Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 75

سورة آل عمران

وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِدِیۡنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۵﴾

And among the People of the Scripture is he who, if you entrust him with a great amount [of wealth], he will return it to you. And among them is he who, if you entrust him with a [single] silver coin, he will not return it to you unless you are constantly standing over him [demanding it]. That is because they say, "There is no blame upon us concerning the unlearned." And they speak untruth about Allah while they know [it].

بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں تُو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تُو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے یہ اس لئے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں ( غیر یہودی ) کے حق کا کوئی گناہ نہیں ، یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالٰی پر جھوٹ کہتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Trustworthy Are the Jews Allah says; وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ... Among the People of the Scripture is he who, Allah states that there are deceitful people among the Jews. He also warns the faithful against being deceived by them, because some of them, ... مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ ... if entrusted with a Qintar (a great amount) of money, ... يُوَدِّهِ إِلَيْكَ ... will readily pay it back; This Ayah indicates that this type would likewise give what is less than a Qintar, as is obvious. However, ... وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لاَّ يُوَدِّهِ إِلَيْكَ إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَأيِمًا ... and among them there is he who, if entrusted with a single silver coin, will not repay it unless you constantly stand demanding, and insisting on acquiring your rightful property. If this is what he would do with one Dinar, then what about what is more than a Dinar! We mentioned the meaning of Qintar in the beginning of this Surah, while the value of Dinar is well known. Allah's statement, ... ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الاُمِّيِّينَ سَبِيلٌ ... because they say: "There is no blame on us to betray and take the properties of the illiterates (Arabs)." means, what made them reject the truth (or what they owed) is that they said, "There is no harm in our religion if we eat up the property of the unlettered ones, the Arabs, for Allah has allowed it for us." Allah replied, ... وَيَقُولُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ But they tell a lie against Allah while they know it. for they invented this lie and word of misguidance. Rather, Allah would not allow this money for them unless they had a right to it. Abdur-Razzaq recorded that Sa`sa`ah bin Yazid said that; a man asked Ibn Abbas, "During battle, we capture some property belonging to Ahl Adh-Dhimmah, such as chickens and sheep." Ibn Abbas said, "What do you do in this case?" The man said, "We say that there is no sin (if we confiscate them) in this case." He said, "That is what the People of the Book said, لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الاُمِّيِّينَ سَبِيلٌ (There is no blame on us to betray and take the properties of the illiterates (Arabs)). Verily, if they pay the Jizyah, then you are not allowed their property, except when they willingly give it up." Allah then said,

بددیانت یہودی اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودیوں کی خیانت پر تنبیہہ کرتا ہے کہ ان کے دھوکے میں نہ آجائیں ان میں بعض تو امانتدار ہیں اور بعض بڑے خائن ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ خزانے کا خزانہ ان کی امانت میں ہو تو جوں کا توں حوالے کر دیں گے پھر چھوٹی موٹی چیز میں وہ بددیانتی کیسے کریں گے؟ اور بعض ایسے بددیانت ہیں کہ ایک دینار بھی واپس نہ دیں گے ہاں اگر ان کے سر ہو جاؤ تقاضا برابر جاری رکھو اور حق طلب کرتے رہو تو شاید امانت نکل بھی آئے ورنہ ہضم بھی کر جائیں جب ایک دینار تو مشہور ہی ہے ، ابن ابی حاتم میں حضرت مالک بن دینار کا قول مروی ہے کہ دینار کو اس لئے دینار کہتے ہیں کہ وہ دین یعنی ایمان بھی ہے اور نار یعنی آگ بھی ہے ، مطلب یہ ہے کہ حق کے ساتھ لو تو دین ناحق لو تو نار یعنی آتش دوزخ ، اس موقع پر اس حدیث کا بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور کتاب الکفالہ میں بہت پوری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے کسی اور شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے اس نے کہا گواہ لاؤ کہا اللہ کی گواہی کافی ہے اس نے کہا ضامن لاؤ اس نے کہا ضمانت بھی اللہ ہی دیتا ہوں وہ اس پر راضی ہو گیا اور وقت ادائیگی مقرر کر کے رقم دے دی وہ اپنے دریائی سفر میں نکل گیا جب کام کاج سے نپٹ گیا تو دریا کنارے کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا تاکہ جا کر اس کا قرض ادا کر دے لیکن سواری نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی لی اور اسے بیچ میں سے کھوکھلا کر کے اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک خط بھی اس کے نام رکھ دیا پھر منہ بند کر کے اسے دریا میں ڈال دیا اور کہا اے اللہ تو بخوبی جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تیری شہادت پر اور تیری ضمانت پر اور اس نے بھی اس پر خوش ہو کر مجھے دے دئیے اب میں نے ہر چند کشتی ڈھونڈی کہ جا کر اس کا حق مدت کے اندر ہی اندر دے دوں لیکن نہ ملی پس اب عاجز آکر تجھ پر بھروسہ کر کے میں اسے دریا میں ڈال دیتا ہوں تو اسے اس تک پہنچا دے یہ دعا کر کے لکڑی کو سمندر میں ڈال کر چلا آیا لکڑی پانی میں ڈوب گئی ، یہ پھر بھی تلاش میں رہا کہ کوئی سواری ملے تو جائے اور اس کا حق ادا کر آئے ادھر قرض خواہ شخص دریا کے کنارے یا کہ شاید مقروض کسی کشتی میں اس کی رقم لے کر آرہا ہو جب دیکھا کہ کوئی کشتی نہیں آئی اور جانے لگا تو ایک لکڑی کو جو کنارے پر پڑی ہوئی تھی یہ سمجھ کر اٹھا لیا کہ جلانے کے کام آئے گی گھر جا کر اسے چیرا تو مال اور خط نکلا کچھ دنوں بعد قرض دینے والا شخص آیا اور کہا اللہ تعالیٰ جانتا ہے میں نے ہر چند کوشش کی کہ کوئی سواری ملے تو آپ کے پاس آؤں اور مدت گذرنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا کر دوں لیکن کوئی سواری نہ ملی اس لئے دیر لگ گئی اس نے کہا تو نے جو رقم بھیج دی تھی وہ اللہ نے مجھے پہنچا دی ہے تو اب اپنی یہ رقم واپس لے جا اور راضی خوشی لوٹا جا ، یہ حدیث بخاری شریف میں تعلیق کے ساتھ بھی ہے لیکن جزم کے صیغے کے ساتھ اور بعض جگہ اسناد کے حوالوں کے ساتھ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اور کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ امانت میں خیانت کرنے حقدار کے حق کو نہ ادا کرنے پر آمادہ کرنے والا سبب ان کا یہ غلط خیال ہے کہ ان بددینوں ان پڑھوں کا مال کھا جانے میں ہمیں کوئی حرج نہیں ہم پر یہ مال حلال ہے ، جس پر اللہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ پر الزام ہے اور اس کا علم خود انہیں بھی ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی ناحق مال کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ بیوقوف خود اپنی من مانی اور دل پسند باتیں گھڑ کر شریعت کے رنگ میں انہیں رنگ لیتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ذمی یا کفار کی مرغی بکری وغیرہ کبھی غزوے کی حالت میں ہمیں مل جاتی ہے تو ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسے لینے میں کوئی حرج نہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک یہی اہل کتاب بھی کہتے تھے کہ امتیوں کا مال لینے میں کوئی حرج نہیں ، سنو جب وہ جزیہ ادا کر رہے ہیں تو ان کا کوئی مال تم پر حلال نہیں ہاں وہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اور بات ہے ( عبدالرزاق ) سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب اہل کتاب سے حضور علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فرمایا دشمنان الہ جھوٹے ہیں جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے مٹ گئیں اور امانت تو ہر فاسق و فاجر کی بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ لیکن جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور اہل کتاب ہو کر ڈرتا رہے پھر اپنی کتاب کی ہدایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اس عہد کے مطابق جو تمام انبیاء سے بھی ہو چکا ہے اور جس عہد کی پابندی ان کی امتوں پر بھی لازم ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے اس کی شریعت کی اطاعت کرے رسولوں کے خاتم اور انبیاء کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تابعداری کرے وہ متقی ہے اور متقی اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 (ان پڑھ۔ جاہل) سے مراد مشرکین عرب ہیں یہود کے بددیانت لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ چونکہ مشرک ہیں اس لئے ان کا مال ہڑپ کرلینا جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح کسی کا مال ہڑپ کر جانے کی اجازت دے سکتا ہے اور بعض تفسیری روایات میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہ سن کر فرمایا کہ ' اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں ادا کی جائے گی چاہے وہ کسی نیکوکار کی ہو یا بدکار کی۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) افسوس ہے کہ یہود کی طرح آج بعض مسلمان بھی مشرکین کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دارالحرب کا سود ناجائز ہے اور حربی کے مال کے لیے کوئی عصمت نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] سود یہودیوں پر بھی حرام کیا گیا تھا۔ لیکن ان کے فقہاء نے کچھ اس طرح موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں کیں جن کی رو سے انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرنا جائز قرار دے لیا تھا ( جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو فقہی موشگافیاں پیدا کرکے حربی کافروں سے سود لینا جائز سمجھتا ہے) پھر ان کی یہ سود خوری کی عادت فقط سود تک محدود نہ رہی بلکہ وہ کہتے تھے غیر یہودی کا مال جس طریقے سے ہڑپ کیا جاسکے، جائز ہے۔ یہود کی اس طرح کی حرام خواری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ گویا اس طرح وہ دہرا جرم کرتے تھے۔ ایک حرام خواری دوسرے اسے شریعت سے مستنبط مسئلہ قرار دے کر اسے جائز سمجھنا۔ گویا وہ اپنی اختراع کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ سود خوری سے انسان کی طبیعت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ ہیں خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور مال سے غیر معمولی محبت اور اس کے بعد حرام طریقوں سے مال جمع کرنے کی فکر، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو ایسے شخص کی مثال دی ہے کہ اگر اسے ایک دینار بھی دے بیٹھیں تو اس سے واپس لینا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ اسی قسم کے مال کی محبت میں گرفتار آدمی کی مثال ہے۔ رہی دیانتدار آدمی کی مثال تو وہ ہر قوم اور ہر امت میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ کم ہی ہوتے ہیں۔ یہودیوں میں ایسے لوگ وہ تھے جو سود خوری اور دوسرے ناجائز طریقوں کو فی الواقعہ حرام سمجھتے تھے۔ عبداللہ بن سلام (رض) ایسے ہی شخص تھے۔ کسی نے ان کے پاس بارہ اوقیہ سونا بطور امانت رکھا تھا اور جب مالک نے اپنی امانت طلب کی تو فوراً ادا کردی۔ اب ان کے مقابلہ میں ایک یہودی فحاص نامی تھا۔ کسی نے ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی۔ جب اس نے اس سے امانت طلب کی تو وہ مکر ہی گیا۔ یہود کا غیر اسرائیلیوں کے مال کو ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے ہڑپ کر جانے کا جواز ان کی اپنی کتابوں سے ثابت ہے۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں۔ مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کردے تو اس پر تاوان ہے۔ نیز اگر کسی کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ گردوپیش آبادی کن لوگوں کی ہے۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہئے۔ اور اگر غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیئے۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کے پاس آئے تو اگر قاضی اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے اور اگر امیوں کے قانون کے مطابق جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کرسکتا ہو کرے۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیل کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ (تفہیم القرآن، ج ١ ص ٢٦٦، حاشیہ نمبر ٦٤)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖٓ اِلَيْكَ ۚ: اللہ تعالیٰ کا انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ اہل کتاب کی مذمت کے دوران بھی اگر ان کے کچھ لوگوں میں کوئی خوبی تھی تو اس کا اعتراف فرمایا ہے، مذمت صرف ان کی فرمائی ہے جو اس کے حق دار تھے۔ ایک خزانہ امانت ادا کردینے والوں کی بہترین مثال صحیح بخاری میں مذکور وہ تفصیلی واقعہ ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے اسرائیلی سے ایک ہزار دینار قرض مانگا، پھر پہنچانے کے لیے کشتی نہ ملنے پر لکڑی میں ڈال کر سمندر کے حوالے کردیا، پھر بعد میں خود بھی لے کر حاضر ہوا۔ مگر دوسرے نے بھی امانت کا مظاہرہ کیا اور بتایا کہ مجھے تمہاری طرف سے لکڑی میں بھیجی ہوئی رقم مل گئی تھی۔ [ بخاری، الکفالۃ، باب الکفالۃ فی القرض ۔۔ : ٢٢٩١ ] لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ ۚ: سر پر کھڑا رہنے کے بغیر ایک دینار بھی ادا نہ کرنے کی وجہ ان کے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ اُمّی (عرب) لوگوں کا مال کھا جانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی امانت میں خیانت کا حکم نہیں دیا، خواہ وہ اسرائیلی ہو یا عرب، بلکہ اسلام نے تو کسی ذمی کے مال کو بھی بلا اجازت لینا جائز قرار نہیں دیا اور کسی حربی کافر کے مال کو بھی خیانت سے کھانے کی اجازت نہیں دی، چناچہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۙ ) [ النساء : ٥٨ ]” بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔ “ افسوس کہ یہود کی طرح بعض مسلمان بھی کفار کے ممالک میں سود کے لین دین کے لیے کہتے ہیں کہ دار الحرب میں سود جائز ہے اور دار الحرب بھی اپنی مرضی کا بنایا ہوا ہے، خواہ ان سے جنگ ہو رہی ہو یا نہ۔ ہمارے ایک تاجر دوست نے اس آیت سے استدلال کیا کہ کوئی شخص کتنا بھی قرض واپس نہ کرنے والا ہو، اگر آپ بار بار اس سے تقاضا کرتے رہیں گے تو آخر کار آپ کے پیسے نکل آئیں گے، بشرطیکہ آپ نہ اس سے لڑیں، نہ اسے لڑنے کا موقع دیں، کیونکہ پھر بار بار تقاضا ممکن نہیں رہتا۔ اس نے کہا یہ میرا تجربہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence In the previous verses (70-72), breach of faith committed by the peo¬ple of the Book was mentioned. This included disbelieving in the verses of Allah, confusing the truth with what is false, concealing the truth and conspiring to mislead Muslim believers. In the verse cited above (75), their breach of trust in matters of property has been mentioned. Since some of them happened to be trustworthy, both types were identified. Commentary Praising good qualities in some non-Muslim is correct In this verse (75), some people have been praised for their trustworthiness. If this &some& refers to those among the people of the Book who had embraced Islam, praising them poses no problems. But, in case, it does not refer to Muslims particularly and instead, refers to the people of the Book in the absolute sense including non-Muslims as well, then the situation generates the question: When no act of a kafir (disbeliever) is acceptable why praise them? The answer is that for an action or deed to become acceptable is a different matter and having a word of praise for it is something else. From praising something it does not follow that it is acceptable with Allah. The purpose is to point out that something good, even if it be that of a kafir (disbeliever), is good enough in a certain degree, the benefit of which he receives in the form of good reputation in the mor¬tal world, and of course, in the Hereafter, in the form of a reduction in punishment for his disbelief. This statement also makes it, clear that Islam does not resort to prejudice and short-sightedness. On the contrary, it shows open-hearted appreciation of the excellence of even its adversary in respect of his achievements. It is from this verse: إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا (unless you keep standing over him - 75) that Imam Abu Hanifah (رح) has deduced the ruling that the lend¬er has the right to keep pursuing the borrower until he receives his due. (Qurtubi)

ربط آیات : اوپر کی آیتوں میں اہل کتاب کی خیانت فی الدین کا ذکر تھا، یعنی ان کا کفر کرنا آیات اللہ کے ساتھ اور خلط کرنا حق اور باطل کا، اور حق کے چھپانے کا، اور تدبیر کرنا مومنین کی گمراہی کی، اگلی آیت میں ان کے اموال میں خیانت کرنے کا ذکر ہے، اور ان میں سے چونکہ بعض امانت دار بھی تھے، اس لئے دونوں قسموں کو ذکر فرمایا۔ خلاصہ تفسیر : اور اہل کتاب میں سے بعض شخص ایسے ہے کہ ( اے مخاطب) اگر تم اس کے پاس انبار کا انبار مال بھی امانت رکھ دو تو وہ (مانگنے کے ساتھ ہی) اس کو تمہارے پاس لا رکھے اور ان ہی میں سے بعض وہ شخص ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو وہ بھی تم کو ادا نہ کرے (بلکہ امانت رکھانے کا بھی اقرار نہ کرے) مگر جب تک کہ تم (امانت رکھ کر) اس کے سر پر (برابر) کھڑے رہو (اس وقت تک تو انکار نہ کرے اور جہاں الگ ہوئے پھر ادا کرنے کا تو کیا ذکر ہے، سرے سے امانت ہی سے مکر جاوے) یہ (امانت کا ادا نہ کرنا) اس سبب سے ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر غیر اہل کتاب کے (مال کے) بارے میں (اگر چوری چھپے لیا جاوے مذہبا) کسی طرح کا الزام نہیں (یعنی غیر اہل کتاب مثلا قریش کا مال چرا لینا یا چھین لینا سب جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ آگے ان کے اس دعوی کی تکذیب فرماتے ہیں) اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں (کہ اس فعل کو حلال سمجھتے ہیں) اور دل میں وہ بھی جانتے ہیں ( اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال نہیں کیا محض تراشیدہ دعوی ہے معارف و مسائل : کسی غیر مسلم کے اچھے اوصاف کی مدح کرنا درست ہے : (ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقنطار یودہ الیک) اس آیت میں بعض لوگوں کی امانت دار ہونے پر مدح کی گئی ہے اگر اس بعض سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو ایمان لاچکے تھے تو ان کی تعریف کرنے میں کوئی اشکال نہیں، لیکن اگر خاص مومن مراد نہ ہوں بلکہ مطلقا اہل کتاب ہوں جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں تو اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا تو پھر ان کی مدح سے کیا فائدہ ؟ جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا مقبول ہونا اور چیز ہے اور اس کی مدح کرنا اور چیز ہے، مدح کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بھی ہے، اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اچھی بات گو کافر کی ہو وہ بھی کسی درجہ میں اچھی ہی ہے، جس کا فائدہ اس کو دنیا میں |" نیک نامی |" ہے، اور آخرت میں عذاب کی کمی۔ اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام تعصب اور تنگ نظری سے کام نہیں لیتا بلکہ وہ کھلے دل سے اپنے مخالف کے ہنر کی بھی اس کے مرتبہ کے مطابق داد دیتا ہے۔ (الا ما دمت علیہ قائما) اس آیت سے امام ابوحنیفہ (رح) نے استدلال کیا ہے کہ دائن کو یہ حق ہے کہ وہ مدیون سے اپنا حق وصول کرنے تک اس کا پیچھا کرتا رہے۔ (قرطبی، جلد ٤)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ۝ ٠ ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْہِ قَاۗىِٕمًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ۝ ٠ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٧٥ أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ قنطار ( القناطیر) ، جمع القنطار، قيل النون فيه أصليّة فوزنه فعلال بکسر الفاء، وقیل هي زائدة لأنه من قطر يقطر باب نصر إذا جری، فالفضّة والذهب يشبّهان بالماء في الکثرة وسرعة التقلّب، وعلی هذا فوزنه فنعال . واختلف في وزن القنطار قدیما وحدیثا ولکنّ الغالب أنه مائة رطل .( المقنطرة) ، اسم مفعول من قنطر الرباعيّ ، وزنه مفعللة بضمّ المیم وفتح اللامین . أدى الأداء : دفع الحق دفعةً وتوفیته، كأداء الخراج والجزية وأداء الأمانة، قال اللہ تعالی: فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمانَتَهُ [ البقرة/ 283] ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [ النساء/ 58] ، وقال : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، وأصل ذلک من الأداة، تقول : أدوت بفعل کذا، أي : احتلت، وأصله : تناولت الأداة التي بها يتوصل إليه، واستأديت علی فلان نحو : استعدیت ( ا د ی ) الاداء کے معنی ہیں یکبارگی اور پورا پورا حق دے دینا ۔ چناچہ خراج اور جزیہ کے دے دینے اور امانت کے واپس کردینے کو اداء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ (1{ فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ }( سورة البقرة 283) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے ۔ (1{ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا } ( سورة النساء 58) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالہ کردیا کرو ۔ (1{ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ }( سورة البقرة 178) اور پسندیدہ طریق سے خون بہا اسے پورا پورا ادا کرنا ۔ اصل میں یہ اداۃ سے ہے محاورہ ہے ادوت تفعل کذا ۔ کسی کام کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنا اصل میں اس کے معنی اداۃ ( کسی چیز ) کو پکڑنے کے ہیں جس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچا جاسکے ۔ ( دينار) ، أصله دنّار بنون مشدّدة، فاستثقل اللفظ بهذه النون فأبدلت أولی النونین ياء للتخفیف، وذلک لکثرة الاستعمال، ويعود تضعیف النون في التکثير فيقال دنانیر أو في التصغیر فيقال دنینیر .. والدینار معرّب . دوم أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة/ 117] ( د و م ) الدام ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة/ 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔ قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ أُمِّيُّ هو الذي لا يكتب ولا يقرأ من کتاب، وعليه حمل : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ [ الجمعة/ 2] قال قطرب : الأُمِّيَّة : الغفلة والجهالة، فالأميّ منه، وذلک هو قلة المعرفة، ومنه قوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] أي : إلا أن يتلی عليهم . قال الفرّاء : هم العرب الذین لم يكن لهم کتاب، والنَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْراةِ وَالْإِنْجِيلِ [ الأعراف/ 157] قيل : منسوب إلى الأمّة الذین لم يکتبوا، لکونه علی عادتهم کقولک : عامّي، لکونه علی عادة العامّة، وقیل : سمي بذلک لأنه لم يكن يكتب ولا يقرأ من کتاب، وذلک فضیلة له لاستغنائه بحفظه، واعتماده علی ضمان اللہ منه بقوله : سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى [ الأعلی/ 6] . وقیل : سمّي بذلک لنسبته إلى أمّ القری. الامی ۔ وہ ہے جو نہ لکھ سکتا ہو ، اور نہ ہ کتاب میں سے پڑھ سکتا ہو چناچہ آیت کریمہ ؛۔ { هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ } ( سورة الجمعة 2) وہی تو ہے جس نے ان پڑھو میں انہی میں سے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو پیغمبر بناکر بھیجا ۔ میں امیین سے یہی مراد ہے قطرب نے کہا ہے کہ امییہ بمعنی غفلت جہالت کے ہے اور اسی سے امی ہے کیونکہ اسے بھی معرفت نہیں ہوتی چناچہ فرمایا ؛۔ { وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ } ( سورة البقرة 78) اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سواخدا کی کتاب سے ) واقف نہیں ہیں ۔ یہاں الا امانی کے معنی الا ان یتلیٰ علیھم کے ہیں یعنی مگر یہ کو انہین پڑھ کر سنا یا جائے ۔ فراء نے کہا ہے کہ امیون سے مراد ہیں جو اہل کتاب نہ تھے اور آیت کریمہ ؛ { الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا } ( سورة الأَعراف 157) اور ہو جو ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) رسول ( اللہ ) نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جن ( کے اوصاف ) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ امی اس امت یعنی قوم کی طرف منسوب ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو جس طرح کہ عامی اسے کہتے ہیں جو عوام جیسی صفات رکھتا ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ آنحضرت کو امی کہنا اس بنا پر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھتے تھے ۔ بلکہ وحی الہی کے بارے میں اپنے حافظہ اور خدا کی اس ضمانت پر کہ { سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى } ( سورة الأَعلی 6) ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے ۔ اعتماد کرتے تھے یہ صفت آپ کے لئے باعث فضیلت تھی ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ ام القریٰ یعنی مکہ کی طرف نسبت ہے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ومن اھل الکتب من ان تامنہ بقنطاریؤدہ الیک، اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال ودولت کا ایک ڈھیر بھی دے دوتو وہ تمھارامال تمہیں اداکردے گا) یہاں لفظ (بقنطار) کے معنی، علی قنطار، کے ہیں اس لیے کہ اس جیسے موقع پر حرف باء اور حرف علی ایک دوسرے کے متعاقب ہوتے ہیں۔ مثلا آپ یہ کہتے ہیں، مررت بفلان ومررت علیہ، (میراگذرفلاں کے پاس سے ہوا، میراگذرفلاں پر ہوا) قنطار کے متعلق حسن سے مروی ہے کہ ایک ہزاردوسومثقال ہوتا ہے (ایک مثقال عرف میں ڈیڑھ درہم کے وزن کا ہوتا ہے) ابونضرہ کا قول ہے کہ بیل کی کھال میں بھرے ہوئے سونے کی مقدارکوقنطارکہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس کی مقدارسترہزا رہے۔ ابوصالح نے کہا ہے کہ یہ ایک سورطل ہے (ایک رطل بارہ وقیہ یعنی چالیس تولے کا ہوتا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر بعض اہل کتاب کی امانت کی واپسی کے سلسلے میں تعریف فرمائی ہے ایک قول ہے کہ اس سے مراد نصاری ہیں۔ بعض اہل عم نے ا سے اہل کتاب کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گواہی قبول کرلینے پر استدلال کیا ہے اس لیے کہ گواہی امانت کی ایک صورت ہے جس طرح کہ امانت دار مسلمانوں کی ان کی امانت کی بناپر گواہی قابل قبول ہوتی ہے اسی طرح اہل کتاب میں سے اگر کوئی امانت دارہو تو آیت اس پر دال ہے کہ غیرمسلموں کے خلاف اس کی گواہی قابل قبول ہونی چاہیئے۔ اگریہ کہاجائے کہ درج بالااستدلال سے پھر یہ لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بھی ان کی گواہی قابل قبول ہونی چاہیئے۔ اس لیے کہ آیت میں جس چیز کی تعریف کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ جب مسلمان کسی امانت کے سلسلے میں ان پر اعتماد کرتے ہیں تو یہ امانت انہیں واپس کردیتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر آیت تو اسی بات کا متقاضی ہے لیکن ہم نے بالاتفاق اس کی تخصیص کردی ہے۔ جو تخصیص کی ایک درست شکل ہے۔ نیز آیت میں صرف جو ازثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں گواہی دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو ان کی امانتوں کی واپسی دراصل مسلمانوں کے حق کی واپسی ہوتی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف گواہی دینے کا جواز تو اس پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ قول باری ہے (ومنھم من انتامنہ بدینا رلایؤد ہ الیک الامادمت علیہ قائما، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینا رکے معاملے میں بھی اس پر بھروسہ کروتو وہ ادانہ کرے گا الایہ کہ تم اس کے سرپرسوار ہوجاؤ) مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ ، الایہ کہ تم اس سے ادائیگی کا مسلسل تقاضا کرتے رہو۔ سدی کا قول ہے کہ، تم اس کے سرپرسواررہو اور اس کاپیچھا نہ چھوڑو۔ لفظ میں تقاضا کرنے اور پیچھانہ چھوڑنے دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے اس لیے لفظ کو ان معنوں پر محمول کیا جائے گا۔ تاہم قول باری (الا مادمت علیہ قائما) میں پیچھانہ چھوڑنے کا مفہوم پیچھاکیئے بغیر مسلسل تقاضا کرنے کے مفہوم سے اولی ہے۔ آیت کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ طالب دین یعنی قرض خواہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مطلوب یعنی مقروض کاپیچھا نہ چھوڑے۔ کوئی قوم کسی قوم پر بلاعمل فوقیت نہیں رکھتی قول باریے (ذلک بانھم قالوالیس علینا فی الامین سبیل، ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ امیوں (غیر یہودی لوگوں) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ) قتادہ اور سدی سے مروی ہے کہ یہودیہ کہتے تھے۔ عربوں کے اموال میں سے جو کچھ ہم ہتھیالیں اس پر ہمیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ سب مشرک ہیں۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ ان کی کتاب میں یہ حکم موجود ہے ایک قول ہے کہ ان تمام لوگوں کے متعلق ان کا یہی نظریہ تھا جوان کے مذہب کے مخالف تھے وہ اپنے مخالفین کے مال کو ہتھیا لینا حلال سمجھتے تھے کیونکہ اپنے بارے میں وہ یہ تصور کھتے تھے کہ تمام لوگوں پر ان کی پیروی واجب ہے۔ اور اللہ کے بارے میں یہ دعوی کرتے تھے کہ اس نے ہی ان پر یہ حکم نازل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کذب بیانی کی خبردیتے ہوئے فرمایا (ویقولون علی اللہ الکذب وھم یعلمون، اور یہ لوگ جھوٹ گھڑکراللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے) کہ یہ جھوٹ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٦) اب اہل کتاب کی امانت اور خیانت کو اللہ تعالیٰ واضح فرماتے ہیں، یہود میں سے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ایسے ہیں کہ اگر سونے کی تھیلیاں اور انبار ان کے پاس بطور امانت رکھ دو تو وہ مانگتے ہی اسی طرح تمہیں لوٹا دیں اور ان میں ہی میں سے کوئی فرد ایسا بھی ہے کہ اگر ایک دینار بھی تم اس کو دو گے تو وہ بھی واپس نہیں دے گا مگر یہ کہ تم اس سے مسلسل تقاضہ کرتے رہو، اور یہ مثالی کعب اور اس ساتھیوں کی ہے۔ اور یہ دوسرے کے مالوں کا کھاجانا اور خیانت کرنا اس بنا پر ہے کہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ اہل کتاب کے علاوہ عربوں کا مال کھا جانے میں کوئی گناہ نہیں اور وہ خود جانتے ہیں کہ وہ اس چیز میں جھوٹے ہیں، خائن پر الزام ضرور ہوگا کیوں کہ جو شخص عہد خداوندی اور لوگوں کے وعدوں کو پورا کرے اور خیانت اور عہد توڑنے سے ڈرے، تو یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں اور وہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ہیں۔ (جو ایسے اعلی کردار کے مالک ہیں )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

فرمایا : آیت ٧٥ (وَمِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ج ) یعنی ان میں امانت دار لوگ بھی موجود ہیں۔ (وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ) (اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآءِمًا ط) اگر تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ اور اس کو ادائیگی پر مجبور کر دو تب تو تمہاری امانت واپس کر دے گا ‘ ورنہ نہیں دے گا۔ ان میں سے اکثر کا کردار تو یہی ہے ‘ لیکن اہل کتاب میں سے جو تھوڑے بہت دیانت دار تھے ان کی اچھائی کا ذکر بھی کردیا گیا۔ بالفعل اس قسم کے کردار کے حامل لوگ عیسائیوں میں تو موجود تھے ‘ یہودیوں میں نہ ہونے کے برابر تھے ‘ لیکن اہل کتاب کے عنوان سے ان کا ذکر مشترک طور پر کردیا گیا۔ آگے خاص طور پر یہود کا تذکرہ ہے کہ ان میں یہ بددیانتی ‘ بےایمانی اور خیانت کیوں آگئی ہے۔ (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ج ) یہودیوں کا یہ عقیدہ تورات میں نہیں ہے ‘ لیکن ان کی اصل مذہبی کتاب کا درجہ تورات کی بجائے تالمود کو حاصل ہے۔ یوں سمجھئے کہ تورات تو ان کے لیے اُمّ الکتاب ہے ‘ جبکہ ان کی ساری شریعت ‘ قوانین و ضوابط اور عبادات کی ساری تفاصیل تالمود میں ہیں۔ اور تالمود میں یہ بات موجود ہے کہ یہودی کے لیے یہودی سے جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ لیکن غیر یہودی سے جیسے چاہو جھوٹ بولو۔ یہودی کے لیے کسی یہودی کا مال ہڑپ کرنا حرام اور ناجائز ہے ‘ لیکن غیر یہودی کا مال جس طرح چاہو ‘ دھوکہ ‘ فریب اور بددیانتی سے ہڑپ کرو۔ ہم پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت کا شرف صرف یہودیوں کو حاصل ہے اور غیر یہودی انسان ہیں ہی نہیں ‘ یہ اصل میں انسان نما حیوان (Goyems & Gentiles) ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانا ہمارا حق ہے ‘ جیسا کہ گھوڑے کو تانگے میں جوتنا اور بیل کو ہل کے اندر جوت لینا انسان کا حق ہے۔ یہودی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان انسان نما حیوانوں سے ہم جس طرح چاہیں لوٹ کھسوٹ کا معاملہ کریں اور جس طرح چاہیں ان پر ظلم و ستم کریں ‘ اس پر ہماری کوئی پکڑ نہیں ہوگی ‘ کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ امریکہ میں اس پر ایک مووی بھی بنائی گئی ہے : |" The Other Side of Israel|" یہ دستاویزی فلم وہاں کے عیسائیوں نے بنائی ہے اور اس میں ایک شخص نے ایک یہودی کتب خانے میں جا کر وہاں ان کی کتابیں نکال نکال کر ان کے حوالے سے یہودیوں کے نظریات کو واضح کیا ہے اور یہودیت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ (اب اسی عنوان سے کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ ) (وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ) اور وہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں (کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. This was not merely the misconception of the ignorant mass of Jews. Their religious teaching was the same and the legal doctrines of their accepted religious authorities and jurists reflected this idea. With regard to injunctions on loans and interest the Bible makes a clear distinction between an Israelite and a non-Israelite (Deuteronomy 15: 1-3; 23: 20) . It is stated in the Talmud that if the bullock of an Israelite injures the bullock of a non-Israelite the former is not liable to any penalty, but not vice versa. Similarly, it is laid down that if anyone finds an unclaimed article he should enquire amongst the people who live nearby. If they are Israelites he should announce his find; if not he may keep it without saying anything further. Rabbi Samuel Ishmael says that if a dispute between a Jew and a Gentile is brought before a judge, he should base his verdict on Jewish law if it is favourable; if the law of the Gentiles goes in favour of the Jew he should justify his judgement by saying that the Gentile has no valid ground for complaint since judgement was given according to his own law. Even if both laws are unfavourable towards the Jew the judge should still find some pretext for deciding in his favour. Rabbi Samuel says that benefit should be derived from every mistake the non-Israelite may make. (See Paul Isaac Hershon, Talmudic Miscellany, London, 1880, pp. 37 and 210-21.)

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :64 یہ محض یہودی عوام ہی کا جاہلانہ خیال نہ تھا ، بلکہ ان کےہاں کی مذہبی تعلیم بھی یہی کچھ تھی ، اور ان کے بڑے بڑے مذہبی پیشواؤں کے فقہی احکام ایسے ہی تھے ۔ بائیبل قرض اور سود کے احکام میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان صاف تفریق کرتی ہے ( استثناء ١۵:۳ ۔ ۲۳:۲۰ ) ۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ، مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کرے تو اس پر تاوان ہے ۔ اگر کسی شخص کو کسی جگہ کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گرد و پیش آبادی کن لوگوں کی ہے ۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے ، غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے ۔ ربی اشماعیل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کےپاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے مطابق جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے ۔ اور اگر امیوں کے قانون کے تحت جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے ۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کر سکتا ہو کرے ۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہیے ( تالمودِک مِسّلینی ، پال آئزک ہر شون ، لندن ١۸۸۰ء ، صفحات ۳۷ ۔ ۲١۰ ۔ ۲۲١ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(76 ۔ 76) ۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس فرقہ کا ذکر فرمایا تھا۔ جس میں سر تا پاؤں برائی ہی برائی تھی۔ بھلائی کچھ بھی نہ تھی اور حقیقت میں بعض ان میں سوا اس برے فرقے کے بھلے بھی تھے اس لئے یہ آیت نازل فرما کر بروں کے ساتھ اچھوں کا ذکر بھی فرمادیا تاکہ مسلمانوں میں اچھوں کی عزت بڑھے اور برے بھی ان اچھوں کی عادت سیکھیں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن سلام (رض) جو پہلے یہودی تھے اور پھر مسلمان ہوگئے ان کے پاس کسی نے کئی سو تو لے سونا امانت رکھوا دیا اور انہوں نے وقت پر ادا کردیا۔ اور ایک یہودی اور تھا کہ ایک شخص کی ایک اشرفی امانت لے کر مکر گیا ١۔ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ امانت میں خیانت کرنا جھوٹ بولنا وعدہ خلافی کرنا لڑائی کے وقت کے گالیاں بکنا یہ منافقوں کی علامتیں ہیں ٢۔ یہود کے برے فرقے نے جہاں اور غلط باتیں تورات میں اپنی طرف سے بڑھا دی تھیں وہاں ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ عرب کے لوگ بت پرست اور بد دین ہیں ان کا مال ہر طرح ہضم کرلینا تورات میں روا لکھا ہے اس لئے ان کے مال کے ہضم کرنے پر ہم کو کوئی مواخذہ کا راستہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ بات بھی اس آیت میں جھٹلا دی اور فرما دیا کہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندہتے ہیں تورات میں ہرگز کہیں یہ بات نہیں ہے پرایا مال ہضم کرنے پر ضرور مواخذہ ہے ہاں اگر وہ جس طرح ان سے اور اللہ سے تورات میں معاہدہ ہے اس کے موافق اسلام لے آئیں گے تو اسلام پچھلی برائیاں مٹا ڈالتا ہے اس سبب سے ان سے یہ برائی مٹا کر ان کو متقی بنا دے گا۔ اللہ متقیوں کو دوست رکھتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:75) تامنہ۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب تو اس کو امانت دے۔ تو اس کو امین بنائے۔ قنطار۔ مال کثیر۔ ڈھیروں۔۔ انبار۔ جمع قناطیر۔ یؤدہ۔ واحد مذکر غائب۔ مضارع۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ وہ اسے ادا کر دے گا۔ اداء مادہ۔ تاویۃ مصدر مادمت۔ ما دام افعال ناقص میں سے ہے باب نصر۔ ضرب۔ سے دوام مصدر۔ ماضی صیغہ واحد مذکر حاضر۔ جب تک تو ٹھہرا رہا۔ جب تک تو رہا۔ مادمت علیہ قائما۔ جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے۔ لیس علینا ۔۔ سبیل۔ ای لیس علینا فی ما اصبناہ من اموال العرب عتاب وذم۔ اہل عرب کے مال میں سے جو بھی ہم ہتھیالیں اسی پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ امیوں (غیر یہودیوں) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ان سے وہ خلافی کریں۔ دھوکہ دیں۔ نقصان پہنچاویں۔ امانت کو ادا نہ کریں۔ کسی طور پر مال اینٹھ لیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی خدائے تعالیٰ پر جان بوجھ کر الزام رکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی کی امانت میں خیانت کا حکم نہیں دیا خواہ وہ اسرائیل ہو یا عرب بلکہ اسلام نے تو کسی ذمی کے مال کو بھی بلا اجازت لینا جائز قرار نہیں دیا اور کسی حربی کے مال کو خیانت سے کھانے کی اجازت دی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : کذب اعدا اللہ مامن شئی کان فی الجاھلیتہ الا وھو تحت قد منی ھاتین الا الا ما نتہ فانھا مئو داۃ الی البروالفاجر کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جاہلیت کی سب چیزیں میرے پاوں تلے آگئیں (یعنی باطل قرار دے دی گئیں مگر امانت کہ اسے بہر حال ادا کیا جائیگا خواہ وہ امانت نیک کی ہو یا بد کی۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 75 تا 78 ان تامنه (اگر تو اس کے پاس امانت رکھوائے) یؤدہٖ (وہ اس کا ادا کرے گا) سبیل (راستہ) اوفیٰ (اس نے پورا کیا) یشترون (بیچ دیتے ہیں) ایمان (قسمیں) لاخلاق (حصہ نہیں ہے) یلون (مروڑتے ہیں) السنتھم (اپنی زبانون کو (لسان، زبان) لتحسبوہ (تاکہ تم اس کو سمجھو (ل، تاکہ، تحسبوا، تم سمجھو، ہ، اس کو) ۔ تشریح : آیت نمبر 75 تا 78 یہودیوں کو اپنے بارے میں یہ خوش فہمی تھی کہ ہم اہل علم وفضل ہیں اور ساری دنیا جاہل ہے ان کا خیال تھا کہ اگر قریش یا دوسرے غیر اہل کتاب کے مال میں خیانت کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور کہتے تھے کہ ہمیں اس کی اجازت اللہ نے دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس کی بڑی سختی سے تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ ایک تو جھوٹ بولا جائے اور پھر اس پر یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس کا حکم ہمیں اللہ نے دیا ہے۔ حضرت سعید ابن جبیر سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ یہودی کہتے ہیں کہ ” ان پڑھ عربوں کا مال لینا ہمارے لئے جائز ہے اور اس سلسلہ میں ہمارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے “ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے دشمنوں نے یہ بات بالکل جھوٹ کہی ہے۔ سوائے امانت کے جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں تکے ہے۔ اگر زمانہ جاہلیت میں کسی نے کسی کے پاس امانت رکھوائی ہے تو وہ اس کو ادا کرنی ہوگی۔ وہ امانت خواہ کسی پرہیز گار آدمی کی ہو یا کسی گناہ گار فاسق کی۔ ہجرت کے وقت نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کی امانتیں ان تک پہنچانے کے لئے حضرت علی (رض) کو مکہ مکرمہ میں رک جانے کا حکم دیا کہ وہ امانتیں جو کفار نے آپ کے پاس رکھوائی تھیں وہ ادا کرکے مکہ سے مدینہ کی طرف آجائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول کبھی بھی کسی کو خیانت کا حکم نہیں دے سکتے۔ اس سے بڑھ کر اللہ پر اور کیا جھوٹ ہوسکتا ہے جو وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو بددیانتی کی اجازت دی ہے۔ ان آیات میں اللہ نے یہودیوں کی اس گھناؤنی ذہنیت سے پردہ اٹھا دیا کہ اہل کتاب میں بعض لوگ انتہانی دیانت دار ہیں لیکن بددیانت بھی ایسے ایسے ہیں کہ ایک دینار لے کر واپس دینے کے روادار نہیں ہیں۔ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک عہد کی پابندی کرنا پسندیدہ فعل ہے اور عہد کی پابندی نہ کرنے والوں کو سخت ناپسند کیا گیا ہے کسی شخص کے مال کی حفاظت کا ذمہ لے کر اپنی امانت میں لیا جائے اور پھر اس معاہدہ کو توڑ کر امانت میں خیانت کرلی جائے یہ بات اللہ کو پسند نہیں ہے یہ بھی فرمایا گیا کہ جو لوگ دنیا کے معمولی فائدے کی خاطر اللہ سے کئے ہوئے عہد اور آپس کے معاہدات کی پروا نہیں کرتے ، طے شدہ معاہدات کو توڑ دیتے ہیں، اس کے خلاف کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کی رحمتوں اور اس کی نظر کرم سے محروم رہیں گے، اس کی عام معافی میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ وہ گناہوں کی کی نجاست گندگی سے پاک نہ ہوسکیں گے جس کا لازمی نتیجہ جہنم کی آگ میں ڈالا جانا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سے باندھے ہوئے عہد کو توڑنے والوں کا ، خیانت کرنے والوں کا اور جھوٹی قسمیں کھا کر دنیا کی معمولی اور حقیر دولت بٹورنے کا انجام بتادیا گیا ہے اور وہ یہ جو لوگ دنیا کی گھٹیا اور ادنی چیزوں کے بدلے اللہ کے عہد اور آپس کی قسموں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ نہ تو آپس کے معاملات کو درست رکھتے ہیں نہ اللہ سے کئے ہوئے قول وقرار رہتے ہیں بلکہ مال و دولت کے لالچ میں اللہ کے احکامات کو تبدیل کرتے ہیں اور آسمانی کتابوں میں تبدیلیاں کرتے ہیں، اللہ کی امانت کو بھی ادا نہیں کرتے۔ جھوٹی قسمیں کھا کر دنیاوی مال ومتاع حاصل کرتے ہیں انہیں نہ تو جنت کی راحتیں نصیب ہوں گی اور نہ آخرت کی عافیت ونجات۔ نہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر کرم فرمائیں گے۔ نہ وہ گناہوں کی آلودگیوں سے پاک ہوں گے اور ان کے لئے دورناک عذاب ہوگا جس سے وہ بچ نہیں سکتے ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی غیر اہل کتاب مثلا قریش کا مال چرا لینا یا چھین لینا سب جائز ہے۔ 5۔ اس آیت میں جن بعض کی امانت کی مدح کی گئی ہے اگر ان بعض سے وہ لوگ مراد ہیں جو اہل کتاب میں سے ایمان لے آئے تھے، تب تو مدح میں کوئی اشکال نہیں اور اگر خاص مومن مراد نہ ہوں، بلکہ مطلقا اہل کتاب میں سے امین اور خائن دونوں کا ذکر کرنا مقصود ہے تو مدح باعتبار عنداللہ کے نہیں کیونکہ بدون ایمان کے کوئی عمل صالح مقبول نہیں ہوتا، بلکہ مدح اس اعتبار سے ہے کہا چھی ابت گو کفر کی ہو کسی درجہ میں اچھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کی علمی خیانت کے بعد مالی بددیانتی کا تذکرہ۔ اہل کتاب کا کثیر طبقہ ہمیشہ سے علمی خیانت کے ساتھ مالی بددیانتی کا شکار رہا ہے۔ اس کی وجہ دین سے لاعلمی، بشری کمزوری اور صرف مالی ہوس نہیں۔ بلکہ بنیادی سبب ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ کسی کو رسول تسلیم نہ کریں۔ اسی طرح ان کا یہ نظریہ بھی ہے کہ غیر یہودی اور اَن پڑھ لوگوں کے بارے میں ہمیں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ ان کا مال لوٹنا ہمارے لیے جائز ہے۔ ان کے نزدیک اَن پڑھ سے مرادخاص طور پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہے۔ ان کی کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی یہودی کے ہاں ایسا مقدمہ پیش ہو جس میں ایک فریق غیر یہودی ہو تو یہودی جج کا فرض ہے کہ وہ ہر طریقے سے اپنے یہودی بھائی کو فائدہ پہنچائے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاں غیر یہودی کو قتل کرکے اس کا مال ہڑپ کرنا بھی جائز ہے۔ اس باطل نظریے کی وجہ سے ان میں اس قدر بےباکی پیدا ہوئی کہ اگر اس نظریہ کے حامل لوگوں کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے غصب کرنا شرعی حق اور ہر قسم کی عہد شکنی کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ امانت رکھنے والا ان کے سر پر سوار ہوجائے بصورت دیگر ان سے امانت کی واپسی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس خیانت اور بددیانتی کا جواز تورات سے پیش کرتے ہیں۔ اس کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ وہ دین کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خیانت کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ قرآن مجید کی انصاف و اصول پسندی پر قربان جائیے کہ اس نے یہودیوں میں جو دیانتدار لوگ ہیں ان کو یہ کہہ کر مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ ان میں دیانت دار بھی ہیں۔ جن کے پاس ایک خزانہ بھی رکھ دیا جائے تو وہ اس کی پائی پائی لوٹانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ امام رازی (رض) فرماتے ہیں کہ یہی لوگ ہی آپ کی نبوت پہ ایمان لانے والے ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں اسرائیلی اخبار و بزنس ڈیٹا کی رپورٹ : یہ یہودی فلاسفی ہے ‘ کہ یہودی دنیا میں اعتماد ‘ یقین ‘ لین دین ‘ وعدے وعید اور پیسے روپے کے معاملہ میں بدترین قوم ہیں۔ چاروں آسمانی کتابیں متفق ہیں کہ یہودی وعدے کے کمزور ہوتے ہیں۔ بات کر کے مکر جانا ان لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اور پانچ ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے یہ لوگ جس جگہ رہتے ہیں اس جگہ کا امن و سکون اور اطمینان غارت ہوجاتا ہے وہ جگہ ” دارالحرب “ بن جاتی ہے۔ اس جگہ جنگیں اور لڑائیاں ہوتی ہیں۔ یہ ان لوگوں پر وہ سیاہ دھبے ہیں۔ جنہیں شاید اب دنیا کی کوئی طاقت نہیں دھو سکتی۔ یہ لوگ کرپٹ بھی ہوتے ہیں ‘ اسی اخبار میں عالمی بنک کے اعداد و شمار چھپے ہیں ان اعدادو شمار میں انکشاف ہوا کہ اسرائیل کا شمار اس وقت کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ (بحوالہ جنگ اخبار 10 ستمبر 2005 ء) مسائل ١۔ دین کا نام لے کر جھوٹ بولنا بالواسطہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے۔ ٢۔ ایسے لوگوں کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اہل کتاب کی اکثریت بددیانت اور حرام خو رہے : ١۔ اہل کتاب رشوت خور ہیں۔ (البقرۃ : ٨٥) ٢۔ اہل کتاب حرام خور ہیں۔ (البقرۃ : ١٧٤) ٣۔ اہل کتاب بددیانت ہیں۔ (آل عمران : ٧٥) ٤۔ اہل کتاب سود خور ہیں۔ (النساء : ١٦١) ٥۔ اہل کتاب کی اکثریت گناہ اور زیادتی کے کاموں میں جلدی کرنیوالی اور سود خور ہے۔ (المائدۃ : ٦٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جو اہل کتاب اس وقت اہل ایمان اور جماعت مسلمہ کے مقابلے میں اترے ہوئے تھے اور بحث و تکرار کررہے تھے ‘ ان کے بارے میں قرآن کریم کا تبصرہ نہایت ہی منصفانہ سچائی پر مبنی ہے ۔ اور ان کے اوصاف بےکم وکاست بیان کئے گئے ہیں ۔ اور جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں ‘ آج تک اہل کتاب کا یہی حال ہے ۔ غرض اہل کتاب اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو دشمنی کررہے تھے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف وہ جس قدر گہری اور مذموم سازشیں کررہے تھے اور جماعت مسلمہ اور دین اسلام کے خلاف وہ جس قدر شدید شر و فساد کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ ان سب حقائق کے باوجود ان میں سے جو لوگ اچھے تھے نہ ان کے فضائل چھپاتا ہے اور نہ ان کے بیان میں کمی کرتا ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت وہ اہل اسلام کے ساتھ مقابلہ ومناظرہ کی حالت میں تھے ۔ اس لئے قرآن مجید کہتا ہے کہ اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ میں لوگوں کے عظیم حقوق بھی آجائیں تو وہ انہیں تلف نہیں کرتے ۔ وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ……………” اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کرے گا۔ “ لیکن ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو پرلے درجے کے خائن ‘ لالچی ‘ اور ملمع کار ہیں جو کسی کا حق نہیں لوٹاتے ۔ اگرچہ وہ بہت ہی حقیر کیوں نہ ہوں ‘ ہاں صرف وہ اس صورت میں ادا کریں گے کہ تم ان سے اصرار سے مطالبہ کرو اور ان کے سر پر سوار ہوجاؤ اور یہ حق مارنے کے لئے وہ ایک ایسا فلسفہ بھی گڑھتے ہیں جس میں سوچے سمجھے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملے میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادانہ کرے گا الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوارہوجاؤ ‘ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ” امیوں (غیر یہودیوں کے معاملے میں ) ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ “ اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی۔ “ اور یہ بھی یہودیوں کی ایک خاص صفت ہے ۔ صرف یہودی یہ بات کہتے تھے ۔ ان کے ہاں اخلاق وآداب کے مختلف پیمانے تھے ۔ امانت ودیانت تو صرف ایک یہودی اور دوسری یہودی کے درمیان معاملات کے لئے ہے ۔ رہے غیر یہودی جنہیں وہ امی کہتے تھے ۔ اور ان سے مراد ان کی صرف عربوں ہی سے تھی ۔ تو ان کے اموال تلف کرنے اور ناجائز ہڑپ کرجانے میں وہ کوئی حرج محسوس نہ کرتے تھے ۔ وہ بڑی بےتکلفی کے ساتھ غیر یہود کے ساتھ دھوکہ ‘ فریب ‘ ملمع کاری ‘ استحصال جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے ۔ بغیر کسی جھجھک کے وہ ان کے خلاف اوچھے ہتھیار استعمال کرتے اور مذموم حرکات کا ارتکاب کرتے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کا خدا اور ان کا دین انہیں اس بات کا حکم دیتا ہے۔ لیکن دراصل وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کسی فحش بات کا حکم نہیں دیتا ۔ مثلاً یہ کہ وہ کسی گروہ کو حکم دے کہ وہ دوسرے گروہ کی دولت ناجائز اور ظالمانہ طور پرکھائے ۔ اور اس کے ساتھ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی نہ کرے ۔ اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے ۔ اور ان کو بغیر کسی کراہیت اور حرج کے نقصان پہنچاتا چلاجائے ۔ لیکن وہ یہودی تھے ۔ وہ یہودی جنہوں نے انسانوں کے ساتھ عداوت اور دشمنی کو اپنا دین بنارکھا ہے۔ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ……………” وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ‘ جانتے ہوئے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل کتاب کی امانت داری اور خیانت کا تذکرہ اس آیت میں ان اہل کتاب کا بیان ہے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اور ان اہل کتاب کا ذکر ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور وہ بدستور حب مال اور حب دنیا میں غرق رہے۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ (یُّؤَدِّہٖٓ (اِلَیْکَ ) سے مومنین اہل کتاب مراد ہیں جیسے عبداللہ بن سلام اور دیگر صحابہ جو پہلے یہودی تھے اور بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور (لَاْ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ) سے وہ یہود مراد ہیں جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور بدستور حب دنیا اور حب مال میں مستغرق تھے۔ جیسے کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی۔ پھر حضرت ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایک شخص نے بارہ سو اوقیہ سونا امانت رکھ دیا تھا انہوں نے اس کو ادا کردیا (ایک اوقیہ چالیس درہم کے وزن کے برابر ہوتا ہے) اور نحاص بن عازواء ایک یہودی تھا اس کے پاس ایک قریشی نے ایک دینار امانت رکھ دیا تو وہ خیانت کر بیٹھا۔ قرآن مجید میں اہل کتاب کی دو جماعتوں کا حال بیان فرمایا کہ بعض ان میں ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس قنطار یعنی مال کثیر امانت رکھ دو گے تو وہ واپس کردیں گے اور اچھے طریقے پر ادا کردیں گے اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کے پاس اگر ایک دینار امانت رکھ دو تو ادا نہ کریں گے ہاں سر پر برابر کھڑے ہی رہو اور تقاضوں سے عاجز آکر ادا کر دے تو دوسری بات ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن صفحہ ١٧: ج ٢ میں لکھتے ہیں کہ (اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآءِمًا) سے معلوم ہوا کہ جس کا حق ہے وہ اس کے پیچھے پڑ سکتا ہے اور مسلسل اس کا پیچھا کرسکتا ہے جس کے اوپر حق ہے۔ و قد دلت الایۃ علی ان للطالب ملازمۃ المطلوب للدین۔ آیت میں اہل کتاب کا تذکرہ تو ہے ہی اس امت کے نادہندہ لوگوں کو بھی تنبیہ ہے قرض لینے اور امانت رکھنے کے لیے تو جلد سے جلد تیار ہوجاتے ہیں اور جب دینے کا وقت آتا ہے تو ٹال مٹول کرتے ہیں۔ صاحب حق کو چکر کھلاتے ہیں۔ پریشان کرتے ہیں امانت کھا جاتے ہیں قرض مار لیتے ہیں۔ پھر بدنیت لوگوں کی اللہ پاک کی طرف سے مدد بھی نہیں ہوتی۔ صحیح بخاری صفحہ ٣٢١: ج ١ میں حضرت ابو ہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے لوگوں کے مال لے لیے جن کی ادائیگی کا وہ ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا فرما دیتا ہے یعنی اس کی حسن نیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے سہولت پیدا فرما دیتے ہیں اور جس نے لوگوں کے مال لیے جنہیں وہ تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ تلف فرما دیتا ہے (مال اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اس پر قرضہ باقی رہ جائے گا۔ قیامت کے دن حقوق العباد مارنے کی وجہ سے عذاب میں جائے گا) ۔ (کما فی حاشیۃ البخاری عن العینی) یہودیوں کا یہ جھوٹ کہ ہمیں ان پڑھوں کا مال مارنا حلال ہے : یہودیوں پر ایک اور جہالت سوار تھی اور وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے امی لوگوں کا ہمارے لیے سب کچھ حلال ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو بھی کوئی ہمارے دین پر نہ ہو اس پر ظلم کرنا مال مارنا حلال ہے۔ حضرت حسن نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں عرب لوگوں نے یہودیوں سے خریدو فروخت کے معاملات کیے یہودیوں پر ان کے قرضے تھے جب وہ لوگ مسلمان ہوگئے اور یہودیوں سے تقاضا کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں۔ اور نہ ہمارے ذمہ کچھ ادائیگی ہے تم نے اپنا دین چھوڑ دیا اور ہمارے تمہارے درمیان جو عہد تھا وہ ختم ہوگیا اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہم نے یہ بات اپنی کتابوں میں پائی ہے۔ عربوں کو اُمِّیُّوْن (ان پڑھ) کہا کیونکہ یہ لوگ یہودیوں کے مقابلہ میں پڑھے لکھے نہیں تھے یہودیوں نے کہا کہ ان پڑھوں کے ہم نے مال مار لیے تو کیا ہے ان کے مالوں کے بارے میں ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں کو ہمارے لیے حلال کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور فرمایا (وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ ) کہ یہ لوگ اللہ کے ذمہ جھوٹ لگاتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں (معالم التنزیل صفحہ ٣١٧۔ ٣١٨: ج ١) تفسیر ابن کثیر میں حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ جب اہل کتاب نے (لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ) کہا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کذب اعداء اللّٰہ کہ اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا۔ تفسیر ابن کثیر صفحہ ٣٧٤: ج ١ میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک آدمی نے کہا کہ ہم جہاد میں جاتے ہیں اور ذمی (یعنی وہ کافر جو دار الاسلام میں رہتے ہیں) ہم کو ان کے جو مال مل جاتے ہیں مرغی اور بکری ہم انہیں کھا جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تم کیا سمجھ کر کھا جاتے ہو اس نے جواب دیا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے اہل کتاب نے کہا (لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ) جب ذمیوں نے جزیہ ادا کردیا تو تمہارے لیے ان کے مال حلال نہیں ہیں ہاں اگر وہ اپنے نفسوں کی خوشی کے ساتھ دیں تو اور بات ہے۔ جھوٹے فقروں کا طریق کار : اس امت میں بھی بہت سے جھوٹے پیر فقیر ایسے ہیں کہ جن بستیوں میں ان کے کسی باپ دادا سے لوگ مرید ہوگئے تھے ان بستیوں کو اپنا مرید آباد بنا رکھا ہے۔ سالانہ ان علاقوں میں گشت کرتے ہیں اور جو کچھ چاہتے ہیں ان کے مالوں میں سے بلا اجازت لیتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور وہ لوگ لحاظ اور مروت کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔ شرعاً اس طرح کا لیا ہوا مال حلال نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ الا لا یحل مال امرء مسلم الا بطیب نفس منہ (خبر دار کسی مسلمان آدمی کا مال حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ نفس کی خوشی سے دے دے۔ ) کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٢٥٥، بےآبروئی کے ڈر سے یا کسی بھی طرح کے دباؤ سے کوئی شخص اگر اجازت دیدے تب بھی اس کا مال لینا حلال نہیں ہوتا اگرچہ وہ ظاہری طور پر زبان سے اجازت بھی دیدے یا خاموش رہے، اسی لیے طیب نفس کی قید لگائی جو مال طیب نفس سے نہ ملے گا اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جو شخص فاسق ہو اندر سے اس کا باطن پاک نہ ہو اور اسے بزرگ سمجھ کر ہدیہ دیا جائے اگرچہ خوشدلی سے ہو وہ ہدیہ اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ (کمافی احیاء العلوم صفحہ ١٠٤: ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

102 چوتھا شکوہ۔ یہودیوں میں دو قسم کے لوگ تھے کچھ دیانتدار اور امین جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے دوسرے ساتھی جو مسلمان ہوچکے تھے اور جو لوگ یہودیت پر قائم تھے وہ پرلے درجہ کے خائن اور بد دیانت تھے۔ پہلے گروہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ اس قدر امین ہیں کہ اگر دولت کا ڈھیر بھی ان کے سپرد کردیا جائے تو وہ اس میں ایک پائی کی خیانت نہیں کرینگے اور پوری امانت واپس کردینگے لیکن اس کے برعکس دوسرے گروہ کی بددیانتی اور حب مال کا یہ عالم ہے کہ اگر صرف ایک دینار ہی ان کے حوالے کردو تو وہ اسے بھی ہضم کرجائیں گے۔ اور واپس کرنے کا نام نہیں لیں گے۔ ہاں اگر آپ ان کے سر پر چڑھتے رہیں تو البتہ واپسی کی امید ہوسکتی ہے ان پر کھڑے رہنے سے باربار تقاضا کرنا مراد ہے۔ آجکل بھی ایسے متعصب پیر اور گدی نشین موجود ہیں اگر ان کو کسی طریقہ سے توحید پرستوں کا مال ہاتھ آجائے تو اسے ہضم کرجائیں اور واپس کرنے کا نام تک نہ لیں۔ 103 ۔ اُمِّیِّیْنَ ۔ امی کی جمع ہے اور وہ ام القری کی طرف منسوب ہے۔ ام القری مکہ کا نام ہے اور اُمَّیِّیْن سے یہاں عرب کے لوگ مراد ہیں۔ اس بد دیانتی خیانت اور بدمعاملگی کی وجہ وہ یہ بیان کرتے کہ عرب کے لوگوں کے جو اموال ہمارے ہاتھ لگ جائیں انہیں خرد برد کرنے میں ہم پر کوئی گناہ نہیں اور نہ عتاب ہے۔ بلکہ ہمیں اسکا پورا پورا حق ہے ای لیس علینا فیما اصبناہ من اموال العرب عتاب وذم (روح ج 3 ص 202) اور پھر اس کے ساتھ یہودیوں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ یہ حکم ان کی کتاب تورات میں موجود ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے ان کو اس طرح لوگوں کا مال خردبرد کرنے کا حکم دیا ہے اس طرح ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر افترا کیا جسے اللہ تعالیٰ نے آیت کے اگلے حصے میں بیان فرمایا ہے۔ 104 یعنی ان کا یہ دعویٰ کہ یہ حکم اللہ کی کتاب تورات میں موجود ہے سراسر جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر افترا ہے اور پھر ان ظالموں کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بات تورات میں نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود جان بوجھ کر عمداً قصداً خدا پر افترا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ناجائز طریقہ سے کسی کا مال کھانا ان پر بھی حرام کیا تھا۔ ای وقد اختلفوا ھذہ المقالۃ وائتفکوھا بھذہ الضلالۃ فنا للہ حرم علیھم اکل الموال الا بحقہا وانما ھم قوم بھت (ابن کثیر ج 1 ص 374) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi