Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 95

سورة آل عمران

قُلۡ صَدَقَ اللّٰہُ ۟ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۵﴾

Say, " Allah has told the truth. So follow the religion of Abraham, inclining toward truth; and he was not of the polytheists."

کہہ دیجئے کہ اللہ سچّا ہے تم سب ابراھیم حنیف کے ملّت کی پیروی کرو ، جو مُشرک نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ صَدَقَ اللّهُ ... Say, "Allah has spoken the truth;" meaning, O Muhammad, say that Allah has said the truth in what He conveyed and legislated in the Qur'an. ... فَاتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ follow the religion of Ibrahim the Hanif, and he was not of the idolators." Therefore, follow the religion of Ibrahim that Allah legislated in the Qur'an. Indeed, this is the truth, there is no doubt in it, and the perfect way, and no Prophet has brought a more complete, clear, plain and perfect way than he did. Allah said in other Ayat, قُلْ إِنَّنِى هَدَانِى رَبِّى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Say: "Truly, my Lord has guided me to a straight path, a right religion, the religion of Ibrahim, the Hanif, and he was not of the idolators." (6:161) and, ثُمَّ أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Then, We have sent the revelation to you (saying): "Follow the religion of Ibrahim, the Hanif, and he was not of the idolaters. (16:123)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] ملت ابراہیم سے مراد دین کی اصولی باتیں ہیں جو ہر نبی پر نازل کی جاتی رہیں۔ مثلاً صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، اسے وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کے سوا کسی دوسری قوت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا۔ اللہ کو ہی حرام و حلال قرار دینے کا مختار سمجھنا، اخروی سزاوجزا کے قانون پر ایسے ہی اعتقاد رکھنا، جیسے کتاب اللہ میں اس کی وضاحت ہے وغیرہ۔ رہے شرعی مسائل یا شریعت تو وہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق مختلف رہے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت بھی ایسے ہی مسائل سے ہے اور ان میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ : یعنی اللہ تعالیٰ کا بیان صدق پر مبنی ہے کہ کھانے کی یہ قسم پہلے حلال تھی، اس کے بعد اسرائیل اور ان کی اولاد پر حرام کردی گئی، لہٰذا ” نسخ “ صحیح ہے اور تمہارا شبہ باطل ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ان کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے، یہ عین ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے مطابق ہے۔ لہٰذا تم بھی دین اسلام میں داخل ہوجاؤ، جو اصول و فروع کے اعتبار سے عین دین ابراہیم کے مطابق ہے۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ صَدَقَ اللہُ۝ ٠ ۣ فَاتَّبِعُوْا مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ٩٥ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے ملل المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها، ( م ل ل ) الملۃ ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ کہا کہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی یا یہ کہ حلال و حرام جو بیان کی گئی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا لہٰذا دین ابراہیمی کی پیروی کرو جس میں ذرہ برابر کجی نہیں (اور توحید خالص کے علم بردار تھے )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ قف) ( فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ط) حَنِیْفًاابراہیم کا حال ہے۔ اگر اسے اِتَّبِعُوْا “ کا حال (بمعنی حَنِیْفِیِّیْنَ ) مانا جائے تو دوسرا ترجمہ ہوگا۔ یعنی یکسو ہو کر ‘ بعد کی تمام تقسیمات سے بلند تر ہو کر ‘ ابراہیم ( علیہ السلام) کے طریقے کی پیروی کرو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. The Jews had enmeshed themselves in legalistic minutiae and these had become their major concern. They had abandoned service to the One True God and had allowed their religious life to become corrupted by polytheism. Instead of attending to the fundamentals of religion they indulged in discussions about questions that had only arisen because of the hair-splitting legalism of their scholars during their centuries of decadence.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :78 مطلب یہ ہے کہ ان فقہی جزئیات میں کہاں جا پھنسے ہو ۔ دین کی جڑ تو اللہ واحد کی بندگی ہے جسے تم نے چھوڑ دیا اور شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہوگئے ۔ اب بحث کرتے ہو فقہی مسائل میں ، حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جو اصل ملت ابراہیمی سے ہٹ جانے کے بعد انحطاط کی طویل صدیوں میں تمہارے علماء کی موشگافیوں سے پیدا ہوئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:95) ملۃ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور کا نام ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ تاکہ اس کے ذریعہ وہ قرب خداوندی حاصل کرسکیں دین اور ملت میں فرق یہ ہے کہ ملت کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے پس فاتبعوا ۔۔ ابراہیم۔ پس دین ابراہیم کی پیروی کرو۔ حنیفا۔ الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ الحنیف بروزن فعیل جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے۔ جو سب سے بےتعلق ہو کر صرف خدا کا ہوجائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ بیان مبنی بر صداقت ہے کہ طعام کی یہ قسم پہلے حلال تھی اس کے بعد اسرائیل اور اس کی اولاد پر حرام کردی گئی لہذا نسخ صحیح ہے اور تمہارا شبہ باطل ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ان کی حلت کا فتوی دیا ہے یہ عین ملت ابراہیمی کے مطابق ہے لہذا تم بھی ملت ابراہیم میں داخل ہو ہوجا و اور دین اسلام میں دا خل ہوجا و جو اصول وہ فروغ کے اعتبار سے عین دین ابراہیم کے مطا بق ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ الفاظ کہ ” اللہ نے جو کچھ کہا سچ کہا “ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے جو وضاحت کردی ہے وہ درست ہے یعنی یہ کہ خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اس لئے تعمیر فرمایا تھا کہ یہ لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہو اور جائے امن وسلامتی ہو ‘ اور اہل ایمان کے قبلہ اور جائے عبادت ہو ۔ اسی لئے یہاں حکم دیا جاتا ہے کہ تم حضرت ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ اور نظریہ حیات ہمہ جہت توحیدی نظریہ تھا ‘ جس میں شرک کا کوئی شائبہ نہ ہو فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ……………” پس ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا ۔ “ یہودیوں کا زعم یہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہیں ۔ چناچہ قرآن کریم انہیں بتاتا ہے کہ یہ ہے دین ابراہیمی کی حقیقت ۔ اور وہ دین یہ ہے کہ ہر قسم کے شرک سے نفرت کی جائے ۔ اور یہاں اس حقیقت کا اظہار دومرتبہ کیا گیا ہے ۔ ایک مرتبہ یہ کہہ کر کہ وہ حنیف تھے ۔ اور دوسری مرتبہ یہ کہہ کر کہ وہ مشرکین میں سے نہ تھے ۔ اور یہود کا حال یہ ہے کہ وہ مشرک ہیں ۔ اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ روب قبلہ ہونا دین کے اصولوں میں سے ہے۔ اس لئے کہ اس کرہ ارض پر یہ پہلا گھر ہے جو اللہ کی پرستش کے لئے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اور اسے ابتدائے تعمیر سے صرف اس مقصد کے لئے مخصوص کیا گیا ہے کہ وہ طواف کرنے والوں ‘ عبادت کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے مخصوص رہے ۔ نیز یہ ایک متبرک مقام ہے ‘ اور وہ اس مفہوم میں جائے ہدایت ہے کہ یہاں ملت ابراہیمی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اور اس میں وہ واضح علامات ہیں کہ یہ ابراہیم کی جائے قیام ہے ۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ تاریخی پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوکر خانہ کعبہ کی تعمیر فرماتے تھے ۔ یہ خانہ کعبہ کے ساتھ متصل تھا۔ مگر خلیفہ راشد حضرت عمر (رض) نے اسے قدرے ہٹایا ‘ تاکہ طواف کرنے والوں کی وجہ سے ان لوگوں کو تکلیف نہ ہو جو اس کے پاس نفل ادا کرتے ہیں ۔ اس لئے اہل اسلام کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کے پاس نماز پڑھیں وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى…………… ” اور حضرت ابراہیم کے مقام کو جائے نماز بناؤ۔ “ اس گھر کے فضائل میں سے ایک بات یہاں بتائی جاتی ہے کہ اس گھر میں جو شخص داخل ہوا وہ پر امن رہے گا ۔ اس لئے یہ گھر ہر اس شخص کے لئے امن کی جگہ ہے جو یہاں داخل ہوجائے ۔ اور یہ حیثیت اس کرہ ارض پر کسی دوسرے مقام کو حاصل نہیں ہے ۔ اور اس کی یہ حیثیت اس وقت سے چلی آرہی ہے جب اسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے تعمیر کیا ۔ یہاں عربوں کے دور جاہلیت میں بھی اسے یہ حیثیت حاصل رہی ہے جبکہ وہ بالعموم دی ابراہیمی سے منحرف ہوگئے تھے اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح خالص موحد نہ رہے تھے ۔ حضرت حسن بصری کے قول کے مطابق اس برے دور میں بھی یہ احترام ومقام اسے حاصل تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ” ایک شخص اگر دوسرے کو قتل کردیتا تو تو ایک اونی کپڑا اپنی گردن کے اردگرد لپیٹ لیتا ۔ اس حالت میں اسے اگر مقتول کا وارث بھی ملتا تو وہ اسے خانہ کعبہ میں کچھ نہ کہتا اور اس کے نکلنے کا انتظار کرتا ۔ “ غرض اس بیت اللہ کو اس وقت بھی یہ اعزاز حاصل تھا جب اس کے ارد گرد کے لوگ جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ اہل عرب پر اپنے احسانات جتلاتے ہوئے فرماتے ہیںأَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ……………” ہم نے ایک پرامن حرم بنادیا حالانکہ ان کے گردوپیش لوگ اچک لے جاتے ہیں ۔ “ (٦٧٢٩ :) اور بھی خانہ کعبہ کے احترام کی ایک وجہ ہے کہ کے حدود کے اندر شکار کرنا حرام ہے اور وہاں پرندوں کو ان کے گھونسلوں سے نکالنا بھی ممنوع ہے ۔ نیز وہاں کے درختوں کو کاٹنا بھی ممنوع ہے ۔ صحیحین نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے (الفاظ مسلم کے ہیں ) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا ” اس شہر کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ اس وقت سے جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آئی ہوئی حرمت کی وجہ سے یہ تاروز قیامت حرام ہے ۔ اس میں مجھ سے پہلے کسی کے لئے جنگ کرنا جائز قرار نہیں دیا گیا ۔ میرے لئے بھی صرف دن کے ایک تھوڑے سے وقت کے لئے جائز کیا گیا ۔ لہٰذا وہ اللہ کی جانب سے آئی ہوئی اس حرمت کی وجہ سے تا روز قیامت حرام ہوگا۔ اس کی جھاڑیوں کو نہ کاٹاجائے گا ‘ اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے گا ‘ وہاں کسی گم شدہ چیز کو نہ اٹھایا جائے ‘ الایہ کہ معلوم ہو کہ کس کی ہے ‘ اور اس کی گھاس کو نہ کاٹا جائے گا ……“ یہ ہے وہ خانہ خدا جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے چنا ہے ۔ اور یہ اس کا وہ گھر ہے ‘ جسے اس نے یہ شرافت عطا کی ۔ اس کرہ ارض پر یہ وہ پہلا گھر ہے جو صرف عبادت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ یہ ان کے باپ حضرت ابراہیم کا گھر ہے اور اس کے اندر ایسی علامات اور شواہد موجود ہیں جو اس بات پر گواہ ہیں کہ اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا۔ اسلام بھی ملت ابراہیمی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لئے حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ بیت اللہ ‘ سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہے کہ مسلمان اس کی طرف متوجہ ہوں ‘ جو زمین میں جائے امن ہے ‘ اس میں لوگوں کے لئے سامان ہدایت ہے اور دین اسلام کا یہ ایک مرکز ہے۔ چناچہ یہاں طے کردیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض کردیا ہے ۔ بشرطیکہ کسی کی استطاعت ہو اور اگر استطاعت کے باوجود کوئی حج نہ کرے تو گویا وہ کفر کا ارتکاب کرے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ملت ابراہیمیہ کے اتباع کا حکم : آخر میں فرمایا (قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ اللہ نے سچ فرمایا کہ کھانے کی سب چیزیں بنی اسرائیل پر حلال تھیں (سوائے اس کے جن کو اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا) یہ جو کچھ اسرائیل نے حرام کرلیا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت میں حرام نہ تھا۔ لہٰذا تم ملت ابراہیمیہ کا اتباع کرو جو دین اسلام ہے جسے لے کر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حنیف تھے جو تمام باطل دینوں سے ہٹ کر اور بچ کر دین حق پر رہے جو دین توحید تھا۔ اور تمام عبادات میں اور تحلیل و تحریم کے بارے میں احکام الٰہی پر عمل کرتے رہے۔ اور مشرکین میں سے بھی نہ تھے (اے یہودیو ! تم ان سے اپنا تعلق جوڑتے ہو حالانکہ تم نے شرک اختیار کرلیا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

135 ۔ اللہ تعالیٰ نے توحید اور دفع شبہات کے سلسلے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ سب حقیقت اور صداقت پر مبنی ہے لہذا تم توحید پر قائم ہوجاؤ اور ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کرو جو باطل دینوں سے یکسو اور شرک سے بیزار تھے اور ملت ابراہیمی سے مراد اسلام ہے۔ حنیفا مائلا عن الباطل وھی ملۃ الاسلام (جامع البیان ص 56) بیان بالا سے معلوم ہوگیا کہ اونٹ کا گوشت ابراہیمی مذہب میں حرام نہیں تھا اور نہ بنی اسرائیل پر حرام تھا اب اس اعتراض کو چھوڑ دو اور حق بات کو قبول کرلو اور ملت ابراہیمی کا پورا پورا اتباع کرو۔ شرک کو چھوڑ دو اور توحید کو قبول کرلو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi