Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 38

سورة الروم

فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ‌السَّبِیۡلِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۸﴾

So give the relative his right, as well as the needy and the traveler. That is best for those who desire the countenance of Allah , and it is they who will be the successful.

پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to uphold the Ties of Kinship and the Prohibition of Riba Allah commands giving: Allah says: فَأتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ ... So, give to the kindred his due, his due of respect and upholding the ties of kinship. ... وَالْمِسْكِينَ ... and to Al-Miskin, the one who has nothing to spend on his needs, or he has something but it is not enough. ... وَابْنَ السَّبِيلِ ... and to the wayfarer. the traveler who is in need of money and other things during his journey. ... ذَلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ... That is best for those who seek Allah's Face; meaning; to look upon Him on the Day of Resurrection, which is the ultimate aim. ... وَأُوْلَيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ and it is they who will be successful. means, in this world and the Hereafter. Then Allah says:

صلہ رحمی کی تاکید قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو ۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسافر جس کا خرچ کم پڑگیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے ۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لئے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں ۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی ۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو ابن عباس مجاہد ضحاک قتادۃ عکرمہ محمد بن کعب اور شعبی سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں ۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے ۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہوگا ۔ اسی کی مشابہ آیت ( وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ Č۝۽ ) 74- المدثر:6 ) ہے یعنی زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سود یعنی نفع کی دوصورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے ۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے ۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کجھور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے ۔ اللہ ہی خالق ورازق ہے ۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا بےعلم بےکان بے آنکھ بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطافرماتا ہے ۔ مال ملکیت کمائی تجارت غرض بیشمار نعمتیں عطافرماتا ہے ۔ دوصحابیوں کا بیان ہے کہ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا ۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھو سرہلنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا ۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے ۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا ۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کررہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا ۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کرسکتا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا ۔ اس کی مقدس منزہ معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ احد ہے صمد ہے فرد ہے ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کف کوئی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کے دروازے کھول دیتا ہے تو اصحاب ثروت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے ان کا حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں مستحق رشتے داروں، مسکین اور مسافروں کا رکھا گیا ہے۔ رشتہ دار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امداد کر کے ان پر احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔ 382یعنی جنت میں اس کے دیدار سے مشرف ہونا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ قرابتداروں کو، محتاجوں کو اور مساروں کو بطور صدقہ خیرات کچھ دے دیا کرو۔ بلکہ یوں فرمایا کہ ان کا حق انھیں ادا کرو۔ اور اس لفظ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دہرایا ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ تمہارے اموال میں ان قرابتداروں اور محتاجوں کا رزق بھی آگیا ہے۔ لہذا ان کا حق انھیں ادا کردو۔ اور اس کی ادائیگی میں تمہاری ان پر کچھ احسان نہیں ہوگا۔ بلکہ تمہارے سر سے تمہارا اپنا بوجھ اترے گا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ قرابت داروں سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے نکاح حرام ہے۔ لیکن اس صراحت کا کوئی خاص فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہر شخص اپنے ناطے والوں کو خوب جانتا ہے اور سب رشتہ دار تو حقدار نہیں ہوتے بلکہ وہ حقدار ہیں جو محتاج ہوں۔ گویا سب سے پہلے وہ محتاج حقدار ہیں جو رشتہ دار ہوں، اس کے بعد عام محتاجوں کی باری آلے گی۔ اور مسافر جب راستہ میں محتاج ہوجائے تو وہ بھی حقدار ہے خواہ وہ اپنے گھر سے کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو۔ اب دیکھئے جس معاشرہ میں ہر انسان ان مذکورہ حقداروں کے حق ادا کرتا رہے اس معاشرہ میں کوئی شخص مفلس اور قلاش رہ سکتا ہے ؟ [ ٤٣] مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مذکورہ حقوق ادا نہیں کرتے وہ فلاح نہیں پاسکتے۔ فلاج صرف وہ پاسکتے ہیں جو مذکورہ حقداروں کو ان کے حقوق ادا کریں۔ اور اللہ کی رضا مندی کے لئے ادا کریں۔ ان پر احسان رکھ کر نہ کریں، نہ ہی ان سے کسی قسم کے شکریہ یا بدلہ کے طلبگار ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ : فاء (پس) کا مطلب یہ ہے کہ جب ثابت ہوگیا کہ رزق کا فراخ ہونا یا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو آدمی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اس کا رزق فراخ ہے تو خرچ کرنے سے کم نہیں ہوگا اور اگر تنگ ہے تو روک کر رکھنے سے زیادہ نہیں ہوگا، بلکہ صدقے کی برکت سے اس میں اضافہ ہی ہوگا۔ ” حَقَّهٗ “ (اس کا حق) کا مطلب یہ ہے کہ تم قرابت دار، مسکین اور مسافر کو کچھ دے رہے ہو تو یہ اس کا حق ہے، جو تم ادا کر رہے ہو، جس کے ادا نہ کرنے پر اسی طرح باز پرس ہوگی جس طرح کسی قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرنے پر باز پرس ہوگی۔ سورة توبہ (٦٠) میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں، یہاں ان میں سے صرف تین ذکر فرمائے۔ رازی نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ ان تینوں پر زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کرنا بھی حق ہے، مثلاً والدین اور اولاد کا نفقہ ہے، اسی طرح درجہ بدرجہ قرابت داروں کی ضروریات پر خرچ ہے، یہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی واجب رہتا ہے۔ اسی طرح مسکین اور مسافر پر بھی خرچ واجب ہے۔ آدمی زکوٰۃ ادا کرنے کے ساتھ ان کے حقوق سے سبک دوش نہیں ہوجاتا۔ مثلاً ایک شخص زکوٰۃ ادا کرچکا ہے، اس کے پاس کوئی مہمان آجاتا ہے یا ایسا مسافر جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہے، یا مسکین آجاتا ہے جس نے کھانا نہیں کھایا یا وہ اپنی مسکینی کی وجہ سے پاؤں سے ننگا ہے تو ان کا حق ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ فقیر کی حالت مسکین سے بھی پتلی ہوتی ہے، اس لیے اس کا الگ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ اس پر خرچ کرنا بالاولیٰ واجب ہے۔ رہے زکوٰۃ کے باقی چار مصارف، یعنی عاملین، مؤلفۃ القلوب، غارمین اور فی سبیل اللہ، تو وہ ایسے مصارف ہیں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد ان پر خرچ اس طرح واجب نہیں جس طرح آیت میں مذکور دیگر لوگوں پر واجب ہے۔ (واللہ اعلم) ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ : عام طور پر اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ” وَجْهَ “ کا مطلب رضا ہوسکتا ہے، مگر ” وَجْهَ “ کا اصل معنی تو چہرہ ہے۔ دوسرا معنی اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد نہ لیا جاسکتا ہو، جب کہ یہاں حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی مشکل نہیں، بلکہ جو لطف حقیقی معنی مراد لینے میں ہے وہ مجازی معنی مراد لینے میں نہیں، یعنی یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے چہرے کے دیدار کے طلب گار ہیں، کیونکہ اللہ کے دیدار سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اس آیت سے خرچ کرتے وقت نیت اللہ کے لیے خالص ہونے کی اہمیت ظاہر ہو رہی ہے۔ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : معلوم ہوا جو لوگ قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا نہیں کرتے وہ کامل فلاح پانے والے نہیں ہوسکتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَآتِ ذَا الْقُرْ‌بَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ (So give to the kinsman his right, and to the needy and the wayfarer - 30:38). In the preceding verse, it was stated that provision of sustenance is the sole prerogative of Allah Ta` a1a. He makes it abundant for whom He likes and curtails the sustenance whenever and whomever He so wills. It clearly gives the message that whoever spends it in the way of Allah, He does not make his sustenance dwindle. But if someone acts miserly and tries to accumulate what he has, then his possession does not expand. In the background of this divine rule, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and according to Hasan Al-Basri (رح) ، every person privileged with abundance, is advised not to be close-fisted in spending the wealth Allah has graced him with. Rather it should be spent on needy cheerfully. This spending will not result in shrinking of the wealth. Some avenues of spending have also been enumerated along with this advice. First, kinsman; second, masakin (the needy); third travelers; that is, these categories should be given from the wealth that Allah has granted you. At the same time, it has been clarified that this is the right of these people which has been obligated on your wealth. Therefore, while giving it to them, no favour should be shown to them, because passing on someone&s share to him is an act of fairness and justice and not a favour. &Kinsman& in this verse apparently means common relatives, whether mahrams or otherwise, as explained by the majority of the commentators. The words, &his right& also refers to the rights of the kinsmen in general terms, and encompasses obligatory rights, such as those of parents, children and other close relations. It also includes voluntary acts of beneficence and charity, which carry greater rewards when done for close relations compared to when performed in favour of any other non-relative common person; so much so that the Imam of Tafsir Mujahid (رح) has said that the charity of that person is not acceptable in the sight of Allah who neglects his own close relatives and gives it to someone else. It should also be understood that the right of close relatives is not restricted to financial support, but it includes looking after them, and providing any physical service to them as well. If nothing else is within means, they may at least be treated sympathetically and be consoled in their distress. Sayyidna Hasan (رض) has said that the one who enjoys abundance in wealth should help his close relatives with money, and the one who does not have it, should provide physical service and consolation verbally. (Qurtubi). After &kinsman&, the rights of indigent and then of the travelers follow. For meeting these rights also the same principle applies, that is if one has financial means, he should extend monetary help to them, otherwise physical service and consolation may discharge the right.

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ، اس سے پہلی آیت میں بیان کیا گیا تھا کہ رزق کا معاملہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو پھیلا دیتا ہے اور زیادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق سمیٹ کر تنگ کردیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو اس کے مصارف میں خرچ کرتا رہے تو اس سے اس میں کمی نہیں آتی اور اگر کوئی خرچ کرنے میں بخل کرے اور جو کچھ اپنے پاس ہے اس کو جمع کر کے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے اس سے مال میں وسعت نہیں ہوتی۔ اس مضمون کی مناسبت سے آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور بقول حسن بصری ہر مخاطب انسان کو جس کو اللہ نے مال میں وسعت دی ہو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جو مال اللہ نے آپ کو دیا ہے اس میں بخل نہ کرو بلکہ اس کو ان کے مصارف میں خوش دلی کے ساتھ خرچ کرو اس سے تمہارے مال اور زق میں کمی نہیں آئے گی۔ اور اس حکم کے ساتھ اس آیت میں مال کے چند مصارف بھی بیان کردیئے، اول ذوی القربی، دوسرے مساکین، تیسرے مسافر کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال میں سے ان لوگوں کو دو اور ان پر خرچ کرو اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو اللہ نے تمہارے مال میں شامل کردیا ہے اس لئے ان کو دینے کے وقت ان پر کوئی احسان نہ جتلاؤ کیونکہ حق والے کا حق ادا کرنا مقتضائے عدل و انصاف ہے کوئی احسان و انعام نہیں ہے۔ اور ذوی القربی سے مراد ظاہر یہ ہے کہ عام رشتہ دار ہیں، خواہ ذو رحم محرم ہوں یا دوسرے (کما ہو قول الجمہور من المفسرین) اور حق سے مراد بھی عام ہے خواہ حقوق واجبہ ہوں جیسے ماں باپ، اولاد اور دوسرے ذوی الارحام کے حقوق یا محض تبرع و احسان ہو جو رشتہ داروں کے ساتھ بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ جس شخص کے ذوی الارحام رشتہ دار محتاج ہوں وہ ان کو چھوڑ کر دوسروں پر صدقہ کرے تو اللہ کے نزدیک مقبول نہیں اور ذوی القربی کا حق صرف مالی امداد ہی نہیں ان کی خبر گیری، جسمانی خدمت اور کچھ نہ کرسکے تو کم از کم زبانی ہمدردی اور تسلی وغیرہ جیسا کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ ذوی القربی کا حق اس شخص کے لئے جس کو مالی وسعت حاصل ہو یہ ہے کہ مال سے ان کی امداد کرے اور جس کو یہ وسعت حاصل نہ ہو اس کے لئے جسمانی خدمت اور زبانی ہمدردی ہے۔ (قرطبی) ذوی القربی کے بعد مسکین اور مسافر کا حق بتلایا گیا ہے یہ بھی اسی طرح عام ہے۔ وسعت ہو تو مالی امداد نہ ہو تو اچھا سلوک۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۝ ٠ ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٣٨ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی قربی وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ وجه ( ذات باري) عبّر عن الذّات بالوجه في قول اللہ : وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] قيل : ذاته . وقیل : أراد بالوجه هاهنا التّوجّه إلى اللہ تعالیٰ بالأعمال الصالحة، وقال : فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة/ 115] ، كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص/ 88] ، يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم/ 38] ، إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان/ 9] قيل : إنّ الوجه في كلّ هذا زائد، ويعنی بذلک : كلّ شيء هالك إلّا هو، وکذا في أخواته . وروي أنه قيل ذلک لأبي عبد اللہ بن الرّضا «1» ، فقال : سبحان اللہ ! لقد قالوا قولا عظیما، إنما عني الوجه الذي يؤتی منه «2» ، ومعناه : كلّ شيء من أعمال العباد هالک و باطل إلا ما أريد به الله، وعلی هذا الآیات الأخر، وعلی هذا قوله : يُرِيدُونَ وَجْهَهُ [ الكهف/ 28] ، تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم/ 39] نیز ہر چیز کے اشرف حصہ اور مبدا پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے وھہ کذا اس کا اول حصہ ۔ وجھہ النھار دن کا اول حصہ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات ( بابرکت ) جو صاحب جلال و عظمت ہے ۔ باقی رہ جائے گی ۔ میں بعض نے وجہ سے ذات باری تعالیٰ مراد لی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وجھ ربک سے اعمال صالحہ مراد ہیں ۔ جن سے ذات باری تعالیٰ کی رجا جوئی مقصود ہوتی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة/ 115] تو جدھر تم رخ کروا ادھر اللہ کی ذات ہے ۔ كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص/ 88] اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم/ 38] جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں ۔ إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان/ 9] اور کہتے ہیں کہ ہم تو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں ۔ ان تمام آیات میں بعض نے کہا ہے کہ وجہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے لہذا آیت کل شئی ھالک کے معنی یہ ہیں کہ باستثنا ذات باری تعالیٰ ہر چیز نابود ہونے والی ہے ۔ اور اسی قسم کی دوسری آیات میں بھی یہی معنی ہیں ۔ مروی ہے کہ ابی عبد اللہ بن الر ضائے نے کہا ہے سبحان اللہ لوگ بہت بڑا کلمہ کہتے ہیں ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بس آپ تو قرابت دار کے ساتھ صلہ رحمی کیا کرو اور مسکین کو بھی کھانا اور لباس دیا کرو اور مسافر جو آپ کے پاس آکر ٹھہرے تین دن تک اس کی خوب مہمان نوازی کرو اور اس سے زیادہ مہمان نوازی کرنا یہ آپ کی طرف سے نیکی اور احسان ہے۔ یہ مذکورہ چیزیں ان لوگوں کے لیے ثواب و کرامت کے اعتبار سے آخرت میں بہتر ہیں جو اپنی ان بخششوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے نجات پانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57 It has not been said: "Give charity to the relative, the needy and the wayfarer, but their due because this is their right (due to them from you), which you must give them in any case. You will not do them any favour if you part with a part of your wealth for their sake. You should remember it well that if the real owner of the wealth has given you more than others, your extra wealth is, in fact, the right of others, which has been given to you for your trial so that your Lord may see whether you recognize the rights of others and render their rights to them or not." Anyone who reflects over this Divine Command and its real spirit cannot help feeling that the way proposed by the Qur'an. for man's moral and spiritual development inevitably envisages the existence of a free society and economy. This development is not possible in a social environment in which the people's rights of ownership are set aside and stifled. The system in which the state assumes ownership of aII resources and the government machinery the entire responsibility of distributing provisions among the people, so much so that neither can an individual recognize the right of the other and render it, nor a person develop a feeling of goodwill for the other after he has received help, is a purely communist system. Such an economic and social system, which is being advocated in our country today under the deceptive name of the 'Qur'anic Order of Providence" (Nizam-i Rububiyat), is entirely opposed to the Qur'anic scheme itself, for it suppresses the development of individual. morality and formation of character altogether. The Qur'anic scheme can operate and function only in a society where the individuals own some resources of wealth, possess rights to expend it freely, and then render willingly and sincerely the rights of God and His servants. In such a society alone there can arise the possibility that, on the one hand, the people may develop individually the virtues of sympathy, kindliness and affection, sacrifice, recognition of the rights of others and rendering those rights in the right spirit, and on the other, the beneficiaries may develop in their hearts pure feelings of well-wishing, gratitude and thankfulness for the donors. This system only can produce the ideal conditions in which the elimination of evil and the promotion of goodness does not depend on the intervention of a law-enforcing authority but the people's own purity of the self and their own good intentions take up this responsibility. 58 This dces not mean that true success can be attained just by rendering the rights of the needy and the wayfarer and the relative and nothing else is needed to be done for this. But it means that those who do not recognize these rights of others nor render them, will not attain true success. It will be attained by those who render the rights sincerely only for the sake of Allah's goodwill and pleasure.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 57 یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار ، مسکین اور مسافر کو خیرات دے ۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے ، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے ۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پائے کہ یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے ، اور تو کوئی بڑٰ ہستی ہے دان کرنے والی ، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی ۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال ان دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے یا نہیں ۔ اس ارشاد الہی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغٰر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت ( Free Economy ) کی موجودگی ناگزیر ہے ، یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کردیے جائیں ، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے ، حتی کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کردے سکے ، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے میں کوئی جذبہ خیر سگالی پرورش کرسکے ۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظام تمدن و معیشت ، جسے آج کل ہمارے ملک میں قرآنی نظام ربوبیت کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جارہا ہے ، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشو و نما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعا بند ہوجاتا ہے ۔ قرآن کی اسکیم تو اسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائل دولت کے مالک ہوں ، ان پر آزادانہ تصرف کے اختیارات رکھتے ہوں ، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں ۔ اسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی ، رحم و شفقت ، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلی اوصاف پیدا ہوں ، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی ، احسان مندی ، اور جزاء الاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں ، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہوجائے جس میں بدی کا رکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوت جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو ، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 58 یہ مطلب نہیں ہے کہ فلاح صرف مسکین اور مسافر اور رشتہ دار کا حق ادا کردینے سے حاصل ہوجاتی ہے ، اس کے علاوہ اور کوئی چیز حصول فلاح کے لیے درکار نہیں ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ ان حقوق کو نہیں پہچانتے اور نہیں ادا کرتے وہ فلاح پانے والے نہیں ہیں ، بلکہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ حقوق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اس لئے جو کچھ اس نے عطا فرمایا ہے وہ اسی کے حکم اور ہدایت کے مطابق خرچ ہونا چاہئے، لہذا اس میں غریبوں مسکینوں اور رشتہ داروں کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ ان کو دینا ضروری ہے، اور دیتے وقت یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی، کیونکہ جیسا کہ پچھلی آیت میں فرمایا گیا رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے وہ تمہیں حقوق کی ادائیگی کے بعد محروم نہیں فرمائے گا، چنانچہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ حقوق ادا کرنے کے نتیجے میں کوئی مفلس ہوگیا ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:38) فات۔ پس تو دے۔ فعل امر واحد مذکر حاضر ایتاء (افعال) مصدر ۔ مصدر اتی یؤتی سے ۔ یہاں خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور آپ کی وساطت سے ساری امت کے ان اشخاص کو ہے جن کو کھلی روزی دی گئی ہو۔ لمن بسط لہ رزقہ۔ ابن السبیل۔ راہی، مسافر۔ یریدون وجہ اللہ۔ جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔ وجہ اسم مفرد۔ مضاف اللہ مضاف الیہ۔ اللہ کی خوشنودی۔ اللہ کی رضا۔ اللہ کا ثواب۔ اولئک۔ وہ لوگ جو اللہ کی رضا کی خاطر (اپنے مال سے) قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں اور مساکین و مسافروں کو دیتے ہیں۔ المفلحون۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ افلاح مصدر۔ فلاح پانے والے۔ مراد حاصل کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مال دیا ہے وہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ تم اسے صرف اپنی ذات پر خرچ کرو بلکہ اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ اس میں سے رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں پر بھی خرچ کیا کرو اور یہ سمجھ کر خرچ کرو کہ تمہارا ان پر احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا تمہارا اوپر حق ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (38 تا 40 ) ۔ یریدون (وہ چاہتے ہیں) ۔ لا یربوا (وہ نہیں بڑھتا ہے ) ۔ المضعفون (دو گنا حاصل کرنے والے ) ۔ تعالیٰ (بلندو بر تر ذات ) ۔ تشریح : آیت نمبر (38 تا 40) ۔ ” مومن کا ہر کام اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتا ہے تاکہ اس پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اور وہ اللہ کی ناراضگی سے محفوظ رہے۔ وہ اگر اپنے رشتہ داروں، ضرورت مندوں اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ دوسروں کو بھیک دے رہا ہے بلکہ ان کا حق سمجھ کر ان کی مدد کرتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ نے اسے اس قابل کیا کہ وہ دوسروں کے کام آسکے۔ اس کے بر خلاف کفارو مشرکین اور دنیا دار اگر کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کے پیچھے یہ جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے کہ اگر آج اس نے کسی کو اپنا مال دے دیا تو کل وہ اس سے زیادہ واپس لوٹے گا۔ گویا وہ دوسروں کی مدد نہیں کرتا بلکہ تجارت کرتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرتے وقت مقصد صرف دکھاوا اور دنیا کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کے ان مزاجوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کافر و مشرک اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس اللہ نے اس کو وجود عطا کیا، زندگی اور اس کے تمام اسباب عطا کئے۔ زندگی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور موت بھی۔ اور اسی کی قدرت ہے کہ وہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے ان کو میدان حشر میں جمع کرے گا اور ان سے دی گئی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لے گا۔ اور اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے جب بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا اور اللہ کی ذات وصفات اور عبادت و بندگی میں دوسروں کو شریک کر رکھا تھا وہ ان کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ کیونکہ انسان زندگی اس کے اسباب، موت وحیات ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو ان جھوٹے شریک معبودوں نے بنائی ہو۔ مومن اور کفار و مشرکین کے ان ذہنوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے۔ (اے مومنو ! ) تم رشتہ داروں کو ان کا حق دہ ۔ محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی چاہتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ہر طرح کی فلاح و کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں۔ (رہے وہ لوگ) جو اپنے مالوں کو دوسروں کے مالوں میں اس لئے شامل کرنے کے لئے دیتے ہیں کہ جو دیا گیا ہے اس سے زیادہ ہو کر واپس آئے گا تو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ ان کے نزدیک شاید مال بڑھ کر مل جائے لیکن اللہ کے نزدیک وہ مال بڑھتا نہیں ہے کیونکہ جو مال اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے دیا جاتا ہے وہی مال (دنیا اور آخرت میں ) دو گنا ہو کر ملے گا۔ فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ اس نے تمہیں رزق دیا ہے۔ وہی موت دے گا اور پھر قیامت کے دن وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ فرمایا کہ کیا تمہارے ان معبودوں میں سے جن کو تم اللہ کا شریک سمجھتے ہو ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جس نے ان میں سے کوئی چیز بنائی ہو۔ فرمایا کہ اللہ کی ذات پاک اور بےعیب ہے۔ وہ ان تمام چیزوں سے بلندو برتر ہے جن کو وہ اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتیں عرض ہیں۔ (1) مومن کا ہر کام محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا والوں کو خوش کرنا یا دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ اس درجہ کا خلوص ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا والے جوش ہوں یا نہ ہوں اس کا پروردگار اس سے خوش ہوجائے۔ (2) جب وہ کسی رشتہ دار یا ضرورت مند، غریب، مسکین اور پریشان حال مسافر کی مدد کرتے ہیں تو وہ ان کا حق سمجھ کر ان کی مدد کرتے ہیں اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ کو توفیق سے وہ کسی کے کام آسکے۔ وہ کسی کی مدد کرتے وقت احسان جتانے اور مخر و غرور کے بجائے نہایت عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں جو اللہ کو بہت پسند ہے۔ (3) ایسے مخلص لوگ دنیا والوں کی نظروں میں کتنے بھی نا کام سمجھے جائیں مگر اللہ کے نزدیک یہی وہ کامیاب و با مراد لوگ ہیں قیامت میں حقیقی کامیابی ان ہی کا مقدر ہوگی۔ (4) یہاں بعض حضراب نے ” ربوا “ اور زکوۃ کے لفظوں کو مقابل قرار دیا ہے یعنی جو لوگ اپنے مالوں کے ذریعہ مال کماتے ہیں تو وہ مال دنیا میں کتنا بھی کیوں نہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک اس مال کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کے بر خلاف وہ لوگ جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنے مالوں میں سے زکوۃ نکالتے ہیں۔ زکوۃ نکالنے کی وجہ سے بظاہر ان کا مال کتنا بھی کم کیوں نہ ہوجائے مگر اللہ کے نزدیک آخرت میں ان کا مال بڑھتا ہی رہے گا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور ” ربوا “ یعنی سود کے حرام ہونے اور زکوۃ کو ایک نصاب کے مطابق ادا کرنے کے احکامات مدینہ منورہ میں نازل ہوئے ہیں۔ لہذا اس سے مراد معاشرہ کی وہ خرابی ہے جس میں خلوص و اخلاص کے بجائے دنیاداری غالب ہوتی ہے جس میں ایک شخص کسی کی مدد اس لئے نہیں کرتا کہ وہ ضرورت مند ہے بلکہ اس لئے مال خرچ کرتا ہے تاکہ وہ دوگنا ہو کر واپس آئے یا جس کی مدد کی گئی ہے وہ احسانات کے نیچے اس طرح دب جائے کہ آئندہ وہ مال داروں کی من مانیوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائے۔ (5) اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا اس کے ہاتھ میں زندگی اور موت کی ڈور ہے اور ساری دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد پھر وہی اللہ اپنی قدرت کاملہ سے انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ اللہ کی اس قدرت و طاقت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور نہ کسی کے بس میں ہے کہ وہ یہ تمام کام کرسکے۔ لہذا اللہ وہ ہے جو ان تمام چیزوں سے افضل، برترو اعلیٰ ہے جن کو وہ اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رزق کی کمی، بیشی کا سبب بیان کرنے کے بعد مال داروں کو مال کے معاملہ میں ان کے فرض سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید بات سے بات نکال کر انسان کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ پچھلی آیت میں رزق کی کشادگی اور تنگی کا ذکر ہوا ہے۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے رزق کی کشادگی سے نوازے اس کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال سے لوگوں پر خرچ کرے یہ اس کا غریبوں پر احسان نہیں بلکہ یہ غریبوں کا حق ہے مال دار جو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال سے لٹاتا ہے۔ مال دار اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ کرے جس کی ترتیب یہ بیان فرمائی ہے کہ پہلے قریبی لوگوں سے ابتدا کرے۔ اس کے ساتھ حکم دیا کہ اللہ کی رضا اور اس کے حکم کے مطابق خرچ ہونا چاہیے یقیناً ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو کسی پر احسان جتلانے یا نمودونمائش کے لیے خرچ نہیں کرتے بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں یہی لوگ فلاح پائیں گے۔ دنیا میں ان کے لیے غریبوں کی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس سے مال میں برکت اور معاشرہ میں اخوت و ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور آخرت میں جنت عطا ہوگی۔ (عَنْ اَبِیْ الدَرْدَآءِ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اِبْغُوْنِیْ الضُّعَفَآءَ فَاِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَاءِکُمْ ) [ رواہ ابوداؤ : باب فی الانتصار برذل الخیل والضعفۃ ] ” ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا مجھے بھی اپنے کمزوروں میں شمار کرو کیونکہ تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِيْ عَلَی الْأَرْمِلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ ) [ رواہ البخاری : کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الأھل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کے ساتھ تعاون کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ “ صدقہ کرنے کی ترتیب : ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں والے تھے ان باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین مال تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینًامیرے پاس ” بیرحاء “ کا باغ ہے جو میری پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چناچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون ] مسائل ١۔ اللہ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرنا چاہیے۔ ٣۔ صدقہ کرتے وقت قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل : ٢٠) ٢۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ : ٢٦١) ٣۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ : ٢٦٥) ٤۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٧۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبۃ : ٩٩) ٨۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٩۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ١٠۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ١١۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ : ٢٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فات ذا القربی ۔۔۔۔۔ ھم المضعفون (38 – 39) جب تصور یہ ہے کہ تمام دولت اللہ کی ہے اور اللہ نے اپنے بندوں میں سے بعض کو زیادہ اور بعض کو کم دے رکھی ہے۔ اس تصور کے مطابق اللہ تعالیٰ تمام اموال کا مالک اول ہے۔ تو وہ حکم دیتا ہے کہ جو لوگ نادار ہیں ان کی طرف دولت کو منتقل کیا جاتا رہنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اسے ناداروں کا حق کہا ہے۔ یہاں ان ناداروں میں بعض لوگوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ والمسکین وابن السبیل (30: 38) ” رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافر کو “۔ جس دور میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس میں زکوٰۃ کا تعین نہ ہوا تھا۔ نہ اس کے مستحقین کے مدات کا تعین ہوا تھا ۔ اصولاً یہ بات متعین کردی گئی تھی کہ تمام مال دراصل اللہ کی ملکیت میں ہے ، کیونکہ رازق اللہ ہے۔ محتاج لوگوں کا اس مال میں ایک حق متعین ہے اور یہ حق مال کے اصل مالک نے دیا ہے۔ یہ حق ان تک اس شخص کے واسطہ سے پہنچتا ہے جس کے ہاتھ میں مال جمع ہے۔ مال کے بارے میں اسلام کا یہ بنیادی نظریہ ہے۔ اسلام کے اقتصادی اور معاشی نظریات کی اساس یہی تصور ہے کہ اصل مالک اللہ ہے۔ جب مال اللہ کا ہے تو اللہ کی جانب سے عائد شدہ واجبات سب سے پہلے ادا ہوں گے۔ مال کے بارے میں اللہ کے احکام ملکیت ہوں۔ یا احکام ترقی اور تنبیہ ہوں یا احکام انفاق ہوں ، یہ سب لازمی احکام ہیں اور مال کا قابض آزاد نہیں ہے کہ اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے۔ اب یہاں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جن کو اس نے بطور امانت یہ مال دیا ہے ، کہ تم لوگ کس طریق کار کے مطابق اس مال کو بڑھاؤ گے اور ترقی دو گے۔ بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے رشتہ داروں ، مسافروں اور مسکینوں پر خرچ کیا جائے۔ یہ سب اللہ کے راستے میں خرچ ہوگا۔ ذلک خیر للذین ۔۔۔۔۔ ہم المفلحون (30: 38) ” یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں “۔ بعض لوگ اپنا مال بطور ہدیہ مالدار لوگوں کو دیتے تھے تاکہ وہ ہدیہ کے جواب میں زیادہ لوٹا دیں۔ دوگنا ، تین گنا ، تو اللہ نے بتایا یہ مال بڑھانے کا طریقہ نہیں ہے۔ وما اتیتم من ۔۔۔۔۔ عند اللہ (30: 39) ” اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے تو اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا “۔ روایات میں اس آیت کا یہی مفہوم بتایا گیا ہے لیکن قرآن کی نص عام ہے اور وہ تمام سودی معاملات اس کی زد میں آتے ہیں جن کے ذریعے سے لوگ مال بڑھاتے ہیں چاہے اس کی شکل و صورت جو بھی ہو۔ رہا کے طریق کے مطابق مال بڑھانے کے بجائے یہ بتایا گیا کہ حقیقی ترقی کی صورت کیا ہے۔ وما اتیتم من زکوۃ ۔۔۔۔ ھم المضعفون (30: 39) ” اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی کے لیے دیتے ہو ، اس کے دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں “۔ یہ ہے وہ ذریعہ اور طریقہ جو مال کے بڑھانے کا یقینی طریقہ ہے۔ یعنی مال مفت عطا کرو ، کسی جوابی انعام کا انتظار نہ کرو ، کوئی معاوضہ نہ ہو۔ خالص فی سبیل اللہ اور لوجہ اللہ خرچ کرو اس لیے کہ وہی اللہ ہے جو رزق میں کشادگی عطا کرتا ہے اور وہی رزق کو تنگ کرنے والا بھی ہے۔ دینے والا اور روکنے والا وہی ہے۔ جو لوگ اللہ کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ ان کو کئی گنا زیادہ دیتا ہے اور جو لوگ لوگوں کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں ، ان کے اموال میں وہ کمی کرتا ہے۔ یہ سودی کاروبار دنیا کا انتظام ہے اور وہ حساب آخرت ہے اور اس میں کئی گنا مال ملتا ہے۔ یہی نفع بخش تجارت ہے ، یہاں بھی اور وہاں بھی۔ اب رزق اور کسب کے زاویہ سے شرک کے مسئلہ کو لیا جاتا ہے ۔ موجودہ لوگوں میں شرک کے آثار اور امم سابقہ میں شرک کے آثار بتائے جاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو دینے کا حکم، اللہ کی رضا میں خرچ کرنے کی فضیلت یہ چار آیات ہیں، پہلی آیت میں تو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ شانہ اپنے بندوں کو رزق دیتا ہے اور رزق دینے میں وہ جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے، اور کھلی ہوئی بات ہے جو سب کے سامنے ہے، اہل ایمان اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں، دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگوں کو تھوڑی سی محنت سے اور بعض لوگوں کو بلامحنت ہی میراث یا ہبہ کے ذریعہ بہت زیادہ مال مل جاتا ہے، اور بعض لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، طرح طرح کی تجارت میں ہاتھ ڈالتے ہیں، بڑی بڑی اسکیمیں سوچتے ہیں لیکن ان کا اصل مال بھی ختم ہوجاتا ہے، ایک شخص تجارت لے کر بیٹھتا ہے، تھوڑا سا مال لگاتا ہے اس کا مال خوب زیادہ ہوجاتا ہے، یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی حکمت سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق بڑھا دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے اس میں دونوں فریقوں کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ مال و اولاد کی کثرت کی وجہ سے احکام الٰہیہ سے غافل ہوا اور گناہوں میں لگ گیا تو امتحان میں فیل ہوگیا اور ناشکروں میں شمار ہوگیا اور جس پر رزق میں تنگی کی گئی اس پر صبر لازم ہے، جزع فزع نہ کرے، زبان سے برے کلمات نہ نکالے، تنگدستی کی وجہ سے احکام شرعیہ کی خلاف ورزی نہ کرے جو اس سے متعلق ہیں، کسب مال کے لیے حرام طریقے اختیار نہ کرے۔ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (ذَا الْقُرْبٰی) یعنی رشتہ داروں کو ان کا حق دے دو اور مسکینوں کو بھی دو اور مسافر کو بھی۔ علماء تفسیر نے فرمایا ہے کہ اس سے صلہ رحمی کے طور پر خرچ کرنا اور نفلی صدقہ دینا مراد ہے کیونکہ سورة الروم مکیہ ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت مدینہ منورہ میں ہوئی تھی، ان لوگوں پر اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے، اللہ کے لیے خرچ کریں گے تو یہ بہتر ہوگا، ریاکاری کے لیے خرچ نہ کریں اور جس کو مال دیں اسے عمل سے یا قول سے تکلیف نہ پہنچائیں اور اس پر احسان نہ دھریں محض اللہ کی رضا کے لیے دیں، اللہ سے ثواب لینے کی نیت رکھیں، اسی کو فرمایا (ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ ) (یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں) (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) (اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ) ذَا الْقُرْبٰی اور یَتَامٰی اور مَسَاکِیْن اور مُسَافِرِیْن پر خرچ کرنے کا ثواب کسی قدر تفصیل سے سورة بقرہ کی آیت شریفہ (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ) کے ذیل میں اور سورة بنی اسرائیل کی آیت (فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ) کے ذیل میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ (انوار البیان) نیز انفاق مال کے احکام و آداب کے بارے میں سورة بقرہ رکوع (٣٦) اور (٣٧) کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے۔ (انوار البیان) تیسری آیت میں فرمایا (وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًالِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ) (تم جو کچھ بڑھنے والی چیز دو گے تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں شامل ہو کر بڑھ جائے سو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گی) پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ لفظ ربوا اصل میں ربو ہے جس کا معنی زائد چیز کا ہے، یہ فعل کے وزن پر ہے اس کا ماضی مضارع (رَبٰی یَرْبُوْا) ہے۔ لغت میں تو اس کا ترجمہ یہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے یعنی بڑھنے والی چیز پھر یہ لفظ عام طور سے سود کے لیے استعمال ہونے لگا جیسا کہ سورة بقرہ (رکوع ٣٨) میں کئی جگہ یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مال چونکہ بڑھنے والی چیز ہے سلیقہ سے اسے کاروبار میں لگایا جائے اور شرعی طریقہ کے مطابق خرچ کیا جائے تو اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے اس آیت بالا میں ربوا سے تعبیر فرمایا۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں سود لینے کی ممانعت بیان فرمائی ہے اور اس کی بےبرکتی کو واضح فرمایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی کو قرض کے طور پر مال دو گے تاکہ وہ دوسروں کے مال میں شامل ہو کر زائد مال لے کر آئے تو اگرچہ تمہارے خیال میں اس سے مال میں اضافہ ہوا لیکن اللہ کے نزدیک اس میں کوئی اضافہ نہیں۔ اول تو سود لینے کی نیت سے دینا ہی حرام ہے پھر جو زائد مال مل گیا وہ بھی حرام ہے اور جو بظاہر زیادہ ہوا ہے وہ تمہاری نظر میں زیادہ ہوا ہے۔ چونکہ یہ مال حلال نہیں ہے اس لیے قانون شرعی میں تمہارے لیے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ یہ زائد مال کا واپس کرنا واجب ہے پھر اگر تم نے واپس نہ کیا تو وہ بےبرکت ہوگا اور حرام خوری کا گناہ اپنی جگہ پر رہا۔ یہ تفسیر آیت کریمہ (یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ) کے مطابق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اگرچہ سود بہت ہوجائے لیکن اس کا انجام کمی ہی کی طرف ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٤٦) سود سے جو مال جمع ہوتا ہے اس سے اسباب معیشت تو جمع ہوجاتے ہیں لیکن سکون و اطمینان سلب ہوجاتا ہے، سودی اموال ہلاک ہوجاتے ہیں، بینکوں کا دیوالیہ ہوجاتا ہے، مالوں سے بھرے ہوئے جہاز ڈوب جاتے ہیں، پھر اگر کسی سود خور کا مال دنیا میں ہلاک و برباد نہ ہوا تو آخرت میں تو پوری طرح بربادی ہے ہی، وہاں تو یہ مال بالکل ہی کام نہ دے گا بلکہ دوزخ میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص حرام مال کما کر صدقہ کرے گا تو وہ قبول نہ ہوگا اور جو کچھ اس میں سے خرچ کرے گا اس میں برکت نہ ہوگی اور اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے گا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ میں لے جانے والا توشہ بنے گا۔ (رواہ احمد کما فی المشکوٰۃ ص ٢٤٢) مزید توضیح کے لیے سورة بقرہ رکوع ٣٨ کی تفصیل کا مطالعہ کرلیا جائے۔ (انوار البیان جلد اول) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں وہ بخشش اور عطیہ مراد ہے جس میں دینے والے نے یہ نیت کی ہو کہ جسے میں بخشش کر رہا ہوں وہ مجھے اس سے زائد دے گا۔ اپنے کسی عزیز قریب کو یا کسی استاذ یا شیخ کو یا کسی دوست کو جو بھی کچھ پیش کیا جائے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہونی چاہیے، دوسری جانب سے مال ملنے کی نیت نہ رکھے، اگر دوسری جانب سے مال ملنے کی نیت کی تو یہ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا نہ ہوا لہٰذا یہ مال اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور اس کا ثواب نہیں ملے گا۔ کیونکہ خرچ کیے ہوئے مال کا بڑھنا اسی مال کے ساتھ مخصوص ہے جو محض اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کیا جائے۔ آیت کے الفاظ میں جو عموم ہے اس کے اعتبار سے یہ معنی اور مفہوم مراد لینا بھی صحیح ہے، البتہ اتنی بات یاد رہے کہ ہدیہ دینے والے کو تو صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے لیکن جسے ہدیہ دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ ذہن میں رکھے کہ مجھے فلاں شخص نے ہدیہ دیا تھا پھر جب موقع دیکھے اس کا بدلہ دے دے لیکن اسے نہ جتائے کہ یہ تمہارے ہدیہ کا بدلہ میں ہے، اور جزاک اللہ کی دعا تو اسی وقت دے دے جب کسی نے کچھ دیا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (مَنْ اُعْطِیَ عَطَاءَ فَوَجَدَ فلیجز بہ ومن لَّمْ یَجِدْ فَلْیُثْنِ فان من اثنی فَقَدْ شَکَرَ وَمَنْ کَتَمَ فَقَدْ کَفَرَ ) (یعنی جسے بطور بخشش کچھ دیا جائے اور اسے مقدور ہو تو اس کا بدلہ دے دے اور جسے بدلہ دینے کا مقدور نہ ہو وہ لوگوں کے سامنے بیان کردے کہ فلاں شخص نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، جس نے اس کے احسان کو بیان کیا اس نے شکریہ ادا کردیا اور جس نے پوشیدہ رکھا اس نے ناشکری کی) (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٦١) یہ تو ہدیہ لینے والے کی طرف سے ہونا چاہیے اور جو شخص ہدیہ دے اسے مال زیادہ ملنے کی امید تو کیا شکریہ تک کی امید سے غافل ہوجانا چاہیے، جیسا کہ سورة الدہر میں فرمایا (اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلاَ شُکُوْرًا) (ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہد یہ قبول فرماتے تھے پھر اس کے بدلہ میں اس سے زیادہ دیتے تھے ایک اعرابی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جوان اونٹ ہدیۃً دیا تھا تو آپ نے اسے چھ جوان اونٹ عطا فرمائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٦١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ دفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا ذکر، شرک نہ کرو، مذکورہ بالا تفصیلات میں یہی مذکور ہوا، ظلم نہ کرو اور احسان کرو یہاں یہ دونوں باتیں مذکور ہیں۔ دوسری صراحۃ اور پہلی ضمنا۔ تمام حقداروں کے حقوق ادا کرو اس کے ضمن میں بےانصافی اور حق تلفی کی ممانعت آگئی۔ ذلک خیر الخ، اہل حقوق کے حقوق ادا کرنا ہی ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔ وما اتیتم من ربا الخ، دولت کا صحیح مصرف یہ ہے کہ اس میں واجب حقوق پر اسے صرف کیا جائے لیکن لوگوں سے سود پر قرض لینا اور سود ادا کر کے ان کی دولت میں اضافہ کرنا اللہ کی دی ہوئی دولت کا جائز اور صحیح مصرف نہیں۔ اس سے لوگوں کی دولت میں تو ضرور اضافہ ہوگا لیکن اللہ کے وہاں اس میں کوئی خیر و برکت نہ ہوگی اور نہ اس پر کوئی اجر وثواب مرتب ہوگا۔ و اما اتیتم من زکوہ الخ البتہ جو کچھ تم محض اللہ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس میں برکت ہوگی اور اس کے اجر وثواب میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ اس آیت کو بعض مفسرین نے مکی اور بعض نے مدنی کہا ہے پہلی صورت میں زکوۃ سے نفلی صدقہ اور دوسری صورت میں اس سے زکوۃ مفروضہ مراد ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

38۔ اے مخاطب ! قرابت دار کو اس کا حق دیا کرو اور مسکین اور مسافرکو بھی اس کا حق دیا کرو اور ہر ایک مستحق کا حق ادا کرنا ان لوگوں کے لئے بہت بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے طلب گار ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ یعنی جب ہر شخص کا رزق مقرر ہے تو بخل کرنا نہیں چاہئے بلکہ ہر شخص کو اسکے حق سے بہرہ مند کرنا چاہئے یہ ان لوگوں کے لئے جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رضا ہے بہت بہتر ہے کہ اہل قرابت اور مسکین و مسافر کی خبر گیری کیا کریں اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی قیامت میں اور دنیا میں فلاح پانے والے ہیں۔