Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 91

سورة آل عمران

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افۡتَدٰی بِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ وَّ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿٪۹۱﴾  17

Indeed, those who disbelieve and die while they are disbelievers - never would the [whole] capacity of the earth in gold be accepted from one of them if he would [seek to] ransom himself with it. For those there will be a painful punishment, and they will have no helpers.

ہاں جو لوگ کُفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے ، گو فدیئے میں ہی ہو تو بھی ہرگِز قبول نہ کیا جائے گا ۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے تکلیف دینے والا عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الارْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ ... Verily, those who disbelieved, and died while they were disbelievers, the (whole) earth full of gold will not be accepted from anyone of them even if they offered it as a ransom. Those who die while disbelievers, shall have no good deed ever accepted from them, even if they spent the earth's fill of gold in what was perceived to be an act of obedience. The Prophet was asked about Abdullah bin Jud`an, who used to be generous to guests, helpful to the indebted and who gave food (to the poor); will all that benefit him? The Prophet said, لاَا إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا مِنَ الدَّهْرِ رَبِّ اغْفِر لِي خَطِييَتِي يَوْمَ الدِّين No, for not even one day during his life did he pronounce, `O my Lord! Forgive my sins on the Day of Judgment. Similarly, if the disbeliever gave the earth's full of gold as ransom, it will not be accepted from him. Allah said, وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَـعَةٌ ...nor shall compensation be accepted from him, nor shall intercession be of use to him. (2:123) and, لااَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلااَ خِلَـلٌ ...on which there will be neither mutual bargaining nor befriending. (14:31) and, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَّا فِى الاٌّرْضِ جَمِيعاً وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُواْ بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَـمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ Verily, those who disbelieve, if they had all that is in the earth, and as much again therewith to ransom themselves thereby from the torment on the Day of Resurrection, it would never be accepted of them, and theirs would be a painful torment. (5:36) This is why Allah said here, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الارْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ Verily, those who disbelieved, and died while they were disbelievers, the (whole) earth full of gold will not be accepted from anyone of them if they offered it as a ransom. The implication of this Ayah is that the disbeliever shall never avoid the torment of Allah, even if he spent the earth's fill of gold, or if he ransoms himself with the earth's fill of gold, - all of its mountains, hills, sand, dust, valleys, forests, land and sea. Imam Ahmad recorded that Anas said that the Messenger of Allah said, يُوْتَى بِالرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ لَهُ يَا ابْنَ ادَمَ كَيْفَ وَجَدْتَ مَنْزِلَكَ A man from among the people of Paradise will be brought and Allah will ask him, "O son of Adam! How did you find your dwelling?" فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ خَيْرَ مَنْزِلٍ He will say, "O Lord, it is the best dwelling." فَيَقُولُ سَلْ وَتَمَنَّ Allah will say, "Ask and wish." فَيَقُولُ مَا أَسْأَلُ وَلاَ أَتَمَنَّى إِلاَّ أَنْ تَرُدَّنِي إِلَى الدُّنْيَا فَأُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ عَشْرَ مِرَارٍ The man will say, "I only ask and wish that You send me back to the world so that I am killed ten times in Your cause," لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ because of the honor of martyrdom he would experience. وَيُوْتَى بِالرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيَقُولُ لَهُ يَا ابْنَ ادَمَ كَيْفَ وَجَدْتَ مَنْزِلَكَ A man from among the people of the Fire will be brought, and Allah will say to him, "O son of Adam! How do you find your dwelling?" فَيَقُولُ يَا رَبِّ شَرَّ مَنْزِلٍ He will say, "It is the worst dwelling, O Lord." فَيَقُولُ لَهُ تَفْتَدِي مِنِّي بِطِلَعِ الاَْرْضِ ذَهَبًا Allah will ask him, "Would you ransom yourself from Me with the earth's fill of gold?" فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ نَعَمْ He will say, "Yes, O Lord." فَيَقُولُ كَذَبْتَ قَدْ سَأَلْتُكَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ وَأَيْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ Allah will say, "You have lied. I asked you to do what is less and easier than that, but you did not do it," فَيُرَدُّ إِلَى النَّار and he will be sent back to the Fire. This is why Allah said, ... أُوْلَـيِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ For them is a painful torment and they will have no helpers. for they shall not have anyone who will save them from the torment of Allah or rescue them from His painful punishment.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 19 حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا " ہاں " اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا مگر تو شرک سے باز نہیں آیا (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم۔ ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے اس نے اگر دنیا میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبد اللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا کیا یہ اعمال سے نفع دیں گے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " نہیں " کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان) اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا (وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ) 002:123 اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ دے گی۔ (لابیع فیہ ولا خلال) اس دن میں کوئی خریدو فروخت ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] آخرت میں تو صرف وہ اعمال کام آئیں گے جو کسی نے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا۔ نہ قرابتداری اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں جو صورت پیش کی گئی ہے۔ وہ بفرض تسلیم ہے۔ یعنی اگر کسی کافر کے پاس سونے کے ڈھیروں کے ڈھیر حتیٰ کہ زمین بھر سونا ہو تو اس کی آرزو یہی ہوگی کہ سب کچھ دے کر عذاب جہنم سے اپنی جان چھڑا لے۔ مگر وہاں یہ بات ناممکن ہوگی۔ چناچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا ومافیہا ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دے دے گا ؟ وہ کہے گا && ہاں && اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ && جب تو انسانی شکل میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے آسان تر بات طلب کی تھی۔ (کہ توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا، مگر تو شرک پر اڑا رہا && (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ باب طلب الکافر الفداء مل الارض ذھبا)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں اور کفر ہی کی حالت میں فوت ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے ہلکے عذاب والے جہنمی سے پوچھے گا : ” اگر دنیا میں جو بھی چیز ہے تمہاری ہوجائے تو کیا تم اسے (اپنی جان بچانے کے لیے) فدیہ میں دے دو گے ؟ “ وہ کہے گا : ” ہاں ! “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” میں نے تم سے اس وقت جب تم آدم کی پشت میں تھے، اس سے بہت زیادہ آسان بات کا تقاضا کیا تھا کہ شرک نہ کرنا تو میں تمہیں دوزخ میں داخل نہیں کروں گا، لیکن تم نہ مانے اور شرک کرتے رہے۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین، باب طلب الکافر الفداء ۔۔ : ٢٨٠٥، عن أنس (رض) ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِہٖ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۝ ٩١ ۧ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے مِلْء) بهرنا) مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ. الملأ کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ ذهب ( سونا) الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا، ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔ فدی الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال : وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] ( ف د ی ) الفدٰی والفداء کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے ) نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی ۔ إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی الحمد لله پاره مکمل ہوا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١) اور جو اسی حالت کفر میں مرگئے تو اگر وہ اپنی جان بچانے کے لیے جتنے وزن کا سونا بھی لے آئیں تو وہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے ایسا درد ناک عذاب ہوگا کہ اس کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی اور کوئی بھی ان سے اس عذاب خداوندی کو ٹالنے والا نہ ہوگا (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام “۔ سے لے کر یہاں تک یہ آیات منافقین میں سے دن آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو دین اسلام سے مرتد ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلے آئے تھے، چانچہ ان میں بعض مرتد ہونے کی حالت میں مرگئے تھے اور بعض اسی حالت میں مارے گئے تھے اور بعض نے ان میں سے پھر اسلام کو قبول کرلیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ) (فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِہِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ ط) ظاہر ہے کہ یہ محال ہے ‘ ناممکن ہے ‘ لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے کہ وہاں پر کوئی فدیہ نہیں ہے فرمایا کہ اگر کوئی زمین کے حجم کے برابر سونا دے کر بھی چھوٹنا چاہے گا تو نہیں چھوٹ سکے گا۔ یہ وہی بات ہے جو سورة البقرۃ کی آیت ٤٨ اور آیت ١٢٣ میں فرمائی گئی کہ اس دن کسی سے کوئی فدیہ نہیں لیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:91) مل۔ وہ مقدرا جس سے برتن بھر جائے ۔ جمع املائ۔ مل الارض۔ مضاف مضاف الیہ اتنی مقدار جو زمین بھر میں سما سکے۔ افتدی۔ اس نے اپنے چھڑانے کا بدلہ (فدیہ) دیا۔ ماضی واحد مذکر غائب افتداء (افتعال) کے وزن پر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے اور کفر کی حالت میں جان دیتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کے قیامت کے روز جہنمی سے کہا جائے گا کہ اگر دنیا کی ہر چیز تمہاری ہوجائے تو کیا تم نجات حاصل کرنے کے لیے اسے فدیہ میں دے دوگے وہ کہے گا ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تم سے ایک نہایت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تمہارے باپ آدم ( علیہ السلام) کی پیٹھ میں تم سے یہ عہد لیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراو گے تم شرک کرنے سے باز نہ آئے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) اس یہ بھی ثابت ہو تو ہے کہ کفر کی حالت میں کافر کی کوئی نیکی صدقہ و خیرات قبول نہیں ہوتی چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عبد اللہ بن حبدعان کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ بڑا مہمان نواز تھا۔ جو بھوکوں کھانا کھلاتا اور قید یوں کو فد یہ دے کر چھڑا تارہا ہے کیا اسے یہ نیکیاں کچھ فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ ؟ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے عمر بھر میں ایک بھی قیامت پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب نہ کی۔ (ابن کثیر) مگر ابو طالب کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی وجہ سے یہ فائدہ ہوگیا کہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جس سے اس کا دماغ ابلے گا (مسلم )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ) (الآیۃ) جن لوگوں نے کفراختیار کیا پھر حالت کفر ہی میں مرگئے تو قیامت کے دن ان سے ان کی جان کا بدلہ قبول نہ کیا جائے گا تاکہ مال دے کر چھوٹ جائیں۔ وہاں کسی کے پاس کچھ بھی نہ ہوگا، لیکن اگر بالفرض ہو بھی اور وہ دینا چاہے اور اتنا سونا دے جس سے زمین بھر جائے تو بھی قبول نہ ہوگا۔ دائمی عذاب ہی بھگتنا ہوگا اور وہاں کوئی مددگار نہ ہوگا۔ سورة مائدہ میں فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْھَا وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ) (بلاشبہ جو لوگ کافر ہیں ان کے پاس تمام دنیا بھر کی چیزوں کے ساتھ اتنی چیزیں اور بھی ہوں تاکہ وہ ان کو دے کر قیامت کے دن کے عذاب سے چھوٹ جائیں تو وہ چیزیں ان سے قبول نہ کی جائیں گی اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا وہ چاہیں گے کہ دوزخ کے عذاب سے نکل آئیں حالانکہ وہ اس سے کبھی نہ نکلیں گے اور ان کو دائمی عذاب ہوگا) ۔ (اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَ الْمَلآءِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) کی تشریح کے لیے سورة بقرہ رکوع نمبر ١٩ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ بلاشبہ جن لوگوں نے حق کو تسلیم کرنے اور ماننے کے بعد کفر کا رویہ اختیار کیا پھر کفر ہی میں بڑھتے رہے اور کفر میں زیادہ ہوتے چلے گئے تو ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور یہ لوگ پرلے درجے کے گمراہ ہیں جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی اور وہ کفر ہی کی حالت میں مر بھی گئے تو یقین جانو کہ ان لوگوں میں سے کسی کا زمین بھر کر سونا بھی قبول نہ کیا جائے گا اگرچہ وہ اپنے فدیہ میں اس قدر سونا دینا بھی چاہے اور ان لوگوں کو درد ناک عذاب ہوگا اور ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ ہوگا۔ ( تیسیر) ان لوگوں سے مراد وہی بارہ مرتدین ہیں جن میں سے شاید حارث نے تو پھر نادم ہو کر اسلام قبول کرلیا تھا اور صحیح طور پر اپنی اصلاح کرلی تھی اور دین کی خدمت میں مشغول ہوگئے تھے باقی لوگ مرتدہی رہے اور کفر میں سخت ہوتے چلے گئے۔ اس آیت میں ان کی حرماں نصیبی اور گمراہی کا ذکر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں سے مراد یہود ہوں کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کفر کیا پھر کفر میں اور بڑھے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لانے سے انکار کردیا اور ان کی نبوت کے ساتھ کافرانہ برتائو کیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہود و نصاریٰ دونوں ہوں اور مراد ان کے ایمان سے یہ ہو کہ وہ اپنی اپنی کتابوں میں اسلام کی حقانیت اور نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا حال پڑھ کر یہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ کتاب اور یہ نبی وہی ہے جس کی اطلاح ہم کو دی گئی تھی لیکن اس بات کو ماننے اور تسلیم کرنے کے باوجود پھر کفر کرتے تھے اور کفر میں بڑھتے چلے جاتے تھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد منافقین ہوں جو ظاہر میں اسلام کا اظہار کرتے تھے مگر باطن میں اسلام دشمنی ان کا شیوہ تھا اور یہ اسلام کے لئے کھلے کافروں سے زیادہ ضرر رساں تھے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے تمام کافر مراد ہیں کیونکہ ہر کافر خدا کے خالق ہونے کو مانتا ہے لیکن اس کے نازل کردہ دین کے خلاف رہتے ہیں اور اسلام کی مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ہم نے ترجمہ میں اور تیسیر میں ان سب احتمالات کی رعایت کو محلوظ رکھا ہے۔ لن تقبل توبتھم مراد یا تو مرتے وقت کی توبہ ہے کہ تمام عمر کفر کرتے رہے اور جب موت کے فرشتے سامنے آئے تو توبہ کرنے لگے یا عذاب سر پر آگیا اور عذاب نے گھیر لیا تو توبہ کی سوجھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس توبہ سے وہ توبہ مراد ہو جو ظاہر میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی غرض سے کی جائے جیسا کہ منافق کیا کرتے تھے دل سے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ محض رسمی توبہ ہو اور یا وہ توبہ مراد ہے جو کفر سے تو نہ ہو باقی دوسرے گناہوں سے جس کو کافر بھی برا سمجھتے ہیں ۔ ان اعمال سے توبہ کرلی جائے ۔ مثلاً کفر پر اور اسلام دشمنی پر قائم رہیں اور جھوٹ سے یا چوری اور جوئے سے توبہ کرلیں تو یہ توبہ بیکار ہے اور مطلب بھی ہوسکتا ہے اور ایسے گمراہ اور شرارت پسند لوگوں کو توبہ کی توفیق ہی نصیب نہ ہو اور یہ محروم القسمت ہمیشہ توبہ سے محروم رہیں ۔ ( واللہ اعلم) دوسری آیت میں ان کافروں کا ذکر ہے جو آخر وقت تک کفر پر اڑے رہے اور بد قسمتوں کو موت بھی کفر ہی پر آگئی ۔ ان کے متعلق یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کفر سے توبہ کی نہیں لیکن شاید وہاں کچھ جرمانے دے کر اور فدیہ بھر کر نجات حاصل کرلیں۔ دوسری آیت میں کفرپر مرنے والوں کا انجام اور شبہ مذکور کا جواب ہے کہ اول تو وہاں کسی کے پاس مال ہی نہ ہوگا اور اگر فرض کرو کہ وہاں کسی کو مال میسر بھی آجائے اور وہ پوری زمین بھر کر سونا اپنے فدیہ میں خود بخود دینا بھی چاہے تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور جو نہ دے تو اس کا تو ذکر ہی کیا ہے اور ہم نے جو خود بخود کہا وہ اس لئے کہ اگر حاکم کے جرمانہ کئے بغیر کوئی شخص ایک معقول رقم دینے پر تیار ہوجائے تو زیادہ نفع کی امید ہوتی ہے ۔ بخلاف اس کے کہ حاکم کی طرف سے کوئی جرمانہ کر کے اس کا مطالبہ کیا جائے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ مجرم محود اپنی طرف سے زمین بھر کر سونا دے رہا ہے اور وہ بھی قبول نہیں کیا جاتا اور یہ جو ہم نے کہا ، اگر مجرم کو مال میسر آجائے یہ اس بناء پر کہا کہ چھٹے پارے میں لو ان لھم ما فی الارض جمعیا فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرض صورت اختیار کی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ وہاں مجرم کے پاس مال کہاں ہوگا چونکہ اس آیت میں قیامت کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہاں یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ایسے کافر جو مرتے دم تک کافر ہی رہے ان کا کوئی صدقہ قبول نہیں خوا ہ وہ اپنی زندگی میں زمین بھر کر سونا بھی خیرات کریں تو ان کی اس کافرانہ روش کے باعث مقبول نہیں کیونکہ جب تک کافر ایمان نہ لائے اس کا کوئی اچھا عمل قبول نہیں ہوتا اور جب سونے کی بھری ہوئی زمین بھی ناقابل قبول ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے کم صدقہ یا خیرات کیا قبول ہوگا اور اگر آیت کو قیامت ہی پر محمول کیا جائے تب بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سونے سے بھری ہوئی زمین بھی ناقابل قبول ہوگی تو جو اس سے کم دے یا بالکل نہ دے اسکا تو کہنا ہی کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے اوپر کی آیت میں ضالون پر حاشیہ لکھا ہے وہ فرماتے ہیں یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے کہ یہ نبی حق ہے جب ان سے مقابلہ ہوا تو منکر ہوگئے اور بڑھتے گئے انکار میں یعنی لڑائی کا مستعد ہوگئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی یعنی ان کو توبہ کرنا ہی نصیب نہ ہوگا کہ قبول ہو ۔ ( موضح القرآن ) حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس شخص سے فرمائے گا جس کو سب سے کم عذاب ہو رہا ہوگا بھلا یہ تو بتا کہ اگر تجھ کو تمام روئے زمین کی دولت میسر ہو تو کیا تو اپنے فدیہ میں دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کرلے ۔ وہ عرض کرے گا بیشک اگر میرے پاس اتنی دولت ہو اور وہ دینے سے میں عذاب سے بچ جائوں تو ضرور دے دوں ۔ ارشاد ہوگا میں نے تو تجھ سے جب تو آدم کی پشت میں تھا اس سے بہت کم اور ہلکی چیز کا مطالبہ کیا تھام اور وہ یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیجئو ، لیکن تو اتنی ہلکی بات کو بھی ماننے پر آمادہ نہ ہوا اور آج شام دنیا کی دولت دینے کو تیار ہے۔ اب آگے مال خرچ کرنے کا نفع بتاتے ہیں کہ مال کا خرچ کرنا مفید اور نافع ہوسکتا ہے لیکن ایمان کی شرط ہے اگر ایمان لانے کے بعد اچھی عمدہ اور محبوب چیز میں سے خرچ کرو گے تو نفع ہوگا اور بہت بڑی بھلائی کے مالک ہو گے۔ بخلاف کافروں کے جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی خیرات کردیں اس پر آخرت میں کوئی خاص نفع مرتب نہ ہوگا ، چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)