Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 50

سورة الروم

فَانۡظُرۡ اِلٰۤی اٰثٰرِ رَحۡمَتِ اللّٰہِ کَیۡفَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۵۰﴾

So observe the effects of the mercy of Allah - how He gives life to the earth after its lifelessness. Indeed, that [same one] will give life to the dead, and He is over all things competent.

پس آپ رحمت الٰہی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالٰی اسے زندہ کر دیتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَانظُرْ إِلَى اثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ ... Look then at the effects of Allah's mercy, meaning, the rain. ... كَيْفَ يُحْيِي الاَْرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ... how He revives the earth after its death. Thus Allah draws attention to the revival of people's bodies after they have died and disintegrated into nothing. ... إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَى ... Verily, that (Allah) shall indeed raise the dead. means, the One Who does that is able to raise the dead. ... وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ and He is able to do all things. وَلَيِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوا مِن بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501آثار رحمت سے مراد غلہ جات اور میوے ہیں جو بارش سے پیدا ہوتے اور خوش حالی و فراغت کا باعث ہوتے ہیں۔ دیکھنے سے مراد نظر عبرت سے دیکھنا ہے تاکہ انسان اللہ کی قدرت کا اور اس بات کا قائل جائے کہ قیامت والے دن اسی طرح مردوں کو زندہ فرما دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ ۔۔ : اس آیت میں بارش کے ساتھ مردہ زمین کے زندہ کردینے کو قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : یعنی وہ صرف مردوں ہی کو زندہ کرنے والا نہیں بلکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ مردوں کو زندہ کرنا تو اس کی قدرت کا ادنیٰ سا کرشمہ ہے، جس کا نمونہ تم بارش کے بعد زمین کے زندہ ہونے کی صورت میں دیکھتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللہِ كَيْفَ يُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى۝ ٠ ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٥٠ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں أثر أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید/ 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم/ 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات/ 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه/ 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف/ 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر . والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا } [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے { وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ } [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے { فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ } [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا { فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ } [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ { هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي } [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ { أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ } ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارش سے پہلے اور بارش کے بعد ذرا رحمت خداوندی کے آثار تو دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعے سے زمین کے مردہ اور بنجر ہوجانے کے بعد کس طرح اس کو پھر زندہ کرتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جو ذات زمین کے خشک ہوجانے کے بعد پھر اسے تروتازہ کرتی ہے وہی حشر کے لیے مردوں کو زندہ کرنے والی ہے اور وہ ہر ایک چیز مثلا موت وحیات اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 There is a subtle allusion in the mention of the Prophethood and the rain, one after the other, to the reality that the advent of a Prophet is a blessing for man's moral life even as the coming of the rain proves to be a blessing for his material life. Just as the dead earth awakens to life by a shower of the rain from the sky and starts blooming and swelling with vegetation, so is the morally and spiritually desolate human world quickened to life at the coming down of Divine Revelation and starts blossoming with moral excellences and virtues. This is the disbelievers' own misfortune that they show ingratitude, and regard the blessing of Prophethood as a portent of death for themselves instead of a good news of life.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 73 یہاں جس انداز سے نبوت اور بارش کا ذکر یکے بعد دیگرے کیا گیا ہے اس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لیے ویسی ہی رحمت ہے جیسی بارش کی آمد اس کی مادی زندگی کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہے ۔ جس طرح آسمانی بارش کے نزول سے مردہ پڑی ہوئٰ زمین یکایک جی اٹھتی ہے اور اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں ، اسی طرح آسمانی وحی کا نزول اخلاق و روحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کو جلا اٹھاتا ہے اور اس میں فضائل و محامد کے گلزار لہلہانے شروع ہوجاتے ہیں ۔ یہ کفار کی اپنی بدقسمتی ہے کہ خدا کی طرف سے یہ نعمت جب ان کے ہاں آتی ہے تو وہ اس کا کفران کرتے ہیں اور اس کو اپنے لیے مژدہ رحمت سمجھنے کے بجائے پیام موت سمجھ لیتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:50) اثر۔ اثرات، نشانیاں ۔ علامتیں (جو کوئی شے پیچھے چھوڑ جائے) لیکن مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلا :۔ (1) نقش قدم۔ جیسے فھم علی اثارھم یھرعون (37:70) سو وہ انہی کے نقش قدم پر ثلے جاتے ہیں۔ (2) طریقہ۔ جیسے ہم اولاء علی اثری (20:85) وہ میرے طریقہ پر کاربند ہیں۔ (3) بطور استعارہ بمعنی فضیلت جیسے تاللہ لقد اثرک اللہ علینا (12: 91) بجدا اللہ نے تجھ کو ہم پر فضیلت بخشی ہے۔ رحمۃ اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی رحمت بصورت بارش۔ یحی۔ میں ضمیر فاعل اللہ کے لئے ہے۔ ذلک : ای اللہ الزی قدر علی احیاء الارض بعد موتھا۔ لمحی۔ میں لام تاکید کا ہے۔ الموتی ، المیت کی جمع ہے۔ مردے۔ (بےشک وہی خدا مردوں کا زندہ کرنے والا ہے) لئن میں لام لام موطئہ ہے جو حرف شرط پر آیا ہے۔ اسے موطئہ اس لئے کہتے ہیں کہ شرط کے لئے راہ ہموار کرتا ہے اسے لام الموذنہ بھی کہتے ہیں۔ ان حرف شرط ہے۔ ریحا۔ ہوا ۔ امام رازی (رح) رقمطراز ہیں کہ نفع بخش ہواؤں کو جمع کے لفاظ سے لایا گیا ہے اور مضرت رساں ہواؤں کو بصیغہ واحد استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس کی رحمت ہوتی رہتی ہے اور اس کا عذاب کبھی کبھی آتا ہے۔ فراوہ۔ اس میں الفاء فصیحت کا ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب کھیتی کی طرف راجع ہے۔ جیسا کہ صاحب کشاف، روح المعانی، معالم التنزیل میں ہے۔ رأو ماضی جمع مذکر غائب رویۃ مصدر۔ مصفرا۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ اصفرار (افعلال) مصدر۔ صفر مادہ۔ زرد اور پیلا پڑا ہوا ۔ اور جہ قرآن مجید میں ہے ثم یھیج فترہ مصفرا (39:21) پھر وہ (کھیتی) خشک ہوجاتی ہے تو تو اس کو دیکھتا ہے زرد۔ لظلوا۔ لام جواب قسم کا ہے ظلوا۔ ماضی (بمعنی مستقبل) کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے وہ ہوگئے۔ افعال ناقصہ سے ہے اور خبر کو دن بھر کے لئے ثابت کرتا ہے۔ جس طرح بات رات کے وقت کوئی کام کرنے کے لئے آتا ہے ۔ کبھی یہ سار کے معنی بھی دیتا ہے اس وقت دن کی تخصیص نہیں رہتی۔ آیۃ ہذا میں بھی صار کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ من بعدہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) من بعد ارسال الریح ہوا کے بھیجنے کے بعد۔ (2) من بعد اصفرا رزرعھم۔ ان کی کھیتوں کے زرد پڑجانے کے بعد۔ (3) ان کے (پہلی صورت میں) خوش ہوجانے کے بعد ۔ من بعد الاستبشار۔ یکفرون۔ مضارع جمع مذکر غائب ۔ وہ ناشکری کرتے ہیں یا کریں گے۔ کرنے لگیں گے۔ آیت کا ترجمہ ہوا۔ اور اگر ہم (کوئی ایسی) ہوا بھیجیں (جس کے اثر سے) وہ کھیتوں کو زرد (اور مرجھایا ہوا) پائیں تو اس کے بعد وہ ناشکری کرنے لگیں گے۔ ان کا رویہ ہر دو صورت میں مذموم ہے چاہیے تو یہ تھا کہ جب اللہ کی طرف سے ان پر رحمت ہوئی اور بارش سے کھیت لہلہا اٹھے تو اس کا شکر ادا کرتے نہ کہ اس کو اپنے دنیاوی اسباب پر محمول کرتے ہوئے پھولے نہ سماتے اور جب خدا کی طرف سے ان کی اپنی شامت اعمال کی وجہ سے کھیتیاں زرد پڑگئیں تو بجائے خدا کی ناشکری کرنے کے ان کو استغفار سے کام لینا چاہیے تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بارش پر مزید غور کرنے کا حکم۔ اے پیغمبر (علیہ السلام) آپ پھر اللہ کی رحمت پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش کے بعد مردہ زمین کو کس طرح زندہ کرتا ہے جو ” اللہ “ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے جس سے کئی قسم کی نباتات اور کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں وہی مردوں کو زندہ فرمائے گا کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ جن ہواؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے اگر انہی ہواؤں کو بادصرصر بنادے جو ہر چیز کو جلا کر رکھ دیں تو انسان ناشکری کرنے کے سوا کیا کرسکتے ہیں ؟ قرآن مجید نے کئی مقامات پر بارش سے نباتات اور دیگر چیزوں کی تخلیق کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ جو ذات کبریا بارش کے ذریعے زمین میں پڑی ہوئی مردہ چیزوں کو زندہ کرتی ہے کیا وہ مردہ انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی ؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جن ہواؤں کے ذریعے بارش برساتا ہے انہیں ہواؤں کے ذریعے لہلہاتی کھیتیوں کو جلا کر خاکستر کر دے اس کے سوا نہ کوئی باد رحمت چلاسکتا ہے اور نہ ہی باد صرصر کو روک سکتا ہے گویا کہ اسے مخلوق کی فنا اور بقا پر پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ، قَالَ مَا ہَبَّتْ رِیْحٌ قَطُّ إِلَّا جَثَاالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلیٰ رُکْبَتَیْہِ وَقَالَ اَلّٰلہُمَّ اجْعَلْہَا رَحْمَۃً وَلَا تَجْعَلْہَا عَذَابًا، اَلّٰلہُمَّ اجْعَلْہَا رِیَاحاً وَلَا تَجْعَلْہَا رِیْحاً ) [ رواہ البیھقی : باب ذکر مسألۃ اللہ عز وجل۔۔] ” عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب بھی ہوا چلتی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور دعا کرتے۔ اے اللہ ! اس کو رحمت بنانا، عذاب کا باعث نہ بنانا۔ اے اللہ ! اس کو رحمت والی ہوا بنانا، عذاب والی آندھی نہ بنانا۔ “ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اسْتَسْقٰی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ )[ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو کہتے : (اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ) ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے۔ “ مسائل ١۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جب برستی ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے : ١۔ تم ” اللہ “ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کرے گا، بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٦۔ اللہ تعالیٰ پانی سے ہر قسم کی نباتات پیدا کرتا ہے۔ (الانعام : ٩٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تاکہ تم طہارت حاصل کرو۔ (الانفال : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (فَانْظُرْ الآی اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰہِ ) (الآیۃ) (کہ اے مخاطب تو اللہ کے آثار کو دیکھ لے کہ وہ زمین کو اس کی موت کے بعد کیسے زندہ کرتا ہے) اس زمین کو بار بار زندہ فرماتا ہے، بلاشبہ وہی مردوں کو زندہ فرمانے والا ہے۔ زمین کی نظیر سب کے سامنے ہے پھر مردوں کو زندہ کیے جانے میں تردد اور تامل کیوں ہے ؟ اللہ تعالیٰ ہی نے زمین کو بار بار زندہ فرمایا ہے وہی مردوں کو زندہ فرمائے گا۔ اس میں منکرین بعث بعد الموت کو تنبیہ ہے کہ بار بار اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں دیکھتے ہو پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے نکلنے کا کیوں انکار کرتے ہو ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ یعنی باران رحمت پر رحمت الٰہی کے جو آثار مرتب ہوتے ہیں انہیں غور سے دیکھو کس طرح خشک اور بنجر زمین کو اس نے حیات نو، رونق اور شادابی عطا فرمائی یہ اس کی قدرت و صنعت اور اس کی عظمت ووحدانیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ ان ذلک لمحی الموتی۔ جملہ معترضہ ہے یعنی اس دلیل سے جہاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ظاہر ہوتی ہے وہاں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو تازگی اور زندگی عطا کرسکتا ہے وہ قیامت کے دن مردوں کو بھی دوبارہ زندہ کرلے گا۔ وھو علی کل شیء قدیر۔ یہ ماقبل کے لیے علت ہے وہ چونکہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی قدرت تمام ممکنات پر حاوی ہے اس لیے وہ حشر و نشر پر قادر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50۔ سوائے مخاطب ! اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نشانات کو دیکھ کہ وہ زمین کو اس کے خشک ہوئے اور مرے پیچھے کس طرح زندہ اور تر و تازہ کردیتا ہے بلا شبہ یقینا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔ یعنی بارش سے مردہ زمین کے زندہ ہوجانے پر غور و فکر کر کے اس نتیجہ پر پہنچو کہ انسان جو زمین سے پیدا ہوا ہے اسی طرح مرنے کے بعد زندہ ہوجائیگا ۔