84 The allusion is to the promise made in verse 47 above. There, AIIah has mentioned His way of taking vengeance on those criminals who denied and resisted and ridiculed the clear Signs brought by the Messengers of AIIah stubbornly, and of helping the believers.
85 That is, "Let not the enemies find you so weak as to suppress you by their uproar, nor to cow you by their campaign of slander-mongering, nor to dishearten you by their jesting, taunts and derision, nor frighten you by their threats, show of power and persecution, nor allure you by offering baits, nor make you effect a compromise with them on the basis of their appeals in the name of national interests. Instead of this, they should find you so sagacious in the awareness of your objective, so firm in faith and conviction, so resolute in determination, and so strong in character that they should neither be able to cow you by threats, nor purchase you, nor lure you away by temptation, nor strike any bargain with you in the matter of the Faith. T. his whole theme has been compressed in a short sentence by AIIah, saying: "Let not those who lack faith find you light." Now this is borne out by the firm evidence of history that the Holy Prophet proved to be as invincible and indomitable as AIIah wanted His Last Prophet to be. Anyone who tried his strength with him in any field and sphere was routed, and eventually the Holy Prophet succeeded in bringing about the desired revolution in spite of every kind of opposition and resistance put up by the whole of polytheistic and unbelieving Arabia.
سورة الروم حاشیہ نمبر : 84
اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو اوپر آیت نمبر 47 میں گزر چکا ہے ۔ وہاں اللہ تعالی نے اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی بینات کا مقابلہ تکذیب و تضحیک اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کیا ہے اللہ نے ایسے مجرموں سے ضرور انتقام لیا ہے ( فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا ) اور اللہ پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی نصرت فرمائے ( وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) ۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 85
یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہوجاؤ ، یا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہمت ہوجاؤ ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈر جاؤ ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کر رہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کرلینے پر اتراؤ ۔ اس کے بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ اور اس عزم میں اتنا راسخ اور اپنے کیر کٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جاسکے ، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جاسکے ، نہ کسی فریب سے تم کو پھسلایا جاسکے ، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جاسکے ۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالی کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں ۔ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا اللہ اپنے آخری نبی کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا ۔ آپ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت عظمی نے وہ انقلاب برپا کر کے دکھا دیا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اور اپنے سارے حربے استعمال کر ڈالے ۔