہ کرنے کی خاطر کی تھیں ۔ اور یہ کام وہ حسب عادت نہایت ہی مکارانہ اور ذلیلانہ طریقہ کار کے مطابق کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اے اہل کتاب ! تم کیوں کفر اختیار کرتے ہو اور حق کو باطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو ؟ پھر اہل کتاب سے خطاب فرمایا کہ تم اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ آیات حق ہیں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت پر جو دلائل قاطعہ سامنے آ چکے ہیں ان کو جانتے ہوئے گمرا... ہی کو اختیار کرنا سخت در سخت عذاب کا ذریعہ ہے۔ نیز فرمایا کہ اے اہل کتاب ! تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں مخلوط کرتے ہو، اس کے بارے میں حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ توریت اور انجیل میں جو انہوں نے تحریف کرلی تھی مخلوط کرنے سے وہ مراد ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ زبان سے اسلام ظاہر کرتے تھے اور دلوں میں انہوں نے کفر اختیار کر رکھا تھا۔ منافق بنے ہوئے تھے اس کی تفسیر میں اور بھی بعض اقوال ہیں، مزید فرمایا : (وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) کہ تم حق کو یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو چھپاتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ وہ نبی برحق ہے، یہودی آپس میں اور بعض مرتبہ انصار اور مہاجرین کے سامنے یہ بات کہہ دیتے تھے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں لیکن دنیاوی اغراض کی وجہ سے حق قبول نہیں کرتے تھے۔ جانتے بوجھتے گمراہ ہونا بہت بڑی شقاوت ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98 لبس کے معنی چھپانے اور غلط کرنے کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اپنی باطل تاویلوں اور تحریفوں کے ذریعے حق بات (توحید) کو کیوں چھپاتے ہو۔ نیز حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ذکر جو تمہاری کتابوں میں موجود ہے۔ اس پر کیوں پردہ ڈالتے ہو۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ حق ہے اور محمد (صلی اللہ ع... لیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اے اہل کتاب تم کیوں حق اور سچ بات کو باطل اور جھوٹ کے ساتھ ملاتے ہو اور جانتے پوچھتے ہوئے کیوں حق کو چھپاتے ہو اور حق کو ظاہر نہیں کرتے۔ ( تیسیر) تلبسون الحق بالباطل کی تفسیر ہم پہلے پارے میں بیان کرچکے ہیں ۔ یہود کے علماء کی عام عادت یہ تھی کہ اپنی دنیاوی وجاہت کے لئے بعض احکام کو تو سرے ہی سے...  ترک کردیا تھا ۔ بعض باتوں میں تحریف لفظی کے مرتکب ہوتے تھے بعض الفاظ کے معنی بدل دیئے تھے اور بعض احکام کو چھپا رکھا تھا غرض اسی قسم کی شرارتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں توریت کے بعض حکم تو موقوف ہی کر ڈالے تھے غرض کے واسطے اور بعض آیتوں کے معنی پھیر ڈالے تھے اور بعض چیز چھپا رکھی تھی ہر کسی کو خبر نہ کرتے تھے جیسے بیان پیغمبر آخری کا ( موضح القرآن) مدعا یہ ہے کہ جو صورت بھی اختیار کی جائے اور احکام الٰہی اور آیات الٰہی کے بیان کرنے میں جس طرح کی بھی خیانت کی جائے خواہ وہ کتمان ہو تبدیل و تحریف ہو خواہ لفظی ہو یا معنوی ہو ۔ تلبسون الحق بالباطل میں داخل ہے اور علماء سوء کا ہمیشہ یہی طریقہ کار ہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ اب آگے ان کی بعض اور چالاکیوں کا پردہ چاک کیا جاتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)  Show more