Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 54

سورة الروم

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ ضُؔعۡفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ ضُؔعۡفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ ضُؔعۡفًا وَّ شَیۡبَۃً ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡقَدِیۡرُ ﴿۵۴﴾

Allah is the one who created you from weakness, then made after weakness strength, then made after strength weakness and white hair. He creates what He wills, and He is the Knowing, the Competent.

اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی ، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Different Stages of Man Allah says: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ... Allah is He Who created you in weakness, then gave you strength after weakness, Here Allah points out how man passes through different stages of creation, one phase after another. He is originally created from dust, then from a Nutfah, then from a clot, then from a lump of flesh. Then he becomes bones, then the bones are clothed with flesh, then the soul is breathed into him. Then he emerges from his mother's womb, weak and thin and powerless. Then he grows up little by little, until he becomes a child, then he reaches the stage of puberty, then he becomes a young man, which is strength after weakness. Then he starts to get older, reaching middle age, then old age and senility, weakness after strength, so he loses his resolve, power of movement and ability to fight, his hair turns grey and his characteristics, both inward and outward, begin to change. Allah says: ... ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاء ... then after strength gave (you) weakness and grey hair. He creates what He wills. He does whatsoever He wills and controls His servants in whatever way He wants. ... وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ And He is the All-Knowing, the All-Powerful.

پیدائش انسان کی مرحلہ وار روداد انسان کی ترقی وتنزل اس کی اصل تو مٹی سے ہے ۔ پھر نطفے سے پھرخون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف ونحیف ہو کر نکلتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہوجاتی ہے ۔ اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے پھر بڈھا ہوتا پھونس ہوجاتا ہے طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے ۔ کہ ہمت پست ہے ، دیکھنا سننا چلنا پھرنا اٹھنا اچکنا پکڑنا غرض ہرطاقت گھٹ جاتی ہے ۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہے ۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں ۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہوجاتے ہیں ۔ یہ قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا ۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنی کرشمے ہیں ۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک وہ عالم وقادر نہ اس کا سا کسی کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت ۔ حضرت عطیہ عوفی کہتے ہیں میں نے اس آیت کو ضعفا تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پڑھا تو آپ نے بھی اسے تلاوت کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو اتناہی پڑھا تھا جو آپ پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کردی ( ابوداؤد ترمذی مسند احمد )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔ 542یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔543کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہوجاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہوجاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انھیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سے گزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ 543انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی وہ تدریجی حالتیں بیان فرمائی ہیں جن میں مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالتوں میں خود کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جاندرا کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوگا۔ ہر جاندار کا بچہ پیدا ہوتے ہیں چلنے پھرنے لگتا ہے مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے۔ پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے فوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر انحطاط کا دور آتا ہے۔ قوتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ اعضا مضحمل ہونے لگتے ہیں۔ کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں اسے آگھیرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی زائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب ایسے مدارج زندگی ہیں۔ جن سے انسان کو نہ کوئی مضر ہے اور نہ ان میں تبدیلی لاسکتا ہے وہ لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد پھر اس پر جوانی کا دور آئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ اسے ان مراحل سے گزارتا ہے۔ اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔ [ ٦٠] مندرجہ بالا مراحل ایسے تھے جو طبیعی تقاضے تھے جو سب کے لئے یکساں ہیں پھر کچھ ایسے امور ہیں جن میں اللہ تعالیٰ خاص انسانوں کو خاص صفات سے نوازتا ہے وہ چاہے تو کسی کو کمزور الخلقت پیدا کردے اور اس کے اعضا کو نشوونما کی رفتار بہت کم رہ جائے۔ چاہے تو کسی کو بونا بنادے۔ کسی کو مادر زادہ اندھا پیدا کر دے کسی کو بلا کا عقل و فہم عطا کردے۔ اور اسے ذہین و فطین بنا دے اور چاہے تو کسی کو بلیدالذہن پیدا کردے پھر چاہے تو کسی پر جوانی اور بڑھاپے کے مراحل آنے ہی نہ دے اور بچپن میں ہی اسے موت سے دوچار کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بوڑھا کو سٹ بستر مرگ پر سال ہا سال ایڑیاں رگڑتا رہے مگر اسے موت نہ آئے۔ اور چاہے تو کسی کو لمبی عمر بھی عطا کرے اور تندرست و صحت یاب بھی رکھے۔ یہ سب امور اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور انسان کا ان میں کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس شخص کو کس حال میں رکھنا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ۔۔ : مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں : ” انسان کا اصل تو مٹی سے ہے، پھر نطفے سے، پھر جمے ہوئے خون کے ٹکڑے سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے، پھر روح پھونکی جاتی ہے، پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف و نحیف ہو کر نکلتا ہے، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے، پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے، پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، آخر نشو و نما موقوف ہوجاتی ہے۔ اب قویٰ پھر مضمحل ہونا شروع ہوتے ہیں، طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں، ادھیڑ عمر کو پہنچتا ہے، پھر بوڑھا ہوجاتا ہے۔ طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے کہ ہمت پست ہے۔ دیکھنا، سننا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، اچکنا، پکڑنا غرض ہر طاقت گھٹ جاتی ہے، رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہیں، بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں، رخسار پچک جاتے ہیں، دانت ٹوٹ جاتے ہیں اور بال سفید ہوجاتے ہیں، یہ ہے قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنیٰ کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام، وہ سب کا مالک۔ وہ عالم و قادر، نہ اس کا سا کسی کا علم، نہ اس جیسی کسی کی قدرت۔ “ (ابن کثیر) 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد فرمایا ہے کہ جو اللہ انسان کو عدم سے نکال کر وجود میں لاسکتا ہے، پھر ضعف کی حالت سے بڑھا کر قوت اور جوانی تک پہنچاتا ہے، پھر قوت و جوانی سے ضعف اور بڑھاپے کی طرف لا کر موت تک پہنچا دیتا ہے، اس کے لیے اسے دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں، خصوصاً جب وہ علیم بھی ہے، اسے کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کے ہر ذرّے کا علم ہے کہ کہاں ہے اور قدیر بھی ہے کہ اس کا وجود و عدم دونوں اس کی قدرت کا نتیجہ ہیں۔ وہ جب چاہے مردہ اجزا کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ : یعنی ضعف سے قوت کی طرف اور قوت سے ضعف اور بڑھاپے کی طرف انسان کا یہ سفر اندھے اور بےشعور مادے کے خود بخود ہونے والے تغیر ات نہیں، بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، کسی کو جنین ہی کی حالت میں ختم کردیتا ہے، کسی کو پیدا ہوتے ہی، کسی کو بچپن میں بلا لیتا ہے، کسی کو جوانی تک پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے بڑھاپے تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کی مشیّت، کمال علم اور کمال قدرت کے مطابق ہوتا ہے۔ 3 ابن عاشور فرماتے ہیں : ” لفظ ” ضعف “ آیت میں ضاد کے ضمّہ کے ساتھ ہے اور یہ زیادہ فصیح اور لغت قریش ہے اور اس کے ضاد پر فتحہ بھی جائز ہے اور یہ لغت تمیم ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ” میں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ” الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ “ (یعنی ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ” مِنْ ضُعْفٍ “ (یعنی ضاد کے ضمہ کے ساتھ) پڑھایا۔ “ [ ترمذي، القرائات، باب ومن سورة الروم : ٢٩٣٦، وقال الألباني حسن۔ أبو داوٗد، الحروف و القراء ات، باب : ٣٩٧٨ ] جمہور نے تینوں جگہ ” ضعفا “ کا لفظ ضاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور عاصم اور حمزہ نے اسے ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یقیناً ان کے پاس اس کا ثبوت ہے جو ابن عمر (رض) کی روایت کے خلاف ہے۔ اس قراءت اور ابن عمر (رض) کی حدیث کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ضاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا، کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کی لغت ہے اور جو دوسرے قبیلے کی لغت میں پڑھے اس کے لیے فتحہ کے ساتھ پڑھنے کی رخصت ہے اور جس کی کوئی خاص لغت نہ ہو اسے دونوں طرح پڑھنے کا اختیار ہے۔ “ (التحریر والتنویر) یاد رہے کہ اگرچہ عاصم کی قراءت ضاد کے فتحہ کے ساتھ ہے مگر ان کے ایک راوی حفص نے (جن کی روایت ہمارے ہاں رائج ہے) ابن عمر (رض) کی حدیث کی وجہ سے اس کے ضاد کے ضمہ کو ترجیح دی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Greater part of this Surah aims at removing the doubts of the deniers of the Hereafter. For meeting this end, many verses deal with the signs of Allah&s omnipotence and His all-encompassing wisdom in order to awake people from their slumber. The first of the above-referred verses deals with the same subject in a different manner. It is pointed out that man is impetuous by nature, in the sense that he gets involved in the present so much that he forgets the past and the future. This habit leads him to many a serious problems. When he is young, his strength is at its peak, and he does not care about anyone in his over-weaning pride. He finds it difficult to remain within limits. In order to warn people, this verse has given a complete picture of the strength and weakness in human life as they come and go by. It is pointed out in the verse that the man starts his life in a state of weakness and ends it with a similar weakness. It is only in the middle of his life that he gains strength for a short period. It is in his own interest that he should keep in mind the impending weakness while he is still strong, and does not forget how he achieved strength gradually from the state of weakness. The man is reminded of his real self in خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ (Who created you in a state of weakness - 30:54). It means that his original base is a dirty drop of semen that has neither strength, nor sense or life. So ponder, who has turned this sickening drop into congealed blood, then into flesh and then transfixed bones into the flesh? After that, who has produced delicate machines of the limbs and organs to turn him into a mobile factory, which is supported by innumerous automatic machines. If one is to look more closely into this factory, one would notice that it is a mini-world of its own in which innumerable models of His creation are set in. The creation and bringing up of man is not brought about in a giant factory but in three dark stages in the womb of his mother. After spending nine months in the womb of mother, man ultimately takes birth to come out into this world. The Holy Qur&an says, ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَ‌هُ (Then Allah facilitated exit [ from the womb ] for him - 80:20). When he came into this world, his condition was that وَاللَّـهُ أَخْرَ‌جَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ (And Allah has brought you forth from your mothers& wombs when you knew nothing - 16:78). Then Allah made you learn so many things. The first lesson was to teach you crying, so that you could attract the attention of your parents towards you, and they should look for your needs of thirst and hunger. Then you were taught the skill to suck milk by pressing your lips and gums from your mother&s breasts for your sustenance. Who else had the power to teach these two skills to an infant having no intelligence, to meet all his needs? Indeed no one else but the Power who is responsible for his creation. The infants are weak at that stage of their life. Minor exposure to cold or heat makes them sick. They can neither ask for their needs, nor can they remove any of their miseries. Right from this stage until they attain their youth, one can see in them a gradual development of life and strength - a process only Allah Ta’ ala can create and control and a clear manifestation of His omnipotence, if people could only contemplate. ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ (Then He created strength after weakness - 30:54). When man reaches the stage of his strength, he gets involved in showing off his powers and intelligence. He flies to reach the moon and Mars, and tries to overpower the earth and oceans. He forgets all about his past and becomes oblivious of his future, and cries out مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (Who is stronger than us in might? - 41:15); so much so that in this state of intoxication, he even forgets his Creator and His commands. So the Nature has warned to make him realize his folly ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً (Then created weakness and old age - 30:54). 0 remiss! Be mindful of the fact that your present strength is temporary and you have to return to the same old weakness, and it will take you gradually to your grey hair. Then all your limbs and organs will change their shape and form. You need not go through any books and the history of the world, but look into your own concealed self, and you will be left with no other option but to accept and believe that يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ‌ (He creates what He wills, and He is the All-Knowing, the All-Powerful - 30:54). All this control and running of affairs are by the One who creates them. He does as He pleases, and in a manner as it pleases Him. He has no parallel in knowledge and power. Knowing all this, is there any room for doubt that He can resurrect the dead whenever He likes?

خلاصہ تفسیر اللہ ایسا ہے جس نے تم کو ناتوانی کی حالت میں بنایا (مراد اس سے ابتدائی حالت بچپن کی ہے) پھر (اس) ناتوانی کے بعد توانائی (یعنی جوانی) عطا کی پھر (اس) توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا کیا (اور) وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ (ہر تصرف کو) جاننے والا (اور اس تصرف کے نافذ کرنے پر) قدرت رکھنے والا ہے (پس جو ایسا قادر ہو اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ یہ تو بیان تھا بعث کے امکان کا) اور (آگے اس کے وقوع کا بیان ہے یعنی) جس روز قیامت ہوگی مجرم (یعنی کافر) لوگ (وہاں کی ہول وہیبت و پریشانی کو دیکھ کر قیامت کی آمد کو غایت درجہ ناگوار سمجھ کر) قسم کھا بیٹھیں گے کہ (قیامت بہت جلدی آگئی اور) وہ لوگ (یعنی ہم لوگ عالم برزخ میں) ایک ساعت سے زیادہ نہیں رہے (یعنی جو میعاد قیامت کے آنے کی مقرر تھی وہ بھی پوری نہ ہونے پائی کہ قیامت آپہنچی جیسا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اگر پھانسی والے کی میعاد ایک ماہ مقرر کی جائے تو جب مہینہ گذر چکے گا تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا مہینہ نہیں گذرا اور مصیبت جلدی آگئی، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اسی طرح یہ لوگ (دنیا میں) الٹے چلا کرتے تھے (یعنی جس طرح یہاں آخرت میں قیامت کے قبل از وقت آجانے پر قسمیں کھانے لگے، اسی طرح دنیا میں قیامت کے وجود ہی کے منکر تھے اور نہ آنے پر قسمیں کھایا کرتے تھے) اور جن لوگوں کو ایمان اور علم عطا ہوا ہے (مراد اہل ایمان ہیں کہ اخبار شرعیہ کا علم ان کو حاصل ہے) وہ (ان مجرمین کے جواب میں) کہیں گے کہ ( تم برزخ میں میعاد سے کم تو نہیں رہے، تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے بلکہ) تم تو (میعاد) نوشتہ خداوندی کے موافق قیامت کے دن تک رہے، سو قیامت کا دن یہی ہے، (جو میعاد مقرر تھی برزخ میں رہنے کی) و لیکن (وجہ اس بات کی کہ قیامت کو میعاد سے پہلے آیا ہوا سمجھتے ہو یہ ہے کہ) تم (دنیا میں قیامت کے وقوع کا) یقین (اور اعتقاد) نہ کرتے تھے (بلکہ تکذیب و انکار کیا کرتے تھے اس انکار کے وبال میں آج پریشانی کا سامنا ہوا اس وجہ سے گھبرا کر یہ خیال ہوا کہ ابھی تو میعاد پوری بھی نہیں ہوئی اور اگر تصدیق کرتے اور ایمان لے آتے تو اس کے وقوع کو جلدی نہ سمجھتے بلکہ یوں چاہتے کہ اس سے بھی جلدی آجائے کیونکہ انسان جب اس سے کسی راحت و آرام کا وعدہ ہو تو طبعی طور پر اس کا جلدی آنا چاہتا ہے اور انتظار شاق اور اس کی مدت طویل معلوم ہوا کرتی ہے۔ جیسا حدیث میں بھی ہے کہ کافر قبر میں کہتا ہے رب لاتفم الساعة اور مومن کہتا ہے رب لا تقسم الساعة اور مومن کہتا ہے رب اقم الساعۃ، اور مومنین کے اس جواب سے بھی جو یہاں مذکور ہے کہ مقام برزخ کو انہوں نے بہت سمجھا ہے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ مشتاق تھے، اس لئے چاہتے تھے کہ جلد آجائے) غرض اس روز ظالموں (یعنی کافروں کی پریشانی اور مصیبت کی یہ کیفیت ہوگی کہ ان) کو ان کا (کسی قسم کا جھوٹا سچا) عذر کرنا نفع نہ دے گا اور نہ ان سے خدا کی خفگی کا تدارک چاہا جائے گا (یعنی اس کا موقع نہ دیا جائے گا کہ توبہ کرے کے خدا کو راضی کرلیں) اور ہم نے لوگوں (کی ہدایت) کے واسطے اس قرآن (کے مجموعہ یا اس کے اس خاص جزو یعنی اس سورة) میں ہر طرح کے عمدہ ( اور عجیب) مضامین (ضروریہ) بیان کئے ہیں (جو اپنی بلاغت اور کمال کی وجہ سے مقتضی اس کو ہیں کہ ان کافروں کو ہدایت ہوجاتی، مگر ان لوگوں نے غایت عناد سے اس کو قبول نہ کیا اور اس سے منتفع نہ ہوئے) اور (قرآن کی کیا تخصیص ہے ان لوگوں کا عناد اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ) اگر (قرآن کے علاوہ ان معجزات سے جن کی یہ خود فرمائش کیا کرتے ہیں) آپ ان کے پاس کوئی نشان لے آئیں تب بھی یہ لوگ جو کہ کافر ہیں یہی کہیں گے کہ تم سب (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین جو آیات تشریعیہ و تکوینیہ کی تصدیق کرتے ہیں) نرے اہل باطل ہو (پیغمبر کو سحر کی تہمت لگا کر صاحب باطل کہیں اور مسلمانوں کو سحر کی تصدیق کرنے سے اہل باطل کہیں اور ان لوگوں کے اس عناد کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ) جو لوگ (باوجود مکرر نشانیاں اور دلائل حق ظاہر ہونے کے) یقین نہیں کرتے (اور نہ اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر یوں ہی مہر کردیا کرتا ہے (جیسا کہ ان کے دلوں پر ہو رہی ہے، یعنی روزانہ استعداد قبول حق کی مضمحل و ضعیف ہوتی جاتی ہے، اس لئے انقیاد میں ضعف اور عناد میں قوت بڑھتی جاتی ہے) سو (جب یہ ایسے معاندین ہیں تو ان کی مخالفت اور ایذا رسانی اور بدکلامی وغیرہ پر آپ صبر کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ (کہ آخر میں یہ ناکام اور اہل حق کامیاب ہوں گے) سچا ہے (وہ وعدہ ضرور واقع ہوگا پس صبر و تحمل تھوڑے ہی دن کرنا پڑتا ہے) اور یہ بدیقین لوگ آپ کو بےبرداشت نہ کرنے پائیں (یعنی ان کی طرف سے خواہ کیسی ہی بات پیش آئے مگر ایسا نہ ہو کہ آپ برداشت نہ کریں۔ معارف و مسائل اس سورت کا بڑا حصہ منکرین قیامت کے شبہات کے ازالہ سے متعلق ہے جس کے لئے حق تعال کی قدرت مطلقہ کاملہ اور حکمت بالغہ کی بہت سی آیات اور نشانیاں دکھلا کر غافل انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ مذکور الصد پہلی آیت میں ایک نئے انداز سے اسی مضمون کا اثبات ہے وہ یہ کہ انسان اپنی طبیعت سے جلد باز واقع ہوا ہے اور سامنے کی چیزوں میں لگ کر ماضی و مستقبل کو بھلا دینے کا عادی ہے اور اس کی یہی عادت اس کو بہت سی مہلک غلطیوں میں مبتلا کرتی ہے۔ جس وقت انسان جوان ہوتا ہے اس کی قوت اپنے شباب پر ہوتی ہے، یہ اپنی قوت کے نشہ میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتا، حدود پر قائم رہنا اس کو دو بھر معلوم ہوتا ہے۔ اس کو متنبہ کرنے کے لئے اس آیت میں قوت و ضعف کے اعتبار سے انسانی وجود کا ایک مکمل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں دکھلایا ہے کہ انسان کی ابتداء بھی کمزور ہے اور انتہا بھی درمیان میں بہت تھوڑے دنوں کے لئے اس کو ایک قوت ملتی ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس چند روزہ قوت کے زمانہ میں اپنی پہلی کمزوری اور آنے والی کمزوری سے کبھی غافل نہ ہو، بلک اپنی اس کمزوری کے مختلف درجات کو ہمیشہ سامنے رکھے۔ جن سے گذر کر یہ قوت و شباب تک پہنچا ہے۔ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ میں انسان کو یہی سبق دیا گیا کہ اپنی اصل بنیاد کو دیکھ کس قدر ضعیف بلکہ عین ضعف ہے کہ ایک قطرہ بےجان، بےشعور، ناپاک، گھناؤنی چیز ہے۔ اس میں غور کر کہ کس کی قدرت و حکمت نے اس گھناؤنے قطرہ کو ایک خون منجمد کی صورت میں پھر خون کو گوشت کی صورت میں پھر اس گوشت کے اندر ہڈیاں پیوست کرنے میں تبدیلیاں کیں۔ پھر اس کے اعضاء وجوارح کی نازک نازک مشینیں بنائیں کہ یہ ایک چھوٹا سا وجود ایک چلتی پھتری فیکٹری بن گیا، جس میں سینکڑوں عجیب و غریب خود کار مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ اور زیادہ غور سے کام لو تو ایک فیکٹری نہیں بلکہ ایک عالم اصغر ہے کہ پورے جہان کے نمونے اس کے وجود میں شامل ہیں۔ اس کی تخلیق وتکوین بھی کسی بڑے ورکشاپ میں نہیں، بلکہ بطن مادر کی تین اندھیریوں میں ہوئی اور نو مہینے اسی تنگ و تاریک جگہ میں بطن مادر کے خون اور آلائشوں سے غذا پاتے ہوئے حضرت انسان کا وجود تیار ہوا۔ ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظہور کے لئے راستہ آسان فرما دیا اس عالم میں آئے تو ان کی شان یہ تھی کہ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا، یعنی تمہیں شکم مادر سے اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، اب قدرت نے تعلیم و تلقین کا سلسلہ شروع کیا، سب سے پہلا ہنر رونے کا سکھلایا جس سے ماں باپ متوجہ ہو کر اس کی بھوک پیاس اور ہر تکلیف کو دور کرنے پر لگ جائیں۔ پھر ہونٹوں، مسوڑوں کو دبا کر ماں کی چھاتیوں سے دودھ نکالنے کا ہنر سکھلایا جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرے۔ کس کی مجال تھی جو اس لایعقل بچے کو یہ دونوں ہنر سکھا دے جو اس کی موجودہ ساری ضرورتوں کی کفالت کرتے ہیں، بجز اس قدرت کے جو اس کی تخلیق کی مالک ہے اب ضعیف بچہ ہے ذرا ہوا لگ جائے تو پژمردہ ہوجائے، ذرا سردی یا گرمی لگ جائے تو بیمار ہوجائے نہ اپنی کسی ضرورت کو مانگ سکتا ہے نہ کسی تکلیف کو دور کرسکتا ہے۔ یہاں سے چلئے اور جوانی کے عالم تک اس کی تدریجی منازل تک غور کرتے جایئے تو قدرت حق جل شانہ کا ایسا عظیم شاہکار سامنے آئے گا کہ عقل حیران رہ جائے گی۔ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ، اب یہ قوت کی منزل میں پہنچے تو زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے، چاند اور مریخ پر کمند پھینکنے لگے، بحر و بر پر اپنے قبضے جمانے لگے، اپنے ماضی و مستقبل سے غافل ہو کر مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (ہم سے زیادہ کون قوی ہوسکتا ہے) کے نعرے لگانے لگے۔ یہاں تک کہ اسی قوت کے نشہ میں اپنے پیدا کرنے والے کو بھی بھول گئے اور اس کے احکام کی پیروی کو بھی مگر قدرت نے اس کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا : ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً کہ غافل ! خوب سمجھ لے کہ یہ قوت تیری چند روزہ ہے۔ پھر اسی ضعف کے عالم کی طرف لوٹنا ہے اور اسی تدریج سے ضعف بڑھنا شروع ہوگا جس کا اثر ایک وقت کے بعد شیبہ بالوں کی سفیدی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور پھر سب ہی اعضا وجوارح کی شکل و صورت میں تبدیلیاں لائے گا۔ دنیا کی تاریخ اور دوسری کتابیں نہیں خود اپنے وجود میں لکھی ہوئی اس مخفی تحریر کو پڑھ لو تو اس یقین کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ کہ یہ سب کار سازی اس رب العزت کی ہے جو پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جس طرح چاہتا ہے اور علم میں بھی سب سے بڑا ہے اور قدرت میں بھی کیا اس کے بعد بھی اس میں کچھ شبہ کی گنجائش رہ گئی، کہ وہ جب چاہے مردوں کو دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 9 اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُؔعْفًا وَّشَيْبَۃً۝ ٠ ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۚ وَہُوَالْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ۝ ٥٤ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ شيب الشَّيْبُ والْمَشِيبُ : بياض الشّعر . قال تعالی: وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وباتت المرأة بلیلة شَيْبَاءَ : إذا افتضّت، وبلیلة حرّة «2» :إذا لم تفتضّ. ( ش ی ب ) الشیب والمشیب بڑھاپا بالوں کی سفیدی ۔ قران میں ہے : ۔ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور بڑھاپے سے سر شعلہ مارنے لگا ۔ عورت نے شب زفاف گزاری یعنی جس میں اسکی بکارت زائل کی گئی ہو اس کے بر عکس باتت المرءۃ بلیلۃ حرۃ وہ رات جس میں اس کی بکارت زائل نہ کی گئی ہو ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ ایسا ہے جس نے تمہیں ایک کمزور نطفہ سے بنایا پھر اس کمزوری کے بعد طاقت عطا کر کے ایک نوجوان طاقتور انسان بنا دیا اور پھر اس توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا طاری کیا۔ اور وہ ان تمام امور کو جاننے والا اور ان اختیارات کے نافذ کرنے پر قادر ہے وہ اپنی مخلوق کو جس طرح چاہتا ہے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلتا رہتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ) ” یعنی انسان کا بچہ اپنی پیدائش کے وقت بہت کمزور ہوتا ہے۔ (ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ) ” پھر اللہ کی قدرت اور مشیت سے وہی ناتواں بچہ بڑا ہو کر کڑیل جوان بن جاتا ہے۔ (ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً ط) ” پھر رفتہ رفتہ انسان کی تمام صلاحیتیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں اور بڑھاپے میں ایک دفعہ پھر انسان کمزوری اور بےبسی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

79 That is, "The states of childhood and youth and old age have all been created by Him. It is dependent upon His will that He may create whomever He pleases weak and whomever He pleases strong; He may give death to whomever He pleases before attaining manhood and whomever He pleases in the prime of youth; He may grant a long life and yet keep in sound health whomever He pleases and bring to a wretched, agonising old age after a brimful youth whomever He likes. Man may live in self-conceit and arrogance if he so likes, but he is so helpless in God's powerful grip that he cannot change by any artifice the state that He may place him in.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 79 یعنی بچپن ، جوانی اور بڑھاپا ، یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ یہ اسی کی مشیت پر موقوف ہے کہ جسے چاہے کمزور پیدا کرے اور جس کو چاہے طاقت ور بنائے ، جسے چاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنے دے اور جس کو چاہے جوانا مرگ کردے ، جسے چاہے لمبی عمر دے کر بھی تندرست و توانا رکھے اور جس کو چاہے شاندار جوانی کے بعد بڑھاپے میں اس طرح ایڑیاں رگڑوائے کہ دنیا اسے دیکھ کر عبرت کرنے لگے ۔ انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتا رہے مگر خدا کے قبضہ قدرت میں وہ اس طرح بے بس ہے کہ جو حالت بھی خدا اس پر طاری کردے اسے وہ اپنی کسی تدبیر سے نہیں بدل سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے حالات میں جو تغیر تبدل اول سے بڑھاپے تک ہے وہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اول مٹی سے پھر پانی جیسی پیلح چیز کی بوند سے پھر جمے خون سے پھر بوٹی سے انسان کو پیدا کیا اس کے بعد پھر ہڈیاں پھر ان پر گوشت چڑھایا اور پھر ماں اور روح پھونکنے، پھر ماں کے پیٹ سے بچہ کمزور پیدا ہو کر پھر رفتہ رفتہ کچھ کچھ زور پکڑتا گیا غرضیکہ جوانی تک کم زور بچہ کہلاتا ہے پھر بلوغ کے قریب ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہے یہ نہایت قوت کا زمانہ ہے اس کے بعد پھر نقصان کا زمانہ شروع ہوتا ہے طاقت کم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ نہایت بڈھا ہوجاتا ہے اور یہ قوت کی کمزوری کا زمانہ ہے جس میں بال سفید ہوجاتے ہیں ہمت پست ہوجاتی ہے غرض اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اپنے بندوں میں اپنی قدرت کے موافق تصرف کرتا ہے اور وہ کمال علم اور قدرت والا ہے سب کچھ جانتا ہے اور کرسکتا ہے ترمذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی مٹی تمام زمین سے لی تھی اسی تاثیر سے مختلف رنگ اور مختلف مزاج کے لگ اولاد آدم میں قیامت تک پیدا ہوں گے حاصل یہ ہے کہ اب ظاہر میں اگرچہ آدمی کی پیدائش نطفہ سے ہے لیکن اس میں مٹی کا اثر بھی چلا آتا ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت بھی گزر چکی ہے کہ نطفہ چالیس روز تک عورت کے رحم میں رہ کر جما ہوا خوان ہوجاتا ہے پھر اس خون کا گوشت بن جاتا ہے ان حدیثوں سے انسان کی نطفہ چالیس روز تک عورت کے رحم میں رہ کر جما ہوا خون و جاتا ہے پھر اس خون کا گوشت بن جاتا ہے ان حدیثوں سے انسان کی پیدائش کی ابتدا اور اس میں اللہ تعالیٰ کے قدرت کی جو نشانی ہے اس کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے اس بات کی زیادہ تفصیل قدافلحی میں گزر چکی ہے حاصل کلام یہ ہے کے اس قسم کی آیتوں سے منکرین حشر کو قائل کیا گیا ہے کہ جس صاحب قدرت نے انسان کو اس طرح کی عقل کی رسائی سے باہر طریقہ سے پیدا کیا ہے اس کی قدرت کے آگے آدم (علیہ السلام) کی طرح ان منکرین حشر کے مٹی کے پتلے بنا کر ان میں روحیں پھونک دینا کچھ مشکل نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:54) ضعف اصل میں ضعیف ہے مصدر کو مبالغہ کے لئے صفت کے لئے استعمال کیا ہے یا اس سے مراد من ذی ضعف ہے یعنی نطفہ۔ جسے دوسری جگہ ماء مہین (بہت حقیر) کہا گیا ہے۔ من بعد ضعف قوۃ۔ (عطا کی) کمزوری کے بعد طاقت (جوابی) اور من بعد قوۃ ضعفا وشیبۃ اور قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا (جوانی کے بعد الخطاط اور پھر بڑھاپا) شیبۃ بڑھاپا۔ بالوں کا سفید ہونا۔ اشیب بوڑھا آدمی اس کی جمع شیب جیسے ابیض کی جمع بیض ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ یجعل الولدان شیبا (73:17) (جو) بچوں کو بوڑھا بنا دیگا۔ شیب مادہ۔ القدیر۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ قدیر وہ ہے جو اقتضائے حکمت کے موافق جو چاہے کرے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے۔ البتہ قادر عام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی انسان پر قوت و ضعف کے یہ ادوار واطوار طبعی نہیں ہیں بلکہ یہ سب حالتیں اللہ علیم و قدیر کی پیدا کی ہوئی ہیں اور انسان پر ان حالتوں کا وار ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اوپر دلائل آفاق کا ذکر تھا۔ اب یہاں دلائل انفس کی طرف اشارہ فرما دیا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 54 تا 60 اسرارومعارف اللہ ہی عظیم ذات ہے جو انسان کو بہت کمزار اور ناتوں پیدا فرماتا ہے زرا اپنی تخلیق پر غور کرو کیسے چھوٹے سے جرثومے سے تمہیں انسانی قالب عطا کیا اس کی یہ ساری صنعت اس کی عظمت پہ گواہ ہے پھر ننھے منے بچے کو بتدریج جوان بنا دیتا ہے طاقتور اور شاہ زور۔ دانشور حاکم عالم اور پھر ایک ایک کر کے اس کے قوی ڈھلنے لگتے ہیں اور پھر ایک کمزور سفید بالوں والا بوڑھا بن جاتا ہے اور اس سارے نظام میں کسی کا کوئی بس نہیں چلتا۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو نظام اس نے ترتیب دے دیا ہے وہی چلتا ہے اور وہ خود اس سارے نظام کو خوب جانتا ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے بلکہ ان کا شعور تو ایسا مسخ ہوا ہے کہ آخرت میں بھی اسے سمجھ نہ آسکے گی اور جب قیامت قائم ہوجائے گی اٹھ کھڑے ہوں گے اور کہیں گے ابھی تو ہم مرے تھے کہ فورا کھڑا کردیا گیا اور اس بات پر قسمیں کھائیں گے کہ ہم تو برزخ میں بس گھڑی بھر کو ٹھرے دنیا میں بھی ایسی ہی الٹی ہانکا کرتے تھے مگر جنہیں دنیا میں علم نصیب ہوا جس کی بنیاد ایمان ہے وہ انہیں کہیں گے کہ تم وہ پورا عرصہ ٹھہرے رہے جو اللہ نے لوح محفوظ میں قیامت کے قائم ہونے کا مقرر فرمایا تھا اور قیامت اپنے درست وقت پر قائم ہوئی ہے۔ یہی اس کا درست وقت تھا مگر تمہاری جہالت نے تمہیں سمجھنے سے محروم کر رکھا ہے۔ قیامت کے روز کفار کی کوئی معذرت قبول نہ کی جائے گی اور نہ ہی انہیں معذرت کرنے کا موقع دیا جائے گا بلکہ توبہ اور قبول ایمان کا وقت تو آج دنیا میں ہے جہاں لوگوں کے لیے اس قرآن کریم میں ہر طرھ کی مثالیں بیان کردی گئی ہیں۔ اس کے باوجود یہ مختلف معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر انہیں وہ معجزات دکھا بھی دیے جائیں اور آپ ان کی مطلوبہ بات پوری بھی کردیں تو یہ کہ دیں گے کہ آپ نے درست نہیں فرمایا بلکہ ہمیں دھوکہ دیا جارہا ہے اس لیے کہ یہ ان کی جہالت اور کفر کی سزا ہے کہ اللہ نے ان کے دلون پر مہر کردی ہے لہذا آپ صبر کیجیے ان کی ایذا پر بھی اور اللہ کی اطاعت پر بھی کہ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اے مخاطب کبھی بھی کفار کی ایذا یا دنیا کا کوئی لالچ تیرے پائے ثبات کو ڈگمگا نہ سکے۔ الحمدللہ سورة روم تمام ہوئی

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد اس سے ابتدائی حالت بچپن کی ہے۔ 2۔ یعنی جوانی عطا کی۔ 3۔ پس جو ایسا قادر ہو اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو ” رب “ بارش برستا اور ہوائیں چلاتا ہے اس کی مزید صفات ملاحظہ فرمائیں۔ ” اللہ “ ہی وہ ذات ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد قوت عطا فرمائی۔ قوت دینے کے بعد پھر وہ تمہیں کمزوری اور بڑھاپے میں مبتلا کردیتا ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ ہر بات کا علم رکھنے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے تین مرحلوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو پیدائش کے وقت انتہائی کمزور پیدا کرتا ہے۔ انسان اعضاء کے اعتبار سے اس قدر چھوٹا اور کمزور ہوتا ہے کہ وہ نہ چل سکتا ہے نہ اپنے آپ بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی چیز اپنے ہاتھ سے کھا، پی سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ابتدائی ایّام میں وہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے اس کی مامتا کے ذریعے کھلاتا پلاتا ہے۔ پھر انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ جب یہ اپنی قدوقامت، جسمانی قوت اور فکری صلاحیت کے اعتبار سے عالم شباب کو پہنچ جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسی انسان کی آہستہ آہستہ قوت سلب کرکے اسے بڑھاپے میں مبتلا کردیتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں اس فرمان میں انسان کو اس کے تخلیقی مراحل یاد کروائے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اسی کے سامنے سرفگندہ رہنے کی کوشش کرے۔ اور اسی کا قانون تسلیم کرے اور ہر وقت اس کا ذہن رہے کہ میں جو کچھ بھی ہوں اور جو کر رہا ہوں وہ سب کا سب میرے رب کا عطا کردہ ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے اور وہ ہر چیز پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ جس طرح میری زندگی کے مختلف مراحل اس کے قبضے میں ہیں اسی طرح ہی وہ میری نافرمانی پر مجھے پکڑنے پر قادر ہے۔ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلاَلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَءْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ) [ المؤمنوں : ١٢ تا ١٤] ” یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ ٹھہرایا۔ پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنایا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کے ٹکڑے میں تبدیل کیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنایا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا۔ پھر ایک شکل و صورت میں اسے پیدا کیا۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرتا پھر جوان کرتا اور اس کے بعد ضعیف اور بوڑھا کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانی زندگی کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان پیدا کیا۔ (الحج : ٥) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا اور کچھ تم میں بڑھاپے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں اور کچھ اپنی عمر کو پہنچ جاتے ہیں کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے۔ (المومن : ٦٧) ١٠۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ الذی خلقکم ۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرتھم ولا ھم یستعتبون (54 – 57 یہ ایک بہت ہی طویل مطالعاتی سفر ہے۔ اس کا آغاز تو انسانی زندگی کے آغاز سے ہوتا ہے اور یہ ہمارے سامنے ہے اور آئے دن کا مشاہدہ ہے۔ اس کا آخری حصہ نہایت ہی اگرچہ مشہور نہیں ہے لیکن قرآن کی تصویر کشی ایسے الفاظ میں کرتا ہے کہ گویا وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ یہ ایک ایسا مطالعاتی سفر ہے کہ چشم بینا رکھنے والوں کے لیے اور کھلے کان رکھنے والوں کے لئے اور کان لگا کر سننے والوں کے لیے اس میں سامان عبرت ہے۔ اللہ الذی خلقکم من ضعف (30: 54) ” اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی “۔ یہ کہا کہ تمہیں ضعف سے پیدا کیا۔ یہ نہ کہا کہ تمہیں ضعیف پیدا کیا۔ گویا ان کی حیات کے آغاز کا عنصر ہی ضعیفی ہے اور یہاں جس ضعف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے کئی مفہوم اور مظاہر ہیں اور یہ مظاہر انسان کے اندر قابل مشاہدہ ہیں اور مزید مشاہدات ہوتے جاتے ہیں۔ وہ چھوٹا سا خلیہ جس سے جنین بنتا ہے جو بہت ہی خوردبینی اور چھوٹا سا ہے اور ضعیف ہے۔ پھر جنین اور اس کے تمام مدارج حالت ضعف ہیں۔ پھر زمانہ طفولیت سب کا سب حالت ضعف ہے ، اس وقت تک جب انسان مکمل نوجوان ہوجاتا ہے۔ پھر وہ مادہ جس سے انسان بنتا ہے ، ضعیف ہے مٹی۔ اگر اس میں نفخ زبانی نہ ہوتی تو یہ مٹی ہی ہوتی یا نباتات ہوتے یا حیوانات ہوتے۔ جو انسان کے مقابلے میں سب حالات ضعف ہیں۔ پھر انسان اپنی خواہشات کے سامنے کمزور ہے۔ امتحانات ، میلانات سے اسے مجبور کردیتے ہیں ، اگر اللہ کی جانب سے نفخ روح نہ ہوتا تو انسان اس احسن تقدیم میں نہ ہوتا۔ اس کے اندر یہ صلاحیتیں نہ ہوتیں اور یہ بھی دوسرے حیوانات کی طرح ایک ضعیف اور لاچار حیوان ہوتا۔ ثم جعل من بعد ضعف قوۃ (30: 54) ” پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی “۔ ایسی قوت اور ان معنوں میں قوت جن معنوں میں ضعف بیان ہوا۔ جسمانی قوت ، انسانی ساخت میں قوت ، انسان کی نفسیاتی اور روحانی قوت اور انسان کی فکری اور عقلی قوت۔ ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ضعفا وشیبۃ (30: 54) ” پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کردیا “۔ انسانی جسم ڈھیلا پڑگیا ، بڑھاپا دراصل انسان کی تمام قوتوں کے اندر طفولیت کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے اندر نفسیاتی گراوٹ بھی آجاتی ہے اور انسان ضعیف الارادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک بوڑھا اس طرح لایعنی باتیں کرتا ہے جس طرح ایک بچہ ہوتا ہے۔ اس کے ارادے کے اندر کوئی قوت نہیں ہوتی۔ بڑھاپے کے ساتھ بالوں کی سفیدی دراصل بڑھاپے کو مجسم کردیتی ہے اور بالوں کی سفیدی کے ساتھ قوائے انسانی کا ضعف سامنے نظر آتا ہے۔ یہ ادوار ، جس سے کوئی فانی چیز نہیں بچ سکتی اور جس شخص کو طویل عمر نصیب ہو ، ان کے اندر کبھی کوئی دور غائب نہیں ہوتا ، کبھی یوں نہیں ہوتا کہ ان میں سے کوئی دور اپنے وقت پر نہ آئے۔ ان ادوار کا اسی ترتیب کے ساتھ ہر شخص پر آنا اس بات کا مظہر ہے کہ یہ انسان کسی مدبر ہستی کے کنڑول میں ہے۔ وہ ہستی جو چاہتی ہے ، تخلیق کرتی ہے ، جو چاہتی ہے ، مقدر بناتی ہے اور جس طرح چاہتی ہے ، ہر مخلوق کے لیے اس کے حالات اور طور طریقوں کا منصوبہ بناتی ہے۔ یہ سب کام اللہ کے پختہ علم ، اس کی تقدیر اور گہری ٹیکنالوجی کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ یخلق ما یشآء وھو العلیم القدیر (30: 54) ” وہ جو کچھ چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے ، جو سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس محکم اور ٹیکنیکل اور نقشے کے مطابق بنی ہوئی اس مخلوق کا کچھ با معنی انجام بھی ہے۔ ہاں اس کا ایک نہایت ہی با معنی انجام اور فلسفہ ہے اور دیکھو اسے ایک منظر میں جو قیامت کے مناظر میں سے ایک پر تاثیر منظر ہے اور حرکت اور مکالموں سے ہر منظر میں پیش کیا جاتا ہے۔ ویوم تقوم الساعۃ ۔۔۔۔۔ غیر ساعۃ (30: 55) ” اور جب وہ ساعت برپا ہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں “۔ ان کے احساس میں دنیا میں گزرا ہوا پورا زمانہ سکڑ جائے گا۔ اس لیے وہ اپنے احساس کے مطابق قسم کھائیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قبروں میں گزرے ہوئے زمانہ کے بارے میں یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ زمانہ اس قدر مختصر تھا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد پورا زمانہ ہو۔ یعنی زمین کی زندگی کا اور پھر قبروں میں رہنے کا۔ کذلک ۔۔۔۔ یوفکون (30: 55) ” اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکہ کھایا کرتے تھے “۔ اور حق سے منہ پھیرتے تھے اور دنیا میں بھی انہوں نے واقعات کا صحیح اندازہ نہ لگایا تھا۔ چناچہ اہل علم اور اہل ایمان ان کے اس خیال کی تصحیح کردیں گے۔ وقال الذین ۔۔۔۔۔ کنتم لا تعلمون (30: 56) ” مگر جو اہل علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے ، وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روز حشر تک پڑے رہے ہو ، سو یہ وہی روز حشر ہے ، لیکن تم جانتے نہ تھے “۔ یہ صاحبان علم و بصیرت وہی تھے جو اہل ایمان تھے۔ جنہوں نے حشر پہ یقین کیا ہوا تھا۔ اور انہوں نے وہ حقائق بھی جان لیے تھے جو اس ظاہری دنیا کے پیچھے تھے۔ یہ لوگ بھی معاملے کو اللہ کے علم کے سپرد کردیتے ہیں۔ لقد لبثتم ۔۔۔۔۔ یوم البعث (30: 56) ” درحقیقت اللہ کی کتاب میں تم یوم حشر تک رہے ہو “۔ یہ ہے وہ میعاد مقرر۔ اور اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ حشر تک پہنچتے پہنچتے تمہیں کتنی دیر لگی۔ یہ تھا مقررہ دن اور یہ آگیا دیکھ لو۔ اب یہ منظر ایک اجمالی کلیہ کی شکل میں ختم ہوتا ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ اب ظالموں کو کیا حالات پیش آنے والے ہیں جو حشر اور قیامت کی تکذیب کرتے تھے۔ فیومئذ لا ینفع ۔۔۔۔۔ یستعتبون (30: 57) ” پس یہ وہ دن ہوگا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا “۔ نہ ان کی کوئی معذرت قبول ہوگی اور نہ کوئی ان پر عتاب کرے گا کہ تم نے ایسا ایسا کیوں کیا ہے۔ مانگو معافی ، توبہ کرو ، کیونکہ آج تو سزا ہوگی ، یہاں کسی کو کوئی سرزنش نہ ہوگی ، یہ یوم عقاب ہوگا ، یوم عتاب نہ ہوگا۔ اب اس برے اور مایوس کن منظر سے واپس لاکر انہیں ان کے اس حال میں لایا جاتا ہے جس میں وہ اپنے عناد اور تکذیب میں ڈرے ہوئے تھے۔ یہ تھا عناد کا انجام اور یہ تھا تکذیب کا خاتمہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان ضعف و قوت کے مختلف احوال سے گزرتا ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہوتا ہے آیت میں انسان کی پیدائش اور اس کی قوت وضعف کی حالت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو ایسی حالت میں پیدا فرمایا کہ تم کمزور تھے یعنی بچے تھے پھر ضعف کے بعد قوت سے نواز دیا، انسان پہلے دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے حرکت کے قابل بھی نہیں ہوتا، پھر ہاتھ پاؤں چلاتا ہے، نظریں گھماتا ہے، اپنے گھر والوں کو پہچانتا ہے، پھر لیٹے لیٹے پلٹیں کھانا شروع کردیتا ہے، پھر ٹیک لگا کر بیٹھنے کے قابل ہوتا ہے، پھر بغیر سہارے کے بیٹھنے لگتا ہے، پھر گھٹنوں کے بل چلنا شروع کردیتا ہے، پھر سہارے سے کھڑا ہوتا ہے ایک دو قدم چلنا شروع کرتا ہے پھر بلا سہارا چلنا شروع کردیتا ہے۔ ضعف کے احوال سے گزرتا ہوا جوانی میں داخل ہوتا ہے، جوانی کا زمانہ قوت اور طاقت کا ہوتا ہے، جسمانی طاقت بھی اچھی ہوتی ہے اور بچپن اور بڑھاپے کے مقابلہ میں عقل و فہم و ادراک بھی جوانی میں زیادہ ہوتا ہے، (گو بعض مرتبہ بڑھاپے میں ارذل العمر آنے سے پہلے پہلے تجربات کی بناء پر سوچ سمجھ کی قوت زیادہ ہوتی ہے) جب بڑھاپا آجاتا ہے تو پھر کمزوری آجاتی ہے بال بھی سفید ہوجاتے ہیں اور جیسے جیسے بڑھاپا بڑھتا جاتا ہے کمزوری بھی بڑھتی جاتی ہے، پھر ارذل العمر یعنی گھٹیا ترین نکمی زندگی کو پہنچ جاتا ہے اور بچپن والا ضعف آجاتا ہے، ہوش و حواس بھی باقی نہیں رہتے، واپس ہو کر پھر اسی ضعف پر پہنچ جاتا ہے جو بچپن میں تھا۔ اسی کو سورة یٰسین میں فرمایا، (وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ اَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ ) (اور ہم جس کو زیادہ عمر دیتے ہیں اس کی خلقی حالت میں واپس کردیتے ہیں، کیا وہ نہیں سمجھتے ؟ ) (یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ) (اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے) (وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ ) (اور وہ خوب جاننے والا ہے اور بڑی قدرت والا ہے) اسے سب کے احوال و اعمال کا علم ہے اسے پوری طرح سے قدرت ہے جس طرح چاہے پیدا فرمائے اور جس حالت میں رکھے اسے پورا اختیار ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ یہ توحید پر تیرہویں عقلی دلیل ہے۔ اے بنی آدم اپنی پیدائش کے مختلف اطوار و ادوار دیکھو جب تم پیدا ہوئے اس وقت تم ہر لحاظ سے کمزور تھے۔ بچپن کے بعد عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت بھی بڑھتی گئی یہاں تک کہ عین عالم شباب میں تمہاری بدنی قوت بھی عروج کو پہنچ گئی۔ اس کے بعد عمر ڈھلنا شروع ہوئی تو قوت میں ضعف نمودار ہونے لگا۔ یہاں تک کہ ضعف کی آخری حد بڑھاپے تک پہنچ گئے۔ یہ قوت و ضعف، جوانی و بڑھاپا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ وھو العلیم القدیر اور وہی سب کچھ جاننے والا اور وہی سب کچھ کرنے والا ہے لہذا وہی سب کا کارساز اور حاجت روا ہے اور اس کے سوا کوئی دعاء اور پکار کے لائق نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54۔ اللہ تعالیٰ وہ قادر مطلق ہے جس نے تم کو ابتداء ً کمزور اور ضعیف حالت میں پیدا کیا اور بنایا پھر کمزوری کے بعد طاقت اور توانائی عطا کی پھر طاقت اور قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے ، یعنی انسان کی ابتداء ضعف کے ساتھ ہوتی ہے ۔ وخلق الانسان ضعیفا ً ، منی اور نطفہ ، مضغہ ، علقہ پھر روح کا پڑنا ، پیدا ہونا ، پیدا ہوتا ہے تو بھی نا تواں ، نہ گردن ٹھہرتی ہے نہ آنکھ ٹھہرتی ہے غرض کمزوری اور نا توانی بچے کو گھیرے رہتی ہے پھر بتدریج طاقت اور توانائی آتی ہے اور جوانی بھرتی ہے جوانی کے بعد پھرنا توانی اور بڑھاپا شروع ہوتا ہے یہ تمام تصرفات ان کی مشیت سے ہوتے ہیں اس لئے فرمایا جو چاہے بناتا اور پیدا کرتا ہے وہ ہر تصرف کا علم رکھتا اور ہر تصرف پر اس کو قدرت ہے سب جاننے والا قدرت والا ہے۔