Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 4

سورة الروم

فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬ ؕ لِلّٰہِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَ یَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

Within three to nine years. To Allah belongs the command before and after. And that day the believers will rejoice

چند سال میں ہی ، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالٰی ہی کا ہے ۔ اس روز مسلمان شادمان ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] سورة روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں پہلی پیشین گوئی یہ ہے کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری پیشین گوئی یہ تھا کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم و متہور ہیں۔ تو ان کو بھی اسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا اور قرآن نے یہ دونوں پیشین گوئیاں ایسے وقت میں بیان کیں جبکہ ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ تفصیل اس اجال کی یہ ہے کہ جس زمانہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی (٦١٠ ء میں) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں Super Power موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھیں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر وہاں سے واپس آنا پڑا تھا۔ اور دوسری ایران کی حکومت جو دو وجوہ سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش ٥٧٠ ء میں ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ٦١٠ ء میں عطا ہوئی تھی۔ روم اور ایران میں جنگ ٦٠٢ ء سے شروع ہو کر ٦١٤ ء تک جاری رہی اور یہ جنگی خبریں مکہ بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکین مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے تھے اور کہے کہ جس طرح اطراف نے روم کا سر کچلا ہے ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اور واقعہ بھی یہ تھا کہ ٦١٠ ء کے بعد یہ جنگ دو ملکوں کی جنگ نہ رہی تھی بلکہ اب یہ مجوسیت اور عیسائیت کی جنگ بن چکی تھی۔ ٦١٤ ء میں خسرو پرویز نے روج کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام ، مصر اور ایشائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی فوجوں نے قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کردیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑگیا۔ بڑے بڑے پادری قتل یا قید ہوگئے۔ بیت المقدس عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین اٹھا لے گئے اور قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین مکہ کے لئے بڑی خوش کن تھی انہوں نے مسلمانوں کو چھیرنا شروع کردیا اور حضرت ابوبکر (رض) سے کہنے لگے کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔ یہ آپ کی نبوت کا پانچواں سال تھا۔ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ ایسے ہی حالات میں سورة روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ اگرچہ بظاہر اہل روم کی فتح کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے اور مشرکین مکہ ان آیات کا بھی تمسخر اڑا رہے تھے، تاہم حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسی پیشین گوئی کی بنا پر مشرکین سے شرط باندھ لی کہ اگر لضیع کی زیادہ سے زیادہ مدت (لضیع تین سے نو تک کے لئے آتا ہے) یعنی ٩ سال تک رومی غالب نہ آئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گا ورنہ اتنے ہی اونٹ تم مجھے دو گے۔ اس وقت تک شرط حرام نہیں ہوئی تھی۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ قیصر روم نے اندر ہی اندر یہ تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو ضرور واپس لے گا۔ ایک طرف تو اس نے اللہ کے حضور منت مانی کہ اگر اللہ نے اسے ایران پر فتح دی تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) سے پہنچوں گا۔ دوسری طرف نہایت خاموشی کے ساتھ ایک زبردست حملہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ ٦٢٣ ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز آرمینیا سے کیا اور آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٦٢٢ ء میں ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ٦٢٣ ء میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو بدر کے مقام پر شکست فاش دی۔ اسی دن مسلمانوں کو یہ خبر مل گئی کہ روم نے ایران کو شکست فاش دے کر اپنا علاقہ آزاد کر الیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں ان مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔ قرآن کی اس عظیم الشان اور محیرالعقول پیشین گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کرکے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مشرکین مکہ سے سو اونٹ وصول کئے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق صدقہ کردیئے گئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَ‌حُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ‌ اللَّـهِ (And on that day the believers will rejoice with Allah&s help - 30:4). The wording of the text apparently implies that |"Allah&s help|" in this verse refers to His help for the people of Rum. Although they too were disbelievers, yet compared to others, their kufr was light. Therefore, their being helped by Allah Ta’ ala was not a far-fetched thing, especially when it was a matter of happiness for the Muslims. The other possibility is that |"Allah&s help|" in the above sentence means Allah&s help for the Muslims, for which two explanations could be assigned. First, that Muslims had presented the victory of Rum as a sign of the truthfulness of the Holy Qur&an and the veracity of Islam. Hence, the victory of the Romans was in fact the victory of Muslims. The second reason for the help of Muslims could be that, there were two big powers of the disbelievers at that time - Persia and Rum. By making them fight with each other, Allah Ta’ ala made them weak, which helped the Muslims defeat them later. (Ruh).(1) 1. There is yet another explanation of this verse offered by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) etc.They say that the news of the victory of Romans reached the Muslims the very day in which they defeated the pagans of Makkah in the battle of Badr. Therefore, the Muslims were delighted on their own victory when the news of the victory of the Romans added to their delight. According to this interpretation, |"rejoicing of the believers with Allah&s help|" in the present verse refers to the victory of the Muslims in the battle of Badr, and the good news given by this verse is twofold; one, in relation to the Romans, and the other in relation to the Muslims themselves. (Muhammad Taqi ` Usmani)

يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ، بِنَصْرِ اللّٰهِ ، یعنی اس روز (جبکہ روم فارس پر غالب آئیں گے) مسلمان خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ نظم عبارت کے اعتبار سے ظاہر یہ ہے کہ یہاں نصر اور مدد سے رومیوں کی نصرت و امداد ہے، وہ اگرچہ کافر تھے مگر دوسرے کے مقابل کافروں کے اعتبار سے کفر میں ہلکے تھے، اس لئے ان کی نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا کوئی امر مستبعد نہیں، خصوصاً جبکہ ان کی نفرت سے مسلمانوں کو بھی خوشی حاصل ہو اور کفار کے مقابلہ میں ان کی جیت بھی ہو۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ نصرت سے مراد یہاں مسلمانوں کی نصرت ہو جو دو وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اول تو یہی کہ مسلمانوں نے رومیوں کے غلبہ کو قرآن کی سچائی اور اسلام کی حقانیت کی دلیل بنا کر پیش کیا تھا، اس لئے رومیوں کا غلبہ درحقیقت مسلمانوں کی نفرت تھی، دوسری وجہ نصرت مسلمین کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس زمانے میں کفار کی بڑی طاقتیں بھی دو فارس اور روم تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو باہم بھڑا کر دونوں کو کمزور کردیا۔ جو آئندہ مسلمانوں کی فتوحات کا پیش خیمہ بنی۔ (کذا فی الروح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ۝ ٠ۥۭ لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ۝ ٠ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ٤ۙ بِضع بالکسر : المنقطع من العشرة، ويقال ذلک لما بين الثلاث إلى العشرة، وقیل : بل هو فوق الخمس ودون العشرة، قال تعالی: بِضْعَ سِنِينَ [ الروم/ 4] . بِضع البضع ( بکسرالبا ) عدد جو دس الگ کئے گئے ہیں یہ لفظ تین سے لے کر نو نک بولا جاتا ہے نعیض کہتے ہیں کہ پانچ سے اوپر اور دس سے کم پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ { بِضْعَ سِنِينَ } ( سورة يوسف 42) چند سال ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ ط) ” عربی میں لفظ ” بِضْع “ کا اطلاق گنتی کے اعتبار سے تین سے نو تک کے اعداد پر ہوتا ہے۔ اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو نو سال کی مدت تک شرط طے کرنے کا فرمایا تھا۔ واضح رہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک شرط یا جوئے کی حرمت کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ (لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْم بَعْدُ ط) ” اللہ ہی کے حکم سے ہوا جو پہلے ہوا اور اللہ ہی کے حکم سے ہوگا جو بعد میں ہوگا۔ فرماں روائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے۔ پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ نے فتح دی اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا۔ (وَیَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ) ” اس وقت اہل ایمان کو ایک خوشی تو آتش پرستوں پر اہل کتاب (عیسائیوں) کی فتح پر ہوگی اور اس کے علاوہ :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 That is, "When the Iranians became victorious first, it did not mean that the Lord of the worlds, God forbid, had been humbled and when the Romans will gain victory afterwards, it will not mean that Allah's lost kingdom will be restored to Him. Sovereignty in any case belongs to AIIah. Allah gave victory to the side that became victorious first, and Allah will give victory to the side that will gain victory after wards. For no one in his Kingdom can achieve domination solely by his own power. He whom He raises, rises and he whom He causes to fall, falls."

سورة الروم حاشیہ نمبر : 2 یعنی پہلے جب ایرانی غالب آئے تو اس بنا پر نہیں کہ معاذ اللہ خداوند عالم ان کے مقابلے میں شکست کھا گیا ، اور بعد میں جب رومی فتح یاب ہوں گے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالی کو اس کا کھویا ہوا ملک مل جائے گا ۔ فرمانروائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے ۔ پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ ہی نے فتح دی اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا ۔ اس کی خدائی میں کوئی اپنے زور سے غلبہ حاصل نہیں کرسکتا ۔ جسے وہ اٹھاتا ہے وہی اٹھتا ہے اور جسے وہ گراتا ہے وہی گرتا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 3 ابن عباس ، ابو سعید خدری ، سفیان ثوری ، سدی ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ حضرات کا بیان ہے کہ ایرانیوں پر رومیوں کی فتح اور جنگ بدر میں مشرکین پر مسلمانوں کی فتح کا زمانہ ایک ہی تھا ، اس لیے مسلمانوں کو دوہری خوشی حاصل ہوئی ۔ یہی بات ایران اور روم کی تاریخوں سے بھی ثابت ہے ۔ 624ء ہی وہ سال ہے جس میں جنگ بدر ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصر روم نے زرتشت کا مولد تباہ کیا اور ایران کے سب سے بڑے آتشکدے کو مسمار کردیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: جیسا کہ اوپر تعارف میں عرض کیا گیا، اس سے مراد غزوہ بدر کی فتح ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:4) بضع سنین۔ چند سال۔ بضع (باء کے کسرہ کے ساتھ) وہ عدد جو دس سے الگ کئے گئے ہوں یہ لفظ تین سے لے کر نو تک بولا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک پانچ سے اوپر۔ اور دس سے کم پر۔ بضاعۃ مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کیا گیا ہو۔ سرمایہ۔ پونجی۔ ھذا بضاعتنا ردت الینا (12:65) یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے۔ بضعۃ (باء کے فتح کے ساتھ) ٹکڑہ۔ فلان بضعۃ منی فلاں میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ یعنی نہایت قریبی رشتہ دار ہے۔ للہ الامرحکم اللہ ہی کا ہے یعنی احکام کا اجراء اللہ ہی کے اختیار میں ہے یہاں الامر سے مراد انفاذ الاحکام (اجراء احکام) ہے من قبل ومن بعد۔ پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ یومئذ۔ اس روز ای یوم اذ یغلب الروم فارسا۔ جس روز رومی ایرانیوں پر فتح حاصل کریں گے۔ یفرح المؤمنون بنصر اللہ۔ اللہ کی امداد پر اہل ایمان خوش ہوں گے۔ یہ عین وہ وقت تھا جب ادھر مسلمانوں کو مشرکوں کے مقابلہ میں غزوہ بدر میں نمایاں فتح حاصل ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصر روم نے زرتشت کا مؤلد تباہ کیا اور ایران کے سب سے بڑے آتشکدے کو مسمار کردیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ کئی برس سے ایران اور روم کے درمیان جنگوں کا سلسلہ جاری تھا۔ روم کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں اور ان کی فتح سے خوش تھے اور ایرانی آتش پرست تھے اس لئے مشرک ان کے غلبہ اور فتح سے خوش ہوتے۔ آخر کار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے تقریباً پانچ سال بعد، ایران اور روم کے درمیان ایک زبردست معرکہ ہوا جس میں ایرانی غالب رہے، جس پر مشرکین مکہ نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں سے ازراہ فخر و غرور کہنے لگے کہ دیکھا غیر کتاب والے (ایرانی) کتاب والوں یعنی رومیوں پر غالب آگئے۔ اسی طرح ہم بھی تم پر غالب رہیں گے۔ ان باتوں سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوتا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور قرآن نے ایک نہیں بلکہ دو پیش گوئیاں ایسے حالات میں کردیں جبکہ ظاہری اسباب بالکل ان کے خلاف تھے۔ یعنی یہ کہ ” لضع سنین “ میں نہ صرف رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہوجائے گا بلکہ اس روز مسلمان بھی ایک فتح کی خوشی منائیں گے۔ قرآن کی اس پیش گوئی کے پیش نظر حضرت ابوبکر (رض) نے ایک مشرک سے سو اونٹ کی شرط بھی کرلی (جو اس وقت حرام نہ تھی) ابتدا میں ان کے درمیان تھوڑی مدت (تقریباً پانچ سال) مقرر ہوئی مگر بعد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارے سے یہ مدت نو سال تک بڑھا دی گئی جو کہ ” بضع سنین “ کا صحیح مفہوم تھا چناچہ ہجرت کے دوسرے سا جنگ بدر کے موقع پر یعنی نو سال کی مدت کے اندر ہی رومی ایرانیوں پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لے لیا اور مدائن تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ اس پیش گوئی کا مقررہ مدت کے اندر پورا ہونا قرآن کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ چناچہ اس موقع پر بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ یہاں ” ادنی الارض “ سے مراد جزیرہ عرب کے قریب اذرعات اور بصریٰ کے درمیان کی سرزمین ہے جو ” ادنیٰ شام “ کہلاتی ہے۔ بعض نے فلسطین کا نام بھی ذکر کیا ہے اور یہ سب مواضع دوسرے علاقوں کی بنسبت بلاد عرب سے قریب تر ہیں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 5 ۔ یعنی بعد میں بھی جب وہ غالب ہوں گے۔ اسی کا اختیار ہوگا فتح و شکست اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جس قوم کو جب چاہتا ہے غالب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے مغلوب کرتا ہے۔ (شوکانی) نہ غالب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور نہ مغلوب ہونا اللہ کے ناخوش ہونے کی۔ (ازموضح بتغییر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سب اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار سے ہوگا اور اسی کی قدرت کا مظاہرہ ہوگا۔ (وَ یَوْمَءِذٍیَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِ اللّٰہِ ) (اور جس دن رومی اہل فارس پر غالب ہوں گے مومن بندے اللہ کی مدد کے ساتھ خوش ہوں گے) مومنین کی خوشی ایک تو اس اعتبار سے ہوگی کہ انہوں نے کفار مکہ کو جو بتایا تھا کہ عنقریب اہل روم اہل فارس پر غالب ہوں گے اس بات کی سچائی سب کے سامنے آجائے گی۔ اور یوں بھی خوشی ہوگی کہ انہی دنوں میں بدر کا واقعہ پیش آئے گا خوشی کے اسباب جمع ہوجائیں گے، لفظ بِنَصْرِ اللّٰہِ کا تعلق ان سب باتوں سے ہوسکتا ہے کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہوئی۔ (یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُ ) (وہ جس کی چاہے مدد فرمائے) جسے چاہے غالب کرے جسے چاہے مغلوب کرے۔ اس میں مسلمانوں کی آئندہ مدد ہونے کی طرف اشارہ ہوگیا، چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر مدد ہوتی رہی۔ (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ) (اللہ زبردست ہے رحم فرمانے والا ہے) جسے چاہے غلبہ دے دے اور جس پر چاہے رحم فرما دے کوئی اسے روکنے والا نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ بضع عدد مبہم ہے اور تین سے نو تک کے لیے استعمال ہوتا ہے اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ابی بن خلف مشرک سے کہا مجوسیوں کی فتح پر اتنی خوشی نہ کرو عنقریب ہی رومی مجوسیوں پر غالب آجائیں گے۔ چناچہ دونوں نے دس دس اونٹ شرط پر لگا دئیے اور رومیوں کے غلبے کی میعاد تین سال مقرر کی جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ابوبکر سے فرمایا لفظ بضع تو تین سے ون تک کے لیے ہوتا ہے اس لیے تم اس کے ساتھ شرط اور مدت میں اضافہ کرلو۔ حضرت ابوبکر (رض) دوبارہ ابی بن خلف سے ملے اور سو اونٹ شرط پر لگادئیے اور میعاد نو سال تک بڑھا دی جسے اس نے منظور کرلیا۔ یہ واقعہ تحریم قمار (شرط وغیرہ) سے پہلے کا ہے (روح وغیرہ) ۔ یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی اور اس پیش گوئی کے چھ سال بعد اللہ نے رومیوں کو مجوسیوں پر فتح دی۔ اس طرح یہ پیش گوئیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہے۔ اس وقت ابی بن خلف مرچکا تھا اس لیے حضرت ابوبکر صدیق نے شرط کا مال اس کے وارثوں سے وصول کیا۔ لیکنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ مال صدقہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اخذ ابوبکر الخطر من ذریۃ ابی فقال (علیہ الصلوۃ والسلام) تصدق بہ وھذہ ایۃ بینۃ علی صحۃ نبوتہ وان القران من عند اللہ لانھا انباء عن علم الغیب وکان ذلک قبل تحریم القمار عن قتادۃ (مدارک ج 3 ص 204) ۔ 5:۔ اہل فارس کے غلبہ سے پہلے بھی معاملہ اللہ کے اختیار میں تھا اور اس کے بعد بھی یعنی اہل فارس کو رومیوں پر اللہ ہی نے غلبہ عطا فرمایا اور آئندہ رومیوں کو اہل فارس پر جو غلبہ نصیب ہوگا وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوگا اسی طرح پہلے بھی اللہ کے اختیار میں ہے کہ وہ مومنوں کو بطور آزمائش مصائب و تکالیف میں مبتلا کردے اور اس کے بعد بھی اسی کو اختیار ہے کہ وہ مصائب کے بعد مومنوں کو دشمنوں پر غلبہ عطا کر کے انہیں خوش و خرم کردے۔ 6:۔ جس دن رومیوں کو فارس کے مجوسیوں پر فتح ہوگی اس دن مسلمان بہت خوش ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی مدد اور نصرت سے فتح عطا فرمائی اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے غلبہ عطا فرماتا ہے۔ چناچہ جس دن رومیوں کو فارس کے مشرکین پر غلبہ حاصل ہوا اس دن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دوگنا خوشی عطا فرمائی ایک رومیوں کی فارسیوں پر فتح کی وجہ سے کیونکہ یہ دونوں واقعے ایک ہی دن یعنی جنگ بدر کے دن رونما ہوئے۔ فرح النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمومنون بظھورھم علی المشرکین یوم بدر و ظھور اھل الکتاب علی اھل الشرک (معالم و خازن ج 5 ص 168) ۔ و عن ابی سعید الکدری انہ وافق ذلک یوم بدر و فیہ من نصر اللہ تعالیٰ العزیز للمومنین و فرحھم بذلک ما لا یخفی (روح ج 21 ص 21) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4۔ یہ غلبہ چند برسوں میں حاصل کریں گے یعنی تین سال سے لیکرنو سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ ہی کو پہلے بھی اختیار ہے اور بعد اسی کے ہاتھ اختیار ہے اور اس دن مسلمان اس پیشین گوئی کے پورا ہونے سے بہت خوش ہوں گے۔