Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 33

سورة الروم

وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوۡا رَبَّہُمۡ مُّنِیۡبِیۡنَ اِلَیۡہِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَہُمۡ مِّنۡہُ رَحۡمَۃً اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ بِرَبِّہِمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾

And when adversity touches the people, they call upon their Lord, turning in repentance to Him. Then when He lets them taste mercy from Him, at once a party of them associate others with their Lord,

لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کیطرف ( پوری طرح ) رجوع ہو کر دعائیں کرتے ہیں ، پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How man sways between Tawhid and Shirk, and between Joy and Despair, according to His Circumstances Allah says: وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ And when harm touches men, they cry sincerely only to their Lord, turning to Him in repentance; but when He gives them a taste of His mercy, behold, a party of them associates partners in worship with their Lord. Allah tells us that when man is in dire straits, he calls upon Allah alone with no partner or associate, then when times of ease come and they have the choice, some people associate others with Allah and worship others alongside Him.

انسان کی مختلف حالتیں اللہ تعالیٰ لوگوں کی حالت بیان فرما رہے ہے کہ دکھ درد مصیبت وتکلیف کے وقت تو وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کو بڑی عاجزی زاری نہایت توجہ اور پوری دلسوزی کے ساتھ پکارتے ہیں اور جب اس کی نعمتیں ان پر برسنے لگتی ہے تو یہ اللہ کیساتھ شرک کرنے لگتے ہیں ۔ لیکفروا میں لام بعض تو کہتے ہیں لام عاقبت ہے اور بعض کہتے ہیں لام تعلیل ہے ۔ لیکن لام تعلیل ہونا اس وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے لئے یہ مقرر کیا پھر انہیں دھمکایا کہ تم ابھی معلوم کرلوگے ۔ بعض بزرگوں کا فرمان ہے کہ کوتوال یاسپاہی اگر کسی کو ڈرائیے دھمکائے تو وہ کانپ اٹھتا ہے تعجب ہے کہ اس کے دھمکانے سے ہم دہشت میں آئیں جس کے قبضے میں ہر چیز ہے اور جس کا صرف یہ کہدینا ہر امر کے لئے کافی ہے ۔ کہ ہوجا پھر مشرکین کا محض بےدلیل ہونا بیان فرمایا جارہاہے کہ ہم نے ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں اتاری ۔ پھر انسان کی ایک بیہودہ خصلت بطور انکار بیان ہو رہی ہے کہ سوائے چند ہستیوں کے عموما حالت یہ ہے کہ راحتوں کے وقت پھول جاتے ہیں اور سختیوں کے وقت مایوس ہوجاتے ہیں ۔ گویا اب کوئی بہتری ملے گی نہیں ۔ ہاں مومن سختیوں میں صبر اور نرمیوں میں نیکیاں کرتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے مومن پر تعجب ہے اس کے لئے اللہ کی ہر قضا بہتر ہی ہوتی ہے ۔ راحت پر شکر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے اور مصیبت پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی متصرف اور مالک ہے ۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق جہان کا نظام چلارہاہے کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے ۔ کوئی تنگی ترشی میں ہے کوئی وسعت اور فراخی میں ۔ اس میں مومنوں کے لئے نشان ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] جب انسان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی ہے یا کوئی اور سخت مشکل پیش آتی ہے تو اس وقت وہ صرف اکیلے اللہ کو پکارتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بلا ادارہ اور بےاختیار اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ توحید کی پکار انسان کا فطری داعیہ ہے۔ اور اس کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ [ ٣٨] یعنی جب خوشحالی کے دن آتے ہیں تو اللہ کو تو بھول جاتا ہے۔ اور دوسرے معبودوں یا پیروں، فقیروں کی نذریں نیازیں چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کہ فلاں مصیبت ہم سے فلاں حضرت یا فلاں آستانے کے طفیل دور ہوئی تھی۔ یا یہ معرکہ یہ خوشحالی ہمیں فلاں حضرت کی نظر کرم کی وجہ سے ملی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ : اس آیت میں اس بات کی دلیل بیان فرمائی کہ انسان کی فطرت توحید ہے کہ جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ توحید کی شہادت ہر انسان کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ وہ زبان سے اس کا اقرار نہ کرے مگر واقعات سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” جیسے بھلے برے کام ہر انسان کی جِبِلَّت پہچانتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر انسان کی جِبِلَّت پہچانتی ہے، جو ڈر کے وقت کھل جاتی ہے (یعنی مصیبت پیش آنے پر ظاہر ہوجاتی ہے) ۔ “ ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً ۔۔ : ” پھر جب وہ انھیں اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا کرتا ہے “ مثلاً بیماری سے شفا یا طوفان سے نجات یا بدحالی کے بعد خوش حالی اور دولت مندی وغیرہ، جو خالص اس کی طرف سے ہوتی ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی دخل یا اختیار نہیں ہوتا، تو اچانک وہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا رہے ہوتے ہیں، چناچہ وہ دوسرے معبودوں کی نذریں ماننے اور چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں اور کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ہم سے یہ مصیبت فلاں بزرگ یا فلاں آستانے کے صدقے سے ٹلی ہے۔ ” اچانک “ کا مطلب یہ ہے کہ تکلیف دور ہوتے ہی فوراً ناشکری اور شرک کرنے لگتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّہُمْ مُّنِيْبِيْنَ اِلَيْہِ ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَہُمْ مِّنْہُ رَحْمَۃً اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ بِرَبِّہِمْ يُشْرِكُوْنَ۝ ٣ ٣ۙ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب ان کفار مکہ کو کوئی تکلیف و سختی پہنچتی ہے تو اپنے رب حقیقی کو اسی کی طرف متوجہ ہو کر پکارنے لگتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے کچھ نعمت و عنایت کا مزہ چکھا دیتا ہے تو بس پھر ان کفار میں سے ایک جماعت اپنے پروردگار کے ساتھ بتوں کو شریک ٹھہرانے لگتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 This is a clear proof of the fact that in the depths of their heart there still exists an evidence of Tauhid. Whenever the hopes start crumbling, their hearts cry out from within that the real Ruler of the universe is its Master and His help alone can improve their lot. 53 That is, "They again start presenting offerings before other deities, and claiming that their misfortune has been removed through the help and grace of such and such a saint and shrine."

سورة الروم حاشیہ نمبر :52 یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے ، امیدوں کے سہاروں جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں ، ان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 53 یعنی پھر دوسرے معبودوں کی نذریں اور نیازیں چڑھنی شروع ہوجاتی ہیں اور کہا جانے لگتا ہے کہ یہ مصیبت فلاں حضڑت کے طفیل اور فلاں آستانے کے صدقے میں ٹلی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٣ تا ٣٨۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فطرت اسلامی کا یہ ثبوت بیان فرمایا کہ مشرک فطرت کے تقاضے سے ناچار ہونے کے وقت اللہ وحدہ لاشریک لہ کو پکارتے ہیں اور جب اللہ چکھائے ان کو کچھ مہر اور ان پر نعمت کے دروازے کھول دے کہ وہ آسودہ ہوجاویں تو خدا تعالیٰ کے ساتھ شرک اور بتوں کی پوجا کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے منکر ہوجاتے ہیں اور آسود گی کو بتوں کی مدد کا نتیجہ خیال کرتے ہیں پھر فرمایا کہ فائدہ اٹھائیں چند روز کام چلالیں اب آگے عنقریب یہ لوگ معلوم کرلیں گے کہ ان کے عملوں کی شامت سے ان کو کیا بات پیش آئی اب آگے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی بیوقوفی کا ذکر فرمایا کہ کیا ہم نے ان کے اوپر کوئی سند آسمان سے اتاری ہے جو شرک کا اچھا بتانی ہے مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ شرک کا اچھا بتاتے ہیں اور کوئی سند نہیں پیش کرسکتے تو ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا طریقہ بالکل بےسند اور ایجادی ہے پھر فرمایا جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو اس کے ساتھ خوش ہوجاتے ہیں اور اگر ان کو اپنے عملوں کے سبب سے کوئی تکلیف پہنچی تو یکایک بےآس ہوجاتے ہیں حاصل یہ ہے کہ انسان کی یہ جیلی خصلت ہے کہ عیش میں مارے خوشی کے پھولا نہیں سماتا اور اترانے لگتا ہے اور سختی میں ناامید ہوجاتا ہے یہ خیال کرلیتا ہے کہ مجھ کو بھلائی اور بہتری کبھی حاصل نہ ہوگی ہاں جو بندے عیش میں شکر کرتے ہیں اور سختی میں صبر کرتے ہیں دو ہر حالت میں ثواب حال کرتے ہیں صحیح مسلم کی صہیب (رض) رومی کی حدیث ١ ؎ میں ہے کہ مومن کی عجب حالت ہے کہ اگر اس کو خوشی ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے جو اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اس کو مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اب فرمایا کہ کیا دیکھا نہیں انہوں نے کہ اللہ تعالیٰ فراخ کرتا ہے روزی جس پر چا ہے اور تنگ کرتا ہے جس پر چاہے اب فرمایا کہ کیا دیکھا نہیں انہوں نے کہ اللہ تعالیٰ فراخ کرتا ہے روزی جس پر چاہے اور تنگ کرتا ہے جس پر چاہے ہر چیز میں اس کا تصرف ہے سب کام حکمت سے کرتا ہے بیشک اس کے اندر بڑے نشان ہیں ایمان والوں کے لئے اب آگے قرابتدار مسکن محتاج اور مسافر کے حسن سلوک کا ذکر فرما کر فرمایا یہ کام بہتر ہیں ان کو جو قیامت کے روز اللہ کا دیدار چاہتے ہیں اور یہ اعلیٰ مقصود اور بڑی مراد ہے اور وہی لوگ دنیا اور آخری میں فلاح پانے والے ہیں جو اس حکم کے موافق دنیا میں عمل کرتے ہیں سورة العنکبوت میں فلما نجا ھم الی البر اذا ھم یشرکون فرمایا تھا اور یہاں اذا فریق منھم بربہم یشرکون فرمایا سب اس کا یہی ہے کہ وہاں خاص مشرکوں کی راحت کی حالت کا ذکر تھا یہاں عام طور پر انسان کی راحت کی حالت کا ذکر ہے کہ گردہ انسانی میں سے یہ مشرک لوگ تو اپنی غرض کے وقت خالص اللہ سے اپنا مطلب چاہتے ہیں پھر جب ان کا مطلب پورا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بالکل بھول جاتے ہیں اور بتوں کی مدد سے مطلب کا پورا ہوجانا ان کے اعتقاد میں جم جاتا ہے اور گردہ انسانی میں بعضے لوگ ناشکر ہیں جو راحت کے وقت اترا جاتے ہیں غرض راحت اور خوشخالی اور بھلائی کو پہنچنے والے وہی شکر گزار ایمان دار لوگ ہیں جو اللہ کا دیا ہوا مال اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس خرچ کا بدلہ بارگاہ الٰہی سے ایک دن انہیں مع نفع کے ملنے والا ہے ایسے لوگوں کو اگر تنگ دستی آن گھیرے تو صبر اور قناعت سے کام لیتے ہیں کیونکہ ایک تو انہیں صبر کے اجر کی توقع ہے دوسرے ان کو دنیا کی تنگی وفراخی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ ایک نشانی بھی نظر آئی ہے کہ دنیا کا انتظام چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کسی کو خوشحال کیا ہے اور کسی کو تنگدست تاکہ خوشحال لوگوں کو تنگدست لوگوں کے کام کاج کی اور تنگدست لوگوں کو خوشحال لوگوں سے محنت مزدوری پانے کی ضرورت پڑے اور اس ضرورت کے سبب سے دنیا کا انتظام اچھی طرح چلے سورة الزخرف میں دنیا کے اس انتظام کا ذکر تفصیل سے آوے گا حاصل کلام یہ ہے کہ حدیث گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایماندار شخص خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں اچھا رہتا ہے ورنہ گروہ انسانی میں سے مشرک لوگوں اور اترانے والے لوگوں کے حق میں دونوں حالتیں وبال ہیں۔ (١ ؎ مشکوۃ باب التوکل والصبر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:33) مسن۔ ماضی واحد مذکر غائب اس نے چھوا ۔ وہ لگ گیا۔ دعوا ماضی جمع مذکر غائب۔ الناس کی رعایت سے جمع کا صیغہ آیا ہے۔ اصل میں دعو وا تھا۔ واؤ متحرک اس کا ما قبل مفتوح اس کو الف سے بدلا۔ اب الف اور واؤ دو ساکن جمع ہوئے اس لئے الف کو حذف کرلیا گیا۔ دعوا رہ گیا۔ انہوں نے پکارا۔ یہاں مس اور دعوا ماضی کے صیغے حال کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کو اسی کی طرف رجوع ہوکر پکارنے لگتے ہیں۔ دعاء مصدر ہے د ع و مادہ۔ اذانھم : اذاق ماضی واحد مذکر غائب۔ اذاقۃ (افعال) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (جب) اس نے ان کو چکھایا۔ یا (جب) وہ ان کو چکھاتا ہے ۔ منہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے۔ یعنی اپنی طرف سے ) اپنی جانب سے جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ ولئن اذقنا الانسان منا رحمۃ (11:9) اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں۔ رحمۃ۔ مفعول ہے اذاقہم کا۔ پھر جب وہ اپنی جناب سے ان کو رحمت سے نوازتا ہے۔ اذا فریق منھم۔ میں اذا مفاجاتیہ ہے تو یکایک ان میں سے کا ایک گروہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 معلوم ہوا کہ توحید کی شہادت ہر انسان کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہے، چاہے وہ زبان سے اس کا اقرار نہ کرے مگر واقعات سے اس کی شہادت ملتی ہے شاہ صاحب فرماتے ہیں ” جیسے بھلے برے کام ہر انسان کی جبلت پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر ایک کی جبلت جانتی ہے ڈر کے وقت کھل جاتی ہے۔ “3 چناچہ وہ دوسروں معبودوں کی نذریں ماننے اور چڑھاوے چڑھانے لگتا ہے اور کہنا شروع کردیتا ہے کہ ہم سے یہ مصیبت فلاں بزرگ یا فلاں آستانہ کے صدقے میں ٹلی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (33 تا 37 ) ۔ مس (اس نے چھوا ۔ ہاتھ لگایا) ۔ ضر (تکلیف۔ مصیبت ) ۔ اذاق (اس نے چکھایا ) ۔ تمتعوا (تم فائدہ حاصل کرلو۔ مزے اڑالو ) ۔ سلطان (قوت۔ سند۔ حجت ) ۔ یتکلم (بات کرتا ہے۔ بتاتا ہے) ۔ یقنطون (وہ مایوس ہوتے ہیں) ۔ یبسط (وہ کھولتا ہے۔ کشادہ کرتا ہے) ۔ یقدر (اندازہ کرتا ہے۔ کم دیتا ہے ) ۔ تشریح : آیت نمبر (33 تا 37 ) ۔ ” مومن دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین کامل رکھتا ہے کہ اس کائنات کا خالق، مالک اور رازق صرف ایک اللہ ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے، راحت و آرام، تکلیف یا مصیبت، رزق میں اضافہ یا کمی سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ مومن کو راحت و آرام ملتا ہے تو وہ قدم قدم پر نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر اس کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے یہی وہ سچی فطرت اور عادت ہے جو دین اسلام نے ایک مومن کو سکھائی ہے جس پر بےانتہا اجر وثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس کے بر خلاف کفارو مشرکین جو خلاف فطرت زندگی گذارتے ہیں اگر ان کو ان کے برے اعمال یا کرتوتوں کی وجہ سے کوئی تکلیف یا آفت پہنچتی ہے تو وہ بد حواس ہو کر بےصبری اور ناشکری کا مظاہرہ کرتے اور مایوسی کی انتہاؤں تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر ان کو مال و دولت، راحت و سکون، عیش و آرام اور حکومت و سلطنت مل جاتی ہے تو وہ فخر و غرور کا پیکر بن کر دنیا کے تمام لوگوں کو اپنے سے کم تر اور بےحقیقت سمجھنے لگتے ہیں اور کسی ظلم و زیادتی سے پیچھے نہیں رہتے یہی وہ خلاف فطرت زندگی ہے جس کو اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بےقرار اور بےچین کو ہو کر صبح و شام اپنے رب کا پکارتے ہیں اور اگر ان کو راحت و آرام کے اسباب دے دیئے جاتے ہیں تو وہ لوگ نہ صرف اللہ کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا شروع کردیتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگ دنیا کے مال و دولت اور وقتی عیش و آرام میں مزے اڑالیں چنددنوں کی بات ہے بہت جلد ان پر ساتی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ وہ کفر و شرک کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے ان پر اللہ نے کوئی ایسی کتاب نازل کی ہے جو ان کو بتاتی ہے کہ وہ دوسروں کو اللہ کی ذات، صفات اور عبادت میں شریک کریں۔ حالانکہ ان کے پاس ایسی کوئی سند، حجت اور دلیل نہیں ہے مگر وہ اپنی جگہ بڑے خوش، مسرور اور مطمئن ہیں۔ فرمایا کہ وہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کسی کو بہت زیادہ رزق دیا جانا اور کسی کو کم تر رزق ملنا یہ سب اسی کی قدرت سے ہے وہ جس کو جتنا دینا چاہے دیتا ہے ہر چیز کا اختیار اسی کو حاصل ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی یہ نشانیاں ہر وقت ہر ایک کے سامنے ہیں لیکن ان نشانیوں سے صرف وہی فائدہ حاصل کرتے ہیں جن کے دل نور ایمانی سے روشن ومنور ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی جس توحید کی طرف ہم بلاتے ہیں اضطرار کے وقت عام طور پر حال و قال سے باوجود اس خلاف و انکار کے اس کا اظہار و اقرار بھی ہونے لگتا ہے جس سے اس کے فطری ہونے کی بھی تائید ہونی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ مفاد اور تعصبات کی خاطر دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے اور اس پر خوش ہوتے ہیں ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ انہیں معمولی تکلیف پہنچے تو وہ مخلص ہو کر اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات ماننے کے دل میں وعدے بھی کرتے ہیں۔ ایک رب کو ماننا اور ہر حال میں اسی کو پکارنا ہی انسان کی فطرت ہے اور ہونی چاہیے۔ اکثر انسانوں کی فطرت ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں کہ الٰہی میری مشکل حل فرما اور مجھے اس تکلیف سے نجات دے دے۔ جب تکلیف رفع ہوجاتی ہے تو اپنے رب سے اس طرح لاتعلق ہوجاتے ہیں جیسے انہوں نے اپنے رب کو پکارا ہی نہیں تھا۔ ان میں سے جو لوگ مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہیں انکی حالت اس سے بھی بدتر ہوتی ہے وہ نہ صرف اپنے رب کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی کرتے ہیں۔ پہلے زمانے کے مشرک اکثر ایسا کیا کرتے تھے۔ لیکن آج کلمہ پڑھنے والے بہت سے مشرکوں کا حال یہ ہے کہ انتہائی تکلیف کے وقت بھی اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو اوٹ پٹانگ باتیں بناتے ہیں۔ ان کی باتیں بحث برائے بحث کے سوا کچھ نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے پیچھے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس شرک کو کفر قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہیں مہلت اور فائدہ دے رکھا ہے اس سے فائدہ اٹھالو۔ اور بہت جلد تمہیں اپنے کفرو شرک کے انجام کا علم ہوجائے گا۔ آخر میں سوالیہ انداز میں فرمایا ہے کہ کیا ہم نے شرک کی کوئی دلیل نازل کی ہے کہ جس کے ساتھ مشرک اپنے شرک کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کی حمایت اور تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں۔ لہٰذا مشرک خواہ مخواہ حجت بازی کرتے ہیں۔ نہ صرف شرک کرتا ہے بلکہ بلا دلیل اپنے شرک کے بارے میں اصرار اور تکرار کرتا ہے۔ مسائل ١۔ انسان مصیبت کے وقت اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ٢۔ اکثر لوگ مصیبت ٹل جانے کے بعد اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ ٣۔ کفرو شرک کرنے والوں کو بہت جلد ان کے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ٤۔ مشرک کے پاس شرک کرنے کی معقول دلیل نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن شرک کی کوئی دلیل نہیں لیکن مشرک پھر بھی شرک کرتے ہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ اے لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٥۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٦۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٨۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم : ٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 184 نظر میں اس سورة کا یہ سفر اور یہ باب اس کے حقیقی موضوع پر ہے۔ یعنی اس کائنات کے واقعات و حادثات اور انسانی زندگی کی اقدار و حادثات کے اندر گہرا ربط ہے۔ اس کائنات کے نوامیس قدرت ، اس زندگی کے قوانین اور اس دین کے قوانین شریعت باہم موافق ، ہم آہنگ ، مربوط اور بلا تضاد ہیں۔ اس سبق میں بتا یا جاتا ہے کہ انسانی خواہشات تو بدلتی رہتی ہیں لیکن سنت الٰہیہ کے اندر کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ دین قیم کے اصولوں کے مقابلے میں شرکیہ عقائد پائے چوبیں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر اس سبق میں انسانی نفس کی کیفیات کی مختلف حالات میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ حالت امن میں نفس انسانی کی حالت کیا ہوتی اور حالت خطرہ میں کیا ہوتی ہے۔ روح کی قبض کی حالت میں وہ کیسا ہوتا ہے اور بسط کی حالت میں کیا کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب تک انسان اللہ کے پیمانوں کے مطابق اپنی اقدار اور تصورات کا ناپ و تول نہ کرے اس وقت تک انسانی قدروں اور اس کی روح میں ٹھہراؤ اور سکون نہیں آسکتا۔ ہاں جب انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو کسی کا رزق کشادہ کرتا ہے اور کسی کا تنگ کرتا ہے۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں رزق اور مال کو بڑھانے کا بھی ایک مستحکم طریقہ ہے۔ کسی طریقے سے مال بڑھتا ہے اور کس سے گھٹتا ہے۔ کس سے پاک ہوتا ہے اور کس سے ناپاک ہوتا ہے اور مالیات کا قانون بھی وہی درست اور قیم ہوگا جو دین قیم کے مطابق ہو اور اس سے ماخوذ ہو۔ اس کے بعد سامعین کو لوٹا کر اس ذات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جو خالق اور رازق اور زندگی دینے والا اور مارنے والا ہے۔ اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم شریک ٹھہراتے ہو ، وہ تو یہ کام نہیں کرسکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر زمان و مکان میں شرک موجب فساد ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو دوبارہ یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس راست اور درست دین پر جم جائیں۔ اور جو کچھ کمانا ہے اس دن کے آنے سے قبل ہی کما لیں جہاں کوئی عمل اور کوئی کمائ نہ ہوگی۔ وہاں تو اعمال کا حساب و کتاب ہوگا۔ اس کے بعد ان کو بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے کیا کیا سہولیات دنیا میں پیدا کی ہیں۔ بعض چیزیں ان کی حیات مادی کے لیے ہیں ، مثلا پانی آسمانوں سے برستا ہے اور زمین زندہ اور تروتازہ ہوکر تمہارے لیے سب کچھ پیدا کرتی ہے۔ پھر سمندروں میں تمہارے لیے کشتی رانی کا سامان اور تمہاری روحانی زندگی کے لیے یہ آیات بینات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتر رہی ہیں۔ جن سے دل و دماغ زندہ اور سرسبز ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ لوگ نہ ہدایت لیتے ہیں اور نہ سنتے ہیں۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہیں اس دنیا میں زندہ رہ کر اللہ رب العالمین کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اس دن پھر کسی سے کوئی معذرت قبول نہ ہوگی اور نہ معافی کی درخواستیں طلب ہوں گی اور آخر میں رسول اللہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثابت قدمی سے اپنا کام جاری رکھیں ، صبر کریں یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ ۔۔۔۔ بن کر سامنے آجائے۔ اللہ کا وعدہ حق الیقین ہے اور اٹل ہے۔ درس نمبر 184 تشریح آیات 33 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 60 واذا مس الناس ضر دعوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لایت لقوم یؤمنون (33 – 37) یہ ایک ایسے انسان کی نفسیاتی تصویر ہے جس کو پختہ رنگوں سے نہیں بنایا گیا ۔ جو مستقل اقدار حیات نہیں رکھتا اور جس کے سامنے واضح منہاج حیات نہیں ہے۔ اس شخص کا نفس وقتی انفعال اور وقتی تاثرات کے درمیان ڈول رہا ہے جو تصور ذہن میں آیا اس کی طرف لپکا۔ حادثات اور وقتی واقعات کی وجہ سے وہ بدلتا رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں ، رب کو یاد کرتے ہیں اور اس حقیقی قوت کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جس کے سوا کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ اور اس کے دربار میں گڑگڑانے کے سوا کوئی نجات نہیں ہوتی۔ اور جب مشکلات کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور سختی دور ہوجاتی ہے اور اللہ کی رحمت آجاتی ہے۔ اذا فریق منھم بربھم یشرکون (30: 33) ” تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں “۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو صحیح عقیدے کا سہارا نہیں لیتے۔ جن کی قدریں مستقل نہیں ہوتیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمتیں اور دنیا کی سہولیات ان کو ان مجبوریوں سے نکال دیتی ہیں جن کی وجہ سے ایسے لوگ اللہ کی طرف متوجہ تھے۔ وہ اچانک اپنے وہ مشکل کے دن بھول جاتے ہیں جن میں وہ خدا کو یاد کیا کرتے تھے۔ چناچہ وہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت کی ناشکری کر کے اور اللہ کی رحمتوں کو چھوڑ کر کفر کی طرف چلے جاتے ہیں حالانکہ حالت رحمت میں خصوصاً مصیبت کے بعد رحمت میں ان کو تو شکر اور انابت الی اللہ پر جم جانا چاہئے تھا۔ ایسے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں موجود تھے ، اللہ بھی نہایت مختصر الفاظ میں جلد سے ان کو دھمکی دیتے ہیں اور ان کو یوں خطاب ہوتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں متعین افراد پش نظر ہیں۔ اس لیے خطاب کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ فتمتعوا فسوف تعلمون (30: 34) ” اچھا ، مزے کرلو ، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا “۔ یہ سخت خوفناک تہدید ہے۔ اگرچہ براہ راست نہیں ہے۔ انسان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ ایک معمولی حاکم اور رئیس کی دھمکی سے بھی ڈرتا ہے۔ اللہ جل شانہ کی دھمکی تو بہت ہی خوفناک ہے کیونکہ اللہ کے سامنے کوئی بات مشکل نہیں ہے۔ ہر بات لفظ کن سے وجود میں آجاتی ہے۔ فتمتعوا فسوف تعلمون (30: 34) ” اچھا مزے کرلو ، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا “۔ جلدی اور اختصار کے ساتھ یہ دھمکی دینے کے بعد اب ان کے اس موقف پر سخت برہمی کے ساتھ گرفت کی جاتی ہے کہ یہ اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود شرک کرتے ہیں اور کفر کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ آخر اس پر ان کے پاس کیا دلیل ہے ؟ ام انزلنا ۔۔۔۔۔ بہ یشرکون (30: 35) ” کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو ، اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں “۔ اس لیے کہ کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے عقائد و نظریات اللہ کے سوا کسی اور ماخذ سے لے۔ کیا ہم نے کوئی دلیل شرک پر نازل کی ہے ؟ نہیں۔ یہ سخت سرزنش اور استنکاری سوال ہے۔ نیز اس میں مزاح اور حقارت کا رنگ بھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان کا یہ رویہ نہایت ہی احمقانہ ہے۔ اس پر کوئی حجت اور دلیل اور سلطان نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک تقریری سوال بھی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ کوئی عقیدہ اللہ کی نازل کردہ وحی کے بغیر ثابت نہیں ہوتا جب اللہ نے شرک پر کوئی دلیل نہیں اتاری تو گویا عقیدہ شرک باطل ہے۔ بےاصل ہے ، ضعیف ہے۔ اب انسان کی ایک دوسری نفسیاتی تصویر۔ جب وہ خوش حال اور خوش وخرم ہوتا ہے تو وہ ہلکا اور مغرور ہوجاتا ہے۔ واذا اذقنا الناس ۔۔۔۔۔ ھم یقنطون (30: 36) ” جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں “۔ یہ بھی ایک ایسے شخص کی نفسیاتی تصویر ہے ، جو اپنے معاملات کی ماہیت کو ایک مستقل پیمانے کے مطابق سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ان کا رویہ ایسا نہیں ہوتا کہ ہر حال میں ایک معیار اور پیمانہ ان کے سامنے رہے۔ ایسا مستقل پیمانہ کہ وہ کبھی بدلتا نہیں۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جن کی قدریں اور پیمانے مستقل اور دائمی نہیں ہوتے۔ جب اچھے دن آتے ہیں تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور یہ اچھے دن عطا کرنے والے کو بھول جاتے ہیں اور ہوا میں ہوتے ہیں ۔ عیش و عشرت میں غرق ہوجاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے جو منعم حقیقی ہے اور وہ یہ بات پیش نظر نہیں رکھتے کہ اللہ کی رحمت اور خوشحالی بھی ایک امتحان ہوتا ہے لیکن جب اللہ کی مشیت ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر مصیبت لاتی ہے تو پھر وہ اندھے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ یقین نہیں کرتے کہ یہ بھی ایک آزمائش ہے اور یہ بدحالی کی آزمائش ہے۔ لہٰذا اللہ کو یاد کریں اور صبر کریں کہ وہ مشکلات دور کر دے۔ اس کے بجائے وہ مایوس ہوجاتے ہیں اور واہی تواہی بکتے ہیں۔ یہ تصویر ان دلوں کی ہے ، جو اللہ سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو وہ سنن الہیہ کو جانتے ہیں نہ حکمت الہیہ ان کے سمجھ میں آتی ہے۔ یہ لوگ دراصل نہیں جانتے۔ بےعلم ہوتے ہیں ۔ یہ زندگی کے ظاہری حالات کو دیکھ کر ہی فیصلے کرتے ہیں۔ اس نفسیاتی تصویر کشی کے بعد ایک سخت تہدیدی سوال کیا جاتا ہے جس میں ان کے معاملے پر سخت تعجب کا اظہار بھی ہے۔ ان کے اندھے پن اور بےبصیرتی پر ماتم بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ خوشحالی اور بدحالی دونوں اللہ کے ایک مستقل قانون قدرت کے مطابق آتی ہیں۔ ان کا تعلق سنن الہیہ اور اللہ کی مشیت سے ہے کیونکہ رحمت بھی وہی کرتا ہے اور مصیبت بھی وہی لاتا ہے۔ وہی رزق میں کشادگی کرتا ہے اور وہی تنگی کرتا ہے۔ سب کچھ اس کی حکمتوں کے تقاضے کے مطابق ہوتا ہے۔ اس جہان میں ہر وقت اس اصول کے مطابق واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن لوگ اندھے بن جاتے ہیں ، دیکھتے ہی نہیں۔ اولم یروا اللہ ۔۔۔۔۔ ویقدر (30: 37) ” کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے ، جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے “۔ لہٰذا جب رزق کشادہ ہوجائے تو تکبر اور غرور نہ کرنا چاہئے۔ پھولنا مناسب نہیں ہے اور جب رزق تنگ ہوجائے تو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تو عارضی حالات ہوتے ہیں ، حکمت الہیہ کے مطابق آتے رہتے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے قلب مومن تو یقین کرلیتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کا ہے۔ سنت الہیہ اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ اللہ کا نظام مستقل ہے۔ اس کی حکمت کے مطابق روزوشب بدلتے رہتے ہیں۔ ان فی ذلک لایت لقوم یومنون (30: 37) ” یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں “۔ چونکہ رزق کی کشادگی اور رزق کی تنگی صرف اللہ کے اختیار میں ہے ، وہی ہے جو دیتا ہے اور وہی ہے جو روکتا ہے اپنی مشیت کے مطابق لہٰذا وہ تمہیں بتا دیتا ہے کہ تمہاری معیشت کی ترقی کی راہ کون سی ہے اور وہ کون سے معیشت ہے جو ترقی نہیں کرتی۔ حالانکہ لوگ اسے ترقی پذیر معیشت سمجھتے ہیں ، ہدایت ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رحمت اور زحمت کے بارے میں انسان کا ایک خاص مزاج ان آیات میں اول تو انسان کی ایک عادت کا تذکرہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ اسے پکارتے ہیں کہ یہ مصیبت دور ہوجائے، یہ تو مصیبت کے وقت ان کا عمل ہوتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازتا ہے تو اچانک ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے خطاب فرمایا (فَتَمَتَّعُوْافَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) (کہ تم مزے اڑا لو عنقریب کفر و شرک اور ناشکری کا نجام دیکھ لو گے) یہ مضمون سورة عنکبوت کے ختم کے قریب بھی گزر چکا ہے۔ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں خود ان کے نزدیک بھی ان کے باطل معبود کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، اگر ان باطل معبودوں سے انہیں کوئی نفع ہونا یا دکھ درد میں کام آنے والے ہوتے تو مصیبت کے وقت میں انہیں کیوں چھوڑ دیتے اور صرف رب تعالیٰ شانہ ہی کی طرف کیوں متوجہ ہوتے۔ ان کی عقل خود یہ بتاتی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش اور پوجا بالکل حماقت ہے، عقلی طور پر بھی باطل معبودوں کا باطل ہونا ان کی سمجھ میں آچکا ہے، اور اس اعتبار سے بھی یہ لوگ باطل پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس کوئی سند نہیں آئی یعنی کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی، جس نے شرک کرنا بتایا ہو یا ان کے شرک کرنے کی تحسین کی ہو ؟ یہ لوگ ہر اعتبار سے گمراہی میں ہیں۔ شرک کے درست ہونے کی نہ ان کے پاس عقلی دلیل ہے اور نہ خالق کائنات جل مجدہ کی طرف سے انہیں سند ملی ہے، اسی کو فرمایا (اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْھِمْ سُلْطٰنًا) (الآیۃ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ یہ مشرکین پر زجر ہے۔ اس سے پہلے مومنوں کو پند و نصیحت تھی اب یہاں سے مشرکین پر زجریں ہیں۔ مشرکین کا یہ حال ہے کہ جب ان پر کوئی مسیبت آجاتی ہے تو وہ معبودان باطلہ سے مایوس ہو کر اللہ کی طرف راغب ہوجاتے اور خالص اسی کو پکارنے لگتے ہیں کیونکہ وہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنتے تھے کہ اگر توحید کی مخالفت کرو گے تو اللہ کا عذاب آجائے گا۔ تو جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی تو سمجھتے شاید یہ اللہ کا عذاب ہے اس لیے اس وقت خالصۃً اللہ کو پکارنے لگتے۔ ثم اذا الخ لیکن اللہ تعالیٰ محض اپنی مہربانی اور رحمت سے انہیں اس مصیبت سے نجات وخلاصی دیدیتا ہے تو فورًا شرک کرنے لگتے ہیں اور اپنی نجات اور کامیابی کو غیر اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں وزلک بنسبۃ خلاصھم الی غیرہ تعالیٰ من صنم او کو کب او نحو ذلک من المخلوقات (روح ج 21 ص 42) قال ابن عطیۃ ویلحق من ھذہ الالفاظ شیٗ للمومنین اذ جاٗھم فرج بعد شدۃ علقوا ذلک بمخلوقین الخ (بحر ج 7 ص 143)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

33۔ آگے اسی صحیح فطرت کا اثر بتاتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور جب لوگوں کو کوئی سختی اور تکلف پہنچتی ہے تو اپنے حقیقی رب اور پروردگار کی طرف رجوع ہوکر اس کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے کچھ رحمت اور مہربانی کا مزہ چکھا دیتا ہے تب ہی ان لوگوں میں سے ایک فریق اپنے پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ یعنی جب کبھی لوگوں پر کوئی مصیبت آتی ہے خواہ وہ قحط ہو یا مرض ہو یا کوئی بلا اور وبا ہو۔ یا سیلاب اور طوفان ہو تو معبود حقیقی کی طرف رجوع ہو کر اور متوجہ ہوکر اسی کو پکارتے ہیں اور یہی وہ فطرت الٰہی ہے جس پر ہر انسان پیدا ہوا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مہر کا مزہ چکھا دیتا ہے یعنی وہ مصیبت دورہو جاتی ہے اور ان کو نجات اور خلاصی مل جاتی ہے تب ہی ایک فریق شرک کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے یعنی بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بت پرستی کرنے لگتے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جیسے بھلے کام ہر انسان کی جبلت پہچانتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر ایک کی جبلت جانتی ہے ڈر کے وقت کھل جاتا ہے۔ 12 یعنی یہ تو معلوم ہوا کہ بھلے کام کی طرف رہنمائی کرنیوالی کوئی طاقت طبیعت انسانی میں موجود ہے پھر اسی طاقت سے روشنی کیوں نہیں حاصل کرتے۔