Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 56

سورة الروم

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۫ فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵۶﴾

But those who were given knowledge and faith will say, "You remained the extent of Allah 's decree until the Day of Resurrection, and this is the Day of Resurrection, but you did not used to know."

اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا وہ جواب دیں گے کہ تم تو جیسا کہ کتاب اللہ میں ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں مانتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالاِْيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ ... thus were they ever deluded. And those who have been bestowed with knowledge and Faith will say: "Indeed you have stayed according to the decree of Allah, until the Day of Resurrection..." The believers who have knowledge of the Hereafter will respond to them, just as they established the proof of Allah against them in this world. When they swear that they did not stay even one hour in this world, they will say to them: ... لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ ... Indeed you have stayed according to the decree of Allah, meaning, the Book of deeds, ... إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ ... until the Day of Resurrection; means, `from the day when you were created until the day you were resurrected. ' ... فَهَذَا يَوْمُ الْبَعْثِ ... so this is the Day of Resurrection, ... وَلَكِنَّكُمْ كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ but you knew not. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

561جس طرح یہ علماء دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔ 562کِتَا بِ اللّٰہِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ ۔563یعنی پیدائش کے وقت سے قیامت کے دن تک۔ 564کہ وہ آئے گی بلکہ استہزاء اور تکذیب کے طور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] ان کی ایسی قسمیں سن کر ایمان دار انھیں کہیں گے کہ یہ گھڑی دو گھڑی کا معاملہ نہیں تم دھوکہ میں پڑے ہوئے ہو۔ اللہ کے علم یا لوح محفوظ میں نوشتہ کے مطابق تم قیامت کے دن تک ٹھہرے رہے اور دیکھو یہ آج قیامت کا دن ہے اور یہ وہی دن جسے تم ماننے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ اور تم اسے جاننا چاہتے بھی نہ تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِيْمَانَ ۔۔ : یعنی جس طرح دنیا میں علم و ایمان والے ان کے جھوٹ کی تردید کیا کرتے تھے اور ان پر حجت قائم کیا کرتے تھے، اب بھی ان کی بات سنتے ہی ان کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے کہ تم جھوٹ کہہ رہے ہو کہ تم دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے مطابق قیامت کے دن تک ٹھہرے ہو۔ تو یہ ہے قیامت کا دن جو ٹھیک وعدے کے مطابق آپہنچا ہے، لیکن تم یہ بات نہیں جانتے تھے بلکہ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور رسولوں سے کہا کرتے تھے کہ لے آؤ وہ قیامت جس کی تم دھمکی دیتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِيْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِيْ كِتٰبِ اللہِ اِلٰى يَوْمِ الْبَعْثِ ۡ فَھٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٥٦ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جن حضرات کو علم و ایمان کی دولت حاصل ہوگی وہ کفار سے کہیں گے کہ تم تو نوشتہ خداوندی کے مطابق قبروں میں بعث بعد الموت تک رہے ہو اور قیامت کا دن یہی ہے مگر تم دنیا میں نہ اس کو جانتے تھے اور نہ اس کے واقع ہونے کا یقین ہی کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوْمِ الْبَعْثِز) ” تب اہل علم اور صاحب ایمان لوگ انہیں بتائیں گے کہ اے بدبختو ! تم جسے ایک گھڑی کہہ رہے ہو وہ دراصل عالم برزخ کا طویل عرصہ تھا جو اللہ کے فیصلے کے مطابق تم پر گزرا۔ ظاہر ہے ایک شخص اگر آج سے پانچ ہزار سال قبل فوت ہو اتھا تو آج تک وہ عالم برزخ میں ہی ہے اور نہ معلوم قیامت تک اور کتنا عرصہ وہ مزید وہاں رہے گا۔ اور یوم بعث کب آئے گا ؟ اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔ چناچہ انہیں بتایا جائے گا کہ تم لوگ اللہ کے حساب اور اس کے فیصلے کے مطابق یوم بعث تک وہاں رہے ہو۔ (فَہٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) ” ابھی تمہاری آنکھ کھلی ہے تو تم یوم بعث کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو ‘ مگر دنیا میں تو تم لوگوں نے آخرت کی زندگی اور اس دن کے بارے میں کبھی غور کرنا پسند ہی نہیں کیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:56) فی کتب اللہ : فی علم اللہ او ما کتبہ سبحانہ : اواللوح المحفوظ علم الٰہی کے مطابق یا نوشتہ الٰہی کے مطابق یا جیسا کہ لوح محفوظ میں تحریر ہے۔ یوم البعث۔ مضاف مضاف الیہ۔ جی کر اٹھ کھڑا ہونے کے دن۔ یعنی روز قیامت۔ بعث کے معنی جی اٹھنا۔ بھیجنا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا رسولوں کو مبعوث کرنا ۔ یعنی بھیجنا۔ فھذا۔ میں ف جواب شرط ہے تقدیر کلام ہے : ان کنتم منکرین للبعث فھذا یوم البعث الذی انکر تمرہ۔ اگر تم یوم بعث سے انکار کیا کرتے تھے تو یہ ہے یوم بعث جس سے تم منکر تھے۔ ولکنکم کنتم لا تعلمون۔ لیکن تم تو سمجھتے ہی نہ تھے۔ یعنی یقین ہی نہ کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ابنیا فرشتے اور تمام امتوں کے اہل علم و ایمان (قرطبی)5 یعنی جیسے دنیا میں علما ان پر حجت قائم کیا کرتے تھے اس دن بھی ان کا رد کریں گے اور کریں گے اور کہیں گے تم جھوٹ بکتے ہو جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا یا عالم برزخ میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے تم ٹھیک کتاب اللہ (یعنی اللہ کے علم یا لوح محفوظ کے نوشتہ) کے مطابق قیامت کے دن تک ٹھہرے رہے ہو بعض مفسرین نے اس آیت میں ’ دفی کتاب اللہ “ کو ” اوتوا “ سے متعلق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تقدیر کلام یوں ہے اوتوالعلم فی الکتاب والایمان سا صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ” جن لوگوں کو کتاب اللہ کا علم اور ایمان دیا گیا وہ کہیں گے …“ (قرطبی ابن کثیر)6 جو ٹھیک وعدے کے مطابق آپہنچا ہعے۔7 چناچہ تم اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور رسولوں سے کہا کرتے تھے کرلے آئو قیامت جس کی تم دھمکی دیتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد اہل ایمان ہیں کہ اخبار شرعیہ کا علم ان کو حاصل ہے۔ 5۔ اس انکار کے وبال میں آج پریشانی کا سامنا ہوا، اس وجہ سے گھبرا کر خیال ہوا کہ ابھی تو میعاد پوری نہیں ہوئی، اور اگر تصدیق کرتے اور ایمان لے آتے تو اس کے وقوع کو جلدی نہ سمجھتے، بلکہ یوں چاہتے کہ اس سے بھی جلدی آجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ لیکن جو لوگ دنیا میں علم و ایمان کی دولت سے بہرہ ور تھے وہ کہیں گے تم اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق قیامت تک کا طویل عرصہ قبروں میں رہے ہو اب قیامت قائم ہوچکی ہے اور آج قیامت ہی کا دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا لین تم اس کی آمد پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اور اسے حق نہیں جانتے تھے۔ ولکنکم کنتم لا تعلمون انہ حق (روح ج 21 ص 61) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان عطا کیا گیا وہ اہل علم اور اہل ایمان کہیں گے تم لوگ تو اللہ تعالیٰ کے لکھے اور نوشتہ خداوندی کے موافق قیامت کے دن تک رہے ہو یعنی دنیا اور قبر کی میعاد اللہ تعالیٰ کے نوشتے کے موافق دوبارہ جی اٹھنے کی میعاد تھی سو اس میعاد میں رہے ہو سو قیامت کا دن یہی تو ہے لیکن تم لوگ یقین نہیں کیا کرتے تھے ۔ یہ جواب مسلمان دیں گے اور مسلمان اور فرشتے دونوں کی طرف سے دیا جائیگا کہ میعاد مقررہ میں کچھ کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ مردوں کے جی اٹھنے کے دن کی جو میعاد تھی وہ اللہ تعالیٰ کے نوشتے کے موافق پوری ہوگئی اور قیامت کا اور مردوں کے جی اٹھنے کا دن یہی تو ہے لیکن تم تو وقوع قیامت کا یقین نہیں کرتے تھے اور مردوں کے جی اٹھنے پر ایمان ہی نہیں لاتے تھے یہی وجہ ہے کہ تم کو میعادکم معلوم ہو رہی ہے اگر ایمان رکھتے ہوتے اور مومن ہوتے تو تم بھی قیامت کی طلب کرتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے مومن کی برزخ میں تمنا ہوتی ہے۔ رب اقم الساعۃ الٰہی قیامت قائم کردے تا کہ دائمی راحت حاصل کروں اور کافر کہتا ہے الٰہی قیامت قائم نہ ہو کیونکہ سمجھتا ہے کہ برزخ میں جب یہ حال ہے تو قیامت اس سے سخت ہی ہوگی ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی قبر کا رہنا تھوڑا معلوم ہوگا اور ایسے ہی غلط باتیں جانتے تھے دنیا میں 12 اب آگے قیامت کی مختصر تفصیل ہے۔