Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 31

سورة الروم

مُنِیۡبِیۡنَ اِلَیۡہِ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾

[Adhere to it], turning in repentance to Him, and fear Him and establish prayer and do not be of those who associate others with Allah

۔ ( لوگو! ) اللہ تعالٰی کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ... turning in repentance to Him, Ibn Zayd and Ibn Jurayj said, "This means, returning to Him." ... وَاتَّقُوهُ ... and have Taqwa of Him; means, fear Him and remember that He is always watching. ... وَأَقِيمُوا الصَّلَأةَ ... and perform the Salah, which is the greatest act of worship. ... وَلاَ تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ and be not of the idolators. Be of those who single out Allah, devoting their worship sincerely for Him alone, not anyone or anything other than Him. Ibn Jarir recorded that Yazid bin Abi Maryam said: "Umar, may Allah be pleased with him, passed by Mu`adh bin Jabal and asked, `What is the foundation of this Ummah?' Mu`adh said, `Three things, and they are the things that will bring salvation: Al-Ikhlas (doing a deed for Allah alone), which is the Fitrah with which Allah created mankind; Salah, which is the thing that tells a believer apart from a disbeliever; and obedience, which is protection.' Umar said: `You have spoken the truth. Splitting into Sects and the Saved Sect His saying: مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

311یعنی ایمان تقوٰی اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] لہذا جس کسی نے بھی اس فطری دین کے خلاف کوئی غلط طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسی فطری دین کی طرف لوٹ آئے۔ اور اللہ کی نافرمانی اور سرکشی سے ڈر جائے اور سب سے بڑی سرکشی اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو پامال کرنا ہے۔ اور چونکہ اللہ سے ڈرنا ایک قلبی عمل ہے لہذا اس صفت کے اظہار کے لئے نماز کو ہمیشگی سے ادا کرتے رہو۔ اس سے تم میں مزید تقویٰ پیدا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ڎمُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ ۔۔ : یعنی آپ اور آپ کی امت اپنا چہرہ اس دین کے لیے سیدھا رکھیں، اس طرح کہ تم میں سے جس جس نے بھی اپنے مالک حقیقی سے کسی طرح کا انحراف کیا ہو، پھر اسی کی طرف پلٹ آنے والا ہو۔ ” وَاتَّقُوْهُ “ اور دل میں اس سے ڈرتے رہو۔ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کا تقویٰ اور خوف دل کے اعمال ہیں۔ سب کے سامنے اس کے اظہار کے لیے لازم ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ وہ دین کا عمود ہے اور اسلام کا ایسا شعار ہے جس سے کسی شخص کے مومن یا مشرک ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان إطلاق اسم الکفر۔۔ : ٨٢ ] ” آدمی کے درمیان اور شرک و کفر کے درمیان ترک صلوٰۃ (کا فرق) ہے۔ “ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے تمہارا شمار مشرکین میں ہوجائے۔ نہ شرک جلی کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بناؤ اور اس کی عبادت کرنے لگو، خواہ کسی زندہ کی عبادت ہو یا مردہ کی، بت کی عبادت ہو یا قبر کی یا آگ وغیرہ کی۔ نہ شرک خفی کرو جو ریا ہے اور نہ مشرکین کو دلی دوست بناؤ، کیونکہ اس سے تمہارا شمار انھی میں ہوگا، فرمایا : (وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ) [ المائدۃ : ٥١ ] ” اور جو ان (یہود و نصاریٰ ) کو دوست بنائے تو بلاشبہ وہ انھی میں سے ہے۔ “ اور نہ مشرکین کی مشابہت اختیار کرو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب في لبس الشھرۃ : ٤٠٣١، عن ابن عمر و قال الألباني حسن صحیح ] ” جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انھی میں سے ہے۔ “ نہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مقابلے میں کسی بھی شخص کے قول کو اپنا دین بناؤ، خواہ وہ امام ہوں یا پیر یا درویش، کیونکہ اسی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا شمار مشرکین میں ہوا، فرمایا : (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ) [ التوبۃ : ٣١ ] ” انھوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ (And establish Salah, and do not be among those who associate partners with Allah - 30:31). In the previous verse it was mentioned that the human nature is designed in a manner that it has an inherent capability to accept the Truth. Now in this verse it is emphasized that establishment of prayer is the first requisite for the acceptance of Truth, because it is the manifestation of submission to Truth and practical affirmation of Faith in Islam. After that, it is said وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ (30:31), that is, ` Do not join those indulging in shirk (associating others with Allah), because they did not avail of their natural capability to accept the Truth. Their misdeeds are mentioned in the next verse which says,

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، پچھلی آیت میں انسان کی فطرت کو قبول حق کے قابل اور مستعد بنانے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اول قبول حق کی صورت یہ بتلائی گئی کہ نماز قائم کریں کہ وہ عملی طور پر ایمان و اسلام اور اطاعت حق کا اظہار ہے اس کے بعد فرمایا وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، یعنی شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنی فطرت اور قبول حق کی استعداد سے کام لیا، آگے ان کی گمراہی کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُنِيْبِيْنَ اِلَيْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ٣١ۙ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء/ 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت/ 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة/ 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی / مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تم ایمان والے ہوجاؤ یا یہ کہ اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور جن چیزوں کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے ان کو اچھی طرح پورا کرو اور پانچوں نمازوں کی پابندی کرو اور مشرکین کے ساتھ ہو کر ان کے دین کو مت اپناؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ” یہاں مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ کے الفاظ میں گویا پچھلی آیت کے مضمون (فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا ط) کا ہی تسلسل ہے۔ پچھلی آیت میں صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب تھا اور اب جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے اس حکم میں امت کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب کا قبل ازیں کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ مکی سورتوں میں اکثر مقامات پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صیغہ واحد کے پردے میں اصل خطاب امت سے ہی ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48 That is, "Whoever has adopted an attitude of independence and freedom and turned away from his we Lord, and whoever has adopted service of another than Allah and proved to be disloyal to his real and we Lord, should desist from this, and return to the service of the One God. Whose real servant he is by birth." 49 That is, "You should have the fear that if in spite of being a servant of Allah by birth, you adopted the way of living independently of Him, or served another beside Him, you will have to suffer a severe punishment for rebellion and ingratitude. Therefore, you should avoid every such way of life which earns you the wrath of God." 50 Both turning to AIlah and having fear of His wrath are the acts of the heart. This state of the heart, for its manifestation and stability, inevitably needs a physical act, which thay make it known to others in society that so-and-so has really returned to the service of One Allah alone, and which, at the same time, may go on nourishing and developing the state of piety and devotion in one's own self al :o by means of practical experience and discipline. That i why immediately after giving the Command for a mental change Allah has given the Command for this physical act, i,e. establishment of the Salat. As long as an idea is only an idea in the mind of man, it can neither be stable nor enduring. It may fade away or even change. But when he starts practising it, the idea takes root in him and goes on increasing in stability and strength with more and more practice; so much so that when it has become a belief it can neither change nor fade away easily. Considered from this viewpoint, no act can be more effective than the offering of the Prayer regularly five times a day for strengthening piety and fear of God in oneself. The other act, whatever it be, is carried out at intervals, or in different forms on different occasions, but the Prayer is an act, which is performed every few hours in one and the same specific form permanently, in which man has to rehearse over and over again the whole lesson taught him by the Qur'an about Islam, so that he dces not forget it. Furthermore, both the believers and the disbelievers have to know who among the people has given up the way of rebellion and adopted the way of obedience to the Lord. The believers have to know this so that they can form into a community and society and can cooperate with one another in the way of Allah; then as soon as the relationship of any one of them starts showing signs of laxity with respect to the Faith and Islam, this should become known to all of them at once. The disbelievers have to know this so that the dorment nature in them wakens up when they see the people from their own kith and kin turning humbly to their real God over and over again, and till their nature wakes up they continue to be awe-stricken when they see the practical enthusiasm of the obedient servants of God. For these two objectives also the establishment of the Prayer is the most effective means. Here, it should be noted that the Command for the establishment of the Prayer was given at Makkah at a time when a handful of the Muslims were being severely persecuted by the disbelieving Quraish, and went on being persecuted for another nine years after this. At that time there was 'no sign of the lslamic government yet in sight. If the offering of the Prayer was meaningless without the Islamic government, as some ignorant people think, or if the establishment of the Salat did not mean the offering of the Prayer at all but the establishment of Nizami-Rububiyat (order of Providence), as the deniers of Hadith claim, the Qur'anic injunction at that stage would have been meaningless. The question is: How did the Holy Prophet and the Muslims carry out this Command for nine years after it had been enjoined ?

سورة الروم حاشیہ نمبر : 48 اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی و خود مختاری کا رویہ اختیار کرکے اپنے مالک حقیقی سے انحراف کیا ہو ، یا جس نے بھی بندگی غیر کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اصلی و حقیقی رب سے بے وفائی کی ہو ، وہ اپنی اس روش سے باز آجائے اور اسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیدا ہوا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 49 یعنی تمہارے دل میں اس بات کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کے مقابلے میں خود مختاری کا رویہ اختیار کیا ، یا اس کے بجائے کسی اور کی بندگی کی تو اس غداری و نمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہوگی ، اس لیے تمہیں ایسی ہر روش سے بچنا چاہیے جو تم کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہو ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 50 اللہ تعالی کی طرف رجوع اور اس کے غضب کا خوف ، دونوں قلب کے افعال ہیں ۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازما کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے ، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اس رجوع و تقوی کی کیفیت کو ایک عملی ممارست کے ذریعہ سے پے در پے نشو ونما نصیب ہوتا چلا جائے ۔ اسی لیے اللہ تعالی اس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فورا ہی اس جسمانی عمل ، یعنی اقامت صلوۃ کا حکم دیتا ہے ۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے ، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی ۔ اس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ اس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے ، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کرتا جاتا ہے ، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوف خدا کو مستحکم کرنے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے ۔ کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو ، اس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے ۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائما کرنا ہوتا ہے ، اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے ، آدمی کو بار بار دہرانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے ۔ مزید برآں کفار اور اہل ایمان دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت رب کی روش اختیار کرلی ہے ۔ اہل ایمان پر اس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی علامت فورا ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے با خبر کردے ۔ کفار پر اس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوند حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے ، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہوتی رہے ۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامت صلوۃ ہی سب سے زیادہ موزوں ذریعہ ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامت صلوۃ کا یہ حکم مکہ معظمہ کے اس دور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفار قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی 9 برس تک پستی رہی ۔ اس وقت دور دور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا ۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی ، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں ، یا اقامت صلوۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ نظام ربوبیت چلانا ہوتا ، جیسا کہ منکرین سنت کا دعوی ہے ، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد 9 سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:31) منیبین۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ منصوب۔ منیب واحد۔ انابۃ افعال مصدر نوب مادہ۔ ہر طرف سے مڑ کر اللہ کی طرف لوٹنے والا۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ناب ینوب نوبۃ (نصر) کسی چیز کا بار بار لوٹنا۔ اسی سے ہے نوبت بمعنی باری ۔ منیبین یا تو اقم کی ضمیر فاعل سے حال ہے یا الناس سے حال ہے اور دریں وجہ منصوب ہے۔ اتقوہ۔ فعل امر جمع مذکر حاضر ہ ضمیر واحد مذکر غائب (جس کا مرجع اللہ ہے) تم اس سے ڈرو۔ اتقاء (افتعال) مصدر مادہ وقی باب افتعال میں واؤ کو تاء میں تبدیل کرکے تاء میں مدغم کیا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ ) (اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے فطرت کا اتباع کرو) (وَاتَّقُوْہُ ) (اور اللہ سے ڈرو) (وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) (اور نماز قائم کرو) (وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (اور مشرکین میں سے مت ہوجاؤ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ایہ الزموا مقدر کے فاعل سے حال ہے (مدارک) یعنی غیر اللہ سے کٹ کر صرف اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور حاجات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارنے والے۔ ای راجعین الیہ تعالیٰ بالتوبۃ واخلاص العمل و قیل ای امنقطعین الیہ تعالیٰ (روح ج 21 ص 41) ۔ ولا تکونو من المشرکین یہ منیبین کی تفصیل ہے یعنی حاجات میں صرف اللہ کی طرف رجوع کرو اور اس کی عبادت، دعاء اور پکار میں کسی کو شریک نہ بناؤ۔ بعض لوگوں نے اس کو اقیموا الصلوۃ کے ساتھ متعلق کیا ہے یعنی نماز چھوڑ کر مشرک نہ بنو لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ ترک نماز اگرچہ کبیرہ گناہ ہے لیکن شرک نہیں۔ علامہ ابو السعود فرماتے ہیں ولا تکونوا من المشرکین المبدلین لطفرۃ اللہ تعالیٰ تبدیلا (ابو السعود ج 6 ص 724) ۔ یہ اعادہ جار کے ساتھ المشرکین سے بدل ہے یعنی ان مشرکین کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق اپنا اپنا الگ معبود بنا لیا اور پھر ہر فریق اپنے خود ساختہ دین پر خوش اور مطمئن ہے۔ انہوں نے مختلف فرقے بنا لیے ہیں لیکن اے ایمان والو ! تم توحید پر قائم اور متحد رہنا اور اس میں اختلاف نہ ڈالنا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31۔ تم سب اللہ کی طرف رجوع ہو کر فطرت الٰہی یعنی خداداد صلاحیت کی پیروی کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور نماز کی پابندی کرو اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر صحیح فطرت کی پیروی کرو اور دین فطرت کی مخالفت کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہو اور دین حق قبول کر کے نماز کی پابندی کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجانا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اصل دین پکڑو اس کی طرف رجوع ہو کر اگر صلاح دنیا کے واسطے یہ کام کئے تو دین درست نہ ہو ۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ دین کا کام دین ہی کی غرض سے ہو دین کے کام میں دنیا کی غرض شامل نہ کرو دنیا کو مقدم رکھو گے تو دین مجروح ہوجائے گا اس کا علاج انا بت الی اللہ اور نماز ہے اس لئے ان کی توجہ دلائی ۔