Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 60

سورة الروم

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لَا یَسۡتَخِفَّنَّکَ الَّذِیۡنَ لَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿۶۰﴾٪  9

So be patient. Indeed, the promise of Allah is truth. And let them not disquiet you who are not certain [in faith].

پس آپ صبر کریں یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ آپ کو وہ لوگ ہلکا ( بے صبرا ) نہ کریں جو یقین نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ... Thus does Allah seal up the hearts of those who know not. So be patient. Verily, the promise of Allah is true; meaning, `bear their stubborn opposition with patience, for Allah will fulfill His promise to grant you victory over them and cause you and those who follow you to prevail in this world and in the Hereafter.' ... وَلاَ يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لاَ يُوقِنُونَ and let not those who have no certainty of faith discourage you (from conveying Allah's Message). `Remain steadfast in the mission with which Allah has sent you, for it is truth in which there is no doubt. Do not turn away from it, for nowhere else is there truth which is to be followed; the truth rests exclusively in the Message with which you have been sent.' Reports concerning the Virtues of this Surah and that it is recommended to recite it during Fajr Imam Ahmad recorded from a man among the Companions of the Prophet that the Messenger of Allah led them in Fajr prayer and recited Ar-Rum in the prayer, but he became confused in his recitation. He said: إِنَّهُ يَلْبِسُ عَلَيْنَا الْقُرْانَ فَإِنَّ أَقْوَامًا مِنْكُمْ يُصَلُّونَ مَعَنَا لاَ يُحْسِنُونَ الْوُضُوءَ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الصَّلَةَ مَعَنَا فَلْيُحْسِنِ الْوُضُوء We have become confused in our recitation of Qur'an, because some people among you are praying with us but they have not performed Wudu' properly. Whoever attends the prayer with us, let him perform Wudu' properly. This has a Hasan chain of narration, the text itself is Hasan. It contains amazing information, that the Prophet was affected by the faulty Wudu' of some of those whom he was leading in prayer. This indicates that the prayer of the person who is praying in the congregation is connected to the prayer of the Imam. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Rum. Allah's is the praise and thanks.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

601یعنی ان کی مخالفت وعناد پر اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے، یقینا حق ہے جو بہر صورت پورا ہوگا۔ 602یعنی آپ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کردیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] اللہ کا یہ وعدہ اس سورة کی آیت نمبر ٤٧ میں گزر چکا ہے اور وہ یہ ہے (حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ 47؀) 30 ۔ الروم :47) یعنی اللہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مومنوں کی مدد کرے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کیجئے خود بھی اور مسلمانوں کو بھی صبر و برداشت کی تلقین کیجئے۔ اللہ کا وعدہ اپنے وقت پر پورا ہو کے رہے گا۔ [ ٦٧] یعنی ان کافروں کی مکاریوں اور سازشوں سے، ان کے مذاق و تمسخر سے، ان اسلام دشمن کارروائیوں سے، ان کی ایذاؤں اور مظالم سے، ان کے منافقانہ سمجھوتوں کی کوششوں سے اور ان کی دھمکیوں سے آپ کے پائے ثبات میں ہرگز لغزش نہ آنی چاہئے اور ان کو اسی بات کا یقین آجانا چاہئے کہ آپ اپنے مشن میں صبر و ثبات کا ایسا عظیم پیکر ہیں جسے کسی قیمت پر اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا۔ ! ! ! !

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۔۔ : اللہ کا یہ وعدہ اس سورت کی آیت (٤٧) میں گزر چکا ہے، فرمایا : (وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ )” اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے ذمے لے رکھا ہے، اس لیے آپ صبر کریں اور یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے آپ کو کسی موقع پر ہلکا نہ کردیں کہ آپ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں، بلکہ خوب مستحکم اور مضبوط ہو کر اپنے موقف پر ڈٹے رہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ۝ ٦٠ۧ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] ( خ ف ف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صبر کیجیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ وہ آپ کی مدد فرمائے گا اور ان کو ہلاک کرے گا سچا ہے اور وہ ضرور واقع ہوگا اور یہ بدیقین یعنی کفار مکہ قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں آپ کو بےبرداشت نہ کرنے پائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ) ” جیسا کہ قبل ازیں بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن میں بہت سے مقامات پر صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کیا گیا ہے مگر دراصل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمام اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ چناچہ یہاں بھی اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ لوگ اللہ کے وعدے پر یقین رکھو اور ہر حال میں صبر و استقامت کا دامن تھامے رہو۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی اور بالآخر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ جہاں تک تمہارے موجودہ حالات اور مصائب و مشکلات کا تعلق ہے تو یہ تمہارے امتحان کا حصہ ہیں : (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ) ( العنکبوت) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا ؟ “ اس سلسلے میں ہمارا قانون بہت واضح ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) ( البقرۃ : ١٥٥) ” اور ہم ضرور آزمائیں گے تم لوگوں کو کسی قدر خوف ‘ بھوک اور مال و جان اور پھلوں کے نقصانات سے “۔ چناچہ اے مسلمانو ! ہمت سے کام لو ع ” ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! “ اگر تم لوگ ان امتحانات میں سرخروہو گئے تو اللہ کے وعدے کے مطابق کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ (وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ ) ” اگرچہ یہ خطاب بھی صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر یہاں بھی اہل ایمان کی تثبیت قلبی مقصود ہے کہ اے مسلمانو ! ایسا نہ ہو کہ مخالفین کے دباؤ کی وجہ سے تمہارے پاؤں میں لغزش آجائے اور انہیں تمہارے بارے میں یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ لوگ تو کمزور اور بودے ثابت ہوئے ہیں۔ چناچہ تم اپنے موقف پر کوہ ہمالیہ کی طرح ڈٹے رہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اس کے راستے میں اپنا تن من اور دھن کھپانے کی حکمت عملی بدستور اپنائے رکھو۔ اللہ کی مدد اس راستے میں ضرور تمہارے شامل حال رہے گی اور اللہ تمام مشکلات کو دور کر کے تمہیں لازماً کامیاب کرے گا ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84 The allusion is to the promise made in verse 47 above. There, AIIah has mentioned His way of taking vengeance on those criminals who denied and resisted and ridiculed the clear Signs brought by the Messengers of AIIah stubbornly, and of helping the believers. 85 That is, "Let not the enemies find you so weak as to suppress you by their uproar, nor to cow you by their campaign of slander-mongering, nor to dishearten you by their jesting, taunts and derision, nor frighten you by their threats, show of power and persecution, nor allure you by offering baits, nor make you effect a compromise with them on the basis of their appeals in the name of national interests. Instead of this, they should find you so sagacious in the awareness of your objective, so firm in faith and conviction, so resolute in determination, and so strong in character that they should neither be able to cow you by threats, nor purchase you, nor lure you away by temptation, nor strike any bargain with you in the matter of the Faith. T. his whole theme has been compressed in a short sentence by AIIah, saying: "Let not those who lack faith find you light." Now this is borne out by the firm evidence of history that the Holy Prophet proved to be as invincible and indomitable as AIIah wanted His Last Prophet to be. Anyone who tried his strength with him in any field and sphere was routed, and eventually the Holy Prophet succeeded in bringing about the desired revolution in spite of every kind of opposition and resistance put up by the whole of polytheistic and unbelieving Arabia.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 84 اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو اوپر آیت نمبر 47 میں گزر چکا ہے ۔ وہاں اللہ تعالی نے اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی بینات کا مقابلہ تکذیب و تضحیک اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کیا ہے اللہ نے ایسے مجرموں سے ضرور انتقام لیا ہے ( فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا ) اور اللہ پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی نصرت فرمائے ( وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 85 یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہوجاؤ ، یا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہمت ہوجاؤ ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈر جاؤ ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کر رہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کرلینے پر اتراؤ ۔ اس کے بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ اور اس عزم میں اتنا راسخ اور اپنے کیر کٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جاسکے ، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جاسکے ، نہ کسی فریب سے تم کو پھسلایا جاسکے ، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جاسکے ۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالی کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں ۔ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا اللہ اپنے آخری نبی کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا ۔ آپ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت عظمی نے وہ انقلاب برپا کر کے دکھا دیا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اور اپنے سارے حربے استعمال کر ڈالے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٠۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے تسلی کے طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ تم ان کی مخالفت اور دشمنی پر صبر کرو بیشک خدا تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے اور تمہارے ساتھ والوں سے غلبہ کا اور مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اللہ اپنے اس وعدہ کو ضرور ضرور پورا کرے گا اس وعدہ میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور نہ اس کے رسولوں کو سچا چانتے ہیں اور نہ خدا کی کتابوں پر اور بعد مرنے کے جی اٹھنے پر ایمان لانے ہیں تمہیں آیندہ کی نصحیت سے بےدل کردیں اس لیے تم کو چاہئے کہ جس طریقہ پر تم کو خدا تعالیٰ نے رسول کرکے بھیجا ہے اسی پر ثابت قدم رہو اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت اور فتح مکہ کے وقت اس وعدہ کا ظہور ہو ہوا کہ بدر کی لڑائی میں بڑے بڑے مخالف دین مارے گئے جس کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک (رض) کی روایت کے حوالہ سے اوپر کئی جگہ گزر چکا ہے اور جن بتوں کو کی صحیح بخاری کی روایت کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے اس لیے آیت میں جو وعدہ تھا اس کے ظہور کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:60) لایستخفن۔ مضارع منفی تاکید بانون ثقیلہ استخفاف (اسفتعال) مصدر خفیف سے۔ خ، ف، ف، مادہ۔ الخفیف اس کے مختلف معانی ہیں :۔ (1) وزن کے لحاظ سے ہلکا ہونا۔ ثقیل کے مقابلہ میں۔ (2) تقابل زمانی کے اعتبار سے سبک رفتار کو خفیف اور سست رفتار کو ثقیل کہیں گے۔ (3) جو ثیز طبیعت کو خوش کر دے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں گزرے اسے ثقیل کہتے ہیں۔ (4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پروقار ہوا سے ثقیل کہا جاتا ہے۔ (5) جو شخص سطحی اقدار کا مالک ہو اور ان سے بھر جانے میں دیر نہ کرتا ہو وہ خفیف اور جس کی اقدار ٹھوس اور محکم بنیادوں پر مبنی ہوں وہ ثقیل کہلاتا ہے۔ انہی معنی میں ہے فاستخفف قومہ فاطاعوہ (43:54) (فرعون نے) اپنی قوم کو ڈھلمل کردیا تھا اور وہ اس کے پیچھے لگ گئے یعنی ان کا یقین حضرت موسیٰ کے بارے میں ہلکا پڑگیا تھا۔ انہی معنوں میں یہاں استعمال ہوا ہے۔ فرمایا (اے پیغمبر) تو ان کی قولی و فعلی سختیوں پر صبر استقلال سے کام لے تحقیق اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہیگا (مجرموں سے انتقام لینا اور مومنوں کی امداد و نصرت آیہ 47 ۔ مذکورہ بالا) اور یہ لوگ جو یقین سے خود عاری ہیں کہیں تمہارے پائے استقلال کو ڈگمگا نہ دیں لا یستخفنک۔ تم میں بےیقینی کی کیفیت پیدا نہ کردیں۔ صاحب المفردات رقمطراز ہیں :۔ ولا یستخفنک اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں۔ یعنی شبہات پیدا کرکے تمہیں تمہارے عقائد سے متزلزل اور برگشتہ نہ کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ وہ وعدہ ضرور واقع ہوگا، پس صبر و تحمل تھوڑے ہی دن کرنا پڑتا ہے۔ 9۔ یعنی ان کی طرف سے خواہ کیسی ہی بات پیش آوے، مگر ایسا نہ ہو کہ آپ برداشت نہ کریں۔ فائدہ : نفسانی انتقام گو فی نفسہ جائز ہے مگر صاحب تبلیغ کے لئے اور بالخصوص تخاطب کے وقت کہ اسلام کی ابتدائی حالت تھی خلاف مصلحت تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور وعدہ نصرت کا دوسری بار اعادہ ہے۔ اگر معاندین اتنے واضح بیانات کے باوجود انکار سے باز نہیں آتے تو آپ آزردہ خاطر اور ملول نہ ہوں، ان کی ایذاؤں پر صبر کریں اللہ تعالیٰ کا وعدہ نصرت حق ہے۔ اللہ تعالیٰ لا محالہ آپ کے دشمنوں کو ذلیل ورسوا اور مقہور و مغلوب کرے گا اور آپ کو اور آپ کے متبعین کو بدر میں ان پر فتح و غلبہ عطا فرمائے گا۔ ولا یستخفنک الخ ان منکرین توحید و رسالت اور جاحدین بعث و نشور کا معاندانہ رویہ آپ کی گھبراہٹ یا عجلت میں ان کے لیے بد دعا کرنے کا باعث نہ بننے پائے کیونکہ اگر وہ اسی ڈگر پر قائم رہے تو ہمارا عذاب ان پر آکر رہے گا۔ ای لایحملنک ھؤلاء الذین لا یوقنون بالاخرۃ علی الخفۃ والعجلۃ فی الدعاء علیہم بالعذاب او لا یحملنک علی الخفۃ والقلق جزعا مما یقولون و یفعلون (مدارک ج 3 ص 213) ۔ سورة روم میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ للہ الامر من قبل و من بعد۔ (رکوع 1) ۔ فتح و شکست اللہ کے اختیار میں ہے۔ 2 ۔ ولم یکن لھم من شرکائہم شفعاء۔ (رکوع 2) ۔ نفی شفاعت قہری۔ 3 ۔ ومن ایتہ ان خلقکم۔ تا۔ وھو العزیز الحکیم (رکوع 3) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 4 ۔ ضرب لکم مثلا من انفسکم الخ (رکوع 4) ۔ نفی تصرف و اختیار از معبودان باطلہ۔ 5 ۔ فاقم وجہک للدین حنیفا۔ تا۔ کل حزب بما لدیہم فرحون۔ توحید تمام پیغمبروں کا دین ہے۔ 6 ۔ اللہ الذی خلقکم۔ تا۔ سبحنہ و تعالیٰ عما یشرکون۔ نفی شرک فی التصرف۔ 7 ۔ ومن ایتہ ان یرسل الریاح۔ تا۔ و لعلکم تشکرون۔ (رکوع 5) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 8 ۔ اللہ الذی یرسل الریاح۔ تا۔ وھو علی کل شیء قدیر۔ نفی شرک فی التصرف۔ 9 ۔ کذلک یطبع اللہ الخ۔ جو لوگ حق واضح ہوجانے اور حجت خداوندی قائم ہوجانے کے بعد بھی محض ضد وعناد کی وجہ سے حق کو نہ مانیں ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت کر کے ان سے قبول حق کی توفیق و استعداد سلب کرلی جاتی ہے۔ سورة روم ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60۔ سو اے پیغمبر آپ ان کے طعن وتشنیع اور ان کی سو قیانہ حرکات کو برداشت کیجئے اور سہا کیجئے بلا شبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا اور حق ہے اور یہ بد یقین اور محروم الیقین لوگ آپ کو آپ کی شان کے خلاف ہلکی اور چھچھوری باتوں پر آمادہ نہ کردیں اور آپ کو بےبرداشت نہ کریں ۔ یعنی معاندین کی گستاخیوں پر صبر کرتے رہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ نصرت اور وعدہ غلبہ حق ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بدیقین لوگ آپ کو غصہ دلا کر اکھاڑ نہ دیں اور پھسلا نہ دیں اور یہ بےسمجھ لوگ ایسی اوچھی حرکات پر نہ آمادہ کردیں جو آپ کی شان کے لائق نہ ہوں ۔ ثم تفسیر سورة الروم واللہ الحمد علی الائہ۔