Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 87

سورة آل عمران

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ اَنَّ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃَ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۸۷﴾

Those - their recompense will be that upon them is the curse of Allah and the angels and the people, all together,

ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالٰی کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are those whose recompense is that on them (rests) the curse of Allah, of the angels and of all mankind. Allah curses them and His creation also curses them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یہاں سب لوگوں سے مراد مسلمان ہیں اور اس لحاظ سے سب لوگ بھی ہوسکتے ہیں کہ اجمالاً ہر شخص جھوٹے بدعہد اور دغا باز پر لعنت بھیجتا ہے اور آخرت میں تو کافر خود بھی ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور اپنے قصور کا الزام دوسرے کے سر تھوپیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ جَزَاۗؤُھُمْ اَنَّ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃَ اللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝ ٨٧ ۙ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧۔ ٨٨) ایسے لوگوں کی سزا یہی ہے کہ ان پر عذاب الہی اور فرشتوں اور تمام مسلمانوں کی لعنت نازل ہوئی ہے۔ اس لعنت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کسی قسم کی ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

126 یہ تخویف اخروی ہے۔ اولئک سے مذکورہ بالا صفات شنیعہ کے حاملین کی طرف اشارہ ہے یعنی جو لوگ حق کو سمجھ بوجھ کر محض ضدوحسد کی وجہ سے کفر و انکار کرتے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنت، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اللہ کی لعنت تو یہ ہے کہ اللہ انہیں اپنی رحمت سے دور اور جنت سے محروم اور عذاب میں مبتلا کردے۔ فرشتوں اور انسانوں کی لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ زبان سے ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لعنتہ بالابعاد من الجنۃ وانزال العقوبۃ والعذاب واللعنۃ من الملائکتہھی بالقول وکذالک من الناس الخ (کبیر ج 2 ص 738) اور الناس سے مراد تمام انسان ہیں خواہ مسلمان ہوں خواہ کافر۔ کیونکہ کافر بھی ہر جھوٹے اور باطل پرست پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اگرچہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی جھوٹے اور باطل پرست ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi