Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 85

سورة آل عمران

وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵﴾

And whoever desires other than Islam as religion - never will it be accepted from him, and he, in the Hereafter, will be among the losers.

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الاِسْلَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ ... And whoever seeks a religion other than Islam, it will never be accepted of him, whoever seeks other than what Allah has legislated, it will not be accepted from him. ... وَهُوَ فِي الاخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ and in the Hereafter he will be one of the losers. As the Prophet said in an authentic Hadith, مَنْ عَمِلَ عَمَلً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَد Whoever commits an action that does not conform to our matter (religion) then it is rejected.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] اس آیت میں پہلی بات کو ہی دوسرے الفاظ میں دہرایا گیا ہے۔ یعنی دور نبوی کے یہود و نصاریٰ کی زبانوں سے اس امر کی شہادت ادا ہوچکی تھی کہ آپ جو تعلیم لائے ہیں وہ وہی ہے جو سابقہ انبیاء کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے جو مخالفت کی تو اس کی وجہ محض تعصب اور مفاد پرستی تھی۔ لہذا ایسے لوگوں کا کوئی عمل بھی قابل قبول نہ ہوگا اور آخرت میں ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے جس کے بدلے انہیں دردناک عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّبْتَـغِ ۔۔ : یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہوجانے کے بعد جو شخص آپ کی فرماں برداری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، یا کسی پہلے راستے پر چلتا رہے گا، وہ چاہے کتنا توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہو، اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دین داری اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں نامراد و ناکام ہوگا۔ واضح رہے کہ اگرچہ تمام انبیاء کا دین اسلام تھا، مگر آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اسلام صرف آپ کی پیروی کا نام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں بھی اب اسلام سے یہی مراد ہوتا ہے، اس معنی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ) [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ ۔۔ : ١٨/١٧١٨، عن عائشۃ (رض) ] ” جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The literal meaning of &Islam& is &submission and obedience.& As a term &Islam& stands for submission to that particular religion which Allah Almighty has sent through his prophets (علیہم السلام) to guide human beings, because fundamental principles are the same in the religious codes of all prophets (علیہم السلام) . Correspondingly, there are occasions when &Islam& is used in that general sense, while there are other occasions when it is used exclusively to identify the Last Shari&ah which was revealed to the Last of the Prophets (علیہ السلام) . Both these kinds of application are present in the Holy Qur&an. That the past prophets called themselves &Muslim& and their communities, the &Muslim& community, stands proved under the authority of several wordings of the Qur&anic text. Concurrently, this name has also been used as a particular name of the community the Last of the Prophets: هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا It was He who named you Muslims before, and in this (Qur&an). (22:78) In short, every Divine religion which came through a prophet is also called &Islam&. Then, it is also used as a particular title for the Muslim community. Now, the question is as to which sense does the word, &Islam&, carry at this place in the Holy Qur&an? The correct position is that, no matter which of the two meanings is taken, it does not make much of a difference in terms of the outcome, since the name of &Islam& given to the religion of past prophets was for a limited group of people and a specified period of time. That was the &Islam& of that time. Restricted to the specific group or community, that &Islam& was not meant to serve as a universal code for all times to come. As such when a particular prophet departed and was replaced by another prophet, ` Islam& (i.e. the specific code) of that time ceased to be operative. The &Islam& of the said time was to be what the new prophet presented. Obviously, there was no difference be¬tween these different codes in so far as the fundamentals are con-cerned, however, the subsidiary injunctions might differ. As for the &Islam& given through the last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) it will remain un¬abrogable and will serve as a permanent code right upto the Day of Judgment. And, in accordance with the cited rule, all previous religions stand abrogated after the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as been sent. Now, they are not Islam as such anymore. Instead, Islam is the name of that particular religion which has reached us through the Holy Prophet, Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Therefore, it appears in authentic ahadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Had Musa been living this day, following me would have been incum¬bent upon him too.& In yet another hadith, he has been reported to have said that ` Isa (علیہ السلام) ، when he appears close to the Day of Resurrection, he too, inspite of holding his distinction and office of prophethood, would follow no other religious code except that of his (the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) of Islam). Therefore, at this place, no matter what sense is taken of Islam - the general or the particular - the outcome of both is the same, that is, after the coming of the Last of the Prophets (علیہم السلام) ، only that relig¬ion, and that alone, will be termed as Islam which has come to the world through him. On belief in that alone depends the salvation نجات (najat) of all human beings for it is their indispensable need. This ex-plains what has been said in the present verse: &Whoever seeks a faith other than Islam, it will never be accepted from him.& Details about this subject have already appeared under the commentary on the verse (3:19).

خلاصہ تفسیر اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ (دین) اس (شخص) سے (خدا تعالیٰ کے نزدیک) مقبول و (منظور) نہ ہوگا اور (وہ شخص) آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا (یعنی نجات نہ پائے گا) ۔ معارف و مسائل : اسلام کی تعریف اور اس کا مدار نجات ہونا : |" اسلام |" کے لفظی معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، اور اصطلاح میں خاص اس دین کی اطاعت کا نام |" اسلام |" ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے، کیونکہ اصول دین تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں ایک ہی ہیں۔ پھر لفظ |" اسلام |" کبھی تو اس عام مفہوم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی صرف اس آخری شریعت کے لئے بولا جاتا ہے جو خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، قرآن کریم میں یہ دونوں طرح کے اطلاقات موجود ہیں، انبیاء سابقین کا اپنے آپ کو مسلم کہنا اور اپنی امت کو امت مسلمہ کہنا بھی نصوص قرآن سے ثابت ہے، اور نام کا خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے ساتھ مخصوص ہونا بھی مذکور ہے۔ (ھو سمکم المسلمین من قبل وفی ھذا۔ ٢٢: ٧٨) خلاصہ یہ کہ ہر دین الہی جو کسی نبی و رسول کے ذریعے دنیا میں آیا اس کو بھی |" اسلام |" کہا جاتا ہے، اور امت محمدیہ کے لئے یہ خاص لقب کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس جگہ |" اسلام |" کے لفظ سے کونسا مفہوم مراد ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں میں سے جو بھی مراد لیا جائے، نتیجہ کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ انبیاء سابقین کے دین کو جو اسلام کا نام دیا گیا ہے وہ ایک محدود طبقہ اور مخصوص زمانے کے لئے تھا، اسوقت کا اسلام وہی تھا، اس طبقہ اور امت کے علاوہ دوسروں کے لئے اس وقت بھی وہ اسلام معتبر نہ تھا اور جب اس نبی کے بعد اور کوئی نبی بھیج دیا گیا تو اب وہ اسلام نہیں رہا، اس وقت کا اسلام وہ ہوگا جو جدید نبی پیش کرے، جس میں یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہوگا مگر فروعی احکام مختلف ہوسکتے ہیں، اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو اسلام دیا گیا وہ ناقابل نسخ دائمی تا قیامت رہے گا، اور حسب قاعدہ مذکورہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد پچھلے تمام ادیان منسوخ ہوگئے، اب وہ اسلام نہیں بلکہ اسلام صرف وہ دین ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے پہنچا، اسی لئے احادیث صحیحہ معتبرہ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو اس وقت ان پر بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قریب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے، تو باوجود اپنے وصف نبوت اور عہدہ نبوت پر قائم رہنے کے اس وقت وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی شریعت کا اتباع کریں گے۔ اس لئے اس جگہ خواہ اسلام کا مفہوم عام مراد لیں یا مخصوص امت محمدیہ کا دین مراد لیں، نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد صرف وہی دین اسلام کہلائے گا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ دنیا کو پہنچا ہے۔ وہی تمام انسانوں کے لئے مدار نجات ہے، آیت مذکورہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین جو شخص اختیار کرے وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں، اس مضمون کی مزید تفصیل اسی سورة کی آیت (ان الدین عنداللہ الاسلام) کے تحت جلد دوم میں گزر گئی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝ ٠ ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٨٥ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ جنت اور اس کی نعمتوں سے محروم ہونے والوں اور دوزخ میں جانے والوں اور آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ شان نزول : (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام “ (الخ) سعید بن منصور نے عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام “۔ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو یہودی بولے کہ وہ مسلمان ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ فرض کیا ہے وہ بولے ان پر فرض نہیں ہے اور حج کرنے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی (آیت) ” ومن کفر فان اللہ غنی “ (الخ) کہ جو منکر ہو تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے غنی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:85) یبتغ۔ اصل میں ینتغی تھا۔ من عامل کی وجہ سے غ جو آخری متحرک حرف تھا ساکن ہوگیا۔ ی بوجہ ساکنین کے گرگئی۔ ی کی موجودگی کو ظاہر کرنے کے لئے غ مکسور کردی گئی مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ ابتغاء مصدر۔ چاہے۔ ڈھونڈھے۔ طلب کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 تشریح کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت2 یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہوجا نے کے بعد جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرما نبر داری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا یا کسی پہلے راستہ پر چلنا رہے گا وہ چا ہے کتنا ہی توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیا ( علیہ السلام) پر ایمان رکھنے والا ہو اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دینداری اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہ ہوگی اور وہ آخرت میں نامراد و ناکام ہوگا۔ اس معنی ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رشاد بھی ہے۔ من عمل عملا لیس علیہ امر نا فھو رد یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں ہے وہ مردود ہے۔ ابن کثیر۔ شوکانی ) 3 یعنی جو لوگ حق کے پوری طرح واضح ہوجانے اور انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شچا نبی ہونے کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود محض کبر وحسد اور حب جادو مال کی بنا پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد پھر مرتد ہوگئے وہ دوسرا ظالم وبد بخت ہیں۔ ایسے لوگوں کو راہ ہدایت دکھا نا اللہ تعالیٰ کا قانون کا قانون نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرتد کافر سے زیادہ مجرم ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دین اسلام کے سوا کوئی دین عند اللہ مقبول نہیں : آخر میں فرمایا : (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) (یعنی جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو طلب کرے گا تو ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا) دین اسلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعہ بھیجا اور اسی کو آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے جس کا سورة مائدہ میں اعلان فرمایا : (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) یہ دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول و معتبر ہے اس کے علاوہ جو بھی دین کوئی شخص اختیار کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگا خواہ کتنی ہی عبادت کرے۔ اس کی مزید تشریح اور تو ضیح کے لیے سورة بقرہ کی آیت اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا (آخر تک) کی تفسیر مطالعہ کی جائے۔ نیز آیت شریفہ (اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ ) کا مطالعہ کیا جائے جو سورة آل عمران کے رکوع نمبر ٢ میں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

123 دین اسلام کی حقانیت اور اس کے پسندیدہ حق ہونے کا اعلان کرنے کے بعد اسلام سے اعراض کرنے والوں کو تخویف اخروی کے ساتھ زجر فرمایا کہ جو شخص دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے اور توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرے تو وہ عنداللہ مقبول نہیں ہوگا اور اس کے تمام اعمال رائیگاں ہونگے اور وہ آخرت میں ان اعمال سے محروم ہو کر دائمی عذاب میں مبتلا ہوگا یہی خسران آخرت کا مفہوم ہے۔ والخسران فی الآخرۃ ھو حرمان الثواب و حصول العقاب (روح ج 3 ص 216) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اسلام کا ماحصل بیان کرنے کی غرض سے فرما دیجئے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور وہ احکام جو ہم پر نازل کئے گئے ہیں ان پر بھی ایمان لائے اور اس حکم پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) پر اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی ہر اولاد میں سے جو نبی ہوئے ہیں ان پر نازل کیا گیا ہے اور ہم اس چیز پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے نبیوں کو عطا کی گئی تھی ہم ان پیغمبروں میں سے کسی ایک کو بھی ایمان لانے میں جدا نہیں کرتے یعنی تفریق اس طرح کہ کسی پر ایمان لائیں اور کسی پر ایمان نہ لائیں یا کسی کو رسول مانیں اور کسی کو نہ مانیں اور ہم تو اللہ تعالیٰ ہی کے فرمانبردار اور تابع فرمان ہیں اور جو شخص مذہب اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی خواہش کرے گا اور کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ دین اس شخص کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ہرگز مقبول و منظور نہیں ہوگا اور وہ شخص آخرت میں سخت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا یعنی بالکل دیوالیہ ہوگا ۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ وہ تمام آسمانی کتابوں اور تمام نبیوں کو حق مانتا ہے خواہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) یا اسحاق (علیہ السلام) و یعقوب (علیہ السلام) ہوں خواہ یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں جو نبی ہو گزرے ہیں وہ ہوں اور ان کی تعلیمات ہوں اور خواہ موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ ہو۔ غرض ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرماں بردار ہیں اور یہی اسلام ہے اور اسی بنا پر ہم مسلمان ہیں ہمارے ہاں انبیاء (علیہم السلام) میں کوئی تفریق نہیں بلکہ ہم سب کو رسول مانتے ہیں اور اسی سلسلے کی آخری کڑی نبی آخر الزماں کو تسلیم کرتے ہیں اور جب ہم ہر پیغمبر پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تعلیم کو حق مانتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اہل کتاب اس آخر ی نبی پر ایمان نہ لائیں اور اس کے دین کو جس کا نام ہمیشہ سے اسلام چلا آتا ہے قبول نہ کریں اسلام کی وضاحت اور مسلمانوں کے عقیدے کا اظہار کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ جو کوئی شخص اس اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین کی جستجو کرے گا اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا وہ دین اللہ تعالیٰ کی جناب میں غیر مقبول اور قابل رد ہوگا اور جب کوئی ناقابل قبول دین لے کر قیامت میں آئے گا تو سوائے اس کے کہ نقصان اٹھائے اور کیا ہوگا۔ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ خاسر اس تاجر کو کہتے ہیں جو راس المال اور نفع سب ختم کردے اور قرآن عام طور سے اس زندگی پر تجارت کے الفاذ استعمال کرتا ہے کیونکہ یہ زندگی انسان کا راس المال ہے جو شخص اس راس المال کو برباد کرکے قیامت میں حاضر ہوگا اس کا حشر یہی ہوگا کہ وہ قیامت میں خالی ہاتھ پھرتا ہوگا اور سوائے نقصان کے اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ پہلے پارے میں ہم تفصیل سے عرض کرچکے ہیں۔ آیت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جب تک نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے اور ان کی شریعت کو معمول بہانہ بنائے اس وقت تک نجات نہیں ہوسکتی کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد آپ ہی کی شریعت انسانوں کے لئے موجب فلاح و موجب نجات ہے ۔ جس طرح آفتاب کا نور تمام روشنیوں کو معطل اور بےکار کردیتا ہے اسی طرح محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے نور نے تمام انوار سابقہ کو ختم کردیا ہے۔ اب آگے ان لوگوں کا ذکر ہے جو جان بوجھ کر اور صداقت اسلام سے پوری واقفیت رکھنے کے باوجود اسلام کے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں یا قبول کرکے مرتد ہوجاتے ہیں اور دین سے پھرجاتے ہیں چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)