Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 24

سورة الروم

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ یُرِیۡکُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَیُحۡیٖ بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۴﴾

And of His signs is [that] He shows you the lightening [causing] fear and aspiration, and He sends down rain from the sky by which He brings to life the earth after its lifelessness. Indeed in that are signs for a people who use reason.

اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ( بھی ) ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ، اس میں ( بھی ) عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, وَمِنْ ايَاتِهِ ... And among His signs, which speak of His greatness, ... يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا ... He shows you the lightning, for fear and for hope, Sometimes you fear the heavy rain and destructive thunderbolts that follow it, and sometimes you feel hope, when you see a flash of lightning, that much-needed rain will come. Allah says: ... وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاء مَاء فَيُحْيِي بِهِ الاَْرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ... and He sends down water from the sky, and therewith revives the earth after its death. After it was barren, with nothing growing there, then the water comes to it and اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ it is stirred, and it swells and puts forth every lovely kind (of growth). (22:5) In this is a clear sign and proof of the resurrection and the coming of the Hour. Allah says: ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ Verily, in that are indeed signs for a people who understand. Then Allah says:

قیام ارض و سما اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والی ایک اور نشانی بیان کی جارہی ہے کہ آسمانوں پر اس کے حکم سے بجلی کوندتی ہے جسے دیکھ کر کبھی تمہیں دہشت لگنے لگتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کڑک کسی کو ہلاک کردے کہیں بجلی گرے وغیرہ اور کبھی تمہیں امید بندھتی ہے کہ اچھا ہوا اب بارش برسے گی پانی کی ریل پیل ہوگی ترسالی ہوجائے گی وغیرہ ۔ وہی ہے جو آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اس زمین کو جو خشک پڑی ہوئی تھی جس پر نام نشان کی کوئی ہریاول نہ تھی مثل مردے کے بیکار تھی اس بارش سے وہ زندہ کردینے پر قادر ہے ۔ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ زمین وآسمان اسی کے حکم سے قائم ہیں وہ آسمان کو زمین پر گرنے نہیں دیتا اور آسمان کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں زوال سے بچائے ہوئے ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کوئی تاکیدی قسم کھانا چاہتے تو فرماتے اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین وآسمان ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ پھر قیامت کے دن وہ زمین وآسمان کو بدل دے گا مردے اپنی قبروں سے زندہ کرکے نکالے جائنگے ۔ خود اللہ انہیں آواز دے گا اور یہ صرف ایک آواز پر زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہونگے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی حمد کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کرلوگے کہ تم بہت ہی کم رہے ۔ اور آیت میں ہے ( فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ 13؀ۙ ) 79- النازعات:13 ) صرف ایک ہی آواز سے ساری مخلوق میدان حشر میں جمع ہوجائے گی اور آیت میں ہے ( اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ 53؀ ) 36-يس:53 ) یعنی وہ تو صرف ایک آواز ہوگی جسے سنتے ہی سب کے سب ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241یعنی آسمان میں بجلی چمکتی ہے اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتاں برباد نہ ہوجائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] بجلی اور بارش دونوں میں خوف اور امید یا فائدہ کے پہلو موجود ہیں۔ بجلی کی کڑک اور چمک سے جہاں یہ خطرہ ہوتا ہے کہیں گر کر تباہی نہ مچائے۔ وہاں اس سے اندھیرے میں نظر بھی آنے لگتا ہے نیز بجلی کی کڑک اور چمک عموماً زیادہ بارش ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔ اور بارش کے باعث رحمت میں تو کسی کو شک نہیں تاہم اگر بارش ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو یا سیلاب کی صورت اختیار کرلے تو اس سے کئی طرح کے نقصان بھی پہنچ سکتے ہیں۔ [ ٢٢] زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کا انحصار زمین کی پیداوار پر ہے۔ اللہ نے زمین پر بارش برسا کر زمین کو زندہ کیا تو گویا اس نے تمام مخلوق کو زندہ کیا۔ اب اس بارش کے برسنے میں جو عوامل کام کرتے ہیں۔ سورج کی حرارت سے سطح سمندر سے بخارات کا اٹھنا، ہواؤں کا رخ، پہاڑوں کا رخ اور ٹھنڈے علاقوں کی موجودگی، اور بارش کے بعد زمین کی قوت روئیدگی گویا سورج، ہوائیں، پانی، حرارت، بروقت اور زمین کے اندر قوت روئیدگی۔ یہ سب چیزیں ایک مربوط نظام کے تحت کام کریں تو تب جا کر انسان کو اور دوسری مخلوق کو روزی میسر ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کو باور ان چیزوں کے درمیان نظم و ضبط کو اللہ کے سوا کسی اور الٰہ نے قائم کیا ہے ؟ یا مادہ پرستوں کے خیالات کے مطابق یہ مادہ اور طبعی قوانین کا ہی کھیل ہے ؟ اگر یہی بات ہے تو ایک مخصوص مقام پر ایک مخصوص موسم میں ایک سال تو خوب بارشیں ہوجاتی ہیں اور اگلا سال بالکل خشک کیوں گزر جاتا ہے ؟ اس آیت سے صرف یہی معلوم نہیں ہوتا کہ روزی کا یہ نظام قائم کرنے والی ذات صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکیم مطلق بھی ہے اور مختار مطلق بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَـعًا : یعنی بجلی کی گرج اور چمک سے امید بندھتی ہے کہ بارش ہوگی اور فصلیں تیار ہوں گی اور دوسری طرف ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گرپڑے، یا اتنی زیادہ بارش نہ ہوجائے کہ مکانوں اور فصلوں کو تباہ کر دے اور سب کچھ بہا لے جائے۔ وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَيُحْيٖ بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا : اس میں مرنے کے بعد زندگی پر بھی استدلال ہے اور اس بات پر بھی کہ بارش صرف اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے ہوتی ہے نہ کہ محض مادہ کی ترکیب سے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : بارش سے مردہ زمین کے زندہ ہونے کو مرنے کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور اسے عقل والوں کے لیے نشانی قرار دیا گیا جو بات سمجھتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ) [ الحدید : ١٧ ] ” جان لو کہ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے، بلاشبہ ہم نے تمہارے لیے آیات کھول کر بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Fifth sign of divine omnipotence Allah Ta’ ala shows the flash of lightning to people in which there is risk of its striking, thus destruction. At the same time, there is a hope for rain following the lightning. The rain does follow with His will and gives rise to numerous types of vegetation. At the end of the verse, it is said فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (Surely in this there are signs for a people who understand - 30:24), because the mysteries of lightning and rain, and the resultant growth of vegetation can be understood by those with intellect.

پانچویں آیت قدرت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو بجلی کا کوندنا دکھاتے ہیں جس میں اس کے گرنے اور نقصان پہنچانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور اس کے پیچھے بارش کی امید بھی اور پھر بارش نازل فرماتے ہیں اور اس خشک بےجان زمین کو زندہ ترو تازہ کر کے اس میں طرح طرح کے درخت اور پھل پھول اگاتے ہیں۔ اس کے آخر میں فرمایا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ، یعنی اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے، کیونکہ برق و باراں اور ان کے ذریعہ حاصل ہونے والی نباتات اور ان کے پھل پھول کی تخلیق منجانب اللہ ہونا یہ عقل و حکمت ہی سے سمجھا جاسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَـعًا وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَيُحْيٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝ ٢٤ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ برق البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] ( ب رق ) البرق کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ طمع الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ. قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] ، ( ط م ع ) الطمع کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس کے دلائل قدرت میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمہیں آسمان پر بارش کے وقت بجلی چمکتی ہوئی دکھاتا ہے جس سے مسافر کو تو بارش کا ڈر ہوتا ہے کہ سامان سب بھیگ جائے گا اور مقیم کو بارش سے امید ہوتی ہے کہ کھیتی سیراب ہوجائے گی اور وہی آسمان سے بارش برساتا ہے کہ پھر اس سے زمین کے خشک اور اس کے بنجر ہوجانے کے باوجود پھر اسے تروتازہ کردیتا ہے اس امر میں بھی ان لوگوں کے لیے جو اس کے لیے اللہ کی طرف سے ہونے کی تصدیق کرتے ہیں قدرت خداوندی کی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا) ” آسمانوں میں بادلوں کا چھانا اور بجلی کا چمکنا بھی اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے جس میں لوگوں کو بجلی کے گرنے اور طوفان وغیرہ کا خوف بھی ہوتا ہے جبکہ باران رحمت کے برسنے کی امید بھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 That is, "Its thunder and lightning give hope that rain will come and help the crops, but at the same time they cause a fear that the lightning may strike somewhere, or heavy rain may fall, which may wash away everything." 35 This thing, on the one hand, points to the life hereafter, and on the other, proves that God exists, and there is One God alone, Who is controlling the earth and the heavens. innumerable creatures of the earth live on the products that come out from the earth. These products depend on the productivity of the earth. The productivity depends on the rain, whether it directly falls on the earth, or its water gathers together on the surface of the earth, or takes the form of underground water channels or springs or wells, or freezes on the mountains and then flows down in the form of rivers. Then the rain depends on the heat of the sun, the change of seasons, atmospheric changes in temperature, circulation of the winds, and on the lightning, which causes the rain to fall as well as mixes a kind of natural manure in the rainwater. The establishment of a harmony and proportion between different things existing from the earth to the sky, their becoming favourable and subservient to a variety of aims and objects, and their remaining continuously and constantly favourable in perfect harmony for millions of million years cannot be the product of mere chance. Has it all happened without the all-embracing will and plan and wisdom of a Fashioner and Designer? And is it not a proof of the fact that the Creator and Lord of the earth, the sun, the water, the heat and coolness is One and only One?

سورة الروم حاشیہ نمبر : 34 یعنی اس کی گرج اور چمک سے امید بھی بندھتی ہے کہ بارش ہوگی اور فصلیں تیار ہوں گی ، مگر ساتھ ہی خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گر پڑے یا ایسی طوفانی بارش نہ ہوجائے جو سب کچھ بہا لے جائے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 35 یہ چیز ایک طرف حیات بعد الموت کی نشان دہی کرتی ہے اور دوسری طرف یہی چیز اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خدا ہے ، اور زمین و آسمان کی تدبیر کرنے والا ایک ہی خدا ہے ۔ زمین کی بے شمار مخلوقات کے رزق کا انحصار اسی پیداوار پر ہے جو زمین سے نکلتی ہے ۔ اس پیداوار کا انحصار زمین کی صلاحیت بار آوری پر ہے ۔ اس صلاحیت کے روبکار آنے کا انحصار بارش پر ہے ، خواہ وہ براہ راست زمین پر برسے یا اس کے ذخیرے سطح زمین پر جمع ہوں ، یا زیر زمین چشموں اور کنوؤں کی شکل اختیار کریں ، یا پہاڑوں پر یخ بستہ ہوکر دریاؤں کی شکل میں بہیں ۔ پھر اس بارش کا انحصار سورج کی گرمی پر ، موسموں کے ردو بدل پر ، فضائی حرارت و برودت پر ، ہواؤں کی گردش پر ، اور اس بجلی پر ہے جو بادلوں سے بارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھاد بھی شامل کردیتی ہے ، زمین سے لے کر آسمان تک کی ان تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اور مناسبتیں قائم ہونا ، پھر ان سب کا بے شمار مختلف النوع مقاصد اور مصلحتوں کے لیے صریحا سازگار ہونا ، اور ہزاروں لاکھوں برس تک ان کا پوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا ، کیا یہ سب کچھ محض اتفاقا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کسی صانع کی حکمت اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کی غالب تدبیر کے بغیر ہوگیا ہے؟ اور کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ زمین ، سورج ، ہوا ، پانی ، حرارت ، برودت اور زمین کی مخلوقات کا خالق اور رب ایک ہی ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: ڈر اس بات کا کہ بجلی گر کر کوئی نقصان نہ پہنچا دے، اور امید اس بات کی کہ اس کے نتیجے میں رحمت کی بارش برسے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:24) یریکم البرق سے قبل ان مصدریہ مقدرہ ہے ای ومن ایتہ ان یریکم البرق اور اس کی نشانیوں میں سے اس کا تمہیں بجلی دکھانا بھی ہے ان کو حذف کرکے فعل کو مرقوع لایا گیا ہے۔ اگلی آیت میں ہے ومن ایتہ ان تقوم السماء والارض۔ کو فا وطمعا۔ منصوب ہونے کی دو وجوہات ہیں :۔ (1) مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام لایا گیا ہے ای ارادۃ کو ف وارادۃ طمع اور یہ دنوں مفعول لہ ہیں۔ (2) یہ دونوں حال ہیں بمعنی خائفین وطامعین۔ یریکم البرق خوفا وطمعا۔ اس کا بجلی دکھانا خوف کے ارادہ سے اور طمع کے ارادہ سے یا وہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے خوف کی راہ سے بھی اور امید کی راہ سے بھی (خوف اس امر کا کہ بجلی گرے تو جان و مال کے نقصان کا خطرہ ، اگر بارش برسے تو مسافر کو اپنی حفاظت کی فکر اور اگر زیادہ ہوجائے تو بھی جان و مال و فصلات کے نقصان کا خطرہ وغیرہ وغیرہ) (اور طمع (امید) یہ کہ بجلی چمکی ہے تو بارش کی امید ہے بارش ہوگی تو خشک زمین سرسبز ہوجائے گی اور فصلیں ہر ی بھری ہوجائیں گی پیداوار زیادہ ہوگی وغیرہ وغیرہ) ۔ بہ باء سببیہ ہے اور ہ کا مرجع ماء ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ اس آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ نیند موت ہے اور جاگ کر روزی کے لئے دوڑ دھوپ کرنا زندگی کے بعد موت سے مشابہ ہے۔ 12 ۔ یعنی بجلی کی گرج اور چمک سے ایک امیدبندھتی ہے کہ بارش ہوگی اور فصلیں تیار ہوں گی اور دوسری طرف ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گرپڑے یا اتنی زیادہ بارش نہ ہوجائے کہ مکانوں اور فصلوں کو تباہ کر دے اور سب کچھ بہا لے جائے۔ 13 ۔ اس میں بحث بعد الموت پر بھی استدلال ہے اور اس پر بھی کہ بارش صرف اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے ہوتی ہے نہ کہ محض مادہ کی ترکیب سے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نویں، دسویں اور گیارہویں نشانی۔ انسان کی زندگی اور اس کے رزق کا دارومدار پانی پر ہے اور پانی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اگر ایک مدّت تک بارش نہ ہو تو نہ صرف پہاڑوں میں پھوٹنے والے چشمے خشک ہوجاتے ہیں بلکہ زمین کا پانی بھی اتنا نیچے چلا جاتا ہے کہ اس کا حاصل کرنا لوگوں کے لیے ناممکن بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں۔ ہوائیں انہیں اٹھا کر فضا میں کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ فرشتہ انہیں ہانک کر وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ انہیں برسنے کا حکم صادر فرماتا ہے۔ بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور اس کے سینے میں چھپے ہوئے بیج اس کی چھاتی پر لہلہانے لگتے ہیں جس میں عقل والوں کے لیے پہلا سبق یہ ہے کہ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرماکر اپنے حضور کھڑا کرے گا۔ اس آیت میں آسمانی بجلی کے بارے میں خوف اور امید کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جب آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے تو ہر چیز کو خاکستر کردیتی ہے۔ جب اوپر چڑھتی ہے تو اس کی آواز اس قدر گرج دار اور خوف ناک ہوتی ہے کہ سننے والوں کے کلیجے دھک دھک کرنے لگتے ہیں اور کئی فصلیں ایسی ہیں بالخصوص چنے کی فصل جو البرق کی چمک سے جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔ جہاں زمین پر بجلی کے گرنے کے نقصانات ہیں وہاں اس کی وجہ سے ایسی گیسیں زمین پر اترتی ہیں جن کے بیشمار کیمیائی فوائدہو تے ہیں۔ بجلی کی گرج اور چمک سے خوف کے ساتھ ساتھ بارش برسنے کی امید اور بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح اس میں امید اور خوف دونوں پائے جاتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَا لُوْا صَدَقْتَ )[ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورة الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابوالقاسم ! ہمیں بجلی کی کڑک کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ جہاں لے جانے کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ان میں آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا فرشتہ بادلوں کو ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ “ (وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَ الْمَلآءِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ ) [ الرعد : ١٣] ” اور بجلی اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے۔ “ مسائل ١۔ آسمانی بجلی بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے۔ ٢۔ البرق میں خوف اور امید دونوں موجود ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں سے بارش برساتا ہے اور اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٤۔ جس طرح ایک مدت کے بعد بارش کے ساتھ زمین سے بیج اگتے ہیں اسی طرح ہی قیامت کے دن مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ہر قدرت میں عقل مندوں کے لیے نصیحت کا سبق موجود ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش کا نزول اور اس کے فوائد : ١۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ “ ہے اس کے ساتھ کیا دوسرا الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں ” اللہ “ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ قیامت، بارش کا نازل ہونا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی انہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٤۔ برق اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے۔ ( الرعد : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن ایتہ یریکم ۔۔۔۔۔۔ لایت لقوم یعقلون (30: 24) ” “۔ بجلی کی چمک اس کائناتی نظام اور اس کی تخلیق کا ایک منظر ہے۔ بعض سائنس دانوں نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ بادلوں کے اندر بجلی موجود ہوتی ہے ۔ جب ان کے دو ٹکڑے باہم ملتے ہیں تو اس ٹکراؤ سے بجلی کا ایک شرارہ بادلوں کے اندر پائے جانے والی بجلی کو مشتعل کردیتا ہے یا یوں ہوتا ہے کہ یہ بادل کسی پہاڑ کی چوٹی سے ٹکراتے ہیں اور ان سے یہ اشتعال پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے یہ بجلی چمک اٹھتی ہے۔ بالعموم اس چمک اور تصادم کے بعد بارش ہوجاتی ہے۔ بہرحال اس کی حقیقت جو بھی ہو ، لیکن یہ اس کائنات میں دست قدرت کا ایک مظاہرہ ہے ، ایک خوفناک مظاہرہ ۔ یہ اللہ کی ان قوتوں اور قدرتوں کا ظہور ہے جو اس نے اس کائنات میں ودیعت کی ہوئی ہیں۔ کا اسلوب بیشتر اوقات میں یہی ہے کہ وہ ان قدرتی مظاہر کی حقیقت اور ان کے سائنسی اسباب پر بات نہیں کرتا بلکہ ان مظاہروں سے صرف یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انسان کا دل و دماغ ان مظاہر کو دیکھ کر خالق تک رسائی حاصل کرلے۔ اس لیے قرآن مجید ان مظاہر سے یہی سبق عطا کرتا ہے کہ یہ قدرت الہیہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ومن ایتہ یریکم البرق خوفا وطمعا (30: 24) ” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے۔ خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی “۔ یہ وہ احساسات ہیں جو بجلی کی چمک کے ساتھ انسان میں عموماً پیدا ہوتے ہیں۔ انسان ڈرتا بھی ہے کیونکہ یہ انسانوں ، حیوانوں اور فصلوں کو جلا دیتی ہے۔ اور پھر اس عظیم قوت اور چمک اور کڑک کو دیکھ کر انسان کے اندر اس عظیم الکل کائنات کی قوتوں سے خوف پیدا ہوجاتا ہے اور طمع یوں پیدا ہوتا ہے کہ اکثر اوقات بجلی کے ساتھ بارش ہوتی ہے جو انسان کے لیے بہت ہی مفید ہوتی ہے ۔ اسی لیے قرآن کریم نے چمک اور کڑک کے ساتھ بارش کا ذکر کردیا ہے۔ وینزل من ۔۔۔۔۔ بعد موتھا (30: 24) ” اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ساتھ مردہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے “۔ زمین کی طرف مرنے کی نسبت اور پھر مرنے کے بعد اس کی طرف زندگی کی نسبت کرکے یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ یہ زمین دراصل زندہ ہے۔ یہ بھی زندہ ہوتی ہے اور مرتی ہے۔ اور حقیقت میں بھی یہ ایسی ہی ہے جس طرح قرآن کریم اس کی تصویر کشی کر رہا ہے ۔ یہ زمین بھی دراصل ایک زندہ مخلوق ہے۔ یہ اللہ کے حکم کو امتثال ہوتی ہے۔ اپنے رب کی مطیع اور فرمانی بردار ہے۔ ہر وقت رب کے احکام پر لبیک کہتی ہے۔ یہ اللہ کی بندگی میں ہے اور یہ انسان جو اس کرہ ارض پر رینگ رہا ہے ، یہ بھی اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ یہ بھی اس زمین کے ساتھ اللہ رب العالمین کے احکام کے ساتھ چلا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ جب زمین پر بارش ہوتی ہے تو اس کے اندر سرسبزی اور شادابی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سے بڑھنے والی فصلیں اگتی ہیں اور اس زمین کی سطح پر وہ لہلہاتی ہیں۔ یوں یہ زمین زندہ نظر آتی ہے۔ اس طرح جس طرح انسان اور حیوان زندہ ہوتے ہیں۔ ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون (30: 24) ” یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہفتم وہشتم : بجلی کے چمکنے اور آسمان سے پانی نازل فرمانے اور اس کے ذریعہ زمین کو زندہ فرمانے کا تذکرہ فرمایا۔ جب بجلی چمکتی ہے تو انسان ڈرتے بھی ہیں اور بارش ہونے کی امید بھی رکھتے ہیں، کیونکہ عام طور پر بجلی چمکنے کے بعد بارش ہوجاتی ہے اور جب بارش ہوجاتی ہے تو مردہ زمین میں زندگی آجاتی ہے، زمین سرسبز ہوجاتی ہے اور کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں، ان سب چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، عقلمندوں کو چاہیے کہ اس میں غور کریں اور سوچیں، بجلی چمکی، خوف و ہراس طاری ہوا، بارش کی امید بندھی، پانی برسا، زمین سرسبز ہوئی، یہ سب کیسے ہوا ؟ کس کی قدرت سے ہوا ؟ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں) اگر غور کریں گے تو یہی سمجھ میں آئے گا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت اور ارادہ سے ہوا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ یہ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے۔ خوفا وطمعا دونوں یریکم کے مفعول لہ ہیں ای لالقاء الخوف و الطمع یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں بادلوں کی چمک دکھاتا ہے جس سے تمہارے دلوں میں خوف وامید کے ملے جلے جذبات رونما ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف بجلی گرنے کا ڈر ہوتا ہے اور دوسری طرف باران رحمت کے نزول کی امید ہوتی ہے۔ خوفا من الصاعقۃ و طمعا فی الغیث (مدارک ج 3 ص 207) ۔ پھر آسمان سے باران رحمت نازل فرما کر بنجر اور ناکارہ زمین کو زندہ اور زرخیز بنا دیتا ہے۔ عقل فہم والوں کے لیے اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کے بیشمار دلائل موجود ہیں۔ یہاں جو دلائل مذکور ہوئے وہ اعلی سے ادنی کی طرف تنزل کے طور پر مذکور ہوئے کیونکہ سب سے اعلی درجہ گہرے غور و فکر کا ہے، اس کے بعد علم بلا تفکیر کا درجہ ہے، اس کے بعد سماع کا درجہ ہے اور اس کے بعد عقل یعنی حواس کی درستگی کا درجہ ہے اور اس کے بعد عقل یعنی حواس کی درستگی کا درجہ ہے الفکر اعلی والمتفکرون قلیلون وادنی منہ العالمون وادنی منہ الفہم بمجرد السماع وادنی منہ العقل و عدم الجنون کما قال العارف الرومی۔ فکر آن باشد بکشاید رہے راہ آن باشد کہ پیش آید شہے یعنی فکر وہی ہے جس سے توحید کی راہ کھلے اور راہ وہی سیدھی ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچائے۔ قالہ الشیخ قدس سرہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24۔ اور اس کے نشانات قدرت میں سے یہ بھی بات ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم اور ارادے سے قائم ہیں پھر جب وہ تم کو پکار کر زمین سے بلائے گا تو تم سب پکارتے ہی نکل پڑو گے۔ یعنی زمین و آسمان اسی کے ارادے قائم ہیں پھر جب وہ تم کو زمین سے اٹھانا چاہے گا تو تم کو آواز دے گا اور تم زمین سے نکل آئو گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کھڑا ہے اس میں تارے چلتے ہیں جس کی اور جگہ فرمایا پھرتے ہیں ۔ 12