Commentary Greater part of this Surah aims at removing the doubts of the deniers of the Hereafter. For meeting this end, many verses deal with the signs of Allah&s omnipotence and His all-encompassing wisdom in order to awake people from their slumber. The first of the above-referred verses deals with the same subject in a different manner. It is pointed out that man is impetuous by nature, in the sense that he gets involved in the present so much that he forgets the past and the future. This habit leads him to many a serious problems. When he is young, his strength is at its peak, and he does not care about anyone in his over-weaning pride. He finds it difficult to remain within limits. In order to warn people, this verse has given a complete picture of the strength and weakness in human life as they come and go by. It is pointed out in the verse that the man starts his life in a state of weakness and ends it with a similar weakness. It is only in the middle of his life that he gains strength for a short period. It is in his own interest that he should keep in mind the impending weakness while he is still strong, and does not forget how he achieved strength gradually from the state of weakness. The man is reminded of his real self in خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ (Who created you in a state of weakness - 30:54). It means that his original base is a dirty drop of semen that has neither strength, nor sense or life. So ponder, who has turned this sickening drop into congealed blood, then into flesh and then transfixed bones into the flesh? After that, who has produced delicate machines of the limbs and organs to turn him into a mobile factory, which is supported by innumerous automatic machines. If one is to look more closely into this factory, one would notice that it is a mini-world of its own in which innumerable models of His creation are set in. The creation and bringing up of man is not brought about in a giant factory but in three dark stages in the womb of his mother. After spending nine months in the womb of mother, man ultimately takes birth to come out into this world. The Holy Qur&an says, ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (Then Allah facilitated exit [ from the womb ] for him - 80:20). When he came into this world, his condition was that وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ (And Allah has brought you forth from your mothers& wombs when you knew nothing - 16:78). Then Allah made you learn so many things. The first lesson was to teach you crying, so that you could attract the attention of your parents towards you, and they should look for your needs of thirst and hunger. Then you were taught the skill to suck milk by pressing your lips and gums from your mother&s breasts for your sustenance. Who else had the power to teach these two skills to an infant having no intelligence, to meet all his needs? Indeed no one else but the Power who is responsible for his creation. The infants are weak at that stage of their life. Minor exposure to cold or heat makes them sick. They can neither ask for their needs, nor can they remove any of their miseries. Right from this stage until they attain their youth, one can see in them a gradual development of life and strength - a process only Allah Ta’ ala can create and control and a clear manifestation of His omnipotence, if people could only contemplate. ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ (Then He created strength after weakness - 30:54). When man reaches the stage of his strength, he gets involved in showing off his powers and intelligence. He flies to reach the moon and Mars, and tries to overpower the earth and oceans. He forgets all about his past and becomes oblivious of his future, and cries out مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (Who is stronger than us in might? - 41:15); so much so that in this state of intoxication, he even forgets his Creator and His commands. So the Nature has warned to make him realize his folly ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً (Then created weakness and old age - 30:54). 0 remiss! Be mindful of the fact that your present strength is temporary and you have to return to the same old weakness, and it will take you gradually to your grey hair. Then all your limbs and organs will change their shape and form. You need not go through any books and the history of the world, but look into your own concealed self, and you will be left with no other option but to accept and believe that يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (He creates what He wills, and He is the All-Knowing, the All-Powerful - 30:54). All this control and running of affairs are by the One who creates them. He does as He pleases, and in a manner as it pleases Him. He has no parallel in knowledge and power. Knowing all this, is there any room for doubt that He can resurrect the dead whenever He likes?
خلاصہ تفسیر اللہ ایسا ہے جس نے تم کو ناتوانی کی حالت میں بنایا (مراد اس سے ابتدائی حالت بچپن کی ہے) پھر (اس) ناتوانی کے بعد توانائی (یعنی جوانی) عطا کی پھر (اس) توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا کیا (اور) وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ (ہر تصرف کو) جاننے والا (اور اس تصرف کے نافذ کرنے پر) قدرت رکھنے والا ہے (پس جو ایسا قادر ہو اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ یہ تو بیان تھا بعث کے امکان کا) اور (آگے اس کے وقوع کا بیان ہے یعنی) جس روز قیامت ہوگی مجرم (یعنی کافر) لوگ (وہاں کی ہول وہیبت و پریشانی کو دیکھ کر قیامت کی آمد کو غایت درجہ ناگوار سمجھ کر) قسم کھا بیٹھیں گے کہ (قیامت بہت جلدی آگئی اور) وہ لوگ (یعنی ہم لوگ عالم برزخ میں) ایک ساعت سے زیادہ نہیں رہے (یعنی جو میعاد قیامت کے آنے کی مقرر تھی وہ بھی پوری نہ ہونے پائی کہ قیامت آپہنچی جیسا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اگر پھانسی والے کی میعاد ایک ماہ مقرر کی جائے تو جب مہینہ گذر چکے گا تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا مہینہ نہیں گذرا اور مصیبت جلدی آگئی، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اسی طرح یہ لوگ (دنیا میں) الٹے چلا کرتے تھے (یعنی جس طرح یہاں آخرت میں قیامت کے قبل از وقت آجانے پر قسمیں کھانے لگے، اسی طرح دنیا میں قیامت کے وجود ہی کے منکر تھے اور نہ آنے پر قسمیں کھایا کرتے تھے) اور جن لوگوں کو ایمان اور علم عطا ہوا ہے (مراد اہل ایمان ہیں کہ اخبار شرعیہ کا علم ان کو حاصل ہے) وہ (ان مجرمین کے جواب میں) کہیں گے کہ ( تم برزخ میں میعاد سے کم تو نہیں رہے، تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے بلکہ) تم تو (میعاد) نوشتہ خداوندی کے موافق قیامت کے دن تک رہے، سو قیامت کا دن یہی ہے، (جو میعاد مقرر تھی برزخ میں رہنے کی) و لیکن (وجہ اس بات کی کہ قیامت کو میعاد سے پہلے آیا ہوا سمجھتے ہو یہ ہے کہ) تم (دنیا میں قیامت کے وقوع کا) یقین (اور اعتقاد) نہ کرتے تھے (بلکہ تکذیب و انکار کیا کرتے تھے اس انکار کے وبال میں آج پریشانی کا سامنا ہوا اس وجہ سے گھبرا کر یہ خیال ہوا کہ ابھی تو میعاد پوری بھی نہیں ہوئی اور اگر تصدیق کرتے اور ایمان لے آتے تو اس کے وقوع کو جلدی نہ سمجھتے بلکہ یوں چاہتے کہ اس سے بھی جلدی آجائے کیونکہ انسان جب اس سے کسی راحت و آرام کا وعدہ ہو تو طبعی طور پر اس کا جلدی آنا چاہتا ہے اور انتظار شاق اور اس کی مدت طویل معلوم ہوا کرتی ہے۔ جیسا حدیث میں بھی ہے کہ کافر قبر میں کہتا ہے رب لاتفم الساعة اور مومن کہتا ہے رب لا تقسم الساعة اور مومن کہتا ہے رب اقم الساعۃ، اور مومنین کے اس جواب سے بھی جو یہاں مذکور ہے کہ مقام برزخ کو انہوں نے بہت سمجھا ہے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ مشتاق تھے، اس لئے چاہتے تھے کہ جلد آجائے) غرض اس روز ظالموں (یعنی کافروں کی پریشانی اور مصیبت کی یہ کیفیت ہوگی کہ ان) کو ان کا (کسی قسم کا جھوٹا سچا) عذر کرنا نفع نہ دے گا اور نہ ان سے خدا کی خفگی کا تدارک چاہا جائے گا (یعنی اس کا موقع نہ دیا جائے گا کہ توبہ کرے کے خدا کو راضی کرلیں) اور ہم نے لوگوں (کی ہدایت) کے واسطے اس قرآن (کے مجموعہ یا اس کے اس خاص جزو یعنی اس سورة) میں ہر طرح کے عمدہ ( اور عجیب) مضامین (ضروریہ) بیان کئے ہیں (جو اپنی بلاغت اور کمال کی وجہ سے مقتضی اس کو ہیں کہ ان کافروں کو ہدایت ہوجاتی، مگر ان لوگوں نے غایت عناد سے اس کو قبول نہ کیا اور اس سے منتفع نہ ہوئے) اور (قرآن کی کیا تخصیص ہے ان لوگوں کا عناد اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ) اگر (قرآن کے علاوہ ان معجزات سے جن کی یہ خود فرمائش کیا کرتے ہیں) آپ ان کے پاس کوئی نشان لے آئیں تب بھی یہ لوگ جو کہ کافر ہیں یہی کہیں گے کہ تم سب (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین جو آیات تشریعیہ و تکوینیہ کی تصدیق کرتے ہیں) نرے اہل باطل ہو (پیغمبر کو سحر کی تہمت لگا کر صاحب باطل کہیں اور مسلمانوں کو سحر کی تصدیق کرنے سے اہل باطل کہیں اور ان لوگوں کے اس عناد کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ) جو لوگ (باوجود مکرر نشانیاں اور دلائل حق ظاہر ہونے کے) یقین نہیں کرتے (اور نہ اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر یوں ہی مہر کردیا کرتا ہے (جیسا کہ ان کے دلوں پر ہو رہی ہے، یعنی روزانہ استعداد قبول حق کی مضمحل و ضعیف ہوتی جاتی ہے، اس لئے انقیاد میں ضعف اور عناد میں قوت بڑھتی جاتی ہے) سو (جب یہ ایسے معاندین ہیں تو ان کی مخالفت اور ایذا رسانی اور بدکلامی وغیرہ پر آپ صبر کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ (کہ آخر میں یہ ناکام اور اہل حق کامیاب ہوں گے) سچا ہے (وہ وعدہ ضرور واقع ہوگا پس صبر و تحمل تھوڑے ہی دن کرنا پڑتا ہے) اور یہ بدیقین لوگ آپ کو بےبرداشت نہ کرنے پائیں (یعنی ان کی طرف سے خواہ کیسی ہی بات پیش آئے مگر ایسا نہ ہو کہ آپ برداشت نہ کریں۔ معارف و مسائل اس سورت کا بڑا حصہ منکرین قیامت کے شبہات کے ازالہ سے متعلق ہے جس کے لئے حق تعال کی قدرت مطلقہ کاملہ اور حکمت بالغہ کی بہت سی آیات اور نشانیاں دکھلا کر غافل انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ مذکور الصد پہلی آیت میں ایک نئے انداز سے اسی مضمون کا اثبات ہے وہ یہ کہ انسان اپنی طبیعت سے جلد باز واقع ہوا ہے اور سامنے کی چیزوں میں لگ کر ماضی و مستقبل کو بھلا دینے کا عادی ہے اور اس کی یہی عادت اس کو بہت سی مہلک غلطیوں میں مبتلا کرتی ہے۔ جس وقت انسان جوان ہوتا ہے اس کی قوت اپنے شباب پر ہوتی ہے، یہ اپنی قوت کے نشہ میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتا، حدود پر قائم رہنا اس کو دو بھر معلوم ہوتا ہے۔ اس کو متنبہ کرنے کے لئے اس آیت میں قوت و ضعف کے اعتبار سے انسانی وجود کا ایک مکمل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں دکھلایا ہے کہ انسان کی ابتداء بھی کمزور ہے اور انتہا بھی درمیان میں بہت تھوڑے دنوں کے لئے اس کو ایک قوت ملتی ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس چند روزہ قوت کے زمانہ میں اپنی پہلی کمزوری اور آنے والی کمزوری سے کبھی غافل نہ ہو، بلک اپنی اس کمزوری کے مختلف درجات کو ہمیشہ سامنے رکھے۔ جن سے گذر کر یہ قوت و شباب تک پہنچا ہے۔ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ میں انسان کو یہی سبق دیا گیا کہ اپنی اصل بنیاد کو دیکھ کس قدر ضعیف بلکہ عین ضعف ہے کہ ایک قطرہ بےجان، بےشعور، ناپاک، گھناؤنی چیز ہے۔ اس میں غور کر کہ کس کی قدرت و حکمت نے اس گھناؤنے قطرہ کو ایک خون منجمد کی صورت میں پھر خون کو گوشت کی صورت میں پھر اس گوشت کے اندر ہڈیاں پیوست کرنے میں تبدیلیاں کیں۔ پھر اس کے اعضاء وجوارح کی نازک نازک مشینیں بنائیں کہ یہ ایک چھوٹا سا وجود ایک چلتی پھتری فیکٹری بن گیا، جس میں سینکڑوں عجیب و غریب خود کار مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ اور زیادہ غور سے کام لو تو ایک فیکٹری نہیں بلکہ ایک عالم اصغر ہے کہ پورے جہان کے نمونے اس کے وجود میں شامل ہیں۔ اس کی تخلیق وتکوین بھی کسی بڑے ورکشاپ میں نہیں، بلکہ بطن مادر کی تین اندھیریوں میں ہوئی اور نو مہینے اسی تنگ و تاریک جگہ میں بطن مادر کے خون اور آلائشوں سے غذا پاتے ہوئے حضرت انسان کا وجود تیار ہوا۔ ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظہور کے لئے راستہ آسان فرما دیا اس عالم میں آئے تو ان کی شان یہ تھی کہ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا، یعنی تمہیں شکم مادر سے اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، اب قدرت نے تعلیم و تلقین کا سلسلہ شروع کیا، سب سے پہلا ہنر رونے کا سکھلایا جس سے ماں باپ متوجہ ہو کر اس کی بھوک پیاس اور ہر تکلیف کو دور کرنے پر لگ جائیں۔ پھر ہونٹوں، مسوڑوں کو دبا کر ماں کی چھاتیوں سے دودھ نکالنے کا ہنر سکھلایا جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرے۔ کس کی مجال تھی جو اس لایعقل بچے کو یہ دونوں ہنر سکھا دے جو اس کی موجودہ ساری ضرورتوں کی کفالت کرتے ہیں، بجز اس قدرت کے جو اس کی تخلیق کی مالک ہے اب ضعیف بچہ ہے ذرا ہوا لگ جائے تو پژمردہ ہوجائے، ذرا سردی یا گرمی لگ جائے تو بیمار ہوجائے نہ اپنی کسی ضرورت کو مانگ سکتا ہے نہ کسی تکلیف کو دور کرسکتا ہے۔ یہاں سے چلئے اور جوانی کے عالم تک اس کی تدریجی منازل تک غور کرتے جایئے تو قدرت حق جل شانہ کا ایسا عظیم شاہکار سامنے آئے گا کہ عقل حیران رہ جائے گی۔ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ، اب یہ قوت کی منزل میں پہنچے تو زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے، چاند اور مریخ پر کمند پھینکنے لگے، بحر و بر پر اپنے قبضے جمانے لگے، اپنے ماضی و مستقبل سے غافل ہو کر مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (ہم سے زیادہ کون قوی ہوسکتا ہے) کے نعرے لگانے لگے۔ یہاں تک کہ اسی قوت کے نشہ میں اپنے پیدا کرنے والے کو بھی بھول گئے اور اس کے احکام کی پیروی کو بھی مگر قدرت نے اس کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا : ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً کہ غافل ! خوب سمجھ لے کہ یہ قوت تیری چند روزہ ہے۔ پھر اسی ضعف کے عالم کی طرف لوٹنا ہے اور اسی تدریج سے ضعف بڑھنا شروع ہوگا جس کا اثر ایک وقت کے بعد شیبہ بالوں کی سفیدی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور پھر سب ہی اعضا وجوارح کی شکل و صورت میں تبدیلیاں لائے گا۔ دنیا کی تاریخ اور دوسری کتابیں نہیں خود اپنے وجود میں لکھی ہوئی اس مخفی تحریر کو پڑھ لو تو اس یقین کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ کہ یہ سب کار سازی اس رب العزت کی ہے جو پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جس طرح چاہتا ہے اور علم میں بھی سب سے بڑا ہے اور قدرت میں بھی کیا اس کے بعد بھی اس میں کچھ شبہ کی گنجائش رہ گئی، کہ وہ جب چاہے مردوں کو دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے۔