Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 51

سورة الروم

وَ لَئِنۡ اَرۡسَلۡنَا رِیۡحًا فَرَاَوۡہُ مُصۡفَرًّا لَّظَلُّوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ یَکۡفُرُوۡنَ ﴿۵۱﴾

But if We should send a [bad] wind and they saw [their crops] turned yellow, they would remain thereafter disbelievers.

اور اگر ہم باد تند چلا دیں اور یہ لوگ انہی کھیتوں کو ( مرجھائی ہوئی ) زرد پڑی ہوئی دیکھ لیں تو پھر اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And if We send a wind, and they see it turn yellow -- behold, they then would become unthankful (disbelievers). وَلَيِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا ... And if We send a wind, means, a wind which dries up the crops which they have tended and cultivated and which have matured, and they see them turn yellow, and start to rot, if this were to happen, they would become ungrateful, i.e., they would deny the previous blessings that they were given. This is like the Ayah, أَفَرَءَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ Then tell Me about the seed that you sow in the ground. until: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ Nay, but we are deprived! (56:63-67)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511یعنی ان ہی کھیتوں کو جن کو ہم نے بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان کی ہریالی کو زردی میں بدل دیں، یعنی تیار فصل کو تباہ کردیں تو یہی بارش سے خوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذراسی ابتلا پر فوراً ناامید اور گریہ کنا ہوجاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] پھر اس کے بعد جب خزاں کا موسم آتا ہے۔ اور نباتات سرد پڑنے لگتی ہے تو انسان پھر سے مایوسی ہوجاتا ہے اور اللہ کے حق میں کفریہ کلمات بکنے اور شکوے شکایات کرنے لگ جاتا ہے۔ ان آیات میں دراصل ایک دنیادار اور خدا فراموش انسان کی فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی دنیا دار پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو اس وقت خوش تو ہوتا ہے مگر اللہ کا شکر پھر بھی ادا نہیں کرتا اور جب نعمت کے زوال کا وقت آتا ہے تو اس وقت اسے اللہ یاد تو آتا ہے مگر شکرگزاری کے لئے نہیں بلکہ اسے کفریہ اور ناشکری کے کلمات کا ہدف بنانے کے لئے۔ نعمت ملنے پر اللہ کا احسان ماننے کے لئے تو قطعاً تیار نہ تھا۔ زوال نعمت پر اور بھی برگشتہ ہوگیا اور اللہ کو کو سنے لگ گیا کہ اس نے ہم پر کیسی یہ مصیبت ڈال دی ہے۔ ان آیات میں ایک لطیف اشارہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی جب اللہ کے رسول اس کی طرف سے پیام رحمت لاتے ہیں تو لوگ اس کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں اللہ تعالیٰ ان پر ظالموں اور جباروں کو مسلط کردیتا ہے اور وہ جو ظلم و ستم ڈھاتے ہیں تو وہی لوگ اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں اور اس پر الزام یہ دیتے ہیں کہ اس نے کسی ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ اَرْسَلْنَا رِيْحًا ۔۔ : یعنی اگر ہم کوئی سخت سرد یا گرم ہوا بھیج دیں، جس سے ان کے کھیت زرد پڑجائیں تو وہ ناشکری کرنے لگ جائیں گے اور پہلی نعمت سے بھی مکر جائیں گے۔ اس میں کافر اور دنیا دار مسلمان کا حال بیان ہوا ہے کہ جب اس پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو اس وقت وہ خوش تو بہت ہوتا ہے مگر اللہ کا شکر پھر بھی ادا نہیں کرتا اور جب کوئی نعمت چھنتی ہے تو اس وقت اسے اللہ یاد تو آتا ہے مگر صبر و شکر کے لیے نہیں، بلکہ کفر اور ناشکری کے کلمات کا ہدف بنانے کے لیے۔ نعمت ملنے پر اللہ کا احسان ماننے کے لیے تو قطعاً تیار نہ تھا، زوال نعمت پر اور بھی برگشتہ ہوگیا اور اللہ کو کو سنے لگ گیا کہ اس نے ہم پر یہ کیسی مصیبت ڈال دی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ اَرْسَلْنَا رِيْحًا فَرَاَوْہُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ يَكْفُرُوْنَ۝ ٥١ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ صفر الصُّفْرَةُ : لونٌ من الألوان التي بين السّواد والبیاض، وهي إلى السّواد أقرب، ولذلک قد يعبّر بها عن السّواد . قال الحسن في قوله تعالی: بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة/ 69] ، أي : سوداء»، وقال بعضهم : لا يقال في السواد فاقع، وإنّما يقال فيها حالکة . قال تعالی: ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر/ 21] ، كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات/ 33] ، قيل : هي جمع أَصْفَرَ ، وقیل : بل أراد الصُّفْرَ المُخْرَجَ من المعادن، ومنه قيل للنّحاس : صُفْرٌ ، ولِيَبِيسِ البُهْمَى: صُفَارٌ ، وقد يقال الصَّفِيرُ للصّوت حكاية لما يسمع، ومن هذا : صَفِرَ الإناءُ : إذا خلا حتی يُسْمَعَ منه صَفِيرٌ لخلوّه، ثم صار متعارفا في كلّ حال من الآنية وغیرها . وسمّي خلوّ الجوف والعروق من الغذاء صَفَراً ، ولمّا کانت العروق الممتدّة من الکبد إلى المعدة إذا لم تجد غذاء امتصّت أجزاء المعدة اعتقدت جهلة العرب أنّ ذلک حيّة في البطن تعضّ بعض الشّراسف حتی نفی النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : «لا صَفَرَ» «4» أي : ليس في البطن ما يعتقدون أنه فيه من الحيّة، وعلی هذا قول الشاعرولا يعضّ علی شرسوفه الصَّفَرُ والشّهر يسمّى صَفَراً لخلوّ بيوتهم فيه من الزّاد، والصَّفَرِيُّ من النِّتَاجِ : ما يكون في ذلک الوقت . ( ص ف ر ) الصفرۃ ( زردی ) ایک قسم کا رنگ جو سیاہی اور سفیدی کے مابین ہوتا ہے مگر اس پر چونکہ سیاہی غالب ہوتی ہے اس لئے کبھی اس کے معنی سیاہی بھی آتے ہیں ۔ اسی بناپر حسن رضہ نے آیت ۔ بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة/ 69] اس کا رنگ گہرا زردہ ہو ۔ میں صفراء کے معنی سیاہی کے ہیں مگر بعض نے کہا ہے کہ اگر اس کے معنی سیاہ ہوتے تو اس کی صفت فاقع نہ آتی بلکہ صفراء کے بعد حالکتہ کہا جاتا ہے ۔ نیز فرمایا : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر/ 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد ہوگئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات/ 33] گو یا زرد رنگ کے اونٹ ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صفرا صفر کی جمع ہے اور بعض نے کہا جاتا ہے کہ صفر ایک دہات کا نام ہے جس کے ساتھ زردی میں تشبیہ دی گئی ہے اسی سے نحاس ( پتیل ) کو صفر اور خشک بھمی ( گھاس ) کو سفار کہا جاتا ہے اور کبھی صفیر کا لفظ ہر اس آواز کی حکایت پر بولا جاتا ہے جو ( دور سے ) سنائی دے اسی سے صفرالاناء کا محاورہ ہے جس کے اصل معنی تو اس خالی برتن کے ہیں جس سے صفیر کی سی آواز سنائی لگے ہیں خواہ وہ برتن ہو یا اور کوئی چیز اور پیٹ اور رگوں کے غزا سے خالی ہونے کی صفر کہا گیا ہے اور ان رگوں کو جو جگر اور معدہ کے مابین پھیلی ہوئی ہیں جب غزا میسر نہ ہو تو وہ معدہ کے اجزا کو چوسنے لگتی ہیں اس بنا پر جاہل عربوں نے یہ عقیدہ بنارکھا تھا کہ صفر پیٹ میں ایک سانپ کا نام ہے جو بھوک کے وقت پسلیوں کا کاٹتا ہے ۔ حتی کہ آنحضرت کو لاصفر کہہ کر اس عقیدہ کی نفی کرنا پڑی ( 5) یعنی پیٹ میں اس قسم کا سانپ نہیں ہوتا جس کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( ع بیط ) اور نہ اس کی پسلیوں کی صفر سانپ کاٹتا ہے ۔ اور ماہ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ( اس مہینہ میں ان کے گھر توشہ خالی ہوجاتے تھے اس لئے اسے صفر کہتے تھے اور جو بچہ ماہ صفر میں پیدا ہوا اسے صفری کہا جاتا ہے ۔ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر ہم کھیتی پر سے گرم یا ٹھنڈی ہوا چلا دیں پھر یہ لوگ اس سے کھیتی کو خشک اور زرد ہوا دیکھیں کہ اس کی سبزی و تازگی ختم ہوگئی ہو تو یہ اس تبدیلی کے بعد اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگیں یا یہ کہ اللہ اور اس کی نعمتوں کی ناشکری پر قائم ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (وَلَءِنْ اَرْسَلْنَا رِیْحًا فَرَاَوْہُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْم بَعْدِہٖ یَکْفُرُوْنَ ) ” اگر کسی جھکڑ وغیرہ سے کھیتی تباہ ہوجائے یا لو اور باد صر صر کے اثرات سے اچھی بھلی فصل مرجھا جائے تو فوراً یہ لوگ اللہ کی نا شکری کا اظہار کرنے لگتے ہیں کہ ہماری قسمت تو ہمیشہ ہی پھوٹ جاتی ہے ‘ ہمیں تو کبھی بھی اچھے دن دیکھنے کو نہیں ملے ‘ ہمارے حصے میں تو کبھی کوئی خوشی آئی ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74 That is, a frosty wind or a heat wave which ruins their crops after they started flourishing by the shower of rain. 75 That is, they start cursing God and blaming Him for all their misfortunes and troubles, whereas when God had showered His blessings on them, they had shown ingratitude instead of being grateful to Him. Here again there is a subtle allusion to the theme that when the Messengers of Allah bring the messages of Mercy to the people, they do not listen to them and reject the blessing; then when God imposes tyrants and despots upon them in consequence of their disbelief. who persecute them severely, and destroy their humanity, the same people start abusing and blaming God for creating a world full of tyranny and cruelty.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 74 یعنی باران رحمت کے بعد جب کھیتیاں سرسبز ہوچکی ہوں اس وقت اگر کوئی ایسی سخت سرد یا سخت گرم ہوا چل پڑے جو ہری بھری فصلوں کو جلا کر رکھ دے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 75 یعنی پھر وہ خدا کو کوسنے لگتے ہیں اور اس پر الزام رکھنے لگتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی مصیبتیں ہم پر ڈال رکھی ہیں ۔ حالانکہ جب خدا نے ان پر نعمت کی بارش کی تھی اس وقت انہوں نے شکر کے بجائے اس کی ناقدری کی تھی ۔ یہاں پھر ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ جب خدا کے رسول اس کی طرف سے پیام رحمت لاتے ہیں تو لوگ ان کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں ۔ پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں خدا ان پر ظالموں اور جباروں کو مسلط کردیتا ہے اور وہ جور و ستم کی چکی میں انہیں پیستے ہیں اور جو ہر آدمیت کا قلع قمع کر ڈالتے ہیں تو وہی لوگ خدا کو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں اور اسے الزام دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی ظلم سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: قرآن کریم میں جہاں کہیں ریاح (ہوائیں) کا لفظ جمع کے صیغے میں آیا ہے اس سے مراد فائدہ مند ہوائیں ہیں، اور جہاں ریح (ہوا) مفرد آیا ہے، وہاں اس سے مراد نقصان دہ ہوا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جب بارش کی وجہ سے کھیتیاں سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہیں اس وقت اگر ہم کوئی ایسی ہوا بھیج دیں جو ان ہری بھری کھیتوں کو جلا کر زرد یعنی خشک کر دے تو یہ لوگ پھر ناشکری پر اتر آئیں اور رونا پیٹنا شروع کردیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ (کافر) نہایت ہی کمزور اور کم حوصلہ واقع ہوئے ہیں۔ دم بھر میں خوشیاں منانے لگتے ہیں اور دم بھر میں رونے پیٹنے بیٹھ جاتے ہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 54 مصفر (زرد) ۔ مدبرین (پیٹھ دکھانے والے) ۔ شیبتہ (بڑھاپا) ۔ یخلق (وہ پیدا کرتا ہے) تشریح : آیت نمبر (51 تا 54) ” گذشتہ آیات میں فرمایا گیا تھا کہ جب بارش سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائیں چلتی ہیں تو وہ اس تصور سے پھولے نہیں سماتے کہ بارش کے بعد موسم کی شدت کم ہوجائے گی اور ان کی کھیتیاں ہری بھری ہوجائیں گی درختوں پر رونق آجائے گی ایسے لوگ خوش تو ہوتے ہیں مگر اس اللہ کا شکرادا نہیں کرتے جس نے اپنے کرم سے بادل بھیج کر ان سے ان کو سکون عطا کیا ہے۔ اس کے برخلاف اگر ان کی ہری بھری کھیتیوں پر سخت سردی، شدید گرمی یا خشک اور جھلسا دینے والی ہوائیں چل پڑتی ہیں جن سے ان کی کھیتیاں بےرونق اور زرد پڑجاتی ہیں تو وہ ناشکری پر ارت آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے ان پر یہ ظلم کیوں کیا۔ فرمایا کہ ایسے لوگ جو ہر وقت اپنے فائدے میں لگے رہتے ہیں اور اپنی ہی ذات میں گم رہتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر یہ آپ کی باتوں کی ناقدری کرتے ہیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اصل میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے سخت رنجیدہ رہتے تھے کہ مکہ والے ان کی سچی باتوں پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ اگر وہ میری بات مان لیں تو ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو حق دکھا سکتے ہیں جو آنکھیں رکھتے ہوں۔ آپ ان لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو کان رکھتے ہوں لیکن وہ لوگ جو آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے بنے ہوئے ہوں اور کان رکھنے کے باوجود بہرے بنے ہوئے ہوں آپ ان کو نہ تو حق دکھا سکتے ہیں اور نہ سنا سکتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کر کے اللہ کی فرماں برادری میں لگے ہوئے ہیں وہی آپ کی بات سمجھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں لہذا اپنا مشن اور مقصد جاری کھئے یہی اہل ایمان ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔ فرمایا کہ اگر یہ ناشکرے لوگ صرف اتنا غور کرلیتے کہ جب وہ پیدا ہوئے تھے کس قدر کمزور تھے اور بڑھاپے میں جاکر پھر انتہائی کمزور اور ضعیف ہوجائیں گے۔ زندگی کی ان دو کمزوریوں کے درمیان جوانی اور طاقت کا جو زمانہ انہیں نصیب ہوتا ہے اس پر اترانے اور فخر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ جوانی اور اس کی طاقت بھی آخر کار کمزوری میں بدل جائے گی ۔ اللہ نے جو بھی طاقت اور جوانی عطا کی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ جب زندگی کی کھیتی زرد پڑجائے گی تو پھر عمل کا وہ وقت باقی نہیں رہے گا جو آج حاصل ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اور پچھلی نعمتیں سب طاق نسیان میں رکھ دیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ لَءِنْ اَرْسَلْنَا رٍیْحًا) (الآیۃ) اور اگر ہم خاص قسم کی ہوا چلا دیں جس سے ان کی کھیتیاں زرد نظر آنے لگیں یعنی ان کی سرسبزی اور شادابی جاتی رہے اور پتے پیلے پڑجائیں سو اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں یعنی پچھلی نعمتوں کو بھول جائیں گے اور نئی صورتحال کو دیکھ کر ناشکری پر اتر آئیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ یہ مشرکین پر زجر ہے۔ یہ مشرکین انتہائی عناد و مکابرہ کا بیان ہے انعامات یاد دلانے سے وہ کب ماننے والے ہیں۔ وہ ضد وعناد میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر ہم ان کے سرسبز و شاداب اور لہلہاتے کھیتوں پر کوئی آفت سماوی مثلاً سخت گرم ہوا وغیرہ بھیج دیں اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے لہلہاتے کھیت سوکھ کر زرد ہوجائیں تو بھی وہ کفر و جحود اور انکار و تکذیب پر اڑے رہیں گے اور ان کے دلوں میں تسلیم وانابت کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

51۔ اور اگر ہم اور قسم کی خشک ہوا چلا دیں جس سے یہ کھیتی کو زرد پڑی ہوئی دیکھیں تو یہ اس کے بعد نا شکری کرنے لگیں ۔ غرض پوری ہوجائے تو خوشی سے پھولے نہ سمائیں اور غرض پوری نہ ہو تو کھل کر نافرمانی پر آمادہ ہوجائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی غرض کے ساتھ ہے شکر اور نا شکری یہاں اس پر فرمایا کہ مراد پا کر بندہ نڈر نہ ہوجائے اللہ کی قدرت رنگا رنگ ہے۔ 12