Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 90

سورة آل عمران

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّنۡ تُقۡبَلَ تَوۡبَتُہُمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الضَّآلُّوۡنَ ﴿۹۰﴾

Indeed, those who reject the message after their belief and then increase in disbelief - never will their [claimed] repentance be accepted, and they are the ones astray.

بیشک جو لوگ اپنے ایمان لانے کے بعد کُفر کریں پھر کُفر میں بڑھ جائیں ، ان کی توبہ ہرگِز قبول نہ کی جائے گی ، یہی گُمراہ لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Neither Repentance of the Disbeliever Upon Death, Nor His Ransoming Himself on the Day of Resurrection Shall be Accepted Allah says; إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُوْلَـيِكَ هُمُ الضَّألُّونَ Verily, those who disbelieved after their belief and then went on increasing in their disbelief never will their repentance be accepted. Allah threatens and warns those who revert to disbelief after they believed and who thereafter insist on disbelief until death. He states that in this case, no repentance shall be accepted from them upon their death. Similarly, Allah said, وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّيَـتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ And of no effect is the repentance of those who continue to do evil deeds until death faces one of them. (4:18) This is why Allah said, ... لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُوْلَـيِكَ هُمُ الضَّألُّونَ never will their repentance be accepted. And they are those who went astray. to those who abandon the path of truth for the path of wickedness. Al-Hafiz Abu Bakr Al-Bazzar recorded that Ibn Abbas said that; some people embraced Islam, reverted to disbelief, became Muslims again, then reverted from Islam. They sent their people inquiring about this matter and they asked the Messenger of Allah. On that, this Ayah was revealed, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ (Verily, those who disbelieved after their belief and then went on increasing in their disbelief never will their repentance be accepted). The chain of narration is satisfactory. Thereafter, Allah said,

جب سانس ختم ہونے کو ہوں تو توبہ قبول نہیں ہوگی ایمان کے بعد پھر اسی کفر پر مرنے والوں کو پروردگار عالم ڈرا رہا ہے کہ موت کے وقت تمہاری توبہ قبول نہیں ہو گی جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:18 ) آخر دم تک یعنی موت کے وقت تک گناہوں میں مبتلا رہنے والے موت کو دیکھ کر جو توبہ کریں وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں اور یہی یہاں ہے کہ ان کی توبہ ہرگز مقبول نہ ہو گی اور یہی لوگ وہ ہیں جو راہ حق سے بھٹک کر باطل راہ پر لگ گئے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھر مرتد ہوگئے پھر اسلام لائے پھر مرتد ہوگئے پھر اپنی قوم کے پاس آدمی بھیج کر بچھوایا کہ کیا اب ہماری توبہ ہے؟ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اس پر یہ آیت اتری ( بزار ) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر پر مرنے والوں کی کوئی نیکی قبول نہیں گو اس نے زمین بھر کر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن جذعان جو بڑا مہمان نواز غلام آزاد کرنے والا اور کھانا پینا دینے والا شخص تھا کیا اسے اس کی یہ نیکی کام آئے گی؟ تو آپ نے فرمایا نہیں اس نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی ( اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗـــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ ) 26 ۔ الشعراء:82 ) نہیں کیا یعنی اے میرے رب میری خطاؤں کو قیامت والے دن بخش جس طرح اس کی خیرات نامقبول ہے اسی طرح فدیہ اور معاوضہ بھی ، جیسے اور جگہ ہے ( وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:123 ) ان سے نہ بدلہ مقبول نہ انہیں سفارش کا نفع اور فرمایا ( قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ ) 14 ۔ ابراہیم:31 ) اس دن نہ خرید فروخت نہ موت و محبت اور جگہ ارشاد ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ) 5 ۔ المائدہ:36 ) یعنی اگر کافروں کے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اتنا ہی اور بھی ہو پھر وہ اس سب کو قیامت کے عذابوں کے بدلے فدیہ دیں تو بھی نامقبول ہے ان تکلیف والے الم ناک عذابوں کو سہنا پڑے گا ، یہی مضمون یہاں بھی بیان فرمایا گیا ہے بعض نے افتدی کی واؤ کو زائد کہا ہے لیکن واؤ کو عطف کی ماننا اور وہ تفسیر کرنا جو ہم نے کی بہت بہتر ہے واللہ اعلم ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے عذاب سے کفار کو کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی چاہے وہ بڑے نیک اور نہایت سخی ہوں گو زمین بھر بھر کر سونا راہ اللہ لٹائیں یا پہاڑوں اور ٹیلوں کی مٹی اور ریت نرم زمین اور سخت زمین کی خشکی اور تری کے ہم وزن سونا عذاب کے بدلے دینا چاہیں یا دیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ زمین پر جو کچھ ہے اگر تیرا ہو جائے تو کیا تو اس کو ان سزاؤں کے بدلے اپنے فدیے میں دے ڈالے گا ۔ وہ کہے گا ہاں تو جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ میں نے تجھ سے بہ نسبت اس کے بہت ہی کم چاہا تھا ، میں نے تجھ سے اس وقت وعدہ لیا تھا جب تو اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شرک نہ بنانا لیکن تو شرک کئے بغیر نہ رہا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی دوسری سند کے ساتھ ہے ، مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہو تم نے کیسی جگہ پائی؟ وہ جواب دے گا اللہ بہت ہی بہتر ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اور کچھ مانگنا ہو تو مانگو دل میں جو تمنا ہو کہو تو یہ کہے گا باری تعالیٰ میری صرف یہی تمنا ہے اور میرا یہی ایک سوال ہے کہ مجھے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے میں تیری راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ ہوجاؤں پھر شہید کیا جاؤں دس مرتبہ ایسا ہی ہو کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت اور شہید کے مرتبے دیکھ چکا ہو گا اسی طرح ایک جہنمی کو بلایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ اے ابن آدم تو نے اپنی جگہ کیسی پائی؟ وہ کہے گا اللہ بہت ہی بری ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا ساری زمین بھر کر سونا دے کر ان عذابوں سے چھوٹنا تجھے پسند ہے؟ وہ کہے گا ہاں اے باری تعالیٰ اس وقت جناب باری تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے میں نے تو اس سے بہت ہی کم اور بالکل آسان چیز تجھ سے طلب کی تھی لیکن تو نے اسے بھی نہ کیا چنانچہ وہ جہنم میں بھیج دیا جائے گا ، پس یہاں فرمایا ان کے لئے تکلیف دہ عذاب ہیں اور ایسا نہیں جو ان عذابوں سے اپنے آپ کو چھڑا سکے یا کوئی ان کی کس طرح مدد کر سکے ( اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سے نجات دے ۔ آمین )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر انتقال ہو۔ 90۔ 2 اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کو بیان فرمایا ہے۔ (وہو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ۔ ) " الشوری۔ 25 " کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اس لیے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے (وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ ) 004:018 ان کی توبہ قبول نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ۔ حدیث میں بھی ہے ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ مسند احمد، ترمذی۔ بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مثلاً یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کرکے کفر کا رویہ اختیار کیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی انکار کردیا جو ان کے کفر میں مزید اضافہ کا سبب بن گیا۔ ایسے معاندین کے حق میں توبہ کبھی قبول نہ ہوگی۔ دوسری صورت یہ کہ ایک شخص ایمان لایا۔ پھر اس کے بعد مرتد ہوگیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلام دشمنی میں اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں، تو ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرتد ہوجانے کے بعد کفر پر ڈٹا رہا اور جب موت کا وقت آپہنچا تو توبہ کی سوجھی۔ اس وقت بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ البتہ جو لوگ اپنی زندگی میں اسلام دشمنی میں سرگرم اور تقریر و تحریر کے ذریعہ لوگوں میں الحاد اور باطل عقائد پھیلانے میں سرگرم رہے ہوں ان کی توبہ قبول ہونے کی صورت اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٦٠ بایں الفاظ بیان فرمائی۔ ( اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا) یعنی ان کی توبہ کی قبولیت کے لیے تین شرطیں لازم ہیں۔ (١) سچی توبہ کریں (٢) اپنے اعمال و افعال درست کرکے اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ الحاد یا باطل عقائد وہ لوگوں میں پھیلا چکے ہیں۔ برملا اس کی تردید بھی کریں۔ اگر تقریر کے ذریعہ گمراہی پھیلائی ہے تو اسی طرح بھری محفل میں ایسے عقائد سے بیزاری کا اظہار اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اگر تحریری صورت میں گمراہی پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو تحریری صورت میں اس کی تلافی اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو ایسے لوگوں کی بھی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے کہ یہ یقیناً نبی ہے لیکن جب ان سے معاملہ ہوا تو وہ منکر ہوگئے۔ (موضح) اور ایسے لوگ بھی اس کا مصداق ہیں جو اسلام سے مرتد ہونے کے بعد موت کے وقت تک کفر پر قائم رہتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ حالت نزع میں اگر یہ لوگ توبہ کریں گے بھی تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْ غِرْ ) [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل التوبۃ ۔۔ : ٣٥٣٧۔ حسنہ الألبانی ]” یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک روح حلق تک نہ پہنچے۔ “ نیز دیکھیے سورة نساء (١٨) اور ” الضَّاۗلُّوْنَ “ سے مراد ” کامل درجہ کے گمراہ ہیں۔ “ (رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُھُمْ۝ ٠ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الضَّاۗلُّوْنَ۝ ٩٠ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ قبل ( تقبل) قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا) یعنی حق کو پہچان لینے کے بعد ‘ چاہے زبان سے مانا ہو یا نہ مانا ہو ‘ پھر اگر وہ کفر کرتے ہیں یا زبان سے ماننے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں ‘ اور پھر وہ اپنے کفر میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. They were not content with just rejecting the call to the Truth but stood in vehement opposition and hostility to it and spared no efforts in obstructing people from following the way of God. They created doubts, spread misgivings, sowed the seeds of distrust and engaged in the worst conspiracies and machinations in order to frustrate the mission of the Prophet (peace be on him).

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :74 یعنی صرف انکار ہی پر بس نہ کی بلکہ عملاً مخالفت و مزاحمت بھی کی ، لوگوں کو خدا کے راستہ سے روکنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی تک کا زور لگایا ، شبہات پیدا کیے ، بدگمانیاں پھیلائیں ، دلوں میں وسوسے ڈالے ، اور بدترین سازشیں اور ریشہ دوانیاں کیں تا کہ نبی کا مشن کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: یعنی جب تک وہ کفر سے توبہ کر کے ایمان نہیں لائیں گے، دوسرے گناہوں سے ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے یہ نبی تحقیقی ہے جب ان سے معاملہ ہو اتو وہ منکر ہوگئے۔ (موضح) اور ایسے لوگ بھی اس کا مصداق ہوسکتے ہیں جو اسلام سے مردتد ہونے کے بعد موت کے وقت تک کفر پر قائم رہتے ہیں انے بارے میں فرما رہے ہیں کہ حالت نزع میں اگر یہ لوگ توبہ کریں گے بھی تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : یقبل توبتہ العبد مالم یغر غر۔ کہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک ہو جان کنی کی حالت تک نہ پہنچ جائے۔ (ترمذی۔ نسائی) نیز دیکھئے (النسا آیت : 18) اور الضالون سے مراد کامل درجہ کے گمراہ ہیں (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی کفر پر دوام رکھا ایمان نہیں لائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توبہ اور اصلاح کا موقعہ ملنے کے باوجود جو لوگ کفر و شرک پر ہیں۔ ان کے بارے میں حتمی سزا کا اعلان۔ بلا شبہ جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور پھر اپنی اصلاح اور ایمان کی طرف پلٹنے کی بجائے کفر میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور یہی لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اسی حالت میں موت آگئی تو ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے زمین بھر سونا بھی پیش کریں تو وہ قبول نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان کے پاس اچھے یابرے اعمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود یہاں فدیہ کی بات ہورہی ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس نہ مرنے کے بعد کچھ ہوگا نہ ہی یہ لوگ عذاب سے نجات پائیں گے اور نہ ہی ان کا کوئی حامی ومدد گار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَاابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ خَیْرُ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ سَلْ وَتَمَنَّ فَیَقُوْلُ مَا أَسْأَلُ وَأَتَمَنّٰی إِلَّا أَنْ تَرُدَّنِيْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقْتَلَ فِيْ سَبِیْلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَایَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّھَادَۃِ وَیُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ شَرُّّ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ لَہٗ أَتَفْتَدِيْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَھَبًا فَیَقُوْلُ أَيْ رَبِّ نَعَمْ فَیَقُوْلُ کَذَبْتَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَأَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَی النَّارِ ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق ] ” رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک جنتی کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا اے ابن آدم تو نے اپنا مقام کیسا پایا ؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب ! بہترین رہنے کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کسی اور تمنا کا اظہار کر۔ وہ عرض کرے گا نہ میری کوئی تمنا ہے نہ سوال سوائے اس کے کہ آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیں میں تیری راہ میں دس مرتبہ شہید کردیا جاؤں یہ شہادت کی فضیلت کی وجہ سے تمنا کرے گا۔ پھر ایک جہنمی آدمی لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا ؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب ! بدترین ٹھکانا ہے اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے کیا تو زمین بھر سونا فدیہ کے طور پردے گا ؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان کام کا مطالبہ کیا تھا جو تو نے نہ کیا۔ پھر اسے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لِأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ أَنَّ لَکَ مَافِي الْأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ أَکُنْتَ تَفْتَدِيْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ أَرَدْتُّ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَأَنْتَ فِيْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَّاتُشْرِکَ بِيْ شَیْءًا فَأَبَیْتَ إِلَّآأَنْ تُشْرِکَ بِيْ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا ایک جہنمی آدمی سے روز قیامت کہا جائے گا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے تو وہ جہنم کے عذاب کے بدلے فدیہ دے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تو تجھ سے اس سے ہلکی اور کم چیز کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نے تیرے باپ آدم کی پشت میں عہد لیا تھا کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا لیکن تو نے انکار کیا اور میرا شریک ٹھہرایا۔ “ مسائل ١۔ حالت ارتداد پر قائم رہنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ٢۔ کفر کی حالت میں مرنے والے کی معافی نہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کو کفار سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا : ١۔ قیامت کو کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ : ١٢٣) ٢۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہ کیا جائے گا۔ (آ ل عمران : ٨٥) ٣۔ جہنمیوں سے زمین کے برابر سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٤۔ قیامت کے دن ایمان لانا نفع بخش نہ ہوگا۔ (الانعام : ١٥٨) ٥۔ دوستیاں کام نہ آئیں گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٦۔ خریدو فروخت کا موقعہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں سیاق کلام میں اس مسئلے کا فیصلہ کن تصفیہ کردیا جاتا ہے اور اسے تاکیدی الفاظ میں کردیا جاتا ہے جس میں کوئی شک اور شبہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ اللہ کے اصولوں کے خلاف انفاق ‘ اور اللہ کے راستے میں نہ خرچ کئے جانے والے اموال کے غیر موثر قرار دینے کے بعد اور یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ دارالعمل کے ختم ہونے کے بعد اگر روئے زمین کو بھر کر بھی انفاق کرے وہ قبول نہ ہوگا ‘ یہاں اللہ تعالیٰ بیان فرمادیتے ہیں کہ وہ کون سا انفاق ہے جو اللہ کو پسند ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

129 پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا۔ جنہوں نے ارتداد اور کفر بعد الایمان کے بعد توبہ کرلی اور صلاح وتقویٰ کا راستہ اختیار کرلیا۔ یہاں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا اور پھر دیدہ و دانستہ کفر پر ڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ کفر ان کے دلوں میں راسخ ہوگیا تو ایسے لوگوں کے دلوں پر چونکہ مہر جباریت لگ جاتی ہے اس لیے ان سے توبہ کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور انہیں توبہ کی کبھی ہمت نہیں ہوتی۔ یہاں سلب ہمت ہی کو عدم قبول توبہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر وہ توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ توبہ بڑے سے بڑے مجرم کی بھی عنداللہ مقبول ہے۔ جب تک وہ سکرات الموت میں داخل نہ ہوجائے۔ قالہ الشیخ روح اللہ روحہ۔ وَاُولئِکَ ھُمُ الضَّالُّوْنَ ۔ اور یہی لوگ درحقیقت گمراہ ہیں کیونکہ مہر جباریت کی وجہ سے وہ کبھی ہدایت یافتہ نہیں ہوں گے۔ فَلَنْ یُّقْبَلَ ۔ یعنی جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور توفیق توبہ کے بغیر ہی مرگئے۔ وہ آخرت میں عذاب الٰہی سے کسی صورت نہیں بچ سکیں گے۔ اگر بالفرض قیامت کے دن زمین بھر سونا ان کے ہاتھ آجائے اور وہ اسے بطور فدیہ دے کہ عذاب سے بچنا چاہیں تو یہ فدیہ ان سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے۔ الکلام ورد علی سبیل الفرض والتقدیر والمعنی لوان للکافر قدر مل ٗ الارض ذھبا یوم القیمۃ لبدلہ فی تخلیص نفسہ من العذاب۔ (خازن ج 1 ص 317، کبیر ج 2 ص 741) ۔ اُولئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ انہیں بہرحال دردناک عذاب دیا جائے گا۔ یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ اگر فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا تو ویسے ہی معافی مل جائے۔ وفی تعقیب ما ذکر بھذہ الجملۃ مبالغۃ فی التحذیر والاقناط لان من لا یقبل منہ الفداء ربما یعفی عنہ تکرما (روح ج 3 ص 220) وَمَالَھُمْ مِنْ نٰصِرِیْنَ ۔ نہ فدیہ دے کر بچ سکیں گے نہ معافی مل سکے گی اور نہ ہی کسی یارومددگار کی نصرت ویاری اور نہ ہی کسی سفارشی کی سفارش سے نجات مل سکے گی۔ انہ تعالیٰ لما بین انہ لاخلاص لھم عن ھذا العذاب الالیم بسبب الفدیۃ بین ایضا انہ لاخلاص لھم عنہ بسبب النصرۃ والاعانۃ والشفاعۃ الخ (کبیر ج 2 ص 741) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi