Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 89

سورة آل عمران

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا ۟ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۸۹﴾

Except for those who repent after that and correct themselves. For indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Except for those who repent after that and do righteous deeds. Verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. This Ayah indicates Allah's kindness, graciousness, compassion, mercy and favor on His creatures when they repent to Him, for He forgives them in this case.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 انصار میں سے ایک مسلمان مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا لیکن جلدی ہی اسے ندامت ہوئی اور اس نے لوگوں کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پیغام بھجوایا کہ میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا اگرچہ بہت سخت ہے کیونکہ اس نے حق پہچانن... ے کے بعد بغض اور عناد اور سرکشی سے حق سے انکار کیا تاہم اگر کوئی خلوص دل سے توبہ اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے اس کی توبہ قابل قبول ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] ہاں وہ لوگ ایسے عذاب سے بچ سکتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کرلی۔ ایمان لے آئے اور مخالفت سے رک گئے۔ اپنے اعمال و افعال کی اصلاح کرلی اور اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ بن کر ان کی معاونت کرنے لگے تو ایسے لوگوں کے سابقہ گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشرک صدق دل سے توبہ کرلے اور دوبارہ اسلام لے آئے تو اللہ تعالیٰ اس کی پچھلی غلطی کو معاف کردیتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” انصار میں سے ایک آدمی اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا، پھر وہ پشیمان ہوا اور اس نے اپنے قبیلے کے لو... گوں سے کہلا بھیجا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرو کہ آیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (اس کے بھائی نے) اسے یہ آیت بھیج دی اور وہ دوبارہ مسلمان ہوگیا۔ [ نسائی، تحریم الدم، باب توبۃ المرتد ۔۔ : ٤٠٧٣ وقال الالبانی صحیح ] اس شخص کا نام حارث بن سوید تھا۔ (طبری) کسی شخص کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جائے گا، فرمایا : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ) [ البقرۃ : ٢٥٦] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ “ مگر کوئی مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو، پھر ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ ) ” جو اپنا دین (یعنی اسلام) بدل لے اسے قتل کر دو ۔ “ [ بخاری، استتابۃ المرتدین و المعاندین وقتالہم، باب إثم من أشرک ۔۔ : ٦٩١٨ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا۝ ٠ ۣ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٨٩ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وه... ذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩۔ ٩٠) البتہ جو لوگ مرتد ہونے کے بعد اس کفر و شرک میں سے توبہ کرلیں اور خلوص کے ساتھ توحید خداوندی کے قائل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی مغفرت فرمانے والے اور جو توبہ کرے اس پر رحمت فرمانے والے ہیں اور جو لوگ ایمان باللہ کے بعد مرتد ہو کر اسی پر جمے رہے تو جب تک اس پر قائم رہیں گے ہ... رگز ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور یقیناً ایسے لوگ ہدایت اور دین اسلام سے بےراہ ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْاقف) ۔ یعنی سچے دل سے ایمان لا کر عمل صالح کی روش پر گامزن ہو جائیں (فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ اگر مرتد صدق دل سے توبہ کرلے اور دوبارہ اسلام لے آئے تو اللہ تعالیٰ اس کی پچھلی غلطی کو معاف فرمادیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک آدمی (حارث بن سوید) اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ پھر وہ نادم ہوا اور اس نے اپنے قبلے کے لوگوں سے ک... ہلا بھیجا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرو کہ آیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے۔ ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کے پاس یہ آیت بھیج دی اور وہ دوبارہ مسلمان ہوگیا اور سچا مسلمان رہا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) البتہ جو شخص ارتداد پر اصرا کرے اس کی سزا قتل ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی منافقانہ طور پر صرف زبان سے توبہ کافی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے لیے توبہ کی گنجائش اور توبہ کرنے پر مہربانی کا وعدہ۔ توبہ کا معنٰی پلٹنا ہے جس سے مراد آدمی کا اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے کیونکہ یہ شخص اپنے گناہوں اور جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے الگ اور اس کی رحمت سے دور ہوگیا تھا۔ اب یہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہے اور اس نے ... توبہ کی ایسے شخص کو تائب کہتے ہیں۔ جب لفظ توبہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو معنٰی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر توجہ فرمائی۔ توبہ کی تکمیل کے لیے دو شرطیں ازحد ضروری ہوا کرتی ہیں 1 سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا جسے قرآن و حدیث میں استغفار کہا گیا۔ 2 دوسری شرط یہ ہے کہ آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرے کہ اِلٰہی آئندہ میں اس گناہ سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ ذاتی اصلاح کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے معاشرے میں جو گناہ پھیلا ہے اس کی تردید اور اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے بھی کوشش کرتا رہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ یقیناً اس کے گناہوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف فرمانے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ مسائل ١۔ توبہ اور اصلاح کرلینے والوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ کی شرائط : ١۔ اعتراف جرم کے سبب توبہ قبول ہوتی ہے۔ (البقرۃ : ٣٧) ٢۔ ظلم سے اجتناب اور اصلاح احوال کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (المائدۃ : ٣٩) ٣۔ جہالت کے سبب گناہ کرکے اصلاح کرنے پر اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٤۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ (التوبۃ : ٢٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ (آل عمران : ١٣٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رہے وہ لوگ جو توبہ نہیں کرتے اور نہ باز آتے ہیں وہ لوگ جو اپنے کفریہ رویے پر اصرار کرتے ہیں اور کفر میں آگے ہی بڑھتے ہی اور جو لوگ کفر ہی کی پناہ میں رہتے یہاں تک کہ وقت دیا ہوا ختم ہوجائے اور اختیار اور رد و قبول کی میعاد چلی جائے اور وہ وقت آپہنچے جس میں جزا اور سزا کا عمل شروع ہوجائے تو اس قسم کے...  لوگوں کے لئے نہ رجوع کا کوئی مقام ہے اور نہ توبہ کرنے کا وقت ہے نہ انہیں نجات ملے گی ۔ انہیں ان کا کوئی عمل فائدہ نہ دے گا اگرچہ انہوں نے دنیا میں اس قدر سونا خرچ کیا ہو جس سے دنیا بھر جاتی ہو۔ اگرچہ یہ عمل انہوں نے خیر و برکت سمجھ کر کیا ہو ‘ جب تک یہ عمل اللہ کے حوالے سے نہ کیا گیا ہو ۔ اس لئے ایسے اعمال اللہ کے ہاں نہ پہنچیں گے اور نہ وہ اعمال اللہ کے لئے ہوں گے ۔ وقت ختم ہونے کے بعد اگر وہ پوری دنیا بھر کر کفارہ ادا کریں تب بھی وہ قبول نہ ہوگا۔ وہ عذاب قیامت سے نہ بچ سکیں گے ۔ اس لئے کہ میعاد ختم اور دروازے بند ہوچکتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

128 یہ ماقبل سے استثناء ہے یعنی جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر کیا اور کفر و ارتداد کے بعد پھر توبہ کرلی اور آئندہ کے لیے اپنا رویہ درست کرلیا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور ان کے گذشتہ گناہ معاف کر کے انہیں مزید فضل و رحمت سے نوازے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ ایسے ظالم اور بد کردار لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور ملائکہ کی اور انسانوں کی سب کی لعنت پڑی ہے اور یہ لعنت بھی اس طور پر کہ یہ لوگ اس لعنت میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ نہ ان پر سے کسی وقت جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کسی قسم کی کوئی مہلت دی جائے گی مگر ہاں وہ لوگ جو اس کافر... انہ روش اور بغاوت و سرکشی کے بعد توبہ کرلیں اور اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح اور درستی کرلیں تو یقین جانو ! اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے پھر ای سے باغیوں اور سرکشوں کی توبہ قبولکر کے انہیں معاف کر دے گا اور بخش دے گا۔ (تیسیر) لعنت کی مفصل تفسیر دوسرے پارے میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا یہ مطلب ہے کہ اس کی رحمت سے دوری ہوتی ہے فرشتوں کی اور لوگوں کی لعنت یہ کہ وہ لعنت کی دعا کرتے ہیں لوگوں سے مراد یہاں مسلمان ہیں جو کافروں پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں یا مومن اور کافر دونوں ہیں کیونکہ بےایمان اور ظالم پر سب ہی لعنت کی دعا کرتے ہیں خواہ وہ لعنت کرنے والا خود بھی اس میں مبتلا ہو مگر اس کا احساس نہیں ہوتا ، جھوٹ بولنے والا بھی کہہ دیا کرتا ہے کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ مراد ہوں جو قیامت میں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ ویلعن بعضھم بعضا تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ کفارپر عذاب میں تخفیف نہ ہوگی ۔ مہلت نہ ملنے کا یہ مطلب کہ جو وقت ان کے لئے عذاب کا مقرر ہے اسی وقت داخل کردیئے جائیں گے یہ نہیں ہوگا کہ کچھ دیر کیلئے مہلت دے دی جائے یا عذاب میں داخل ہونے کے بعد کسی وقت بھی مہلت نہیں ملے گی بلکہ مسلسل عذاب ہوگا ۔ خلدین فیھا کا یہ مطلب کہ ہمیشہ لعنت میں مبتلا رہیں گے یا ہوسکتا ہے کہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے ، چونکہ لعنت ہی کا اثر آگ ہے اس لئے دونوں طر ضمیر پھر سکتی ہے۔ اصلاح سے مراد ایمان کی اصلاح کرلیں یا ملک میں جو فساد اور شرارت برپا کر رکھی تھی اس کی اصلاح کرلیں یا ظاہر و باطن دونوں کی اصلاح کرلیں چونکہ اوپر کی آیت میں دو احتمال تھے اس لئے ہم نے تیسیر میں ۔ من بعد ذلک کا ترجمہ کرتے ہوئے دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے اگر مرتدین مراد لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ارتداد کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور اگر معاند و سرکش اور ہٹ دھرم اہل کتاب مراد لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اس عناد و سرکشی سے باز آجائیں اور مسلمان ہوجائیں۔ کہتے ہیں کہ اس آیت کو سن کر بعض مرتدین تائب ہوئے اور پھر اسلام میں داخل ہوگئے اب آگے توبہ کی اور وضاحت فرماتے ہیں کہ توبہ کس حالت میں قبول ہوتی ہے۔ ( تسہیلض  Show more