Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 79

سورة آل عمران

مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّؤۡتِیَہُ اللّٰہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوۡلَ لِلنَّاسِ کُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّیۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡکِتٰبَ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَ ﴿ۙ۷۹﴾

It is not for a human [prophet] that Allah should give him the Scripture and authority and prophethood and then he would say to the people, "Be servants to me rather than Allah ," but [instead, he would say], "Be pious scholars of the Lord because of what you have taught of the Scripture and because of what you have studied."

کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالٰی کتاب و حکمت اور نبوت دے یہ لائق نہیں کہ پھر بھی وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No Prophet Ever Called People to Worship him or to Worship Other Than Allah Allah says; مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُوْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللّهِ ... It is not (possible) for any human being to whom Allah has given the Book and Al-Hukm and Prophethood to say to the people: "Be my worshippers rather than Allah's." This Ayah means, it is not for a person whom Allah has given the Book, knowledge in the Law and Prophethood to proclaim to the people, "Worship me instead of Allah," meaning, along with Allah. If this is not the right of a Prophet or a Messenger, then indeed, it is not the right of anyone else to issue such a claim. This criticism refers to the ignorant rabbis, priests and teachers of misguidance, unlike the Messengers and their sincere knowledgeable followers who implement their knowledge; for they only command what Allah commands them, as their honorable Messengers conveyed to them. They also forbid what Allah forbade for them, by the words of His honorable Messengers. The Messengers, may Allah's peace and blessings be on all of them, are the emissaries between Allah and His creation, conveying Allah's Message and Trust. The messengers indeed fulfilled their mission, gave sincere advice to creation and conveyed the truth to them. Allah's statement, ... وَلَـكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ On the contrary (he would say), "Be you Rabbaniyyun, because you are teaching the Book, and you are studying it." means, the Messenger recommends the people to be Rabbaniyyun. Ibn Abbas, Abu Razin and several others said that; Rabbaniyyun means, "Wise, learned, and forbearing." Ad-Dahhak commented concerning Allah's statement, بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (because you are teaching the Book, and you are studying it). "Whoever learns the Qur'an deserves to become a Faqih (learned)." وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (and you are studying it), preserving its words. Allah then said,

مقصد نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہودیوں اور نجرانی نصرانیوں کے علماء جمع ہوئے اور آپ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی تو ابو راقم قرظی کہنے لگا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی عبادت کی ہم بھی آپ کی عبادت کریں؟ تو نجران کے ایک نصرانی نے بھی جسے آئیس کہا جاتا تھا یہی کہا کہ کیا آپ کی یہی خواہش ہے؟ اور یہی دعوت ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا معاذ اللہ نہ ہم خود اللہ وحدہ لاشریک کے سوا دوسرے کی پوجا نہ کریں کسی اور کو اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت کی تعلیم دیں نہ میری پیغمبری کا یہ مقصد نہ مجھے اللہ حاکم اعلیٰ کا یہ حکم ، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ، کہ کسی انسان کو کتاب و حکمت اور نبوت و رسالت پا لینے کے بعد یہ لائق ہی نہیں کہ اپنی پرستش کی طرف لوگوں کو بلائے ، جب انبیائے کرام کا جو اتنی بڑی بزرگی فضیلت اور مرتبے والے ہیں یہ منصب نہیں تو کسی اور کو کب لائق ہے کہ اپنی پوجا پاٹ کرائے ، اور اپنی بندگی کی تلقین لوگوں کو کرے ، امام حسن بصری فرماتے ہیں ادنی مومن سے بھی یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں کو اپنی بندگی کی دعوت دے ، یہاں یہ اس لئے فرمایا یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ہی ایک دوسرے کو پوجتے تھے قرآن شاہد ہے جو فرماتا ہے ( آیت اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ الخ ، ) یعنی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ اپنے عالموں اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا ہے ۔ مسند ترمذی کی وہ حدیث بھی آرہی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ وہ ان پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیتے تھے اور یہ ان کی مانتے چلے جاتے تھے یہی ان کی عبادت تھی ، پس جاہل درویش اور بےسمجھ علماء اور مشائخ اس مذمت اور ڈانٹ ڈپٹ میں داخل ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اتباع کرنے والے علماء کرام اس سے یکسو ہیں اس لئے کہ وہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کاموں سے روکتے ہیں جن سے انبیاء کرام روک گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے حضرت انبیاء تو خالق و مخلوق کے درمیان سفیر ہیں حق رسالت ادا کرتے ہیں اور اللہ کی امانت احتیاط کے ساتھ بندگان رب عالم کو پہنچا دیتے ہیں نہایت بیداری ، مکمل ہوشیاری ، کمال نگرانی اور پوری حفاظت کے ساتھ وہ ساری مخلوق کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ احکام رب رحمن کے پہچاننے والے ہوتے ہیں ۔ رسولوں کی ہدایت تو لوگوں کو ربانی بننے کی ہوتی ہے کہ وہ حکمتوں والے علم والے اور حلم والے بن جائیں سمجھدار ، عابد و زاہد ، متقی اور پارسا ہیں ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ قرآن سیکھنے والوں پر حق ہے کہ وہ با سمجھ ہوں تعملون اور تعلمون دونوں قرأت ہیں پہلے کے معنی ہیں معنی سمجھنے کے دوسرے کے معنی ہیں تعلیم حاصل کرنے کے ، تدرسون کے معنی ہیں الفاظ یاد کرنے کے ۔ پھر ارشاد ہے کہ وہ یہ حکم نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرو خواہ وہ نبی ہو بھیجا ہوا خواہ فرشتہ ہو قرب الہ والا ، یہ تو وہی کر سکتا ہے جو اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت کی دعوت دے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہو اور کفر نبیوں کا کام نہیں ان کا کام تو ایمان لانا ہے اور ایمان نام ہے اللہ واحد کی عبادت اور پرستش کا ، اور یہی نبیوں کی دعوت ہے ، جیسے خود قرآن فرماتا ہے ( آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون ) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں تم سب میری عبادت کرتے رہو اور فرمایا ( آیت ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت ) یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا ہر کسی کی عبادت سے بچو ، ارشاد ہے تجھ سے پہلے تمام رسولوں سے پوچھ لو کیا ہم نے اپنی ذات رحمان کے سوا ان کی عبادت کے لئے کسی اور کو مقرر کیا تھا ؟ فرشتوں کی طرف سے خبر دیتا ہے کہ ( آیت من یقل منھم الخ ) ان میں سے اگر کوئی کہدے کہ میں معبود ہوں بجز اللہ تو اسے بھی جہنم کی سزا دیں اور اسی طرح ہم ظالموں کو بدلہ دیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یہ عیسائیوں کے ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنہیں کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ رب والے بن جاؤ رَبَّانِیُّ رب کی طرف منسوب ہے، الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (فتح القدیر) 79۔ 2 یعنی کتاب اللہ کی تعلیم و تدریس کے نتیجے میں رب کی شناخت اور رب سے خصوصی ربط وتعلق قائم ہونا چاہئے، اسی طرح کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو بھی قرآن کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں، تو کسی اور کو یہ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کئی اقوال ہیں اور وہ سب ہی درست معلوم ہوتے ہیں مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے، جب نجران کے عیسائی آپ سے بحث و مناظرہ کرنے آئے تو یہود ان کے ساتھ مل گئے اور طنزاً آپ سے کہنے لگے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی پرستش کیا کریں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور تیسرا یہ قول ہے کہ کسی صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ رومی اور ایرانی اپنے اپنے بادشاہوں کو سجدہ کیا کرتے ہیں کیا ہم بھی آپ کو سلام کے بجائے سجدہ نہ کریں ؟ تو آپ نے اس بات سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ اللہ کے سوا اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ شوہر کا بیوی پر بہت حق ہے۔ (ترمذی، ابو اب الرضاع والطلاق، باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ) تب یہ آیت نازل ہوئی۔ جو کچھ بھی ہو اس آیت میں ایسی تمام باتوں کی جامع تردید ہے جو مختلف قوموں نے پیغمبروں کی طرف منسوب کرکے اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کردی ہیں۔ جن کی رو سے کوئی پیغمبر یا فرشتہ معبود قرار پاتا ہے۔ ان آیات میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ کوئی ایسی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھاتی اور بندے کو خدا کے مقام تک لے جاتی ہو، وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہوسکتی اور جہاں کسی مذہبی کتاب میں کوئی ایسی بات پائی جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ گمراہ کن عقیدہ لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔ [٧٠] یہودیوں کے وہ علماء جو مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے۔ ربانی کہلاتے تھے۔ ان کا کام مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کا قیام اور احکام دین کا اجرا کرنا ہوتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ نبی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ پہلے لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ پھر جب وہ اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ان سے اپنی پرستش کرانا شروع کر دے بلکہ اس کا کام ربانی قسم کے لوگ تیار کرنا ہوتا ہے اور جو کتاب اسے دی جاتی ہے اور جسے تم لوگ پڑھتے پڑھاتے ہو اس کا بھی یہی تقاضا ہوتا ہے۔ کیونکہ انبیاء کا کام کفر و شرک کو مٹانا ہوتا ہے۔ پھیلانا نہیں ہوتا اور انبیاء یا کسی دوسرے کو رب بنا لینے سے بڑھ کر کفر و شرک کی اور کیا بات ہوسکتی ہے ؟ واضح رہے کہ اپنے علماء و مشائخ کی باتوں کے سامنے بلاتحقیق سر تسلیم کردینا بھی انہیں اپنا رب قرار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب یہ آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31؀) 9 ۔ التوبہ :31) نازل ہوئی تو حضرت عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم نے اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں بنا رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : کیا یہ بات نہ تھی کہ جس چیز کو وہ حلال کہتے تم اسے حلال اور جسے وہ حرام کہتے تم اسے حرام تسلیم کرتے تھے ؟ عدی بن حاتم کہنے لگے ہاں یہ بات تو تھی۔ آپ نے فرمایا : && یہی رب بنانا ہوتا ہے && (ترمذی ابو اب التفسیر، زیر تفسیر آیت مذکورہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ لِبَشَرٍ ۔۔ : تورات و انجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدائی کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے، ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی و نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان کی طرف سے اپنے الٰہ (خدا) ہونے کا دعویٰ محال ہے۔ (رازی) پھر جب نبی کا یہ حق نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور ائمہ اس مرتبے پر کیسے فائز ہوسکتے ہیں اور انھیں یہ حق کیسے حاصل ہوگیا کہ اپنے مریدوں کو چوبیس گھنٹے اپنی صورت آنکھوں اور ذہن کے سامنے رکھنے کا حکم دیں اور ان سے یہ عہد لیں کہ میری ہر بات تمہیں ماننا ہوگی، صحیح معلوم ہو یا غلط اور جب مصیبت پیش آئے تو ہمیں یاد کرو گے۔ بتائیے خدائی اور کیا ہوتی ہے ؟ نبی ہونے کی حیثیت سے انبیاء کی پیروی اور ان کا ہر حکم ماننا واجب ہوتا ہے، مشائخ اور ائمہ تو واجب الاتباع بھی نہیں ہوتے۔ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ : اس سے معلوم ہوا کہ عبد المسیح یا عبد الرسول یا عبد المصطفی نام رکھنا جائز نہیں۔ ” اَلرَّبَّانِیُّ “ لفظ ” رب “ پر الف نون بڑھا کر یاء نسبت کی لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرّد فرماتے ہیں کہ یہ ” رَبَّہُ یَرُبُّہُ فَہُوَ رَبَّانُ “ ہے، یعنی صیغہ صفت۔ ” رَبَّانُ “ کے ساتھ ” یاء “ ملائی گئی ہے۔ (فتح البیان) صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا، آیت : ( كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ ) کا معنی ہے حکماء، فقہاء بنو اور کہا : ” کہا جاتا ہے ” الربانی “ وہ ہے جو علم کی بڑی باتوں سے پہلے اس کی چھوٹی باتوں کے ساتھ لوگوں کی تربیت کرے۔ [ بخاری، العلم، باب العلم قبل القول والعمل ۔۔ ، بعد ح : ٦٧] بِمَا كُنْتُمْ : اس میں ” باء “ برائے سببیت ہے، چونکہ تم تعلیم و دراست کا مشغلہ رکھتے ہو، اس لیے تمہیں عالم باعمل اور اللہ کے عبادت گزار بندے بننا چاہیے۔ (بیضاوی) كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ہاں، تم کو (اے اہل کتاب ! ) یہ کہنا ہے کہ تم میں جو آگے دین داری تھی، یعنی کتاب کا پڑھنا اور سکھانا، وہ اب نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ “ (موضح) اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ کسی شخص میں اگر علم اور کتب الٰہیہ کے پڑھنے پڑھانے سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ وقت ضائع کرنا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے، آپ دعا کیا کرتے تھے : ( اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ ) [ مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الأدعیۃ : ٢٧٢٢ ] ” اے اللہ ! میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ “ (فتح البیان)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The infallibility of the Prophets The verse implies that a person whom Allah invests with the Book, the Wisdom and the power of making decisions, and places him on the great station of prophethood is always faithful to his mission when he communicates the Divine message to people and calls on them to be-come His faithful servants. That he starts moving people away from the worship of only one God and starts asking them to become his own worshippers or the worshippers of some other creatures is something he can never do. If so, this would mean that the one whom Allah had sent as his messenger did not, in fact, deserve this designation. Any government of this world, when appointing someone to an office of re¬sponsibility, always takes two factors into consideration: 1. Does the incumbent have the ability to comprehend and execute government policy? 2. How far can he be expected to execute government directives, and to hold its subjects in a stable stance of loyalty? No king or parlia¬ment would ever appoint someone as its representative or ambassador about whom there exists the least doubt of indulging in anti-government activity, or deviation from its policy or directives. Howev¬er, it is possible that the government may have failed to make a cor¬rect assessment of a person&s ability or loyalty. But with Allah even that element of doubt does not exist. If He knows about a man that he would not over-step the bounds of loyalty and obedience to Him, even in the slightest degree, then it is impossible that he could, later on, prove to be contrary to that assessment. Otherwise, it would mean that Divine knowledge is defective (we seek refuge with Allah! ) Right from here, the question of the ` ismah1 (infallibility) of the prophets, (علیہم السلام) becomes clear. Now that the blessed prophets are free of minor sins, how can the probability of doing shirk (the major sin of asso¬ciating others with Allah) or making revolt against Allah remain valid? 1.` Ismah& means a special protection given to someone by Allah which makes him refrain from sins. For the purpose of brevity we may translate it as &infallibility& – editor In this, there is the necessary refutation of the Christians who claimed that it was Masih (علیہ السلام) who asked them to have belief in his sonship and godhead. Also chastised were the Muslims who had gone to the Holy Prophet . (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) trying to find out if it was all right for them to prostrate before him rather than greet him with the usual سلام salam. Also admonished were the people of the Book who had invested their rabbis and monks with the station of God. Refuge with Allah! (Tafsir ` Usmani)

معارف و مسائل : عصمت انبیاء (علیہم السلام) کی ایک دلیل : (ما کان لبشر) وفد نجران کی موجودگی میں بعض یہود و نصاری نے کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری اسی طرح پرستش کرنے لگیں جیسے نصاری عیسیٰ بن مریم کو پوجتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، معاذ اللہ : کہ ہم غیر اللہ کی بندگی کریں، یا دوسروں کو اس کی دعوت دیں، حق تعالیٰ نے ہم کو اس کام کے لئے نہیں بھیجا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ |" یعنی جس بشر کو حق تعالیٰ کتاب و حکمت اور قوت فیصلہ دیتا اور پیغمبری کے منصب جلیل پر فائز کرتا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک پیغام الہی پہنچا کر لوگوں کو اس کی بندگی اور وفاداری کی طرف متوجہ کرے، اس کا یہ کام کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان کو خالص ایک خدا کی بندگی سے ہٹا کر خود اپنا یا کسی دوسری مخلوق کا بندہ بنانے لگے، اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ خداوند قدوس نے جس کو جس منصب کا اہل جان کر بھیجا تھا فی الواقع وہ اس کا اہل نہ تھا۔ دنیا کی کوئی حکومت بھی اگر کسی شخص کو ایک ذمہ داری کے عہدے پر مامور کرتی ہے تو پہلے دو باتیں سوچ لیتی ہے۔ (١) یہ شخص حکومت کی پالیسی کو سمجھنے اور اپنے فرائض انجام دینے کی لیاقت رکھتا ہے یا نہیں ؟ (٢) حکومت کے احکام کی تعمیل کرنے اور رعایا کو جادہ وفاداری پر قائم رکھنے کی کہاں تک اس سے توقع کی جاسکتی ہے، کوئی بادشاہ یا پارلیمنٹ ایسے آدمی کو نائب السلطنت یا سفیر مقرر نہیں کرسکتی جس کی نسبت حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے یا اس کی پالیسی اور احکام سے انحراف کرنے کا ادنی شبہ ہو، بیشک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کی قابلیت یا جذبہ وفاداری کا اندازہ حکومت صحیح طور پر نہ کرسکی ہو، لیکن خداوند قدوس کے یہاں یہ بھی احتمال نہیں، اگر کسی مرد کی نسبت اس کو علم ہے کہ یہ میری وفاداری اور اطاعت شعاری سے بال برابر تجاوز نہ کرے گا تو محال ہے کہ وہ آگے چل کر اس کے خلاف ثابت ہوسکے، ورنہ علم الہی کا غلط ہونا لازم آتا ہے، العیاذ باللہ۔ یہی سے عصمت انبیاء (علیہم السلام) کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔ پھر جب انبیاء (علیہم السلام) ادنی عصیان سے پاک ہیں تو شرک اور خدا کے مقابلہ میں بغاوت کرنے کا امکان کہاں باقی رہ سکتا ہے۔ اس میں نصاری کے اس دعوی کا بھی رد ہوگیا جو کہتے تھے کہ ابنیت و الوہیت مسیح کا عقیدہ ہم کو خود مسیح (علیہ السلام) نے تعلیم فرمایا تھا، اور ان مسلمانوں کو بھی نصیحت کردی گئی جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا کہ ہم سلام کے بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا کریں تو کیا حرج ہے ؟ اور اہل کتاب پر بھی تعریض ہوگئی جنہوں نے اپنے احبارو رہبان کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا، (العیاذ باللہ) ۔ (فوائد عثمانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۝ ٧٩ ۙ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو درس دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب . ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معیر مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩۔ ٨٠) انبیاء کرام میں سے کسی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ دین کی فہم عطا ہونے کے بعد وہ کہے تو لوگ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ کہ تم علماء، فقہاء اللہ تعالیٰ کے تابعدار بندے ہوجاؤ کیوں کہ تم خود بھی کتاب الہی کو جانتے ہو اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہو، اے گروہ قریش ! یاد رکھو وہ اللہ کا بندہ (ربانی) یہود ونصاری کو ہرگز نہیں کہے گا کہ تم فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بناؤ، اور یہی معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی رہا کہ وہ ہر طرح کے شرک سے بیزار رہے گا اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) جب تمہیں اسلام کا حکم دے چکے کہ (آیت) ” فلا تموتن الا وانتم مسلمون (اور تمہاری موت اللہ کی توحید پر ہی آئے) پھر الیعاذ باللہ وہ کفر کے بارے میں کیسے حکم دیں گے ، اللہ تعالیٰ نے جس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بھیجا، اسے دعوت اسلام پر مامور کرکے بھیجا ہے، یہودیت نصرانیت اور بت پرستی کے لیے نہیں بھیجا، جیسا کہ یہ کفار بکتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کے مقولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ ان باتوں کا اس لیے ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت کریں اور جیسا کہ نصاری نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنایا، اسی طرح آپ کو بھی معبود بنائیں، اسی طرح نصاری اور مشرکین کہتے تھے، شان نزول : (آیت) ” ماکان لبشر “ (الخ) ابن اسحاق (رح) اور بیہقی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت اہل نجران میں سے یہود اور نصاری کے عالم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے اور آپ نے سب کو اسلام کی دعوت دی تو رافع قرقلی بولا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو معبود بنالیں، جیسا کہ نصاری نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنایا آپ نے یہ سن کر فرمایا معاذ اللہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور عبدالرزاق نے اپنی تفسیر میں حسن (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم آپ کو اس طرح سلام کرتے ہیں جیسا کہ آپس میں کرتے ہیں تو کیا پھر آپ کو سجدہ کریں، آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ اپنے نبی کی عزت کرو اور جو حق بات (اسلام) کہتا ہے اسے سمجھو، کسی کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے سرجھکائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ ماکان البشر، نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ) (ثُمَّ یَقُوْلَ للنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) یہ اب نصرانیوں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجے ‘ پھر عیسیٰ ( علیہ السلام) ابن مریم کو بھیجا ‘ انہیں کتاب دی ‘ حکمت دی ‘ نبوت دی ‘ معجزات دیے۔ اور اس کا تو کوئی امکان نہیں کہ وہ ( علیہ السلام) کہتے کہ مجھے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا لو ! (وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ) ۔ کتابِ الٰہی کی تعلیم و تعلّم کا یہی تقاضا ہے۔ دین کا سیکھنا ‘ سکھانا ‘ قرآن کا پڑھنا پڑھانا اور حدیث و فقہ کا درس و تدریس اس لیے ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اللہ والے بنایا جائے ‘ نہ یہ کہ اپنے بندے بنا کر اور ان سے نذرانے وصول کر کے ان کا استحاصل کیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67. The term rabbani is used here to denote Jewish religious scholars and functionaries who were supposed to provide true religious guidance to establish their rites of worship, implement religious laws, and so on. The same word occurs in Surah 5: 44 and 63. In the Christian tradition the word 'divine' is used as an equivalent to the word rabbani.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :67 یہودیوں کے ہاں جو علماء مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے اور جن کا کام مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کے قیام اور احکام دین کا اجراء کرنا ہوتا تھا ، ان کے لیے لفظ رَبَّانِی استعمال کیا جا تا تھا جیسا کہ خود قرآن میں ارشاد ہوا ہے لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْت ( ان کے ربّانی اور ان کے علماء ان کو گناہ کی باتیں کرنے اور حرام کے مال کھانے سے کیوں نہ روکتے تھے ) ۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں لفظ ( Divine ) بھی ”ربّانی “ کا ہی ہم معنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: یہ عیسائیوں کی تردید ہورہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا یا خدا کا بیٹا مان کر گویا یہ دعویٰ کرتے تھے کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہی ان کو اپنی عبادت کا حکم دی اہے۔ یہی حال ان بعض یہودی فرقوں کا تھا جو حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(79 ۔ 80) ۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ نجران کے مباحثہ کے وقت ایک شخص ابو رافع یہودی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ کیا آپ ہم سے اپنی ذات کی ویسی عبادت چاہتے ہیں جس طرح سے نصاریٰ لوگ حضرت عیسیٰ کی پوجا کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ اور فرمایا کہ اللہ کے نبی کا یہ کام نہیں کہ سوا اللہ کے کسی کی عبادت کی وہ فرمائش کرے اور طبری نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ یہود اور نصاری اس معاہدہ کے خلاف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو باتیں کرتے تھے جو معاہدہ اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء اور امتوں سے لیا ہے جس کا ذکر سب آسمانی کتابوں میں ہے اس لئے اس آیت اور اوپری کی آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے معاہدہ کا ذکر کر کے ان کو معاہدہ یاد دلایا ہے۔ تاکہ معاہدہ کے پابند ہو کر ایسی باتوں سے پرہیز کریں اور معاہدہ کے موافق اپنے وقت پر ایمان لائیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:79) ولکن۔ اور کونوا کے درمیان یقول محذوف ہے بلکہ وہ تو یہ کہے گا۔ ربنیین۔ زاہد۔ خدا پرست۔ درویش۔ اللہ والے۔ مربی۔ مرشد خلق۔ زبانی کی نسبت ۔ رب کی طرف ہے اس نسبت سے اے ربی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مبالغہ کے لئے الف نون کا اضافہ کردیا ہے۔ جیسے بڑی گھنی ڈاڑھی والے کو لحیانی اور بہت فربہ گردن والے کو رقبانی کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں ربانی کا مطلب ہوگا بالکل اللہ والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 توراۃ وانجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی الوہیت کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان سے اپنی الوہیت کا دعویٰ محال ہے۔ (کبیر) تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نجران کے عیسائی اور مدینہ کے چند یہود علما آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی بنوۃ خدا کا بیٹا ہونے) کا رد کیا او ان مسلمان ہونے کی دعوت دی۔ اس پر ایک یہود عالم نے ابو رافع القرضی کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرنے لگیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے او نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ایضا کبیر) پھر جب نبی اس کا مجاز نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور اٗئمہ اس مرتبہ پر کیسے فائز ہوسکتے ہیں۔ انبیا کی بحیثیت نبی ہونے کی اتباع واجب ہوتی ہے مشائخ اور ائمہ تو واجب الا تباع بھی نہیں ہوسکتے۔ (ابن کثیر بتصرف، شوکانی) الربنی۔ رب پر الف نون بڑھا کر یا نسبت لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرو فرماتے ہیں کہ یہ ربہ یر بہ فھو ربان ہے۔ یعنی صیغہ صفت ربان کے ساتھ یا نسبت ملحق ہے۔ (فتح البیان) بما کنتم میں با برائے مصیبت ہے یعنی چونکہ تم تعلیم ودراست کا مشغلہ رکھتے ہو اس لیے تمہیں عالم باعمل اور خدا پرست بننا چاہیے (بضاوی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں : ہاں تم کو ( اے اہل کتاب) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی کتاب کا پڑھنا اور سکھا نا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سکھنے سکھانے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ فائدہ کسی شخص میں اگر علم اوکتب الہٰیہ کی دراست سے خد اپرستی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ تحضیع اوقات ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے لا ینفع ( اے للہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں و غیر نافع ہو) (رازی۔ فتح البیان ) مضمون اور نزول کے اعبتار سے آیت سابق سے متعلق ہے۔ یہود و نصاریٰ میں نبیوں اور فرشتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ نصاریٰ نے انبیا ( علیہ السلام) اور فرشتوں کی تعظیم میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو الو ہیت کے مقام پر کھڑکر دیا۔ (جامع البیان) حدیث اتخذوا قبور انبیا ھم مساجد او صورو فیھم تیک الصور (کہ انہوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور انمیں ان کی تصویریں لٹکا دیں) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نبی ( علیہ السلام) یا فرشتے کی پرستش صریح کفر ہے اور کوئی ایسی تعلیم یا فلسفہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی ( علیہ السلام) کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ ایا مر کم میں استفہام انکاری ہے یعنی یہ ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ انبیا تو لوگوں کی عبادت الہی کی تعلیم دینے اور مسلمان بنانے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں نہ کہ الٹا کافر بنانے کے لیے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دال ہوں۔ (کبیر) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور ان کے بعد ہر نبی ( علیہ السلام) سے عہد لیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی ( علیہ السلام) کی تصدیق اور اس کی مدد کریگا اور اس بارے میں کسی کی گروہ بندی اور عصیت اس کے راستے رکا وٹ نہیں بنے گی۔ اگر وہ نبی ( علیہ السلام) اس کی زندگی میں آجائے تو بذات خود اس پر ایمان لائے کا ار اگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی ( علیہ السلام) پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم سے جائے گا۔ اساعتبار سے گو یا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) پر اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے آّنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے تمام انبیا ( علیہ السلام) سے فروادایہ عہدلیا گیا تھا کہ اگر ان کے زمانے میں نبی آخرالز مان ظاہر ہوجائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ہوگا۔ (وحیدی) بہر حال آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الا تباع ہیں۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں چند اوراق تھے جو ان کی کسی یہودی نے تورات سے لکھ کردیئے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے وہ اوراق پیش کرنے کی اجا ازت مانگی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میر جان ہے اگر تم میں موسیٰ ( علیہ السلام) بھی آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہوجا و گے۔ (س دارمی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 79 تا 80 ان یؤتیه (یہ کہ اس کو دیا ہو) کونوا (تم ہوجاؤ) عبادً الی (میرے بندے) ربنین (اللہ والے) تعلمون (تم سکھاتے ہو) تدرسون (تم پڑھتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 79 تا 80 سورة آل عمران کی آیت 79 تا 80 تک کی تشریح کے سلسلہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے یہ منقول ہے کہ یہ آیات نخران کے عیسائیوں اور مدینہ کے یہودیوں کے سلسلہ میں نازل ہوئیں، جب مدینہ کے یہودی اور نخران کے عیسائی جمع ہوکر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے ان کو اسلام کی سچی تعلیم کی طرف متوجہ کیا تو ایک یہودی ابورافع نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اسی طرح پرستش کرنے لگیں جس طرح عیسائی عیسیٰ ابن مریم کی پرستش کرتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں عیسائیوں نے بھی کیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مختصر جواب یہی تھا۔ اللہ کی پناہ ، ہم تو اللہ کی بندگی کے سوا کسی کی بندگی اور پرستش کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ ہم اللہ کی ترستش کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنے کسی بندے کو کتاب و حکمت اور نبوت کی دولت سے سرفراز کرکے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجے۔ وہ نبی بجائے اللہ کی عبادت بلانے کے اپنی ہی بندگی کرانے لگے۔ یہ بات ایک گمراہ انسان تو کرسکتا ہے لیکن اللہ کا ایک نیک نبی اور رسول نہیں کرسکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہی بات بتائی ہے کہ انبیاء کرام اللہ کے بھجتے ہوئے انتہائی دیانت دار پیغمبر ہوتے ہیں وہ لوگوں کو اللہ کا بندہ بنانے آتے ہیں خود اپنا بندہ بنانے یا اپنی بندگی کرانے نہیں آتے ۔ ان کی زبان سے یہ بات کبھی ادا نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے فرشتوں اور انبیائے کرام کے سامنے جھکو اور ان کی پرستش کرو۔ بلکہ انبیاء کرام لوگوں کو اللہ والا بنانے کے لئے اپنا فرض منصبی ادا فرماتے ہیں۔ آخر میں ایک بات ارشاد فرمائی کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جب تم ایمان کی دولت سے سرفراز ہوچکے ہو تو کوئی تمہیں کفر کی دعوت دے۔ اللہ کی کتابیں اسی کی تعلیم دیتی ہیں کہ ہر انسان اللہ کا بندہ بن جائے۔ توریت اور انجیل کی آیات خود اس پر گواہ ہیں اس میں کہیں بھی اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اپنا بیٹا نہیں کہا ہے۔ بلکہ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہنا کچھ لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جن کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ بنی سے امر بعبادت غیر اللہ شرعا منفی ومحال ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو کتاب ‘ نبوت اور حکمرانی سے نوازا۔ اس لیے ان کے بہانوں میں ایک بہانہ یہ تھا کہ ہمیشہ سے کتاب ‘ نبوت اور حکومت ہمیں ملتے آئے ہیں۔ اب ہم کسی دوسرے شخص کو نبی کیوں تسلیم کریں۔ یہاں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب ‘ حکومت اور نبوت سے نوازے تو وہ لوگوں کو اللہ کا بندہ بنانے کی بجائے اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ لہٰذا تمہیں لوگوں کو اپنا بندہ بنانے کی بجائے خود اللہ کے بندے بننا چاہیے یہی اسلام کی دعوت اور مسلمان ہونے کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وفد نجران آیا آپ نے ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق وحی کی صورت میں جب ٹھوس اور مکمل معلومات فراہم کردیں تو وہ لاجواب اور کھسیانے ہو کر کہنے لگے تو پھر ہمیں آپ کی عبادت کرنی چاہیے ؟ ہمیں تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسی طرح عبادت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے جواب میں یہ وضاحت نازل ہوئی کہ کسی بشر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب ‘ نبوت و حکومت کے ساتھ سرفراز فرمائے تو وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حکم دینے کے بجائے اپنی بندگی پر آمادہ کرے۔ پیغمبر تو لوگوں کو رب کے بندے بنانے کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں اسی کی وہ تعلیم دیتے اور تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا حکم بھی نہیں دیتے کہ لوگ ملائکہ اور انبیاء کو رب یا اس کا جزو بنالیں وہ تمہیں کیونکر کفر کا حکم دے سکتے ہیں جب کہ تم مسلمان ہو۔ جہاں تک عیسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق ہے تو وہ دوٹوک الفاظ میں کہا کرتے تھے کہ میرا اور تمہارا رب ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محشر کے میدان میں جب ان سے یہ سوال ہوگا کہ اے عیسیٰ ! کیا تو نے عیسائیوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو الٰہ بنالو ؟ تو عیسیٰ (علیہ السلام) تھر تھر اتے ہوئے رب ذو الجلال کے حضور عرض کریں گے کہ بارالٰہ ! ایسی بات میں کیونکر کہہ سکتا تھا جسے کہنے کی مجھے اجازت نہ تھی۔ اگر میں نے ایسی بات کہی ہے تو تجھے معلوم ہے۔ تو میرے دل کی حالت سے بھی واقف ہے جب کہ میں تیرے فیصلے کو نہیں جانتا۔ میں نے تو صرف یہ بات کہی تھی کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے (المائدۃ : ١١٦، ١١٧) ۔ یہی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر ارشاد فرمائی جب ایک صحابی نے ملک فارس سے واپسی پر آپ کے قدموں پر سجدہ کرنے کی کوشش کی تو آپ نے اسے پیچھے ہٹا تے ہوئے فرمایا کہ اگر میں نے سجدہ کرنے کی اجازت دینا ہوتی تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ ریز ہواکرے۔ لیکن یادرکھو ! اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے اور کسی کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں ہے۔ (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ إِنّيْ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَّسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِيْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے انہیں بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بتلائیے ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے ؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا ہے۔ اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ “ مسائل ١۔ کسی پیغمبر کو بھی اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ ٢۔ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو اللہ ہی کا بندہ بننے کی تلقین فرماتے تھے۔ ٣۔ آسمانی کتاب ‘ حکومت اور کسی کو نبوت دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ ٤۔ ملائکہ اور انبیاء یا کسی دوسرے کو الٰہ کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔ ٥۔ ملائکہ ‘ انبیاء اور کسی بزرگ کو خدائی درجہ دینا کفر ہے۔ ٦۔ شرک اور کفر باہم مترادف ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ عبد ہیں اور اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک رب ہے اور تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں ۔ اس لئے اس بات کا امکان ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے مقام ربوبیت کو مخصوص کریں ۔ کیونکہ مقام الوہیت کا تو پھر تقاضایہ ہے لوگ عبادت بھی نبی کی کریں ۔ اس لئے کوئی نبی لوگوں کو یہ نہیں کہہ سکتا کُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللّٰہِ……………” تم اللہ کے سوا میرے بندے بن جاؤ۔ “ نبی کی دعوت تو یہ ہوتی ہے کہ کُونُوا رَبَّانِینَ……………” تم سب ربانی بن جاؤ۔ “ اس لئے کہ جس کتاب کا تم نے علم حاصل کیا ہے ۔ اس کی تعلیمات یہی ہیں ۔ اور جس کی تم تدریس کرتے ہو اس کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اس لئے علم کتاب اور تدریس کا یہ تقاضا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی ہو ‘ پس نبی کیسے لوگوں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ نبیوں اور فرشتوں کو اللہ کے علاوہ رب بنالیں ۔ اس لئے کہ نبی اسلام لانے کے بعد لوگوں کو کفر کا حکم کیسے دے سکتا ہے ۔ حالانکہ اس کا مقام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے ۔ یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت پانے کے بعد گمراہ کردے ۔ وہ اسلام کی طرف ان کا قائد ہے ‘ اسلام سے نکالنے کے لئے ان کا قائد نہیں ہے۔ اس فارمولے کے مطابق وہ بات محال ہوجاتی ہے ۔ جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ نیز ان کا یہ جھوٹ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تمام آیات وروایات جو وہ پڑھتے ہیں اللہ اور رسول کی طرف سے ہوسکتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ جو بات کہتے ہیں اس کی حیثیت ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ اور وہ دعویٰ بےاعتبار ہوجاتا ہے جسے وہ بابار اسلامی صفوف میں شبہات اور خلجان پیدا کرنے کے لئے دہراتے ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن کریم نے انہیں اچھی طرح ننگا کرکے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ جماعت مسلمہ کے سامنے کھلے میدان میں ننگے ہوگئے ہیں ۔ ان لوگوں کی مثال بھی بعینہ ان اہل کتاب جیسی ہے جو علم دین کے مدعی ہیں جیسا کہ ہم اس سے پہلے بالتفصیل بیان کر آئے ہیں ۔ یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات ان کے سامنے پیش کی جائیں ۔ کیونکہ یہ لوگ بھی قرآنی نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اللہ کے سوا کئی ارباب قائم کر رکھے ہیں اور وہ ہر وقت اس تاک میں لگے رہتے ہیں کہ آیات کو توڑ موڑ کر ان سے وہ مفاہیم نکالیں جو خود انہوں نے گھڑرکھے ہیں ۔ وَیَقُولُونَ ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَمَا ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَھُم یَعلَمُونَ ” وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ “ اس کے بعد تمام رسولوں اور رسالتوں کے قافلہ ایمانی کے درمیان ‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے حوالے سے ‘ ایک مضبوط رابطے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق وہ تمام لوگ اس عہد کو توڑنے والے اور فاسق قرار پاتے ہیں جو نبی آخرالزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے ۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اللہ سے کئے ہوئے عہد سے منحرف ہوتے ہیں ‘ بلکہ وہ اس پوری کائنات کے ناموس اعظم سے بھی خارج ہوجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر نبی کی دعوت ہوتی تھی کہ اللہ والے بن جاؤ لباب النقول صفحہ ٥٤ میں ہے کہ جب مدینہ کے یہودی اور نجران کے نصاریٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جمع ہوئے اور آپ نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو ابو رافع نے کہا (جو یہود کے قبیلہ بنی قریظہ سے تھا) اے محمد ! آپ جو چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں جیسے نصرانی عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں آپ نے فرمایا معاذ اللہ (اللہ کی پناہ) میں ایسی دعوت کیوں دینے لگا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ اور حضرت حسن بصری (رض) نے فرمایا کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کو اسی طرح سلام کرتے ہیں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے کیا ہم ایسا نہ کریں (کہ آپ کی رفعت اور عظمت ظاہر کرنے کے لیے) آپ کو سجدہ کریں آپ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو اپنے نبی کا اکرام کرو اور صاحب حق کا حق پہچانو۔ کیونکہ اللہ کے سوا کسی کے لیے سجدہ کرنا درست نہیں ہے اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ (روح المعانی صفحہ ٢٠٧: ج ٣) اوپر آیت کے دو سبب نزول بیان ہوئے اگر دونوں ہی ہوں تو اس میں کوئی بات قابل اشکال نہیں آیت میں صاف صاف واضح طور پر بیان فرمایا کہ جس کسی بشر کو اللہ پاک کتاب اور حکمت عطا فرمائے اور نبوت سے نوازے اس کے لیے کسی طرح سے بھی یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے بندہ بنانے کی دعوت دے۔ نبیوں کا کام تو یہ تھا کہ لوگوں کو خدائے پاک کی بندگی کی طرف بلائیں اور خدا کا بندہ بنائیں وہ خدائے پاک کی عبادت چھڑا کر اپنی عبادت یا کسی بھی غیر اللہ کی طرف دعوت نہیں دے سکتے اس میں نصاریٰ کی تردید ہوگئی جو یہ کہتے تھے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اور اپنی ماں کی عبادت کی دعوت دی ہے۔ اور یہودیوں کے اس قول کا بھی رد ہوگیا جنہوں نے کہا کہ اے محمد ! تم اپنی عبادت کرانا چاہتے ہو۔ جس کسی بھی بندہ کو اللہ نے نبوت سے سر فراز فرمایا اس نے یہی دعوت دی کہ تم ربانی بن جاؤ، اللہ پر ایمان لاؤ اسی کی عبادت کرو۔ قولہ تعالیٰ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتَابَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ، اس کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب روح المعانی صفحہ ٢٠٨: ج ٢ میں لکھتے ہیں کہ الباء السببیۃ متعلقۃ بکونوا ای کونوا کذلک بسبب مثابر تکم علی تعلیمکم الکتاب و دراستکم لہ و المطلوب ان لا ینفک العلم عن العمل اذلا یعتد احد ھما بدون الآخراس کا مطلب یہ ہے کہ باء سببیہ ہے جار مجرور کُوْنُوْا سے متعلق ہے۔ یعنی تم لوگ ربانی ہوجاؤ۔ اس وجہ سے کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور کتاب کو پڑھتے ہو جس کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جس کو پڑھتے پڑھاتے رہے ہو اس کا تقاضا یہی ہے کہ ربانی بنو اور جو تمہارے پاس علم ہے اس پر عمل کرو کیونکہ علم بغیر عمل کے معتبر نہیں اور عمل بغیر علم کے صحیح نہیں۔ ربانی کون ہیں ؟ لفظ رَبّٰنِیّٖنَربانی کی جمع ہے جو رب کی طرف منسوب ہے نسبت میں الف اور نون زائد کردیا گیا ہے۔ لفظ ربانی کا معنی بتاتے ہوئے حضرات مفسرین کرام نے صحابہ (رض) اور تابعین کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں معالم التنزیل صفحہ ٣٢٠: ج ١ میں حضرت علی اور ابن عباس اور حسن سے کونوا ربانیین کا معنی نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کونوا فقھاء، علماء اور حضرت قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ حکماء و علما اور سعید بن جبیر نے فرمایا العالم الذی یعمل بعلمہ اور حضرت ابن عباس کا ایک قول یہ ہے۔ فُقَھَاء مُعَلِّمِیْناور حضرت علی (رض) کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے۔ ھو الذی یوتی علمہ بعملہ۔ مجموعی طور پر ان سب اقوال کا خلاصہ یہی ہوا کہ ربانی وہ لوگ ہیں جو اہل علم ہیں فقیہ ہیں حکیم ہیں متقی ہیں اپنے علم پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی حق کی راہ بتاتے ہیں اور حق پر چلاتے ہیں۔ اور ایمان تو بہر حال ثواب اور نجات آخرت کے لیے شرط ہے ہی، یہ سب چیزیں ہوں اور باایمان ہو تب ربانی کا مصدق ہوگا جس کا ترجمہ حضرت حکیم الامت تھانوی نے اللہ والے فرمایا۔ یہ ترجمہ بہت جامع ہے اس میں علم اور عمل تعلیم تدریس عبادت اخلاق حسنہ سب کچھ آجاتا ہے۔ ربانیین کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی عمل پر ڈالیں۔ سورة مائدہ میں فرمایا (لَوْ لَا یَنْھٰھُمْ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ ) (کیوں نہیں روکتے ان کو ربانی لوگ اور اہل علم گناہ کی باتیں کرنے سے اور حرام کھانے سے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

111 ایک شبہ کا جواب :۔ نصاری نجران نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود انہیں فرماگئے ہیں کہ ان کو رب بنا لینا اور ان کی عبادت کرنا اور ان کو پکارنا، جیسا کہ آجکل کے پیر پرست حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر حضرت عیسیٰ اور باقی تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے صفائی دی۔ ان نصاریٰ نجران کانوا یقولون ان عیسیٰ امرھم ان یتخذوہ ربا فقال اللہ تعالیٰ ردا علیہم ما کان لبشر الخ (معالم و خازن ج 1 ص 312) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو کتاب اور نبوت عطا کرے اور اسے علم وفہم سے نوازے تو اس سے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اللہ تو اسے بھیجے توحید کی دعوت دینے کے لیے اور وہ لگ جائے اپنی عبادت کی دعوت دینے میں یہ ایک ناممکن بات ہے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کچھ ایسی صفات سے متصف ہوتے ہیں کہ وہ الوہیت اور ربوبیت کا دعوی نہیں کرسکتے۔ ان الانبیاء علیہم الصلوہ والسلام موصوفون بصفات لا یحسن مع تلک الصفات ادعاء الالہیۃ والربوبیۃ الخ (کبیر ج 2 ص 723) 112 وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی پیغمبر لوگوں کو اپنی بندگی اور عبادت کی طرف بلائے بلکہ ہر پیغمبر لوگوں سے یہی کہتے گا کہ تم سب اللہ والے بن جاؤ اللہ کے دین کو مانو اور اس پر عمل کرو۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو یہی تلقین کی تھی۔ 113 یہ کُوْنُوْا سے متعلق ہے۔ با سببیہ اور مَا مصدریہ ہے۔ یعنی تم لگاتار اللہ کی کتاب کے پڑھنے، پڑھانے اور درس و تدریس میں لگے رہتے ہو۔ اس لیے تمہیں تو ہر حال میں باطل اور شرکیہ عقائد سے بچنا چاہئے اور صرف خدائے واحد کی عبادت کرنی چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi