Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 28

سورة الروم

ضَرَبَ لَکُمۡ مَّثَلًا مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ہَلۡ لَّکُمۡ مِّنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ شُرَکَآءَ فِیۡ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ فَاَنۡتُمۡ فِیۡہِ سَوَآءٌ تَخَافُوۡنَہُمۡ کَخِیۡفَتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۸﴾

He presents to you an example from yourselves. Do you have among those whom your right hands possess any partners in what We have provided for you so that you are equal therein [and] would fear them as your fear of one another [within a partnership]? Thus do We detail the verses for a people who use reason.

اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کردیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Parable of Tawhid This is the parable Allah makes of the idolators, those who worship others besides Him and attribute partners to Him, while at the same time admitting that these so-called partners -- idols and false gods -- are enslaved to and belong to Him. In their Talbiyah (during Hajj and Umrah they used to say, "At Your service, You have no partner except the partner that You have, You own Him and whatever he owns." Allah says here: ضَرَبَ لَكُم مَّثَلً مِنْ أَنفُسِكُمْ ... He sets forth for you a parable from yourselves, `something which you yourselves can see witness, and understand.' ... هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاء فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاء ... Do you have partners among those whom your right hands possess to share as equals in the wealth We have bestowed on you... `None of you would like to have his servant as a partner in his wealth, each of them having an equal share.' ... تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ... whom you fear as you fear each other. `You fear that they will have a share in your wealth with you.' Abu Mijlaz said, "You do not fear that your servant will have a share in your wealth, because he has no such right; similarly, Allah has no partner." The point is, that since any one of you would abhor such a thing, how can you attribute rivals to Allah from among His creation! At-Tabarani recorded that Ibn Abbas said, "The people of Shirk used to say in their Talbiyah, `At Your service, You have no partner except the partner that You have, You own Him and whatever he owns.' Then Allah revealed the words: ... هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاء فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاء تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ... Do you have partners among those whom your right hands possess to share as equals in the wealth We have bestowed on you, whom you fear as you fear each other..." If humans have this characteristic, this parable shows that it is even less befitting for Allah to have a partner. ... كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الاْيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ Thus do We explain the signs in detail to a people who have sense. Then Allah points out that when the idolators worship others instead of Him, doing so out of their own folly and ignorance:

اپنے دلوں میں جھانکو! مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں ۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ دعا ( لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک ) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے ۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے ۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جارہاہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں ۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کرسکیں ۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضامند ہوگا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں ۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا ۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں ۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری ۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو ۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے ۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں ۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے ۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

281یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہوجائیں تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا وصلحا ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہوجائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں ؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انھیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ 282یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو ؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انھیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا ۔283کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی یہ مثال تمہارے حسب حال ہے جس سے بات باسانی تمہاری سمجھ میں آسکتی ہے۔ مثال یہ ہے کہ فرض کرو تمہارے کچھ غلام ہیں۔ کیا تم ان غلاموں میں اپنا مال و دولت تقسیم کرسکتے ہو کہ وہ تمہارے ہمسر بن جائیں۔ تم تو اس بات سے اس طرح خائف ہوجاؤ گے جیسے تم اپنے ان بھائی بندوں سے ڈرتے ہو جو تمہاری جائیداد میں پہلے سے شریک ہیں۔ اگر تم اس مشترکہ جائیداد میں کچھ تصرف کرنے لگو تو وہ تمہیں روک بھی سکتے ہیں۔ تمہارا محاسبہ بھی کرسکتے ہیں اور مشترکہ جائداد کو تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔ اب اگر تم اپنے غلاموں کو اپنی جائیداد میں برابر کا شریک بنالو۔ تو ان کے تمہارا غلام ہونے کے باوجود تمہیں ضرور ان سے ایسے ہی خطرات لاحق ہوجائیں گے اور تم یہ کام کبھی گوارا نہ کرو گے۔ حالانکہ تمہارے یہ علام انسانیت کے لحاظ سے تمہارے بھائی بند اور برابر درجہ کے لوگ ہیں۔ اب جو بات تم اپنے لئے گوارا نہیں کرسکتے وہ اللہ کے لئے کیسے گوارا کرلیتے ہو کہ اللہ کی مخلوق کو جو نوع کے لحاظ سے بھی اس کے مساوی نہیں بلکہ اس کی مخلوق اور مملوک ہے، اللہ کے اختیارات میں شریک قرار دے دیا جائے ؟ یہ کیسی دھاندلی کی تقسیم ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۔۔ : یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان ملا جلا آ رہا تھا، اب خالص توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرک کے باطل ہونے کی مثال خود تمہاری ذات سے بیان فرمائی، تاکہ تمہیں کہیں دور نہ جانا پڑے۔ اپنے بارے میں یہی غور کرلو کہ تمہارے غلام جو تمہاری ملکیت میں ہیں، کیا ان میں سے کوئی بھی اس رزق میں تمہارا شریک ہے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے کہ وہ اور تم اس کے مالک ہونے میں برابر ہوجاؤ اور اپنے اس غلام سے اسی طرح ڈرو جیسے تم آزاد لوگ ایک دوسرے سے ڈرتے ہو ؟ جواب ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں، غلام آقا کے اور مملوک مالک کے برابر کبھی نہیں ہوسکتا۔ تو پھر جب تم مانتے ہو کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود ہر مخلوق، فرشتے، انسان، جنّ ، انبیاء، اولیاء اور صلحاء، حجر، شجر اور بت وغیرہ سب کا مالک اللہ ہے اور وہ سب اللہ کی ملکیت ہیں اور تم خود اپنے غلاموں کو (جو انسان ہونے میں تمہارے برابر ہیں) اپنے اختیارات دے کر اپنے شریک اور اپنے برابر بنانے کے لیے تیار نہیں تو تم نے مخلوق کو خالق کا اور مملوک کو مالک کا شریک کیسے بنا لیا جو اللہ تعالیٰ کے کسی بھی طرح برابر نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے لیے یہ مثال اس لیے بیان فرمائی کہ وہ اپنے بنائے ہوئے معبودوں کو بھی اللہ ہی کی ملکیت مانتے تھے۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے : ( لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ) ” حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ( وَیْلَکُمْ ، قَدْ قَدْ ) ” تم پر افسوس ! بس کرو، بس کرو۔ “ مگر وہ کہتے : ( إِلاَّ شَرِیْکًا ہُوَ لَکَ ، تَمْلِکُہُ وَ مَا مَلَکَ ) [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ و صف تھا ۔۔ : ١١٨٥ ] ” مگر تیرا ایک شریک ہے جس کا مالک تو ہے اور ان چیزوں کا بھی جن کا وہ مالک ہے۔ “ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : یعنی ہم ایسے ہی مثالوں کے ساتھ اور خوب کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ (شرک کو مذموم و باطل ثابت کرنے کے لئے) تم سے ایک مضمون عجیب تمہارے ہی حالات میں سے بیان فرماتے ہیں (وہ یہ کہ غور کرو) کیا تمہارے غلاموں میں کوئی شخص تمہارا اس مال میں جو ہم نے تم کو دیا ہے شریک ہے کہ تم اور وہ (باعتبار اختیارات کے) اس میں برابر ہوں جن کا تم (تصرفات کے وقت) ایسا خیال کرتے ہو جیسا اپنے آپس (کے شریک وسہیم آزاد خود مختار کا) خیال کیا کرتے ہو (اور ان سے اجازت لے کر تصرفات کیا کرتے ہو یا کم از کم اندیشہ مخالفت ہی ان سے رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ غلام اس طرح شریک نہیں ہوتا۔ پس جب تمہارا غلام جو نوع بشر اور بہت سی چیزوں میں تمہارا شریک ہے اور تمہیں جیسا ہے، فرق صرف ایک چیز میں ہے کہ تم مال و دولت کے مالک ہو وہ نہیں، اس کے باوجود جب وہ تمہارے خاص حق تصرف میں تمہارا شریک نہیں ہوسکتا تو تمہارے قرار دیئے ہوئے معبودات باطلہ جو کہ حق تعالیٰ کے غلام ہیں اور کسی کمال ذاتی یا وصفی میں اللہ تعالیٰ کے مماثل نہیں، بلکہ بعض تو ان میں سے مخلوقات الہیہ کے مصنوع ہیں۔ یہ معبودین حق تعالیٰ کے خاص حق معبودیت میں کس طرح اس کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہم نے جس طرح یہ دلیل شافی کافی بطلان شرک کی بیان فرمائی، ہم اس طرح سمجھداروں کے لئے دلائل صاف صاف بیان کرتے رہتے ہیں (اور مقتضا یہ تھا کہ وہ لوگ حق کا اتباع اختیار کرلیتے اور شرک چھوڑ دیتے مگر وہ حق کا اتباع نہیں کرتے) بلکہ ان ظالموں نے بلا (کسی صحیح) دلیل (کے محض) اپنے خیالات (فاسدہ) کا اتباع کر رکھا ہے سو جس کو (اس کی ہٹ دھرمی اور عناد و اصرار علی الباطل کی وجہ سے) خدا (ہی) گمراہ کرے اس کو کون راہ پر لاوے (اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ معذور ہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ غم نہ کریں آپ کا جو کام تھا وہ آپ کرچکے، اور جب ان گمراہوں کو عذاب ہونے لگے گا تو) ان کا کوئی حمایتی نہ ہوگا اور جب اوپر کے مضمون سے توحید کی حقیقت واضح ہوگئی) تو (مخاطبین میں سے ہر ہر شخص سے کہا جاتا ہے کہ) تم (ادیان باطلہ سے) یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین (حق) کی طرف رکھو ( اور سب) اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو جس (قابلیت) پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (مطلب فطرة اللہ کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص میں خلقۃً یہ استعداد رکھی ہے کہ اگر حق کو سننا اور سمجھنا چاہے تو وہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کے اتباع کا مطلب یہ ہے کہ اس استبعداد اور قابلیت سے کام لے اور اس کے مقتضا پر عمل کرے غرض اس فطرت کا اتباع چاہئے اور) اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے بدلنا چاہئے پس سیدھا (رستہ) دین (کا) یہی ہے لیکن اکثر لوگ (اس کو بوجہ عدم تدبر کے) نہیں جانتے ( اس لئے اس کا اتباع نہیں کرتے غرض) تم خدا کی طرف رجوع ہو کر فطرت الہیہ کا اتباع کرو اور اس (کی مخالفت اور مخالفت کے عذاب) سے ڈرو اور (اسلام قبول کر کے) نماز کی پابندی کرو (جو توحید کا عملی اظہار ہے) اور شرک کرنے والوں میں سے مت رہو، جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا (یعنی حق تو یہ ایک تھا اور باطل بہت ہیں انہوں نے حق کو چھوڑ دیا اور باطل کی مختلف راہیں اختیار کرلیں، یہ ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے کہ ایک نے ایک راہ لے لی دوسرے نے دوسری اور بہت سے (مختلف) گروہ ہوگئے ( اور اگر حق پر رہتے تو ایک گروہ ہوتے اور باوجود اس کے کہ ان حق کے چھوڑنے والوں میں سب کے طریقے باطل ہیں، مگر پھر بھی غایت جہل سے ان میں) ہر گروہ اپنے اس طریقے پر نازاں ہیں جو ان کے پاس ہے اور (جس توحید کی طرف ہم بلاتے ہیں باوجود اس کے انکار اور خلاف کرنے کے اضطرار کے وقت عام طور پر لوگوں کے حال و قال سے اس کا اظہار و اقرار بھی ہونے لگتا ہے جس سے مضمون توحید کے فطری ہونے کی بھی تائید ہوتی ہے، چناچہ مشاہد کیا جاتا ہے کہ) جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے (اس وقت بےقرار ہو کر) اپنے رب (حقیقی) کو اسی کی طرف رجوع ہو کر پکارنے لگتے ہیں (اور سب معبودین کو چھوڑ دیتے ہیں مگر) پھر (قریب ہی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ) جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے کچھ عنایت کا مزہ چکھا دیتا ہے تو بس ان میں سے بعض لوگ (پھر) اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے جو (آرام و عیش) ان کو دیا ہے اس کی ناشکری کرتے ہیں (جو عقلاً بھی قبیح ہے) سو (خیر) چند روز اور حظ حاصل کرلو پھر جلدی تم (حقیقت) معلوم کرلو گے (اور یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں خصوصاً اقرار توحید کے بعد تو ان سے کوئی پوچھے کہ اس کی کیا وجہ ہے) کیا ہم نے ان پر کوئی سند (یعنی کوئی کتاب) نازل کی ہے کہ وہ ان کو خدا کے ساتھ شرک کرنے کو کہہ رہی ہے (یعنی ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نقلی بھی نہیں اور مقتضائے ہدایت عقل کے خلاف ہونا خود ان کی تسلیم سے حالت اضطرار میں ظاہر ہوجاتا ہے، پس سرتاسر باطل ٹھہرا) اور (آگے مضمون بالا کا تتمہ ہے اور وہ یہ ہے کہ) ہم جب (ان) لوگوں کو کچھ عنایت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس سے (اس طرح) خوش ہوتے ہیں ( کہ خوشی میں مست ہو کر شرک کرنے لگتے ہیں جیسا اوپر ذکر آیا) اور اگر ان کے اعمال (بد) کے بدلے میں جو پہلے اپنے ہاتھوں کرچکے ہیں ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو بس وہ لوگ ناامید ہوجاتے ہیں (اس مقام میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تتمہ میں اصل مقصود پہلا جملہ اِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ ہے کہ اس میں ان کے مبتلائے شرک ہونے کا سبب بدمست اور غافل ہونا مذکور ہے، دوسرا جملہ محض تقابل کی مناسبت سے ذکر کردیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں حالتوں میں اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بہت کم اور ضعیف ہے، ذرا ذرا سی چیز اس تعلق کو فراموش کردیتی ہے۔ آگے اسی کی دوسری دلیل ہے کہ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں تو) کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے زیادہ روزی دیتا ہے اور جس کو چاہے کم دیتا ہے (اور مشرکین کے نزدیک یہ مسلم بھی تھا کہ روزی کا گھٹانا بڑھانا اصل میں خدا ہی کا کام ہے، لقولہ تعالیٰ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ اس (امر) میں (بھی توحید کی) نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں (یعنی وہ سمجھتے ہیں اور دوسرے بھی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ جو شخص ایسا قادر ہوگا مستحق عبادت کا وہی ہوگا) پھر (جب دلائل توحید میں معلوم ہوا کہ رزق میں بسط و قبض اللہ ہی کی طرف سے ہے تو اس سے ایک بات اور بھی ثابت ہوئی کہ بخل کرنا مذموم ہے، کیونکہ بخل کرنے سے جتنا رزق مقدر ہے اس سے زیادہ نہیں مل سکتا، اس لئے نیک کاموں میں خرچ کرنے سے بخل نہ کیا کر بلکہ) قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو بھی (ان کے حقوق دیا کر جن کی تفصیل دلائل شرعیہ سے معلوم ہے) یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور (ہم نے جو یہ قید لگائی کہ یہ مضمون بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی رضا کے طلبگار ہوں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مطلق مال خرچ کردینا موجب فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ) جو چیز تم (دنیا کی غرض سے خرچ کرو گے مثلاً کوئی چیز) اس غرض سے کسی کو دو گے کہ وہ لوگوں کے مال میں (شامل ہو کر یعنی ان کے ملک و قبضہ میں) پہنچ کر (تمہارے لئے) زیادہ ہو (کر آ) جاوے (جیسا نوتہ وغیرہ رسوم دنیویہ میں اکثر اسی غرض سے دیا جاتا ہے کہ یہ شخص ہمارے موقع پر کچھ اور زائد شامل کر کے دے گا) تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا (کیونکہ خدا کے نزدیک پہنچنا اور بڑھنا اس مال کے ساتھ خاص ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کیا جائے جیسا آگے آتا ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ ایک تمرہ مقبولہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں یہ نیت تھی نہیں لہٰذا نہ مقبول ہوا نہ زائد ہوا) اور جو زکوٰۃ (وغیرہ) دو گے جس سے اللہ کی رضا طلب کرتے ہو گے تو ایسے لوگ (اپنے دیئے ہوئے کو) اللہ تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہیں گے (جیسا ابھی حدیث کا مضمون گذرا اور یہ مضمون اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت رزاق پر دلالت کرنے کی وجہ سے توحید کی تاکید کا ذریعہ ہے اس لئے یہ تبعاً آ گیا، اصل مقصود توحید کا بیان ہے، اسی لئے آگے پھر اسی توحید کا ذکر ہے۔ ) اللہ ہی وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تم کو موت دیتا ہے پھر (قیامت میں) تم کو جلائے گا (ان میں بعض امور تو مخاطبین کے اقرار سے ثابت ہیں اور بعض دلائل سے، غرض کہ وہ ایسا قادر ہے، اب یہ بتلاؤ کہ) کہ تمہارے شرکاء میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرسکے (اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں، اس لئے ثابت ہوا کہ) وہ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے (یعنی اس کا کوئی شریک نہیں۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 7 ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَہُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝ ٢٨ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے کفار مکہ اللہ تعالیٰ تم سے ایک عجیب مضمون تمہارے جیسے انسانوں میں سے بیان کرتا ہے۔ شان نزول : هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ (الخ) طبرانی نے ابن عساکر سے روایت کیا ہے کہ مشرکین اس طرح تلبیہ پڑھا کرتے تھے لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک۔ اس کے بعد کہا کرتے تھے الا شریکا ھو لک تملکہ ومالک یعنی نعوذ باللہ تیرا صرف ایک شریک ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ھل لکم (الخ) یعنی کیا تمہارے غلاموں میں کوئی تمہارا اس مال میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے شریک ہے اور جبیر نے بواسطہ داؤد بن ابی ہند اور ابو جعفر محمد بن علی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ) ” ظاہر ہے کوئی آقا اپنے کسی غلام کو کبھی بھی اپنی ملکیت اور اپنی جائیداد میں اس طرح تصرف کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا حق اور اختیار خود اس کے برابر ہوجائے۔ گویا یہ امر محال ہے۔ (تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ ط) ” یعنی کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے خدشات اور اندیشے تم اپنی ذات اور اپنے مال و اسباب کے بارے میں رکھتے ہو ان لونڈی غلاموں کے بارے میں بھی تمہیں ایسے ہی اندیشے لاحق ہوئے ہوں ؟ تم لوگ اپنے آپ ‘ اپنی اولاد ‘ اپنی ملکیت کے بارے میں تو ہر وقت متفکرّ رہتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘ ویسا نہ ہوجائے ‘ مگر کبھی تمہیں اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں بھی ایسی ہی سوچوں نے پریشان کیا ہے ؟ (کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) ” یعنی تم لوگ اگر کچھ بھی عقل رکھتے ہو تو تمہیں اس مثال سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ جب تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے برابر بٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تو پھر تم یہ کیسے سوچ لیتے ہو کہ اللہ اپنی مخلوق کو اپنے برابر کرلے گا ؟ تم لوگ خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ بڑا معبود اللہ ہی ہے اور تمہارے بنائے ہوئے شریک چھوٹے معبود ہیں تو تم چھوٹے معبودوں کے بارے میں کیسے گمان کرلیتے ہو کہ اللہ انہیں اپنے اختیارات کا مالک بنا دے گا اور ان کی سفارش اللہ کو مجبور کر دے گی ؟ تمہارے یہ من گھڑت معبود چاہے ملائکہ میں سے ہوں یا انبیاء اور اولیاء اللہ میں سے ‘ وہ سب کے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور مخلوق میں سے یہ لوگ خالق کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 In the forgoing section, arguments have been given both for Tauhid and for the Hereafter; now the discourse turns to only Tauhid. 40 The mushriks, even after admitting that Allah is the Creator and Master of the earth and heavens and all that they contain, held some of His creatures as associates in His attributes and powers, and prayed to them, presented offerings and performed rites of worship before them. Their belief regarding their self-made associates is found in the words of the Talbih that they used to pronounce while going round the Ka'bah. They said: "Here I am, O Allah, here I am in Thy presence! Thou hast no partner except the partner who is Thy own. Thou art his owner as well as owner of what he owns." (Tabarani on the authority Ibn 'Abbas) AIlah has refuted this kind of shirk in this verse. The argument is to this effect: "When you do not make your own slaves partners in your wealth, how do you think and believe that Allah will make His creatures partners in His Godhead?" (For further details, see E.N. 62 of An-Nahl).

سورة الروم حاشیہ نمبر : 39 یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان ملا جلا چل رہا تھا ۔ اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان کے اندر توحید کے دلائل بھی ہیں اور وہی دلائل یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کا آنا غیر ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد آگے خالص توحید پر کلام شروع ہورہا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 40 مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے ، اس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھہراتے تھے ، اور ان سے دعائیں مانگتے ، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے ، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے ۔ ان بناوٹی شریکوں کے بارے میں ان کا اصل عقیدہ اس تلبیہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے ۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبیک اللھم لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک ( طبرانی عن ابن عباس ) میں حاضر ہوں ، میرے اللہ میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جو تیرا اپنا ہے ، تو اس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے ۔ اللہ تعالی اس آیت میں اسی شرک کی تردید فرما رہا ہے ۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقا تمہاری غلامی میں آگئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پاسکتے ، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ النحل حاشیہ 62 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: کوئی بھی شخص یہ گوارا نہیں کرتا کہ اُس کا غلام اُس کی اَملاک میں اُس کے برابر ہوجائے اور کوئی کام کرتے وقت اُس سے اسی طرح ڈرنا پڑے جیسے دو آزاد آدمی جو کاروبار میں ایک دوسرے کے شریک ہوں، ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ اگر یہ بات یہ مشرک لوگ اپنے لئے گوارا نہیں کرتے تو اﷲ تعالیٰ کی خدائی میں دوسروں کو کیسے شریک ٹھہرا دیتے ہیں؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٨‘ ٢٩۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے سمجھانے کو یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ جو تمہارے لونڈی غلام ہیں کیا وہ ہماری دی ہوئی روزی میں تمہارے ساجھی ہیں یا تم ان سے ایسا ڈرتے ہو جیسا کہ اپنے بھائی بندوں سے ڈرتے ہو مطلب یہ ہے کہ وہ غلام لونڈی تمہارے مال میں شریک نہیں نہ تم کو ان سے مال کے بانٹ لینے کا ڈر ہے نہ غلام کو یہ اختیار ہے کہ تم سے مال بٹائے ایسا ہی خدا کا کوئی شریک نہیں کیونکہ سب اللہ کے لونڈی غلام ہیں حاصل یہ ہے کہ جب تم کو غلاموں کا شریک ہونا نہیں بھاتا تو خدا کے ساتھ کیوں شریک ٹھہراتے ہو پھر فرمایا ہم قرآن کی آیتوں کو اس طرح سے کھول کر سمجھ دار لوگوں کو سمجھاتے ہیں لیکن ان ظالم مشرکوں نے بغیر سمجھے بوجھے بتوں کے پوجنے میں اپنی خواہش نفس کی پیروی کی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ جس کا خدا گمراہ کر دے اس کو کون ہدایت کرسکتا ہے کیونکہ ہدایت خدا تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق ہوتی ہے جو لوگ اللہ کے علم ازلی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں نہ وہ دنیا میں راہ راست پر آسکتے ہیں نہ قیامت کے دن ان کا کوئی ایسا مددگار ہے جو ان کو عذاب سے بچاوے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جانے کے قابل اب جس قابل لوگ پیدا ہوئے ویسے ہی وہ کام کرتے ہیں۔ صحیح بخاری وسملم کے حوالہ سے ابوسعید (رض) خدا ری کی وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان قفرمائی ہے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آذر کی مدد کرنی چاہیں گے مگر اللہ کا حکم نہ ہوگا یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ علم الٰہی میں جو لوگ شرک کی حالت میں مر کر ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار پاچکے ہیں ان کے حق میں شرک کی مذمت کی مثالیں اور قرآن شریف کی سب نصیحت اسی طرح رائگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائگاں جاتا ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو مشرک بغیر تو بہ کے مرجاوے گا اس کو مغفرت کسی طرح ممکن نہیں اس واسطے ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر کے مدد کے ارادہ میں جس طرح نا کامیاب رہیں گے اسی طرح کسی مشرک کی اور کوئی بھی کچھ مدد نہ کرسکے گا۔ “ (١ ؎ صحیح بخاری مع فتح الباری ص ٢٣١ ج ٣ کتاب الانبیاء باب قول اللہ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا آلایۃ)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:28) ضرب مثلا۔ اس نے ایک مثال بیان کی ہے۔ الضرب کثیر المعانی لفظ ہے۔ اس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلا (1) فاضربوا فوق الاعناق (8:12) ان کے گردنوں کے اوپر مارو، یعنی مار کر ان کی گردنیں اڑا دو ۔ (2) ضرب الارض بالمطر۔ زمین پر بارش کا برسنا۔ (3) ضرب الدراہم (دھات کو کوٹ کر) دراہم میں ڈالنا۔ (4) ضرب فی الارض۔ بمعنی سفر کرنا۔ (کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے۔ اسی سے ہے فاضرب لہم طریقا فی البحر (20:77) پھر ان کے لئے سمندر میں خشک راستہ بنا لینا۔ (5) ضرب الحیمۃ۔ خیمہ لگانا۔ کیونکہ خیمہ لگانے کے لئے میخوں کو ہتھوڑے سے زمین ٹھونکا جاتا ہے۔ (6) ضرب اللین۔ اینٹیں چننا۔ ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا۔ (7) ضرب المثل۔ کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہوجائے وغیرہ۔ ضرب لکم مثلا۔ اللہ تمہارے لئے ایک مثال بیان کرتا ہے۔ من انفسکم : ای من احوال انفسکم۔ تمہارے ہی حالات میں سے۔ من ابتدائیہ ہے۔ ہل لکم من ما ملکت ایمانکم من شرکائ۔ صاحب ضیاء القرآن فرماتے ہیں :۔ ہل لکم۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہیں ہوتا۔ لکم خبر مقدم ہے اور من شرکاء مبتدا مؤخر ہے۔ یہاں من زائدہ ہے اور استفہام انکاری ہے ۔ اور من ما ملکت ایمانکم حال ہے اور من شرکاء ذوالحال۔ کیونکہ ذوالحال نکرہ ہے اس لئے اس کا حال پہلے ذکر کیا جاسکتا ہے۔ ما ملکت ایمانکم جو تمہارے دائیں ہاتھوں کی ملکیت ہیں۔ یعنی تمہارے غلام ۔ فی ما رزقنکم۔ ما موصولہ رزقنا ماضی جمع متکلم کم ضمیرمفعول جمع مذکر حاضر اس رزق میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا۔ ہل ۔۔ فیما رزقنکم کیا اس رزق میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے تمہارے بعض غلام تمہارے شریک ہوتے ہیں ؟ فانتم فیہ سوائ۔ یہ جملہ استفہام انکاری کے جواب میں ہے۔ انتم یا تو معطوف علیہ ہے اور معطوف مقدر ہے۔ ای انتم وھم یعنی تم اور وہ یا بطور تغلیب انتم۔ ما ملکت ایمانکم (ای الممالیک) کو بھی متضمن ہے یعنی تم دونوں۔ احرار و ممالیک فیہ میں واحد مذکر غائب ما رزقنکم کی طرف راجع ہے اور فیہ متعلق سواء ہے۔ سواء برابر۔ مساوی الحقوق۔ ای لا فرق بینکم وبینھم فی التصرف فیہ۔ یعنی تم اور تمہارے غلام اس مال کے تصرف میں یکساں اختیارات رکھتے ہوں۔ تخافونھم : تخافون مضارع جمع مذکر حاضر۔ خوف مصدر۔ (باب فتح) ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ تم ان سے ڈرتے ہو۔ تم ان سے ڈرتے رہو۔ یہ ضمیر انتم سے حال ہے۔ یا اس کی خبر ثانی ہے۔ کخیفتکم۔ کاف حرف جر ہے تشبیہ کے لئے آیا ہے۔ خیفتکم مضاف مضاف الیہ تمہارا ڈر۔ انفسکم مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے اپنے اشخاص ۔ تمہارے اپنے جی۔ یعنی تمہارے اپنے ہی احرار بھائیوں سے ای کما تخافون انفسکم جیسا تم اپنے ہی احرار بھائیوں سے یعنی اپنے ہی آدمیوں سے ڈرتے ہو۔ ڈر کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اگر غلاموں کو شریک کریں تو مال میں تصرف اپنی مرضی سے مشکل ہوجائے گا کیونکہ شریک کی رضا مندی لازمی ہے۔ (2) شریک وراثت میں بھی دخل انداز ہوگا۔ (3) یا یہ ڈر کہ شریک جائداد یا ملکیت بانٹ کر نہ لے جائے۔ وغیرہ۔ کذلک : ای مثل ذلک التفصیل الواضح۔ جس طرح ہم نے یہ مثال واضح اور مفصل بتائی ہے ایسے ہی ۔۔ نفصل الایت۔ ہم (اپنی) آیات کو مفصل بیان کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی جب تم اپنے لونڈی غلاموں کو، جو تمہاری ہی طرح آدم کی اولاد اور اللہ کی مخلوق ہیں، اپنے برابر کا اور مال و دولت میں شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو پھر اللہ کی مخلوق میں بعضوں کو اس کا شریک کیوں گردانتے ہو ؟ کیا جن لوگوں کو تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور غلام نہیں ہیں۔ دیکھیے سورة نحل آیت 71 (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 28 تا 40 اسرارو معارف اللہ کریم تمہارے لیے ایک مثال ارشاد فرماتا ہے کہ تم خود اپنی ذات پر غور کرو تمہارے جیسے انسان جو تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں اور تمام انسانی اوصاف میں تمہارے ساتھ ہیں مگر تمہارے غلام اور خادم ہیں صرف اس ایک وجہ سے وہ تمہارے مال میں تمہاری مرضی کے بغیر داخلت نہیں کرسکتے اور اگر کوئی تمہارا معمولی سا حصہ دار اور شریک ہو تو پھر تم اس کی ناراضگی سے کس قدر ڈرتے ہو اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتے تو جنہیں تم نے اللہ کا شریک ٹھرایا ہے وہ تو اس کی مخلوق ہیں کسی بھی وصف میں اس کے شریک نہیں اور اللہ کا اگر کوئی شریک ہوتا تو اللہ کی مرضی سے نظام نہ چلتا اور یوں تباہ ہوچکا ہوتا۔ اسی طرح سے دلائل بہت واضح بیان کیے جاتے ہیں مگر بات عقلمندوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ان ظالموں کی عقل بھی خواہشات نفس کی پیروی کے باعث کام نہیں کرتی اور یہ بغیر کسی عملی اور عقلی دلیل کے محض خواہشات کے اسیر ہیں۔ اور جب کسی کی برائی اس حد تک پہنچ جائے کہ اللہ ناراض ہو کر اسے گمراہی پہ لگا دیں تو پھر اسے کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا اور کوئی باس کی مدد کرنے والا بھی نہیں ہوسکتا تو اے مخاطب تو اپنا رخ درست رکھ اور ہر طرف سے یکسو ہو کر دین اسلام کو اختیار کرلے۔ دین فطرت : کہ یہی دین حق عین انسانی فطرت پر ہے وہ مزاج اور فطرت جو مسخ نہ ہوا ہو اسلام اس کے عین مطابق ہے کہ انسان فطرۃ کسی غلامی پسند نہیں کرتا اور اسلام اسی کا حکم دیتا ہے کہ ہر انسان صرف اللہ کا بندہ ہے بندوں کا نہیں ہر انسان جان مال آبرو کا تحفظ چاہتا ہے جو سب سے بہتر اور اعلی طریقے سے اسلام عطا کرتا ہے غرض ہر کام میں اور عقیدے عمل اخلاق ہر اعتبار سے اسلام ہی انسانی مزاج کے عین مطابق ہے کہ اللہ ہر ایک کو وہی انسانی فطرت عطا کرتا ہے کسی کی فطرت تبدیل نہیں کرتا ہاں وہ کود اگر بےدین اور بدکار محفل و کردار اپنا کر اسے دھندلانہ دے اسی لیے علماء حق کا قول ہے کہ صحبت بد سے اجتناب فرض ہے اور فطری استعداد کی حفاظت کرنا فرض ہے اسلام بلکل سیدھا راستی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت جو اپنی فطری انسانی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرچکے ہیں اس حققت کو بھی سمجھ نہیں پاتے۔ لہذا ہمیشہ اپنی ساری امیدیں اللہ سے وابستہ رکھو اور اس کی اطاعت و عبادت میں کوتاہی نہ کرو کبھی شرک مت کرو جیسا کہ لوگوں نے شرک کر کے دین میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے گمراہ فرقے ہوگئے۔ لفظ شیعہ : لفظ شیعہ یہ ان بھی گمراہ فرقے پر بولا گیا ہے ہر فرقی اپنی گمراہی پر خوش ہے اور خود کو حق پر سمجھ رہا ہے حالانکہ حق تو اللہ واحد کی اطاعت اور صرف اسی کی عبادت میں تھا جسے چھوڑ کر انہیوں نے بندوں کی رائے مان لی اور دین میں ختلاف کر کے الگ ہوگئے س بات سے پتہ چل جاتا ہے کہ فظرت انسانی کیا ہے کہ جب کسی انسان پر ایسی مصیبت پڑے کہ وہ سب آسروں سے ناامید ہوجائے تو پھر نہایت خلوص سے صرف اللہ کو پکارتا ہے یعنی اپنی فطرت کی طرف پلٹتا ہے اور اللہ ایسا کریم ہے کہ اس کی مصیبت دور فرما دیتا ہے اس کے باوجود کچھ لوگ اس کے بعد بھی شرک کرنے لگتے ہیں۔ اور میرے احسانات کا تو انکار کرنے لگتے ہیں مگر میری ہی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور کھاتے پیتے عیش کرتے ہیں لیکن بہت جلد انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوجائے گا کیا اللہ نے ان پر کوئی ایسی نشانی یا کتاب نازل کردی جو انہیں شرک کرنے کا حکم دے رہی ہے ہرگز نہیں پہلے یہ ثابت ہوا کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل بھی نہیں کہ انتہائے مصیبت میں پھر سب چھوڑ کر اللہ ہی کو پکارتے ہیں اب یہ ارشاد ہوا کہ شرک پر کوئی نقلی دلیل بھی تو نہیں۔ بلکہ ان لوگوں کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ جب اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو بہت خوش ہوتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے مگر جب ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی مصیبت آجائے تو بالکل ناامید ہونے لگتے ہیں یعنی انہیں دکھ سکھ کسی حال میں اللہ سے تعلق نصیب نہیں۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ جسے چاہے بیشمار نعمتیں عطا کردیتا ہے اور جسے چاہے اس پر تنگی بھیج دیتا ہے یہ سب اس کی اپنی حکمت کے تابع ہے اور جن کو ایمان نصیب ہوتا ہے اس کے لیے اس میں بہت نڑی نشانیاں ہیں۔ بلکہ جب مال اور فرخی نصیب ہوتی ہے تو وہ مال صرف اس کا نہیں اس میں اللہ نے بہت سے لوگوں کا حق رکھا ہے جیسے قرابت داروں کا اور مساکین کا نیز مسافر کا بھی زکوۃ کی صورت میں اور کبھی صدقہ نفل کی صورت میں یا احسان و تبرخ کی صورت میں اور جن لوگوں کا مقصد اللہ کریم کی رضا ہے ان کے لیے یہ بہت بہتر ہے کہ دنیا کی نعمتیں اس کی رضا کی خاطر قربان کرتے ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور اگر کسی عزیز یا دوست کو مول اس نیت پر دیا جائے کہ کل یہ اس سے زیادہ مجھے دے گا جیسے عموما شادی بیاہ یا کسی کی وفات وغیرہ پہ لوگ کرتے ہیں جو بظاہر تو احسان کر کے کرتے ہیں مگر نیت کل اس سے زیادہ وصول کی ہوتی ہے تو اگرچہ دنیا میں انہیں زیادہ مل بھی جائے اللہ کے نزدیک وہ یا اس کا ثواب و اجر نہیں بڑھتا بلکہ صرف وہ مال جو صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے دیا جاتا ہے وہی بڑھتا رہتا ہے اور اس کے اجر میں زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ اللہ تو وہ ذات ہے جو تمہارا خالق ہے جو تم کو پیدا کرتا ہے اور جب تک دنیا میں رکھتا ہے تمہیں رزق عطا کرتا ہے پھر تم کو موت سے ہمکنار کرتا ہے اور موت کے بعد پھر تمہین زندہ کرے گا کیا تمہارے یہ معبودان باطلہ جن کو تم اللہ کا شریک سمجھتے ہو ایسا کرسکتے ہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ تمہارے ان مشرکانہ خیالات سے پاک اور بہت بلند ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر ( 28 تا 32 ) ۔ ضرب (اس نے چلایا۔ بیان کیا) ۔ ایمان (داہنا (ہاتھ) ۔ سواء (برابر) ۔ اھوآئ (ھوائ) (خواہشیں۔ تمنائیں) ۔ اقم (قائم کر) ۔ وجھ (چہرہ) ۔ حنیف (اللہ ہی کا ہوجانا) ۔ فطرۃ اللہ (دین اسلام۔ اللہ کی فطرت) ۔ دین القیم (بہترین دین) ۔ منیبین (رجوع کرنے والے۔ پلٹنے والے ) ۔ فرقوا (وہ گروہ بن گئے۔ جداجدا ہوگئے) ۔ حزب (جماعت۔ گروہ) ۔ فرحون (خوش اور مگن رہنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر (28 تا 32) ۔ ” دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی برکت سے آج دنیا سے لونڈی اور غلاموں کا رواج تو ختم ہوچکا ہے لیکن نزول قرآن کے وقت غلام اور لونڈیوں کا نہ صرف رواج تھا بلکہ انسانوں کی خریدوفروخت کا ایک زبردست کاروبار تھا اور اس طرح آقا اور غلام دو مستقل جماعتیں بن چکی تھیں۔ “ غلام اور باندیوں کے کوئی انسانی حقوق نہ تھے۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر غلام اور لونڈیوں کو ہر وہ کام کرنا پڑتا تھا جس میں ان کے آقا اور مالک کی خوشنودی ہوا کرتی تھی۔ وہ انسانی حقوق سے قطعاً ناواقف تھے ہر آقا اپنے غلام کا اس طرح مالک ہوا کرتا تھا کہ دوسرے کسی کو اس کے بارے میں بولنے کا حق تک حاصل نہ تھا۔ سب سے پہلے دین اسلام کے سچے اصولوں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل نے غلاموں اور باندیوں کو انسانی حقوق سے آشنا کیا۔ غلاموں کی آزادی کو نہ صرف ایک عبادت کا درجہ دیا بلکہ آپ نے اپنے جان نثار صحابہ کرام (رض) کو بتایا کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کرنا جہنم کی آگ سے نجات پانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی ازواج مطہرات (رض) ، خلفائے راشدین (رض) اور صحابہ کرام (رض) نے ہزاروں، لاکھوں غلاموں، باندیوں کو خرید کر آزاد کردیا تھا تاکہ وہ آزاد و خود مختار انسانوں کی طرح زندگی گذار سکیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین سے جو اللہ کی ذات وصفات اور اختیارات میں جھوٹے معبودوں کو شریک کرتے ہیں سوال کیا ہے کہ تمہارے وہ غلام اور لونڈیاں جو تمہاری ملکیت ہیں جو انسانی ضروریات میں تمہاری طرح ہیں کیا تم ان کو اپنے برابر کا درجہ دیتے ہو ؟ اپنے مال و دولت اور وراثت میں ان کو شریک کرتے ہو ؟ جس طرح تم دوسروں کا لحاظ کرتے ہو کیا ان کا بھی اتنا ہی خیال اور لحاظ کرتے ہو ؟ فرمایا کہ یہ کتنی بڑی زیادتی اور ظلم ہے کہ تم اپنے بےحقیقت جھوٹے معبودوں کو اللہ کے برابر کا درجہ دیتے ہو اور اس کا شریک سمجھتے ہو۔ اور کائنات میں ان کو اسی طرح بااختیار جانتے ہو جس طرح اللہ اس کائنات کو چلانے میں اپنا پورا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت، نادانی، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی سچی بات کو سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ لیکن ہم ان کو یہ سچی بات ضرور بتائیں گے کہ وہ اپنے جن معبودوں کا اپنا مشکل کشا مان رہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ ان کے محض گمان اور خیالات ہیں جن کی وہ پیروی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ضدی لوگوں کو راہ ہدایت نہیں دکھاتا، ان کو توفیق نہیں دیتا تو پھر مخلوق میں وہ کان ہے جو ایسے لوگوں کو راہ ہدایت دکھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ایسے ضدی، ہٹ دھرم ، جاہل و نادان لوگوں کے راستے پر ہرگز مت چلنا بلکہ یکسو ہو کر ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرنا، پوری دلچسپی اور توجہ سے اسی دین کا دامن تھامے رکھنا کسی اور جانب مت دیکھنا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے آپ کے واسطے سے پوری امت سے کہا جارہا ہے کہ وہ دین حنیف اور فطرۃ اللہ کی اتباع و پیروی کریں۔ دین حنیف یعنی ہر شخص اپنا رخ اور دھیان صرف ایک اللہ کی طرف جمادے اور اللہ جو کہ وحدہ لا شریک ہے اس کے سوا کسی کی طرف خیال تک نہ لے جائے۔ فطرۃ اللہ سے مراد دین اسلام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو پیدائشی طور پر سیدھی سچی فطرت اور عادت اور جبلت پر پیدا کیا ہے یہ اور بات ہے کہ اس کے والدین اس کو اپنی ٹیڑھی فطرت، مزاج اور عقیدوں کا خوگر بنا دیتے ہیں اور اس کا رخ اللہ کی طرف ہونے کے بجائے غیر اللہ کی طرف پھیر دیتے ہیں اور پھر وہ شخص وہی سب کچھ کرنے لگتا ہے جو اس نے اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھا ہے۔ قرآن کریم کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ماحول کی گرد میں کتنا ہی کیوں نہ گم ہوجائے اگر اس کے سامنے سچائی آتی ہے تو وہ اس کو قبول کرنے کے لئے کم از کم اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے اور اگر اس پر محنت کی جائے تو وہ اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔ اس سے تبلیغ دین کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے یعنی اللہ کے دین کے سچے اصولوں کا پہنچا دینا ضروری ہے بقیہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ہمارا کام سلیقے طریقے سے اللہ کے دین کو پہنچانا ہے دلوں کا موڑنا یہ اللہ نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ وہ دین کو پہنچانے کی کوشش بھی کریں اور خود بھی اپنے دلوں میں اللہ کا خوف اور ڈر زندہ رکھیں۔ نمازوں کی پابندی کریں۔ زکوۃ ادا کریں اور مشرکانہ طریقے اختیار کرنے سے اجتناب اور پرہیز کریں۔ کیونکہ مشر کین وہ مفاد پرست لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کے معمولی معمولی فائدوں کے لئے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور آج ہر ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے بس وہی سب کچھ ہے وہی حق اور سچ ہے وہ اسی میں مست اور مگن ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ظاہر ہے کہ غلام اس طرح شریک نہیں ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جس سے ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان چیزوں سے مستفید ہوتا ہے۔ اب انسان کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے اس کی نفسانی کیفیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اے لوگو ! تمہارے لیے تمہارے نفس کی ایک کیفیت پیش کی جاتی ہے اس پر توجہ کرو اور اسے سمجھنے کے لیے اپنی عقل سے کام لو۔ وہ کیفیت اور مثال یہ ہے کہ جن غلاموں کے تم مالک ہو اور جو رزق اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں کیا تم اپنے زرخرید غلاموں کو برابر کے شریک کرنے کے لیے تیار ہو ؟ تمہارے نفسوس کی کیفیت تو یہ ہے کہ تم اپنے مال میں غلاموں کی شراکت کے تصور سے اس طرح کانپتے ہو جس طرح تم پہلے سے وراثت میں شریک رشتہ داروں سے ڈرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خود داری اور آزادی پیدا کی ہے جس بناء پر انسان زیادہ سے زیادہ اختیارات چاہتا اور اپنے معاملات میں دوسروں کی شراکت اور عمل داری قبول نہیں کرتا۔ یہ تو انسان کی طبیعت کی کمزوری اور ضرورت ہے کہ اسے چاروناچار اپنے معاملات میں دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان تمام معاملات کو بلا شرکت غیرے چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے معاملات میں کوئی دخل اندازی کرے۔ اس کی طبیعت اور کیفیت کا حوالہ دینے کے بعد اسے احساس دلایا گیا ہے کہ اے انسان تو کمزور اور ضرورت مند ہونے کا باوجود اپنے محدود اور عارضی اختیارات میں کسی کی شرکت پسند نہیں کرتا۔ غور کر ! کہ اللہ تعالیٰ خالق، مالک اور بلاشرکت غیرے مخلوق کا بادشاہ ہے وہ کس طرح دوسرے کو گوارا کرسکتا ہے ؟ یہ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگو ! اس مثال پر انصاف کے ساتھ غور کرو کہ جن کو تم اللہ کے شریک بناتے ہو وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے شریک ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح گوارا کرسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ مثال اور دلائل دے کر اپنی توحید سمجھاتا ہے تاکہ لوگ عقل وفکر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن جو لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے وہ بغیر حقیقت جانے اپنے تصورّات، خواہشات اور مفادات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر گمراہ ہوچکے ہیں اور عقل سے کام نہیں لیتے اگر یہ عقل سلیم سے کام لیں تو کبھی شرک کا ارتکاب نہ کریں۔ لیکن یہ حقیقت جاننے کے باوجود اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نہیں دیتا۔ مشرکین کا عقیدہ ہے کہ یہ بزرگ قیامت کے دن بھی ہماری مدد کریں گے حالانکہ قیامت کے دن ان کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ یہ بات فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو گمراہ کرنے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ جو شخص گمراہی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی رسّی دراز کردیتا ہے جس وجہ سے وہ گمراہی میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ ایسے گمراہ کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ مسائل ١۔ ہر انسان طبعی طور پر اپنے معاملات میں کسی کی شراکت اور دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔ ٢۔ انسان عقل سلیم کے ساتھ سوچے تو کبھی شرک نہ کرے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ عقیدہ توحید اور حقائق کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔ ٤۔ مشرک اور ظالم اپنی جہالت کی بنیاد پر اپنی خواہشات اور تصورّات کی پیروی کرتے ہیں۔ ٥۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ضرب لکم مثلا ۔۔۔۔۔ لقوم یعقلون (28) یہ مثال ان لوگوں کے لیے دی گئی ہے جو اللہ کی مخلوق میں سے کسی مخلوق کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ چاہے جن ہوں ، چاہے ملائکہ ہوں ، پتھر ہوں یا درخت ہوں ، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے مالوں میں ، اپنے نوکروں اور غلاموں کو شریک نہیں کرتے ۔ اپنے غلام کو شریک کیا ، اپنے برابر انسان کا درجہ بھی نہیں دیتے۔ لہٰذا ان کا یہ رویہ بہت ہی عجیب ہے کہ وہ اللہ کا شریک ان لوگوں کو بتاتے ہیں جو اللہ کی مخلوق ہیں جبکہ اپنے زیردستوں کو اپنے مالوں میں شریک نہیں کرتے۔ یہ ان کا مال خود ان کا تخلیق کردہ بھی نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کا تخلیق کردہ ہے۔ لہٰذا ان کے موقف میں یہ واضح تضاد ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس تمثیل کو نہایت ہی تدریج کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔ ضرب لکم مثلا من انفسکم (30: 28) ” وہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے مثال دیتا ہے “۔ یہ مثال تمہاری عملی زندگی سے دور نہیں ہے کہ تم اسے سمجھ نہ سکو۔ اس کے ملاحظے کے لیے کسی دور دراز علاقے کا سفر ضروی نہیں ہے۔ ھل لکم ما ۔۔۔۔۔ فیہ سوآء (30: 28) ” کیا تمہارے ان غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں ، کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دئیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں “۔ ظاہر ہے کہ مشرکین مکہ تو یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ ان کے غلام ان کی دولت میں شریک ہوں چہ جائیکہ کہ ان کے حقوق ان کے ساتھ مساویانہ ہوں۔ تخافونھم کخیفتکم انفسکم (30: 28) ” اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے آپ سے ڈرتے ہو “۔ یعنی ان کو وہی مرتبہ ومقام دیتے ہو جو تم آپس میں اپنے آزاد شرکاء کو دیتے ہو۔ اور تم ڈرتے ہو کہ وہ تم پر ظلم کریں گے اور تم ان کے ساتھ ظلم کرنے سے احتیاط کرتے ہو کیونکہ ان کو تمہارے ساتھ برابر کا مقام و مرتبہ حاصل ہے کیا تمہارے ماحول میں اور خود تمہارے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے ؟ اگر خود تم اپنے غلاموں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں رتے ہو اور نہ اس پر راضی ہوتے ہو تو بتاؤ کہ ملاء اعلیٰ کے بارے میں کیونکر ایسی بات سوچتے ہو۔ یہ ایک واضح ، سادہ اور فیصلہ کن مثال ہے۔ اس کے بعد اس موضوع پر کوئی جدل وجدال نہیں رہتا۔ یہ مثال ایک نہایت ہی سادہ استدلال اور عقل سلیم پر مبنی ہے۔ کذلک نفصل الایت لقوم یعقلون (30: 28) ” اسی طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔ ان کے عقائد کے اس پوچ تضاد کو یہاں تک کھول کر بیان کردینے کے بعد اب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے عقائد کے اندر یہ تضاد پیدا کیوں ہوا۔ اس کا اصل سبب کیا ہے۔ صرف یہ کہ ان کا نفس یہی چاہتا ہے اور جب کوئی شخص خواہشات نفسانیہ کا غلام ہوجائے تو پھر عقل و بصیرت سے محروم ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایک خاص مثال سے شرک کی تردید اور توحید کا اثبات مشرکین جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مخلوق کو شریک کرتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے مثال کے طور پر ایک سوال فرمایا اور وہ یہ کہ تم لوگوں کو ہم نے مال دیا ہے، اس مال میں تمہارے غلام اور باندیاں بھی ہیں، تم ان کے مالک ہو۔ مال تو تمہارے پاس غلام باندیوں کے علاوہ بھی ہے لیکن غلاموں اور باندیوں کے پاس سمجھ ہے کیونکہ وہ انسان ہیں، ان سے تم خدمت لیتے ہو، دوسرے مال کے اٹھانے اور رکھنے اور خرچ کرنے میں انہیں استعمال کرتے ہو، ان غلاموں اور باندیوں سے کام تو لیتے ہو لیکن تم نے انہیں اپنے مالوں میں شریک تو نہیں کیا ؟ اگر تم انہیں اپنے مالوں میں شریک کرلیتے تو یہ بھی اختیارات میں تمہارے برابر ہوجاتے اور تم سے پوچھے بغیر خرچ کرتے، اور جب وہ شریک ہوجاتے تو تم ان سے اسی طرح خوف کھاتے جیسے اپنے شرکاء سے اعتراض کا اندیشہ رکھتے ہو اور انہیں خوش کرکے چلتے ہو اور باوجود اپنی ذاتی شرکت کے اپنے شرکاء سے دریافت کرکے اور مشورہ لے کر صرف کرتے ہو۔ جب تمہارے غلام تمہارے مالوں میں اور مال خرچ کرنے کے اختیار میں شریک نہیں جو تمہاری طرح کی مخلوق ہیں تو وہ جو تم نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں ان کو تم اللہ تعالیٰ کی صفت خاص یعنی معبودیت میں شریک کیونکر کرتے ہو ؟ وہ تو اللہ کی مخلوق ہیں، اپنے مالوں میں تو تم اپنے غلاموں کی شریک کرنے کو تیار نہیں اور عبادت میں تم نے مخلوق کو خلق کے ساتھ شریک کردیا، یہ کیسی بھونڈی بات ہے اور الٹی سمجھ ہے۔ (کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (جو لوگ سمجھتے ہیں اور اپنی عقل کو کام میں لاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے لیے واضح طور پر آیات بیان کرتے ہیں) (بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ) (الآیۃ) جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، آیات میں غور نہ کیا یہ لوگ بغیر علم کے جہالت کے ساتھ اپنی (اَھْوَآءَ ) یعنی نفس کی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، جو جی میں آیا اسی کو معبود بنالیا، حق اور حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہوئے، جب گمراہی کو قصداً اور ارادۃً اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں گمراہی میں چھوڑ دیا۔ سو وہ کون ہے جو اسے ہدایت دے جسے اللہ نے گمراہ کردیا۔ جب اس گمراہی پر عذاب ہونے لگے گا تو کوئی بھی مددگار اور عذاب سے چھڑانے والا نہ ملے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ یہ معبود برحق اور معبود باطل کی تمثیل ہے جس سے شرک کا بطلان واضح ہوتا ہے۔ من انفسکم یعنی یہ تمثیل تمہارے ہی احوال سے منتزع ہے (ضرب لکم مثلا) یتبین بہ بطلان الشرک (من انفسکم) ای منتزعا من احوالہا التیھی اقرب الامور الیکم واعرفہا (روح ج 21 ص 37) ۔ کخیفتکم انفسکم میں انفسکم سے اپنی جنس کے آزاد لوگ مراد ہیں مثل خیفتکم من ھو من نوعکم من الاحرار المساھمین لکم (روح) ۔ حاصل تمثیل یہ ہے کہ ہم نے تمہیں جو اموال و املاک عطا کیے ہیں ان میں تم اپنے غلاموں کو شریک کر کے ان کو اپنے برابر کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہو یہاں تک کہ وہ ملک و تصرف میں دیگر آزاد لوگوں کی سطح پر آجائیں اور انہیں بھی وہی شوکت وہیبت حاصل ہوجائے جو تمہاری سطح کے لوگوں کو حاصل ہے۔ اسی طرح اللہ کے نیک بندے، اولیاء کرام، انبیاء اور ملائکہ (علیہم السلام) بھی اللہ تعالیٰ کے غلام اور اس کے عبید ہیں اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات الوہیت میں انہیں شریک کرلے یا اپنے بعض اختیارات انہیں سونپ دے۔ فاذا لم ترضوا بذلک لانفسکم فکیف ترضون لرب الارباب ومالک الاحرار والعبید ان تجعلوا بعض عبیدہ لہ شرکاء (مدارک ج 3 ص 208) ۔ قال ابن عباس تخافونہم ان یرثوکم کما یرث بعضکم بعضا فاذا لم تخافوا ھذا من ممالیککم ولم ترضوا ذلک لانفسکم فکیف رضیتم ان تکون الھتکم التی تعبدونہا شرکائی وھم عبیدی (معالم و خازن ج 55) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تم ہی میں سے اور تمہارے ہی احوال و حالات میں سے ایک عجیب مضمون اور عجیب کہاوت اور مثال بیان فرماتا ہے وہ یہ کہ کیا اس مال و متاع میں جو ہم نے تم کو دیا ہے اور عطا فرمایا ہے تمہارے وہ مملوک یعنی لونڈی اور غلام جن کے تم مالک ہو شریک ہیں کہ تم اور وہ مملوک اس مال و متاع کی شرکت میں دونوں برابر ہوں اور اختیارات میں دونوں مساوی ہوں اور تم ان سے اسی طرح اندیشہ کرتے ہو اور ڈرتے ہو جس طرح تم اپنوں سے ڈرتے ہو ہم اسی طرح اپنی توحید کے دلائل تفصیل کے ساتھ ان لوگوں کے لئے بیان کیا کرتے ہیں جو سمجھ سے کام لیتے ہیں اور صحیح عقل رکھتے ہیں ۔ یعنی شرک کی مذمت اور اثبات توحید کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تمہارے ہی حالات میں سے ایک عجیب مثال بیان کرتا ہے تا کہ تم اس کو سمجھو اور چونکہ یہ مضمون تمہاری حالت ہی پر چسپاں ہوتا ہے اس لئے اس کے سمجھنے میں آسانی ہوگی اس لئے اس پر غور کرو کہ ہم نے جو مال و اسباب تم کو دیا ہے خواہ وہ نقد ہو یا سامان تجارت وغیرہ ہو کیا تم کو یہ بات پسند ہے کہ تمہارے ممالیک خواہ وہ غلام ہوں یا تمہاری باندیاں ہوں وہ تمہارے مال میں جو ہمارا ہی دیا ہوا ہے شریک ہوں اور مالکانہ حق ان کو بھی حاصل ہو ، جس طرح تم اپنے شریک اور سہیم سے ڈرتے ہو کہ اگر میں نے بیجا خرچ کیا تو میرا شریک مجھ سے حساب طلب کرے گا اور میرے بیچا خرچ پر اعتراض کرے گا اور رقم پوری کرنے کا مطالبہ کرے گا ۔ اسی طرح تم ان ممالیک سے بھی اندیشہ کرو ۔ انفسکم سے مراد شریک ہیں خواہ وہ اپنے عزیز ہوں یا کوئی دوسرا آزاد ہو ۔ بہرحال ! جب کوئی شریک فی المال ہوتا ہے تو ایک کو دوسرے کا لحاظ رکھنا ہی ہوتا ہے ، یہی حق تمہارے غلاموں کو بھی حاصل ہو ۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے کون آمادہ ہوسکتا ہے آج کل جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہر وقت مذمت کی جاتی ہے اور کمیونزم کی تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں آج بھی کوئی اس کیلئے تیار نہیں ہے حتیٰ کہ کمیونسٹ جو اس معاملہ میں کسی قدر آزاد ہیں وہ بھی دوسرے کو تصرف فی الاختیار کی براری پر آمادہ نہیں ہیں ضروریات زندگی کی تقسیم دوسری چیز ہے وہ بھی اس طرح کہ ہاتھ اٹھا کر سب کو دے دیں اور اپنے ماتحتوں میں مساوات قائم کردیں یہ اور بات ہے اور اپنی دولت اور حکومت میں دوسرے کا تصرف اور اختیار تسلیم کرلیں یہ اور بات ہے اس کے لئے تو آج کی دنیا بھی تیار نہیں ہے چہ جائے کہ اب سے چودہ سو صدی کے پہلے کی دنیا کو تو اسکا تصور بھی نہ تھا کہ اپنی دولت اور مال و اسباب میں کوئی دوسرا ہمارا شریک و سبہیم بھی ہوسکتا ہے اور ہمارے لونڈی غلام جو ہمارے مملوک ہیں وہ ہمارے مال میں تصرف کے اختیارات حاصل کر کے ہمارے مساوی ہوجائیں اور ہم کو ان کو جواب دہی کا ڈر اور خوف ہو اس شرکت کے لئے کون تیار ہوسکتا تھا پھر اپنے مال میں جو خدا کا دیا ہوا مال ہے اپنے ہی جیسے انسان کو کہ جس میں ایک اضافی فرق ہے ورنہ وہ بھی تم ہی جیسا آدمی ہے تم آقا ہو وہ غلام ہے تو اپنے جیسے انسان کو شریک کرنے اور مساوی بنانے پر تیار نہیں اور اللہ تعالیٰ جو تمام مخلوق کا خالق ہے اور اس میں اپنی مخلوق کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں اس کی مخلوق کو حضرت حق جل مجدہٗ کی عبادت میں شریک کررہے ہو اور معبود برحق کی عبادت میں اس کی مخلوق کو جس میں بعض تمہارے ہی ہاتھ کے بنائے ہوئے بت میں اس معبود اور خالق کی عبادت میں برابر کا شریک سمجھتے ہو تم اپنے غلاموں کی شرکت فی الامور پر آمادہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق جو اس کی مملوک اور غلام ہے اس کی غلاموں کو اس کی عبادت میں شریک کر رہے ہو جس طرح ہم نے یہ دلیل توحید کی بیان کی ہے اسی طرح ہم دوسرے دلائل بھی تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ سے کام لیں اور شرک سے باز آجائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تم جھوٹے مالک ہو لونڈی غلام کے سب روزی کھاتے ہو اللہ کی پھر بھی ساجھی نہیں ہوسکتے تمہارے جیسے اپنے بھائی بند اور تم کو کچھ پروا نہیں ان کی مرضی لیکر کام کرو تو وہ سچامالک کیا پروا رکھے اپنے غلام کی جس کو اس کا ساجھی گنتے ہو۔ 12