Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 27

سورة الروم

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ ہُوَ اَہۡوَنُ عَلَیۡہِ ؕ وَ لَہُ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۲۷﴾  6 الرّبع

And it is He who begins creation; then He repeats it, and that is [even] easier for Him. To Him belongs the highest attribute in the heavens and earth. And He is the Exalted in Might, the Wise.

وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے ۔ اسی کی بہترین اور اعلٰی صفت ہے آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے والا حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ... And He it is Who originates the creation, then He will repeat it; and this is easier for Him. Ibn Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "This means it is easier for Him." Mujahid said: "Repeating it is easier for Him than originating it, and originating it is easy for Him." This was also the view of Ikrimah and others. Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that the Prophet said: قَالَ اللهُ كَذَّبَنِي ابْنُ ادَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدَأَنِي وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا وَأَنَا الاَْحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَد Allah says; "The son of Adam denied Me, and he had no right to do so. And he reviled Me, and he had no right to do so. As for his denying Me, it is his saying: `He will not remake me as He originated me' -- while originating the creation is not easier for Me than re-creating him. As for his reviling Me, it is his saying: `Allah has taken to Himself a son,' while I am the One, the Self-Sufficient Master; I beget not, nor was I begotten, and there is none comparable to Me." This was recorded only by Al-Bukhari. ... وَلَهُ الْمَثَلُ الاَْعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... His is the highest description in the heavens and in the earth. Ali bin Abi Talhah reported Ibn Abbas said, "This is like the Ayah: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَىْءٌ There is nothing like Him. (42:11)" Qatadah said: "His description is La ilaha illallah, and there is no Lord but He." ... وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ And He is the All-Mighty, the All-Wise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلٰی اور برتر (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) 42 ۔ الشوری :11)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة النمل کی آیت نمبر ٧٤ اور سورة العنکبوت کی آیت نمبر ١٧ کے حواشی [ ٢٧] یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی سے اونچی شان اسی کی ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حسن اور خوبی میں اللہ کی شان اور صفات سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتی۔ بلکہ اگر کسی چیز میں کوئی خوبی موجود بھی ہے تو وہ اسی کے کمالات کا ادنیٰ پرتو ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ : اللہ تعالیٰ نے یہ بات بندوں کے کہنے اور کرنے کے لحاظ سے فرمائی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو پہلی دفعہ اور دوسری دفعہ پیدا کرنا برابر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم یہ تو مانتے ہو کہ تمام مخلوقات کو پہلی بار اسی نے پیدا کیا ہے اور یہ بھی سمجھتے ہو کہ جس نے ایک دفعہ کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے اس چیز کو دوبارہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس لیے تمہارے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے لیے، جس نے پہلی بار تمام مخلوقات بنائی ہے، دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللَّہُ کَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلِکَ ، وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ ، أَمَّا تَکْذِیْبُہُ إِیَّايَ أَنْ یَّقُوْلَ إِنِّيْ لَنْ أُعِیْدَہُ کَمَا بَدَأْتُہُ ، وَأَمَّا شَتْمُہُ إِیَّايَ أَنْ یَّقُوْلَ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا، وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِّيْ کُفُوًا أَحَدٌ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( اللہ الصمد ) ٤٩٧٥، ٤٩٧٤ ] ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا، حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ (اللہ) مجھے دوبارہ نہیں بنائے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی دفعہ پیدا کیا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، حالانکہ میں اکیلا ہی ہوں، بےنیاز ہوں، جس نے نہ کسی کو جنا نہ کسی نے اسے جنا اور کوئی بھی اس کا کبھی شریک نہیں۔ “ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ :” الْمَثَلُ “ سے مراد یہاں صفت اور شان ہے، یعنی زمین ہو یا آسمان، پوری کائنات میں سب سے اعلیٰ صفت اور سب سے اونچی شان صرف اس کی ہے۔ ” لہ “ کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی شان اسی کی ہے۔ “ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول ذکر کیا ہے : ( قَوْلُہُ : ( وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ) یَقُوْلُ : ( ۭ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ) یعنی یہ زیر تفسیر آیت اللہ کے اس فرمان کی طرح ہے : ( ۭ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ) [ الشورٰی : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ “ یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی سے اونچی شان اسی کی ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حسن و خوبی میں اللہ تعالیٰ کی شان اور صفات کے برابر تو کیا اس سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی، کیونکہ کسی چیز میں کوئی خوبی موجود بھی ہے تو اس کی عطا کردہ ہے۔ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : خبر کے معرف باللاّم آنے کے ساتھ حصر پیدا ہو رہا ہے، یعنی وہی ہے جو سب پر غالب ہے۔ وہ جو چاہے کرے، نہ اس کے لیے کچھ مشکل ہے نہ کوئی اس کے ارادے میں رکاوٹ بن سکتا ہے، مگر غالب ہونے کے ساتھ وہ کمال حکمت والا بھی ہے۔ اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، بلکہ کمال حکمت پر مشتمل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ (For Him is the highest attribute - 30:27) The word مَثَل mathal is used for any such thing which has resemblance and similarity with something else, but its being exactly like that is not necessary. Therefore, the Qur&an has used the word &mathal& for Allah Ta’ ala at several places, as in this very verse, and in another but Allah Ta’ ala&s Being is completely beyond resemblance. (That is why the word &mathal& has been translated above as &attribute&, which is also a possible lexical meaning of the word.)

لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى، لفظ مثل بفتح میم وثاء ہر ایسی چیز کے لئے بولا جاتا ہے جو دوسرے سے کچھ مماثلت اور مناسبت رکھتی ہو بالکل اس جیسی ہونا اس کے مفہوم میں داخل نہیں اسی لئے حق تعالیٰ کے لئے مثل ہونا تو قرآن میں کئی جگہ آیا ہے، ایک یہیں دوسرے فرمایا مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ لیکن مثل اور مثال سے حق تعالیٰ کی ذات پاک اور وراء الوراء ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَيْہِ۝ ٠ ۭ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٢٧ۧ بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ وہی ہے جو پہلی بار نطفہ سے پیدا کرتا ہے اور پھر وہی قیامت کے دن دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے نزدیک بہ نسبت پہلی بار پیدا کرنے کے زیادہ آسان ہے۔ اور آسمان و زمین والوں میں اس کی شان قدرت سب سے بلند ہے اور وہ اپنی بادشاہت و سلطنت میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔ شان نزول : وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ (الخ) ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ فرمانے کے بارے میں متعجب ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی وہ وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے اور پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ ط) ” یہ بعث بعد الموت کے بارے میں عقلی دلیل ہے جو قرآن میں متعدد بار دہرائی گئی ہے۔ معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی اس دلیل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی کام کا پہلی دفعہ کرنا دوسری دفعہ کرنے کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہوتا ہے ‘ اور جب کسی کام کو ایک دفعہ سر انجام دے دیا جائے اور اس سے متعلق تمام مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا جائے تو اسی کام کو دوسری مرتبہ کرنا نسبتاً بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اہل عرب جو قرآن کے مخاطب اول تھے ‘ وہ اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اور اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے ملتا ہے۔ مثلاً : (وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط) (لقمٰن : ٢٥) ” اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ! “ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کو خالص منطقی اور عقلی سطح پر یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس اللہ کے بارے میں تم مانتے ہو کہ وہ زمین و آسمان کا خالق ہے اور خود تمہارا بھی خالق ہے اس کے بارے میں تمہارے لیے یہ ماننا کیوں مشکل ہو رہا ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرے گا ؟ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہ آخر دوسری مرتبہ ایسا کیوں نہیں کرسکے گا ؟ جبکہ کسی بھی چیز کو دوسری مرتبہ بنانا پہلے کی نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔ (وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ” یہاں پر اللہ تعالیٰ کے لیے ” مثل “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن مثل یا مثال کا جو مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے اس کا اللہ کے بارے میں تصور کرنا مناسب اور موزوں نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ” مثل “ کا ترجمہ ” شان “ یا ” صفت “ سے کیا جائے کہ اس کی شان بہت اعلیٰ اور بلند ہے یا اس کی صفت سب سے برتر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 That is, "If it was not difficult for Him to create you in the first instance, how can it be difficult for Him to re-create you? Your first creation was not difficult for Him because your present existence is a living proof of that. Now it is simple commonsense that the re-making of a thing should be relatively easier for the one who trade it for the first time .

سورة الروم حاشیہ نمبر : 38 یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنا اگر اس کے لیے مشکل نہ تھا ، تو آخر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہوجائے گ؟ پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتے جاگتے موجود ہو ۔ اس لیے اس کا مشکل نہ ہونا تو ظاہر ہے ۔ اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے وہی چیز دوبارہ بنانا نسبۃً زیادہ ہی آسان ہونا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ معتبر سند سے ابن ابی حاتم میں عکرمہ کی رویت ٢ ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ مر کر پھر جینے کی آیتوں کے مضمون کو سن کر بڑا تعجب کرتے تھے اور مر کر مٹی ہوجانے کے بعد پھر جی اٹھنا کسی طرح ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کی سمجھ کے موافق ان کو سمجھایا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو نہ پہلی دفعہ انسان کا پیدا کرنا کچھ مشکل تھا نہ دوسری دفعہ کچھ مشکل ہے لیکن یہ لوگ اگر اپنی سمجھ کے موافق بھی غور اور فکر کریں تو ان کی سمجھ میں آجاوے گا کہ ایک شخص ایک دفعہ جب ایک کام کو کر چکتا ہے تو دوسری دفعہ اس کو وہ کام سہل ہوجاتا ہے پھر دنیا میں جب ان کو اس بات کا تجربہ ہے کہ یہ ایک دفعہ کے کرنے سے دوسری دفعہ وہ کام آسان ہوجاتا ہے اور پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو پیدا کیا ہے کہ نطفہ سے جو پانی کی طور کی ایک پتلی چیز ہے انسان کا پتلا بنا کر رحم جیسی تنگ جگہ میں روح پھنک دی دہ سب پیدائش تو رات دن ان کی آنکھوں کے سامنے ہے پھر جس نے پانی جیسی پتلی چیز کا پتلہ بنا کر رحم جیسی تنگ جگہ میں روح کو اس پتلے میں پھونک دیا اس کو مٹی جیسے سخت چیز کا پتلہ بنانا اور کھلے میدان میں روح کا اس پتلے میں پھونک دینا کیا مشکل ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح انسان کی پیدائش کا طریقہ دنیا میں اب جاری ہے وہ بھی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے اور حشر میں جو کچھ ہوگا وہ وہی طریقہ ہے جس طرح حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پھر اللہ کی قدرت کے آگے کیا چیز انو کھی ان کو نظر آتی ہے جو یہ لوگ حشر کا انکار کرتے ہیں صحیح بخاری کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی ١ ؎ اوپر گزر چکی ہے جس کا ٹکڑا یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا دنیا کی پیدایش کو آنکھوں سے دیکھ کر انسان کو لازم نہیں جو حشر کا انکار کرے اور اللہ کی قدرت کو جھٹلاوے اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ انسان کی عقل سے باہر اوپر کی آیتوں میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں جو جتلائی گئی ہیں ان کو دیکھ کر ان منکرین حشر کو لازم ہے کہ اللہ کو پہچانیں اور مخلوقات کی حالت پر اللہ کی قدرت کا قیاس کر کے حشر کے جھٹلانے میں عقلی باتوں کو دخل نہ دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور قدرت میں ایسا زبردمست اور بےمثل ہے کہ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات میں کوئی اس کا ثانی نہیں پھر اس کی حکمت اور قدرت کا قیاس مخلوقات کی باتوں پر کیوں کو صحیح ہوسکتا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ کتاب الایمان۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:27) یبدوا الخلق ثم یعیدہ (ملاحظہ ہو آیت 11) ۔ اھون۔ افعل التفضیل کا صیغہ۔ ھان یھون ھونا (نصر) مھان و مھانۃ ذلیل و حقیر ہونا۔ مسکین ہونا۔ اھون بڑا آسان۔ بہت ہی سہل۔ المثل الاعلی : مثل و مثل دونوں ہم معنی ہیں جیسے نقض و نقض۔ یہ دو طرح استعمال ہوتا ہے ایک بمعنی وصف دوسرا بمعنی مشابہ۔ اگرچہ مثل (بمعنی وصف) انسان کے لئے بھی لایا جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ سے منسوب صفات کے وہ معنی نہیں جو بشر سے منسوب صفات کے لئے جاتے ہیں۔ المثل کو معرف باللام کرکے صرف خدا کی ذات کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے المثل الاعلی۔ عظیم الشان و صف۔ الوصف لیس لغیرہ۔ ایسا وصف جو کسی دوسرے میں ممکن نہیں۔ مثل ال معرفہ کے ساتھ قرآن مجید میں صرف دو جگہ آیا ہے ایک آیت ہذا میں اور دوسرا (16:60) میں وللہ المثل الاعلی دونوں جگہ بالتخصیص ذات باری تعالیٰ کے وصف کے لئے ہے۔ عظیم الشان وصف صرف اللہ ہی کے لئے ہے ملکا و خلقا۔ مالک کی حیثیت سے بھی اور خالق کی حیثیت سے بھی۔ قتادہ اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ صفت لا الہ الا اللہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ’ د یعنی تمہارے کہنے اور کرنے کے لحاظ سے “ مطلب یہ یہ کہ تم اس چیز کو تو مانتے ہو کہ تمام مخلوقات کو پہلی بار اسی نے پیدا کیا ہے اور یہ بھی سمجھتے ہو کہ جس نے ایک دفعہ کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لئے اسی چیز کو دوبارہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لئے جس نے پہلی بار تمام مخلوقات بنائی ہے دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا آسان تر ہونا چاہیے۔ (قرطبی ۔ شوکانی)5 کیونکہ کوئی اس کے جوڑ کا نہیں۔ تمام عمدہ صفات اس میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ دوسری کسی مخلوق میں یہ بات نہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” آسمان کے فرشتے نہ کھائیں نہ پئیں نہ حاجت بشری رکھیں، سوائے بندگی کے کچھ کام نہیں اور زمین کے لوگ سب چیز میں آلودہ، پر اللہ کی صفت نہ ان سے ملے نہ ان سے وہ پاک ذات ہے۔ “ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ذات کبریا کی مذکورہ بالا صفات اور قدرتیں ہیں اسی ذات اکبر نے پوری مخلوق کو ابتدا سے پیدا کیا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق، زمین و آسمان کی پیدائش، لیل ونہار کی گردش اور اپنی دوسری قدرتوں کا تذکرہ اور شمار کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ جس ذات نے یہ سب کچھ پیدا کیا اسی نے پوری مخلوق اور انسان کو پہلی دفعہ پیدا فرمایا اور وہی اسے دوبارہ زندہ کرنے کے بعد اپنے حضور حاضر کرے گا۔ مخلوق اور انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بالکل آسان کام ہے۔ وہ اپنی ذات اور تخلیق کے حوالے سے اعلیٰ اور بےمثال ہے۔ زمین و آسمانوں میں اس کی ذات اور صفات کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہوگی وہ ہر اعتبار سے غلبہ رکھنے والا ہے اور اس کے ہر کام میں لا تعداد حکمتیں پائی جاتی ہیں۔ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنے کے بارے میں یہ بھی الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ کہ سوچو اور غور کرو کیا پہلی دفعہ مخلوق کو پیدا کرنا مشکل ہے یا دوسری مرتبہ۔ (العنکبوت : ١٩۔ ٢٠) ” اَلْعَزِیْزُ “ کی صفت لا کر اشارہ کیا کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، بادشاہ ہو یا فقیر، نیک ہو یا بد، ڈوب کر مرا ہو یا جل کر جس حالت میں مرا ہو۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے کہ اسے دوبارہ زندہ کرے۔ دوبارہ پیدا کرنے میں ” اَلْحَکِیْمُ “ کی حکمت یہ ہے کہ وہ ظالم کو سزا دے اور نیک کو جزا دے۔ مسائل اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اپنی قدرت کی ١٦ نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ١۔ ” اللہ “ ہی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اسی نے لوگوں کو زمین پر پھیلایا اور بسایا ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ ہی نے مردوں سے ان کی بیویوں کو پیدا کیا ہے۔ ٤۔ اسی نے میاں بیوی کے درمیان محبت اور مہربانی کا جذبہ پیدا فرمایا ہے۔ ٥۔ ” اللہ “ نے ہی زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ ٦۔ اسی نے لوگوں کی مختلف زبانیں اور رنگتیں بنائی ہیں۔ ٧۔ ” اللہ “ ہی نے رات کو باعث سکون بنایا ہے۔ ٨۔ اسی نے لوگوں کے لیے دن کو کام کاج کے لیے بنایا ہے۔ ٩۔ ” اللہ “ ہی آسمانی بجلی سے لوگوں کو خوف زدہ کرتا اور امید دلاتا ہے۔ ١٠۔ وہی آسمان سے بارش کے ذریعے مردہ زمین کو شاداب کرتا ہے۔ ١١۔ ” اللہ “ ہی زمین و آسمانوں کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ١٢۔ وہی لوگوں کو قیامت کے دن زمین سے نکلنے کا حکم دے گا اور لوگ اس کے حکم کے ساتھ ہی نکل کھڑے ہوں گے۔ ١٣۔ زمین و آسمان اسی کی ملک ہیں اور ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔ ١٤۔ ” اللہ “ ہی نے مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بالکل آسان ہے۔ ١٥۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور تخلیق کے حوالے سے پوری کائنات میں اعلیٰ اور بےمثال ہے۔ ١٦۔ زمین و آسمان میں وہی سب پر غالب اور بڑا حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ اعلیٰ اور بےمثال ہے : ١۔ ” اللہ “ تعالیٰ ہی رب ہے۔ ( لانعام : ١٠٢) ٢۔ ” اللہ “ ہر چیز کا خالق ہے۔ ( الرعد : ١٦) ٣۔ ” اللہ “ ہی کی ذات ازلی اور ابدی ہے۔ (الحدید : ٣) ٤۔ مشرق ومغرب ” اللہ “ کے لیے ہے۔ (البقرۃ : ١٤٢) ٥۔ غنی ہے اور تعریف کیا گیا۔ ( فاطر : ٣٥) ٦۔ زمین و آسمان پر ” اللہ “ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٧۔ قیامت کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٨۔ ” اللہ “ ہر چیز پر گواہ۔ ( البروج : ٩) ٩۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ ” اللہ “ کی ملکیت ہے اور ا ” اللہ “ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ١٠۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت ” اللہ “ کے لیے ہے۔ (البقرۃ : ١٠٧) ١١۔ ” اللہ “ سخت عذاب دینے والا۔ ( البقرۃ : ١٦٥) ١٢۔ اس نے ہمیشہ رہنا اور باقی نے فنا ہوجانا ہے۔ (الرّحمن : ٢٦) ١٣۔ کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے وہ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وھو الذی یبدء وا ۔۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (30: 27) ” “۔ اس سورة میں آغاز تخلیق اور اعادہ تخلیق کا ذکر پہلے بھی ہوا ہے۔ اس طویل سفر اور کائنات کی سیر کے بعد ازسر نو اس کا ذکر اس اضافے سے کیا جاتا ہے۔ وھو اھون علیہ (30: 27) ” اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے “۔ حالانکہ اللہ کے لیے کوئی چیز نہ آسان ہے اور نہ مشکل ہے اس کا معاملہ تو یہ ہے۔ انما امرہ ۔۔۔۔۔ کن فیکون ” اس کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا ، پس وہ ہوجاتی ہے “۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس انداز میں سمجھاتے ہیں جس طرح ، اللہ جانتا ہے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں۔ لوگوں کے ہاں پہلی تخلیق سے اعادہ آسان ہوتا ہے لیکن وہ خود اپنے تجربات کے خلاف جاتے ہیں کہ ابتدائی تخلیق سے اعادہ مشکل ہے۔ حالانکہ اعادہ آسان ہونا چاہئے۔ ولہ المثل ۔۔۔۔ والارض (30: 27) ” آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے “۔ وہ آسمانوں اور زمین میں منفرد ہے۔ اس کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ وہ اکیلا اور حمید ہے۔ وھو العزیز الحکیم (30: 27) ” وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ زبردست ہے اور قاہر ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے اور حکیم ہے جو بھی کرتا ہے حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس کا کیا نہایت ہی پختہ اور پورا پورا ہوتا ہے۔ کامل مکمل۔ اس عظیم مطالعاتی سفر کے اختتام پر ، جس میں ہم نے اس کائنات کے آفاق ، طول و عرض ، اس کے ظاہری احوال اور اس کی گہرائیوں کا سفر کیا ، جس میں ہم نے مناظر بھی دیکھے اور حقائق بھی اخذ کیے ، اب سیاق کلام میں عقل و خرد کی تاروں پر آخری ضرب لگائی جاتی ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخری آیت میں ابتدا اور اعادہ کا تذکرہ فرمایا : (وَھُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ) (اور وہی ہے جو پہلی بار پیدا فرماتا ہے پھر وہی دوبارہ زندہ فرمائے گا) (وَ ھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْہِ ) (اور اسے دوبارہ پیدا فرمانا پہلی بار پیدا فرمانے کے بہ نسبت زیادہ آسان ہے) یہ لوگوں کی سمجھ کے اعتبار سے فرمایا ہے کیونکہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ کسی چیز کا دوبارہ وجود میں لانا پہلی دفعہ لانے کے اعتبار سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اسی لیے حدیث قدسی میں فرمایا : فاما تکذیبہ ایای فقولہ لن یعیدنی کما بدأنی وَلَیْسَ اوّل الخلق باھون عَلَیَّ من اعادتہ (ابن آدم یوں کہہ کر مجھے جھٹلاتا ہے کہ اللہ نے جو پہلی بار مجھے پیدا کیا تھا اس کے بعد مجھے دوبارہ ہرگز پیدا نہ فرمائے گا حالانکہ میرے لیے پہلی بار پیدا کرنا دوسری بار پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے) یعنی جو قدرت ابتداءً پیدا کرنے پر ہے وہی دوبارہ پیدا کرنے پر ہے، اس کے لیے دونوں برابر ہیں (رواہ البخاری) ھذا اذا ارید باھون مَا یَدُل علیہ اسم التفضیل۔ (قال صاحب الروح وروی الزجاج عن أبی عبیدۃ و کثیر من اھل اللغۃ ان (اھون) ھٰھُنَا بمعنی ھین وروی ذلک عن ابن عباس والربیع وکذا ھو فی مصحف عبد اللہ۔ (یہ اس وقت ہے جب کہ یہاں اھون کو اسم تفضیل کا صیغہ سمجھا جائے تفسیر روح المعانی والے کہتے ہیں زجاج نے ابو عبیدہ اور بہت سارے اہل لغۃ سے روایت کیا ہے کہ یہاں اھون ھینٌ کے معنی میں ہے اور یہی بات حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور ربیع سے بھی مروی ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کے مصحف میں بھی اسی طرح تھا۔ ) پھر فرمایا : (وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی) (اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان اعلیٰ ہے) یعنی آسمان اور زمین کے رہنے والے جانتے ہیں اور اس کا یہ وصف بیان کرتے ہیں کہ اس کی شان سب سے اعلیٰ وارفع ہے، وہ صفات کمال سے متصف ہے، اس کی صفت قدرت بھی عام ہے اور حکمت بھی تام ہے، قال صاحب الروح فِی السّمٰوٰت والارض متعلق بمضمون الجملۃ المتقدمۃ علیٰ معنی انہ سبحانہ وقد وصف بذلک وعرف بہ فیھما علی السنۃ الخلائق والسنۃ الدلائل (تفسیر روح المعانی کے مصنف علامہ آلوسی (رض) فرماتے ہیں (فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) پچھلے جملہ کے مضمون سے متعلق ہے اس کے معنی ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان صفات کے ساتھ آسمانوں اور زمینوں میں اسی وصف کے ساتھ جانا پہچانا جاتا ہے مخلوقات کی زبانوں پر بھی یہی ہے اور دلائل کی زبان سے بھی) (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) (اور وہ عزت اور غلبہ والا ہے اس کی بڑی قدرت ہے اور وہ حکمت والا بھی ہے) قیامت واقع کرنے اور دوبارہ پیدا فرمانے میں جو تاخیر ہے وہ اس کی حکمت کے موافق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ یہ توحید پر آٹھویں عقلی دلیل ہے۔ ساری کائنات کو ابتداء اسی نے پیدا کیا اور وہی دوبارہ مخلوق کو زندہ کرے گا یہ اس کے لیے بہت ہی آسان ہے جو اللہ ایسا قادر و متصرف ہے وہی کارساز اور برکات دہندہ ہے۔ ولہ المثل الاعلی الخ سب سے بڑی صفت ہے یعنی وحدانیت اللہ تعالیٰکے لیے مخصوص ہے۔ وہ ذات وصفات میں متفرد اور یگانہ ہے اور زمین و آسمان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ عن مجاھد المثل الاعلی قول لا الہ الا اللہ ولہ الوصف بالوحدانیۃ (بھر ج 7 ص 170) ۔ عن قتادۃ و مجاھد ان (المث الاعلی) لا الہ الا اللہ و عللہما اراد بذلک الواحدانیۃ فی ذاتہ تعالیٰ و صفاتہ سبحانہ (روح ج 21 ص 37) ۔ وھو العزیز الحکیم۔ اس کی قدرت کاملہ تمام ممکنات پر حاوی اور اس کا علم محیط تمام موجودات کو شامل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27۔ اور وہی ہے جو ابتداء مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس پر بہت آسان ہے اور آسمان و زمین میں اس کی شان سب سے بلند اور بالا تر ہے اور وہ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ یعنی اول بار پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے جو سب کو تسلیم ہے اور دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا ۔ جیسا کہ دلائل قاطعہ سے ثابت ہے اور یہ بات یعنی ایک چیز کو ایک مرتبہ بنا کر اس کو دوبارہ بنا لینا مخاطبین کے اعتبار سے آسان اور سہل بھی ہے پھر دوسری زندگی سے کیوں انکار کرتے ہو اس کی کہاوت اور اس کی صفات اور اس کی شان سب سے بلند وبالا تر ہے اور وہ عزیز ہے حکیم ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں آسمان کے لوگ نہ کھاویں نہ پیویں نہ حاجت بشری رکھیں سوائے بندگی کے کچھ کام نہیں اور زمین کے لوگ سب چیزیں آلو وہ اللہ کی صفت نہ ان سے ملے نہ ان سے اور وہ پاک ذات ہے۔ 12