Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 52

سورة الروم

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۵۲﴾

So indeed, you will not make the dead hear, nor will you make the deaf hear the call when they turn their backs, retreating.

بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو ( اپنی ) آواز سنا سکتے ہیں جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers are like the Dead, Deaf and Blind Allah says: فَإِنَّكَ لاَإ تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلاَإ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

مسئلہ سماع موتی باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ جس طرح یہ تیری قدرت سے خارج ہے کہ مردوں کو جو قبروں میں ہوں تو اپنی آواز سناسکے ۔ اور جس طرح یہ ناممکن ہے کہ بہرے شخص کو جبکہ وہ پیٹھ پھیرے منہ موڑے جارہا ہو تو اپنی بات سناسکے ۔ اسی طرح سے جو حق سے اندھے ہیں تو ان کی رہبری ہدایت کی طرف نہیں کرسکتا ۔ ہاں اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے جب وہ چاہے مردوں کو زندوں کو آواز سناسکتا ہے ۔ ہدایت ضلالت اسکی طرف سے ہے ۔ تو صرف انہیں سناسکتا ہے جو باایمان ہوں اور اللہ کے سامنے جھکنے والے اس کے فرمانبردار ہوں ۔ یہ لوگ حق کو سنتے ہیں اور مانتے بھی ہیں یہ تو حالت مسلمان کی ہوئی اور اس سے پہلے جو حالت بیان ہوئی ہے وہ کافر کی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ ۭ وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ 36؀۬ ) 6- الانعام:36 ) تیری پکار وہی قبول کریں گے جو کان دھر کر سنیں گے مردوں کو اللہ تعالیٰ زندہ کرکے اٹھائے گا پھر سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین سے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے تھے اور بدر کی کھائیوں میں ان کی لاشیں پھینک دی گئی تھی ان کی موت کے تین دن بعد ان سے خطاب کرکے انہیں ڈانٹا اور غیرت دلائی ۔ حضرت عمر نے یہ دیکھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے خطاب کرتے ہیں جو مر کر مردہ ہوگئے ، تو آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم بھی میری اس بات کو جو میں انہیں کہہ رہا ہوں اتنا نہیں سنتے جتنا یہ سن رہے ہیں ۔ ہاں وہ جواب نہیں دے سکتے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس واقعہ کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی سن کر فرمایا کہ آپ نے یوں فرمایا کہ وہ اب بخوبی جانتے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ حق ہے پھر آپ نے مردوں کے نہ سن سکنے پر اسی آیت سے استدالال کیا کہ آیت ( اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ 80؀ ) 27- النمل:80 ) حضرت قتادۃ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا تھا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات انہوں نے سن لی تاکہ انہیں پوری ندامت اور کافی شرم ساری ہو ۔ لیکن علماء کے نزدیک حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بالکل صحیح ہے کیونکہ اس کے بہت سے شواہد ہیں ۔ ابن عبدالبر نے ابن عباس سے مرفوعا ایک روایت صحت کرکے وارد کی ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر کے پاس گذرتا ہے جسے یہ دنیا میں پہچانتا تھا اور اسے سلام کرتا ہے تو اللہ اسکی روح لوٹادیتا ہے یہاں تک کہ وہ جواب دے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521یعنی جس طرح مردے فہم شعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ کی دعوت کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ 522یعنی آپ کا وعظ و نصیحت ان کے لئے بےاثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ 523یہ ان کے اعراض کی مذید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل ودماغ میں سما سکتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ خوش گوار ہواؤں، بارش، بحری جہازوں اور توحیدِ الٰہی پر دلالت کرنے والی دوسری بیشمار نشانیوں کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ غم زدہ نہ ہوں، کیونکہ آپ زندوں کو سنا سکتے ہیں مردوں کو نہیں اور کان والوں کو سنا سکتے ہیں بہروں کو نہیں، جب کہ کفر و عناد پر اڑے ہوئے یہ لوگ زندہ نہیں حقیقت میں مردہ ہیں اور کان رکھنے والے نہیں بلکہ ایسے بہرے ہیں جو پیٹھ دے کر جا رہے ہوں، جنھیں کسی صورت بات پہنچائی جا ہی نہ سکتی ہو، کیونکہ اگر وہ دیکھ رہے ہوتے تو شاید دیکھ کر ہی سمجھ جاتے، مگر جب وہ سماعت سے مرحوم بھی ہیں اور پیٹھ دے کر بھی جارہے ہیں تو آپ ان کو کیسے سنائیں گے ! ؟ 3 اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلندی اور بلاغت کو تو کسی کا کلام چھو بھی نہیں سکتا، مگر انسانی حد تک ایک شاعر نے یہ مفہوم اچھا ادا کیا ہے ؂ لَقَدْ أَسْمَعْتَ لَوْ أَسْمَعْتَ حَیًّا وَ لَوْ نَارًا نَفَخْتَ بِھَا أَضَاءَتْ وَ لٰکِنْ لَا حَیَاۃَ لِمَنْ تُنَادِيْ وَ لٰکِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي الرَّمَادِ ” تم نے اپنی بات یقیناً سنا دی اگر تو کسی زندہ کو آواز دیتا، مگر جسے تو آواز دے رہا ہے اس میں زندگی ہی نہیں۔ اور اگر کوئی معمولی سی آگ بھی ہوتی جس میں تو پھونک مارتا تو وہ روشن ہوجاتی، مگر تو تو راکھ میں پھونکیں مار رہا ہے۔ “ 3 اس میں شک نہیں کہ اس آیت میں مردوں اور بہروں سے مراد ایمان نہ لانے والے کافر ہیں، مگر یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فوت شدہ مردے زندہ لوگوں کی بات نہیں سنتے، کیونکہ اگر مردے سنتے ہوں تو ایمان نہ لانے والوں کو مردوں کے ساتھ تشبیہ کس چیز میں دی جا رہی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ مردے نہیں سنتے اور یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ہاں وہ دو مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں، ایک بدر میں کفار کے مقتولین سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطاب جو انھیں کنویں میں پھینکنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا (دیکھیے بخاری : ٣٩٧٦) اور دوسرا میت کا قبر میں دفن کیے جانے کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سننا۔ (دیکھیے بخاری : ١٣٣٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ (So you cannot make the dead to hear 30:52). As for the issue whether the dead have the ability to hear or not, and if they have this ability, whether it is exclusive to some, or all can hear, this subject has been dealt with briefly in the commentary of Sarah An-Naml in this volume, and a detailed discussion can be seen in my book تکمیل الحبور بسماع اھل القبور .

فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى، اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ رہا یہ معاملہ کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت ہے یا نہیں اور عام مردے زندہ کا کلام سنتے ہیں یا نہیں ؟ اس مسئلہ کی مختصر تحقیق معارف القرآن سورة نمل کی تفسیر میں گذر چکی ہے، اور مکمل تحقیق احقر کے مستقل رسالہ بزبان عربی میں ہے جس کا نام |" تکمیل الحبور بسماع اہل القبور |" ہے اور جو احکام القرآن بزبان عربی کے حزب خامس کا جز ہو کر شائع ہوچکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۝ ٥٢ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ حق و ہدایت کی آواز ایسے لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے جو مردوں کی طرح ہیں اور بہروں کو بھی نہیں سنا سکتے خصوصا جبکہ حق و ہدایت سے منہ پھیر کر ہی چل دیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (فَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ) ” اگر کوئی بہراشخص آپ کے سامنے ہو تو پھر بھی امکان ہے کہ آپ اسے اشاروں کنایوں سے کسی حد تک اپنی بات سمجھا لیں گے لیکن اگر وہ آپ سے منہ پھیر کر دوسری سمت چلا جا رہا ہو تو آپ کسی طور پر بھی اسے اپنا مدعا نہیں سمجھا سکتے۔ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایک تو یہ لوگ سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مزید یہ کہ وہ آپ کی بات سننا چاہتے بھی نہیں۔ چناچہ ان تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے ابلاغ کا کوئی امکان نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76 That is, those whose consciences have become dead, whose moral selves have become devoid of life, whose self-worship and stubbornness and obstinacy have destroyed their capacity to understand and accept the Truth. 77 "The deaf" : those who have put locks on their minds and hearts so that they do not understand anything although they hear everything; then, when such people also try that the message of the Truth should not at all eater their ears, and they should avoid and keep away from the inviter, nobody can make them hear and understand anything.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 76 یہاں مردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر مر چکے ہیں ، جن کے اندر اخلاقی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی ہے ، جن کی بندگی نفس اور ضد اور ہٹ دھرمی نے اس صلاحیت ہی کا خاتمہ کردیا ہے جو آدمی کو حق بات سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل بناتی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 77 بہروں سے مراد وہ لوگ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دلوں پر ایسے قفل چڑھا رکھے ہیں کہ سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہیں سنتے ۔ پھر جب ایسے لوگ یہ کوشش بھی کریں کہ دعوت حق کی آواز سرے سے ان کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے ، اور داعی کی شکل دیکھتے ہی دور بھاگنا شروع کردیں تو ظاہر ہے کہ کوئی انہیں کیا سنائے اور کیسے سنائے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٢، ٥٣۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قدر توحید کی باتیں کفار مکہ کو سناتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے اسی قدر لوگ سن کر مچلے بنتے جاتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ مردے اور بہرے کے مانند ہیں اور بہرہ بھی وہ جسکی پیٹھ پھری ہوئی کیوں کہ اگر بہرے آدمی کا منہ کسی بات کرنے والے شخص کی طرف ہو تو ہونٹوں کی جنبش یا اشارہ سے بھی کچھ سمجھ سکے ان لوگوں میں وہ بات بھی نہیں یہ ایسے بہرے ہیں کہ ان کا منہ بھی بات کرنے والے شخص کی طرف نہیں بلکہ پیٹھ پھری ہوئی ہے اس طرح کی آیتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مردے کچھ نہیں سنتے ایسی ہی عالم حکم کی آیتوں سے حضرت عئاشہ (رض) ‘ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی اس روایت کا انکار کیا کرتی تھیں ١ ؎ جو کفار جنگ بدر کے مردوں کے حال میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مردوں کے نام لے لیکر پکار اور فرمایا کہ ہم نے تو خدا کا وعدہ سچایا لیا تم لوگوں کو بھی خدا کے فرمانے کا ظہور معلوم ہوگیا اور اب تو تم کو معلوم ہوگیا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کرتے تو یہ دن آج نہ دیکھتے اور حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کیا حضرت آپ بےجان مردوں سے باتیں کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم زندوں سے زیادہ یہ مردے میری اس بات کو سنتے ہیں جو میں ان سے کہہ رہا ٢ ؎ ہوں سوا حضرت عائشہ (رض) کے جمہور صحابہ اور تابعین کا قول یہ ہے کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت سب مردے بات سنتے ہیں جس کا ذکر صحیح روایتوں میں آیا ہے اور خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے مردوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سننے کی قوت دی تھی اس لیے انہوں نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمانا سنا حضرت عائشہ (رض) اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت میں مطابقت حافظ ابن حجر نے فتح الباری ٣ ؎ میں یوں بیان کی ہے (٣ ؎ صفحہ ٧٠٤ ج اول باب ماجاء فی عذاب القبر) کہ حضرت عائشہ (رض) کے انکار کے یہ معنے ہیں کہ منکر نکیر کے سوال جواب کے وقت کے سوا کوئی مردہ کسی وقت نہیں سنتا اور منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت مردہ کو مردہ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ براء بن عازب (رض) کی صحیح حدیث ٤ ؎ سے یہ ثابت ہوچکا ہے (٤ ؎ ایضا ص ٧٠٣) اس وقت مردہ میں روح پھونک دی جاتی ہے پھر وہ مردہ کا سننا نہیں ہوا بلکہ ایک روح والے جسم کا سننا ہوا اسی طرح جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے مردوں سے باتیں کی تھیں اس قوت بھی ان مردوں کے جسم میں اللہ کے حکم سے روح پھونک دی گئی تھی چناچہ امام بخاری نے صحیح بخاری ١ ؎ (١ ؎ فتح الباری صفحہ ١٢ جلد ٤ باب قتل ابی جہل از صحیح بخاری) میں قتادہ (رض) کے قول کے حوالہ سے اس کی تصریح بھی کردی ہے غرض مردے کے جس سننے کا ذکر براء بن عازب (رض) یا حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث میں ہے اس کا انکار حضرت عائشہ (رض) کو نہیں ہے اور جس سننے کا انکار حضرت عائشہ (رض) کو ہے اس کا ذکر ان حدیثوں میں نہیں ہے اس صورت میں حضرت عائشہ کی روایت اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت میں کچھ مخالفت نہیں ہے اسی واسطے جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے جنگ بدر کے مردوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باتیں کرنے کی روایت ہے اسی طرح یہ روایت حضرت عائشہ (رض) سے بھی آئی ہے جس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں معتبر سند سے روایت ٢ ؎ کیا ہے (٢ ؎ ایضا صفحہ ١٣۔ ) حاصل کلام یہ ہے کہ سوا اس معجزے کے جو جنگ بدر کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظاہر ہوا اور سوا منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت کے بالا تفاق سب صحابہ کا قول بھی یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا۔ اب آگے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے علم ازلی میں راہ ہدایت پر نظر آنے سے اندھے قرار پا چکے ہیں ان پر بھی قرآن کی نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ قرآن کی نصیحت کا اثر تو ان لوگوں پر ہی ہوگا جو علم الٰہی میں ایماندار اور فرمانبرداری ٹھہر چکے ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں قرآن کی نصیحت ان کے حق میں ایسا ہی فائدہ دیتی ہے جس طرح اچھی زمین مینہ کا پانی فائدہ دیتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں برے قرار پا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت اسی طرح رائگاں ہے جس طرح بری زمن میں مینہ کا پانی یا مردوں اور بہروں کے آگے بات چیت کا کرنا یا اندھے کو کسی چیز کا دکھانا رائگاں ہے۔ (١ ؎ فتح البیان ص ٥٤٥ ج ٣ بحوالہ صحیحین۔ و تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٨ ج ٣) (٢ ؎ فتح الباری ص ١٢ جلد ٤ باب قتل ابی جہل)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان لوگوں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور ان میں حقائق کو سمجھنے اور خیر و صواب کو پہچاننے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ گویا یہ بالکل مردے اور بہرے ہیں اور بہرے بھی ایسے جو حق بات کو محسوس کرتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں کوئی بات سنائی نہیں جاسکتی۔ (تنبیہ) ” سمال موتی “ کے مسئلہ میں گو علماء نے طویل بحثیں کی ہیں لیکن مردوں کا عدم سماع ایک عام حقیقت ہے جس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو دلیل کتاب و سنت سے ثابت ہیں مثلاً غزوہ بدر میں جو کافر مارے کئے تھے انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطاب فرمایا : آپ سے عرض کیا گیا ” اے اللہ کے رسول آپ ایسے جمسوں سے کلام فرما رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں “ فرمایا ! وہ میری بات کو تم لوگوں سے زیادہ سن رہے ہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب لوگ مردہ کو دفن کر کے پلٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے۔ دیکھئے نمل آیت 8)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ سو جب ان کی غفلت اور ناشکری پر اقدام اس درجہ پر ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بالکل ہی بےحس ہیں تو ان کے عدم ایمان و عدم تدبر فی الایات پر غم بھی بیکار ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں پوری کائنات میں پھیلا رکھی ہیں اور اس نے اپنی توحید کے دلائل کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں لیکن اندھے اور بہرے لوگ اس کی نشانیوں کو غور سے دیکھنے اور دلائل کو توجہ کے ساتھ سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو دن رات اللہ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت دیتے لیکن کافر اور مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے باوجود اس کی ذات کو بلاشرکت غیرے ماننے اور اس کی توحید کے دلائل سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایسے لوگوں کی حقیقت بتلانے اور آپ کو تسلی دینے کے لیے فرمایا گیا کہ اے رسول آپ نے اپنے کام میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اگر یہ لوگ حقائق دیکھنے سے اندھے اور سچ سننے سے بہرے ہوچکے ہیں تو آپ کو دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ ایسے اندھوں کو ہدایت دینے والے نہیں ہیں جو ہدایت سے دوربھاگنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کی راہنمائی کرسکتے ہیں جو ہمارے ارشاد ات پر ایمان لانے والے ہیں حقیقتاً یہی لوگ ہماری فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ یہاں اندھے اور بہروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے بارے میں دل کے اندھے اور حقیقت سننے سے بہرے ہوچکے ہیں۔ (اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بالْمُھْتَدِیْنَ ) [ القصص : ٥٦] ” اے نبی آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔ “ یہاں اس بات کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ مردے نہیں سنتے گو یہاں مردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی طور پر مردہ ہوچکے ہیں حالانکہ کان، آنکھیں اور دل موجود ہیں۔ جو (PHYSICALLY) طور پر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ روحانی صلاحتیں کھو چکے ہیں اس لیے وہ سچی بات سنتے نہیں۔ مردے نہیں سنتے : جب کوئی حقیقتاً جسمانی طور پر مردہ ہوجائے تو پھر وہ کس طرح سن، دیکھ اور سوچ سکتا ہے ؟ اس لیے قرآن مجید نے مردوں کے بارے میں فرمایا ہے۔ ” کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو پکڑ سکتے ہوں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے سنتے ہوں فرما دیں تم اپنے سب شرکاء کو بلا لو، پھر میرے خلاف تدبیر کرو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو ۔ یقینا میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے ہیں۔ “ [ الاعراف : ١٩٥] یہ حال صرف بتوں کا نہیں بلکہ قبروں میں مدفون بزرگ کا بھی یہی حال ہے۔ (وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْءًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ) النحل : ٢٠۔ ٢١] ” اور جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ مردے ہیں زندہ نہیں۔ انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ “ [ النحل : ١٩، ٢٠] (وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِیْ الْقُبُوْرِ ) [ فاطر : ٢٢] ” زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا سکتا ہے آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے۔ “ (اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ )[ النمل : ٨٠] ” آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ ان بہروں تک اپنی آواز پہنچا سکتے جو پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں اور بہروں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل کے اندھوں اور ایمان نہ لانے والوں کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ ٣۔ ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر دل سے ایمان لاتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فانک لا تسمع الموتی ۔۔۔۔۔۔۔ فھم مسلمون (52 – 53) ، “۔ یہ لوگ مردے ہیں ، ان میں زندگی کی رمق نہیں ، یہ بہرے ہیں ، کوئی آواز نہیں سن سکتے۔ یہ اندھے ہیں ان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ جو شخص اپنے احساس کے دروازے اس کائنات ثوامیس فطرت کے لیے بند کردیتا ہے اور اسے فطرت کے یہ نشانات نظر نہیں آتے وہ مر چکا ہے۔ اس میں حیات نہیں ہے۔ اگر کوئی زندگی ہے تو پھر یہ حیوانی زندگی ہے بلکہ وہ حیوانوں سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ حیوانوں میں ایک فطری شعور ہوتا ہے اور وہ شعور کبھی بھی غلطی نہیں کرتا۔ جو شخص اللہ کی ان نشانیوں کی پکار نہیں سنتا وہ بالکل بہرہ ہے۔ اگرچہ اس کے کان ہوں اور ان کے ساتھ آواز ٹکراتی ہو۔ جو شخص اس کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو نہیں دیکھتا ، وہ اندھا ہے اگرچہ حیوان کی طرح اس کے بڑے بڑے موٹے موٹے دیدے ہوں۔ ان تسمع الا من یومن بایتنا فھم مسلمون (30: 53) ” تم صرف انہی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے اور سر تسلیم خم کردیتے ہیں “۔ ایسے ہی لوگ دعوت کو سنتے ہیں کیونکہ ان کے دل زندہ ہوتے ہیں اور زندہ دراصل دل کی زندگی ہوتی ہے۔ ان کی آنکھیں بینا ہوتی ہیں۔ ان کی قوائے مدر کہ صحیح و سلامت ہوتی ہیں ، لہٰذا وہ سنتے ہیں۔ سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ دعوت کی پکار ان کی فطرت سے ٹکراتے ہی ان کے اندر انابت پیدا کرتی ہے۔ اب ذرا انسان کو خود اس کی ذات اور اس کے جسم کی دنیا میں گھمایا جاتا ہے ۔ اپنے ماحول سے لاکر خود اپنے نفس کی وادیوں میں پھرایا جاتا ہے کہ تم پیدا کیسے ہوئے ؟ اس زمین پر تمہاری پیدائش کیسی ہے ؟ زندگی کیسی ہے اور تم مر کس طرح جاتے ہو ؟ اور پھر قیامت کا منظر کیا ہوگا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ مردوں اور بہروں کو نہیں سنا سکتے اور اندھوں کو ہدایت نہیں دے سکتے یعنی آپ کے جو مخاطبین ہیں آپ ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں، ان کے سامنے دلائل پیش کرتے ہیں، یہ سننے کا ارادہ ہی نہیں کرتے۔ جس طرح آپ مردوں کو اور بہروں کو نہیں سنا سکتے جبکہ یہ بہرے پیٹھ پھیر کر چل دیں اور اشارہ کو بھی نہ دیکھیں، اسی طرح یہ لوگ ہیں ان کا سننے کا ارادہ نہیں ہے، مردوں کی طرح بنے ہوئے ہیں، پھر یہ لوگ اندھے بھی بنے ہوئے ہیں، راہ پر آنے کو تیار ہی نہیں لہٰذا آپ کی ہدایت پر نہ آئیں گے۔ (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) آپ تو بس انہیں لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو اللہ کی یاد پر یقین رکھتے ہیں اور اس یقین کی وجہ سے وہ فرمانبردار بنے ہوئے ہیں۔ اس میں امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ جو لوگ آپ کی باتیں سن کر ان سنی کردیتے ہیں اور گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں آپ ان کی حالت پر غم نہ کریں اور ان سے ایمان کی امید نہ رکھیں آپ کا کام دعوت دینا اور حق کو ظاہر کردینا ہے، اور جو لوگ دعوت حق قبول نہ کریں ان کی اپنی گمراہی ہے۔ آیت کریمہ میں جو (فَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی) فرمایا ہے اس کے بارے میں سورة نمل کی آیت (وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ ) کے ذیل میں ضروری بحث گذر چکی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52۔ یقینااے پیغمبر آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ، اور نہ آپ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں خصوصاً جبکہ وہ بہرے پیٹھ پھیر کر پھرجائیں۔ یعنی ان کے دل مرچکے ہیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ان بہروں کو سنا سکتے ہیں جو بہرے بھی ہوں اور پیٹھ پھیر کر جا بھی رہے ہوں یعنی یا تو یہ مردوں کی مثل ہیں اور یا ایسے بہرے ہیں جن کے کانوں میں ثقل ہے اور وہ پیٹھ پھیر کر جا بھی رہے ہیں ۔