Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 36

سورة الروم

وَ اِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَۃً فَرِحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ اِذَا ہُمۡ یَقۡنَطُوۡنَ ﴿۳۶﴾

And when We let the people taste mercy, they rejoice therein, but if evil afflicts them for what their hands have put forth, immediately they despair.

اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when We cause mankind to taste of mercy, they rejoice therein; but when some evil afflicts them because of what their hands have sent forth, behold, they are in despair! This is a denunciation of man for the way he is, except for those whom Allah protects and helps, for when man is given blessings, he is proud, and says: ذَهَبَ السَّيِّيَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ "Ills have departed from me." Surely, he is exultant, and boastful. (11:10) He rejoices over himself and boasts to others, but when difficulties befall him, He despairs of ever having anything good again. Allah says: إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ Except those who show patience and do righteous good deeds. They are patient during times of difficulty and do good deeds at times of ease. It was reported in the Sahih: عَجَبًا لِلْمُوْمِنِ لاَ يَقْضِي اللهُ لَهُ قَضَاءً إِلاَّ كَانَ خَيْرًا لَهُ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَه How wonderful is the affair of the believer. Allah does not decree anything for him but it is good for him. If good things happen to him, he gives thanks, and that is good for him; and if bad things happen to him, he bears that with patience, and that is good for him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

361یہ وہی مضمون ہے جو سورة ہود میں گزرا اور جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے کہ راحت میں وہ خوش ہوتے ہیں اور مصیبت میں ناامید ہوجاتے ہیں۔ اہل ایمان اس سے مستشنٰی ہیں۔ وہ تکلیف میں صبر اور راحت میں اللہ کا شکر یعنی عمل صالح کرتے ہیں۔ یوں دونوں حالتیں ان کے لئے خیر اور اجر وثواب کا باعث بنتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] اس آیت میں انسان کی ناشکری، تنگ ظرفی اور چھچھورے پن کا ذکر ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں تو پھولا نہیں سماتا۔ اس کی وضح قطع چال ڈھال اور گفتگو سے ہی اس کی نخوت کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ اپنے خالق کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ خلق خدا کو اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے ہی سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے جو اسے یہ عیش و آرام میسر ہے۔ پھر جب کسی وقت اس پر برے دن آجاتے ہیں۔ تو بھی اللہ ناشکری ہی کرنے لگتا ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس مومن کی حالت اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ اس پر خوشحالی کے دن آئیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے آگے پہلے سے زیادہ جھک جاتا ہے۔ اور جب سختی کے دن آئیں تو نہایت صبر و تحمل سے یہ زمانہ گزارتا ہے اور اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَا ۔۔ : اس آیت میں لوگوں کو رحمت چکھانے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، یعنی ” جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں “ اور برائی پہنچنے کا سبب ان کے ہاتھوں کی کمائی یعنی ان کے اعمال کو قرار دیا ہے۔ اس کی تفسیر کے لیے سورة نساء کی آیت (٧٩) : (مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ) کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ اسی طرح رحمت چکھانے کے لیے ” اِذَا “ (جب) کا لفظ فرمایا اور برائی پہنچنے کے لیے ” اِن “ (اگر) کا لفظ فرمایا جو شک کے لیے آتا ہے۔ اس میں رحمت کے مقابلے میں تکلیف کے بہت ہی کم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ (رازی) 3 آیت میں انسان کی ناشکری، تنگ ظرفی اور تھڑدلی کا بیان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تھوڑی سی نعمت بھی (” رَحْمَةً “ کی تنوین تنکیر و تقلیل کے لیے ہے) عطا ہوتی ہے تو وہ اس پر پھول جاتا ہے۔ اس کی چال ڈھال اور ہر حرکت سے اس کی نخوت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس وقت نہ وہ خالق کو خاطر میں لاتا ہے نہ اس کی مخلوق کو اور نہ اسے یہ یاد رہتا ہے کہ یہ نعمت دائمی نہیں بلکہ ہر حال میں چھننے والی ہے اور اگر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے کوئی برائی آپہنچے تو اچانک (فوراً ہی) ناامید ہوجاتا ہے اور ہمت ہار بیٹھتا ہے کہ اب کوئی نہیں جو میری مصیبت ٹال سکے۔ یہ کافر کی حالت ہے کہ سختی کے وقت مایوس ہوجاتا ہے اور عیش و آرام کے وقت تکبر و غرور کرنے لگتا ہے۔ بہت سے کمزور ایمان والوں کا بھی یہی حال ہے۔ مگر صحیح مومن کا حال اس کے برعکس ہے، اسے عیش و آرام میسر ہوتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور جب مصیبت یا تنگی پہنچتی ہے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے۔ (دیکھیے سورة ہود : ٩ تا ١١) صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩ ] ” مومن کے ہر حال پر تعجب ہے، کیونکہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِہَا۝ ٠ ۭ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَيِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ اِذَا ہُمْ يَقْنَطُوْنَ۝ ٣٦ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] . ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب ہم بالخصوص کفار مکہ پر کچھ رحمت نازل کردیتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں مگر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اور اگر ان کے اعمال بد کی وجہ سے جو حالت شرک میں پہلے کرچکے ہیں کوئی مصیبت جیسے بیماری و قحط آپڑتی ہے تو بس یہ لوگ بےصبرے بن کر رحمت خداوندی سے ناامید ہوجاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّءَۃٌم بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ اِذَا ہُمْ یَقْنَطُوْنَ ) ” موافق حالات میں تو یہ لوگ اپنی کامیابیوں پر پھولے نہیں سماتے ‘ لیکن اگر ان کے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب کبھی ان پر برا وقت آجاتا ہے تو مایوسی سے گویا ان کی کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 In the preceding verse tnan has been censured for his ignorance, folly and ingratitude. In this verse, he has been censured for puerility and meanness When a person attains a little wealth and power and respect, and he sees that his business has started flourishing, he forgets that he has been given all this by AIIah. He exults at his success and is so puffed up and conceited that he has neither any regard left for Allah nor for the people. But as soon as good luck deserts him, he loses heart and a single stroke of iII-luck so disheartens and frustrates him that he is prepared to do any mean thing, even commit suicide.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 55 اوپر کی آیت میں انسان کی جہالت و حماقت اور اس کا ناشکری و نمک حرامی پر گرفت تھی ۔ اس آیت میں اس کے چھچھورپن اور کم ظرفی پر گرفت کی گئی ہے ۔ اس تھڑ دلے کو جب دنیا میں کچھ دولت ، طاقت ، عزت نصیب ہوجاتی ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کام خوب چل رہا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہے ۔ یہ سمجھتا ہے کہ میرے ہی کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو مجھے وہ کچھ میسر ہوا جس سے دوسرے محروم ہیں ۔ اس غلط فہمی میں فخر و غرور کا نشہ اس پر ایسا چڑھتا ہے کہ پھر یہ نہ خدا کو خاطر میں لاتا ہے نہ خلق کو ۔ لیکن جونہی کہ اقبال نے منہ موڑا اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور بد نصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پر دل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کردیتی ہے جس میں یہ ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کر گزرتا ہے حتی کہ کود کشی تک کرجاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:36) فرحوا بھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب رحمۃ کی طرف راجع ہے تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں۔ تصیبھم۔ مضارع مجزوم (بوجہ عمل ان) واحد مؤنث غائب اصابۃ (افعال) مصدر۔ وہ پہنچتی ہے۔ نازل ہوتی ہے یا آلیتی ہے ۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (اگر) انہیں (کوئی تکلیف) پہنچتی ہے۔ بما۔ میں ب سببیہ ہے اور ما موصولہ ہے۔ اذاہم میں اذا مفاجاتیہ ہے۔ تو وہ۔ تو یکایک وہ۔ تو فوراً وہ۔ یقنطون مضارع جمع مذکر غائب قنط یقنط قنوط (سمع) سے۔ وہ ناامید ہوجاتے ہیں ۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی آخر شرک کی دلیل کیا ہے ؟ کیا انکی عقل یہی کہتی ہے یا ہماری کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ تمہارے فلاں بزرگ کو ہم نے اپنے اختیارات میں شریک کرلیا ہے لہٰذا تم انہیں بھی اپنی حاجت روائی کے لئے پکار سکتے ہو ؟6 یعنی ہم ہار بیٹھتے ہیں کہ اب کوئی نہیں جو ہماری مصیبت ٹال سکے۔ یہ کافر کی حالت ہے کہ سختی کے وقت مایوس ہوجاتا ہے اور عیش و آرام کے وقت تکبر و غرور کرنے لگتا ہے بہت سے کمزور ایمان ولاوں کا بھی یہی حال ہے مگر مومن کا حال اس کے برعکس ہے۔ اسے جب عیش و آرام میسر ہوتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور جب مصیبت یا تنگی پہنچی ہے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : مومن کی ہر حالت پر تعجب ہے اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ خیر کا موجب ہے جب اے عیش و آرام نصیب ہوتا ہے تو شکر کرت ا ہے۔ یہ بھی اس کے حق میں خیر ہے۔ اگر رنج و تکلیف پہنچتی تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لئے بہتری اور ثواب ہے۔ (ابن کثیر قرطی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو رب انسان خوشی سے سرفراز اور غم سے دوچار کرتا ہے وہی اس کے رزق پر اختیار رکھتا ہے۔ انسان ان باتوں پر غور کرے تو وہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے باز آجائے۔ اکثر لوگوں کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ انہیں کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ خود کفیل کرتا ہے تو وہ اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اترانے لگتے ہیں اگر انہیں کسی غلطی یا کمزوری کی وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں بالخصوص رزق کے معاملے میں اکثر لوگوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ مال کی فراوانی ہو تو اتراتے ہیں اور مال اللہ کی نافرمانی کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ انہیں سمجھایا جائے تو ان کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مال کے نشے میں اپنے آپ سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔ کاروبار میں نقصان ہو تو ان کی بےبسی دیکھنے والی ہوتی ہے اور اکثر دفعہ ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ سننے والا محسوس کرتا ہے کی یہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوچکا ہے۔ حالانکہ جو رب تکلیف کے بعد راحت دینے والا ہے وہی رزق کو کشادہ اور کم کرنے والا ہے۔ رزق کا معاملہ چلنے والی ٹریفک کے مانند ہوتا ہے جس میں کبھی تیزی آتی ہے اور کبھی ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ اس لیے انسان کو ہر حال میں اپنے رب سے تعلق مضبوط رکھنا چاہیے یہی مسلمان کی شان ہے۔ کیونکہ تکلیف کے بعد سہولت اور سہولت کے بعد تکلیف، کشادگی کے بعد تنگی اور تنگی کے بعد کشادگی۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت عمل میں آتی ہے۔ ایمان دار لوگ اس حکمت سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور اپنے رب کے اور قریب ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک رزق کے بڑھنے اور کم ہونے کا معاملہ ہے دنیا میں کوئی ایسا انسان ہوا ہے اور نہ ہوگا جسے ایک ہی مقدار اور رفتار کے ساتھ رزق مل رہاہو۔ اگر کوئی زمیندار ہے تو بیشک وہ کتنی ہی محنت اور فصل کی نگرانی کرلے۔ ہر سال اس کی فصل ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کاروباری آدمی ہے اور بیشک وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے کاروبار میں بھی اتارچڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ حالانکہ کاروباری آدمی کی ہر وقت سوچ اور کوشش ہوتی ہے کہ اس کے کاروبار میں نقصان کی بجائے منافع ہی ہوتا چلا جائے۔ اسی طرح ایک مزدور اور غریب آدمی کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہتا ہے کہ کبھی وہ اس قدر تنگ دست ہوجاتا ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے مزدوری بھی حاصل نہیں ہوتی اور کبھی مسلسل مزدوری ملنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ایک حد تک آسودہ دیکھتا ہے۔ رزق میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور بعض دفعہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ میرے رزق میں کمی بیشی کا سبب کیا ہے۔ امیر ہو یا غریب اسے ہر حال میں یہ سوچنا اور عقیدہ اپنانا چاہیے کہ رزق کی کمی، بیشی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔ وہی ایک ذات ہے جو ہر کسی کے رزق میں کمی بیشی کرتی ہے۔ اسی عقیدہ کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے : ( قُلِ اللَّہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلاَلِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” الٰہی مجھے ہمیشہ حرام سے بچا کر حلال کے ساتھ میری ضرورتیں پوری فرما اور مجھے اپنے خاص فضل کے ساتھ اپنے سوا دوسروں سے بےنیاز کردے۔ “ مسائل ١۔ اکثر لوگ سہولت کے وقت اتراتے ہیں اور تکلیف کے وقت مایوس ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ ہی رزق کشادہ اور کم کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی مختلف حالتیں : ١۔ انسان ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٢۔ انسان جلد باز ہے۔ ( بنی اسرائیل : ١١) ٣۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ کیونکہ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٥۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر : ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْابِھَا) (الآیۃ) کہ جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت چکھا دیتے ہیں تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے، ان کی یہ خوشی غفلت اور مستی کی حد تک پہنچ جاتی ہے اور نعمت دینے والے کو بھول جاتے ہیں اور اس کی نافرمانیوں میں لگ جاتے ہیں، اسی خوشی اور مستی کے بارے میں (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ) فرمایا۔ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا) یہ تو ہوا رحمت الٰہی کے ساتھ انسان کا معاملہ۔ اب اس کے مزاج کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب انہیں ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو کر آس توڑ بیٹھے رہتے ہیں، گویا کہ اب ان کو کوئی نعمت نہ ملے گی اور کوئی خیر نہ پہنچے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ واذا اذقنا الناس الخ سے مشرکین مراد ہیں یعنی جب ہم لوگوں کو بارش، صحت، وسعت رزق وغیرہ کی صورت میں اپنی رحمت سے بہروہ ور کرتے ہیں تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور اترانے لگتے ہیں۔ لیکن اگر اپنی ہی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت آگئی تو اپنے معبودوں سے مایوس ہوگئے کیونکہ ان کے مزعومہ معبود اور کارساز اس مصیبت سے ان کو بچانے میں ناکام رہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36۔ اور ہم جب لوگوں کو اپنی نعمت سے لطف اندوزکر دیتے ہیں اور اپنی مہربانی کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس پر نازاں ہوجاتے ہیں اور ریجھ جاتے ہیں اور اگر ان کے ان اعمال بد کی وجہ سے جو ان کے ہاتھ پہلے کرچکے ہیں کوئی مصیبت ان پر آپڑتی ہے تو بس وہ لوگ ناامید ہوجاتے ہیں اور آس توڑ بیٹھتے ہیں ۔ یعنی یہ آیت بھی سابقہ مضمون واذا مس الناس کا تتمہ ہے مطلب یہ ہے کہ جب ہم اپنی رحمت اور مہربانی کا مزہ چکھادیتے ہیں تو لوگ اترا جاتے ہیں اور ہماری نافرمانی پر کمر برستہ ہوجاتے ہیں اور اگر سابقہ بد اعمالی کے بدلے میں جو ان کے ہاتھوں ہوچکی ہے کوئی برائی ان کو پہنچ جاتی ہے تو نا تامید ہوجاتے ہیں اور آس توڑ دیتے ہیں۔ یعنی عنایت کریں تو یہ غفلت اور فرح میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل پر شرک کرتے ہیں اور فرمان بن جاتے ہیں اور اگر ان کے سابقہ اعمال بد کی پاداش میں کوئی مصیبت آپڑے تو نا امیدہو جائیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں کہ فضل کے موقعہ پر بھی اس کے ہو ک رہیں اور پاداش کے موقع پر بھی اس سے التجا کریں ان کو تعلق مع اللہ حاصل ہی نہیں ظاہریہ ہے کہ الناس سے مراد کافر ہیں ورنہ مسلمان کی یہ شان کہاں ۔ ؎ زندہ کنی عطائے تو در بکشی لقائے تو ہر چہ کنی رضائے تو دل شدہ مبتلائے تو ومن احسن دینا ً ممن اسلم وجھہ اللہ